سیٹھ پرشوتم داس پونا کے سرسوتی پاٹ شالہ کامعائنہ کرنے کے بعد جب باہر نکلے تب ایک لڑکی نے دوڑکر ان کادامن پکڑلیا۔ سیٹھ جی رک گئے اور محبت سے اس کی طرف دیکھ کرپوچھا، ’’تمہارا کیا نام ہے۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا، ’’روہنی۔‘‘
سیٹھ جی نے اسے گود میں اٹھالیا اور بولے، ’’تمہیں کچھ انعام ملا؟‘‘
لڑکی نے ان کی طرف طفلانہ متانت سے دیکھ کرکہا، ’’تم چلے جاتے ہو مجھے رونا آتا ہے۔ مجھے بھی ساتھ لیتے چلو۔‘‘
سیٹھ جی نے ہنس کرکہا، ’’مجھے بڑی دورجاناہے۔ تم کیسے چلوگی؟‘‘
روہنی نے پیار سے ان کی گردن میں ہاتھ ڈال دیئے اور بولی جہاں تم جاؤگے وہیں میں بھی چلوں گی میں تمہاری بیٹی ہوں گی۔
افسرمدرسہ نے آگے بڑھ کر کہا اس کا باپ سال بھرہوئے نہیں رہا۔ ماں کپڑے سیتی ہے بڑی مشکل سے گزرہوتی ہے۔
سیٹھ جی کے مزاج میں درد بہت تھا۔ یہ سن کر ان کی آنکھیں بھرآئیں۔ اس معصومانہ درخواست میں وہ رقت تھی جوپتھر سے دل کوپگھلاسکتی ہے۔ بیکسی اوریتیمی کا اس سے زیادہ دردناک اظہارناممکن تھا۔ انہوں نے سوچا اس ننھے سے دل میں نہ جانے کیاکیا ارمان ہوں گے اورلڑکیاں اپنے کھلونے دکھادکھاکر کہتی ہوں گی یہ میرے باپ نے دیاہے۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ مدرسہ آتی ہوں گی۔ اس کے ساتھ میلوں میں جاتی ہوں گی اوران کی دلچسپیوں کاذکر کرتی ہوں گی۔ یہ سب باتیں سن سن کراس بھولی لڑکی کو بھی خواہش ہوئی ہے کہ میرے باپ ہوتے۔ ان کی محبت میں گہرائی اورروحانیت ہوتی ہے۔ جسے بچے سمجھ نہیں سکتے باپ کی محبت میں مسرت اورشوق ہوتا ہے جسے بچے خوب سمجھتے ہیں۔
سیٹھ جی نے روہنی کو پاور سے گلےلگالیا اوربولے اچھا میں تمہیں اپنی بیٹی بناؤں گا۔ لیکن خوب جی لگاکر پڑھنا۔ اب چھٹی کا وقت آگیا ہے میرے ساتھ آؤ تمہیں گھرپہنچادوں۔ یہ کہہ کر انہوں نے روہنی کواپنے موٹرکارمیں بیٹھالیا۔ روہنی نے بڑے اطمینان اور فخر سے اپنی سہیلیوں کی طرف دیکھا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں اورچہرہ چاندنی رات کی طرف شگفتہ تھا۔
سیٹھ جی نے روہنی کو بازار کی خوب سیرکرائی اور کچھ اس کی پسند سے کچھ اپنی پسند سے بہت سی چیزیں خریدیں۔ یہاں تک کہ روہنی باتیں کرتے کرتے کچھ تھک سی گئی اورخاموش ہوگئی اس نے اتنی چیزیں دیکھیں اور اتنی باتیں سنیں کہ اس کا جی بھرگیا۔ شام ہوتے ہوتے روہنی کے گھر پہنچے۔ اورموٹرکا سے اترکرروہنی کواب کچھ آرام ملا۔ دروازہ بند تھا اس کی ماں کسی گاہک کے گھرکپڑے دینے گئی تھی۔ روہنی نے اپنے تحفوں کوالٹناپلٹناشروع کیا۔ خوبصورت ربڑ کے کھلونے چینی کی گڑیاں، ذرا دبانے سے چوں چوں کرنے لگتی تھیں اور روہنی یہ دلفریب نغمہ سن کر پھولی نہ سماتی تھی ریشمی کپڑے خوش رنگ ساڑیوں کے کئی بنڈل تھے۔ لیکن مخملی بوٹ کی گلکاریوں نے اسے خوب لبھایاتھا۔ اسے ان چیزوں کے پانے کی جتنی خوشی تھی اس سے زیادہ انہیں اپنی سہیلیوں کے دکھانے کی بے چینی تھی۔ سندری کے جوتے اچھے لیکن ان میں ایسے پھول کہاں ہیں۔ ایسی گڑیاں اس نے کبھی دیکھی بھی نہ ہوں گی۔ ان خیالوں سے اس کے دل میں امنگ بھر آیا۔ اوروہ اپنی موہنی آوازمیں ایک گیت گانے لگی۔ سیٹھ ذروازے کھڑے اس پاک نظارہ کاروحانی لطف اٹھارہے تھے اتنے میں روہنی کی ماں رکمنی کپڑوں کا ایک بقچہ لئےہوئے آتی دکھائی دی۔ روہنی نے خوشی کی وحشت میں ایک چھلانگ بھری اور اس کے پیروں سے لپٹ گئی۔
رکمنی کاچہرہ زردتھا۔ آنکھوں میں حسرت اور بے کسی چھپی ہوئی تھی۔ فکرِخاموش کی زندہ تصویرمعلوم ہوتی تھی جس کے لئے زندگی میں کوئی سہارا نہیں، سہارا نہیں۔
مگر روہنی کوجب اس نے گودمیں اٹھاکرپیار سے چوما تو ذرادپر کے لئے اس کی آنکھوں میں امید اور زندگی کی جھلک دکھائی دی۔ مرجھایاہوا پھول کھل گیا۔ بولی، ’’آج تو اتنی دیرتک کہاں رہی میں تجھے ڈھونڈنے پاٹ شالہ گئی تھی۔‘‘
روہنی نے ہمک کرکہا، ’’میں موٹرکار پربیٹھ کر بازارگئی تھی۔ وہاں سے بہت اچھی اچھی چیزیں لائی ہوں۔ وہ دیکھوکون کھڑا ہے۔‘‘ ماں نے سیٹھ جی کی طرف تاکا اور شرم سے سرجھکالیا۔
برآمدے میں پہنچتے ہی روہنی ماں کی گود سے اترکرسیٹھ جی کے پاس گئی اوراپنی ماں کویقین دلانے کے لئے بھولے پن سے بولی، ’’کیوں تم میرے باپ ہو۔‘‘
سیٹھ جی نے اسے پیارکرکے کہا، ’’ہاں تم میری پیاری بیٹی ہو۔‘‘
روہنی نے ان کے منہ کی طرف التجا آمیز نگاہوں سے دیکھ کرکہا، ’’اب تم روزیہیں رہاکروگے۔‘‘
سیٹھ جی نے اس کے بال سلجھاکرجواب دیا، ’’میں یہیں رہوں گا توکام کون کرے گا۔ میں کبھی کبھی تمہیں دیکھنے آیا کروں گا لیکن وہاں سے تمہارے لئے اچھی اچھی چیزیں بھیجوں گا۔‘‘
روہنی کچھ اداس سی ہوگئی۔ اتنے میں اس کی ماں نے مکان کادروازہ کھولا اور بڑی پھرتی سے میلے بچھاون اورپھٹے ہوئے کپڑے سمیٹ کر کونے میں ڈال دیئے کہ کہیں سیٹھ جی کی نگاہ ان پرنہ پڑجائے۔ یہ خودداری عورتوں کاخاصہ ہے۔
رکمنی اب اس سوچ میں پڑی تھی کہ میں ان کی کیاخاطرتعظیم کروں۔ اس نے سیٹھ جی کانام سناتھا۔ اس کا شوہر ہمیشہ ان کی بڑائی کیاکرتاتھا۔ وہ ان کے رحم اور فیاضی کے تذکرے بارہا سن چکی تھی۔ وہ انہیں اپنے من من میں دیوتاسمجھا کرتی تھی۔ اسے کیا امید تھی کہ کبھی اس کے گھربھی ان کےقدموں سے روشن ہوں گے لیکن آج جب وہ مبارک دن اتفاق سے آیاتو اس قابل بھی نہیں کہ انہیں بیٹھنےکےلئے ایک ایک مونڈھا دے سکے۔ گھرمیں پان اور الائچی بھی نہیں وہ اپنے آنسوؤں کو کسی طرح نہ روک سکی۔
آخرجب اندھیرا ہوگیا اورپاس کے ٹھاکر دوارے سے گھنٹوں اور نقاروں کی آوازیں آنے لگیں تو انہوں نے ذرابلند آوازمیں کہا، ’’بائی جی اب میں جاتا ہوں مجھے بھی یہاں بہت کام کرناہے۔ میری روہنی کوکوئی تکلیف نہ ہو۔ مجھے جب موقع ملے گا اس دیکھنے آؤں گا۔ اس کی پرورش کافرض میرے اوپر ہےاورمیں اسے بہت خوشی سے پورا کروں گا۔ اس کے لئے اب تم کوئی فکرمت کرنا۔ میں نے اس کاوظیفہ مقررکردیاہے اوریہ اس کی پہلی قسط ہے۔‘‘
یہ کہہ کرانہوں نے اپنا خوبصورت بٹوانکالا۔ اوررکمنی کے سامنے رکھ دیا۔ غریب عورت کی آنکھوں سے آنسوجاری تھے اس کا جی بے اختیار چاہتا تھا کہ ان کے پیروں کوپکڑکرخوب روؤں آج بہت دنوں کے بعد ایک سچے ہمدرد کی آواز اس کے کانوں میں آئی تھی۔
جب سیٹھ جی چلے تو اس نے دونوں ہاتھوں سے پرنام کیا۔ اس کے لئے تہ دل سے دعانکلی۔ آپ نے ایک بیکس پردیاکی ہے۔ ایشورآپ کواس کابدلہ دے۔
دوسرے دن روہنی پاٹ شالا گئی تواس کی بانکی سج دھج آنکھوں میں کجی جاتی تھی۔ استانیوں نے اسے باری باری سے پیار کیا اور اس کی سہیلیاں ایک ایک چیز کو حیرت سے دیکھتی اور للچاتی تھیں۔ اچھے کپڑوں سے کچھ خودداری کااحساس ہوجاتاہے۔ آج روہنی وہ غریب لڑکی نہ رہی تھی جودوسروں کی طرف بیکسانہ انداز سے دیکھاکرتی تھی۔ آج اس کی ایک ایک حرکت سے طفلانہ غرور اور شوخی ٹپکتی تھی اوراس کی زبان ایک دم کے لئے بھی نہ رکتی تھی۔ کبھی موٹرکی تیزی کاذکر تھا کبھی بازار کی دلفریبیوں کابیان۔ کبھی اپنی گڑیوں کاذکرِخیرتھا۔ اورکبھی اپنے باپ کی محبت کی داستاں، دل تھا کہ امنگوں سے بھرا ہواتھا۔
ایک مہینہ کے بعدسیٹھ پرشوتم داس نے روہنی کے لئے پھر تحفے اور روپے روانہ کئے۔ غریب بیوہ کوان کی فیاضی کی بدولت فکرِمعاش سے نجات ملی۔ وہ بھی روہنی کے ساتھ مدرسے آتی اور دونوں ماں بیٹیاں ایک ہی جماعت میں ساتھ ساتھ پڑھتیں لیکن روہنی کا نمبرہمیشہ ماں سے اول رہا۔ سیٹھ جی جب پوناکی طرف سے نکلتے تو روہنی کودیکھنے ضرور آتے اوران کی آمد اس کی خوشی اورتفریح کے لئے مہینوں کا سامان مہیا کردیتی۔
اس طرح کئی سال گزرگئے اورروہنی نے بہارِعمر کے سہانے سبزہ زارمیں قدم رکھا۔ جبکہ بچپن کی بھولی بھالی اداؤں میں معنی اور اس ارادوں کادخل ہوجاتاہے۔
روہنی اب حسنِ ظاہر وباطن میں اپنے مدرسہ کی ناک تھی۔ اندازوں میں دلفریب متانت باتوں میں نغمہ کی دل آویزی اورنغمہ میں روحانی لطافت تھی۔ لباس میں رنگین سادگی کاجلوہ، آنکھوں میں مروت اور حیا۔ خیالات میں پاکیزگی، شباب تھا مگرغرور اورتصنع اورشوخی سے پاک۔ اس یکسوئی کے ساتھ جواونچے ارادوں سے پیداہوئی ہے وہ نسوانی کمالات کی منزلیں طے کرناچاہتی تھی۔
سیٹھ جی کے بڑے بیٹے نروتم داس کئی سال تک امریکہ اورجرمنی کی یونیورسٹیوں کی خوشہ چینی کے بعد انجینئرنگ کے صیغہ میں کمال حاصل کرکے واپس آئے تھے۔ امریکہ کے سب سے ممتاز کالج میں انہوں نے رتبہ اعزازحاصل کیاتھا۔ امریکہ کے اخبارات ایک ہندوستانی نوجوان کی اس شاندارکامیابی پرمتحیرتھے انہیں کاخیرمقدم کرنے کے لئے ممبئی میں ایک بڑاجلسہ کیاگیاتھا۔ اس تقریب میں شریک ہونے کے لئے لوگ دوردور سے آئے تھے۔ سرسوتی، سرسوتی پاٹ شالا کو بھی نوید ملا۔ اور روہنی کوسیٹھانی جی نے خاص طورپردعوت دی۔ مدرسہ میں ہفتوں تیاریاں ہوئیں۔ روہنی کوایک دم کے لئے بھی چین نہ تھا۔ یہ پہلاموقع تھاکہ اس نے اپنے لئے پرتکلف کپڑے بنوائے اوررنگوں کے انتخاب میں وہ ملاحت تھی، وضع میں وہ پھیس جس سے اس کاحسن چمک اٹھا۔ سیٹھانی کی کوشلیادیوی اسے لینے کے لئے ریلوے اسٹیشن پرموجودتھی۔ روہنی گاڑی سے اترتے ہی ان کے پیروں کی طرف جھکی لیکن انہوں نے اسے چھاتی سے لگالیا اوراس طرح پیار کیاا گویاوہ ان کی بیٹی ہے۔ وہ اسے باربار دیکھتی تھیں اورآنکھوں سے فخر اورشوق ٹپکاپڑتا تھا۔
اس جلسہ کے لئے عین سمندر کے کنارے سہانے سبزہ زارپرایک وسیع شامیانہ لگایاتھا۔ ایک طرف آدمیوں کا انبوہ ِکثیرامڈاہوا تھا۔ دوسری طرف سمندر کی لہریں اچھل رہی تھیں۔ گویاوہ بھی اس خوشی میں شریک تھیں۔
جب حاضرین نے روہنی بائی کی آنے کی خبرسنی توہزاروں آدمی اسے دیکھنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ یہی تولڑکی ہے جس نے اب کی شاستری کا امتحان پاس کیاہے۔ ذرا اس کے درشن کرناچاہئے اب بھی اس دیش کی عورتوں میں ایسے جوہرموجودہیں۔ بھولے بھالے قوم پرستوں میں اس قسم کی باتیں ہونے لگیں۔ شہر کی کئی ممتازخواتین نے آکرروہنی کوگلے سے لگایا اور آپس میں حسن ولباس کے چرچے ہونے لگے۔
آخرمسٹرنروتم داس تشریف لائے۔ حالانکہ مہذب اور متین مجمع تھا۔ لیکن اس وقت شوقِ زیارت سراسیمگی کی حدتک جاپہنچا ایک بھگدڑسی مچ گئی۔ کرسیوں کی صفیں درہم برہم ہوگئیں، کوئی کرسی پرکھڑاہوا۔ کوئی اس کے بازوؤں پر۔ بعض منچلے حضرات نے شامیانے کی طنابیں پکڑیں اور ان پر جالٹکے۔ کئی منٹ تک یہی طوفان برپارہا۔ کہیں رسیاں ٹوٹیں، کہیں کرسیاں الٹیں۔ کوئی کسی کے اوپرگرا، کوئی نیچے۔ زیادہ تیزدم آدمیوں میں دھول دھپاہونے لگا۔
تب بین کی دلکش صدائی آنے لگیں۔ روہنی نے اپنی جماعت کے ساتھ قومی سوز اور جوش میں ڈوباہوا نغمہ شروع کیا۔ سارا مجمع خاموش تھا اوراس عالم میں وہ سریلا راگ، اس کی نزاکت اورصفائی۔ اسکی اثر سے بھری ہوئی مدھرتا، اس کی پرجوش زمزمہ سنجیاں دلوں پروہ پرسرور کیفیت پیدا کررہی تھیں جس سے پریم کی لہریں اٹھتی ہیں، جو دل سے کدورتوں کومٹاتا ہے اور جس سے زندگی کی کیفیت خیزیادگاریں پیداہوجاتی ہیں۔ نغمہ بند ہونے پرتعریف کی ایک آوازنہ آئی وہی آوازیں کانوں میں اب تک گونج رہی تھیں۔
نغمہ کے بعدمختلف انجمنوں کی طرف سے ایڈریس پیش ہوئے۔ اور تب نروتم داس شکریہ کی جوابی تقریر کرنے کےلئے کھڑے ہوئے۔ لیکن ان کی تقریر سے لوگوں کوگونہ مایوسی ہوئی۔ یوں مجلسِ احباب میں ان کے گرمئی بیان اورروانی کی کوئی حد نہ تھی، لیکن عام مجمع کے روبروکھڑے ہوتے ہی الفاظ اورخیالات دونوں ہی ان سے بے وفائی کرجاتے تھے۔ انہوں نے بہ مشکل تمام شکریہ کے چندالفاظ اداکئے اور تب اپنی ناقابلیت کے ندامت آمیز اعتراف کے ساتھ اپنی جگہ پر آبیٹھے۔ کتنے ہی حضرات ان کی قابلیت پرعارفانہ انداز سے سرہلانے لگے۔
اب جلسہ ختم ہونے کا وقت آیا وہ ریشمی ہارجو سرسوتی پاٹ شالا کاہدیہ تھا میزپر رکھاہوا تھا اسے ہیروکے گلے میں کون ڈالے۔ پریسیڈنٹ نے خواتین کی صف کی طرف نگاہ دوڑائی نظرِانتخاب روہنی پرپڑی۔ اس کاسینہ دھڑکنے لگا۔ لیکن صدرِجلسہ کے ارشادکی تعمیل لازمی تھی۔ وہ سرجھکائے ہوئے میز کے پاس آئی۔ اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ہارکواٹھایا۔ ایک لمحہ کے لئے دونوں کی نگاہیں ملیں اور تب روہنی نے نروتم داس کی گردن میں ہارڈال دیا۔
دوسرے دن سرسوتی پاٹ شالا کے مہمان رخصت ہوئے لیکن کوشلیا دیوی نے روہنی کونہ جانے دیا۔ بولیں ابھی تمہیں دیکھنے سے جی نہیں بھرا۔ تمہیں یہاں ایک ہفتہ رہناہوگا۔ آخر میں میں بھی توتمہاری ماں ہوں۔ ایک ماں سے اتنی محبت اوردوسری ماں سے اتنی بیزاری !روہنی لاجواب ہوگئی۔
یہ سارا ہفتہ کوشلیادیوی نے اس کی رخصتی کی تیاریوں میں صرف کیا۔ ساتویں دن اسے رخصت کرنے کےلئے اسٹیشن تک آئیں۔ چلتے وقت اس کے گلے ملیں اوربہت ضبط کرنے پر بھی آنسوؤں کونہ روک سکیں۔ نروتم داس بھی آئے تھے۔ ان کاچہرہ اداس تھا۔ کوشلیا نے ان کی طرف ہمدردانہ نگاہوں سے دیکھ کرکہا۔ مجھے یہ تو خیال ہی نہ رہا کہ روہنی کیا یہاں سے پوناتک اکیلی جائے گی۔ کیا ہرج ہے تمہیں چلے جاؤ۔ شام کی گاڑی سے لوٹ آنا۔
نروتم داس کے چہرے پر مسرت کی شگفتگی نظرآئی جو ان الفاظ میں نہ چھپ سکی۔ بہتر ہے میں ہی چلاجاؤں گا۔ وہ اس فکر میں تھے کہ دیکھیں الوداعی گفتگو کا موقع بھی ملتا ہے یانہیں اب وہ خوب جی بھر کراپنادردِدل سنائیں گے اورممکن ہوا تو اس ضبط اورحیا کوجوسردمہری کے پردہ میں چھپی ہوئی ہے ہٹادیں گے۔
رکمنی کو اب روہنی کی شادی کی فکرپیدا ہوئی۔ پڑوس کی عورتوں میں اس کا چرچا ہونے لگا تھا۔ لڑکی اتنی سیانی ہوگئی ہے اب کیا بڑھاپے میں بیاہ ہوگا۔ پیغام کئی جگہ سے آئے۔ ان میں بعض بعض ممتازخاندان کے تھے۔ لیکن جب رکمنی ان پیغاموں کوسیٹھ جی کے پاس بھیجا تو وہ یہی جواب دیتے کہ میں خودفکرمیں ہوں رکمنی کوان کی یہ ٹال مٹول بری معلوم ہوتی۔
روہنی کوبمبئی سے لوٹے مہینہ بھرہوچکے تھے۔ ایک دن وہ پاٹ شالا سے لوٹی تو اسے اپنی ماں کی چارپائی پرایک خط پڑا ہوا ملا۔ روہنی پڑھنے لگی، لکھا تھا، ’’بہن جب سے میں نے تمہاری لڑکی کوبمبئی میں دیکھا ہے میں اس پر ریجھہ ہوگئی ہوں۔ اب ان کے بغیرمجھے چین نہیں ہے۔ کیا میں ایسی خوش نصیب ہوں کہ وہ میری بہوبن سکے۔ میں غریب ہوں لیکن میں نے سیٹھ جی کوراضی کرلیاہے تم بھی میری یہ عرض قبول کرو۔ میں تمہاری لڑکی کوچاہے پھولوں کی سیج پر نہ سلاسکوں لیکن اس گھر کا ہرایک آدمی اسے آنکھوں کی پتلی بناکررکھے گا۔ اب رہا لڑکا، ماں کے منہ سے لڑکے کابکھان کچھ اچھا نہیں معلوم ہوتالیکن میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ پرماتما نے یہ جوڑی اپنے ہاتھوں بنائی ہے۔ صورت میں، سبھاؤ میں، علم میں، ہرایک لحاظ سے وہ روہنی کے قابل ہے۔ تم جیسے چاہواپنا اطمینان کرسکتی ہو۔ جواب جلد دینا اورزیادہ کیا لکھوں۔‘‘ نیچے چند الفاظ میں سیٹھ جی نے اس پیغام کی سفارش کی تھی۔
روہنی گالوں پرہاتھ رکھ کے سوچنے لگی۔ نروتم داس کی تصویر اس کی آنکھوں کے سامنے آکھڑی ہوئی۔ ان کی وہ پریم کی باتیں جن کاسلسلہ بمبئی سے پوناتک نہیں لوٹا تھا کانوں میں گونجنے لگیں۔ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ اوراداس ہوکر چارپائی پرلیٹ گئی۔
سرسوتی پاٹ شالا میں ایک بارپھر سجاوٹ اورصفائی کے جلوے نظرآرہے ہیں۔ آج روہنی کی شادی کامبارک دن ہے شام کا وقت، بسنت کا سہاناموسم۔ پاٹ شالا کے درودیوارمسکرارہے ہیں اورہرا بھرا باغیچہ پھولانہیں سماتا۔
چندرمان اپنی بارات لے کرپورب کی طرف نکلا۔ اسی وقت منگلاچرن کاسہانا راگ اس روپہلی چاندنی اورہلکے ہلکے ہواکے جھونکوں میں لہریں مارنے لگا۔ دولہا آیا۔ اسے دیکھتے ہی لوگ حیرت میں پڑگئے۔ یہ نروتم داس تھے۔
دولہا منڈپ کے نیچے گیا۔ روہنی کی ماں سے ضبط نہ ہوا۔ وہ اسی وقت جاکرسیٹھ جی کے پیروں پرگرپڑی۔ روہنی کی آنکھوں سے پریم اور آنند کے آنسوبہنے لگے۔
منڈپ کے نیچے ہون کنڈبناہواتھا۔ ہون شروع ہوا۔ خوشبوکے شعلے ہوا میں اٹھے اورسارا میدان مہک گیا۔ لوگوں کے دل ودماغ میں تازگی اورفرحت کی امنگ پیدا ہوئی۔
پھرسنسکارکی باری آئی۔ دولہا اور دلہن نے باہمی ہمدردی، ذمہ داری اور وفاداری کے مقدس الفاظ اپنی زبانوں سے اداکئے۔ بواہ کی وہ مبارک زنجیر گلے میں پڑی جس میں وزن ہے، سختی ہے، پابندیاں ہیں! لیکن وزن کے ساتھ طاقت ہے۔ سختی کے ساتھ راحت اورپابندیوں کے ساتھ وشواس ہے۔ دونوں دلوں میں اس وقت ایک نئی پرزور روحانی طاقت کااحساس ہورہاتھا۔
جب شادی کے مراسم ختم ہوگئے تومجلس طرف ونشاط کادورآیا۔ نغمہ جان نواز کی صدائیں بلندہوئیں۔ سیٹھ جی تھک کرچور ہوگئے تھے۔ ذرادم لینے کے لئے باغیچہ میں جاکر ایک بنچ پربیٹھ گئے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہواآرہی تھی ایک سرورانگیز خموشی چاروں طرف چھائی ہوئی تھی۔ اسی وقت روہنی ان کے پاس آئی اوران کے پیروں سے لپٹ گئی۔ سیٹھ جی نے اسے اٹھاکر گلے سے لگالیا اور ہنس کربولے، ‘’کیوں اب تو تم میری اپنی بیٹی ہوگئیں؟‘‘
مأخذ : پریم چند : افسانے
مصنف :پریم چند