لاجونتی: (اشتیاق بھرے لہجے میں‘ اپنے پتی سے)آؤ بحث کریں۔
کشور: بحث کریں۔۔۔کس سے بحث کریں؟
لاجونتی: تم تو یوں بات کر رہے ہو گویا بحث کو جانتے ہی نہیں۔۔۔ساری عمر گزر گئی تمہاری بحث کرتے کرتے اور آج کتنے انجان بن رہے ہو۔ ننھے نادان روٹی کو ٹوٹی اور پانی کو مما کہتے ہیں بیچارے جیسے کچھ جانتے ہی نہیں۔ یوں ہی بیٹھے بیٹھے جی میں آئی کہ بحث کریں۔ ذرا دل بہل جائے گا۔ اور تم نے چلّانا شروع کر دیا۔
(بگڑ کر) آج تک تم نے سیدھے منہ بات بھی کی ہے۔
کشور: ارے بھئی کوئی کام کی بات کہی ہوتی۔ یہ کیا؟۔۔۔آؤ بحث کریں۔۔۔آؤ بحث کریں‘ کیا اس الیکشن میں میونسپل کمشنر بھرتی ہونے کا خیال ہے۔ یا کسی اخبار کا ایڈیٹر بننے کا ارادہ کر رہی ہو۔
لاجونتی: پر ماتما کی کرپا سے اخبار تو ہر روز ہمارے گھر سے نکلتا ہے۔ صبح چاء پی کر جب باہر نکلتے ہو تو محلے کے سب لوگوں کو اپنے گھر کی خبریں سناتے ہو۔۔۔لاج تو نہ آتی ہوگی تمہیں۔ ابھی اس کلمو ہے بھگوان د اس کو سُنارہے تھے کہ میں نے تمہاری پتلون پہن کر فوٹو اُتروایا۔
کشور: مجھ سے قسم لے لو جو میں نے کہا ہو۔۔۔ وہ تو باتوں باتوں میں میں نے اُس سے صرف اس قدر کہا تھا کہ عورتیں اگر پتلون پہنیں تو کیا ہرج ہے۔۔۔ کیا ہرج ہے؟۔۔۔ اور اگر وہ نہ پہنیں تو بھی کوئی ہرج نہیں۔۔۔ تمہارے دل میں تو میری طرف سے چور بیٹھ گیا ہے۔ پتہ کھڑکا اور بندہ بھڑکا۔
لاجونتی: چور بیٹھ گیا ہے۔۔۔ اور اگر کل میں اپنی کسی سہیلی سے کہہ دوں کہ پچھلے ہفتے میں نے تمہیں اپنے کپڑے پہنا کر سارا دن گھر کے کام کاج پر لگائے رکھا تھا تو؟
کشور: پر ماتما کے لیئے یہ بات اپنے دل ہی میں رکھنا۔۔۔ غصے کو تھوک دو میری جان تم تو ناحق بات بات پر بگڑ جاتی ہو۔۔۔ ذرا سوچو تو ‘ ایسی باتیں بھلا غیرسے کی جاتی ہیں۔۔۔ اس وقت بھی کوئی سن لے تو کیا کہے۔۔۔چھی چھی چھی۔۔۔گھر میں ایسے کئی کھیل تماشے ہوتے ہیں پر دوسروں سے ان کا ذکر تھوڑی کیا جاتا ہے۔۔۔
لاجونتی آج تمہیں کیا ہو گیا ہے؟
لاجونتی: میرا جی آج بحث کرنے کو چاہتا ہے۔
کشور: ابھی دھوبی آیا تھا۔ اس سے کیوں نہ شروع کر دی۔
لاجونتی: بحث وہاں شروع ہو سکتی ہے جہاں کوئی نہ مانے۔ میں نے جب اس سے کہا کہ ریشمی کپڑوں کو کلف لگانا چاہیئے۔تو اس نے جھٹ سے مان لیا۔جی ہاں سرکار ضرور لگانا چاہیے۔۔۔ اب بتاؤ ایسے لوگوں سے کیا خاک بحث ہو سکتی ہے جو بات کی وہیں گردن دبادیں۔
کشور: صاف بتاؤ کہ اب تم کیا چاہتی ہو؟
لاجونتی: بحث کرو‘ ذرا گرما گرم باتیں ہوں۔ تم اپنے دل کی بھڑاس نکالو۔ میں اپنا جی ہلکا کروں۔۔۔کیا تم اس ٹھہر ے پانی ایسی زندگی سے تنگ نہیں آتے؟
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نغمہ شادی نہ سہی نوحہ غم ہی سہی
کشور: اگر گھر کی رونق ہنگامے ہی پر موقوف ہے تو آؤ تم میرے بال نوچو۔ میں تمہارا منہ نوچوں۔ دونوں چیخیں ‘ چلائیں‘ اودھم مچا کر سارا گھر سر پر اٹھالیں۔ فرنیچر کے پرزے اڑا ڈالیں‘ سارے برتن توڑ ڈالیں۔۔۔ عجیب منطق ہے۔ نہ جانے تم نے کس بیوقوف کا شعر یا دکر لیا ہے‘ اور پھر اس گھر میں ہنگامے کی ضرورت ہی کیا ہے جہاں تم جیسی دھرتی دھمک موجود ہو۔ سدا بھونچال رہتا ہو۔
(نرائن کی آمد)
نرائن: (کھانستا ہے) بھونچال کی بات ہو رہی ہے۔۔۔ ہوں‘ بھونچال کی۔۔۔ پر تم کیا سمجھا سکو گے کشور کہ یہ بھونچال کیا ہوتا ہے۔ تمہیں سائنس سے کیا واسطہ۔
کشور: جس مرد کو لا جونتی جیسی بیوی مل جائے اسے سائنس وائنس پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کے توگھر ہی میں Laboratary اور Observatoryکھل جاتی ہے۔۔۔ تم اب مجھے کیا کوئی نئی سائنس پڑھانا چاہتے ہو۔۔۔
ابھی تک تو میرا ایک ہی کورس ختم ہونے میں نہیں آتا۔
لاجونتی: کورس ختم ہونے میں نہیں آتا۔۔۔ کورس ختم ہونے میں نہیں آتا۔۔۔
کورس میں ہوں کہ تم۔۔۔ اور یہ جو تم نے ایک نیا قاعدہ پیدا کیا ہے۔ وہ تم سے کیا کم ہے۔ ابھی سے آسمان کے تارے توڑتا ہے۔۔۔ قدنہ انگشت بھرکا۔
زبان سکندری گز۔۔۔ آخر تمہارا ہی بیٹا ہے نا؟۔۔۔ذرا بڑا ہولے پھر دیکھنا کیا کیا گل کھلاتا ہے۔
نرائن: شانتی۔۔۔ شانتی!۔۔۔ بھئی یہ کیا قصہ ہے۔ بات بھونچال کی ہو رہی تھی اور بیچ میں یہ کورس اور قاعدے کیا آگئے اور پھر یہ بیٹے کے طعنے کیوں؟۔۔۔ بیٹا جیساآپ کا ہے ویسا ان کا بھی ہے۔
لاجونتی: وہ کیسے ؟ بیٹا ان کا ہے۔ باپ پرپوت پتا پر گھوڑا اس کی دلیل ہے۔۔۔
بیٹی ہوتی تو البتہ میری تھی۔
کشور: نرائن تم خاموش بیٹھے رہو‘ ناحق دماغ خالی کرو گے۔ یہ آج اسی قسم کی اوٹ پٹانگ باتیں کر رہی ہے۔ ابھی کہہ رہی تھی میرے ساتھ بحث کرو (ہنستا ہے)۔
نرائن: تو اس میں ہنسنے کی کونسی بات ہے۔۔۔ بحث مباحثے میں تمہارے ہی پلے کچھ پڑ جاتا ۔ کچھ سیکھ لیتے۔ بات کرنے کی تمیز آجاتی ۔۔۔ پر تمہیں ان چیزوں کی کیا قدر ہو سکتی ہے‘ ہونا آخر لوہے کی مشین پر انگلیاں چلانے والے۔۔۔ ہاں تو بھابی جان کیا کہہ رہی تھیں آپ؟۔۔۔ بیٹا اس کا اور بیٹی آپ کی؟۔۔۔ یہی کہا تھا نا آپ نے؟
لاجونتی: جی ہاں یہی کہا تھا بیٹا باپ کا اور بیٹی ماں کی۔
نرائن: گو مجھے ایسے سوال پوچھنے کا کوئی ادھیکار نہیں۔ لیکن کیا پوچھ سکتا ہوں کہ بیٹا اس کا کیوں ہوا اور بیٹی آپ کی کیوں ہوئی۔۔۔ میری وائف تو کہا کرتی ہے کہ بیٹا اور بیٹی دونوں میرے ہیں۔۔۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ یہ دونوں غلطیاں میری ہیں یا اس کی۔ اور اگر دونوں میری نہیں ہیں تو ان میں سے کون سی اس کی ہے اور کون سی میری؟
لاجونتی: میں سلیٹ پنسل لے کر حساب کا سوال نکالنے نہیں بیٹھی۔۔۔ آپ کو اگر پوچھنا ہو تو سیدھے سادے لفظوں میں پوچھئے۔
نرائن: میں آپ سے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ عام طور پر عورتیں ‘میری بیوی کو علیحدہ کرتے ہوئے‘ اپنے شوہروں سے کیوں کہا کرتی ہیں‘ تمہارے بیٹے نے توناک میں دم کر رکھا ہے‘ اور جب بیٹی کا ذکر آجائے تو یہ کہا کرتی ہیں‘ میری بیٹی دیوی ہے۔ دیوی پر ماتماکل جہان کو ایسی بیٹیاں دے‘۔۔۔ میں صرف تمہارے بیٹے اور میری بیٹی کے درمیان جو فرق ہے معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ تاکہ دوسروں کا بھلا ہو۔
کشور: یہ جو فیصلہ کرے گی۔ اس سے ممکن ہے دوسروں کا بھلا ہو جائے۔ پر میرے لیئے نیا آرڈی نینس ضرور جاری ہو جائے گا۔۔۔ تم جانے دو نا اس بحث کو۔ کیوں میرے لیئے ایک نیا قانون پاس کرا رہے ہو۔ کیا اس سے پہلے کم تھے۔
نرائن: یہ ایک بہت بڑی پرابلم ہے کشور تم نہیں سمجھتے کہ اس کا حل ہونا کتنا ضروری ہے ہندوستان کو سوراج مل جائے۔ ساری دنیا آزاد ہو جائے۔ پر یہ سوال ہمیشہ حل طلب رہے گا۔۔۔ تم غور سے سنتے جاؤ۔ شاید اس گتھی کے سلجھانے کا سہرا ہمارے ہی سر بندھے۔
کشور: ایک بار سہرا بندھواکر تو عُمر بھر غلامی کا طوق گلے میں ڈال لیا۔ اب دوسرا سہراتم کونسا بندھوار ہے ہو۔۔۔ کرپا کرو مجھ پر میں بھرپایا۔
نرائن: بھئی تم خاموش رہو نا تھوڑی دیر کے لیئے ۔ کیوں بیچ میں بول رہے ہو۔۔۔ ہاں تو بھائی جان آپ اپنے خیالات کا اظہار فرمائیے۔
لاجونتی: جو کچھ آپ پوچھ رہے ہیں میں ابھی نہیں بتاؤں گی۔۔۔ پہلے میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتی ہوں۔
نرائن: بڑے شوق سے
لاجونتی: مرد عورت سے شادی کرتا ہے۔ یا عورت مرد سے شادی کرتی ہے؟
نرائن: (سوچتے ہوئے) مرد‘ عورت سے شادی کرتی ہے۔ یا عورت مرد سے شادی کرتا ہے۔ نہیں نہیں۔۔۔ مرد‘ عورت سے شادی کرتا ہے یا شادی مرد سے عورت کرتی ہے۔۔۔
کشور: سچی بات تمہارے منہ سے اپنے آپ نکل گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں۔۔۔ شادی مرد سے عورت کرتی ہے۔ میری طرف دیکھو‘ اچھا بھلا مرد عورتوں سے بدتر ہو گیا ہوں ۔
نرائن: دیکھئے بھابی جان۔۔۔ میں نے شادی کے اس مسئلے پر بہت غور کیا ہے بہت غور کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں۔۔۔کہ۔۔۔ کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ مرد عورت سے شادی کرے ‘ یا عورت مرد سے شادی کرے۔ یوں سمجھئے کہ بس شادی ہو جاتی ہے اور شادی بہرحال شادی ہے۔ اب صرف معلو م کرنا باقی رہ جاتا ہے کہ ہم شادی کیوں کرتے ہیں تو اس کے متعلق مشہور رُوسی آتھرچیخوف نے لکھا ہے Peaple Marry When They Dont Know what to do with themselves یہ کہ عورتیں اور مرد اس وقت شادی کرتے ہیں جب انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اپنے آپ کا کیا کریں۔
لاجونتی: دوسرے لفظوں میں اس وقت دونوں عقل سے خالی ہوتے ہیں۔ بیوقوف ہوتے ہیں؟
نرائن: لفظ وہی رہنے دیجئے تو کیا ہرج ہے؟
لاجونتی: پرا س سے مطلب تو نہ بدلے گا۔ آپ نے گول مول لفظوں میں مجھ سے یہی کہنا چاہا ہے کہ جب عورتیں مردوں سے شادی کرتی ہیں تو وہ پرلے درجے کی بیوقوف ہوتی ہیں۔ تو اس میں شک ہی کیا ہے؟ اس سے بڑھ کر اور کیا بے وقوفی ہو سکتی ہے کہ دیکھ بھال کے سمجھ بوجھ کے اپنی آزاد جان کو قید میں ڈال دیتی ہیں ۔ پتی کا گھر دوسرے لفظوں میں قید خانہ ہے جس میں عمر قید کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔
کشور: پتی کا گھر قید خانہ ہی سہی اور یہ عورتیں بھی تو اس قید خانے کا داروغہ بن کر آتی ہیں جب دیکھو کندھے پر بندوق لیئے کھڑی ہیں۔ شادی کے بعد مرد کسی عورت سے ہنس کر بات تو کرلے‘ توبہ صاحب قیامت برپا ہو جائے۔
لاجونتی: کہاں کی بات کہاں لگائی۔ سنئے نرائن صاحب ‘ ذرا عورتوں کا حال بھی سنیئے صبح اٹھتے ہی پتی صاحب شروع کرتے ہیں۔ پہردن چڑھ آیا ہے اور آپ دیوی جی پڑی سو رہی ہیں۔ بھلا جب میں ناشتہ نو بجے کرونگا تو کھانا کس وقت کھاؤں گا اور مجھے ٹھیک دس بجے دفتر چلے جانا ہے۔۔۔ چاہے عورت کوئی دکھ درد ہی رکھتی ہو۔
کشور: سنو ‘ سنو‘ نرائن‘ اب ہمارا حال سنو‘ اگر بیچارہ پتی رات کو ذرا دیر سے آیا۔ تو آؤ تو جاؤ کہاں۔ بس دیوی جی شروع ہو گئیں۔ اے گئے ہوں گے اپنی اسی کے یہاں کہیں ناچ رنگ کی محفل ہوگی ۔ کوئی مل گئی ہوگی ایسی ویسی۔ اے میں بھی تو سنوں وہ موئی لکاتہ ہے کون؟
لاجونتی: بات کاٹ کر‘ اب دفتر جاتے وقت کھانا لے جا کر سامنے رکھا تو پتی صاحب کے منہ سے پھول جھڑنے لگے۔ روٹیاں کچی رہ گئی ہیں۔ سینکی نہیں گئیں۔ جلدی جلدی دس بجے اٹھ کر اوپلے تھاپ دئیے ہیں۔ بھاجی میں نمک پھیکا ہے۔ سالن میں نمک زہر کر دیا ہے۔ پانی میں برف نہیں ڈالی۔ کھانا کیا پکایا گیا ہے۔ سر کی بلاٹال دی گئی ہے جب ہی تو میرا معدہ خراب ہے۔ جب ہی تو مجھے اس کا نے ڈاکٹر کو فیسیں ادا کرنی پڑتی ہیں۔
کشور: سنونرائن۔ اگر شامت اعمال اس کانے ڈاکٹر کو پانچ روپے فیس کے دے دئیے تو اس نے گھر سر پر اٹھا لیا۔ یہ اب کی تنخواہ میں پانچ روپے کیوں کم ہیں؟۔۔۔ کیا کوئی نئی بلا پالی ہے۔ میرے بچوں کا صبر پڑے اس جھڈو پر۔ ہوگی کوئی گرہ کٹ موئی۔ پہلی کی تو پوری پڑتی نہیں جو سہرے جلو ے کی ہے۔ مہاشے جی باہر ہی باہر گُلچھرے اُڑانے لگے ہیں۔
لاجونتی: اب پتی جی کے دفتر جانے کا وقت آیا تو کپڑے بدلتے وقت شروع ہوئے میں تو سرائے میں رہتا ہوں گھر تھوڑے ہی ہے۔ زندگی کے دن گزار رہا ہوں قمیص میں ایک بٹن ندارد ہے۔ پتلون کا بکلس کب سے غائب ہے۔ کسی کو کیا پروا کالر سب میلے پڑے ہیں۔ جب تک ایک ہی دھو کر استری کر دی ہوتی۔ کوئی ہاتھ کی مہندی تو نہ چھٹ جاتی۔ میرا کپڑا کوئی کہیں پڑا ہے کوئی کہیں۔ میری بوسکی کی قمیصیں اکثر بچے کے پوتڑے کا کام دیتی ہیں.
کشور: سنونرائن سنو۔۔۔
نرائن: ارشاد بھابی جان
لاجونتی: میں نہیں‘ آپ کے دوست کچھ ارشاد فرمارہے ہیں۔
نرائن: کہو بھئی ‘ کیا کہتے ہو۔ مجھے تو بالکل پتا نہیں چلتا کون کس سے کہہ رہا ہے۔
کشور: ہاں تو اتفاق سے ایک دوست کے یہاں پرسوں کھانا کھا لیا۔ پھر تم سنتے یہ کھانا کہاں کھایا گیا ہے؟۔۔۔ کوئی نئی کی ہوگی کیوں ؟ میں تو بارہ بارہ بجے رات تک بھوکی پیاسی پڑی انتظار کرتی رہوں اور یہ مہاشے جی اس موٹی لکاتہ کے یہاں پکوان اڑائیں۔ جب ہی تو میں دیکھتی ہوں ایک منٹ میں آج کل کھانا کھا لیا جاتا ہے۔۔۔ بھوک بالکل نہیں ذرا نہیں کھایا جاتا کہتے کہتے چوکے سے اٹھ کر ہاتھ دھو لیئے جاتے ہیں۔ذرا میں بھی تو سنوں آجکل کدھر آپ کابسیرا لگتا ہے۔
لاجونتی: اب یہ دفتر سے آئے۔ ابھی دو منٹ آئے ہوئے نہیں ہو کہ چلانا شروع کر دیا۔ مجھے آئے گھنٹہ بھر ہو گیا۔ کوئی پوچھتا ہی نہیں کہ کون کتا گھر میں آیا ہوا ہے۔ اور جانے دوسہ پہر کی اک چاء ہے وہ بھی ٹھیک نہیں ملتی کہ ذرا تمام دن کی تھکن مٹے۔ بس دیوی جی کو تو سہیلیوں کی خاطر مدارات سے کام ہے۔ فروٹ پر فروٹ چلے آرہے ہیں۔ بوتلوں پر بوتلیں کھل رہی ہیں۔ میں مزدور جو گدھے کی طرح بوجھ ڈھونے والا مل گیا ہوں۔ تمام دن کامرا کھپا تھکا ماندہ میں کمبخت گھر میں آیا بیٹھا ہوں اور آپ دیوی جی ہیں کہ ہمسائی کی لڑائی کھڑی سن رہی ہیں۔۔۔ ارے سنتی ہو۔ سوجھتا نہیں کان بہرے ہو گئے ہیں؟۔۔۔ پکار پکار کے گلاتھک گیا۔ پر تمہارے کان پر جون تک نہیں رینگی۔
کشور: سُنو ‘ سُنو نرائن۔۔۔
نرائن: کیا سننے کے لیئے صرف میں ہی رہ گیا ہوں۔
کشور: بکو نہیں ‘ سنو۔۔۔ پرسوں ہی کا ذکر ہے۔ گنیش نے مجھے ایک بوتل بیئر کی پلا دی۔ گھر میں جو پہنچا‘ نہ معلوم بلی کی ناک ہے اور کان چوہے کے بس گراموفون بجنے لگا۔ اچھا یہ کہیئے اب سرکار کے منہ دارو بھی لگ گئی جب ہی آنکھیں لال بھبو کا ہو رہی ہیں۔ بات تو صحیح منہ سے نکلتی نہیں یہ کن شریمتی جی کا کام ہے ہوگی کوئی بازاری۔ اب گھر بار چل چکا۔ بچے پل چکے ‘ میں بدنصیب گئی چولہے بھاڑ میں پربچوں کا گزارہ کہاں سے ہو گا۔ یہ کمبخت بری چیز منہ لگتی ہے تو چھوٹتی تھوڑے ہی ہے۔۔۔ جب ہی تنخواہ میں کبھی دس کم ہیں کبھی بیس۔۔۔ دیکھو میں کہے دیتی ہوں۔ اگر تمہارے یہی روّیے رہے تو بچوں کو تمہارے سرمار کے میں میکے چلی جاؤں گی۔
نرائن: ہنستا ہے! ہا ہا ہا ہا۔۔۔ بحث تو خوب ہو رہی ہے۔ تڑا تڑ گولیاں چل رہی ہیں۔ دو قابل پلیڈر آر گومنٹ کر رہے ہیں۔ چین جاپان میں جنگ ہو رہی ہے تڑا تڑگولیاں چل رہی ہیں۔ پرجیت ہار کا پتہ نہیں لگتا۔ کدھر کی جیت رہی ہے اور کدھر کی ہار۔
لاجونتی: جیت ہار سے کیا مطلب۔ ذرا بحث کرکے جی ہلکا ہو گیا۔ اور ان کی قلعی بھی کھل گئی۔
کشور: میں باز آیا ایسی بحث سے۔ میں دھوبی بن جاؤں گا۔ جو تم کہو گی‘ صحیح درست ٹھیک ہے سرکار، کہتا جاؤں گا۔ مجھے دھوبی بننا منظور ہے بحث کرنا منظور نہیں ہے۔ کہیں ہنسی میں پھنسی نہ ہو جائے۔
نرائن: بھابی جان۔ اب کیا چاہتی ہیں ۔ میرے دوست نے ہار قبول کر لی۔ آپ جیت گئیں اور وہ ہار گیا۔۔۔ مگر بحث بڑی ہی مزیدار رہی۔
لاجونتی: یہ بات ہے تو لیجئے اور چھیڑے دیتی ہوں۔ جب ان کے سونے کا وقت آیا اور مسہری پر جا لیٹے تو کہنے لگے۔ اُف ۔ اُف پیروں میں کس قدر ا ینٹھن ہو رہی ہے۔ اور سر کے درد سے کنپٹیاں پھٹی جارہی ہیں۔ بھلا کسی کو کیا غرض جو ذرا میرے پیردبادے۔ ذرا میرے سر میں تیل کھپائے۔ ہائے مر گیا۔۔۔ اوہو ہو ہو کیا ٹیس اٹھتی ہے۔ اب وہ بیچاری تیل لے کر پہنچی۔ تیل لگاتے دو منٹ بھی نہ ہوئے تھے کہ بولے تم کو تیل لگانا کبھی نہ آئے گا۔ میرا سر تمہاری سنگر مشین کی طرح نہیں ہے۔ ذرا تسکین نہیں ہوتی۔ سر کی بلاٹال رہی ہو۔۔۔ پھر ایک گھنٹے کے بعد کہنے لگے ۔ رہنے بھی دو ایسے تیل لگانے سے بہتر تھا کہ پیر ہی دبا دیتیں۔ اب پیردبانے بیٹھی۔ تو شروع ہوئے مٹھیوں میں زور ہی نہیں ۔ تم دباتی ہو یا پنڈلیاں سہلا رہی ہو۔۔۔ سر کی بلاٹالتی ہو۔۔۔ یہ کیا ہار مونیم بجایا جا رہا ہے۔۔۔
کشور: نرائن ‘ جھوٹ‘ بالکل جھوٹ‘ سفید جھوٹ۔ یہ سب من گھڑت باتیں ہیں۔
لاجونتی: سنیے نرائن صاحب
نرائن: ارشاد!
لاجونتی: اب دو گھنٹے دبا چکی تو حکم ہوا! بس کرو مجھے کچھ تسکین نہیں ہوتی‘ پھر پانچ منٹ ٹھہر کر بولے۔ ’’بس اب نیند آگئی لیٹی نہیں کہ سوئی نہیں۔ خراٹے شروع ہو گئے ارے کیا سچ مچ سو گئیں۔ ذرا باتیں تو کرو۔۔۔
کشور: نرائن! یہ سب بہتان ہے۔ یہ سب بہتان ہے۔ ایک حرف اس کا سچ نہیں سب جھوٹ ہے۔
لاجونتی: ذرا بچہ رو پڑا۔ جان بوجھ کے دُودھ جی بھر کر نہیں پلایا ہو گا‘ کہ میری نیند حرام ہو جائے۔ اُٹھے اور گود میں لے ‘ لوریاں دے کر سلائے۔ نوکری پر بھی جاؤں ۔ دن بھر تھکوں مروں۔ رات کو بچہ کھلانے کی ڈیوٹی بھی میں ہی دُوں۔۔۔ ارے اُٹھتی ہو کہ نہیں ‘ کیسی ظالم ماں ہے۔ کیا بھاری نیند ہے۔ ارے اُٹھو‘ ننھے کو دودھ دو۔ مجھ سے نہیں بہلتا نیند ہے کہ بلا۔ اے آنکھ نہیں کھلتی منا رو رو کے ہلکان ہوا جا رہا ہے۔۔۔
کشور: لاجونتی میری توبہ میں ہارا تم جیتیں۔۔۔ پر ماتما کیلئے اب بند کرو اس بحث کو۔۔۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ دھوبی بن جاؤں گا۔۔۔
بھگوان کی قسم دھوبی بن جاؤں گا۔۔۔ اب تم اس بحث کو بند کرو۔
نرائن: یہ تم بار بار دھوبی کیا کہہ رہے ہو۔ دھوبی بن جاؤ گے تو کیا ہو گا۔
کشور: سب ٹھیک ہو جائے گا نرائن ‘ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ بات یہ ہے کہ صبح دھوبی دھلائی لے کر آیا تھا۔ اس سے بھی آپ نے بحث کرنا چاہی۔ کہنے لگیں۔ ریشمی کپڑوں کو بھی کلف لگانا چاہیئے۔ آدمی تھا عقل مند فوراً جی ہاں سرکار لگانا چاہیئے:کہہ کر کہ اپنی جان چھڑالی۔
نرائن: تو کل سے میں بھی اپنے گھر میں دھوبی ہوں۔۔۔ بھئی کیا کام کی بات کہی تم نے !
فیڈ آوٹ
مأخذ : کتاب : آؤ اشاعت : 1940
مصنف:سعادت حسن منٹو