(۱)
دکھی چمار دروازے پر جھاڑو لگا رہا تھا۔ اور اس کی بیوی جھریا گھر کو لیپ رہی تھی۔ دونوں اپنے اپنے کام سے فراغت پا چکے تو چمارن نے کہا، ’’تو جا کر پنڈت بابا سے کہہ آؤ۔ ایسا نہ ہو کہیں چلے جائیں۔‘‘
دکھی، ’’ہاں جاتا ہوں، لیکن یہ تو سوچ کہ بیٹھیں گے کس چیز پر؟‘‘
جھریا، ’’ہیں سے کوئی کھٹیا نہ مل جائے گی۔ ٹھکرانی سے مانگ لانا۔‘‘
دکھی، ’’تو تو کبھی ایسی بات کہہ دیتی ہے کہ بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ بھلا ٹھکرانے والے مجھے کھٹیا دیں گے؟ جاکر ایک لوٹا پانی مانگوں، تو نہ ملے۔ بھلا کھٹیا کون دے گا۔ ہمارے اوپلے ایندھن، بھوسا، لکڑی تھوڑے ہی ہیں کہ جو چاہے اٹھا لے جائے۔ اپنی کھٹولی دھو کر رکھ دے گی۔ گرمی کے تو دن ہیں ان کے آتے آتے سوکھ جائے گی۔‘‘
جھریا، ’’ہماری کھٹولی پر وہ نہ بیٹھیں گے۔ دیکھتے نہیں، کتنے نیم دھرم سے رہتے ہیں۔‘‘
دکھی نے کسی قدر مغموم لہجہ میں کہا، ’’ہاں، یہ بات تو ہے۔ مہوے کے پتے توڑ کر ایک پتل بنالوں، تو ٹھیک ہو جاۓ۔ پتل میں بڑے آدمی کھاتے ہیں۔ وہ پاک ہے۔ لا تو لاٹھی، پتے توڑ لوں‘‘
جھریا، ’’پتل میں بنالونگی تم جاؤ۔ لیکن ہاں انہیں سیدھا بھی جائے اور تھالی بھی۔ چھوٹے بابا تھالی اٹھا کر پٹک دیں گے۔ وہ بہت جلد غصہ میں آجاتے ہیں۔ غصہ میں پنڈتانی تک کو نہیں چھوڑتے۔ لڑکے کو ایسا پیٹا کہ آج تک ٹوٹا ہاتھ لیے پھرتا ہے۔ پتل میں سیدھا بھی دے دینا، مگر چھونا مت۔ بھوری گونڈ کی لڑکی کو لے کرشاہ کی دکان سے چیزیں لے آنا۔ سیدھا بھر پور، سیر بھر آٹا، آدھ سیر چاول، پاؤ بھر دال، آدھ پاؤ گھی، ہلدی، نمک اور پتل میں یاک کنارے چار آنے کے پیسے رکھ دینا۔ گونڈ کی لڑکی نہ ملے، تو پھر جن کے ہاتھ جوڑ کر لے آنا۔ تم کچھ نہ چھونا ورنہ گجب ہو جائے گا۔‘‘
ان باتوں کی تاکید کر کے دکھی نے لکڑی اٹھالی اور گھاس کا ایک بڑا سا گٹھا لے کر پنڈت جی سے عرض کرنے چلا۔ خالی ہاتھ بابا جی کی خدمت میں کس طرح جاتا۔ نذرانے کے لیے اس کے پاس گھاس کے سوا اور کیا تھا۔ اسے خالی دیکھ کر تو بابا جی دور ہی سے دھتکار دیتے۔
(۲)
پنڈت گھاسی رام ایشور کے پرم بھگت تھے۔ نید کھلتے ہی ایشور کی اپاسنا میں لگ جاتے۔ منھ ہاتھ دھوتے دھوتے آٹھ بجتے۔ تب اصلی پوجا شروع ہوتی۔ جس کا پہلا حصہ بھنگ کی تیاری تھی۔ اس کے بعد آدھ گھنٹہ تک چندن رگڑتے۔ پھر آئینے کے سامنے ایک تنکے سے پیشانی پر تلک لگاتے۔ چندن کے متوازی خطو ں کے درمیان لال روٹی کا ٹیکہ ہوتا۔پھر سینہ پر دونوں بازوؤں پر چندن کے گول گول دائرے بناتے اور اٹھا کر جی کی مورتی نکال کر اسے نہلاتے۔ چندن لگاتے، پھول چڑھاتے، آرتی کرتےاور گھنٹی بجاتے۔ دس بجتے بجتے وہ پوجن سے اٹھتے اور بھنگ چھان کر باہر آتے۔ اس وقت دو چار ججمان دروازے پر آجاتے۔ ایشور اپاسنا کا فی الفور پھل مل جاتا۔ یہی ان کی کھیتی تھی۔
آج وہ عبادت خانے سے نکلے تو دیکھا۔ دکھی چمار گھاس کا ایک گٹھا لیے بیٹھا ہے۔ انہیں دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہو ا اور نہایت ادب سے ڈنڈوت کر کے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ ایسا پر جلال چہرہ دیکھ کر اس کا دل عقیدت سے پر ہو گیا۔ کتنی تقدس مآب صورت تھی۔ چھوٹا سا گول مول آدمی۔ چکناسر، پھولے ہوئے رخسار، روحانی جلال سے منور آنکھیں۔ اس پر روئی اور چندن نے دیوتاؤں کی تقدس عطا کردی تھی۔ دکھی کو دیکھ کر شیریں لہجہ میں بولے، ’’آج کیسے چلا آیا رے دکھیا؟‘‘
دکھی نے سر جھکا کر کہا، ’’بٹیا کی سگائی کر رہا ہوں مہاراج! ساعت شگن بچارنا ہے۔ کب مرجی ہوگی؟‘‘
گھاسی، ’’آج تو مجھے چھٹی نہیں ہے۔ شام تک آجاؤں گا۔‘‘
دکھی، ’’نہیں مہاراج! جلدی مرجی ہو جائے۔ سب ٹھیک کر آیا ہوں۔ یہ گھاس کہاں رکھ دوں؟‘‘
گھاسی، ’’اس گائے کے سامنے ڈال دے اور ذرا جھاڑو لے کر دروازہ تو صاف کردے۔ یہ بیٹھک بھی کئی دن سےلیپی نہیں گئی۔ اسے بھی گوبر سے لیپ دے۔ تب تک میں بھوجن کرلوں، پھر ذرا آرام کر کے چلوں گا۔ ہاں، یہ لکڑی بھی چیر دینا۔ کھلیان میں چار کھانچی بھوسہ پڑا ہے اسے بھی اٹھا لانا اور بھوسیلے میں رکھ دینا۔‘‘
دکھی فوراً حکم کی تعمیل کرنے لگا۔ دروازے پر جھاڑو لگائی۔ بیٹھک کو گوبرے سے لیپا۔ اس وقت بارہ بج چکے تھے۔ پنڈت جی بھوجن کرنے چلے گئے۔ دکھی نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ اسے بھی زور کی بھوک لگی، لیکن وہاں کھانے کو دھرا ہی کیا تھا؟ گھر یہاں سے میل بھر تھا۔ وہاں کھانے چلا جائے تو پنڈت جی بگڑ جائیں۔ بے چارے نے بھوک دبائی اور لکڑی پھاڑنے لگا۔ لکری کی موٹی سی گرہ تھی جس پرکتنے ہی بھگتوں نے اپنا زور آزما لیا تھا۔ وہ اسی دم خم کے ساتھ لوہے لوہا لینے کے لیے تیار تھی۔
دکھی گھاس چھیل کر بازار لے جاتا ہے۔ لکڑی چیرنے کا اسے محاورہ نہ تھا۔ گھاس اس کے کھر پے کے سامنے سر جھکا دیتی تھی۔ یہاں کس کس کر کلہاڑی کا ہاتھ جماتا۔ لیکن اس گرہ پر نشان تک نہ پڑتا تھا۔ کلہاڑی اچٹ جاتی۔ پسینہ سے تر تھا۔ ہانپتا تھا۔ تھک کر بیٹھ جاتا تھا۔ پھر اٹھتا تھا۔ ہاتھ اٹھائے نہ اٹھتے تھے۔ پاؤں کانپ رہے تھے۔ ہوائیاں اڑ رہی تھیں، پھر بھی اپنا کام کیے جاتا تھا۔ اگر ایک چلم تمباکو پینے کو مل جاتا، تو شاید کچھ طاقت آ جاتی۔ اس نے سوچا، یہاں چلم اور تمباکو کہاں ملے گا۔ برہمنوں کا گاؤں ہے۔ برہمن ہم سب نیچ جاتوں کی طرح تمباکو تھوڑا ہی پیتے ہیں۔ یکا یک اسے یاد آیا کہ گاؤں میں ایک گونڈ بھی رہتا ہے۔ اس کے یہاں ضرور چلم تمباکو ہو گی۔ فوراً اس کے گھر دوڑا۔ خیر محنت سپھل ہوئی۔ اس نے تمباکو اور چلم دی لیکن آگ وہاں نہ تھی۔ دکھی نے کہا، ’’آگ کی فکر نہ کرو بھائی۔ پنڈت جی کے گھر سے آگ مانگ لوں گا۔ وہاں تو ابھی رسوئی بن رہی تھی۔‘‘
یہ کہتا ہوا وہ دونوں چیزیں لے کر چلا اور پنڈت جی کے گھر میں دالان کے دروازہ پر کھڑا ہو کر بولا، ’’مالک ذرا سی آگ مل جائے تو چلم پی لیں۔‘‘
پنڈت جی بھوجن کر رہے تھے۔ پنڈتانی نے پوچھا، ’’یہ کون آدمی آگ مانگ رہا ہے؟‘‘
’’ارے وہی سسرا دکھیا چمار ہے۔ کہا ہے تھوڑی سی لکڑی چیڑ دے۔آگ ہے تو دے دو۔‘‘
پنڈتانی نے بھنویں چڑھا کر کہا، ’’تمہیں تو جیسے پوتھی پڑے کے پھیر میں دھرم کرم کی سدھ بھی نہ رہی۔ چمار ہو، دھوبی ہو، پاسی ہو، منھ اٹھائے گھر میں چلے آئے۔ پنڈت کا گھر نہ ہوا کوئی سرائے ہوئی۔ کہہ دو ڈیوڑھی سے چلا جائے، ورنہ اسی آگ سے منھ جھلس دوں گی۔ بڑے آگ مانگے چلے ہیں۔‘‘
پنڈت جی نے انہیں سمجھا کر کہا، ’’اندر آگیا تو کیا ہوا۔ تمہاری کوئی چیز تو نہیں چھوئی۔ زمین پاک ہے۔ ذرا سی آگ کیوں نہیں دے دیتیں۔ کام تو ہمارا ہی کرہا ہے۔ کوئی لکڑ ہارا یہی لکڑی پھاڑتا، تو کم از کم چار آنے لیتا۔‘‘
پنڈتانی نے گرج کر کہا، ’’وہ گھر میں آیا ہی کیوں؟‘‘
پنڈت نے ہار کر کہا، ’’سسرے کی بدقسمتی تھی۔‘‘
پنڈتانی، ’’اچھا، اس وقت تو آگ دیے دیتی ہوں لیکن پھر جو اس گھر میں آئے گا تو منھ جھلس دوں گی۔‘‘
دکھی کے کانوں میں ان باتوں کی بھنک پڑ رہی تھی۔ بے چارا پچھتا رہا تھا۔ ناحق آیا۔ سچ تو کہتی ہیں، پنڈت کے گھر چمار کیسے چلا آئے۔ یہ لوگ پاک صاف ہوتے ہیں، تبھی تو اتنا مان ہے، چر چمار تھوڑے ہی ہیں۔ اسی گاؤں میں بوڑھا ہو گیا مگر مجھے انتی اکل (عقل) بھی نہ آئی۔ اسی لیے جب پنڈتانی جی آگ لے کر نکلیں تو جیسے اسے جنت مل گئی۔ دونوں ہاتھ جوڑ کر زمین پر سر جھکاتا ہوا بولا، ’’پنڈتانی ماتا، مجھ سے بڑی بھول ہوئی کہ گھر چلا آیا۔ چمار کی اکل (عقل) ہی تو ٹھہری۔ اتنے مورکھ نہ ہوتے تو سب کی لات کیوں کھاتے؟‘‘
پنڈتانی چمٹے سے پکڑ کر آگ لائی تھی۔ انہوں نے پانچ ہاتھ کے فاصلےپر گھونگھٹ کی آڑ سے دکھی کی طرف آگ پھینکی۔ ایک بڑی سی چنگاری اس کے سر پر پڑ گئی۔ جلدی سے پیچھے ہٹ کر جھاڑنے لگا۔ اس کے دل نے کہا۔ یہ ایک پاک برہمن کے گھر کو ناپاک کرنے کا نتیجہ ہے۔ بھگوان نے کتنی جلدی سزادے دی۔ اسی لیے تو دنیا پنڈتوں سے ڈرتی ہےاور سب کے روپے مارے جاتے ہیں۔برہمن کے روپے بھلا کوئی مار تولے، گھر بھر کا ستیاناس ہوجائے۔ ہاتھ پاؤں گل گل کر گرنے لگیں۔
باہر آکر اس نے چلم پی اور کلہاڑی لے کر مستعد ہو گیا۔ کھٹ کھٹ کی آوازیں آنے لگیں۔ سر پر آگ پڑ گئی تو پنڈتانی کو کچھ رحم آگیا۔ پنڈت جی کھانا کھا کر اٹھے، تو بولیں، ’’اس چمرا کو بھی کچھ کھانے کو دے دو۔ بے چارہ کب سے کام کر رہا۔ بھوکا ہو گا۔‘‘
پنڈت جی نے اس تجویز کو فنا کر دینے کے ارادے سے پوچھا، ’’روٹیاں ہیں؟‘‘
پنڈتانی، ’’دو چار بچ جائیں گی۔‘‘
پنڈت، ’’دو چار روٹیوں سے کیا ہوگا؟ یہ چمار ہے، کم از کم سیر بھر چڑھا جائے گا۔‘‘
پنڈتانی کانوں پر ہاتھ رکھ کر بولیں، ’’ارے باپ رے! سیر بھر! تو پھر رہنے دو۔‘‘
پنڈت جی نے اب شیر بن کر کہا، ’’کچھ بھوسی چوکر ہو، تو آٹےمیں ملا کر موٹی موٹی روٹیاں توے پر ڈال دو۔ سالے کا پیٹ بھر جائے گا۔ پتلی روٹیوں سے ان کمینوں کا پیٹ نہیں بھرتا۔ انہیں تو جوار کا ٹکر چاہیئے۔‘‘
پنڈتانی نے کہا، ’’ اب جانے بھی دو۔ دھوپ میں مرے۔‘‘
(۳)
دکھی نے چلم پی کر کلہاڑی سنبھالی۔ دم لینے سے ذرا ہاتھوں میں طاقت آ گئی تھی۔ تقریباً آدھ گھنٹے تک پھر کلہاڑی چلاتا رہا۔ پھر بے دم ہو کر وہیں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں وہی گونڈ آگیا۔ بولا، ’’بوڑھے دادا، جان کیوں دیتے ہو۔ تمہارے پھاڑے یہ گانٹھ نہ پھٹے گی۔ ناحق ہلکان ہوتے ہو۔‘‘
دکھی نے پیشانی کا پسینہ صاف کر کے کہا، ’’بھائی! ابھی گاڑی پر بھوسہ ڈھونا ہے۔‘‘
گونڈ، ’’کچھ کھانے کو بھی دیا، یا کام ہی کرو انا جانتے ہیں۔ جا کے مانگتے کیوں نہیں؟‘‘
دکھی، ’’تم بھی کیسی باتیں کرتے ہو۔ بھلا باہمن کی روٹی ہم کو پچے گی؟‘‘
گونڈ، ’’پچنے کو تو پچ جائے گی، مگر ملے تو۔ خود مونچھوں پر تاؤ دے کر کھانا کھایا اور آرام سے سو رہے ہیں۔ تمہارے لیے لکڑی پھاڑنے کا حکم لگا دیا۔ زمیندار بھی کھانے کو دیتا ہے۔ حاکم بھی بیگار لیتا ہے، تو تھوڑی بہت مزدوری دے دیتا ہے۔ یہ ان سے بھی بڑھ گئے۔ اس پر دھر ماتما بنتے ہیں۔‘‘
دکھی نے کہا، ’’بھائی آہستہ بولو۔ کہیں سن لیں گے تو بس۔‘‘ یہ کہہ کر دکھی پھر سنبھل پڑا اور کلہاڑی چلانے لگا۔ گونڈکو اس پر رحم آ گیا۔ کلہاڑی اس کے ہاتھ سے چھین کر تقریباً نصف گھنٹہ تک جی توڑ کر چلاتا رہا، لیکن گانٹھ پر ذرا بھی نشان نہ ہوا۔ بالآخر اس نے کلہاڑی پھینک دی اور یہ کہہ کر چلا گیا۔، ’’یہ تمہارے پھاڑے نہ پھٹے گی۔ خواہ تمہاری جان ہی کیوں نہ نکل جائے۔‘‘
دکھی سوچنے لگا۔ یہ گانٹھ انہوں نے کہاں سے رکھ چھوڑی تھی کہ پھاڑے نہیں پھٹتی۔ میں کب تک اپنا خون پسینہ ایک کروں گا۔ ابھی گھر پر سوکام پڑے ہیں۔ کام کاج والا گھر ہے۔ ایک نہ ایک چیز گھٹتی رہتی ہے۔ مگر انہیں ان کی کیا فکر۔ چلوں، جب تک بھوسہ ہی اٹھا لاؤں۔ کہہ دوں گا، آج تو لکڑی نہیں پھٹی۔ کل آکر پھاڑ دوں گا۔
اس نے ٹوکرا اٹھایا اور بھوسہ ڈھونے لگا۔ کھلیا ن یہاں سے دو فرلانگ سے کم نہ تھا۔ اگر ٹوکرا خوب خوب بھر کر لاتا تو کام جلد ہو جاتا۔ مگر سر پر اٹھاتا کون۔ خود اس سے نہ اٹھ سکتا تھا، اس لیے تھوڑا تھوڑا لانا پڑا۔ چاربجے کہیں بھوسا ختم ہوا۔ پنڈت جی کی نیندبھی کھلی۔ منھ ہاتھ دھوئے، پان کھایا اور باہر نکلے۔ دیکھا تو دکھی ٹوکرے پر سر رکھے سو رہا ہے۔ زور سے بولے، ’’ارے دکھیا! تو سو رہا ہے۔ لکڑی تو ابھی جوں کی توں پڑی ہے۔ اتنی دیر تو کیا کرتا رہا۔ مٹھی بھر بھوسہ اٹھانے میں شام کردی۔ اس پر سو رہا ہے۔ کلہاڑی اٹھا لے اور لکڑی پھاڑ ڈال۔ تجھ سے ذرا بھر لکڑی بھی نہیں پھٹی۔ پھر ساعت بھی ویسے ہی نکلے گی۔ مجھے دوش مت دینا۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ جہاں نیچ کے گھر کھانے کو ہوا اس کی آنکھ بدل جاتی ہے۔‘‘
دکھی نے پھر کلہاڑی اٹھائی۔ جو باتیں اس نے پہلے سوچ رکھی تھی، وہ سب بھول گیا۔ پیٹ پیٹھ میں دھنسا جاتا تھا۔ آج صبح ناشتہ تک نہ کیا تھا۔ فرصت ہی نہ ملی۔ اٹھنا بیٹھنا تک پہاڑ معلوم ہوتا تھا۔دل ڈوبا جاتا تھا، پر دل کو سمجھا کر اٹھا۔ پنڈت ہیں۔ کہیں ساعت ٹھیک نہ بچاریں، تو پھر ستیہ ناس ہو جائے۔ جب ہی تو ان کا دنیا میں اتنا مان ہے۔ ساعت ہی کا تو سب کھیل ہے۔ جسے چاہیں بنادیں جسے چاہیں بگاڑ دیں۔ پنڈت جی گانٹھ کے پاس آکر کھڑے ہو گئے اور حوصلہ افزائی کرنے لگے، ’’ہاں مارکس کے اور کس کے مار۔ ابے زور سے مار۔ تیرے ہاتھ میں تو جیسے دم ہی نہیں۔ لگا کس کے، کھڑا کھڑا سوچنے کیا لگتا ہے۔ ہاں بس پھٹا ہی چاہتی ہے۔ اس سوراخ میں۔‘‘
دکھی اپنے ہوش میں نہ تھا۔ نہ معلوم کوئی غیبی طاقت اس کے ہاتھوں کو چلا رہی تھی۔ تکان، بھوک، پیاس، کمزوری سب کے سب جیسے ہو اہو گئی تھیں۔ اسے اپنے قوت بازو پر خود تعجب ہو رہا تھا۔ ایک ایک چوٹ پہاڑ کی مانند پڑتی تھی۔ آدھ گھنٹے تک وہ اسی بے خبری کی حالت میں ہاتھ چلاتا رہا۔ حتیٰ کہ لکڑی بیچ سے پھٹ گئی اور دکھی کے ہاتھ سے کلہاڑی چھوٹ کر گر پڑی۔ اس کے ساتھ ہی وہ بھی چکر کھا کر گر پڑا۔ بھوکا پیاسا، تکان خوردہ جسم جواب دے گیا۔ پنڈت جی نے پکارا، ’’اٹھ کر دو چار ہاتھ اور لگا دے۔ پتلی پتلی چیلیاں ہو جائیں۔‘‘
دکھی نہ اٹھا۔
پنڈت جی نے اسے دق کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اندر جا کر بوٹی چھانی۔ حاجات ضروری سے فارغ ہوئے۔ نہایا اور پنڈتوں کا لباس پہن کر باہر نکلے۔ دکھی ابھی تک وہیں پڑا ہوا تھا۔ زور سے پکارا، ’’ارے دکھی، کیا پڑے ہی رہو گے؟ چلو تمہارے ہی گھر چل رہا ہوں۔ سب سامان ٹھیک ہے نا؟‘‘
دکھی پھر بھی نہ اٹھا۔
اب پنڈت جی کو کچھ فکر ہوا۔ پاس جا کر دیکھا تو دکھی اکڑا ہوا پڑا تھا۔ بدحواس ہو کر بھاگے اورپنڈتانی سے بولے، ’’دکھیا تو جیسے مر گیا۔‘‘
پنڈتانی جی۔ تعجب انگیز لہجہ میں بولیں، ’’ابھی تو لکڑی چیر رہا تھا نا!‘‘
’’ہاں لکڑی چیرتے چیرتے مرگیا۔ اب کیا ہو گا؟‘‘
پنڈتانی نے مطمئن ہو کر کہا، ’’ہوگا کیا۔ چمروے میں کہلا بھیجو، مردہ اٹھا لے جائیں۔‘‘
دم کے دم میں یہ خبر گاؤں میں پھیل گئی۔ گاؤں میں زیادہ تر برہمن ہی تھے۔ صرف ایک گھر گونڈ کا تھا۔ لوگوں نے ادھر کا راستہ چھوڑ دیا۔ کنوئیں کا راستہ ادھر ہی سے تھا۔ پانی کیونکر بھرا جائے۔ چمار کی لاش کے پاس ہو کر پانی بھرنے کون جائے۔ ایک بڑھیا نے پنڈت جی سے کہا، ’’اب مردہ کیوں نہیں اٹھواتے۔ کوئی گاؤں میں پانی پیئے گا یا نہیں؟‘‘
ادھر گونڈ نے چمروے میں جا کر سب سے کہہ دیا، ’’خبردار! مردہ اٹھانےمت جانا ابھی پولیس کی تحقیقات ہو گی۔ دل لگی ہے کہ ایک غریب کی جان لے لی۔ پنڈت ہوں گے تو اپنے گھر کے ہوں گے لاش اٹھاؤگے تو تم بھی پکڑے جاؤ گے۔‘‘
اس کے بعد ہی پنڈت جی پہنچے۔ پر چمروے میں کوئی آدمی لاش اٹھانے کو تیار نہ ہوا۔ ہاں دکھی کی بیوی اور لڑکی دونوں ہائے ہائے کرتی وہاں سے چلیں اور پنڈت جی کے دروازے پر آکر سرپیٹ کر رونے لگیں۔ ان کے ساتھ دس پانچ اور چمارنیں تھیں۔ کوئی روتی تھی، کوئی سمجھاتی تھی۔ پر چمار ایک بھی نہ تھا۔ پنڈت جی نے ان سب کو بہت دھمکایا، سمجھایا، منت کی۔ پر چماروں کے دل پر پولیس کا ایسا رعب چھایا، کہ ایک بھی من نہ سکا۔ آخر نا امید ہو کر لوٹ آئے۔
(۴)
آدھی رات تک رونا پیٹنا جاری رہا۔ دیوتاؤں کا سونا مشکل ہو گیا مگر لاش اٹھانے کو کو کوئی چمار نہ آیا اور برہمن چمار کی لاش کیسے اٹھائے۔ بھلا ایسا کسی شاستر پوران میں لکھا ہے۔ کہیں کوئی دکھادے۔
پنڈتانی نے جھنجھلا کر کہا، ’’ان ڈائنوں نے تو کھوپڑی چاٹ ڈالی۔ سبھوں کا گلا بھی نہیں تھکتا۔‘‘
پنڈت نے کہا، ’’چڑیلوں کو رونے دو۔ کب تک روئیں گی۔ جیتا تھا تو کوئی بات نہ پوچھتا تھا۔ مر گیا تو شور و غل مچانے کے لیے سب کی سب آپہنچیں۔‘‘
پنڈتانی، ’’چماروں کا رونا منحوس ہے۔‘‘
پنڈت، ’’ہاں بہت منحوس۔‘‘
پنڈتانی، ’’ابھی سے بو آنے لگی۔‘‘
پنڈت، ’’چمار تھا سسرا کہیں کا۔ ان سبھوں کو کھانے پینے کا کوئی بچار نہیں ہوتا۔‘‘
پنڈتانی، ’’ان لوگوں کو نفرت بھی نہیں معلوم ہوتی۔‘‘
پنڈت، ’’سب کے سب بھرشٹ ہیں۔‘‘
رات تو کسی طرح کٹی، مگر صبح بھی کوئی چمار نہ آیا۔ چمارنی بھی روپیٹ کر چلی گئی۔ بدبو پھیلنے لگی۔
پنڈت جی نے ایک رسی نکالی۔ اس کا پھندا بنا کر مردے کے پیر میں ڈالا اور پھندے کو کھینچ کر کس دیا۔ ابھی کچھ کچھ اندھیرا تھا۔ پنڈت جی نے رسی پکڑ کر لاش کو گھسیٹنا شروع کیااور گھسیٹ کر گاؤں کے باہر لے گئے۔ وہاں سے آکر فوراً نہائے۔ درگا پاٹھ پڑھا اور سر میں گنگا جل چھڑکا۔
ادھر دکھی کی لاش کو کھیت میں گیدڑ، گدھ اور کوے نوچ رہے تھے۔ یہی اس کی تمام زندگھی کی بھگتی، خدمت اور اعتقاد کا انعام تھا۔
مأخذ : پریم چند کے سو افسانے
مصنف:پریم چند