کہا جو ان سے کہ اب بے قرار ہم بھی ہیں
تو ہنس کے کہتے ہیں بے اختیار ہم بھی ہیں
بہار گلشن ہستی سے ہو کے بیگانہ
اسیر دام غم روزگار ہم بھی ہیں
حباب موجوں پہ ابھرا تو آہ بھر کے کہا
رہین ہستیٔ ناپائیدار ہم بھی ہیں
حسیں مناظر فطرت کے دیکھنے والو
فدائے صنعت پروردگار ہم بھی ہیں
بڑھا دے جام محبت ادھر بھی اے ساقی
نگاہ لطف کے امیدوار ہم بھی ہیں
گلی کو ان کی گلستاں بنا دیا ہم نے
برنگ موج نسیم بہار ہم بھی ہیں
گزر چکے ہیں جدھر سے مسافران عدم
رواں ادھر ہی سر رہ گزار ہم بھی ہیں
جو قافلے میں نہیں ہیں تو یہ بھی کیا کم ہے
کہ راہ عشق میں مشت غبار ہم بھی ہیں
بتوں کے عشق میں برباد ہو گئے لیکن
جہان عشق کی اک یادگار ہم بھی ہیں
زہے نصیب ادا ہو رہی ہے رسم وفا
وہ شرمسار ہیں تو اشک بار ہم بھی ہیں
کبھی نہ ہم نے حریفوں کا اعتبار کیا
نگاہ غیر میں بے اعتبار ہم بھی ہیں
وہ آنکھ اٹھا کے نہ دیکھیں ہمیں تو کیا غم ہے
کہ ان کی بزم میں بیگانہ وار ہم بھی ہیں
تصورات کی رنگینیاں ہیں پیش نظر
چمن میں ضبطؔ بہ رنگ بہار ہم بھی ہیں
مأخذ :نوائے ضبط
شاعر:ضبط سیتاپوری