نہ کوئی چھت نہ کوئی سائبان رکھتے ہیں
ہم اپنے سر پہ کھلا آسمان رکھتے ہیں
بچا کے ہم یہ بزرگوں کی شان رکھتے ہیں
نہیں ہے شمع مگر شمع دان رکھتے ہیں
گلے بھی ملتے ہیں ہاتھوں کو بھی ملاتے ہیں
غضب کی دوری بھی ہم درمیان رکھتے ہیں
خدایا تیرا کرم ہے کہ کچھ نہ رکھتے ہوئے
ہم اپنی مٹھی میں سارا جہان رکھتے ہیں
شرافتوں سے تعلق نہیں ہے کچھ ان کا
وہ نیچے لوگ جو اونچا مکان رکھتے ہیں
زمانہ کس لئے ہم کو تلاش کرتا ہے
نہ کوئی نام نہ ہم کچھ نشان رکھتے ہیں
بہت سنبھال کے رکھنا قدم تم ان پر بھی
تمہیں خبر نہیں پتھر بھی جان رکھتے ہیں
امیر شہر کی دعوت قبول کرتے نہیں
ترے فقیر بڑی آن بان رکھتے ہیں
مزاج کس نے بگاڑا ہمارے بچوں کا
قلم کے بدلے یہ تیر و کمان رکھتے ہیں
خدا کا شکر کہ ٹوٹے ہوئے ہیں پر پھر بھی
ہم اپنے ذہن میں اونچی اڑان رکھتے ہیں
ظفرؔ انہیں بھی کبھی تم پڑھو انہیں بھی سنو
خموش لب بھی کئی داستان رکھتے ہیں
مأخذ : کتاب : خموش لب (Pg. 155) Author : ظفر محمود مطبع : عرشیہ پبلی کیشنز دہلی۔95 (2019)
شاعر:ظفر محمود ظفر