چند مخصوص عناصر سے چمن بنتا ہے
کتنی ترکیب سے پھولوں سا بدن بنتا ہے
ترے ہونٹوں کا تبسم ترے رخسار کا رنگ
کبھی جلوہ کبھی وحشت کبھی فن بنتا ہے
پھینک دیتا ہے جو انسان بہ زعم ہستی
بعد مرنے کے وہی پردہ کفن بنتا ہے
گردش وقت کو سہنے کا سلیقہ اک دن
انقلاب آنے پہ جینے کا چلن بنتا ہے
تھوڑی مٹی سے وفا فرض کا پاس امن کی چاہ
ان ہی جذبوں کو ملانے سے وطن بنتا ہے
مأخذ : بھینی بھینی مہک
شاعر:ظفر عدیم