کہانی کی کہانی:’’یہ کہانی ہندوستانی سماج میں عورت اور اسے لے کر مرد کی ذہنیت پر سوال کھڑے کرتی ہے۔ ہمارا مرد اساس سماج، جو عورت ننگی ہے اسے تو کپڑے پہنا نہیں سکتا۔ مگر جو عورت کپڑے پہنے ہوئے اسے ننگا کرنے پر آمادہ رہتا ہے۔ تقسیم کے بعد وہ ایک پناہ گزیں کے طور پر اودھ کے علاقے میں آ بسا تھا۔ اس کے گھر کے سامنے ایک بیوہ لڑکی تھی، جس کے بارے میں شہر کے شرابی اور آوارہ قسم کے لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔‘‘
میں سمجھا ایسی عورت مجھے ہر کہیں ملےگی۔ سارے یوپی میں۔۔۔ روز پان چبانے سےدانت کتنے گندے ہوجاتے ہیں۔ دیکھتے ہی گھن آنے لگتی اور میں نفرت سے منھ پھیر لیتا۔ بھدے خدوخال، کھچڑی بال اور ماتھا اورمانگ اتنی سرخ جیسےسرخی یہیں سے جنم لیتی ہے۔
بیشتر عورتیں بدن پر صرف ایک دھوتی لپیٹے تھیں۔ صرف ایک دھوتی جس سے مرد بھی اپنا جسم ڈھانپنا عار سمجھیں اور عورتیں ایسی ایک دھوتی سے جسم کو چھپائے ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر گھوم رہی تھیں، اٹھتے بیٹھتے اس ناکافی لبا س میں۔ یہ ان کے ڈھیلے، لمبے اور بھدےپستان نکل نکل کر باہرآپڑتے تھے اور وہ مردوں کے سامنے کسی طرح کی جھجک کے بغیر انہیں دھوتی کے اندر ڈال دیتی تھیں۔۔۔ کیا عورت کو اتنی ننگی ہونا چاہیے؟ مجھے شک تھا کہ ایسی عورتیں اتنی غریب بھی ہوسکتی ہیں کہ پستان ڈھانپنے کے لیے معمولی سی انگیہ یا چولی بھی نہ خرید سکتی ہوں۔۔۔ نہیں، وہ غریب نہیں تھیں، یہ ایک عادت سی پڑچکی تھی۔ رواج سا ہوگیا تھا۔ سادگی سکڑتے سکڑتےا نسان کو اننگا کیے جارہی تھی۔۔۔ حیرت ناک طور پر ننگا!
اور یہاں کے مرد ان کی عریانی سے ذرا متاثر معلوم نہ ہوتے تھے۔ عورت کے اچانک ننگی ہوجانے یا ننگی ہوکر پھرنے سے ان کی آنکھیں ذرا بھی چمکتی نہ تھیں۔ وہ نگاہ تک اٹھاکر نہ دیکھتے تھے۔ جیسے یہ عورت عورت نہ تھی، جانور تھی۔۔۔ حیوان تھی۔ کیا وہ خود حیوان نہ تھے۔ عورت کی عریانی کو اپنی عریانی نہ سمجھتے تھے۔ ہندوستان کی عریانی نہ سمجھتے تھے۔ اور سارے سنسار کی عریانی نہ سمجھتے تھے۔
یہاں ایسی عورتیں بھی تھیں جو سر کے بالوں میں اتناناریل کا تیل ڈالتی تھیں کہ پاس سے گزرتے ہی گھن آنے لگتی۔ ان کے بال چمکیلے اور لمبے تھے۔ وہ ننگے سر چلتی تھیں اور سرجھکاکر نہیں پوری بے باکی سے سر اٹھاکر چلتی تھیں۔ بالوں میں پھول گوندھتی تھیں، اور ماتھے اور مانگ کا سیندور وہ بھی کثرت سےاستعمال کرتی تھیں۔
مندروں کے اندر اور راستے پر ایسی عورتوں کا جمگھٹ لگا رہتا تھا۔ صبح سے شام تک یہ عورتیں ختم نہ ہوتی تھیں۔ یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے ان کا ایک سمندر امڈتا چلا آتا ہو، اور جیسے یہاں عورت صرف مندروں میں آکر مورتیوں کے آگے ماتھے رگڑنے کے لیے ہی پیدا ہوئی ہے۔ یہی اس کی زندگی ہے اور یہی زندگی کا ماحصل ہے۔
گنگا کے گھاٹ پر کسی قدر شانتی ہوئی تھی۔ شہر کی گلیوں کاسا شور یہاں نہ ہوتا تھا۔ یہاں بھی عورتیں وہی تھیں، پاؤں سے ننگی اور دھوتیاں لپیٹے ہوئے۔۔۔ سیڑھیوں پر اتنی تیزی سے چڑھتی، اترتی اور پاس سے گزرجاتی تھیں، جیسے وقت کی بہت سی کڑیاں ایک ساتھ سرک سرک گئی ہوں۔ بیشتر لوگ تفریح کی غرض سے بھی آتے تھے۔ راگ اور کتھا کہنے والے پنڈتوں سے ذرا پرے ہٹ کر حددرجہ سکون اور فرحت ملتی اور جی چاہتا کہ اگر یہیں کہیں رہنے کو کوئی مکان مل جائے تو بس یہیں پڑ رہوں۔
دفتر کے ایک بابو نے ہمدردی اور امداد کی، اور اپنے محلے میں ایک مختصر سا مکان ڈھونڈ دیا اور جب میں نے نئے مکان کے اندر داخل ہوتے ہی تمام کھڑکیاں اور دروازے کھول دیے اور اپنے کو گھور گھور کر دیکھنے والوں کو میں نے بھی گھور گھور کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ جو رنگ برنگے لہنگوں چولیوں اور دھوتیوں میں چھپی ہوئی سانولی سلونی صورتیں پھرتی ہیں۔۔۔ مجھے مایوس نہ کریں گی۔ قدرت کاحسین خیال یہاں بھی میرا دل بہلائے گا۔ میں نے دیکھا کہ وہ شرماجاتی تھیں اور پیچھے ہٹ جاتی تھیں۔ ہمارا لباس تو عجیب تھا ہی، اور جو مختصر سا سامان ایک ہی مزدور کے سرپر لدواکر ان کی گھومتی ہوئی گلیوں میں سے گھماکر لے آیاتو ان کی نگاہوں میں ہمدردی جھلکتی تھی۔
ایک صاحب سپید دھوتی اور ہلکے سیاہ رنگ کا گھٹنوں تک لمباکرتہ اور اسی رنگ کی گاندھی ٹوپی ہاتھ میں مروڑتے ہوئےآئے، تومیں نے مسکراکر ان کا استقبال کیا، وہ کہنے لگے۔ ’’جو کچھ چاہیے بے جھجک کہہ دیجیے۔ آپ کی ضروریات تو بہت زیادہ ہوں گی، کیونکہ آپ ایک ایسے علاقہ سے آئے ہیں جہاں کے لوگ یہاں کے لوگوں کی نسبت زندگی کامعیار بلند رکھتے تھے۔ لیکن پھر بھی میں کوشش کروں گا کہ آپ کی ہر فوری ضرورت پوری کروں اور اپنی شریمتی جی سے کہئے کہ ان عورتوں سے ملنے جلنے کی کوشش کریں۔ یہاں کے لوگ بہت سادہ دل ہوتے ہیں۔ یہ غم و غصہ کی بجائے پیار کے زیادہ لوبھی ہیں۔ ان سے میل جول رکھیں گی تو چند دن میں اپنے پنجاب کو بھول جائیں گی۔
وہ کونےمیں خاموش اور اداس بیٹھی ہوئی میری بیوی کی طرف دیکھ کر ہنسا اور سامنےکھڑکی میں سے جھانکنے والی عورت بھی ہنسنےلگی۔
وہ بولا، ’’کیا چاہیے؟ ‘‘ میں نےکہا، ’’تھوڑی سی پسی ہوئی گندم ہمارے پاس ہے۔ کرپا کرکے نزدیک کی کوئی دکان بتادیجیے جہاں سےمیں لکڑی او رکوئلہ لے آؤں، تاکہ کھانا پکایا جاسکے۔‘‘ اس نے کہا، ’’ایسا نہ ہوگا۔ لکڑی کل آئے گی۔ یہ آٹا رکھا رہنے دیجیے۔۔۔‘‘ اور باہر نکل کر زور سے پکارا، ’’رادھا! اری او رادھا!‘‘
’’کاہے بابوجی!‘‘ ایک پتلی اور سریلی آواز سنائی دی۔ وہ بولے، ’’سنو بیٹا! آپ نو آدمی کاکھانا ہمرے یاں بنی اور ابھی ایں بنی۔ ای پنجاب سے آئل باٹن نا!‘‘ میں نے کہا، ’’ایسی تکلیف کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
’’واہ صاحب آپ اسے تکلیف کہتے ہیں؟ اور فرمائیے کیا سیوا کرسکتا ہوں؟ ‘‘
میں تشکر کے جذبات میں گھر کر خاموش ہوگیا۔ وہ رادھا کو چند ضروری ہدایات کرتے ہوئے چلے گئے۔ اور میں کمرے سے باہر نکل کر صحن میں آبیٹھا۔ بیوی بولی ، ’’ان لوگوں کی آپس کی باتیں کیسی ہیں، میرے پلے تو کچھ نہیں پڑتا۔‘‘
’’آہستہ آہستہ سب سمجھ جاؤ گی۔ یہ نیا دیس ہے اور نئے دیس میں نئی نئی باتیں ہوا کرتی ہیں۔‘‘
وہ بولی، ’’شاید بے بی کو بخار ہوگیا ہے۔‘‘ میں نےاس کی گود میں سوئی ہوئی بچی کو چھوا ، اور کہا، ’’سوئی ہوئی ہے نا، اس لیے بدن گرم محسوس ہوتا ہے۔‘‘
وہ اس کی کنپٹی پر سے بال ہٹاکر پیار کرنے لگی۔
کچھ دن گزر گئے اور یوں محسوس ہونےلگا جیسے یہاں مدت سے ہوں۔ اپنی گلی کے تمام لوگ جان گئے تھے۔ ملتے تو مسکراکر ہاتھ جوڑدیتے، حال پوچھتے اور ماضی کی یاد دلاکر مجھے بے قرار کردیتے تھے۔ جب تک میں گھر کے باہر رہتا، بیوی کےپاس کتنی ہی عورتیں اور لڑکیاں آتی تھیں۔ ایک دن میں نے پوچھا، ’’اب تو ان کی باتیں سمجھ میں آجاتی ہوں گی۔‘‘ بولی، ’’نہیں۔۔۔ ہاں اپنی باتیں کچھ تو اشاروں سے سمجھاتی ہوں، اور کچھ نئی زبان میں، باقی وہ خود سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں اور کئی طرح کی حرکتیں کرتی ہیں۔ جی لگتا رہتا ہے۔ سامنے مکان میں جو شنکری رہتی ہےنا!‘‘
’’شنکری؟ ‘‘
’’ہاں، ایک لڑکی ہے۔ اکثر کھڑکی میں آبیٹھتی ہے۔ آپ کبھی کبھی گنگناتے ہیں تو وہ بہت چاہ اور غور سے سنتی ہے۔‘‘
’’کیوں؟ ‘‘
’’وہ کہتی ہے کہ آپ کو ان کے دیس کے گیت کیسے آتے ہیں، وہ آپ کو یہاں کی ہر بات کے لیے اجنبی سمجھتی ہے۔‘‘
’’اجنبی سمجھتی ہے؟ لیکن ان کے گیت میرے لیے اجنبی نہیں ہیں، اور جب گیت اجنبی نہیں تب وہ بھی میرے لیے اجنبی نہیں ہیں، اس لیے کہ ان گیتوں کے اندر ان کا سارا اودھ اور اودھ کی روشنیاں بند ہیں۔ ان گیتوں کے جانتے ہوئے میں اجنبی نہیں رہ سکتا۔ اس سے کہنا میں اسی دیس کاہوں۔ اسی دیس کی لاج رکھنے کے لیے میں نے اپنا سب کچھ لٹایا۔ اب میں اس سےبہت دور نہیں جاسکتا۔‘‘
’’وہ ہنستی تھی کہ آپ کی زبان سے ان کے گیت کتنے پیارے معلوم ہوتے تھے۔‘‘
’’اچھاوہ ہنستی تھی؟ ‘‘میں نے ہنستے ہوئے پوچھا
’’کیوں؟ آپ کو اس کے ہنسنے پر اعتراض ہے۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ میں نے اس کی ہنسی کی تہ میں اس کے جذبات کو محسوس کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
’’بچاری بیوہ ہے! اس کے جذبات ہنسنے کے تھوڑے ہی ہیں!‘‘
’’بیوہ ہے؟ ‘‘
’’ہاں۔ بیاہ کے پہلے ہی سال باپ کے گھر آبیٹھی۔ پھر واپس جانا نصیب نہ ہوا۔‘‘
کل جب میں باہر نکلا تو وہ سبز رنگ کی چولی پہنے، بسنتی رنگ کی دھوتی باندھے کھڑکی کے پاس آگئی اور یوں جھانکا اور چونک کر پیچھے ہٹی کہ میری نگاہوں کے سامنے جیسے بجلی کوندگئی ہو۔ ہاتھوں کی چوڑیاں ایک بار گنگنا کر چپ ہوگئیں، جیسے گانے والے کا گانے گاتے اچانک گلا گھونٹ دیا گیا ہو اور گیت ادھورے رہ گئے ہوں، درمیان میں ٹوٹ گئے ہوں۔ کھڑکی کے سامنے سے گزرتے ہوئے میں نےاندر گھور کر دیکھا۔ وہ طاق کی اوٹ میں سہمی ہوئی کھڑی تھی، جیسے اس سے کوئی بڑی غلطی سرزد ہوگئی ہو۔
چند دن اور گزر گئے۔
ایک شام جب اندھیری گلیوں کے دونوں طرف اونچے مکانوں کی چوٹیاں سنہری دھوپ سے چمک رہی تھیں اور دفتر کے بابو جلدی جلدی قدم بڑھاتے گھروں کو واپس آرہے تھے اور دودھ والے گوالے بالٹیاں سائیکلوں کے آگے پیچھےلٹکائے اور اونچی نیچی نالیوں پر کھڑکھڑاتے ہوئے گلیوں کے چکر کے ساتھ ساتھ گھوم رہے تھے اور ہماری گلی کا دوبے جی اپنی روز کی اونچی کرخت آواز میں اپنے مکان کی آخری منزل میں سے ’’رسنارام نام گن گا‘‘ چلارہاتھا۔۔۔ تو گلی کے موڑ پر اچانک میرے پڑوسی بھیروپرشاد مل گئے۔ دیکھتے ہی چلائے، ’’آہا آپ ہیں! کہیے جی لگ گیا؟ ‘‘
قریب آئے تو معلوم ہوا کہ شراب پئے ہوئے ہیں۔ میں نے آہستہ سے کہا۔ ’’کچھ اجنبیت تو کم ہوگئی ہے۔‘‘ سرگوشی میں بولے، ’’کچھ دیکھا بھی ہے یہاں؟ ‘‘میں نے کہا، ’’نہیں۔‘‘
’’کچھ بھی نہیں دیکھا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’سچ کہتے ہو؟‘‘
حیرانی سے میں نے سرہلایا۔ وہ بولا، ’’عورت بھی نہیں دیکھی؟‘‘
’’کیسی عورت۔۔۔ ؟‘‘ میں عورت کے متعلق سوچنے لگا وہ بولا ’’واہ تم کیسے بابو ہو! وہاں تمہاری طرف عورتیں تو ہوں گی، لیکن یہاں کی عورت بھی دیکھنی چاہیے۔۔۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے ایک طرف کھینچ کر لے چلا۔
’’آؤ آج تمہیں ایک عورت دکھاؤں۔ دیکھو گے؟‘‘ چند گلیاں گھوم کر ایک تنگ سے مکان میں لے گیا۔ اندر صحن میں جاکر گنگا کو پکارااور گنگا ایک کمرے میں سے نکل کر ہنسنےلگا۔
’’آگئے بابوجی؟‘‘
’’ہاں بھئی۔۔۔ لیکن یہ اندھیرا کیوں کر رکھا ہے؟‘‘
’’آپ اندر چلیے، میں دیا جلاتا ہوں۔‘‘ وہ بازو اٹھاکر بغل کھجاتےہوئےدیا تلاش کرنے لگا۔
اندھیرے کمرےمیں داخل ہوتے ہی چوڑیاں گنگنائیں اور بھیرو ادھر چلا گیا۔ ہلکی سی ہنسی سنائی دی۔ روشنی آئی تو سب کچھ روشن ہوگیا۔ کونے میں ایک کھاٹ پر میری طرف پیٹھ کیے اور سبز رنگ کی چولی پہنے ایک عورت روشنی سے بچنےکے لیے سمٹی جارہی تھی۔ بھیرو بولا، ’’یہاں آئیے۔‘‘
میں نے کہا، ’’یہ تو شنکری ہے۔‘‘
’’تم شنکری کو جانتےہو؟‘‘
’’صرف نام سنا ہوا ہے۔‘‘
’’نام سنا ہے تو تب ضرور جانتے ہوگے۔ اس کا مطلب ہے تم نے جھوٹ کہا کہ تم نے یہاں آکر کچھ نہیں دیکھا۔ جس نے شنکری دیکھ لی۔ اس نے سب کچھ دیکھ لیا۔ لیکن یہ شنکری نہیں ہے۔ یہ مس نسیم ہے!‘‘
میں نے قریب آکر گھور کر دیکھا اور حیران ہوکر پوچھا، ’’مس نسیم؟‘‘
’’جیں آں مس نسیم!۔۔۔ فلم سٹار!!‘‘
میں اور نسیم دونوں ہنسنے لگے۔ بھیرو نسیم کے پاس بیٹھ گیا۔ اس کاچہرہ روشنی کی طرف گھماتے ہوئے بولا، ’’سچ بولیے گا مس نسیم سے بھی بڑھ کر ہے یا نہیں؟‘‘ اس کی نسیم نے پان کی پیک نیچے فرش پر بکھیردی اور پھپھوندی لگے دانتوں کا ہنس کر مظاہرہ کرنے لگی۔ میں نے کہا، ’’اس کانام نسیم نہ رکھو۔‘‘
’’تو کیا کہوں اسے؟‘‘
’’اسے گل نسیم کہا کرو۔‘‘
بھیرو نےہنستے ہوئے نسیم کو ٹھوکا دیا۔ بولا، ’’دیکھو قدردانی اس کا نام ہے۔ یہ تو تمہیں گل نسیم بنارہے ہیں اور تم انہیں اٹھ کر نشست بھی پیش نہیں کرتیں۔ واہ تم بھی کیسی ہو؟ ‘‘ وہ جیسے شرمندہ ہوکر اٹھ پڑی اور بولی، ’’تشریف رکھیے۔‘‘
میں نے کہا، ’’شکریہ! میں اب چلتاہوں۔‘‘ بھیرو چونک کر بولا، ’’ارے کاہے کو؟‘‘
’’میں پھر کسی دن حاضر ہوں گا۔ ایک ضروری کام سے جانا ہے۔‘‘
’’ارے واہ ، ایسا بھی کیا ضروری کام یاد آگیا!‘‘
’’ابھی یاد نہیں آیا۔ پہلے بھی وہیں جارہا تھا۔ راستے میں آپ مل گئے اور ادھرگھسیٹ کرلے آئے۔‘‘
’’دیکھو بھیا، ناراض تو نہیں ہونا؟‘‘
’’نہیں صاحب ناراضی کس بات کی۔‘‘
’’تو گنگا، انہیں چھوڑ آؤ۔‘‘ وہ وہیں لیٹ گیا۔ باہر نکلتے ہی بھیرو کے گانے کی آواز سنائی دی۔ جیسے راگ اور رنگ گھل مل گئےہوں۔
گلیاں چھوڑ کر میں بازار میں آگیا۔ پرانت سرکار کی پبلسٹی کی لاری کے لاؤڈسپیکر سے ’’امن قائم کرو۔۔۔ فرقہ وارانہ بھوت سےلڑو‘‘ کے نعرے بلندہوتے جارہے تھے اور لوگ جولاری کے آجانےسےایک طرف ہٹ گئے تھے، لاری گزرجانے کے بعد سڑک پر پھر سے یوں پھیل رہے تھے جیسےگھٹیا قسم کے کاغذ پر لکھتے سیاہی بکھرجائے۔ میں نے فٹ پاتھ سےاتر کر سڑک کے پار جاتے ہوئےسوچا، سکڑ کر کھڑا رہنا ٹھیک نہیں۔ کہیں جانا چاہیے۔ بھیرو پرشاد سے ملنے سے پہلے اپنے محلے میں رہنے والے ایک پروفیسر کے ہاں جارہا تھا۔ کل آرٹ لائبریری کے باہر بس اسٹینڈ کے پاس اچانک ہی ان سے ملاقات ہوگئی۔ آدھ گھنٹے سے ہم بس کے انتظار میں کھڑے تھے اور جب انتظار سے اکتاکر ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تو وہ میرے قریب آکھڑےہوئے۔ بولے، ’’معلوم ہوتا ہے آپ پنجاب سےآئے ہیں۔‘‘
میں نے کہا، ’’جی ہاں!‘‘
’’پھر سے زندگی میں دلچسپی پیدا ہوگئی ہے یا ابھی کچھ تکلیف ہے؟‘‘
اس استفسار پر میں نے کہا، ’’آپ لوگوں کی عنایت سے کچھ اپنا معلوم ہو رہاہے۔‘‘
’’نہیں، یوں نہ کہیے، ہماری طرف سے جیسی بھی ادنی سی خدمت ہوسکے ، اسے اپنا حق تصور کیجیے گا۔‘‘
’’شکریہ!‘‘
’’لیجیے بس بھی آگئی۔‘‘
بس نے ہمیں ایک جگہ اتارا۔ اور وہ میرے ساتھ ساتھ مڑتے ہوئے بولے، ’’کیا آپ بھی اسی محلہ میں رہتے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں، سامنے جو بازار ہے اس کی چند گلیاں گھوم کر میں اپنے مکان پر پہنچ جاتا ہوں۔‘‘
وہ ہنستے ہوئے بولے، ’’اوراسی بازار کے سرے پر پہنچ کر میرا مکان آجاتا ہے۔ یہ لیجیے میرا ایڈریس کارڈ۔ جب بھی فرصت ملے میرے یہاں ضرور آئیے۔۔۔ جے ہند!‘‘
کارڈ پر لکھے ہوئے ’’سی۔ سی واستوا‘‘ کو دہراتے ہوئے ایک مکان کے سامنے جاکھڑا ہوا۔ جہاں دیوار پر لٹکے ہوئے بورڈ کے ساتھ کال بیل لگی ہوئی تھی۔ گھنٹی بجتے ہی اوپر دوسری منزل کی کھڑکی سے ایک نوکر جھانک کر بولا، ’’نیچے بغل کے کمرے میں تشریف رکھیے۔ پروفیسر صاحب آتے ہیں۔‘‘
چق اٹھاکر میں اندر چلا گیا۔ صوفے پر بیٹھی ہوئی ایک پتلی سی لڑکی کے فوراً دونوں ہاتھ جڑ گئے۔ اس کے اندر مجھے پہلی نگاہ میں شنکری نظر آئی اور دوسرے صوفے پر بیٹھتے ہوئے میں سوچنے لگا۔ جہاں جاتا ہوں شنکری ہی نظر آتی ہے، نہ جانے کیا بات ہے۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد شنکری آپ بول پڑی۔
’’پروفیسر صاحب چائے پی رہےہوں گے!‘‘
’’ابھی آئے ہوں گے نا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’جی ہاں ہر روز اسی وقت آتے ہیں۔‘‘
’’آپ ان کے پاس پڑھتی ہیں؟‘‘
’’جی ہاں کچھ تعلیم پائی ہے اور۔۔۔‘‘ اور وہ میری مسلسل گھورتی ہوئی نگاہوں سےبچنے کے لیے باہر دروازے کی طرف دیکھتی ہوئی بولی، ’’اور اب اپنے آپ کو اس قابل سمجھتی ہوں کہ کسی امتحان میں بیٹھوں۔‘‘
’’تو۔۔۔ آپ نے پرائیویٹ تعلیم پائی ہے؟‘‘ اس نے سرہلادیا۔ دیوار پر لگی ہوئی تصویر میں گاندھی جی کو سوچتا دیکھ کر میں بھی کچھ سوچ میں پڑگیا۔ وہ بولی، ’’آپ ہمارے مکان کے سامنے رہتے ہیں نا؟‘‘
اس کے سوال پر مجھے ہنسی آگئی۔ وہ اس بات کے سوااور کوئی بات بناہی نہ سکتی تھی۔ ماحول اچھا ہو تو اجنبیت کو نہ رہنے دینا چاہیے۔ دل نے کہااچھی بات ہے اور اس کی طرف دیکھا ۔ وہ میری ہنسی سےمتاثر معلوم ہوتی تھی۔ اور جیسے میرے اچانک ہنس پڑنے سےاسے اپنی کسی غلطی کا احساس ہو رہاہو۔ میں نے جلدی سے کہا، ’’آپ شاید پتھروں والے مکان میں رہتی ہیں۔ میرا مطلب ہے جو سپید سنگ مرمر کےدروازے والا مکان ہے۔‘‘
میرے منھ سے پتھروں کا ذکر اسے شاید ذرا سخت محسوس ہوا۔ مسکراکر بولی، ’’اس پتھروں والے مکان میں تھوڑی سی جگہ خالی کی جاسکتی ہے۔ جس دن آپ ہمارے سامنے کے مکان میں آگئے، تو اسی دن پتاجی کہہ رہے تھے کہ پنجاب سے آئے ہوئے لوگ اگر پوچھنے آئیں تو انہیں نیچے کامکان کھول دیا جائے۔‘‘
’’مجھے یہاں آکر محسوس ہوا ہے، جیسے پاکستان میں ہم نے سب کچھ کھوکر کچھ نہیں کھویا۔ محبت بھرے دل میں یہاں ملتے ہیں تو ایسی حالت میں جذبات سے دل بھرآتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس وقت شکریہ ادا کرنے کو الفاظ نیںچ ملتے۔‘‘
’’نہیں، اس کی کیا ضرورت ہے، یہ تو آپ لوگوں کاحق ہے۔‘‘
’’کیا حق ہے؟‘‘ میرے ذہن میں لفظ حق پلٹیاں کھا کھا گیا کہ یہ حق کیسے پیدا ہوگیا۔ یوپی کے اس سرے پر تو نہ تھا، جو پوربی پنجاب کے ساتھ ملتا ہے۔ وہاں لوگ شرنارتھی کہلائے جانے کے باوجود سڑکوں اور بازاروں کے ایک طرف پڑے ہوئے ہیں۔ وہیں کھاتے اور پیتے ہیں، وہیں جاگتے اور سوتے ہیں اور وہیں پیدا ہوتے اور مرتے ہیں۔
’’کہیے کیا سوچ رہے ہیں؟‘‘
میں جب سوچتا ہوں تو بھول جاتاہوں کہ گردوپیش کیا ہے اور جب یہ سوچنا پڑجائے کہ کھانا کیا ہو اور رہنا کیونکر ہو تو ذہن میں تھوڑی سی گرمی پیدا ہوجاتی ہے۔ زندہ رہنے کی تمام ذمہ داری زندہ رہنے والے انسان پر ہے۔ لیکن جب انسان اور انسانیت کے حقوق کا سوال آجاتا ہے تو خیالات میں تھوڑی سی جدوجہد پیدا ہوجاتی ہے۔ یہی جدوجہد انسان کے دماغ سے نکل کر باہر دنیا میں آگئی ہے۔ جدوجہد انسان کی زندگی ہے۔ یہ جدوجہد ختم ہوجائے تو انسان ختم ہوجاتا ہے۔ انسان نہ رہے تو جدوجہد نہیں رہتی۔
اس نے پوچھا! میں کیا سوچ رہاتھا؟ میں کاؤچ کے کونےمیں سکڑی ہوئی ایک پتلی اور کمزور سی لڑکی کو کس طرح بتاتا کہ انسان کی سوچیں کیا ہیں؟ اور ان سب کاحل کیا ہے، ایک مکمل اور کامیاب حل!! لیکن وہ خود ایک حل کی طلب گار تھی۔ زندگی کے سوال کاجواب دیتے دیتے خود ایک سوال بن کر رہ گئی تھی۔ وہ بیوہ تھی۔ اس عمر میں بیوہ تھی۔ اس گھر میں بیوہ تھی۔ جو ابھی تک بیوہ کی شادی کو پاپ سمجھتا تھا۔ اس دور میں پہنچ کر بھی جہاں ہزاروں کی تعداد میں بیوہ عورتوں کا اضافہ ہوگیا تھا۔ کچھ لوگ ایسے تھے جو بیوہ کی شادی کو پاپ تصور کرتے تھے۔ میں اس کی معصومیت کے آگے اپنی نگاہوں کو سجدہ ریز کرتے ہوئے بولا، ’’آپ لوگ اگر اسی طرح ہمیں حق دیتے چلے گئے تب تو ہماری جدوجہد کمزور پڑجائے گی۔‘‘
’’میں سمجھی نہیں۔۔۔‘‘
’’ہمیں صرف زندہ رہنے کا موقع دیجیے۔ ہمارے حقوق ہماری جدوجہد نے چھینے ہیں اور جدوجہد ہی سے واپس لیں گے۔ آپ صرف زندہ باد کہیے۔‘‘
’’اس کی آنکھوں میں چمک پیداہوگئی۔ بولی، ’’میں ایک کمزور سی لڑکی ہوں، لیکن آپ کے بلند حوصلے دیکھ کر میں بھی اپنے کمزور بازوؤں میں زندگی محسوس کرنے لگی ہوں۔‘‘
’’مجھے پنجابی ہونے پر فخر ہے اور بہت کم ایسے پنجابی ہوں گے جو موجودہ تباہی کے باعث کانگریس کو گالیاں دیتے ہوں گے، ورنہ بیشتر لوگ جو سڑکوں اور میدانوں میں پڑے ہوئے ہیں وہ وہیں محنت او مزدوری کرکے اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمیں مفت کی روٹیاں اور کیمپوں کی زندگی دی جائے، یہ ہماری امداد نہیں۔ ہمارے ساتھ بے انصافی ہے، دشمنی ہے، بھیک اور کاہلی کا درس ہے۔
پروفیسر صاحب اندر آگئے۔
’’مجھے معاف رکھیے، میں نے آپ کو بہت دیر تک انتظار میں رکھا۔‘‘ اور اپنی معذرت پر ہمیں ہنستا دیکھ کر بولے، ’’معلوم ہوتا ہے آپ انہیں جانتے ہیں۔‘‘ وہ میری طرف دیکھنے لگے۔
’’جی ہاں، صرف اتنا جانتا تھاکہ یہ مجھے جانتی ہیں۔ کیونکہ ان کے سامنے مکان میں رہتاہوں۔‘‘ وہ ہنس پڑے اور یوں معلوم ہواجیسے ایک ہی قہقہے میں ان کی چائے ہضم ہوگئی ہوگی۔
’’صاحب۔۔۔ ایک تو یہ میری شاگرد اور پھر دوست کی لڑکی اور تیسرے۔۔۔‘‘ وہ انگلیوں پر گنتے گنتے خاموش ہوگئے۔ شنکری کے چہرے پر ایک دم بہت سی باتیں پیدا ہوگئیں۔ پروفیسر صاحب بولے، ’’میرے آنے سے پہلے آپ شاید کسی جدوجہد کا ذکر کر رہے تھے۔ سیڑھیوں پر سے اترتے وقت لفظ جدوجہد میرے کانوں تک پہنچا تھا تو۔۔۔ جدوجہد کیسی بھی ہو، اس وقت تک بے کار، بے سود اور نامکمل ہے، جب تک اس جدوجہد میں عورت شامل نہیں۔ اور جس عورت نے آزادی جیسی سب سے بڑی جدوجہد میں مرد کا ساتھ دیا ہو اور آزادی حاصل کرنے کے بعد اگر اسے اپنا حق نہ ملے تو یہ مرد کی کتنی بڑی بے ایمانی ہے، جرم ہے۔
میں نے حکومت کو چیلنج کیا ہے اور جلد ہی ملک کے اس سرے سے اس سرے تک آگ لگادیناچاہتا ہوں کہ کوئی بیوہ عورت اس لیے دوسری شادی سے محروم نہ رکھی جائے کہ اسے رسم و رواج روکتے ہیں۔ یہ رسم و رواج ہماری غلامی کی یادگاریں ہیں۔ یہ یادگاریں ہماری ترقی کو روکتی ہیں اور ہندوستان سے باہر کی دنیا کے سامنے غلط طور پر نمائندگی کرتی ہیں۔ میں ہر سال ایک ہزار طلبا کو تعمی۔ دیتا ہوں۔ وہ میرے سپاہی ہیں اور میری جدوجہد کو بخوبی سر انجام دیں گے۔ میرا ایک اک سپاہی روشنی بن کر تاریکیوں میں گھوم گھوم جائےگا۔ یہ لڑکی مجھے اس لیے عزیز ہے کہ بال ودھوا ہے اور اس کا باپ میرا دوست ہونے کے باوجود پرانے رسم و رواج کا پابند ہے۔ میں نے اسے پڑھایا ہے اور اس قابل کردیا ہے کہ ملک کے اندر آزادی سے چل پھر سکے۔ جلد ہی شنکری اپنے ساتھ لڑکیوں کے ایک بہت بڑے گروپ کو لے کر پوربی پنجاب اور دہلی جارہی ہے۔ وہاں جاکر یہ لڑکیاں ان بیوہ عورتوں اور اناتھ لڑکیوں کے دکھ درد بانٹیں گی۔ جو پچھمی پنجاب سے آئی ہیں۔۔۔‘‘
وہ کچھ دیر چپ رہےتو میں نے یوں سمجھا جیسے تھک کر دم لے رہے ہوں۔ شنکری کھانسنے لگی۔ وہ بولے، ’’کہیے صاحب۔۔۔ میں باتوں باتوں میں بہت دور چلا گیا، آپ کی کیسی گزر رہی ہے۔‘‘ وہ ہنسنےلگے۔
’’میں خود بہت تیزی سے گزر رہا ہوں۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’دیکھیے، کہاں پاکستان اور پھر پوربی پنجاب اور دہلی اور سارا یوپی گزر کر یوپی کے اس سرے پر آپہنچا ہوں اور پھر جب سے آیا ہوں اپنے آپ کو ایک دن بھی شرنارتھی محسوس نہیں کیا۔‘‘ وہ پھر ہنسے۔ ان کی ہنسی بارود کی طرح پھٹ کر بکھر جاتی تھی۔
’’آپ پہلے کب شرنارتھی تھے؟‘‘
’’کبھی نہیں تھا۔ لیکن جب ہمیں حکومت اور پریس اور امن میں پڑے ہوئے لوگوں نے مل کر اور ہم آہنگ ہوکر چاروں طرف سے شرنارتھی شرنارتھی کہنا شروع کیا تو یہ حقیقت ہے کہ ہم گھبراگئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے سب نے مل کر ہمارے خلاف سازش کر رکھی ہو۔‘‘ اب کے ہنسنے میں ہم تینوں نے حصہ لیا۔ لیکن بڑا حصہ پھر بھی پروفیسر صاحب نے لیا۔ جب قہقہوں کی گونج دھیمی پڑی تو میں اور شنکری اٹھ کر چلے آئے۔ بازار ختم کرکے اپنی گلی کی طرف مڑے تو شنکری نے کہا:’’سنیے۔ میں آپ سے معافی چاہتی ہوں۔ آپ ذرا یہاں پر ٹھہر جائیے، میں آپ سے آگے چلی جاتی ہوں، وہ سامنے میرے پتاجی آرہے ہیں۔ وہ مجھے آپ کے ساتھ دیکھیں گے تو سچ مچ کاٹ کھائیں گے۔‘‘
’’کیوں؟ آپ کا قصور کیا ہے؟‘‘
’’صرف یہی کہ بے قصور ہوں۔ آپ معاف کیجیے گا۔۔۔ !‘‘ وہ جلدی جلدی قدم بڑھاتی ہوئی نکل گئی اور پیچھے سے اچانک میرے کاندھے پر کسی نے مضبوط ہاتھ رکھ کرمجھے چونکا دیا۔
’’کیوں میرے یار! اسی کام کا بہانہ کرکے ہمیں چھوڑ کر آگئے تھے!‘‘
یہ بھیرو پرشاد تھے۔ منہ سے پان کی پیک پچ سے ایک طرف دیوار پر پھینک دی اور بولا، ’’بھئی ہمیں بھی دلاؤنا!‘‘ وہ ابھی نشے میں چور تھا۔ میرا جی چاہا اسے گردن سے پکڑ کر زمین پر دے ماروں اور دانتوں سے اس کی بوٹی بوٹی نوچ لوں۔ ذہن میں اَن گنت گالیاں تیرنے لگیں۔ وہ کھڑا ہنس رہا تھا اور پان چبارہا تھا اور میں کھڑا ہونٹ کاٹ رہا تھا اور جل رہا تھا۔ ایک آگ وہ تھی جس میں وہ جل رہاتھا اور ایک آگ ایسی تھی جس میں شنکری جل رہی تھی اور ایک آگ یہ تھی جس میں میں گھرا ہوا تھا۔ خاموشی اور زبان دونوں کاٹتی تھیں، دونوں زہر تھیں، برچھیاں تھیں۔
بازار میں چلتے چلتے ایک عورت کے آنچل سے امرود گر گئے۔ زمین پر لڑکھتے ہوئے امرود کو اٹھاتے وقت دھوتی میں سے اس کے پستان باہر نکل پڑے۔ وہ دھوتی درست کرتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ کسی نے دیکھا تک نہیں۔ کسی نے پرواہ تک نہ کی۔ سب کے سامنے ایک عورت ننگی ہوگئی تھی۔ اچانک ننگی ہوگئی تھی۔ عورت۔۔۔ جس کی عریانی کے وہ خواب دیکھتے تھے۔ امنگ رکھتے تھے۔ ارادہ رکھتے تھے۔ لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ یہ بھیرو! کالا سیاہ بھیرو!! شرابی اور بدمعاش بھیرو نے بھی اس کی طرف نہ دیکھا۔ اور میرا کاندھا ہلاکر بولا، ’’میرے یار خاموش کیوں ہوگئے؟ بتاؤنا!‘‘
جو عورت ننگی نہ تھی اسے وہ ننگا کرنا چاہتا تھا اور جو عورت ننگی تھی اور ننگی ہی رہنا چاہتی تھی۔ اسے کوئی دیکھتا نہ تھا۔ پان کی پیک بھی نہ پھینکتا تھا۔۔۔ پچک!
مأخذ : جو عورت ننگی ہے
مصنف:رام لعل