تین بیمار پرس عورتیں

0
180
Urdu Drama Stories
- Advertisement -

افراد

طاہرہ۔۔۔بیمار

خالہ

آپا اقبال: تین بیمارپُرس عورتیں

سکینہ

- Advertisement -

مومن۔۔۔ طاہرہ کا نوکر

پڑوسن۔۔۔ جو بیمار پُرسی نہیں کر سکتی۔

منظر:

ایک بڑا کمرہ:دو پلنگ پڑے ہیں۔ جیسے عام طور پر شادی شدہ گھروں میں ہوتے ہیں۔ کمرہ سامان سے بھرا ہوا ہے۔ پلنگوں کے نیچے اٹیچی کیس‘ سوٹ کیس اور ٹرنک دھرے ہیں۔ سامنے الماری ہے۔ جس کے نیچے مردانہ بوٹوں کی قطار لگی ہے۔ جس پلنگ پر طاہرہ لیٹی ہے اس کے نیچے زنانہ چپل اور بوٹ اوندھے سیدھے پڑے ہیں ۔ دائیں ہاتھ دیوار کے ساتھ ڈریسنگ ٹیبل ہے۔ جس پر سنگھار کے سامان کے ساتھ ساتھ دواؤں کی شیشیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ طاہرہ کے پلنگ کے پاس ایک تپائی ہے جس پر خالی گلاس ہے۔ پردہ اٹھتا ہے تو طاہرہ کرسیوں کا سہرا لے کر پلنگ کی طرف بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔

طاہرہ(کھانستی ہے) مومن۔۔۔ مومن (کھانستی ہے) تو کہاں مر گیا ہے

مومن (کھانستی ہے) مومن۔۔۔(تھک کر پلنگ کی بجائے آرام کرسی پر بیٹھ جاتی ہے)

طاہرہ: ادھر آنا نا بکار۔ میں ڈیرھ گھنٹے سے تیری جان کو رو رہی ہوں اُف ۔۔۔اُف۔۔۔ اس بخار نے مجھے کس قدر نڈھال کر دیا ہے۔

(کھانستی ہے) مومن۔

(آرام کرسی سے اُٹھ کر پلنگ پرلیٹ جاتی ہے۔ مومن اندر داخل ہوتا ہے۔ ہاتھ راکھ سے بھرے ہوئے ہیں۔

مومن: فرمائیے کیا حکم ہے

طاہرہ: حکم کے بچے۔۔۔ اتنی دیر سے جو میں اپنا گلا پھاڑ رہی ہوں۔ تونے کانوں میں روٹی ٹھونس رکھی ہے۔

مومن: (کانوں میں سے روئی نکال کر) نہیں سرکار۔ یہ تو عطر کے بڑے ہیں۔ کل آپ کا تیل لینے گیا تھا تو دو بڑے مفت مل گئے۔۔۔فرمائیے کیا حکم ہے؟

طاہرہ: مجھے دواپلا۔۔۔ دوسری خوراک کا وقت ہو گیا ہے۔ تجھے توکچھ پتہ ہی نہیں (کھانستی ہے) کوئی مرے کوئی جئے تیری بلا سے (کھانستی ہے) ایک تو پردیس ویسے ہی دکھوں سے بھرا ہوتا ہے ۔ دوسرا اُوپر سے کوئی بیماری آجائے تو اور بھی جان مصیبت میں آجاتی ہے۔۔۔(کھانستی ہے) اتنی ملنے جلنے والیاں ہیں۔ پر کسی نے بھولے سے بھی تو ادھر کا رخ نہیں کیا۔۔۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ۔۔۔ (کھانستی ہے) دوا بنائی تو نے۔

(اس مکالمے کے دوران میں مومن میز پر پڑی ہوئی شیشیوں میں سے دوائیں گلاس میں انڈیلتا ہے)

مومن: بنادی سرکار۔ جودوا ڈاکدار صاحب نے رات کو پلائی تھی ۔ تھوڑی سی چار پانچ گھونٹ جو باقی بچ گئے تھے۔ وہ بھی میں نے اس میں ڈال دی ہے(شیشی دکھاتا ہے)

طاہرہ: کیا کہا؟

مومن: اجی حضور یہ بوتل والی۔۔۔ یہ رہی سرکار

طاہرہ: (اُٹھ کر بیٹھ جاتی ہے) تیرا ستیاناس ہو۔۔۔ یہ تو برانڈی تھی کمبخت برانڈی۔۔۔ شراب۔ وہ رات لاکھ کہتے رہے کہ تھوڑی سی پی لوفوراً آرام آجائے گا۔ پر میں نے اس کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ میں نے کہا مرجانا قبول ہے پر یہ حرام شے کبھی منہ سے نہ لگاؤں گی۔ اب تو مجھے ساری کی ساری پلانے لگا تھا۔ خدا کرے تو غارت ہو۔۔۔ (کھانستی ہے) یہ تجھ سے کس نے کہا تھا کہ کیور مکچر میں برانڈی گھول دے۔ (لیٹ جاتی ہے)

مومن: نہیں تو بی بی جی۔دوسری بوتل کی دواابھی تو ڈالی ہے۔

طاہرہ: وہ کونسی

مومن: یہ رہی سرکار (دوسری شیشی میز پر سے اُٹھا کر دکھاتا ہے)

طاہرہ: (پھر اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے) تیرا ستیاناس ہومومن۔ تیارا ستیاناس ہو۔۔۔ تو نہ رہے اس دنیا کے تختے پر ۔ جادُو رہو جا میری آنکھوں سے۔ یوڈی کلون کی ساری شیشی بھی تونے کیو مکسچر میں انڈیل دی ہے۔(کھانستی ہے) تیرا ستیاناس ہو۔ اب میں ماتھے پر تیرا سر لگاؤں گی۔

مومن: سرکار!

طاہرہ: چل دفان ہو یہاں سے ۔۔۔جا۔

مومن: جاتا ہوں بی بی جی۔۔۔پر ۔۔۔ چلا جاتا ہے۔

طاہرہ: پر کے بچے۔ بیہودہ بکواس نہ کر۔ جادُور ہو جا یہاں سے۔۔۔

(کھانستی ہے) اُف۔۔۔اُف۔۔۔ کھانسی سے برا حال ہو رہا ہے اور اس اُلونے ساری دوا کا ناس مار دیا ہے۔۔۔ یہ تو خیر گزری جو میں نے پوچھ لیا۔ ورنہ یہ آج مجھے شراب پلوا کے ہی رہتا اور ۔۔۔ اور ۔۔۔ یہاں میری جان نکل رہی ہے اور وہ دفتر میں بیٹھے ہیں۔۔۔ اولاد ساری بمبئی کی سیر کر رہی ہے۔۔۔ کوئی پوچھنے والا تک نہیں۔۔۔ پڑوس سے بھی تو کوئی نہیں آیا۔

(دوسرے کمرے سے خالہ کی آواز آتی ہے۔

خالہ: طاہرہ۔ طاہرہ۔۔۔ سو رہی ہوگی۔۔۔ اور اسے کام ہی کیا ہے؟

طاہرہ: (کھانستی ہے) میں ادھر اس کمرہ میں ہوں۔۔۔خالہ۔۔۔ خالہ۔۔۔ ادھر اس کمرے میں چلی آئیے۔

(خالہ اندر داخل ہوتی ہے۔ برقعہ اُتار کر آرام کرسی پر ڈالتی ہے اور کرسی کو پلنگ کے پاس گھسیٹتی ہے)

خالہ: بھئی یہ ہر وقت لیٹے رہنا اچھا نہیں۔ طاہرہ سچ مچ تم بہت سست ہو گئی ہو۔۔۔ اٹھو۔

طاہرہ: (کھانستی ہے) ۔۔۔خالہ۔۔۔ خالہ۔

خالہ: چلو اُٹھو۔ بیٹھ کے کوئی بات کرو۔

طاہرہ: میں بیمار ہوں خالہ۔۔۔ میں بیمار ہوں

خالہ: کیا ہوا تمہیں اچھی بھلی تو ہو (نبض دیکھتی ہے)

طاہرہ: مر رہی ہوں اور آپ کہتی ہیں کہ اچھی بھلی ہوں۔ کل سے بخار آرہا ہے کھانسی بھی ہے(کھانستی ہے)

خالہ: یہ بھی کوئی بیماری ہے۔

طاہرہ: کل رات انہوں نے ڈاکٹر کو بلوایا تھا۔ ایک مکسچر دے گیا تھا۔ ایک خوراک پی ہے۔ دوسری پینا تھی۔ مومن کو بلوایا کہ وہ بوتل میں سے دو انڈیل دے اور اس نابکارنے یہ ساری بوتلیں گلاس میں خالی کر دیں۔

(میز کی طرف اشارہ کرتی ہے)

(خالہ اُٹھتی ہے اور میز پر رکھی شیشیاں دیکھتی ہے۔۔۔ ایک بوتل اٹھا کر طاہرہ کے پاس آتی ہے)

خالہ: اس میں تو یوڈی کلون ہے۔

طاہرہ: دوسری بوتل میں برانڈی تھی۔ رات وہ بڑا اصرار کر رہے تھے کہ تھوڑی سی پی لو۔ پر میں نے کہا مر جاؤں گی۔ لیکن اس کو ہاتھ تک نہ لگاؤں گی۔

خالہ: (یوڈی کلون کی شیشتی میز پر رکھنے جاتی ہے۔ شیشی رکھ کے واپس آتے ہوئے) میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ تمہارا یہ نوکر مجھے پرلے درجے کا بیوقوف معلوم ہوتا ہے۔ اسی وقت جواب دے دیا ہوتا تو ۔۔۔ لیکن میں پوچھتی ہوں۔ تمہارے دشمنوں کی طبیعت خراب تھی تو مجھے اطلاع کیوں نہ دی۔ میرے پیروں کی کیا مہندی گھس جاتی (کرسی کو اور آگے گھسیٹ کر)۔۔۔ یعنی اگر ایسے وقت میں ہم لوگ کام نہ آئے تو حیف ہے ہماری زندگی پر۔۔۔ بھئی طاہرہ مجھے تم سے اس بات کا ہمیشہ گلہ رہے گا۔۔۔ یہ تو تم نے ایسی بات کی گویا ہم پرائے ہیں ۔۔۔ اے میں اپنی حمیدہ کو تمہارے پاس بھیج دیتی۔ دوا وغیرہ لانے کے لیئے شوکت کو بھیج دیتی ‘ تمہارے خالو آجاتے۔۔۔ میں خود چلی آتی۔

طاہرہ: آپ کی بڑی مہربانی ہے خالہ۔۔۔ یہ تو خواہ مخواہ تکلیف دینے والی بات تھی۔

خالہ: تکلیف دینے کی بھی ایک ہی رہی اچھا ہٹاؤ ان فضول باتوں کو تم یہ بتاؤ‘ علاج کس کا ہو رہا ہے۔

طاہرہ: (اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے) ڈاکٹر بھگوان داس کا

خالہ: یہ ڈاکٹر بھلا کیا جانیں کھانسی بخار کا علاج ۔ تم نے مجھے کل کہلا بھیجا ہوتا تو یہ تکلیف اتنی کبھی نہ بڑھتی خیراب بھی اللہ کے حکم سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ مومن کہاں ہے۔

طاہرہ: اندر ہے : کیوں۔۔۔ (کھانستی ہے)

خالہ: (آواز دیتی ہے) مومن ۔ مومن

طاہرہ: مومن

(مومن اندر داخل ہوتا ہے)

مومن: آیا بی بی جی۔۔۔ فرمائیے کیا حکم ہے۔

خالہ: دیکھ مومن بھاگ کے جا اور کسی عطار کی دکان سے دوپیسے کی املی اور دوپیسے کا آلو بخارا پڑیا میں بندھوالا اور دیکھ‘ ساتھ ہی بازار سے مٹی کا ایک آبخورہ بھی لیتے آنا۔۔۔ سمجھ میں آگیا نا۔۔۔ جابھاگ کے جا۔

مومن: ابھی لایا حضور

طاہرہ: املی اور آلو بخارا؟

خالہ: تم تو مجھ سے یوں پوچھتے ہو جیسے میں نے زہر منگوایا ہے۔

طاہرہ: خالہ یہ دونوں چیزیں کھٹی ہیں۔ اسی واسطے میں نے آپ سے پوچھا (کھانستی ہے) اور میں تو کھانسی سے مر رہی ہوں۔

خالہ: تم کیا جانو۔ کبھی سُنا نہیں لوہے کو لو ہا کاٹتا ہے۔ کھانسی کا توڑ صرف املی اور آلوبخارا ہے۔ سو بیماریوں کی ایک دوا ہے اور قبض تو اس سے یوں چٹکیوں میں دُور ہو جاتا ہے۔۔۔ ذرا اپنی زبان تو دکھاؤ۔

طاہرہ: (منہ کھول کر زبان نکالتی ہے) لیجئے۔

خالہ: (اٹھ کر دیکھتی ہے) ذرا اور باہر نکالو۔ آکرو۔

طاہرہ: (زور سے آکر کرتی ہے)

خالہ: کتنی میلی ہے۔ اف کتنی میلی ہے۔۔۔ طاہرہ تمہیں قبض ہو رہا ہے(پلنگ کے پاس بیٹھ جاتی ہے) بس اس دوا سے یوں آرا م آجائے گا یوں۔ مومن لے کر آجائے تو اس سے کہنا ‘ املی اور آلوبخارے کو آبخورے میں ڈال کر اس میں پاؤ بھر پانی ڈال دے۔ اس آبخورے کو کھلی چھت پر رات بھر اوس میں رکھوا دینا اور صبح اُٹھ کر نہار منہ چھان کر پی لینا۔

طاہرہ: آرام آجائے گا؟

خالہ: ارے بھئی فوراً۔۔۔(اُٹھ کھڑی ہوتی ہے) اچھا ۔ اب میں جاتی ہوں چولہے پر دودھ دھرا ہے۔ ایسا نہ ہو‘ اُبل اُبل کے ختم ہو جائے۔ (برقعہ اٹھاتی ہے)۔۔۔ کل دوپہر تک تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گی اور اگر میری ضرورت پڑے تو مومن کو بھیج دینا۔ میں نہ آسکی تو حمیدہ کو بھیج دُوں گی۔۔۔تم کسی قسم کا فکر نہ کرو۔۔۔ اللہ اپنا فضل کرئے گا۔۔۔ اچھا خُدا حافظ(طاہرہ کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہے)

طاہرہ: آپ نے بہت تکلیف کی خالہ جان (کھانستی ہے)۔

(خالہ چلی جاتی ہے۔ طاہرہ کچھ دیر ماتھے پر ہاتھ رکھے خاموش بیٹھی رہتی ہے۔ پھر لیٹ جاتی ہے۔۔۔ اتنے میں باہر سے دروازہ بند کرنے کی آواز آتی ہے)

طاہرہ : کون ہے؟ مومن۔۔۔ مومن لے آیا سب چیزیں؟

(مومن اندر داخل ہوتا ہے)

مومن: جی ہاں بی بی جی(پڑیاں پلنگ پر رکھ دیتا ہے) ڈپٹی صاحب کے گھر سے آئے ہیں۔

طاہرہ۔کون؟۔۔۔آپا اقبال

مومن: جی ہاں

طاہرہ: کہاں ہیں؟

مومن: میں جب اندر آرہا تھا تو ان کا ٹانگہ باہر آکر رکا تھا۔

طاہرہ: جا ان کو اندر بھیج دے‘ کہنا بیمار ہیں(مومن چلا جاتا ہے) اچھا ہوا آگئیں ذرا تھوڑی دیر جی بہل جائے گا (اپنے بال اور زیادہ پریشان کر لیتی ہے اور چادر وغیرہ ٹھیک کرکے لیٹ جاتی ہے)

(آپا اقبال داخل ہوتی ہے)

اقبال: یہ تم اپنے آپ سے کیا باتیں کر رہی ہو اور یہ تو بتاؤ۔ املی اور آلو بخارے کی چٹنی کھا کر کیا تمہیں مرنا ہے۔ مومن کہہ رہا تھا تمہیں کھانسی کی شکایت ہے۔ اوپر سے موسم خراب ہے۔ کیوں خود کشی کر رہی ہو۔

طاہرہ: بیٹھ جاؤ آپا (کھانستی ہے) میں تمہیں سُناتی ہوں (کھانستی ہے)

بیگم خالہ آئی ہوئی تھیں۔ انہوں نے کہا۔ املی ‘ آلو بخارے کا پانی پیو۔ یوں چٹکیوں میں آرام آجائے گا۔

اقبال: اس میں کیا شک ہے۔ یوں چٹکیوں میں تمہارا گلا اندر سے پھول جائے گا۔ سانس رک جائے گا اور۔۔۔

طاہرہ: جانے بھی دو آپا۔۔۔ میری جان نکل رہی ہے اور تمہیں ہنسی سوجھی ہے۔ کیا سچ مچ یہ دوا ٹھیک نہیں؟

اقبال : لیموں کا رس۔ انچور۔ تیل کے پکوڑے۔ آم کا اچار۔ بیر۔ لال مرچیں اور ٹھنڈا پانی۔ یہ نسخہ بھی بہت مفید ہو گا۔

طاہرہ: آپا اب چھوڑو بھی مذاق کو۔ بتاؤ تو کیا یہ دوا اچھی نہیں۔

اقبال: تمہاری بیگم خالہ کے نسخے اگر کامیاب ہونے لگے تو شہر کے سارے ڈاکٹر حکیم ہینگ بیچنا شروع کر دیں گے۔ عقل کے ناخن لو طاہرہ ۔ ذرا سوچو تو آج تک کسی نے کھانسی کا علاج املی‘ آلو بخارے سے بھی کیا ہے۔ تمہیں کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایک فقط تمہارے سینے پر بلغم بیٹھ گیا ہے۔ سووہ ایک منٹ میں دور ہو جائے گا (کرسی پر بیٹھ جاتی ہے)

طاہرہ: بلغم ہے تو سہی۔ سینے پر بوجھ سا معلوم ہوتا ہے۔

اقبال: سر میں درد بھی ہو گا۔

طاہرہ: کل سے تھوڑا تھوڑا ہو رہا ہے۔

اقبال : ٹھیک ۔۔۔اور بدن بھی دُکھتا ہو گا۔

طاہرہ: رات بھر دکھتا رہا ہے۔ (پنڈلیوں پر مُکیاں مارتی ہے)

اقبال: تو ایسا کرو۔۔۔ مومن کہاں ہے (اُٹھ کر دروازے کی جانب جاتی ہے) مومن!

(مومن آتا ہے)

طاہرہ جی بی بی جی!

اقبال : میں تجھے ایک نسخہ بتاتی ہوں۔ بھاگ کے گلی کے نکڑوالے عطار سے بنوالا۔ دو پیسے کے عناب ۔ ایک پیسے کا بہیدانہ۔ ایک پیسے کی ملٹھی اور دارچینی۔ ایک پیسے کا بنفشہ اور خدا تیرا بھلا کرئے۔ ایک پیسے کی ریشہ خطمی ۔۔۔ بس دوڑ کے یہ سب چیزیں لے آ(مومن کھڑا رہتا ہے۔۔۔)

(آپا اقبال کرسی پر بیٹھ جاتی ہیں) ایک برتن میں پانی ڈال کر تھوڑے سے پانی میں خوب ان کو جوش دلوانا اور چھان کر گرم گرم پی لینا۔ پھر ناک منہ لپیٹ کر سو جانا۔۔۔ اللہ اپنا فضل کرے گا۔

مومن : میں جاؤں بی بی جی؟

طاہرہ: ہاں جا۔۔۔پر جلدی واپس آئیو

(مومن چلا جاتا ہے)

اقبال: تمہارے سر میں درد بھی تو ہے؟

طاہرہ: ہاں ہے تو سہی

اقبال: تو اس کے لیئے میں تمہیں گھر جاتے ہی ایک تعویذ بھیجتی ہوں۔ لیکن جیسا کہوں اسے ویسا ہی استعمال کرنا۔ سمجھیں۔ پانچ کنوؤں کا پانی۔ چُلّوچُلّو بھر ہر ایک کنوئیں میں سے کافی ہو گا۔ جب پانی ایک جگہ جمع ہو جائے تو تھوڑا سا پیالے میں کسی صاف پیالے میں لے کر اس میں یہ تعویذ گھول کر پی لینا۔ اللہ کے حکم سے سرکا یہ تمام درد دُور ہو جائے گا اور ایک اور تعویذ بھیجوں گی۔ اسے کالے کپڑے میں سی کر گلے میں پہن لینا(ٹائم پیس کی طرف دیکھتی ہے) تو اب میں چلتی ہوں۔ دفتر میں ان کا کھانا بھجوانا ہے۔ کھانا بھجوانے کی تو کوئی بات نہیں۔ یہ کام تیری بھانجی بھی کر سکتی ہے۔ پر میں کہتی ہوں یہ تعویذ جلدی ہی تمہیں بھجوا دُوں۔۔۔ تو میں چلتی ہوں طاہرہ ۔۔۔ اللہ تبارک تعالیٰ تمہیں اپنی امان میں رکھے۔ تم کچھ فکر نہ کرو میری بہن۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ ساگودانہ واگودانہ بنوا کے بھیج دوں؟ مجھے اچھی طرح معلوم ہے۔ تم نے کل سے کچھ بھی نہیں کھایا۔

طاہرہ: نہیں آپا‘ تم زیادہ تکلیف نہ کرو۔ ساگودا نہ مجھے کھانا ہو گا تو یہاں بن جائے گا۔

اقبال: ہائیں‘ اس میں تکلیف کی کیا بات ہے۔۔۔ (پھر ٹائم پیس کی طرف دیکھتی ہے)۔۔۔ تو میں چلتی ہوں ۔ خُداحافظ! تعویذ ابھی بھجوائے دیتی ہوں (چلتی ہے۔ لیکن واپس مڑتی ہے) اور ہاں تمہیں بدہضمی کی شکایت تو نہیں؟

طاہرہ: میں کچھ کہہ نہیں سکتی۔ کل کھٹی ڈکاریں۔۔۔

اقبال: میں سمجھ گئی۔ تو کھٹی ڈکاروں کے لیئے یہ چورن بڑا مفید رہے گا۔۔۔ تمہارے گھر آنے سے پہلے میں گمانی خانم کے ہاں گئی تھی۔ اس نے مجھے یہ چورن دیا (پُڑیا چورن کی اپنی انگیا سے نکالتی ہے)۔ پہلے بھی جب اس نے بمبئی سے منگوایا تھا تو مجھے ایک بوتل دی تھی۔ بھئی بڑا مفید ہے خاص کر کٹھی ڈکاروں کے لیئے تو اکسیر ہے۔ یہاں اس کا غذ پر تھوڑا سا تمہارے لیئے ڈال دیتی ہوں۔ انگلی پر تھوڑا تھوڑا لے کر چاٹتی رہنا۔ بس اتنا کافی ہو گا نا؟

(تھوڑا سا کاغذ میں ڈال کر طاہرہ کے پاس رکھ دیتی ہے)

طاہرہ: کافی ہے۔

(پڑیا پھر وہیں رکھ لیتی ہے۔ جہاں سے نکالی تھی)

اقبال: تو میں اب چلتی ہوں۔ باہر ٹانگے والا میری جان کو رُوتا ہو گا۔۔۔اچھا

خُدا حافظ

طاہرہ: خُدا حافظ

(طاہرہ چند لمحات چورن کو دیکھتی رہتی ہے۔ پھر انگلی سے تھوڑا سا منہ میں ڈالتی ہے اور پٹاخا سا چھوڑتی ہے)

طاہرہ: اُف کتنا تیز ہے (کھانستی ہے) کتنا ترش ہے (منہ سے پٹاخا چھوڑتی ہے) بہت تیز ہے (کھانستی ہے) میرے گناہ معاف کر۔۔۔ اُف۔۔۔ اُف۔

(دُور سے آواز آتی ہے۔۔۔ طاہرہ۔۔۔طاہرہ)

طاہرہ: مومن۔۔۔مومن

(دروازہ کھلتا ہے اور سکینہ اندر داخل ہوتی ہے)

سکینہ: طاہرہ‘ یہ میں کیا سُن رہی ہوں۔ تم کل سے بیمار ہو اور تمہیں کھانسی بھی ہے مگر تم نے مجھے خبر تک نہ کی۔۔۔ بھئی میں غیر تھوڑی تھی اور ۔۔۔ اور میں نے تمہاری اس خالہ سے سُنا ہے کہ تم اُوٹ پٹانگ علاج کرا رہی ہو۔۔۔ارے۔۔۔ تم یہ کیا چاٹ رہی ہو۔

طاہرہ: (کھانستی ہے)

سیکنہ: میں تم سے کیا پوچھتی ہوں؟

طاہرہ: آپا اقبال آئی تھی۔ یہ چورن دے گئی ہیں۔ کہتی تھیں۔ اس سے بد ہضمی دُور ہو جائیگی۔

سیکنہ: کون کہتا ہے تمہیں بدہضمی ہے۔ کھانسی سے مر رہی ہو۔ میں پوچھتی ہوں

تمہاری عقل پر پتھر تو نہیں پڑ گئے۔ جو ایسے اُلٹے سیدھے علاج کر رہی ہو۔

پھینکو اس چورن کو (اٹھا کر چورن پھینک دیتی ہے) تمہاری جان کی قسم میں مذاق نہیں کر رہی۔ کھانسی سے بُرا حال ہو رہا ہے اور اوپر سے یہ موا چورن کھا رہی ہو۔ تمہاری آپا اقبال تو سٹھیا گئی ہے۔

طاہرہ: سکینہ خالہ۔۔۔ آپا اقبال تو کہتی تھی۔۔۔

سیکنہ: اور غضب خدا کا۔ اتنی سردی پڑ رہی ہے اور تم صرف ایک چادر لپیٹے پڑی ہو۔ لحاف کہاں ہے؟ وہ پڑا ہے۔۔۔(اُٹھا کر لاتی ہے) تم لیٹی رہو میں تمہیں اوڑھا دیتی ہوں۔ یہ اوڑھ لو۔۔۔ کوئی کمبل ہے۔۔۔ ہے ہے (کمبل اُٹھا کر لاتی ہے) لو یہ بھئی اوپر ڈال دیتی ہے۔ بس اب ٹھیک ہے ۔ لو اب مجھے بتاؤ کہ تمہیں کیا تکلیف ہے۔

طاہرہ: کل بیٹھے بیٹھے بُخار ہو گیا اور کھانسی (کھانستی ہے)

سکینہ: (کرسی پر بیٹھ کر) میں سمجھ گئی۔۔۔ یہ اور کچھ نہیں نمونیا ہے

طاہرہ: نمونیا!! (اُٹھ کر بیٹھ جاتی ہے)

سیکنہ: ہاں ہاں نمونیا۔۔۔ سمجھیں! تمہارے پھیپھڑوں کو سردی لگ گئی ہے مگر گھبراؤ نہیں ۔ میں ابھی اپنے گھر سے رائی کا پلستر بنوا کے بھجوا دیتی ہوں نہیں میں ابھی خود لے کر آتی ہوں۔ بات ہی کیا ہے۔ جب تک اپنی بہن کے سینے پر اپنے ہاتھ سے نہ لگاؤں گی مجھے چین نہیں آئے گا۔۔۔ اور ہاں زُکام بھی تو ہے تمہیں۔۔۔ یہ کھانسی اسی وجہ سے تو آرہی ہے۔

طاہرہ: معلوم نہیں

سیکنہ: مجھے سب کچھ معلوم ہے اور اس کا علاج میری جیب ہی میں موجود ہے

(جیب سے نسوار نکالتی ہے) لو یہ تھوڑی سی سُونگھ لو۔۔۔ (چٹکی میں نسوار لے کر طاہرہ کی طرف بڑھاتی ہے)

طاہرہ: (کھانستی ہے)۔۔۔ ہے کیا؟

سیکنہ: کچھ بھی ہو۔ تمہیں آم کھانے سے غرض ہے یا پیڑ گننے سے۔ یہ لو۔

۔۔۔ اس کی ایک چٹکی سُونگھ لو۔

طاہرہ: بہن پتہ بھی تو چلے کہ یہ ہے کیا؟

سیکنہ: ہُلاس ۔ ہُلاس۔۔۔ اب معلوم ہو گیا؟

طاہرہ: یہاں تپائی پر رکھ دو۔

سیکنہ: (تپائی پر ہلاس کی ڈبیا رکھ دیتی ہے) اچھا تو میں چلتی ہوں اور ابھی پلستر لے کر واپس آتی ہوں۔ تم کچھ فکر نہ کرو۔۔۔ کل تک بالکل ٹھیک ہو جاؤ گی۔۔۔مومن۔۔۔ ذرا ادھر تو آ۔

(مومن اندر آتا ہے)

مومن: کیا حکم ہے بی بی جی۔

سکینہ : دیکھ ‘ گھر میں کوئی بڑی انگیٹھی ہو تو اس میں کوئلے سلگا کر اس کمرے میں رکھ دے۔

مومن: بہت اچھا بی بی جی (کھڑا رہتا ہے)

سیکنہ: تو بھئی اب میں چلتی ہوں۔ اچھا خُدا حافظ!

(چلی جاتی ہے۔ مومن پڑیا ہاتھ میں لیئے کھڑا رہتا ہے)

طاہرہ: (کھانستی ہے) مومن تجھے کوئلے سلگانے کے لیئے کہا تھا۔

مومن: ابھی سلگاتا ہوں بی بی جی۔ یہ جو شاندہ لے کر آیا ہوں۔ عطار کے پاس ملٹھی نہیں تھی۔ اس لیئے پان والے سے خوشبو کی گولیاں لیتا آیا ہوں۔

اب ان چیزوں کو کیا کروں بی بی جی؟

طاہرہ: کتھا اور چو نا بھی لے آ۔

مومن: بہت اچھا بی بی جی۔

طاہرہ: گھر میں چھا لیا تو ہوگی۔

مومن: جی ہاں ! دیکھتا ہوں۔ نہیں ہوگی تو دوڑ کر لے آؤں گا

طاہرہ: چھالیا اور یہ سب چیزیں پان کے پتے میں لپیٹ کر میرے سر پر دے مار۔

مومن: بہت اچھا بی بی جی۔۔۔ نہیں آپ تو

طاہرہ: (زور سے) بھاگ جامومن۔۔۔ دُور ہو جا یہاں سے۔۔۔ چلا جا۔۔۔ میں دیوانی ہو جاؤں گی۔

مومن : سرکار میرا قصور؟

(چلا جاتا ہے)

طاہرہ: (کھانستی ہے) قصور کے بچے۔ اب زیادہ بک بک نہ کر۔۔۔

میں۔۔۔ میں (آہستہ آہستہ) جا میری نظروں سے دور ہو جا۔۔۔

نابکار،پاجی۔ بے وقوف (زور زور سے کھانستی ہے) توبہ۔۔۔

کیسے پاگل نوکر سے واسطہ پڑا ہے۔۔۔ کہاں رکھ گئی ہیں ہلاس۔۔۔

یہ رہی۔۔۔ تھوڑی سی سونگھ ہی لوں(سونگھتی ہے) کتنی تیز ہے۔۔۔

دماغ تک پہنچ گئی ہے(زور سے چھینکتی ہے) لاحول ولا۔۔۔ (چھینکتی ہے) میں پاگل نہیں ہوں جو ہر ایک کا کہا مان لیتی ہوں(چھینک) ایک جی ویسے ہی خراب تھا ۔ اوپر سے نسوار نے (چھینک)۔۔۔ اب اگر کوئی اور تیماردار آیا تو میں ضرور دیوانی ہو جاؤں گی۔۔۔ (چھینک) ایک دن میں کتنے علاج معلوم ہوئے ہیں۔۔۔ تو بہ ہے (کھانستی ہے) کیور مکسچر میں برانڈی اور یوڈی کلون۔۔۔ املی ‘ آلو بخارا ۔۔۔ عناب‘ بہی دانہ، بنفشہ‘ ملٹھی‘ دارچینی‘ کتھا‘ چونا‘ خوشبو کی گولیاں۔ کوئلوں کی انگیٹھی ‘ رائی کا پلستر اور یہ ہلاس (چھینک) مومن ۔ مومن۔

(مومن اندر داخل ہوتا ہے)

مومن : سرکار۔ اوپر کی منزل میں جو نئے کرایہ دار آئے ہیں۔ ان کی بیگم صاحبہ آپ کی مزاج پرسی کے لیئے آئی ہیں۔

طاہرہ : بھیج دو اندر

(دروازے میں سے پڑوسن جھانکتی ہے)

پڑوسن : میں اندر آسکتی ہوں؟

طاہرہ: آئیے آئیے۔ تشریف لائیے۔

(پڑوسن اندر چلی آتی ہے)

پڑوسن: مجھے اپنے نوکر سے معلوم ہوا کہ آپ کے دشمنوں کی طبیعت خراب ہے

طاہرہ: کرسی پر تشریف ر کھیئے۔

پڑوسن: شکریہ۔۔۔ (بیٹھ جاتی ہے) علاج تو آپ کر رہی ہوں گی۔

طاہرہ: جی ہاں ۔ لیکن اگر آپ کو کوئی اچھا سا علاج معلوم ہو تو بتا دیجئے۔

بڑی مہربانی ہوگی۔ میرے سر میں درد ہے۔ دانتوں کو پائیوریا ہو چکا ہے گنٹھیا بھی ہے۔ نمونیا بھی ہو چکا ہے۔ پلیگ ہونے والی ہے۔ ہیضہ کل تک ہو جائے گا اور چیچک تو بس نکلنے ہی والی ہے۔

پڑوسن: تو معاملہ۔۔۔

طاہرہ: جی ہاں۔ معاملہ بہت نازک ہے۔

پڑوسن: چیچک تو۔۔۔

طاہرہ: چیچک کو چھوڑئیے۔ پسلی میں درد ہے۔ ڈاڑھیں نکل رہی ہیں۔ انفلوئزا کی علامات ظاہر ہو چکی ہیں۔ انتڑیوں میں ورم ہے۔ آنکھوں میں سوجن ہے۔ دق پرسوں اترسوں تک ہو جائے گی۔۔۔۔ آپ کو ان بیماریوں کا کوئی علاج معلوم ہو تو فوراً بتا دیجئے۔ مالینحولیا بھی ہو گیا ہے۔

پڑوسن: اس میں کیا شک ہے۔۔۔ میرا خیال ہے کہ علاج۔۔۔

طاہرہ: آپ کا خیال یہ ہے کہ ان تمام بیماریوں کا علاج صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ دو چھٹانک دودھ میں سرکہ ڈال کر پیوں۔ سیب کے ٹکڑے سر پر گھسوں۔ نمک سلیمانی میں چاولوں کا آٹا ملا کر سارا دن پھانکتی رہوں۔ گڑ کے شربت میں حنا کا عطر گھول کرسُونگھوں۔ گرم گرم کولتار کاپلستر سینے پر لگا لوں۔ بکری کی مینگنیاں کستوری چڑھا کر عرق گاؤ زبان کے ساتھ نگلتی رہوں ۔ یہی کہنا چاہتی ہیں نا آپ۔ اب آپ تشریف لے جائیے آپ کا بہت بہت شکریہ۔ مومن ‘ مومن (اُٹھ کھڑی ہوتی ہے)

مومن۔۔۔

(مومن جو پاس ہی کھڑا ہے۔ بوکھلا کر ادھر ادھر دیکھتا ہے)

مومن: حاضر ہوں بی بی جی۔

طاہرہ: ان کو عطاّر کی دکان پر لے جاؤ اور برانڈی میں پان کے پتے بھگو کر ان کے سر پر باندھ دو۔ اف ۔۔۔ اُف۔۔۔(کھانستی ہے)

مومن : بہت اچھا حضور۔۔۔ (پڑوسن سے ) چلیئے سرکار آپ کو عطار کی دکان پر لے جاؤں۔

پڑوسن: ۔۔۔(ہکلاتے ہوئے) مگر‘ مگر بہن ۔۔۔ مگر بہن

(طاہرہ پڑوسن کو دھکّے دے کر باہر نکال دیتی ہے اور قریب قریب بے ہوش ہو کر پلنگ پر لیٹ جاتی ہے)

پردہ

مأخذ : کتاب : تین عورتیں اشاعت : 1942

مصنف:سعادت حسن منٹو

مزید ڈرامے پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here