کہانی کی کہانی:’’انسان کی نفسیاتی پیچیدگیوں اور تہہ در تہہ پوشیدہ شخصیت کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ جان محمد منٹو کے ایام علالت میں ایک مخلص تیماردار کے روپ میں سامنے آیا اور پھر بے تکلفی سے منٹو کے گھر آنے لگا۔ لیکن دراصل وہ منٹو کے پڑوس کی لڑکی شمیم کے چکر میں آتا تھا۔ ایک دن شمیم اور جان محمد گھر سے فرار ہو جاتے ہیں، تب اس کی حقیقت پتا چلتی ہے۔‘‘
میرے دوست جان محمد نے، جب میں بیمار تھا، میری بڑی خدمت کی۔ میں تین مہینے ہسپتال میں رہا۔ اس دوران میں وہ باقاعدہ شام کو آتا رہا،بعض اوقات جب میرے نوکر علیل ہوتے تو وہ رات کو بھی وہیں ٹھہرتا،تاکہ میری خبرگیری میں کوئی کوتاہی نہ ہو۔ جان محمد بہت مخلص دوست ہے،میں قریب قریب بیس روز تک بیہوش رہا تھا،اس دوران میں وہ آتا۔۔۔ لیکن مجھے اس کا علم نہیں تھا،جب مجھے ہوش آیا تو معلوم ہوا کہ وہ بہت پریشان تھا،روتا بھی تھا،اس لیے کہ میری حالت بہت نازک تھی۔
جب میں اس قابل ہو گیا کہ بات چیت کر سکوں تو اس نے مجھ سے پوچھا ،’’آپ کو تھکاوٹ تو محسوس نہیں ہوتی۔‘‘ میرے اعضا بالکل مفلوج ہو چکے تھے،معلوم نہیں کتنی دیر ہو گئی تھی مجھے بستر پر پڑے ہوئے۔ میں نے اس سے کہا، ’’جان محمد!میرا انگ انگ دکھتا ہے۔‘‘ اس نے فوراً میری بیوی سے کہا، ’’کل زیتون کا تیل منگوا دیجیے۔ میں صبح آ کے مالش کر دیا کروں گا۔‘‘
زیتون کا تیل آ گیا اور جان محمد بھی۔ اس نے میرے سارے بدن پر مالش کی، قریب قریب آدھ گھنٹہ اس کا اس مشقت میں صرف ہوا،مجھے بڑی راحت محسوس ہوئی۔
اس کے بعد اس کا معمول ہو گیا کہ ہر روز دفتر جانے سے پہلے ہسپتال میں آتا اور میرے بدن پر مالش کرتا۔۔۔مجھے راحت ضرور ہوتی تھی لیکن وہ اس زور سے اپنے ہاتھ چلاتا کہ میری ہڈیاں تک دکھنے لگتیں۔ چنانچہ میں اس سے اکثر بڑے درشت لہجے میں کہتا، ’’جان محمد! تم تو میری جان لے لو گے۔‘‘ یہ سن کر وہ مسکرا دیتا، ’’منٹو صاحب! آپ تو بڑے سخت جان ہیں۔۔۔ اس مٹھی چاپی سے گھبرا گئے؟‘‘ میں خاموش ہو جاتا،اس لیےکہ اس کی مٹھی چاپی میں کوئی جارحانہ چیز نہیں تھی بلکہ سر تا پا خلوص تھا۔ تین مہینے ہسپتال میں کاٹنے کے بعد گھر آ گیا۔۔۔ جان محمد بدستور ہر روز آتا رہا۔
میری اس کی دوستی اتفاقاً ہو گئی تھی۔ ایک روز میں گھر میں بیٹھا تھا کہ ایک ناٹے قد کے چھوٹی چھوٹی مونچھوں والے جواں سال مرد نے دروازے پر دستک دی۔ میں نےجب اس کو اندر کمرے میں داخل کیا تو اس نے مجھے بتایا کہ وہ میرا مدّاح ہے۔ ’’منٹو صاحب۔۔۔ میں نے آپ کو صر ف اس لیے تکلیف دی ہے کہ میں آپ کو ایک نظر دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔ میں نے قریب قریب آپ کی سب تصانیف پڑھی ہیں۔‘‘
میں نے اس کا مناسب و موزوں الفاظ میں رسمی طور پر شکریہ ادا کیا تو اس کو بڑی حیرت ہوئی،’’منٹو صاحب !آپ تو رسوم و قیود کے قائل ہی نہیں، پھر یہ تکلّف کیوں؟‘‘میں نے کہا ،’’نوواردوں سے بعض اوقات یہ تکلف برتنا ہی پڑتا ہے۔‘‘جان محمد کی مہین مونچھوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی،’’مجھ سے آپ یہ تکلّف نہ برتیے۔‘‘چنانچہ یہ تکلف فوراً دور ہو گیا۔اس کے بعد جان محمد نے ہر روز میرے گھر آنا شروع کر دیا۔ شام کو وہ جب دفتر سے فارغ ہوتا تو سیدھا میرے یہاں چلا آتا۔
میری عادت ہے کہ میں کسی دوست کا حسب نسب دریافت نہیں کرتا،اس لیے کہ میں اس کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتا۔۔۔ میں تو کسی سے ملوں تو اس سے اس کا نام بھی نہیں پوچھتا۔ یہ تمہید کافی لمبی ہو گئی، حالانکہ میں اختصار پسند ہوں۔۔۔ جان محمد دیر تک میرے یہاں آتا رہا، اس کی معلومات خاصی اچھی تھیں۔ ادب سے بھی اسے خاصا شغف ہے مگر میں نے یہ بات خاص طور پر نوٹ کی کہ وہ زندگی سے کسی قدر بیزار ہے۔ مجھے زندگی سے پیار ہے لیکن اس کو اس سے کوئی رغبت نہیں تھی، ہم دونوں جب باتیں کرتے تو وہ کہتا، ’’منٹو صاحب! آپ میرے لباس کو دیکھتے ہیں، یہ شلوار اور قمیص جو ملیشیا کی ہے،آپ یقیناً نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہوں گے۔۔۔مگر مجھے اچھے لباس کی کوئی خواہش نہیں۔۔۔ مجھے کسی خوبصورت چیز کی خواہش نہیں۔‘‘
میں نے اس سے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
’’بس۔۔۔ میرے اندر یہ حس ہی نہیں رہی۔۔۔میں ننگے فرش پر سوتا ہوں۔۔۔ نہایت واہیات ہوٹلوں میں کھانا کھاتا ہوں۔۔۔یہ دیکھیے۔۔۔ میرے ناخن اتنے بڑھے ہوئے ہیں۔۔۔ ان میں کتنا میل بھرا ہوا ہے۔۔۔ میرے پاؤں ملاحظہ فرمائیے۔۔۔ ایسا نہیں لگتا کہ کیچڑ میں لتھڑے ہوئے ہیں۔۔۔مگر مجھے ان غلاظتوں کی کچھ پروا نہیں۔ ‘‘میں نے اس کی غلاظتوں کے متعلق اس سے کچھ نہ کہا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہر وقت میلا کچیلا رہتا تھا۔ اس کو صفائی کے متعلق کبھی خیال ہی نہیں آتا تھا۔
ایک دن حسبِ معمول جب وہ شام کو میرے پاس آیا تو میں نے محسوس کیا کہ اس کی طبیعت مضمحل ہے۔ میں نے اس سے پوچھا،’’کیوں جان محمد!کیا بات ہے آج تھکے تھکے سے معلوم ہوتے ہو؟‘‘اس نے اپنی جیب سے ’بگلے‘ کی ڈبیا نکالی اور ایک سگریٹ سلگا کر جواب دیا،’’تھکاوٹ ہو ہی جاتی ہے۔۔۔کوئی خاص بات نہیں۔‘‘ اس کے بعد ہم دیر تک غالبؔ کی شاعری پر گفتگو کرتے رہے۔ اس کو یہ فارسی کا شعر بہت پسند آیا۔
مابنوویم بدیں مرتبہ راضی غالب
شعر خود خواہش آں کرد کہ گردوفِن ما
ہم غالبؔ کی شاعری پر تبصرہ کر رہے تھے کہ اتنے میں ہمارے ایک ہمسائے کی لڑکی میری بیوی سے ملنے چلی آئی۔ چونکہ وہ پردہ نہیں کرتی تھی اس لیے وہ ہمارے درمیان بیٹھ گئی۔ جان محمد نے آنکھیں جھکا لیں اور خاموش ہوگیا۔ اس لڑکی کا نام شمیم تھا۔ دیر تک وہ بیٹھی میری بیوی اور مجھ سے باتیں کرتی رہی،لیکن اس دوران میں جان محمد اسی طرح آنکھیں جھکائے خاموش رہا۔ کچھ اس طرح کہ اسے کوئی پہچان نہ لے۔
اس کے بعد دوسرے دن رات کے دس بجے میرے دروازے پر دستک ہوئی، نوکر اوپر سورہا تھا، میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ جان محمد ہے۔ نہایت خستہ حالت میں۔ میں بہت پریشان ہوا اور اس سے پوچھا، ’’کیوں جان محمد۔۔۔ خیریت تو ہے؟‘‘ اس کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ پیدا ہوئی،جس سے میں بالکل ناآشنا تھا، ’’خیریت ہے۔۔۔مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔۔۔اس لیے میں آپ کے پاس چلا آیا۔‘‘
مجھے سخت نیند آ رہی تھی، مگر جان محمد ایسے مخلص دوست کے لیے میں اسے قربان کرنے کے لیے تیار تھا،مگر جب اس نے اوٹ پٹانگ باتیں شروع کیں تو مجھے وحشت ہونے لگی۔۔۔ اس کا دماغ غیرمتوازن تھا،کبھی وہ آسمان کی بات کرتا،کبھی زمین کی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اچانک اسے ہو کیا گیا۔ ایک دن پہلے جب وہ مجھ سے ملا تو اچھا بھلا تھا۔ ایک دم اس میں اتنی تبدیلی کیسے پیدا ہوگئی؟
ساری رات اس نے مجھے جگائے رکھا۔ آخر صبح میں نے اس کو غسل کرنے کے لیے کہا۔ اپنے کپڑے اسے پہننے کے لیے دیے کہ اس کے میلے چکٹ تھے۔ پھر اس کو لاریوں کے اڈے پر لے گیا کہ وہ سیالکوٹ اپنے والدین کے پاس چلا جائے۔ غلطی میں نے یہ کی کہ اس کو لاری میں نہ بٹھایا۔ کرایہ وغیرہ میں نے اسے دے دیا تھا۔ میں مطمئن تھا کہ وہ اپنے گھر چلاجائے گا، مگر اسی دن رات کے تین بجے دروازے پر بڑے زور سے دستک ہوئی۔ میں باہر صحن میں سو رہا تھا۔ ہڑبڑا کر اٹھا،سوچا کہ شاید کوئی تار آیا ہو۔ دروازہ کھولا تو سامنے جان محمد۔۔۔ میرے اوسان خطا ہوگئے۔
میں نے اس سے پوچھا کہ وہ سیالکوٹ کیوں نہیں گیا۔ اس نے اس سوال کاکوئی معقول جواب نہ دیا۔ اس کا دماغ پہلے سے زیادہ غیر متوازن تھا۔ فرش پر لیٹ کر اپنی کنپٹیوں پر زور زور سے گھونسے مارنے لگا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا،کیا کروں۔ وہ یقیناً جنون کی حد تک پہنچ چکا تھا۔ میں نے سوچا،پیار محبت سے کام لینا چاہیے،چنانچہ بہت دیر تک میں اس کا سر سہلاتا رہا۔ اس کے بعد اس سے پوچھا، ’’جان محمد تمھیں کیا تکلیف ہے؟‘‘ اس نے کوئی جواب نہ دیااور فرش پر میری بچیوں کے جو ماربل پڑے ہوئے تھے،ان سے کھیلنے لگا۔ اس کے بعد اس نے ہر ماربل کو سجدہ کیا اور رونے لگا۔
میں نے پھر اس سے بڑی محبت سے پوچھا، ’’جان محمد! یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟‘‘ اس کی آنکھیں سرخ انگارہ تھیں جیسے کئی دنوں سے شراب کے نشے میں دھت ہے۔ اس نے مجھے ان آنکھوں سے دیکھا اور پوچھا، ’’تم اتنے بڑے نفسیات نگار بنتے ہو۔۔۔کیا یہ نہیں جان سکتے کہ مجھے کیا ہوگیا ہے؟‘‘
’’میں اپنی کم مائیگی تسلیم کرتا ہوں۔۔۔ اب تم خود بتادو۔‘‘
جان محمد مسکرایا،’’مجھے شمیم ہوگیاہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’اب بھی مطلب پوچھتے ہیں آپ؟‘‘
میں نے اس سے کہا،’’بھئی شمیم کوئی بیماری تو نہیں۔‘‘
جان محمد ہنسا، ’’بہت بڑی بیماری ہے منٹو صاحب۔۔۔یہ کئی لوگوں کو ہوچکی ہے۔ ان میں سے میں بھی ایک ہوں۔پہلے ڈلہوزی میں ہوتی تھی۔۔۔ اب یہاں لاہور چلی آئی ہے۔‘‘
میں سمجھ گیا۔۔۔جان محمد کئی برس ڈلہوزی میں رہ چکا تھا اور شمیم بھی، لیکن میں نے اس سے کہا،’’میں ابھی تک نہیں سمجھا۔۔۔تم اب سو جاؤ۔۔۔ چلو آؤ۔۔۔ اندر صوفے پرلیٹ جاؤ۔ خبردار جو تم نے شور مچایا۔‘‘
وہ اندر چلاآیا اور صوفے پر لیٹ گیا۔۔۔میں صبح جلدی اٹھنے کا عادی ہوں۔ ساڑھے چار بجے کے قریب اٹھا تو دیکھا کہ جان محمد غائب ہے۔ سات بجے پتہ چلا کہ شمیم بھی اپنے فلیٹ میں نہیں ہے۔۔۔ کہیں غائب ہوگئی۔
مأخذ : کتاب : منٹو نقوش
مصنف:سعادت حسن منٹو