پھر آگہی سے یقیں کی طرف قدم نکلے
گمان و وہم کی جب سرحدوں سے ہم نکلے
پھر اضطراب کی لذت کہاں وصال کے بعد
خدا کرے کہ بوقت وصال دم نکلے
میں سچ کہوں تو مری خامشی نہ کہنے دے
وہ جھوٹ بولے تو بے ساختہ قسم نکلے
چھپا کے ہم نے رکھے بت جب آستینوں میں
صنم کدہ بھی نہ پھر کیوں تہ حرم نکلے
وہ کشمکش میں رہے مصلحت کی نذر ہوئے
جو لوگ اپنی شرافت میں گھر سے کم نکلے
مأخذ : بھینی بھینی مہک
شاعر:ظفر عدیم