پھاتو

0
156
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’محبت کی اثر پذیری کو اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ میاں صاحب کو بخار کی حالت میں اپنی ملازمہ پھاتو سے محبت ہو جاتی ہے۔ پھاتو اپنے محلے میں کافی بدنام ہے لیکن اس کے باوجود میاں صاحب خود پر قابو نہیں کر پاتے اور ایک مہینے بعد اسے گھر سے لے کر فرار ہو جاتے ہیں۔‘‘

تیز بخار کی حالت میں اسے اپنی چھاتی پر کوئی ٹھنڈی چیز رینگتی محسوس ہوئی۔ اس کے خیالات کاسلسلہ ٹوٹ گیا۔ جب وہ مکمل طور پر بیدار ہوا تو اس کا چہرہ بخار کی شدت کے باعث تمتما رہا تھا۔ اس نے آنکھیں کھولیں اور دیکھا پھاتوفرش پر بیٹھی، پانی میں کپڑا بھگو کر اس کے ماتھے پر لگا رہی ہے۔

جب پھاتو نے اس کے ماتھے سے کپڑا اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اس نے اسے پکڑ لیا۔ اور اپنے سینے پر رکھ کر ہولے ہولے پیار سے اپنا ہاتھ اس پر پھیرنا شروع کردیا۔

اس کی سرخ آنکھیں دو انگارے بن کر دیر تک پھاتو کو دیکھتی رہیں۔ وہ اس دہکتی ہوئی ٹکٹکی کی تاب نہ لاسکی اورہاتھ چھڑا کر اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔ اس پر وہ اٹھ کر بستر میں بیٹھ گیا۔۔۔ پھاتو سے،جس کا اصل نام فاطمہ تھا، اس کو غیرمحسوس طور پر محبت ہوگئی تھی ،حالانکہ وہ جانتا تھا کہ وہ کردارو اطوار کی اچھی نہیں۔۔۔ محلے میں جتنے لونڈے ہیں اس سے عشق لڑا چکے ہیں۔ لیکن یہ سب جانتے ہوئے بھی اس کو پھاتو سے محبت ہوگئی تھی۔

وہ اگر بخار میں مبتلا نہ ہوتا تو یقیناًاس سے اپنے اس جذبے کا اظہار کبھی نہ کیا ہوتا۔۔۔ مگر تیز بخار کے باعث اس کو اپنے دل و دماغ پر کوئی اختیار نہیں رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اونچی آواز میں پھاتو کو پکارنا شروع کیا۔ ’’ادھر آؤ۔۔۔ میری طرف دیکھو۔ جانتی ہو، میں تمہاری محبت میں گرفتار ہوں،بہت بری طرح تمہاری محبت میں گرفتار ہوں۔۔۔ اس طرح تمہاری محبت میں پھنس گیا ہوںجیسے کوئی دلدل میں پھنس جائے۔ میں جانتاہوں تم کیا ہو۔۔۔ میں جانتا ہوں تم اس قابل نہیں ہو کہ تم سے محبت کی جائے۔ مگر یہ سب کچھ جانتے بوجھتے تم سے محبت کرتا ہوں۔ لعنت ہو مجھ پر۔ لیکن چھوڑو ان باتوں کو۔۔۔ اور میری طرف دیکھو، میں بخار کے علاوہ تمہاری محبت میں بھی پھنکا جارہاہوں۔ پھاتو۔۔۔ پھاتو۔۔۔ میں۔۔۔ میں‘‘ اس کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا اور اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہوگئی۔ اس نے ڈاکٹر مکند لال بھاٹیہ سے کونین کے نقصانات پر بحث شروع کردی۔

- Advertisement -

چند لمحات کے بعد وہ اپنی ماں سے جو وہاں موجودنہیں تھی، مخاطب ہوا، ’’بی بی جی میرے دماغ میں بے شمار خیالات آ رہے ہیں۔ آپ حیران کیوں ہوتی ہیں۔ مجھے پھاتو سے محبت ہے، اسی پھاتو سے جو ہمارے پڑوس میں پنج بندوں کے ہاں ملازم تھی اور جواب آپ کی ملازم ہے۔ آپ نہیں جانتیں اس لڑکی نے مجھے کتنا ذلیل کرادیا ہے۔ یہ محبت نہیں خسرہ ہے،نہیں خسرے سے بڑھ چڑھ کر۔ اس کاکوئی علاج نہیں۔ مجھے تمام ذلتیں برداشت کرنی ہوں گی۔ ساری گلی کاکوڑا کرکٹ اپنے سر پر اٹھانا ہوگا۔ یہ سب کچھ ہوکے رہے گا، یہ سب کچھ ہوکے رہے گا۔‘‘

آہستہ آہستہ اس کی آواز کمزور ہوتی گئی اور اس پرغنودگی طاری ہوگئی۔ اس کی آنکھیں نیم وا تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کی پلکوں پر بوجھ سا آن پڑا ہے۔ پھاتو پلنگ کے پاس فرش پر بیٹھی اس کی بے جوڑ ہذیانی گفتگو سنتی رہی۔ مگر اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ وہ ایسے بیماروں کی کئی مرتبہ تیمارداری کرچکی تھی۔

بخار کی حالت میں جب اس نے اپنی محبت کا اعتراف کیا تو پھاتو نے اس کے متعلق کیا محسوس کیا، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے کہ اس کا گوشت بھرا چہرہ جذبات سے بالکل عاری تھا۔ ممکن ہے کہ اس کے دل کے کسی گوشے میں ہلکی سی سرسراہٹ پیدا ہوئی ہومگر یہ چربی کی تہوں سے نکل کر باہر نہ آسکی۔

پھاتو نے رومال نچوڑ کر تازہ پانی میں بھگویا اور اس کے ماتھے پر رکھنے کے لیے اٹھی۔ اب کی بار اسے اس لیے اٹھنا پڑا کہ اس نے کروٹ بدلی تھی۔ جب اس نے آہستہ سے اُدھر سے مڑ کر اس کے ماتھے پر گیلا رومال جمایا تو اس کی نیم وا آنکھیں یوں کھلیں جیسے لال لال زخموں کے منہ ٹانکے ادھڑجانے سے کھل جاتے ہیں۔

اس نے ایک لمحے کے لیے پھاتو کے جھکے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا۔ اس کے گال تھوڑے سے نیچے لٹک آئے تھے۔ پھر ایک دم جانے اس پر کیا وحشت سوار ہوئی، اس نے پھاتو کو اپنے دونوں بازوؤں میں جکڑ کر اس زور سے اپنی چھاتی کے ساتھ بھینچا کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی کڑ کڑ بول اٹھی۔ پھر اس نے اس کو اپنی رانوں پر لٹا کر اس کے موٹے اور گدگدے ہونٹوں پر اس زور سے اپنے تپتے ہوئے ہونٹ پیوست کیے جیسے وہ انھیں داغنا چاہتاہے۔

اس کی گرفت اس قدر زبردست تھی کہ پھاتو کوشش کے باوجود خود کو آزاد نہ کرسکی۔ اس کے ہونٹ دیر تک اس کے ہونٹوں پر استری کرتے رہے۔ پھر اچانک ہانپتے ہوئے اس نے پھاتو کو ایک جھٹکے سے الگ کردیا اور اٹھ کر بستر میں یوں بیٹھ گیا جیسے اس نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا تھا۔

پھاتو ایک طرف سمٹ گئی۔ وہ سہم گئی تھی۔ اس کے لبوں پر ابھی تک اس کی پپڑی جمے ہونٹ سرک رہے تھے۔ جب پھاتو نے کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھا تو اس پر برس پڑا،’’ تم یہاں کیا کررہی ہو۔ تم بھوتنی ہو۔۔۔ ڈائن ہو۔۔۔ میرا کلیجہ نکال کر چبانا چاہتی ہو ۔۔۔ جاؤ۔۔۔ جاؤ۔۔۔‘‘

یہ کہتے کہتے اس نے اپنے وزنی سرکو دونوں ہاتھوں میں تھام لیاجیسے وہ گر پڑے گااور ہولے ہولے بڑبڑانے لگا، ’’پھاتو مجھے معاف کردو۔ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ میں بس صرف ایک بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ مجھے تم سے دیوانگی کی حدتک محبت ہے، اس لیے کہ تم سے محبت کی جائے، میں تم سے محبت کرتا ہوں اس لیے کہ تم نفرت کے قابل ہو۔۔۔ تم عورت نہیں ہو۔۔۔ ایک سالم مکان ہو۔ ایک بہت بڑی بلڈنگ ہو۔ مجھے تمہارے سب کمروں سے محبت ہے۔۔۔ اس لیے کہ وہ غلیظ ہیں۔۔۔شکستہ ہیں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں؟‘‘

پھاتو خاموش رہی۔اس پر ابھی تک اس آہنی گرفت اور اس کے خوفناک بو سے کا اثر موجود تھا۔ وہ اٹھ کر کمرے سے باہرجانے کا ارادہ ہی کررہی تھی کہ اس نے پھر ہذیانی کیفیت میں بڑبرانا شروع کردیا۔ پھاتو نے اس کی طرف دیکھا اور وہ کسی غیر مرئی آدمی سے باتیں کررہاتھا۔ بستر پر اس نے بڑی مشکل سے کروٹ بدلی، پھاتو کو اپنی سرخ سرخ آنکھوں سے دیکھا اور پوچھا،’’کیا کہہ رہی ہو تم؟‘‘

اس نے کچھ بھی نہیں کہا تھا، اس لیے وہ خاموش رہی۔

پھاتو کی خاموشی سے اسے خیال آیا کہ ہذیانی کیفیت میں وہ بے شمار باتیں کرچکا ہے۔ جب اس کو اس بات کا احساس ہوا کہ وہ اپنی محبت کااظہار بھی اس سے کرچکا ہے تو اسے اپنے آپ پر بے حد غصہ آیا۔ اسی غصے میں وہ پھاتو سے مخاطب ہوا۔

’’میں نے تم سے جو کچھ کہا تھا وہ بالکل غلط ہے۔۔۔ مجھے تم سے نفرت ہے۔ ‘‘

پھاتو نے صرف اتنا کہا ’’جی ٹھیک ہوگا۔‘‘

وہ کڑکا،’’صرف ٹھیک ہی نہیں۔۔۔ سو فیصد حقیقت ہے۔۔۔ مجھے تم سے سخت نفرت ہے۔ جاؤ ،چلی جاؤ میرے کمرے سے۔ خبر دار جو کبھی ادھر کا رخ کیا۔‘‘

پھاتو نے حسبِ معمول نرم لہجے میں جواب دیا،’’جی اچھا۔‘‘

یہ کہہ کر وہ جانے لگی کہ اس نے اسے روک لیا،’’ٹھہرو۔۔۔ ایک بات سنتی جاؤ۔‘‘

’’فرمائیے۔‘‘

’’نہیں مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔۔۔ تم جاسکتی ہو۔‘‘

پھاتو نے کہا،’’میں جاتو رہی تھی ،آپ نے خود مجھے روکا۔‘‘یہ کہہ اس نے برتن اُٹھائے اور کمرے سے نکلنے لگی۔ مگر اس نے پھر اسے آواز دے کر روکا۔

’’ٹھہرو۔۔۔ میں ایک بات تم سے کہنا بھول گیا ہوں۔‘‘

پھاتو نے برتن تپائی پر رکھے اور اس سے کہا،’’کیا بات ہے۔۔۔ بتادیجیے۔۔۔ مجھے اور کام کرنے ہیں۔‘‘

وہ سوچنے لگا کہ اس نے پھاتو کو روکا کیوں تھا۔۔۔ اسے اس سے ایسی کون سی اہم بات کرنا تھی۔ وہ یہ سوچ ہی رہا تھاکہ پھاتو نے اس سے کہا،’’میاں صاحب میں کھڑی انتظار کررہی ہوں۔۔۔ آپ کو مجھ سے کیا کہنا ہے۔‘‘ وہ بوکھلا گیا،’’ مجھے کیا کہنا تھا۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں کہنا تھا۔۔۔ میرا مطلب ہے،کہنا تو کچھ تھا مگر بھول گیا ہوں۔‘‘

پھاتو نے برتن تپائی پر رکھے،’’آپ یاد کرلیجیے۔۔۔ میں یہاں کھڑی ہوں۔‘‘

اس نے آنکھیں بند کرلیں اور یاد کرنے لگا۔ اسے پھاتو سے یہ کہنا تھا۔۔۔ اس کے دماغ میں بے شمار خیالات تھے۔ دراصل یہ کہنا چاہتا تھا کہ پھاتو اس کے گھرسے چلی جائے۔ اس لیے کہ وہ اس سے اس قدر نفرت کرتا ہے کہ وہ نفرت بے پناہ محبت میں تبدیل ہوگئی ہے۔

اس نے تھوڑے عرصہ کے بعد آنکھیں کھولیں۔ پھاتو تپائی کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس نے سمجھا کہ شاید یہ سب خواب ہے، پر جب اس نے ادھر ادھر کا جائزہ لیا تو اسے معلوم ہوا کہ خواب نہیں حقیقت ہے، لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ پھاتو کیوں بت کی مانند اس کی چارپائی کے ساتھ کھڑی ہے۔

اس نے کہا،’’تو یہاں کھڑی کیا کررہی ہے؟‘‘

پھاتو نے جواب دیا، ’’آپ ہی نے تو کہا تھا کہ آپ کو مجھ سے کوئی ضروری بات کہنی ہے۔‘‘

وہ چڑ گیا، جھنجھلا کر بولا،’’تم سے مجھے کون سی ضروری بات کہنا تھی۔۔۔جاؤ۔۔۔ دور ہٹ جاؤ میری نظروں سے۔‘‘

پھاتو نے تشویش ناک نظروں سےاس کی طرف دیکھا۔

’’ایسا لگتا ہے آپ کا بخار تیز ہوگیا ہے۔۔۔ میں بی بی جی سے کہتی ہوں کہ ڈاکٹر کو بلالیں۔‘‘

وہ اور زیادہ چڑ گیا،’’ڈاکٹر آیا تو میں اسے گولی مادوں گا۔۔۔ اور تمہارا تو میں ان دوہاتھوں سے گلا گھونٹ دوں گا۔‘‘ پھاتو نے اپنے لہجے کو اور زیادہ نرم بنا کر کہا،’’آپ ابھی گھونٹ ڈالیے۔۔۔ میں اپنی زندگی سے اُکتا چکی ہوں۔‘‘

اس نے پوچھا’’ کیوں؟‘‘

’’بس اب جی نہیں چاہتا زندہ رہنے کو۔۔۔ میاں صاحب آپ کو معلوم نہیں،میں یہ دن کیسے گزار رہی ہوں۔۔۔ اللہ کی قسم۔۔۔ ایک ایک پل زہر کا گھونٹ ہے۔۔۔ خدا کے لیے آپ میرا گلا گھونٹ کر مجھے ماردیجیے!‘‘

وہ لحاف کے اندر کانپنے لگا۔۔۔’’پھاتو۔۔۔ جاؤ مجھے تم سے نفرت ہے۔‘‘

پھاتو نے بڑی معصومیت سے کہا،’’میں جانے لگتی ہوں۔۔۔پر آپ مجھے روک لیتے ہیں۔‘‘

اس نے بھنا کر کہا،’’کون حرامزادہ تجھے روکتا ہے۔۔۔ جا۔۔۔ دورہوجا۔‘‘

پھاتو جانے لگی تو اس نے اسے پھر روک لیا۔۔۔ ’’ٹھہرو!‘‘

’’وہ ٹھہر گئی۔۔۔’’ فرمائیے۔‘‘

’’تم نہایت واہیات عورت ہو۔۔۔خدا تمہیں غارت کرے۔۔۔ جاؤ اب میری نظروں سے غائب ہو جاؤ‘‘ پھاتو برتن اُٹھا کر چلی گئی۔

ایک مہینے بعد محلے میں شور مچا کہ پھاتو کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ سب اس کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ عورتیں خاص طور پر اس کے کردار میں کیڑے ڈال رہی تھیں اور پھاتو اپنے میاں صاحب کے ساتھ کلکتے میں ازدواجی زندگی بسر کررہی تھی۔

اس کا شوہر ہر روز اس سے کہتا تھا، ’’فاطمہ! مجھے تم سے نفرت ہے۔‘‘

اور وہ مسکرا کر جواب دیتی،’’یہ نفرت اگر نہ ہوتی تو میری زندگی کیسے سنورتی۔۔۔آپ مجھ سے ساری عمر نفرت ہی کرتے رہیئے۔‘‘

مأخذ : منٹو: کہانیاں

مصنف:سعادت حسن منٹو

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here