ابال

0
167
Urdu Story Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے، جو سن بلوغت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ جس گھر میں کام کرتا ہے، اس کے مالک کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے اور وہ اسے اس کی بیوی کے ساتھ کئی بار نازیبا حالت میں دیکھ لیتا ہے۔ جب بھی وہ انہیں ایسی حالت میں دیکھتا ہے تو اسے اپنے جسم میں ایک طرح کا ابال سا محسوس ہوتا ہے۔ ایک رات وہ شہر میں گھومنے نکل جاتا ہے اور گھومتا ہوا ایک رنڈی کے کوٹھے پر جا پہنچتا ہے۔‘‘

جب دودھ ابل ابل کر کوئلوں پر گرنے لگا اور شاں۔۔۔ شاں کی آواز کے ساتھ ایک تیز سی بو اٹھی تو چندن نے ہڑبڑاکر پتیلی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ کوئلوں کی تپش سے سرخ ہو رہی تھی۔ بےبسی کے انداز میں چندن نے جلد جلد ادھر ادھر دیکھا۔۔۔ کوئی کپڑا پاس نہ تھا۔ اس نے چاہا، پانی کا چھینٹا ہی دے دے، لیکن لوٹے کے پانی میں ابھی ابھی اس نے آٹے والے ہاتھ دھوئے تھے۔ دودھ ابل رہا تھا اور جلی ہوئی جھاگ کی بو کمرے میں پھیلنے لگی تھی۔ اندر اس کے مالک اور مالکن آپس میں آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے۔ بے بسی کے اس لمحے میں چندن کے بڑھے ہوئے ہاتھ اور آگے بڑھ گئے اور لحظہ بھر میں تپتی، جلتی پتیلی کھٹ سے فرش پر آگئی۔ چندن کی انگلیوں کی پوریں جل گئیں، ابلتا ہوا دودھ اس کے ہاتھوں پر گر گیا اور جلن کی وجہ سے اس کے ہونٹوں سے بےساختہ ایک ’سی‘ نکل گئی۔

پتیلی کو کھٹ سے فرش پر رکھتے ہوئے تھوڑا سا دودھ فرش پر بھی گر گیا تھا۔ اسی آٹے کے پانی سے اس نے اسے دھو ڈالا اور انگلیوں کی جلن کو جیسے جھٹک کر اتارتا ہوا وہ غسل خانے کی طرف بھاگا۔ پانی کی دھار کے نیچے ہاتھ رکھے رکھے اس نے سرکو ہلکا سا جھٹکا دیا اور مسکرایا۔ جب بھی کبھی اس سے کوئی بے وقوفی سرزد ہو جاتی تھی، وہ اسی طرح سر ہلاکر ہونٹوں کے بائیں کونے میں مسکرایا کرتا تھا اور ہونٹ کٹے ہونے کے باعث اس کے دانت دکھائی دینے لگتے تھے۔ بات یوں ہوئی کہ دودھ کو انگیٹھی پر رکھ کر وہ اپنے مالک اور مالکن کی باتیں سننے میں محو ہو گیا تھا۔ دن کافی چڑھ آیا تھا اور چندن نے دوپہر کے کھانے کے لیے آٹا تک گوندھ لیا تھا۔ لیکن وہ دونوں ابھی بستر ہی میں تھے اور کچھ ہی دیر پہلے اس کے مالک نے وہیں سے چندن کو چائے بنانے کا حکم دیا تھا۔

اس نے دودھ کی پتیلی کو انگیٹھی پر رکھ دیا تھا اور دروازے کی طرف کان لگائے اپنے مالک اور مالکن کی باتیں سننے لگا تھا۔ جب سے اس کے مالک کی شادی ہوئی تھی وہ دیر سے اٹھتا تھا۔ اس سے پہلے وہ علی الصبح اٹھنے کا عادی تھا۔ نور کے تڑکے اٹھ کر وہ چندن کو اٹھاتا۔ مالش کرواتا۔ ورزش کرتا۔ بارہا سیر کو بھی جاتا۔ لیکن اب وہ اپنی اس نئی بیوی کے ساتھ دن چڑھے تک سویا رہتا۔ جب جاگتا تو وہیں لیٹے لیٹے اسے چائے بنانے کا حکم دے کر عرصہ تک بیوی سے باتیں کرنے میں مصروف رہتا۔ چندن کو ان باتوں میں رس آنے لگا تھا۔ وہ بستر پر لیٹے لیٹے آہستہ آہستہ باتیں کر رہے ہوتے، وہ بیٹھا انہیں سننے کی کوشش کیا کرتا۔ آنچ کی تیزی کے باعث پتیلی میں دودھ بے طرح بل کھا رہا تھا اور چندن اس طرف سے بے خبر ہمہ تن گوش اپنے مالک اور مالکن کی باتیں سننے کی کوشش میں مصروف تھا۔

’’میں مجبور ہو جاتا ہوں۔ تمہارے گال ہی ایسے ہیں۔۔۔‘‘

- Advertisement -

’’آپ کے ہاتھوں کا تو کوئی قصور نہیں۔‘‘

’’اتنے اچھے ہیں تمہارے گال کہ۔۔۔‘‘

’’جلنے لگے ہیں آپ کی چپتوں سے۔‘‘

’’لو میں انہیں ٹھنڈا کر دیتا ہوں۔‘‘

اور چندن کو ایسا محسوس ہوا، جیسے نرم و نازک پھول ریشم کے فرش پر جا پڑا ہو۔ تصور ہی تصور میں اس نے دیکھا کہ اس کے مالک نے اپنے ہونٹ اپنی بیوی کے گالوں سے چپکا دیے ہیں۔ وہیں بیٹھے بیٹھے اس کا جسم گرم ہونے لگا۔ اس کے اعضا تن گئے اور تصور ہی تصور میں اپنے مالک کی جگہ اس نے لے لی۔ ہاتھ دھوکر اس نے سر کو پھر جھٹکا دیا اور ہونٹوں کے بائیں کونے سے مسکراتا ہوا وہ اندر گودام میں گیا۔ اس نے ذرا سا سرسوں کا تیل لے کر اپنے ہاتھوں کی میلی، سیاہ جلتی ہوئی پشت پر اس جگہ لگایا جہاں جلن ہو رہی تھیں۔ پھر جاکر وہ باورچی خانے میں بیٹھ گیا اور اس نے چائے کی کیتلی انگیٹھی پر رکھ دی۔ لیکن ہاتھ جلانے اور اپنی اس محویت پر دوبارہ سر ہلاکر مسکرانے کے باوجود اس کے کان پھر کمرے کی طرف جا لگے اور اس کا تصور اپنی تمام یکسوئی کے ساتھ اس کے سامعہ کی مدد پر ہو گیا اور اس کی آنکھوں کے سامنے پھر کئی تصویریں بننے اور مٹنے لگیں۔

’’چندن!‘‘ اس کے آقا نے چیخ کر آواز دی اور پھر کہا، ’’وہیں مر گیا کیا؟‘‘ آقا کی آواز سن کر وہ چونکا۔ جلد جلد چائے اور توس تیار کر کے اندر لے گیا۔ اس کی مالکن اور مالک حسب دستور بستر پر پڑے تھے۔ وہ دونوں ہم آغوش تو نہ تھے، لیکن پھر بھی دونوں ایک دوسرے سے لگے، تکیے کے سہارے لیٹے ہوئے تھے۔ لحاف ان دونوں کے سینے تک تھا اور مالک کا بازو ابھی تک مالکن کی گردن کے نیچے تھا۔

’’ادھر رکھ دو!‘‘

چندن نے ٹرے تپائی پر رکھ دی۔ ایک نظر دیکھ کر مالک نے کہا، ’’تمہیں ہو کیا گیا ہے؟ دودھ کا جگ کہاں ہے؟‘‘

’’جی ابھی لایا۔‘‘ اور سر کو ایک بار جھٹکا دے کر ہونٹوں کے بائیں کونے سے مسکراتا ہوا وہ رسوئی گھر کی طرف بھاگا۔ دوسرے لمحے اس نے دودھ کا برتن لاکر رکھ دیا۔ لیکن اسے پھر گالیاں سننا پڑیں۔ کیونکہ دوبارہ دیکھنے پر مالک کو معلوم ہوا کہ چھلنی بھی نہیں ہے۔ چندن نے چھلنی لاکر رکھ دی اور لمحے بھر کے لیے وہیں کھڑا رہا۔ اس کی دبی ہوئی نگاہ اپنی مالکن کے چہرے پر جا پڑی۔۔۔ خوبصورت لمبے کھلے بالوں کی لٹیں اس کی گوری پیشانی پر بکھری ہوئی تھیں۔ ہونٹ سوکھے ہونے کے باوجود گیلے گیلے تھے۔ مسکراتی سی آنکھوں میں خمار کی باریک سی لکیر تھی اور چہرے پر ہلکا سا اضمحلال چھایا ہوا تھا۔ اس کے مالک نے بڑے پیار سے کہا، ’’چائے بنا دو نا جان!‘‘ لیکن جان نے روٹھے ہوئے کروٹ بدل لی۔

’’میں کہتا ہوں چائے نہ پیوگی۔‘‘ اسے مناتے ہوئے مالک نے کہا۔

’’مجھے نہیں پینی چائے۔‘‘ گال کو مسلتے ہوئے ہوئے مالکن نے جواب دیا۔ گردن کے نیچے کا بازو اٹھا اور مالکن اپنے مالک کی آغوش میں بھنچ گئی۔

’’کیا کرتے ہو شرم نہیں آتی۔‘‘ چندن کا دل دھک دھک کرنے لگا اور اس کے مالک کا قہقہہ کمرے میں گونج اٹھا۔

’’اٹھو نا بنا دو چائے۔‘‘ مالک نے بڑی ملائمت سے ہاتھ کو ڈھیلا چھوڑتے ہوئے کہا، ’’تمہارے گال ہی ایسے پیارے ہیں کہ خواہ مخواہ ان پر چپتیں لگانے کو جی چاہتا ہے۔‘‘ تڑپ کر مالکن نے پھر کروٹ بدل لی۔

’’چندن تم بناؤ چائے۔‘‘ شدتِ احساس سے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے چندن نے چائے کی پیالی بنائی۔ پیالی اٹھاکر اپنی جان کو آغوش میں بھینچے ہوئے اس کے مالک نے پیالی اس کے ہونٹوں سے لگا دی۔ یہ ’جان‘ کالفظ تھا، یا اس کے مالک کا، اس کے سامنے بیوی کو آغوش میں لینے کا طریقہ کہ جب دوپہر کو چندن کام کاج سے فارغ ہوکر اپنی کوٹھری میں جا لیٹا تو اس کے سامنے زہرہ جان کی تصویر کھینچ گئی اور اس نے اضطراری طور پر سرسوں کے تیل اور مٹی میں سنے ہوئے بے غلاف کے خستہ اور بوسیدہ تکئے کو اپنی آغوش میں بھینچ لیا۔

اچانک ابل کر اوپر آ جانے والے دودھ کی طرح، نہ جانے زہرہ کی یہ تصویر کس طرح اس کے بچپن کے گہرے دبے غاروں سے نکل کر اس کے سامنے آ گئی۔۔۔ وہی بوٹا سا قد۔ بھرا بھرا سا گداز جسم۔ بڑی بڑی چنچل آنکھیں۔ پان کی لالی سے رنگے ہونٹ۔ بھرے کولہے۔ وہی سینے کا ابھار اور وہی مسکراہٹ جس کے منبع کا پتہ ہی نہ چلتا تھا کہ آیا پہلے اس کی آنکھوں میں شروع ہوتی ہے یا ہونٹوں پر۔ وہ اس وقت بہت چھوٹا تھا اور ماں باپ کے مر جانے کی وجہ سے اپنی موسی کے پاس رہا کرتا تھا۔ اس کی یہ موسی ایک سیٹھ کے بچوں کی دایہ تھی۔ یہ سیٹھ چاوڑی بازار میں گراموفون اور دوسرے سازوں کی دکان کرتا تھا۔ اسی دکان کے ساتھ زہرہ کا چوبارہ تھا اور سیٹھ کی دکان کے باجے آہستہ آہستہ چاندی کے سکے بن بن کر وہاں پہنچا کرتے تھے۔

چندن اپنے بڑے بھائی اور پنڈت جی کے بڑے لڑکے کے ساتھ کبھی کبھی زہرہ کے چوبارے پر چلا جاتا تھا۔ زہرہ پنڈت جی کے لڑکے کو پیار کیا کرتی تھی۔ مٹھائی وغیرہ دیتی تھی اور اس کا کچھ جوٹھا حصہ ان دونوں بھائیوں کو بھی ملا کرتا تھا۔ کئی بار وہ دوسرے بچوں کے ساتھ چوبارے کے باہر آنگن میں کھیل رہا ہوتا اور سیٹھ جی زہرہ کے پاس جا بیٹھتے۔ اسے آغوش میں لے لیتے یا اس کے زانوؤں پر سر رکھ کر لیٹ جاتے۔ اس کی یہ مالکن بھی تو زہرہ سے ملتی جلتی تھی۔ ویسا ہی بوٹا سا قد۔ ویسے ہی بھرے بھرے کولہے۔ امڈی ہوئی چھاتیاں۔ گول گول رس بھرے گال۔ بڑی بڑی آنکھیں اور گیلے ہونٹ۔۔۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس ایک لمحہ میں مالک کے پہلو میں اسے لیٹے ہوئے دیکھ کر ہی اسے زہرہ کی یاد نہ آ گئی ہوتی۔

تصور ہی تصور میں چندن زہرہ کے بالا خانے پر پہنچ کر سیٹھ کی طرح اس کے زانوؤں پر لیٹ گیا اور زہرہ پیار سے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔۔۔ وہ بھول گیا کہ اس کے ٹخنوں تک میل چڑھی ہوئی ہے۔ خشکی کے باعث ٹانگوں کی جلد گھٹنوں تک پپڑی سی بن گئی ہے۔ اس کا نیلا نکر، جو اس کے مالک نے مدت ہوئی دیا تھا، میل سے کالا ہو گیا ہے۔ اس کی قمیض کئی جگہ سے پھٹی ہوئی ہے۔ اس کے سانولے ماتھے پر چوٹ کا ایک نہایت بدنما داغ ہے۔ اس کا نچلا ہونٹ کٹا ہوا ہے اور اس کے سرکے بال چھوٹے چھوٹے، کھڑے کھڑے اور روکھے ہیں۔۔۔ وہ مست لیٹا رہا اور زہرہ اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرتی رہی۔۔۔ وہیں اس کے زانوؤں پر لیٹے لیٹے اس نے کروٹ بدلی اور پیار سے کہنا چاہا، ’’زہرہ تم کتنی اچھی ہو۔۔۔‘‘ لیکن اس کی کمر میں کوئی سخت سی چیز چبھی اور اس وقت اسے معلوم ہوا کہ وہ ننگے فرش پر لیٹا ہوا ہے۔ وہ چیز جس پر اس کا سر رکھا ہے زہرہ کا زانو نہیں بلکہ ایک بوسیدہ سڑا گلا تکیہ ہے۔

چندن نے سر کو جھٹکا دیا، لیکن وہ مسکرایا نہیں۔ اٹھ کر دیوار کے ساتھ پیٹھ لگا کر بیٹھ گیا۔ بیٹھے بیٹھے اس کی آنکھوں کے سامنے پچھلے کئی برس اڑتے ہوئے سے گزر گئے۔ سیٹھ جی تو اپنی سب جائداد چوباروں کے حسن کی نذر کرکے اپنے نانا کے گاؤں چلے گئے تھے، جو وسط پنجاب میں کہیں اپنی سادگی، غلاظت اور ناخواندگی کی گود میں لیٹا ہوا تھا۔ چندن کی موسی الور اپنے گاؤں چلی گئی تھی اور چندن اس چھوٹی عمر ہی میں تین روپے ماہوار پر ان سیٹھ صاحب کے ایک دوست کے ہاں نوکر ہو گیا تھا۔ اس کے بعد اس کی زندگی اس کمبل کی طرح تھی جسے ایک جگہ سے رفو کیا جائے تو دوسری جگہ سے پھٹ جائے، دوسری جگہ سے سیا جائے تو تیسری جگہ سے چاک ہو جائے۔ اپنے اس مالک کے ہاں پہنچ کر اس نے سکھ کا سانس لیا تھا۔۔۔ اور محسوس کیا تھا کہ ایسا زندہ دل، خوش مزاج۔۔۔ اور کھلی طبیعت کا مالک گزشتہ بارہ سال کی نوکری میں اسے نہیں ملا۔ لیکن اس کے مالک کی یہ کھلی طبیعت اس کے لیے مصیبت بن گئی تھی۔ اس کا مالک اس کے سامنے ہی اپنی بیوی کو پیار کرنے میں ذرا بھی نہ جھجکتا تھا۔ جیسے چندن گوشت پوست کا انسان نہ ہوا مٹی کا لوندا ہو۔

چندن نے سوچا اس شادی سے پہلے وہ کتنے اطمینان سے رہتا تھا۔ یہ بے چینی سی، یہ گرمی گرمی سی، یہ اعضاء کا تناؤ سا، یہ شب بیداری سی، اس نے کبھی محسوس نہ کی تھی۔ پہلے وہ سوتا تھا تو اسے دین دنیا کا ہوش نہ رہتا تھا۔ لیکن جب سے اس کے مالک نے شادی کی تھی اور اس کی یہ نئی مالکن آئی تھی، اس کی نیند اڑ سی گئی تھی۔ اسے عجیب عجیب طرح کے خواب آتے تھے۔۔۔ رات اس نے کاسنی کو دیکھا تھا۔ کاسنی اس کے پہلے مالک کی لڑکی تھی۔ کچی ناشپاتیوں کی سی اس کی چھاتیاں تھیں۔ ٹخنوں سے اونچا لہنگا اور بنڈی پہنے وہ ننگے سر گھوما کرتی تھی۔ یہی لڑکی خواب میں اس کے ساتھ آلیٹی تھی کیسے؟ کہاں؟ اسے کچھ یاد نہیں، لیکن وہ جاگ اٹھا تھا۔ اس کا جسم گرم تھا۔ اس کے اعصاب تنے ہوئے تھے۔ اسے پسینہ آ گیا تھا۔۔۔ پھر وہ سونہ سکا تھا۔ کچھ بھی سمجھ میں نہ آنے سے اپنی بیوقوفی پر اس نے سر ہلایا، لیکن وہ مسکرایا نہیں۔ اس کامالک دفتر گیا ہوا تھا۔ مالکن اندر کمرے میں گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔ وہ اٹھا اور پڑوس میں رائے صاحب کے نوکر بیٹھو کی کوٹھری کی طرف چل پڑا۔

چیت کی پورنماشی کا چاند بڑکے پیچھے سے آہستہ آہستہ نکل رہا تھا۔ نوعمر کیکری کے پتے اس کی کرنوں کے لمس سے چمک اٹھے تھے۔ چندن آہستہ آہستہ اپنی کوٹھری سے نکلا۔ سامنے کوٹھی کے پورچ پر پھیلے ہوئے ووگن بیلیا کے سرخ گل اناری پھول چاندنی میں ہلکے سیاہی مائل معلوم ہوتے تھے۔ ایک طرف گل مور کا پرانا درخت جس کا تنا پارسال درمیان میں سے کاٹ دیا گیا تھا اپنی چند ایک شاخوں کے سروں پر پتوں اور پھولوں کے گچھے لیے جھوم رہا تھا۔ دور سے یہ گچھے بادلوں کے ننھے ننھے پارے سے معلوم ہوتے تھے۔ ککروندے اور کرنے کے پھولوں کی خوشبو فضا میں بسی ہوئی تھی۔ اگرچہ ابھی تک وہ سب اندر کمرے میں سوتے تھے، لیکن آمد بہار کے باعث سردی زیادہ نہ رہی تھی۔ چندن ایک عالم محویت میں گوندنی کے درخت کے پاس جاکھڑا ہوا۔ اس نے بے خیالی میں ایک دو ننھی ننھی گوندنیاں توڑ کر منھ میں ڈال لیں۔ پوری طرح پکی نہ تھیں۔ اس کا منھ بے مزہ ہو گیا۔ ایک لمحہ تک وہ شش و پنج کی سی حالت میں وہیں کھڑا رہا۔ پھر وہ برآمدے میں گیا اور اس نے بڑی احتیاط سے دیوان خانے کا دروازہ کھولا۔

سونے کا کمرہ مردانے کے ساتھ ہی تھا اور دیوان خانہ عام طور پر کھلا رہتا تھا۔ اس کا ایک دروازہ وہ باہر سے بند کر لیا کرتا تھا اور ایک اس کے مالک اندر سے بند کر لیتے تھے۔ اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا۔ مالک کے سونے کے کمرے میں ہلکی سی روشنی تھی۔ اس کا عکس دروازے کے شیشے پر پڑا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے گدلی روشنی کا برش دروازے کے شیشوں پر پھیر دیا ہو۔ آہستہ آہستہ دری پر پاؤں رکھتا ہوا چندن بڑھا اور جاکر دروازے کے ساتھ پنجوں کے بل کھڑا ہو گیا۔ اندر چھت میں لال رنگ کا بلب روشن تھا۔ اس کی مدھم روشنی میں وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑکر دیکھنے لگا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے میں وہ بھاگا۔ اس کا جسم گرم ہونے لگا تھا۔ اعصا تننے لگے تھے۔ اس کا گلا اور ہونٹ خشک ہو گئے تھے اور اس کی نسوں میں جیسے دودھ ابلنے لگا تھا۔ پنجوں کے بل بھاگ کر وہ باہر آیا۔ آہستہ سے اس نے دروازہ بند کیا اور باہر چاندنی میں آ کھڑا ہوا۔ سامنے گل مور کا تنا کھڑا تھا۔ اس کے جی میں آئی کہ اپنے سینے کی ایک ہی ضرب سے وہ تنے کو گرا دے۔

کوٹھی کے سامنے لان میں فوارے کے گرد سرمئی مائل پیلے پیلے پھولوں کے بےشمار پودے لہرا رہے تھے، جن کے چوڑے چوڑے پتوں پر پانی کی بوندیں پھسل پڑا کرتی تھیں۔ ککردندے کی خوشبو اور بھی تیکھی ہوکر فضا میں بس گئی تھی۔ چندن نے جاکر فوارے کی ٹونٹی گھما دی۔ پھرر پھرر ایک میٹھی سی پھوہار اس پر پڑنے لگی۔ وہ جیٹھو کے ہاں کیوں گیا؟ وہ سوچنے لگا۔۔۔ دوپہر کے وقت ارد گرد کی کوٹھیوں کے نوکر جیٹھوں کی کوٹھری میں جمع ہوتے تھے۔ کبھی تاش کھیلتے کبھی چوسر کی بازی لگاتے۔ کبھی اپنے اپنے مالکوں اور مالکنوں کی نقلیں اتارتے۔ کبھی کبھار جیٹھو اپنے چچا سے ایک پرانا گراموفون مانگ لاتا جو اس نے کبھی ایک کباڑی کی کلیرنگ سیل میں خریدا تھا۔ اس کی آواز ایسی تھی جیسے اسہال کا مریض بچہ رریا رہا ہو۔ لیکن وہ سب مزے سے اس پر گوری تیرے گورے گال پہ، یا ’تو سے لاگی نجر پارئے ‘ سنا کرتے۔ حال ہی میں جیٹھو چارلی کا ایک نیا ریکارڈ لے آیا تھا اور دوپہر اس کی کوٹھری میں تیری نظر نے مارا۔۔۔ تیری نظر نے مارا۔۔۔ ایک۔ دو۔ تین چار۔ پانچ چھ۔ سات آٹھ۔ نو دس گیارہ۔۔۔ تیری نظر نے مارا۔۔۔ ہوتا رہتا۔ لیکن چندن کبھی ادھر نہ گیا تھا۔ اسے وقت ہی نہ ملتا تھا۔ صبح سویرے ہی اس کا مالک اسے جگا دیا کرتا تھا۔ وہ اس کے مالش کرتا۔ اس کے لیے نہانے کا پانی تیار کرتا۔ چائے بناتا۔ اس کے دفتر چلے جانے کے بعد دوپہر کے کھانے کا انتظام کرتا۔ کھانا بناکر دفتر لے جاتا۔ آکر نہاتا، کھاتا اور سوجاتا۔۔۔ ایسی گہری نیند سوتا کہ بارہا غروب آفتاب تک سوتا رہتا اور اس کے مالک کو ٹھوکریں مار مار کر اسے جگانا پڑتا۔ لیکن آج اپنی بےخوابی سے ہار کر جب وہ دوپہر کو جیٹھو کی کوٹھری میں گیا تو اس نے ایسی باتیں سنیں کہ اس کی رہی سہی نیند بھی حرام ہو گئی۔

پھوہار کے پڑتے ہی اس کے جسم میں جھرجھری سی اٹھی، وہ ذرا چونکا۔ کہیں اسے بخار تو نہیں ہوگیا۔ رت بدل رہی ہے اور وہ پانی کے نیچے کھڑا بھیگ رہا ہے۔ اگر اسے نمونیا ہو گیا تو! اس نے سر کو ایک بار جھٹکا دیا لیکن مسکرایا نہیں اور فوارے کو کھلا چھوڑ کر ہی اپنی کوٹھری میں جاکر لیٹ گیا۔ لیکن جلد ہی اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس کا سر بھاری بھاری تھا۔ جسم پر بخار کی سی کیفیت طاری تھی اور آنکھیں کچھ ابلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ اس نے پھر ایک خواب دیکھا تھا۔ کچی ناشپاتیوں کے گچھے اس کے سر کے گرد گھوم رہے ہیں۔ وہ ایک ویران سے مکان میں کھڑا انہیں پکڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاس ہی پانی کا نل چل رہا ہے اور اس کے پاس ایک بچہ کھڑا چلا چلاکر کہہ رہا ہے ’میرا کھلونا مت توڑو، میرا کھلونا مت توڑو!‘ وہ سر اٹھاکر ادھر دیکھتا ہے۔ وہ بچہ کا سنی بن جاتا ہے اور وہ سنتا ہے، ’میری ناشپاتیاں مت توڑو۔ میری ناشپاتیاں۔۔۔‘

چندن پاگلوں کی طرح اٹھا۔ جیٹھو کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج گئے۔ اس نے کرتا پہنا۔ مٹی کے ایک پرانے میلے کوزے میں سے خستہ سا بٹوا نکال کر جیب میں رکھا۔ کوٹھری کو کنڈی لگائی اور آہستہ آہستہ کوٹھی سے باہر نکل گیا۔ چاندنی ایک وسیع شامیانے کی طرح پریڈ گراؤنڈ پر پھیلی ہوئی تھی اور سڑکوں کے نیم جیسے اس شامیانے کو تھامے کھڑے تھے۔ ان کے گھنے پتوں میں سے بجلی کے قمقے ٹمٹما اٹھتے تھے اور دور سے دیکھنے پر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ان درختوں کے پرے کوئی الاؤ جل رہا ہو۔ چندن کوئن میری روڈ پر ہو لیا۔ دائیں طرف کوٹھی سے ککروندے، کرنے، گل شیو اور مولسری کی ملی جلی مہک کا ایک جھونکا آیا اور سڑک پر درختوں کے نیچے بچھے ہوئے روشنی اور سائے کے جال ہلے۔

تیس ہزاری کے چورستے پر وہ رکا کہ شاید کوئی ٹریم آتی ہوئی مل جائے۔ لیکن شاید گیارہ کبھی کے بچ چکے تھے۔ سڑک بالکل سنسان تھی۔ گندگی کی ایک گاڑی عفونت پھیلاتی ہوئی اس کے پاس سے گزر گئی۔ چندن کا دماغ بھنا گیا۔ بھاگ کر وہ مٹھائی کے پل پر ہو لیا۔ جس چبوترے پر سپاہی کھڑا رہتا ہے وہ ٹوٹا ہوا تھا۔ شاید کسی موٹر والے نے سپاہی کی کرختگی کا بدلہ اس معصوم چبوترے سے لیا تھا۔ پل پر بالکل سناٹا تھا۔ اوپر چاند چمک رہا تھا اور پل کے نیچے گہرائی اور تاریکی میں ریل کی لائنیں اور سامنے کچھ دور لال سگنل چپ چاپ ٹمٹما رہے تھے۔ چندن پل کی دیوار کے ساتھ سر لگائے لمحہ بھر تک مبہوت ساکت ان ناگنوں سی لائنوں اور ان ٹمٹماتے ہوئے سگنلوں کو دیکھتا رہا۔ پھر وہ آگے چل پڑا۔

سڑک بالکل سنسان تھی۔ دونوں طرف کی دوکانیں بند تھیں اور پٹری پر کہیں کہیں میلے سے لحاف لیے دکاندار سوئے ہوئے تھے۔۔۔ میلی کچیلی دھوتیوں میں ان کے زرد زرد اعضا پورن ماشی کے چاند کی اس روشنی میں صاف دکھائی دے رہے تھے۔ تیلی باڑے کے سامنے پٹری پر ایک ٹوٹا ہوا تانگہ پڑا تھا اور کوڑا اٹھانے والی دو تین خالی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ بائیں طرف دور تک ایک سفید سی دیوار چلی جاتی تھی، جس کے پیچھے کبھی کسی گاڑی کے تیز تیز گزرنے کی آواز آ جاتی تھی اور دائیں طرف دکانوں کے باہر کہیں بانسوں کے گٹھے پڑے تھے۔ کہیں چارپائیاں اور کہیں لکڑی کی خالی پیٹیاں!

چندن چپ چاپ اپنے خیالات میں محو قطب روڈ کے چورستے پر آ گیا۔ صدر بازار بالکل بند ہو چکا تھا۔ صرف کونے کے حلوائی کی دکان کھلی تھی۔ چندن کی بھڑکی ہوئی طبیعت یہاں تک آتے قریب قریب ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ صرف اس کے دل میں ایک ہلکا سا اشتیاق کا جذبہ موجود تھا اور اسی کے ماتحت اس نے حلوائی کی دکان سے آدھ سیر گرم گرم دودھ پیا۔ پھر جیسے ایک نئی امنگ پاکر وہ اور آگے بڑھا۔ دونوں طرف کی دکانیں بند تھیں۔ بائیں طرف کے ماشاء اللہ ہوٹل میں ہوٹل کا ایک ملازم بیٹھا روٹی کھا رہاتھا۔ دائیں بائیں کہیں کہیں کسی پنواڑی یا حجام کی دکان کھلی تھی۔ ایک دکان میں ایک مزدور (جسے دن میں شاید فرصت نہ ملتی تھی) بیٹھا سر پر استرا پھروا رہا تھا۔

کاٹھ بازار کے سرے پر چندن ایک لمحہ کے لیے رکا، تانگوں کے ٹوے پر ایک دو تانگے والے ابھی گھوم رہے تھے۔ تانگہ شیڈ کے عین اوپر چاند چمک رہا تھا اور اس چاندنی میں گرد اور دھوئیں کا ہلکا سا غبار بھی ملا ہوا تھا۔ وہ کاٹھ بازار میں داخل ہوا اور حیران سا ایک چوبارے کی طرف دیکھنے لگا جس میں گیس کی روشنی کے سامنے ایک خوبصورت لڑکی بیٹھی تھی۔ چندن کی مری ہوئی امنگ پھر جاگ اٹھی۔ لیکن یہاں ابھی تک کئی آدمی کھڑے تھے۔ اتنے آدمیوں کے سامنے اتنی روشنی میں اس کے لیے معاملہ کی بات کرنا مشکل تھا۔ اس نے نیچے کی کوٹھریوں کی طرف دیکھا۔ ہر کوٹھری کے آگے ایک لیمپ لٹک رہا تھا اور ایک عورت کھڑی یا بیٹھی تھی۔ کبھی کبھی کسی کوٹھری کا دروازہ بند ہو جاتا اور کسی شخص کے پیچھے لیمپ اٹھائے اس کوٹھری کی عورت ایک میلے سے پردے کے اندر چلی جاتی تھی۔ لمحہ بھر کے لیے ابھری ہوئی امنگ چندن کو پھر ڈوبتی ہوئی محسوس ہوتی۔ وہ ذرا آگے بڑھ کر ایک لوہے کی کرسی پر بیٹھ گیا، جو عین چوک میں بچھی ہوئی تھی اور جس کے پاس ایک میز پر رنگ برنگی بوتلیں رکھے ایک دوچمپی کرنے والے بیٹھے تھے۔

’’چمپی کراؤگے؟‘‘ چندن نے غیرارادی طور پر سر ہلا دیا۔ پاس ہی ایک اور ایسی دکان تھی اور اس کے ساتھ بچھے ہوئے بنچ پر ایک شخص بیٹھا چمپی کروا رہا ہے۔ اس کے پرے ایک لمبے برآمدے میں اپنی اپنی کوٹھریوں کے سامنے عورتیں کھڑی اپنے گاہکوں کو بلا رہی تھیں۔ تھک جانے یا سینے کا ابھار دکھانے کے خیال سے انہوں نے چھت سے رسیاں لٹکا رکھی تھیں، جن کے سہارے وہ کھڑی تھیں۔ چندن کے سر میں تیل کے گرنے سے بجلی کی سی سراہٹ ہوئی اور پھر حجام لڑکا چمپی کرنے لگا۔ چمپی کرنے کے بعد اس نے چندن کی پیشانی اور گردن کو ایک میلے سے تولیے سے پونچھ کر اس کے بال بنا دیے۔

چندن جب وہاں سے اٹھا تو اسے ناک میں سستے خوشبودار تیل کی تیکھی سی بو آ رہی تھی اور اس کی امنگ پھر جیسے بیدار ہو گئی تھی۔ چوک چھوڑ کر وہ ایک گلی میں ہو گیا۔ یہاں لوگ کم تھے اور روشنی بھی اتنی زیادہ نہ تھی۔ وہ ایک گلی کے دوسرے سرے تک جاکر مڑ آیا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ کیسے بات چیت شروع کرے۔ وہ تو ان سے آنکھیں بھی نہ ملا سکتا تھا۔ محض خیال ہی سے اس کا دل دھک دھک کرنے لگتا تھا۔ اس نے سوچا واپس چلا جائے۔ اسے جیٹھو کے ساتھ آنا چاہیے تھا۔ اس نے فیصلہ کیاکہ گلی میں سے ہوتا ہوا دوسری طرف سے نکل جائےگا۔ مگر اتنی دور آکر وہ یوں ہی واپس جانا بھی نہ چاہتا تھا۔ اسی وقت ایک کوٹھری کے آگے قدرے اندھیرے میں بیٹھی ہوئی ایک موٹی سی تھل تھل پل پل عورت نے اس کی مشکل حل کر دی۔ اس کے پاس دو چھوٹی چھوٹی لڑکیاں فرش پر ہی دری بچھائے لیٹی ہوئی تھیں۔ بالکل کاسنی ہی کے سن کی۔

’’آؤ ادھر آؤ۔‘‘ پیار سے اس نے کہا۔ چندن بڑھا۔ سرگوشی میں اس نے کہا، ’’آؤ سوچتے کیا ہو۔ بارہ آنے لگیں گے۔‘‘ اشارہ اس کوٹھری کے سامنے کرسی پر بیٹھی ہوئی عورت کی طرف تھا، جو صرف ایک بنیان اور کالی ساڑی پہنے بیٹھی تھی۔ جس کی بغلوں کے بال تک نظر آتے تھے اور جس کی چھاتیاں مرجھائی ہوئی ککڑیوں کی طرح لٹک رہی تھیں۔ چندن نے اس کے پاس فرش پر آدھی لیٹی آدھی بیٹھی ہوئی لڑکی کی طرف حسرت بھری نظر سے دیکھا، جس کی ناک میں ایک چھوٹی سی نتھ تھی۔ سمجھ کر موٹی عورت نے کہا، ’’یہ تو ابھی چھوٹی ہے۔ یہ ابھی یہ باتیں کیا جانے۔‘‘ چندن کے دماغ میں کچی ناشپاتیاں گھوم گئیں۔ پھر کاسنی اور پھر کچی ناشپاتیاں اور موٹی عورت نے کہا، ’’دو روپے لگیں گے۔‘‘

چندن چپ رہا۔ وہ کہنا چاہتا تھا، ’’دو روپے بہت ہیں۔‘‘ تبھی موٹی عورت نے کہا، ’’اچھا تو ڈیڑھ روپیہ ہی دے دو۔ ابھی تو نتھ بھی نہیں اتری۔‘‘ چندن کی نسوں میں دودھ ابلنے لگا۔ اس کا جسم گرم ہونے لگا۔ دوسرے لمحے وہ اس میلے پردے کے اندر چلا گیا اور اس کے پیچھے اس لڑکی کو لیے ہوئے وہ موٹی عورت۔۔۔

ایک ہفتے بعد سر پر اپنا بوریا بستر اٹھائے چندن پورچ میں کھڑا تھا اور اندر کمرے میں اس کا مالک اپنی بیوی کو ہدایت دے رہا تھا، ’’میں ابھی ڈاکٹر کو بھیجتا ہوں۔ نہایت موذی مرض سہیڑ لیا سالے نے۔ سارے مکان کو ڈِس انفیکٹ کرا لینا۔ سب جگہ تو جاتا رہا ہے کمبخت!‘‘

اور چندن بے بسی کی حالت میں کھڑا سوچ رہا تھا۔ لیکن لڑکی کی عمر تو تیرہ سال کی بھی نہ ہوگی اور اس کی تو ابھی تک نتھ بھی نہ اتری تھی۔

مأخذ : ٹیرس پر بیٹھی شام

مصنف:اوپندر ناتھ اشک

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here