بانیہ

0
163
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

یہ بہت حسین خنک و نم رات تھی ۔ ستارے آسمان پر مسکرا رہے تھے ۔ چاند آسما ن پر اور زمین پر بہت دن بعد آیا تھا۔ سو مست مسرور سے نیم سفید بادل اس کے گرد مدھر رومانوی رقص میں اترا رہے تھے۔ وہ چاند تھا اپنی مستی میں مست، نازاں۔ کہ چاہے جانے کا بھی تو اک الگ ہی نشہ ہے جس کا خمار اترے نہیں اترتا۔

آسمان پہ اک الگ رومان آج اپنی کائنات بسائے ہو ئے تھا۔ زمیں پہ اک دل فریبی مہک رہی تھی۔

اس کے کمرے کی رائل بلو اور آف وایٹ مدھم روشنیاں، اک دوجے میں مدغم ہو ئے چلی جا رہیں تھیں۔ بستر پہ موتیا چادر بچھی تھی جس میں سہاگ کی سی سنہری تاریں کھکھلا رہیں تھیں۔ دو بڑے کشنز، ایک گاؤ تکیہ، دو چھوٹے کشن سب کی موتیا زمین پہ ہلکے پیازی پھولوں کی بہار تھی ۔ جن میں سنہری تاریں ست رنگ ستاروں کی طرح چمک رہی تھی۔

آرگینزا کے موتیا رنگی پردے کھڑکی سے آتی مست ہو اکے سنگ یوں جھوم رہے تھے۔ جیسے وائلن کے تار بج اٹھے ہوں۔

عورت بھی عجب ہے کیسی بھی کیوں نا ہو ،کہاں بھی ہو اس کادل کسی خاص کے لئے سنورنے کو ہمیشہ گدگداتا ہے۔سجنے کو من چاہتا ہے اور اس مو تیا رنگی کمرے کی عورت اس کی تو آنکھیں اور دل محبت اور حسن کے پیاسے تھے۔ اس کی فطرت بھی عجیب ہے، اسے بھوک نہیں لگتی پیاس لگتی ہے۔ وہ اپنی حدتو ں سے پیاسی رہ جاتی ہے۔ کیو نکہ چاہنے والا تناول سمجھتا ہے،نوش کو ناک پہ نہیں رکھتا۔

- Advertisement -

اس نے پردہ ہٹا کر چاند کی طرف دیکھا اس پہ دل آ گیا، چودھویں کا تھا۔ جھٹ سے پردہ گرا دیا تو کمرے کے ماحول سے مچل اٹھی۔

الماری کھولی، ایک پھولوں سے بھرا شوخ کرتا نکالا، چوڑی دار پاجامہ اور ویسا ہی شوخ و چنچل دوپٹہ۔شب خوابی کا لباس اتارا اور اسے گلے لگا لیا۔ شنگھاڑ میز کے پاس گئی، دائیں ہاتھ کی دراز کھولی، نفیس ترین جیولری سے بھری پڑی تھی۔ اس نے ان میں سے کلیو ں کی مانند پنگ آویزے نکا لے اور کا نو ں میں ڈال لئے۔ چہرے پہ ہلکی سی پفنگ کی، آنکھوں میں کاجل کی لکیر پھیری۔ ہاتھو ں پیروں کے ناخنو ں پہ گلابی پتیاں بکھیر دیں۔ اس کے ہاتھ کسی مورتی کے جیسے تھے۔ جو اور مقدس لگنے لگے۔ ہو نٹوں پہ شوخ سا پیازی رنگ نفاست سے جما دیا۔ جوں جوں وہ خود میں رنگ بھر رہی تھی توں توں اک خمار سا اس کو اپنی با ہو ں میں لے رہا تھا۔

اس نے دوسری دراز سے پھولوں بھری انگوٹھیاں نکالی اور دونوں ہا تھوں کی نازک انگلیوں میں سجا لیں۔ پھر اس نے چند اور پیازی کلیاں نکا لیں اور ہیر پین کی مدد سے بالو ں میں بہار بھر دی۔

ڈریسنگ روم میں گئی الماری سے قوس قزاح کے ستاروں والی نرم و ہلکی پھلکی سی جوتی میں پیرچھپا لئے۔ بیڈ پہ رکھا بہار رنگ دوپٹہ اٹھایا اور لہرا کر کاندھوں پہ لے لیا۔ اتراکر، شرماکر، کھڑکی کا پردہ اٹھایا، چاند ذرا آگے کو بڑھ گیا تھا۔ پردہ گرایا اور کمرے کے اس کو نے کو چل دی جہاں اک ہم قد آئینہ لگا ہو اتھا۔ آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی خود کو سرتاپا دیکھ کر شرما سی گئی۔ اپنے آپ سے نظریں چڑا گئی۔ کہ اس کی آنکھو ں سے اچانک رم جھم ہو نے لگی۔

اس نے آئینے کے ساتھ رکھی لکڑی کی میز پہ سے ٹشو پیپر لیا اور آنکھیں صاف کرنے لگی۔

’’نہیں میری جان۔۔۔ وہ میری رات تھی۔۔۔

میری، تمہاری رات تھی۔۔۔، تمہاری، میری رات۔۔۔تھی‘‘

وہ آنکھیں صاف کر تے اٹھی اور بستر پہ الٹا لیٹ گئی۔

کہنیو ں کے بل اٹھی، تکیے کے نیچے سے ڈائری نکالی اور اس پہ کچھ لکھنے لگی۔ لکھتے لکھتے پھر سے آنکھوں نے ڈائیری کو بھگو دیا۔ اس کے بال جھک کر ڈائیری کو چھونے لگے۔ وہ انگلی سے انہیں پیچھے کرتی۔ مگر کھڑکی سے آتی ہوا، تیز ہوتی جا رہی تھی، جو اس کے بالوں کو اس کے گالوں تک لے آتی۔

بالوں نے ڈائری کے کچھ لفظوں کو چھو کر آزاد کر دیا۔ وہ ہو اکے سنگ اڑنے لگے

اے زندگی۔۔۔ اب کبھی کھلے آسمانو ں میں۔۔۔ بے کراں سمندروں کے سینوں پہ۔۔۔ ہم کبھی جو ملے۔۔۔

تو۔۔۔ تمہیں گلے کیسے لگاؤں گی۔۔۔؟ کیسے؟

اس کی آنکھو ں سے موتی ٹپکے اور ڈائری کے اوراق بھیگ گئے۔ اس نے ڈائیری کو اس کا بو جھ اٹھانے نہیں دیا اور بند کر دیا۔ ڈائری کو تکیے کے نیچے واپس رکھ دیا۔

وہ اٹھی، نیلی روشنی گل کر دی۔ مدھم موتیا اداس روشنی تنہا رہ گئی۔ جیولری اتاری۔ کپڑے اتارے اور وہی شب خوابی کا لباس پہنا، باتھ روم میں جاکر منہ ہاتھ دھویا اور لیپ ٹاپ لے کر بستر پہ بیٹھ گئی۔ اک مووی جو اس نے کسی ایسی ہی جاگتی رات کے لئے سنبھال رکھی تھی نکالی اور دیکھنے لگی۔

زندگی بس اک خواب کی طرح یہاں ہم آغوش تھی۔ پانی کا سکوت، بارش کے قطروں سے باہر ٹوٹ رہا تھا۔ تو اس سفید گھر کے اند ر، سفید کمرے میں، سفید بستر پہ، دو حیں ٹوٹ پھوٹ کر اک جا ہو رہی تھیں۔ کبھی ہنستی تو کبھی کرب سے بے چین ہو جاتیں۔ حسن تھا، کیف تھا، سب کچھ سفید مگر لمحات و جذبات سچے و سچے رنگین تھے۔

وہ پھر سے رونے لگی۔ باقاعدہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

سکرین پہ محبت اپنی آخری پر سکون سانس لے رہی تھی ۔کھڑکی سے باہر آسمان اور زمین اک دوجے کی اور کھچ رہے تھے۔

اس نے لیپ ٹاپ بند کیا۔ اٹھی کھڑکی بند کرنے لگی۔۔۔

اسے کسی نے ہنستے ہو ئے اچانک بستر پہ گرا دیا اور خود اس کے اوپر آگرا۔ وہ بھی ہنسنے لگی۔

تمہیں کیسے پتا میں تمہیں یاد کر رہی تھی؟

کیونکہ دل کو دل سے راہ جو ہوتی ہے۔

وہ کھکھلا کر ہنس پڑی۔

وہ جب بھی اس کے پاس ہو تا تھا ۔ اس کا دل کرتا ہنستی رہے، مسکراتی رہے۔ جب سے وہ اس کی زندگی میں آیا تھا۔ اس کے گا لو ں پہ سرخی بکھر گئی تھی۔ اس کا رنگ چمکنے لگا تھا۔ اس کا دل بات بے بات ہنسنے کو کرتا تھا۔ اسے سب کچھ حسین لگنے لگا تھا۔ وہ اندر تک جاگ گئی تھی۔ اس کا دل کرتا بس وہ اسے یونہی چاہتا رہے۔ وہ یونہی پگھلتی رہے۔ کوئی یونہی اس کے روم روم تک اترتا رہے۔ یونہی اپنی باہوں میں لے کر بھول جائے اور باہو ں سے اپنے وجود کا حصہ بنالے۔ جس کو جدا نا کیا جا سکتا ہو۔ ایسا پہلے کبھی نا ہوا تھا۔

اس نے آج کی رات بھی ایسا ہی کیا۔ وہ ہنستے ہنستے اس کے ساتھ پگھل گئی وہ ہنستے ہنستے اس میں آج بہت دور تک چلا گیا کہ اسے اپنا ہوش بھی نا رہا۔ ایسا بھی پہلے کبھی نا ہوا تھا۔ کہ وہ ہنستے ہنستے اپنی ہنسی کھو بیٹھا ہو۔

وارفتگی میں وہ اس کے ہونٹ، اس کی گردن چومنے لگا۔

’’بانیہ۔۔۔ میری طرف دیکھو۔۔۔‘‘

وہ چومتا ہی چلا جا رہا تھا۔آج اسے نجانے کیا ہو گیا تھا۔ آج یہ وہ نہیں تھا۔

اور وہ اس پہاڑ کے بوجھ تلے سے اچانک اک درد سے نکل گئی، جیسے اچانک کسی زلزلے نے انگڑائی لے لی ہو اور آنکھو ں سے آبشاریں پھوٹ پڑی ہو ں۔ ایک ایک قطرہ سسکی اور ہچکی میں بد ل گیا۔

نہیں میری جا ن۔۔۔’’میں بانیہ نہیں ہوں‘‘

’’میری، تمہاری رات تھی۔۔۔ آج کی رات۔۔۔‘‘

ایک روح وارفتگی کے نیچے نجانے کب جسم سے نکل گئی۔

اک جسم جسم کے نیچے ہی دفن ہو گیا

کھڑکی سے آتے تیز ہوا کے طوفانی جھونکے سے اس کے قدم لڑکھڑا گئے۔

اس نے پورا زور لگا کے کھڑکی بند کر دی۔

مگر

طوفان نا باہر تھما، نا اندر۔۔۔

مصنف:رابعہ الربا

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here