پرائشچت

0
164
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

دفتر میں ذرا دیر سے آنا افسروں کی شان ہے۔ جتنا بڑا افسر ہوگا اتنی ہی دیر سے آئے اور اسی قدر جلد چلا جائے گا۔چپڑاسی کی حاضری چوبیس گھنٹوں کی۔ وہ چھٹی پر بھی نہیں جاسکتا۔ اس کا معاوضہ دینا پڑتا ہے۔ خیر جب بریلی ڈسٹرکٹ بورڈ کے ہیڈ کلرک بابو مداری لال گیارہ بجے دفتر آئے۔ تو دفتر جیسے نیند سے جاگ اٹھا۔ چپڑاسی نے دوڑ کر سائیکل تھامی۔ اردلی نے لپک کر چک اٹھائی اور جمعدار نے ڈاک کی کشتی میز پر لاکر رکھ دی۔ مداری لال نے پہلا سرکاری لفافہ ہی کھولا تھا کہ ان کے منہ کا رنگ اڑ گیا۔ وہ کئی منٹ تک سکتے کی حالت میں کھڑے رہے۔ جیسے تمام اعضاء شل ہوگئے ہوں۔ ان پر صدہا مصیبتیں ٹوٹیں۔ لیکن اس قدر بدحواس وہ کبھی نہ ہوئے تھے۔ بات دراصل یہ تھی کہ ایک ماہ سے بورڈ کے سکریٹری کی جو جگہ خالی تھی۔ اس پر سرکار نے مسٹر سوبودھ چندر کو تعینات کیا تھا، اور یہ وہ آدمی تھا، جس کے نام سے ہی مداری لال کو چڑ اور نفرت تھی۔ وہی سوبودھ چندر جو ان کا ہم جماعت تھا اور جسے زک پہنچانے کی وہ کتنی ہی مرتبہ ناکام کوشش کرچکے تھے۔ وہی آج ان کا حاکم ہوکر آرہا تھا۔

سوبودھ کی کئی سالوں سے کوئی اطلاع نہ ملی تھی۔ محض اس قدر ہی معلوم ہوسکا تھا۔ لیکن آج جیسے وہ زندہ ہوگیا۔ مداری لال نے سمجھا تھا۔ وہیں کہیں مر گیا ہوگا۔ لیکن آج جیسے وہ زندہ ہوگیا اور سکریٹری بن کر آرہا تھا۔ اس توہین سے تو مرجانا کہیں اچھا تھا۔ سوبدھ کو کالج اور اسکول کی سبھی باتیں یقینا یاد ہوں گی۔ مداری لال نے اسے کالج سے خارج کروانے کے کتنے حیلے کئے۔ بے شمار بہانے تراشے۔ بدنام کیا۔ کیا وہ سب کچھ فراموش کرچکا ہوگا؟ نہیں۔ ہرگز نہیں۔ وہ آتے ہی پرانی کسریں نکالیں گے۔

مداری لال کو اپنی حفاظت کی کوئی تدبیر نہ سوجھی۔ مداری اور سوبودھ کے ستاروں میں ہی شدید اختلاف تھا۔ دونوں ایک ہی دن ایک ہی اسکول میں داخل ہوئے اور پہلے روز ہی مداری کے دل میں بغض اور عناد کی وہ چنگاری سلگ اٹھی۔ جو آج بیس برس گزر جانے کے باوجود بھی نہ بجھ سکی۔ سوبودھ کا جرم محض یہی تھا کہ وہ مداری پر ہر بات میں فوقیت رکھتا تھا۔ ڈیل ڈول۔ رنگ روپ، لین دین۔ تعلیم اور دوسری سبھی چیزوں میں میدان اس کے ہاتھ رہتا۔ مداری لال نے اس کا یہ قصور کبھی معاف نہیں کیا۔ وہ مسلسل بیس برس تک اس کے دل کا کانٹا بنا رہا۔ جب سوبودھ ڈگری لے کر کالج سے نکلا۔ تو مداری امتحان میں ناکام ہوکر اس دفتر میں ملازم ہوگیا۔ تب کہیں اس کو ذہنی سکون حاصل ہوا۔ اور جب یہ سنا کہ وہ بصرہ جارہا ہے تو اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ آج وہ پرانا ناسور کئی گنا زیادہ ٹیس اور جلن سے کھل گیا۔ آج اس کی قسمت سوبودھ کے ہاتھ میں تھی۔ خدا اس قدر بے رحم ہے۔ قدرت اس قدر سنگ دل ہے۔۔۔؟

ذرا شانتی ملنے پر مداری لال نے دفتر کے کلرکوں کو سرکاری حکم سناتے ہوئے کہا، ’’اب آپ لوگ ذرا چوکنے ہوکر رہئے گا۔ سوبودھ چندر وہ آدمی نہیں ہے۔ جو غلطیاں معاف کردے۔‘‘

ایک کلرک نے پوچھا، ’’کیا وہ بہت سخت ہے؟‘‘

- Advertisement -

مداری لال نے مسکراکر کہا، ’’وہ تو آپ لوگوں کو دو چار روز میں ہی معلوم ہوجائے گا۔ میں اپنی زبان سے کسی کی شکایت کیوں کروں؟ بس آپ کو متنبہ کردیا ہے کہ ذرا سنبھل کر رہئے گا۔ آدمی قابل ہے۔ لیکن بے حد غصیل اور کڑا۔ غصہ تو اس کی ناک پر رہتا ہے۔ خود ہزاروں ہضم کر جائے اور ڈکار تک نہ لے۔ لیکن کیا مجال جو ماتحت ایک کوڑی بھی لے سکے۔ ایسے آدمی سے ایشور ہی بچائے۔ میں تو سوچ رہا ہوں کہ رخصت لے کر گھر چلا جاؤں۔ دونوں وقت گھر پر حاضری دینی ہوگی۔ آپ لوگ آج سے حکومت کے نوکر نہیں۔ سکریٹری صاحب کے ملازم ہیں۔ کوئی ان کے لڑکے کو پڑھائے گا۔ کوئی بازار سے سودا سلف لائے گا۔ کوئی انہیں اخبار سنائے گا۔ اور چپڑاسیوں کے تو شاید دفتر میں درشن بھی نہ ہوسکیں۔‘‘

اس طرح تمام دفتر کو سوبودھ کی طرف سے بدظن کر کے مداری لال نے اپنا کلیجہ ٹھنڈا کیا۔

اس کے ایک ہفتہ بعد جب سوبودھ چندر گاڑی سے اترے تو دفتر کے تمام اراکین کو اسٹیشن پر حاضر پایا۔ سب ان کے استقبال کے لئے آئے۔ مداری لال کو دیکھتے ہی سوبودھ لپک کر ان کے گلے سے لپٹ کر بولے، ’’تم خوب ملے بھائی! یہاں کیسے آئے؟ مدت کے بعد تم سے ملاقات ہوئی۔‘‘

مداری لال بولے، ’’یہاں ڈسٹرکٹ بورڈ میں ہیڈ کلرک ہوں۔ آپ تو بخیریت ہیں نہ؟‘‘

’’اجی میری نہ پوچھو۔ بصرہ، فرانس، مصر اور نہ جانے کہاں کہاں مارا پھرا۔ تم دفتر میں ہو۔ یہ بہت ہی اچھا ہوا۔ میری تو سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا کہ کیسے کام چلے گا۔ میں تو بالکل کورا ہوں۔ لیکن جہاں جاتا ہوں۔ میری تقدیر میرے ساتھ رہتی ہے۔ بصرے میں سبھی افسر خوش تھے۔ فرانس میں بھی خوب چین کئے۔ دو برس میں تقریباً پچیس ہزار روپیہ بنالیا۔ لیکن سب اڑ گیا۔ وہاں سے آکر کچھ روز کارپوریشن کے دفتر میں مٹرگشت کرتا رہا۔ یہاں آیا۔ تو تم مل گئے ( کلرکوں کو دیکھ کر) یہ سب لوگ کون ہیں؟‘‘

مداری لال کے سینہ پر چھریاں سی چل رہی تھیں۔ ظالم پچیس ہزار روپیہ بصرہ سے کمالایا۔ یہاں قلم گھستے گھستے عمر گزر گئی اور پانچ سو بھی جمع نہ ہوسکا۔ بولے، ’’یہ لوگ بورڈ کے ملازم ہیں۔ سلام کرنے آئے ہیں۔‘‘

سوبودھ نے باری باری سب لوگوں سےمصافحہ کیا اور بولا، ’’آپ لوگوں نے ناحق تکلیف کی۔ بے حد ممنون ہوں۔ امید ہے کہ آپ لوگوں کو مجھ سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔ مجھے اپنا حاکم نہیں۔ بھائی سمجھئے، آپ لوگ مل کر اس طرح کام کیجئے کہ بورڈکی نیک نامی کے ساتھ ساتھ میں بھی سرخرو ہوسکوں۔ آپ کے ہیڈکلرک صاحب تو میرے پرانے دوست اور لنگوٹیے یار ہیں۔‘‘

ایک باتونی کلرک نے کہا، ’’ہم سب حضور کے تابعدار ہیں۔ حتی المقدور آپ کو مطمئن کریں گے۔ لیکن آدمی ہی تو ہیں۔ اگر کوئی خطا ہوجائے تو حضور بخش دیں۔‘‘

سوبودھ نے نرمی سے کہا، ’’یہی میرا اصول ہے۔ ہمیشہ یہی نظریہ رہا۔ جہاں رہا ماتحتوں سے دوستوں کا سا سلوک کیا۔ ہم اور آپ دونوں کسی تیسرے کے غلام ہیں۔ پھر سختی وار حکومت کیسی؟ ہاں! ہمیں نیک نیتی سے اپنے فرض کو نباہتے رہنا چاہئے۔‘‘

جب سوبودھ کو رخصت کر کے ملازم چلے۔ تو آپ میں باتیں ہونے لگیں، ’’آدمی تو اچھا معلوم ہوتا ہے۔‘‘

’’ہیڈکلرک کے کہنے سے تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے سب کو کچا ہی چبا جائے گا۔‘‘

’’پہلے سبھی ایسی ہی باتیں کرتے ہیں۔‘‘

’’یہ دکھانے کے دانت ہیں۔‘‘

سوبودھ کو آئے ایک مہینہ گزر گیا۔ بورڈ کے کلرک، ارولی، چپڑاسی سبھی اس کے برتاؤ سے خوش تھے۔ وہ اتنا ہنس مکھ،بامذاق اور حلیم ہے کہ جسے ایک مرتبہ ملتا ہے۔ اس کا دوست بن جاتا ہے۔ کڑا لفظ تو اس کی زبان پر آتا ہی نہیں۔ انکار کو بھی وہ ذہن پر گراں نہیں گزرنے دیتا۔ لیکن حسد کی نگاہوں میں وصف اور بھی خوفناک ہوجاتا ہے۔ سوبودھ کے یہ سارے اوصاف مداری لال کی آنکھوں میں کھٹکتے رہتے۔ وہ اس کے برخلاف کوئی نہ کوئی خفیہ ڈھونگ رچاتا ہی رہتا ہے۔ پہلے ملازمین کو بدظن کرنا چاہا، نہ کرسکا۔ بورڈ کے ممبران کوبھڑکانا چاہا، ناکام رہا۔ ٹھیکیداروں کو ابھارنے کی سوچی، منہ کی کھائی۔ وہ چاہتا تھا کہ بھس میں آگ لگاکر دور سے تماشہ دیکھے۔ سوبودھ سے یوں ہنس کر ملتا۔ چکنی چپڑی باتیں کرتا۔ جیسے اس کا حقیقی دوست یہی ہے۔ لیکن گھات میں لگا رہتا۔ سوبودھ میں اور سب خوبیاں تھیں۔ لیکن آدمی نہ پہچان سکتے تھے۔ وہ مداری لال کو اب بھی اپنا دوست ہی سمجھتے تھے۔

ایک روز مداری لال سکریٹری کے کمرے میں گئے۔ تو کرسی خالی دیکھی۔ کسی کام سے باہر چلے گئے تھے۔ ان کی میز پر پانچ ہزار کے نوٹ پلندوں میں بندھے رکھے تھے۔ بورڈ کے مدرسوں کے لئے کچھ لکڑی کا سامان بنوایا گیا تھا۔ اسی کے دام تھے۔ ٹھیکیدار وصولی کے لئے بلایا گیا تھا۔ آج ہی سکریٹری صاحب نے چیک بھیج کر روپے منگوائے تھے۔ مداری لال نے برآمدہ میں جھانک کر دیکھا۔ سوبودھ کا کہیں پتہ نہیں۔ ان کی نیت بدل گئی۔ حسد میں تحریص شامل ہوگئی۔ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے پلندے اٹھائے، پتلون کی جیبوں میں ڈالے اور باہر نکل آئے۔ چپڑاسی کو پکار کر پوچھا، ’’بابو جی اندر ہیں؟‘‘

چپڑاسی آج ٹھیکیدار سے کچھ وصول کرنے کی خوشی میں پھول رہا تھا۔ سامنے والے تنبولی کی دوکان سے آکر بولا، ’’جی نہیں۔ کچہری میں کسی سے باتیں کر رہے ہیں۔ ابھی ابھی تو گئے ہیں۔‘‘

مداری لال نے دفتر میں آکر ایک کلرک سے کہا، ’’یہ مسل لے جاکر سکریٹری صاحب کو دکھاؤ!‘‘

کلرک مسل لے جاکر چلا گیا۔ اور تھوڑی دیر بعد لوٹ کر بولا، ’’سکریٹری صاحب تو کمرے میں نہیں تھے۔ میز پر رکھ آیا ہوں۔‘‘

مداری لال نے منہ بناکر کہا، ’’کمرہ چھوڑ کر کہاں کہاں جایا کرتے ہیں۔ کسی روز دھوکا کھائیں گے۔‘‘

کلرک نے کہا، ’’ان کے کمرے میں دفتر والوں کے سوا اور جاتا ہی کون ہے؟‘‘

مداری لال نے تیکھے لہجہ میں کہا، ’’تو کیا دفتر والے سبھی دیوتا ہیں؟ کب کسی کی نیت بدل جائے۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا۔ میں نے چھوٹی چھوٹی رقم پر اچھے اچھوں کی نیتیں بدلتی دیکھی ہیں۔ اس وقت ہم سب نیک منش ہیں۔ لیکن موقعہ پاکر شاید ہی کوئی چوکے۔ آدمی کی یہی فطرت ہے۔ آپ ابھی جاکر ان کے کمرے کے دونوں دروازے بند کردیجئے۔‘‘

کلرک نے لوٹ کر کہا، ’’چپڑاسی تو دروازے پر بیٹھا ہوا ہے۔‘‘

مداری لال نے جھنجھلاکر جواب دیا، ’’آپ سے میں جو کہتا ہوں وہ کیجئے۔ کہنے لگے، چپڑاسی بیٹھا ہوا ہے۔ چپڑاسی کوئی رشی مُنی ہے۔۔۔؟ چپڑاسی ہی کچھ اڑا لے۔ تو آپ اس کا کیا بگاڑ لیں گے؟ ضمانت بھی ہے تو تین سو کی۔ یہاں ایک ایک کاغذ لاکھوں کا ہے۔‘‘

یہ کہہ کر مداری لال خود اٹھے۔ اور دفتر کے دروازے دونوں طرف سے بند کردیے۔ جب دل ذرا مطمئن ہوا۔ تونوٹوں کے پلندے جیبوں سے نکال کر الماری میں کاغذات تلے چھپا دیے۔ پھر آکر اپنے کام میں لگ گئے۔

سوبودھ چندر تقریباً ایک گھنٹہ بعد لوٹے۔ تو اپنے کمرے کے کواڑ بند پائے۔ دفتر میں آکر مسکراتے ہوئے بولے، ’’میرا کمرہ کس نے بند کردیا ہے بھائی؟ کیا میری بے دخلی ہوگئی ہے؟‘‘

مداری لال نے کھڑے ہوکر تیکھے طنز سے کہا، ’’صاحب! آپ جب بھی باہر جائیں۔ خواہ ایک منٹ کے لئے ہی۔ اپنے کمرے کا دروازہ بند کرجایا کریں۔ آپ کی میز پر روپے پیسے اور دوسرے سرکاری کاغذات بکھرے رہتے ہیں۔ نہ جانے کس وقت کس کی نیت بدل جائے؟ میں نے ابھی سنا کہ باہر گئے ہوئے ہیں۔ تو دروازے فوراً بند کردیے۔‘‘

سوبودھ چندر کواڑ کھول کر کمرے میں گئے اور مزے سے سگار پینے لگے۔ میڑ پر نوٹ دھرے ہیں۔ ا س کی انہیں خبر بھی نہ ہوئی۔

اچانک ٹھیکیدار نے آکر سلام کیا۔ سوبودھ کرسی سے اٹھ بیٹھے اور بولے، ’’تم نے بہت دیر کردی۔ کافی دیر سے تمہارا منتظر ہوں۔ دس ہی بجے روپے منگوا دیے تھے۔ رسید کی ٹکٹ لائے ہو نہ۔۔۔؟‘‘

ٹھیکیدار بولا، ’’رسید لکھواتا لایا ہوں حضور!‘‘

’’تو اپنے روپے لے جاؤ۔ تمہارے کام سے میں زیادہ خوش نہیں ہوں۔ لکڑی تم نے اچھی نہیں لگائی اور کام میں صفائی بھی کچھ زیادہ نہیں۔ اگر آئندہ بھی ایسا ہی کام کروگے۔ تو ٹھیکیداری کے جسٹر سے تمہارا نام کاٹ دیا جائے گا۔‘‘

یہ کہہ کر سوبودھ نے میز پر نگاہ دوڑائی۔ تو نوٹوں کے پلندے موجود نہ تھے۔ سوچا۔ شاید کسی فائل تلے دب گئے ہوں۔ کرسی کے قریب دھرے سب کاغذات پلٹ کر دیکھے۔ مگر نوٹوں کا کہیں پتہ نہ لگا۔ ہیں! ’’نوٹ کہاں گئے؟ ابھی یہیں تو میں نے رکھ دیے تھے۔۔۔ جا کہاں سکتے ہیں؟ پھر فائلوں کو الٹنے پلٹنے لگے۔ دل ذرا ذرا گھبرانے لگا۔ میز کے تمام کاغذ چھان ڈالے۔ پلندو ں کا پتہ نہیں۔ میز پر بیٹھ کر تب سے لے کر اب تک اس آدھ گھنٹہ میں گزرنے والے واقعات کا جائزہ لینے لگے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ چپڑاسی نے نوٹوں کے پلندے مجھے دیے تھے۔ بھلا یہ بھی کوئی بھولنے والی بات ہے اور پھر اس قدر جلد۔۔۔ میں نے نوٹوں کو لے کر یہیں میز پر رکھ دیا تھا۔ گنا تک نہیں۔ پھر وکیل صاحب آگئے۔ پرانے ملاقاتی ہیں۔ ان سے بات کرتا ہوا ذرا اس پیڑ تک چلا گیا۔ انہو ں نے پان منگوائے۔ بس اتنی ہی دیر ہوئی۔ جب گیا تھا تو پلندے موجود تھے۔ خوب اچھی طرح یاد ہے۔ تب یہ نوٹ کہاں غائب ہوگئے؟ میں نے کسی صندوق الماری یا دراز میں نہیں رکھے۔ پھر گئے تو کہاں؟ شاید فتر میں کسی نے محتاط رکھنے کے لئے کہیں رکھ دئے ہوں! یہی بات ہے۔ میں یونہی اس قدر گھبرا گیا۔۔۔ چھی!‘‘

فوراً فتر میں آکر مداری لال سے بولے، ’’آپ نے میری میز پر سے نوٹ اٹھاکر تو نہیں رکھ دیئے؟‘‘

مداری لال نے متحیر ہوکر کہا، ’’کیا آپ کی میز پر نوٹ رکھے ہوئے تھے؟ مجھے تو کوئی خبر نہیں۔ ابھی پنڈت سوہن لال فائل لے کر آپ کے کمرے میں گئے تھے۔ تب آپ کمرے میں نہیں تھے۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ آپ کسی سے باتیں کرتے کرتے چلے گئے ہیں۔ تو دروازے بند کروادیے۔ کیا کچھ نوٹ نہیں مل رہے ہیں۔‘‘

سوبودھ آنکھیں پھیلا کر بولے، ’’جی صاحب! پورے پانچ ہزار کے ہیں۔ ابھی چیک تڑوایا ہے۔‘‘

مداری لال نے سرپیٹ کر کہا، ’’پورے پانچ ہزار! اوبھگوان۔۔۔‘‘

’’آپ نے میز پر خوب دیکھ لیا؟‘‘

’’اجی پندرہ منٹ سے تلاش کر رہا ہوں۔‘‘

’’چپڑاسی سے پوچھ لیا کہ کون کون آیا تھا؟‘‘

’’آئیے!ذرا آپ لوگ بھی تلاش کیجئے۔ میرے تو ہوش اڑے ہوئے ہیں۔‘‘

سارا دفتر سکریٹری صاحب کے کمرے کی تلاشی لینے لگا۔ میز، الماریاں، صندوق سب کھوجے گئے۔ رجسٹر کے ورق الٹ پلٹ کر دیکھے گئے۔ مگر نوٹوں کا کہیں پتہ نہ تھا۔ کوئی اڑا لے گیا۔ اب اس میں کچھ بھی شبہ نہ رہا۔ سوبودھ نے ایک لمبی سانس لی او رکرسی پر بیٹھ گئے۔ چہرے کا رنگ فق ہوگیا۔ ذرا سا منہ نکل آیا۔ اس وقت کوئی انہیں دیکھتا تو سمجھتا کہ مہینوں سے بیمار ہیں۔

مداری لال نے ہمدردی دکھلاتے ہوئے کہا، ’’غضب ہوگیا اور کیا؟ آج تک کبھی ایسا اندھیر نہ ہوا تھا۔ مجھے یہاں کام کرتے دس برس گزر گئے۔ کبھی کوڑی کی چیز بھی غائب نہ ہوئی۔ میں نے پہلے دن ہی آپ کو خبردار کردینا چاہا تھا۔ کہ روپے پیسے کے معاملے میں محتاط رہئے گا۔ مگر قسمت میں یہی بدا گیا۔ خیال ہی نہ رہا۔ یقیناً باہر سے کوئی آدمی آیا اور نوٹ اڑاکر غائب ہوگیا۔ چپڑاسی کا بھی قصور ہے کہ اس نے کمرے میں ہر کسی کو داخل ہونے سے کیوں نہ روکا؟ وہ لاکھ قسمیں کھائے کہ باہر سے کوئی آدمی نہیں آیا۔ لیکن میں اس پر اعتبار نہیں کرسکتا۔ یہاں سے تو محض پنڈت سوہن لال ہی ایک فائل لے کر گئےتھے۔ لیکن دروازہ میں سے ہی جھانک کر لوٹ آئے۔‘‘

سوہن لال نے صفائی دی، ’’میں نے تو اندر قدم ہی نہیں رکھا صاحب اپنے جوان بیٹے کی قسم کھاتا ہوں۔ اگر میں نے اندر قدم بھی رکھا ہو۔‘‘

مداری لال نے پیشانی پر بل ڈال کر جواب دیا، ’’آپ فضول ہی قسمیں کھاتے ہیں؟ کوئی آپ سے کچھ کہہ تھوڑا ہی رہا ہے۔ (سوبودھ سے کان میں)اگر بنک میں کچھ روپے ہوں تو نکلواکر ٹھیکیدار کو دے دیے جائیں۔ ورنہ بڑی بدنامی ہوگی۔ نقصان تو ہو ہی گیا۔ اب اس کے ساتھ خجالت کیوں ہو؟‘‘

سوبودھ نے بے بس انداز میں کہا، ’’بنک میں مشکل سے دو چار سو روپے ہوں گے بھائی جان! روپے ہوتے۔ تو کیا فکر تھی۔ جیسے پچیس ہزار اڑ گئے ویسے تیس ہزار سہی۔ یہاں تو کفن کو بھی کوڑی نہیں۔‘‘

اسی رات کو سوبودھ چندر نے خود کشی کرلی۔ اتنے روپوں کا انتظام کرنا ان کے لئے ایک مشکل بات تھی۔ موت کے پردہ کے سوا انہیں اپنی اس بدنامی اور بے بسی کو چھپانے کا اور کیا ذریعہ نہ ملا۔

دوسرے روز ہی چپڑاسی نے مداری لال کے گھر جاکر آواز دی۔ مداری لال کو شب بھر نیند نہ آئی تھی۔ گھبراکر باہر نکلے۔ چپڑاسی انہیں دیکھتے ہی بولا، ’’حضور غضب ہوگیا۔۔۔ سکریٹری صاحب نے رات کو اپنی گردن پر چھری پھیر لی!‘‘

مداری لال کی آنکھیں اوپر کو چڑھ گئیں۔ منھ لٹک گیا اور سارا جسم لرز اٹھا جیسے ان کا ہاتھ بجلی کے تار سے چھو گیا ہو۔

’’چھری پھیر لی؟‘‘

’’جی ہاں! آج صبح ہی معلوم ہوا۔ پولیس والے جمع ہیں۔ آپ کو بلایا ہے۔‘‘

’’لاش ابھی پڑی ہوئی ہے؟‘‘

’’جی ہاں! ابھی ڈاکٹری ہونے والی ہے۔‘‘

’’بہت سے لوگ جمع ہیں۔‘‘

’’سب بڑے بڑے آدمی جمع ہیں۔ حضور! لاش کی طرف تکتے نہیں بنتا۔ کیسا بھلمنسا ہیرا آدمی تھی۔ سب لوگ رو رہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے دو بچے ہیں۔ ایک سیانی لڑکی ہے۔ بیاہنے کے قابل۔ بہوجی کو لوگ بار بار روک رہے ہیں۔لیکن دوڑ دوڑ کر بار بار لاش کے قریب آجاتی ہے۔ کوئی ایسا نہیں جو رومال سے آنکھیں نہ پونچھ رہا ہو۔ ابھی اتنے دن بھی نہیں ہوئے۔ لیکن سب سے کس قدر میل جول تھا۔ روپئے کی تو کبھی پروا ہی نہ تھی، دل دریا تھا۔۔۔‘‘

مداری لال کے سر میں چکر آنے لگے۔ دروازہ کو تھام کر اگر سہارا نہ لیتے تو شاید گرپڑتے۔ پوچھا، ’’بہوجی بہت رو رہی ہیں؟‘‘

’’کچھ نہ پوچھئے حضور! پیڑ کی پتیاں جھڑی جاتی ہیں۔ آنکھیں پھول کر گّلر ہوگئی ہیں۔‘‘

’’کتنے لڑکے بتلائے تم نے؟‘‘

’’حضور! ایک لڑکی ہے اور دو لڑکے۔‘‘

’’ہاں ہاں! لڑکوں کو تو دیکھ چکا ہوں۔ لڑکی تو سیانی ہوگی؟‘‘

’’جی ہاں! بیاہنے لائق ہے۔ روتے روتے بیچاری کی آنکھیں سوج گئی ہیں۔‘‘

’’نوٹوں کے بارے میں بھی بات چیت ہورہی ہوگی۔‘‘

’’جی ہاں! سب لوگ یہی کہتے ہیں کہ دفتر کے کسی آدمی کا کام ہے۔ داروغہ جی تو سوہن لال کو گرفتار کرنا چاہتے تھے۔ لیکن شاید آپ سے صلاح لینا چاہتے ہیں۔ سکریٹری صاحب تو لکھ گئے ہیں کہ میرا کسی پر شک نہیں ہے۔ نہیں تو اب تک تہلکہ مچ جاتا۔ سارا دفتر پھنس جاتا۔‘‘

’’کیا سکریٹری صاحب کوئی خط لکھ کر چھوڑ گئے ہیں؟‘‘

’’ہاں! شاید چھری چلاتے وقت یاد آیا کہ دفتر کے سارے لوگ شک میں پھنس جائیں گے۔ بس کلکٹر صاحب کے نام خط لکھ دیا۔‘‘

’’چھٹی میں میرے بارہےمیں بھی کچھ لکھا ہے؟ تمہیں یہ کیا معلوم ہوگا؟‘‘

’’حضور! اور کیا جانوں۔ اتنا سب لوگ کہتے ہیں کہ آپ کی بڑی تعریف لکھی ہے۔‘‘

مداری لال کی سانس تیز ہوگئی۔ آنکھوں سے آنسوؤں کی دو بڑی بوندیں گر پڑیں، ’’نندو! آٹھ دس سال ساتھ رہا۔ ساتھ اٹھتے بیٹھتے۔ ایک ساتھ کھاتے اکٹھے کھیلتے۔ بس اس طرح رہتے تھے۔ جیسے دو سگے بھائی ہوں۔ خط میں میری کیا تعریف لکھی تھی؟ تمہیں یہ کیا معلوم ہوگا؟‘‘

’’آپ تو چل ہی رہے ہیں۔ دیکھ لیجئے گا۔‘‘

’’کفن کا انتظام ہوگیا ہے؟‘‘

’’نہیں حضور! کہا نہ کہ لاش کی ڈاکٹری ہوگی۔ ذرا اب جلدی چلئے۔ ایسا نہ ہو کوئی دوسرا آدمی بلانے آتا ہو۔‘‘

’’ہمارے دفتر کے سب لوگ آگئے ہوں گے؟‘‘

’’جی ہاں! اس محلہ کے تو سبھی تھے۔‘‘

’’پولیس نے میرے بارے میں تو ان سے کچھ پوچھ تاچھ نہیں کی؟‘‘

’’جی نہیں کسی سے بھی نہیں۔‘‘

مداری لال جب سوبودھ چندر کے گھر پہنچے تو انہیں محسوس ہوا۔ جیسے سبھی لوگ ان کی طرف مشتبہ نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پولیس انسپکٹر نے آتے ہی انہیں بلا کر پوچھا، ’’آپ بھی اپنا بیان لکھوادیں۔ اور تو سب کے بیان لکھ چکا ہوں۔‘‘

مداری لال نے ایسی ہوشیاری سے اپنا بیان لکھوایا کہ پولیس افسر بھی دنگ رہ گئے۔ انہیں مداری لال پر شبہ ہوتا تھا۔ لیکن اس بیان نے رفع کرڈالا۔

اسی وقت سوبودھ کے دونوں بچے روتے ہوئے اس کے قریب آئے اور بولے، ’’چلئے! آپ کو امی بلاتی ہیں۔‘‘

دونوں مداری لال سے مانوس تھے۔ مداری لال یہاں تو روز ا ٓتے تھے۔ لیکن گھر میں کبھی نہ گئے تھے۔ سوبودھ کی بیوی ان سے پردہ کرتی تھی۔ یہ بلاوا سن کر اس کا دل دھڑک اٹھا۔کہیں اس کا مجھ پر شبہ نہ ہو۔۔۔ کہیں سوبدھ نے میری ذات پر کچھ شبہ نہ ظاہر کیا ہو! کچھ جھجکتے کچھ ڈرتے اندر گئے۔ تب بیوہ کا دل ہلا دینے والا نوحہ سن کر کلیجہ لرز اٹھا۔ انہیں دیکھتے ہی بے بس عورت کے آنسوؤں کا سوما کھل گیا اور لڑکی تو دوڑ کر ان کے قدموں سے لپٹ گئی۔ دونوں لڑکوں نے بھی انہیں گھیر لیا۔ مداری لال نے ان تینوں کی آنکھوں میں ایسا غم، ایسی بے بسی کی جھلک بھری ہوئی دیکھی کہ وہ اسے سہ نہ سکے۔ ان کی آتما انہیں لامت کرنے لگی۔ جن بے چاروں کو ان پر اس قدر اعتبار اتنا بھروسہ پورا روحانی تعلق اور محبت تھی۔ ان کی گردن پر ہی چھری چلائی۔ انہی کے ہاتھوں یہ بھرپور کنبہ خاک میں مل گیا۔ ان بے آسرا بچوں کا کیا حال ہوگا؟ لڑکی کی شادی کرنی ہے۔ کون کرے گا؟ بچوں کی غورد پرداخت کا بار کون اٹھائے گا؟ مداری لال کو اس قدر ذہنی کوفت اور خجالت ہوئی کہ وہ تسلی کا ایک بھی لفظ بھی نہ کہہ سکے۔ انہیں ایسا معلوم ہوا۔ جیسے ان کے چہرے پر سیاہی ملی ہوئی ہے۔ قد چھوٹا ہوگیا ہے۔ انہو ں نے جس وقت نوٹ اڑائے تھے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا۔ وہ محض سوبودھ کو زچ کرنا چاہتے تھے۔ ان کا سب کچھ تباہ کرنے کا ارادہ نہ تھا۔

غم کے بوجھ تلے دبی بیوہ نے سسکتے ہوئے کہا، ’’بھیا جی! ہم لوگوں کو وہ منجدھار میں چھوڑ گئے ہیں۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ان کا ارادہ اس قسم کا ہے تو اپنے پاس جو کچھ تھا۔ ان کے قدموں پر رکھ دیتی۔ مجھ سے تو وہ یہی کہتے رہے کہ کوئی نہ کوئی حل ہو ہی جائے گا۔ آپ ہی کی معرفت وہ کوئی مہاجن ٹھیک کرنا چاہتے تھے۔ آپ کے اوپر انہیں اس قدر بھروسہ تھا۔ کہ کچھ کہہ نہیں سکتی۔‘‘

مداری لال کو ایسا معلوم ہوا کہ کوئی ان کے سینے پر نشتر چبھو رہا ہے! انہیں اپنے گلے میں کوئی چیز پھنسی ہوئی معلوم ہوئی۔

رامیشوری نے پھر کہا، ’’رات سوئے تو خوب ہنس رہے تھے۔ روز کی مانند دودھ پیا اور بچوں کو پیار کیا۔ تھوڑی دیر ہارمونیم بجایا۔ او رمنہ صاف کر کے سورہے۔ کوئی ایسی بات نہ تھی۔ جس سے خفیف سا بھی شبہ ہوتا۔ مجھے متفکر دیکھ کر بولے۔ تم یونہی پریشان ہوتی ہو۔ بابو مداری لال سے پرانی دوستی ہے۔ آخر وہ کس روز کام آئے گا؟ میرے ساتھ کے کھیلے ہوئے ہیں۔ شہر بھر میں ان کا رسوخ ہے۔ روپوں کا انتظام بآسانی ہوجائے گا۔

پھر نہ جانے یہ بات کب دل میں سما گئی۔ میں نصیبوں جلی اتنا سوئی کہ ہلی تک نہ۔۔۔۔ کیا معلوم تھا کہ وہ اپنی جان پر کھیل جائیں گے۔‘‘

مداری لال کو دنیا آنکھوں میں گھومتی معلوم ہوئی۔ انہو ں نے بہت ضبط کیا۔ لیکن آنکھوں سے آنسوؤں کے سیلاب کو نہ روک سکے۔

رامیشوری نے آنکھیں صاف کر کے کہا، ’’بھیا جی! جو کچھ ہونا تھا ہوچکا لیکن آپ اس بے رحم کا پتہ ضرور لگائیے جس نے ہمارا سب کچھ تباہ کرڈالا۔ یہ دفتر کے ہی کسی آدمی کا کام ہے۔ آپ سے صرف یہی درخواست کرتی ہوں کہ اس ظالم کو بچ کر نہ جانے دیجئے گا۔ پولیس والے اسے شاید کچھ رشوت لے کر چھوڑ دیں۔ آپ کو دیکھ کر ان کا یہ حوصلہ نہ ہوگا۔ اب ہمارے سر پر آپ کے سوا او رکون ہے۔ کس سے اپنا دکھ کہیں۔ لاش کی یہ درگت ہونی بھی لکھی تھی۔‘‘

مداری لال کے دل میں ایک مرتبہ ایسا ابال اٹھا کہ سب کچھ کہہ ڈالیں کہ میں ہی وہ بے رحم۔ ظالم اور کمینہ ہوں۔ بیوہ کے قدموں پر گرپڑیں۔ اور کہیں کہ وہ چھری اس قاتل کی گردن پر بھی چلا دے۔ لیکن زبان نہ کھلی۔ اسی حالت میں ان کے سر میں ایک چکر سا آیا اور وہ دھم سے زمین پر گرپڑے۔

تیسرے پہر لاش کا امتحان ختم ہوا۔ ارتھی شمشان کی طرف چلی۔ سارا دفتر، سبھی حکام اور ہزاروں آدمی ساتھ تھے۔ داہ سنسکار لڑکوں کو کرنا چاہئے۔ لیکن لڑکے نابالغ تھے۔ اس لئے بیوہ چلنے کو تیار ہورہی تھی کہ مداری نے آکر کہا، ’’بہوجی! یہ سنسکار مجھے کرنے دو۔ تم کریا پر جابیٹھوگی تو بچوں کو کون سنبھالے گا۔ سوبودھ میرے بھائی تھے۔ زندگی میں ان کے ساتھ کچھ سلوک نہ کرسکا۔ تو اب بعد میں تو کچھ حق ادا کرنے دو۔ آخر میرا بھی ان پر کچھ حق تھا۔‘‘

رامیشوری نے روکر کہا، ’’آپ کو بھگوان نے بڑا وسیع دل دیا ہے۔ بھیا جی! نہیں تو مرنے پر کون کسی کو پوچھتا ہے؟ دفتر کے اور لوگ جو آدھی آدھی رات تک ان کے ساتھ رہتے تھے۔ جھوٹوں بات پوچھنے بھی نہ آئے۔ کہ ذرا ڈھارس ہوتا۔‘‘

مداری لال نے داہ سنسکار کیا۔ تیرہ دن تک کریا پر بیٹھے رہے۔ تیرہویں روز پنڈ دان ہوا۔ براہمنوں نے بھوجن کیا۔ بھکاریوں کوآن دان ہوا۔ دوستوں کو دعوت دی۔ اور یہ سب کچھ مداری لال نے اپنی گرہ سے کیا۔ رامیشوری نے بہتیرا کہا۔ کہ آپ نے جتنا کیا۔ اتنا ہی کافی ہے۔ اب میں آپ کو اور زیادہ زیر بار نہیں کروں گی۔ دوستی کا حق اس سے زیادہ اور کوئی کیا کرے گا۔ مگر اس نے ایک نہ سنی۔ سارے شہر میں اس کی نیکی کی دھوم مچ گئی۔ دوست ہو تو ایسا ہو۔

سولہویں دن بیوہ نے کہا، ’’بھیا جی! آپ نے ہمارے ساتھ جو کچھ احسان اور اعانت کی ان سے ہم مرتے دم تک سبکدوش نہیں ہوسکتے۔ آپ نے ہماری پشت پر ہاتھ نہ رکھا ہوتا۔ تو اب تک نہ جانے کیا حالت ہوتی؟ کہیں چھپنے کے لئے جگہ نہ تھی۔ اب ہمیں گھر جانے دیجئے۔ وہاں دیہات میں خرچ بھی کم ہوگا اور کچھ کھیتی باڑی کا سلسلہ بھی کروں گی۔ کسی نہ کسی مصیبت کے دن بھی کٹ جائیں گے۔ اسی طرح ہم پر کرم کیجئے گا۔‘‘

مداری لال نے پوچھا، ’’گھر پر کتنی جائیداد ہے؟‘‘

’’جائیداد کیا ہوگی؟ ایک کچا مکان ہے اور دس بارہ بیگھہ کاشت کاری ہوگی۔ پکا مکان بنوانا شروع کیا تھا کہ روپے کم ہوگئے۔ ابھی ادھورا ہی پڑا ہوا ہے۔ دس بارہ ہزار خرچ ہوگئے۔ اور ابھی چھت پڑنے کی نوبت نہیں آئی۔‘‘

’’کچھ روپے بنک میں ہیں یا سب کھیتی کا ہی سہارا ہے؟‘‘

’’جمع تو ایک پائی بھی نہیں بھیا جی! ان کے ہاتھ میں روپے رہنے ہی نہ پاتے تھے۔ بس یہی کھیتی کا سہارا ہے۔‘‘

’’تو ان کھیتوں سے اس قدر پیداوار ہوجائے گی کہ تم لوگوں کا گزر بھی ہوجائے اور لگان بھی ادا کیا جاسکے؟‘‘

’’اور کر ہی کیا سکتے ہیں؟ کسی نہ کسی طرح زندگی تو کاٹنا ہی ہے۔ بچے نہ ہوتے تو میں زہر کھالیتی!‘‘

’’ابھی بیٹی کا بیاہ بھی کرنا ہے؟‘‘

’’ا س کے بیاہ کی اب کوئی فکر نہیں۔ کسانوں میں ایسے بہت سے مل جائیں گے جو کچھ لئے دیے بغیر بیاہ کرلیں۔‘‘

مداری لال نے کچھ سوچ کر کہا، ’’اگر میں کچھ صلاح دو۔ تو کیا مانیں گی آپ؟‘‘

’’بھیا جی ! آپ کی صلاح نہ مانوں گی۔ تو اور کس کی مانوں گی؟ میرے اور ہے ہی کون؟‘‘

’’تو آپ گھر جانے کی بجائے میرے گھر جارہئے۔ جیسے میرے بال بچے رہیں گے۔ ویسے ہی تم بھی۔ ایشور نے چاہا تو لڑکی کا بیاہ بھی کسی اچھے گھر میں ہوجائے گا۔‘‘

بیوہ کی آنکھیں تر ہوگئیں۔ بولی، ’’مگر بھیا! سوچئے۔۔۔‘‘

مداری لال نے بات کاٹ کر کہا، ’’میں کچھ نہ سوچوں گا اورنہ کچھ عذر سنوں گا کیا دو بھائیوں کا کنبہ ایک ساتھ نہیں رہ سکتا؟ سوبودھ کو میں اپنا بھائی سمجھتا تھا او رہمیشہ سمجھوں گا۔‘‘

بیوہ کا کوئی عذر نہ سنا گیا۔ اسی روز مداری لال سب کو اپنے گھر لے گئے۔ آہ! آج دس برس سے وہ ان کی پرورش کر رہے ہیں۔ دونوں بچے کالج میں پڑھتے ہیں اور لڑکی کا کسی اچھے گھر میں بیاہ ہوگیا۔ مداری لال اور ان کی بیوی تن من سے رامیشوری کی خدمت کرتے اور اس کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ مداری لال خدمت سے اپنے گناہ کا پرائشچت کر رہے ہیں۔

مأخذ : میرے بہترین افسانے

مصنف:پریم چند

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here