کہانی کی کہانی:’’یہ افسانہ ایک متوسط طبقہ کے آدمی کی انا کو ٹھیس پہنچنے سے ہونے والی درد کو بیاں کرتا ہے۔ بیوی کی بیماری اور بچوں کے اخراجات کی وجہ سے وہ مکان مالک کو پچھلے دو مہینے کا کرایہ نہیں دے پایا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مالک مکان اسے ایک مہینے کی اور مہلت دے دے۔ اس درخواست کے ساتھ جب وہ مالک مکان کے پاس گیا تو اس نے اس کی بات سنے بغیر ہی اسے دو گندی گالیاں دیں۔ ان گالیوں کو سن کر اسے بہت تکلیف ہوئی اور وہ مختلف خیالوں میں گم شہر کے دوسرے سرے پر جا پہنچا۔ وہاں اس نے اپنی پوری قوت سے ایک ’نعرہ‘ لگایا اور خود کو بہت ہلکا محسوس کرنے لگا۔‘‘
اسے یوں محسوس ہوا کہ اس سنگین عمارت کی ساتوں منزلیں اس کے کاندھوں پر دھر دی گئی ہیں۔وہ ساتویں منزل سے ایک ایک سیڑھی کرکے نیچے اترا اور تمام منزلوں کا بوجھ اس کے چوڑے مگر دبلے کاندھے پر سوار ہوتا گیا۔
جب وہ مکان کے مالک سے ملنے کے لیے اوپر چڑھ رہا تھا تو اسے محسوس ہوا تھا کہ اس کا کچھ بوجھ ہلکا ہو گیا ہے اور کچھ ہلکا ہو جائے گا۔ اس لیے کہ اس نے اپنے دل میں سوچا تھا، مالک مکان جسے سب سیٹھ کے نام سے پکارتے ہیں اس کی بپتا ضرور سنے گا۔ اور کرایہ چکانے کے لیے اسے ایک مہینے کی اور مہلت بخش دے گا۔۔۔ بخش دے گا۔۔۔! یہ سوچتے ہوئے اس کے غرور کو ٹھیس لگی تھی لیکن فوراً ہی اس کو اصلیت بھی معلوم ہو گئی تھی۔۔۔ وہ بھیک مانگنے ہی تو جا رہا تھا۔ اور بھیک ہاتھ پھیلا کر، آنکھوں میں آنسو بھر کے، اپنے دکھ درد سنا کر اور اپنے گھاؤ دکھا کر ہی مانگی جاتی ہے۔
اس نے یہی کچھ کیا۔ جب وہ اس سنگین عمارت کے بڑے دروازے میں داخل ہونے لگا، تو اس نے اپنے غرور کو، اس چیز کو جو بھیک مانگنے میں عام طور پر رکاوٹ پیدا کرتی ہے،نکال کر فٹ پاتھ پر ڈال دیا تھا۔
وہ اپنا دیا بجھا کر اور اپنے آپ کو اندھیرے میں لپیٹ کر مالک مکان کے اس روشن کمرے میں داخل ہوا، جہاں وہ اپنی دو بلڈنگوں کا کرایہ وصول کیا کرتا تھااور ہاتھ جوڑ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ سیٹھ کے تلک لگے ماتھے پر کئی سلوٹیں پڑ گئیں۔ اس کا بالوں بھرا ہاتھ ایک موٹی سی کاپی کی طرف بڑھا۔ دو بڑی بڑی آنکھوں نے اس کاپی پر کچھ حروف پڑھے اور ایک بھدی سی آواز گونجی، ’’کیشو لال۔۔۔ کھولی پانچویں، دوسرا مالا۔۔۔ دو مہینوں کا کرایہ۔۔۔ لے آئے ہو کیا؟‘‘
یہ سن کر اس نے اپنا دل جس کے سارے پرانے اور نئے گھاؤ وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کرید کرید کر گہرے کر چکا تھا، سیٹھ کو دکھانا چاہا۔ اسے پورا پورا یقین تھا کہ اسے دیکھ کر اس کے دل میں ضرور ہمدردی پیدا ہو جائے گی۔ پر۔۔۔ سیٹھ جی نے کچھ سننا نہ چاہااور اس کے سینے میں ایک ہلڑ سا مچ گیا۔
سیٹھ کے دل میں ہمدردی پیدا کرنے کے لیے اس نے اپنے وہ تمام دکھ ،جو بیت چکے تھے، گزرے دنوں کی گہری کھائی سے نکال کر اپنے دل میں بھر لیے تھے اور ان تمام زخموں کی جلن جو مدت ہوئی مٹ چکے تھے،اس نے بڑی مشکل سے اکٹھی اپنی چھاتی میں جمع کی تھی۔ اب اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اتنی چیزوں کو کیسے سنبھالے؟
اس کے گھر میں بن بلائے مہمان آ گئے ہوتے ،وہ ان سے بڑے روکھے پن کے ساتھ کہہ سکتا تھا، جاؤ بھئی میرے پاس اتنی جگہ نہیں ہے کہ تمہیں بٹھا سکوں اور نہ میرے پاس روپیہ ہے کہ تم سب کی خاطر مدارات کر سکوں۔ لیکن یہاں تو قصّہ ہی دوسرا تھا۔ اس نے تو اپنے بھولے بھٹکے دکھوں کو ادھر ادھر سے پکڑ کر اپنے آپ سینے میں جمع کیا تھا۔ اب بھلا وہ باہر نکل سکتے تھے؟
افراتفری میں اسے کچھ پتہ نہ چلا تھا کہ اس کے سینے میں کتنی چیزیں بھر گئی ہیں۔ پر جیسے جیسے اس نے سوچنا شروع کیا، وہ پہچاننے لگا کہ فلاں دکھ فلاں وقت کا ہے اور فلاں درد اسے فلاں وقت پر ہوا تھا اور جب یہ سوچ بچار ہوئی تو حافظے نے بڑھ کر وہ دھند ہٹا دی جو ان پر لپٹی ہوئی تھی۔ اور کل کے تمام دکھ درد آج کی تکلیفیں بن گئے اور اس نے اپنی زندگی کی باسی روٹیاں پھر انگاروں پر سینکنا شروع کر دیں۔
اس نے سوچا، تھوڑے سے وقت میں اس نے بہت کچھ سوچا۔ اس کے گھر کا اندھا لیمپ کئی بار بجلی کے اس بلب سے ٹکرایا جو مالک مکان کے گنجے سر کے اوپر مسکرا رہا تھا۔ کئی بار اس کے پیوندلگے کپڑے ان کھونٹیوں پر لٹک کر پھر اس کے میلے بدن سے چمٹ گئے،جو دیوار میں گڑی چمک رہی تھیں۔ کئی بار اسے ان داتا بھگوان کا خیال آیا جو بہت دور نہ جانے کہاں بیٹھا اپنے بندوں کا خیال رکھتا ہے۔ مگر اپنے سامنے سیٹھ کو کرسی پر بیٹھا دیکھ کر جس کے قلم کی جنبش کچھ کا کچھ کر سکتی تھی، وہ اس بارے میں کچھ بھی نہ سوچ سکا۔ کئی بار اسےخیال آیا۔ اور وہ سوچنے لگا کہ اسے کیا خیال آیا تھا۔ مگر وہ اس کے پیچھے بھاگ دوڑ نہ کر سکا۔ وہ سخت گھبرا گیا تھا۔ اس نے آج تک اپنے سینے میں اتنی کھلبلی نہیں دیکھی تھی۔
وہ اس کھلبلی پر ابھی تعجب ہی کر رہا تھاکہ مالک مکان نے غصّے میں آکر اسے گالی دی۔۔۔ گالی۔۔۔ یوں سمجھیے کہ کانوں کے راستے پگھلا ہوا سیسہ شائیں شائیں کرتا اس کے دل میں اتر گیا، اور اس کے سینے کے اندر جو ہلڑ مچ گیا، اس کا تو کچھ ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ جس طرح کسی گرما گرم جلسے میں کسی شرارت سے بھگدڑ مچ جایا کرتی ہے، ٹھیک اسی طرح اس کے دل میں ہلچل پیدا ہو گئی۔ اس نے بہت جتن کیے کہ اس کے وہ دکھ درد جو اس نے سیٹھ کو دکھانے کے لیے اکٹھے کیے تھے، چپ چاپ رہیں۔ پر کچھ نہ ہو سکا۔ گالی کا سیٹھ کے منہ سے نکلنا تھا کہ تمام دکھ بے چین ہو گئے۔ اور اندھا دھند ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے۔ اب تو وہ یہ نئی تکلیف بالکل نہ سہ سکا، اور اس کی آنکھوں میں جو پہلے ہی تپ رہی تھیں، آنسو آ گئے۔ جس سے ان کی گرمی اور بھی بڑھ گئی اور ان سے دھواں نکلنے لگا۔
اس کے جی میں آئی کہ اس گالی کو جسے وہ بڑی حد تک نگل چکا تھا، سیٹھ کے جھریوں پڑے چہرے پر قے کر دے مگر وہ اس خیال سے باز آگیا کہ اس کا غرور تو فٹ پاتھ پر پڑا ہے۔ اپولوبندر پر نمک لگی مونگ پھلی بیچنے والے کا غرور۔۔۔ اس کی آنکھیں ہنس رہی تھیں اور ان کے سامنے نمک لگی مونگ پھلی کے وہ تمام دانے جو اس کے گھر میں ایک تھیلے کے اندر برکھا کے باعث گیلے ہو رہے تھے، ناچنے لگے۔
اس کی آنکھیں ہنسیں، اس کا دل بھی ہنسا، یہ سب کچھ ہوا پر وہ کڑواہٹ دور نہ ہوئی جو اس کے گلے میں سیٹھ کی گالی نے پیدا کر دی تھی۔ یہ کڑواہٹ اگر صرف زبان پر ہوتی تو وہ اسے تھوک دیتا مگر وہ تو بہت بری طرح اس کے گلے میں اٹک گئی تھی۔ اور نکالے نہ نکلتی تھی اور پھر ایک عجیب قسم کا دکھ جو اس گالی نے پیدا کر دیا تھا، اس کی گھبراہٹ کو اور بھی بڑھا رہا تھا۔ اسے یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کی آنکھیں جو سیٹھ کے سامنے رونا فضول سمجھتی تھیں، اس کے سینے کے اندر اتر کر آنسو بہا رہی ہیں۔ جہاں ہر چیز پہلے ہی سے سوگ میں تھی۔
سیٹھ نے اسے پھر گالی دی۔ اتنی ہی موٹی جتنی اس کی چربی بھری گردن تھی،اور اسے یوں لگا کہ کسی نے اوپر سے اس پر کوڑا کرکٹ پھینک دیا ہے۔ چنانچہ اس کا ایک ہاتھ اپنے آپ چہرے کی حفاظت کے لیے بڑھا پر اس گالی کی ساری گرد اس پر پھیل چکی تھی۔۔۔ اب اس نے وہاں ٹھہرنا اچھا نہ سمجھا۔ کیونکہ کیا خبر تھی۔۔۔کیا خبر تھی۔۔۔ اسے کچھ خبر نہ تھی۔۔۔ وہ صرف اتنا جانتا تھا کہ ایسی حالتوں میں کسی بات کی سدھ بدھ نہیں رہا کرتی۔
وہ جب نیچے اترا تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس سنگین عمارت کی ساتوں منزلیں اس کے کندھوں پر دھر دی گئی ہیں۔ایک نہیں، دو گالیاں۔۔۔ بار بار یہ دو گالیاں جو سیٹھ نے بالکل پان کی پیک کے مانند اپنے منہ سے اگل دی تھیں جو اس کے کانوں کے پاس زہریلی بھڑوں کی طرح بھنبھنانا شروع کر دیتی تھیں اور وہ سخت بے چین ہو جاتا تھا۔ وہ کیسے اس۔۔۔ اس۔۔۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس گڑ بڑ کا نام کیا رکھے، جو اس کے دل میں اور دماغ میں ان گالیوں نے مچا رکھی تھی۔ وہ کیسے اس تپ کو دور کر سکتا تھا جس میں وہ پھنکا جا رہا تھا۔ کیسے۔۔۔؟ پر وہ سوچ بچار کے قابل بھی تو نہیں رہا تھا۔ اس کا دماغ تو اس وقت ایک ایسا اکھاڑہ بنا ہوا تھا جس میں بہت سے پہلوان کشتی لڑ رہے ہوں۔ جو خیال بھی وہاں پیدا ہوتا،کسی دوسرے خیال سے ،جو پہلے ہی سے وہاں موجود ہوتا بھڑ جاتا اور وہ کچھ سوچ نہ سکتا۔
چلتے چلتے جب ایکا ایکی اس کے دکھ قےَ کی صورت میں باہر نکلنے کو تھے، اس کے جی میں آئی۔ جی میں کیا آئی، مجبوری کی حالت میں وہ اس آدمی کو روک کر جو لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کے پاس سے گزر رہا تھا۔ یہ کہنے ہی والا تھا، ’’بھیّا میں روگی ہوں‘‘ مگر جب اس نے اس راہ چلتے آدمی کی شکل دیکھی تو بجلی کا وہ کھمبا جو اس کے پاس ہی زمین میں گڑا تھا، اسے اس آدمی سے کہیں زیادہ حساس دکھائی دیا۔ اور جو کچھ وہ اپنے اندر سے باہر نکالنے والا تھا، ایک ایک گھونٹ کرکے پھر نگل گیا۔
فٹ پاتھ پر چوکور پتھر ایک ترتیب کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ وہ ان پتھروں پر چل رہا تھا۔ آج تک کبھی اس نے ان کی سختی محسوس نہ کی تھی۔ مگر آج ان کی سختی اس کے دل تک پہنچ رہی تھی۔ فٹ پاتھ کا ہر ایک پتھر جس پر اس کے قدم پڑ رہے تھے، اس کے دل کے ساتھ ٹکرا رہا تھا۔۔۔ سیٹھ کے پتھر کے مکان سے نکل کر ابھی وہ تھوڑی دور ہی گیا ہو گا کہ اس کا بند بند ڈھیلا ہو گیا۔
چلتے چلتے اس کی ایک لڑکے سے ٹکر ہوئی اور اسے یوں محسوس ہواکہ وہ ٹوٹ گیا ہے۔ چنانچہ اس نے جھٹ اس آدمی کی طرح جس کی جھولی سے بیر گر رہے ہوں،ادھر ادھر ہاتھ پھیلائے اور اپنے آپ کو اکٹھا کر کے ہولے ہولے چلنا شروع کیا۔
اس کا دماغ اس کی ٹانگوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی کے ساتھ چل رہا تھا، چنانچہ کبھی کبھی چلتے چلتے اسے یہ محسوس ہوتا تھا کہ اس کا نچلا دھڑ سارے کا سارابہت پیچھے رہ گیا ہے اور دماغ بہت آگے نکل گیا ہے۔ کئی بار اسے اس خیال سے ٹھہرنا پڑا کہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہو جائیں۔
وہ فٹ پاتھ پر چل رہا تھا جس کے اس طرف سڑک پر پوں پوں کرتی موٹروں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ گھوڑے گاڑیاں، ٹرامیں، بھاری بھرکم ٹرک، لاریاں یہ سب سڑک کی کالی چھاتی پر دندناتی ہوئی چل رہی تھیں۔ ایک شور مچا ہواتھا۔ پر اس کے کانوں کو کچھ سنائی نہ دیتا تھا۔ وہ تو پہلے ہی سے شائیں شائیں کر رہے تھے،جیسے ریل گاڑی کا انجن زائد بھاپ باہر نکال رہا ہے۔
چلتے چلتے ایک لنگڑے کتے سے اس کی ٹکر ہوئی۔ کتے نے اس خیال سے کہ شاید اس کا پیر کچل دیا گیا ہے،’’چاؤں‘‘ کیا اور پرے ہٹ گیا۔ اور وہ سمجھا کہ سیٹھ نے اسے پھر گالی دی ہے۔۔۔ گالی۔۔۔ گالی ٹھیک اسی طرح اس سے الجھ کر رہ گئی تھی جیسے بیری کے کانٹوں میں کوئی کپڑا۔ وہ جتنی کوشش اپنے آپ کو چھڑانے کی کرتا تھا، اتنی ہی زیادہ اس کی روح زخمی ہوتی جا رہی تھی۔
اسے اس نمک لگی مونگ پھلی کا خیال نہیں تھا جو اس کے گھر میں برکھا کے باعث گیلی ہو رہی تھی اور نہ اسے روٹی کپڑے کا خیال تھا۔ اس کی عمر تیس برس کے قریب تھی،اور ان تیس برسوں میں جن کے پرماتما جانے کتنے دن ہوتے ہیں،وہ کبھی بھوکا نہ سویا تھا اور نہ کبھی ننگا ہی پھرا تھا۔ اسے صرف اس بات کا دکھ تھا کہ اسے ہر مہینے کرایہ دینا پڑتا تھا۔ وہ اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرے۔ اس بکرے جیسی داڑھی والے حکیم کی دوائیوں کے دام دے۔ شام کو تاڑی کی ایک بوتل کے لیے دونی پیدا کر لے، یا اس گنجے سیٹھ کے مکان کے ایک کمرے کا کرایہ ادا کرے۔
مکانوں اور کرایوں کا فلسفہ اس کی سمجھ سے سدا اونچا رہا تھا۔ وہ جب بھی دس روپے گن کر سیٹھ یا اس کے منیم کی ہتھیلی پر رکھتا تو سمجھتا تھا کہ زبردستی اس سے یہ رقم چھین لی گئی ہے، اور اب اگر وہ پانچ برس تک برابر کرایہ دیتے رہنے کے بعد صرف دو مہینے کا حساب چکتا نہ کر سکا تو کیا سیٹھ کو اس بات کا اختیار ہو گیا کہ وہ اسے گالی دے؟ سب سے بڑی بات تو یہ تھی جو اسے کھائے جا رہی تھی، اسے ان بیس روپوں کی پروا نہ تھی جو اسے آج نہیں کل ادا کر دینے تھے۔ وہ ان دو گالیوں کی بابت سوچ رہا تھا، جو ان بیس روپوں کے بیچ میں سے نکلتی تھیں۔ نہ وہ بیس روپے کا مقروض ہوتا اور نہ سیٹھ کے کٹھالی جیسے منہ سے یہ گندگی باہر نکلتی۔
مان لیا وہ دھن وان تھا۔ اس کے پاس دو بلڈنگیں تھیں۔ جن کے ایک سو چوبیس کمروں کا کرایہ اس کے پاس آتا تھا۔ پر ان ایک سو چوبیس کمروں میں جتنے لوگ رہتے ہیں، اس کے غلام تو نہیں اور اگر غلام بھی ہیں تو وہ انھیں گالی کیسے دے سکتا ہے؟‘‘
’’ٹھیک ہے اسے کرایہ چاہیے۔ پر میں کہاں سے لاؤں؟ پانچ برس تک اس کو دیتا ہی رہا ہوں۔ جب ہو گا، دے دوں گا۔ پچھلے برس برسات کا سارا پانی ہم پر ٹپکتا رہا،پر میں نے اسے کبھی گالی نہ دی، حالانکہ مجھے اس سے کہیں زیادہ ہولناک گالیاں یاد ہیں۔ پر میں نے سیٹھ سے بار ہا کہاکہ سیڑھی کا ڈنڈا ٹوٹ گیا ہے،اسے بنوا دیجیے، پر میری ایک نہ سنی گئی۔ میری پھول سی بچی گری۔ اس کا داہنا ہاتھ ہمیشہ کے لیے بیکار ہو گیا۔ میں گالیوں کے بجائے اسے بددعائیں دے سکتا تھا، پر مجھے اس کا دھیان ہی نہیں آیا۔۔۔ دو مہینے کا کرایہ نہ چکانے پر میں گالیوں کے قابل ہو گیا۔ اس کو یہ خیال تک نہ آیا کہ اس کے بچے اپولوبندر پرمیرے تھیلے سے مٹھیاں بھر بھر کے مونگ پھلی کھاتے ہیں۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے پاس اتنی دولت نہیں تھی جتنی کہ اس دو بلڈنگوں والے سیٹھ کے پاس تھی۔ اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کے پاس اس سے بھی زیادہ دولت ہو گی، پر وہ غریب کیسے ہو گیا۔۔۔ اسے غریب سمجھ کر ہی تو گالی دی گئی تھی۔ ورنہ اس گنجے سیٹھ کی کیا مجال تھی کہ کرسی پر بڑے اطمینان سے بیٹھ کر اسے دو گالیاں سنا دیتا۔ گویا کسی کے پاس دھن دولت کا نہ ہونا بہت بری بات ہے۔ اب یہ اس کا قصور نہیں تھا کہ اس کے پاس دولت کی کمی تھی۔
سچ پوچھیے تو اس نے کبھی دھن دولت کے خواب دیکھے ہی نہ تھے۔ وہ اپنے حال میں مست تھا۔ اس کی زندگی بڑے مزے میں گزر رہی تھی۔ پر پچھلے مہینے ایکا ایکی اس کی بیوی بیمار پڑ گئی اور اس کے دوا دارو پر وہ تمام روپے خرچ ہو گئے جو کرایے میں جانے والے تھے۔ اگر وہ خود بیمار ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ دواؤں پر روپیہ خرچ نہ کرتا لیکن یہاں تو اس کے ہونے والے بچے کی بات تھی جو ابھی اپنی ماں کے پیٹ ہی میں تھا۔ اس کو اولاد بہت پیاری تھی جو پیدا ہو چکی تھی اور جو پیدا ہونے والی تھی۔ سب کی سب اسے عزیز تھی ۔وہ کیسے اپنی بیوی کا علاج نہ کراتا۔۔۔؟ کیا وہ اس بچے کا باپ نہ تھا۔۔۔؟ باپ پِتا۔۔۔ وہ تو صرف دو مہینے کے کرائے کی بات تھی۔ اگر اسے اپنے بچے کے لیے چوری بھی کرنا پڑتی تو وہ کبھی نہ چوکتا۔
چوری۔۔۔ نہیں نہیں وہ چوری کبھی نہ کرتا۔۔۔ یوں سمجھیے کہ وہ اپنے بچے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی کرنے کے لیے تیار تھامگر وہ چور کبھی نہ بنتا۔۔۔ وہ اپنی چھنی ہوئی چیز واپس لینے کے لیے لڑ مرنے کو تیار تھا پر وہ چوری نہیں کر سکتا تھا۔
اگر وہ چاہتا تو اس وقت جب سیٹھ نے اسے گالی دی تھی، آگے بڑھ کر اس کا ٹینٹوا دبا دیتا اور اس کی تجوری میں سے وہ تمام نیلے اور سبز نوٹ نکال کر بھاگ جاتا،جن کو وہ آج تک لاجونتی کے پتّے سمجھا کرتا تھا۔۔۔ نہیں نہیں وہ ایسا کبھی نہ کرتا۔ لیکن پھر سیٹھ نے اسے گالی کیوں دی۔۔۔؟ پچھلے برس چوپاٹی پر ایک گاہک نے اسے گالی دی تھی۔ اس لیے کہ دو پیسے کی مونگ پھلی میں چار دانے کڑوے چلے گئے تھے اور اس کے جواب میں اس کی گردن پر ایسی دھول جمائی تھی کہ دور بنچ پر بیٹھے آدمیوں نے بھی اس کی آواز سن لی تھی۔
مگر سیٹھ نے اسے دو گالیاں دیں اور وہ چپ رہا۔۔۔ کیشو لال کھاری سینگ والا، جس کی بابت یہ مشہور تھا کہ وہ ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتا۔۔۔ سیٹھ نے ایک گالی دی اور وہ کچھ نہ بولا۔۔۔ دوسری گالی دی تو بھی خاموش رہا جیسے وہ مٹی کا پتلا ہے۔۔۔ پر مٹی کا پتلا کیسے ہوا۔ اس نے ان دو گالیوں کو سیٹھ کے تھوک بھرے منہ سے نکلتے دیکھا جیسے دو بڑے بڑے چوہے موریوں سے باہر نکلتے ہیں۔ وہ جان بوجھ کر خاموش رہا۔ اس لیے کہ وہ اپنا غرور نیچے چھوڑ آیا تھا۔۔۔ مگر اس نے اپنا غرور اپنے سے الگ کیوں کیا؟ سیٹھ سے گالیاں لینے کے لیے؟
یہ سوچتے ہوئے اسے ایکا ایکی خیال آیا کہ شاید سیٹھ نے اسے نہیں کسی اور کو گالیاں دی تھیں۔۔۔ نہیں، نہیں، گالیاں اسے ہی دی گئی تھیں۔ اس لیے کہ دو مہینے کا کرایہ اسی کی طرف نکلتا تھا۔ اگر اسے گالیاں نہ دی گئی ہوتیں تو اس سوچ بچار کی ضرورت ہی کیا تھی، اور یہ جو اس کے سینے میں ہلڑ سا مچ رہا تھا، کیا بغیر کسی وجہ کے اسے دکھ دے رہا تھا؟ اسی کو دو گالیاں دی گئی تھیں۔
جب اس کے سامنے ایک موٹر نے اپنے ماتھے کی بتیاں روشن کیں، تو اسے معلوم ہوا کہ وہ دو گالیاں پگھل کر اس کی آنکھوں میں دھنس گئی ہیں۔۔۔ گالیاں۔۔۔ گالیاں ۔۔۔ وہ جھنجھلا گیا۔۔۔ وہ جتنی کوشش کرتا تھا کہ ان گالیوں کی بابت نہ سوچے اتنی ہی شدت سے اسے ان کے متعلق سوچنا پڑتا تھا اور یہ مجبوری اسے بہت چڑچڑا بنا رہی تھی۔ چنانچہ اسی چڑچڑے پن میں اس نے خواہ مخواہ دو تین آدمیوں کو جو اس کے پاس سے گزر رہے تھے، دل ہی دل میں گالیاں دیں۔ ’’یوں اکڑ کے چل رہے ہیں جیسے ان کے باوا کا راج ہے!‘‘
اگر اس کا راج ہوتا تو وہ سیٹھ کو مزا چکھا دیتا جو اسے اوپر تلے دو گالیاں سنا کر اپنے گھر میں یوں آرام سے بیٹھا تھا جیسے اس نے اپنی گدے دار کرسی میں سے دوکھٹمل نکال کر باہر پھینک دیے ہیں۔۔۔ سچ مچ اگر اس کا اپنا راج ہوتا تو چوک میں بہت سے لوگوں کو اکٹھا کرکے سیٹھ کو بیچ میں کھڑا کر دیتا۔ اور اس کی گنجی چندیا پر اس زور سے دھپا مارتا کہ بلبلا اٹھتا، پھر وہ سب لوگوں سے کہتا کہ ہنسو، جی بھر کر ہنسو اور خود اتنا ہنستا کہ ہنستے ہنستےاس کا پیٹ دکھنے لگتا پر اس وقت اسے بالکل ہنسی نہیں آتی تھی۔۔۔ کیوں۔۔۔؟ وہ اپنے راج کے بغیر بھی تو سیٹھ کے گنجے سر پر دھپا مار سکتا تھا۔ اسے کس بات کی رکاوٹ تھی۔۔۔؟ رکاوٹ تھی۔۔۔ رکاوٹ تھی تو وہ گالیاں سن کر خاموش ہو رہا۔
اس کے قدم رک گئے۔ اس کا دماغ بھی ایک دو پل کے لیے سستایا اور اس نے سوچا کہ چلو ابھی اس جھنجھٹ کا فیصلہ ہی کر دوں۔۔۔ بھاگا ہوا جاؤں اور ایک ہی جھٹکے میں سیٹھ کی گردن مروڑ کر اس تجوری پر رکھ دوں جس کا ڈھکنا مگر مچھ کے منہ کی طرح کھلتا ہے۔۔۔ لیکن وہ کھمبے کی طرح زمین میں کیوں گڑ گیا تھا؟ سیٹھ کے گھر کی طرف پلٹا کیوں نہیں تھا۔۔۔؟ کیا اس میں جرأت نہ تھی؟
اس میں جرأت نہ تھی۔۔۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ اس کی ساری طاقت سرد پڑ گئی تھی۔۔۔ یہ گالیاں۔۔۔ وہ ان گالیوں کو کیا کہتا۔۔۔ ان گالیوں نے اس کی چوڑی چھاتی پر رولر سا پھیر دیا تھا۔۔۔ صرف دو گالیوں نے۔۔۔ حالانکہ پچھلے ہندو مسلم فساد میں ایک ہندو نے اسے مسلمان سمجھ کر لاٹھیوں سے بہت پیٹا تھا اور ادھ موا کر دیا تھا اور اسے اتنی کمزوری محسوس نہ ہوئی تھی جتنی کہ اب ہو رہی تھی۔۔۔ کیشولال کھاری سینگ والا جو دوستوں سے بڑے فخر کے ساتھ کہا کرتا تھا کہ وہ کبھی بیمار نہیں پڑا۔ آج یوں چل رہا تھا جیسے برسوں کا روگی ہے۔۔۔ اور یہ روگ کس نے پیدا کیا تھا۔۔۔؟ دو گالیوں نے!
گالیاں۔۔۔ گالیاں۔۔۔ کہاں تھیں وہ دو گالیاں۔۔۔؟ اس کے جی میں آئی کہ اپنے سینے کے اندر ہاتھ ڈال کر وہ ان دو پتھروں کو جو کسی حیلے گلتے ہی نہ تھے،باہر نکال لے اور جو کوئی بھی اس کے سامنے آئے اس کے سر پر دے مارے، پر یہ کیسے ہو سکتا تھا۔۔۔ اس کا سینہ مربے کا مرتبان تھوڑی تھا۔
ٹھیک ہے۔ لیکن پھر کوئی اور ترکیب بھی تو سمجھ میں آئے جس سے یہ گالیاں دور دفان ہوں۔۔۔ کیوں نہیں کوئی شخص بڑھ کر اسے دکھ سے نجات دلانے کی کوشش کرتا؟ کیا وہ ہمدردی کے قابل نہ تھا۔۔۔؟ہو گا۔۔۔ پر کسی کو اس کے دل کے حال کا کیا پتہ تھا۔ وہ کھلی کتاب تھوڑی تھا،اور نہ اس نے اپنا دل باہر لٹکا رکھاتھا۔ اندر کی بات کسی کو کیا معلوم؟
نہ معلوم ہو۔۔۔! پر ماتما کرے کسی کو معلوم نہ ہو۔۔۔ اگر کسی کو اندر کی بات کا پتہ چل گیا تو کیشولال کھاری سینگ والے کے لیے ڈوب مرنے کی بات تھی۔۔۔ گالیاں سن کر خاموش رہنا معمولی بات تھی کیا؟
معمولی بات نہیں بہت بڑی بات ہے۔۔۔ ہمالیہ پہاڑ جتنی بڑی بات ہے۔ اس سے بھی بڑی بات ہے۔ اس کا غرور مٹی میں مل گیا ہے۔ اس کی ذلت ہوئی ہے۔ اس کی ناک کٹ گئی ہے۔۔۔ اس کا سب کچھ لٹ گیا ہے ،چلو بھئی چھٹی ہوئی۔ اب تو یہ گالیاں اس کا پیچھا چھوڑ دیں۔۔۔ وہ کمینہ تھا۔ رذیل تھا۔نیچ تھا۔ گندگی صاف کرنے والا بھنگی تھا، کتا تھا۔۔۔ اس کو گالیاں ملنا ہی چاہیے تھیں۔ نہیں نہیں، کسی کی کیا مجال تھی کہ اسے گالیاں دے اور پھر بغیر کسی قصور کے، وہ اسے کچا نہ چبا جاتا۔۔۔اماں ہٹاؤ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔۔۔ تم نے تو سیٹھ سے یوں گالیاں سنیں جیسے میٹھی میٹھی بولیاں تھیں۔
میٹھی میٹھی بولیاں تھیں، بڑے مزے دار گھونٹ تھے، چلو یہی سہی۔۔۔ اب تو میرا پیچھا چھوڑ دو ورنہ سچ کہتا ہوں،دیوانہ ہو جاؤں گا۔۔۔ یہ لوگ جو بڑے آرام سے ادھر ادھر چل پھر رہے ہیں،میں ان میں سے ہر ایک کا سر پھوڑ دوں گا ۔بھگوان کی قسم مجھے اب زیادہ تاب نہیں رہی۔ میں ضرور دیوانے کتے کی طرح سب کو کاٹنا شروع کر دوں گا۔ لوگ مجھے پاگل خانے میں بند کر دیں گے۔ اور میں دیواروں کے ساتھ اپنا سر ٹکرا ٹکرا کر مر جاؤں گا۔۔۔مر جاؤں گا۔ سچ کہتا ہوں، مر جاؤں گا۔۔۔مر جاؤں گا۔ سچ کہتا ہوں، مر جاؤں گا۔ اور میری رادھا ودھوا اور میرے بچے اناتھ ہو جائیں گے۔
یہ سب کچھ اس لیے ہو گا کہ میں نے سیٹھ سے دو گالیاں سنیں اور خاموش رہاجیسے میرے منہ پر تالا لگا ہوا تھا۔ میں لولا، لنگڑا، اپاہج تھا۔۔۔ پر ماتما کرے میری ٹانگیں اس موٹر کے نیچے آکر ٹوٹ جائیں، میرے ہاتھ کٹ جائیں۔۔۔ میں مر جاؤں تاکہ یہ بک بک تو ختم ہو۔۔۔ توبہ۔۔۔ کوئی ٹھکانہ ہے اس دکھ کا۔۔۔ کپڑے پھاڑ کر ننگا ناچنا شروع کر دوں۔۔۔ اس ٹرام کے نیچے سر دے دوں، زور زور سے چلانا شروع کر دوں۔۔۔ کیا کروں کیا نہ کروں؟‘‘
یہ سوچتے ہوئے اسے ایکا ایکی خیال آیا کہ بازار کے بیچ کھڑا ہو جائے، اور سب ٹریفک کو روک کر جو اس کی زبان پر آئے بکتا چلا جائے۔ حتیٰ کہ اس کا سینہ سارے کا سارا خالی ہو جائے۔ یا پھر اس کے جی میں آئی کہ کھڑے کھڑے یہیں سے چلانا شروع کر دے،’’مجھے بچاؤ۔۔۔ مجھے بچاؤ!‘‘
اتنے میں ایک آگ بجھانے والا انجن سڑک پر ٹن ٹن کرتا آیا اور ادھر اس موڑ میں گُم ہو گیا۔ اس کو دیکھ کر وہ اونچی آواز میں کہنے ہی والا تھا، ’’ٹھہرو۔۔۔ میری آگ بجھاتے جاؤ۔‘‘ مگر نہ جانے کیوں رک گیا۔
ایکا ایکی اس نے اپنے قدم تیز کر دیے۔ اسے ایسا محسوس ہوا تھا کہ اس کی سانس رکنے لگی ہے اور اگر وہ تیز نہ چلے گا تو بہت ممکن ہے کہ وہ پھٹ جائےلیکن جونہی اس کی رفتار بڑھی۔ اس کا دماغ آگ کا ایک چکر سا بن گیا۔ اس چکر میں اس کے سارے پرانے اور نئے خیال ایک ہار کی صورت میں گندھ گئے۔۔۔ دو مہینے کا کرایہ، اس کا پتھر کی بلڈنگ میں درخواست لے کر جانا۔۔۔ سات منزلوں کے ایک سوبارہ زینے، سیٹھ کی بھدّی آواز، اس کے گنجے سر پر مسکراتا ہوا بجلی کا لیمپ اور۔۔۔ یہ موٹی گالی۔۔۔ پھر دوسری۔۔۔ اور اس کی خاموشی۔۔۔ یہاں پہنچ کر آگ کے اس چکر میں تڑ تڑ گولیاں سی نکلنا شروع ہو جاتیں اور اسے ایسا محسوس ہوتا کہ اس کا سینہ چھلنی ہو گیا ہے۔
اس نے اپنے قدم اور تیز کیے اور آگ کا یہ چکر اتنی تیزی سے گھومنا شروع ہوا کہ شعلوں کی ایک بہت بڑی گیند سی بن گئی، جو اس کے آگے آگے زمین پر اچھلنے کودنے لگی۔وہ اب دوڑنے لگا۔ لیکن فوراً ہی خیالوں کی بھیڑ بھاڑ میں ایک نیا خیال بلند آواز میں چلایا، ’’تم کیوں بھاگ رہے ہو؟ کس سے بھاگ رہے ہو؟ تم بزدل ہو!‘‘
اس کے قدم آہستہ آہستہ اٹھنے لگے۔ بریک سی لگ گئی، اور وہ ہولے ہولے چلنے لگا۔۔۔ وہ سچ مچ بزدل تھا۔۔۔ بھاگ کیوں رہا تھا۔۔۔؟ اسے تو انتقام لینا تھا۔۔۔ انتقام۔۔۔ یہ سوچتے ہوئے اسے اپنی زبان پر لہو کا نمکین ذائقہ محسوس ہوا۔ اور اس کے بدن میں ایک جھرجھری سی پیدا ہوئی۔ لہو۔۔۔ اسے آسمان زمین سب لہو ہی میں رنگے ہوئے نظر آنے لگے۔۔۔ لہو۔۔۔ اس وقت اس میں اتنی قوت تھی کہ پتھر کی رگوں میں سے بھی لہو نچوڑ سکتا تھا۔
اس کی آنکھوں میں لال ڈورے ابھر آئے۔ مٹھیاں بھنچ گئیں اور قدموں میں مضبوطی پیدا ہو گئی۔۔۔ اب وہ انتقام پر تل گیا تھا! وہ بڑھا۔آنے جانے والے لوگوں میں سے تیر کے مانند اپنا راستہ بناتا آگے بڑھتا رہا۔۔۔ آگے۔۔۔ آگے!جس طرح تیز چلنے والی ریل گاڑی چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں کو چھوڑ جایا کرتی ہے،اسی طرح وہ بجلی کے کھمبوں، دوکانوں اور لمبے لمبے بازاروں کو اپنے پیچھے چھوڑتا آگے بڑھ رہا تھا۔ آگے۔۔۔ آگے۔۔۔ بہت آگے!
راستے میں ایک سینما کی رنگین بلڈنگ آئی۔ اس نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ اور اس کے پاس سے بے پروا ، ہَوا کے مانند بڑھ گیا۔۔۔ وہ بڑھتا گیا۔
اندر ہی اندر اس نے اپنے ہر ذرے کو ایک بم بنا لیا تھا۔ تاکہ وقت پر کام آئے۔ مختلف بازاروں سے زہریلے سانپ کے مانند پھنکارتا ہوا وہ اپولوبندر پہنچا۔۔۔ اپولوبندر۔۔۔گیٹ وے آف انڈیا کے سامنے بے شمار موٹریں قطار اندر قطار کھڑی تھیں۔ ان کو دیکھ کر اس نے یہ سمجھا کہ بہت سے گدھ ’پر‘ جوڑے کسی کی لاش کے ارد گرد بیٹھے ہیں۔ جب اس نے خاموش سمندر کی طرف دیکھاتو اسے یہ ایک لمبی چوڑی لاش معلوم ہوئی۔۔۔ اس سمندر کے اس طرف ایک کونے میں لال لال روشنی کی لکیریں ہولے ہولے بل کھا رہی تھیں۔ یہ ایک عالی شان ہوٹل کی پیشانی کا برقی نام تھا۔ جس کی لال روشنی سمندر کے پانی میں گدگدی پیدا کر رہی تھی۔
کیشولال کھاری سینگ والا اس عالی شان ہوٹل کے نیچے کھڑا ہو گیا۔
اس برقی بورڈ کے عین نیچے قدم گاڑ کر اس نے اوپر دیکھا۔۔۔ سنگین عمارت کی طرف ۔۔جس کے روشن کمرے چمک رہے تھے اور۔۔۔ اس کے حلق سے ایک نعرہ۔۔۔ کان کے پردے پھاڑ دینے والا نعرہ۔۔۔ پگھلے ہوئے گرم گرم لاوے کے مانند نکلا، ’’ہت تیری! ‘‘
جتنے کبوتر ہوٹل کی منڈیروں پر اونگھ رہے تھے ،ڈر گئے اور پھڑپھڑانے لگے۔
نعرہ مار کر جب اس نے اپنے قدم زمین سے بڑی مشکل کے ساتھ علیحدہ کیے اور واپس مڑا تو اسے اس بات کا پورا یقین تھا کہ ہوٹل کی سنگین عمارت اڑا اڑا دھم نیچے گر گئی ہے۔
اور یہ نعرہ سن کر ایک شخص نے اپنی بیوی سے جو یہ شور سن کر ڈر گئی تھی، کہا، ’’پگلا ہے!‘‘
مأخذ : کتاب : منٹو کےافسانے
مصنف:سعادت حسن منٹو