لہو بہ رنگ دگر حسن لالہ زار میں ہے
یہ دکھ خزاں میں کہاں تھا جو اب بہار میں ہے
جو خشک ہونے لگا ہے تو تازہ کر دے گا
کہ زخم زخم مرا سب نگاہ یار میں ہے
میں بھول کر بھی نہیں بھول پا رہا ہوں جسے
وہ ایک نام جو اب بھی دل فگار میں ہے
ڈھلے گا شام کو سورج تو حال پوچھوں گا
ابھی زمانہ ہے اس کا وہ اقتدار میں ہے
دلوں میں زندہ ہے گر جذبۂ براہیمی
نہ خوف کر کہ تو نمرود جیسی نار میں ہے
زمین کھود کے کتبہ وہ لکھ رہا ہے کہ اب
نیا سا کوئی سفر اور انتظار میں ہے
مقدروں کو ستاروں میں قید کر کے نہ رکھ
بھلا برا تو ترے دست اختیار میں ہے
اب آسماں کی بلندی کو انگلیاں نہ دکھا
تجھے خبر ہے زمیں اس کے ہی حصار میں ہے
خلوص دل سے پکارو تو وہ سنے گا ضرور
غرور میں کہاں بخشش جو انکسار میں ہے
یہ شاعری کا ہنر تو نے ہی تو بخشا ہے
سخنوری یہ کہاں میرے اختیار میں ہے
وہ دل ہی کیا کہ ظفرؔ جو غموں سے عاری ہو
کہاں وہ لطف جو سوز دل فگار میں ہے
مأخذ : کتاب : خموش لب (Pg. 67) Author : ظفر محمود مطبع : عرشیہ پبلی کیشنز دہلی۔95 (2019)
شاعر:ظفر محمود ظفر