کیوں میں حائل ہو جاتا ہوں اپنی ہی تنہائی میں
ورنہ اک پر لطف سماں ہے خود اپنی گہرائی میں
فطرت نے عطا کی ہے بے شک مجھ کو بھی کچھ عقل سلیم
کون خلل انداز ہوا ہے میری ہر دانائی میں
جھوٹ کی نمکینی سے باتوں میں آ جاتا ہے مزا
کوئی نہیں لیتا دلچسپی پھیکی سی سچائی میں
اپنے تھے بیگانے تھے اور آخر میں خود میری ذات
کس کس کا اکرام ہوا ہے کتنا مری رسوائی میں
بدلے بدلے لگتے ہو ہے چہرے پر انجانا پن
یا وقت کے ہاتھوں فرق آیا میری ہی بینائی میں
سننے والوں کے چہروں پر سرخ لکیروں کے ہیں نشاں
خونی سوچوں کی آمیزش ہے نغموں کی شہنائی میں
سب قدریں پامال ہوئیں انساں نے خود کو مسخ کیا
قدرت نے کتنی محنت کی تھی اپنی بزم آرائی میں
اپنی آگاہی کی ان کو ہوتی نہیں توفیق کبھی
لوگ خدا کو ڈھونڈ رہے ہیں آفاقی پہنائی میں
دنیا کی دانش گاہوں میں آج عجب اک بحث چھڑی
کون بھروسے کے قابل ہے عاقل اور سودائی میں
جانے کس کردار کی کائی میرے گھر میں آ پہنچی
اب تو ظفرؔ چلنا ہے مشکل آنگن کی چکنائی میں
شاعر:ظفر حمیدی