شیشہ گھاٹ

0
200
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’افسانے کے مرکزی کردار کی زبان میں لکنت ہے اس لیے اس کا منھ بولا باپ نہ چاہتے ہوئے بھی خود سے الگ کسی نئی جگہ اسے منتقل کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس کی نئی بیوی آنے والی ہے جو اس کی لکنت برداشت نہیں کر سکے گی.لوگوں سے بتاتا ہے اس کے دوست جہاز نے اسے مانگ لیا ہے۔۔۔ جہاز ایک غیر آباد ساحلی علاقے میں رہتا ہے جسے شیشہ گھاٹ کہتے ہیں اس کی مالکن بی بی نام کی ڈراؤنی عورت ہے۔ یہاں پہنچ کر اسے بہت گھبراہٹ ہوتی ہے لیکن ایک دن  لڑکی اسے جھیل کے پانی پر چلتی نظر آتی ہے اسے دیکھ کر یہ خوش ہو جاتا ہے پھر اسی کے آنے کی امید اور دیکھنے کے شوق میں اس کا وقت خوشگوار گزرنے لگتا ہے لیکن ایک روز وہ پانی پر چلتے چلتے ڈوب جاتی ہے اور اس کے پراسرار موت کا الزام اس واحد متکلم پر نہ آئے اس لیے جہاز اسے وہاں سے بھگا دیتا ہے۔‘‘

(۱)

آٹھ برس تک بڑی محبت کے ساتھ مجھے اپنے یہاں رکھنے کےبعد آخر میرا منھ بولا باپ مجبورہواکہ میرے لئے کوئی اور ٹھکانا ڈھونڈھے۔ زیادتی اس کی نہیں تھی، میری بھی نہیں تھی۔ اسے یقین تھا، اور مجھے بھی کچھ دن اس کے ساتھ آرام سے رہنے کے بعد میرا ہکلانا ختم ہوجائےگا۔ لیکن اس کوامید نہیں تھی، نہ مجھے کہ گھر کے باہر میرا تماشا بنالیں گے، جس طرح کسی پاگل کا تماشا بنالیا جاتاہے۔ بازاروں میں میری بات سب سے زیادہ دلچسپی اور توجہ سے سنی جاتی تھی اور وہ بات ہنسی کی ہو یا نہ ہو، لوگ اس پر ہنستے ضرورت ھے۔ کچھ دن میں میری یہ حالت ہوگئی کہ بازار تو بازار، گھر کے اندر بھی اگرکبھی کچھ کہنےکی کوشش کرتا تو بول میرےہونٹوں سے اور میرے دانتوں سے اور میرے تالو سے ٹکرا ٹکرا کر واپس چلے جاتے، جیسے پانی کی لہریں کنارے کو چھو کر پلٹتی ہیں۔

آخر میری زبان میں گرہیں سی پڑجاتیں، گردن کی رگیں پھولنے لگتیں، گلے اور سینے پر اتنا زور پڑتا کہ دم گھٹنے لگتا اور ایسا معلوم ہوتا کہ سانس اکھڑ جائےگی۔ ناچار بات ادھوری چھوڑکر ہانپنے لگتا اورسانس ٹھہرنے کے بعدنئے سرے سے بات شروع کرتا۔ اس پر منھ بولا باپ مجھے ڈانٹتا: ’’جہاں تک کہہ چکے ہو، میں نے سن لیا۔ اب آگے بڑھو۔‘‘

وہ اگر کبھی مجھے ڈانٹتا تو اسی بات پر ڈانٹتاتھا۔ لیکن میری مجبوری یہ تھی کہ میں بیچ سے بات شروع نہیں کرسکتاتھا۔ وہ کبھی تو صبر سے میری بات سنتا اورکبھی ہاتھ اٹھاکر کہتا: ’’اچھا بس کرو۔‘‘ لیکن میری مجبوری یہ تھی کہ میں بات ادھوری نہیں چھوڑسکتا تھا۔ بڑی بے چینی ہونے لگتی تھی۔ آخر وہ مجھے ہکلاتا چھوڑکر چلاجاتا اور میں اکیلا بولتا رہ جاتا۔ اس وقت کوئی مجھے دیکھتا تو ظاہر ہےپاگل سمجھتا۔

- Advertisement -

مجھےبازاروں میں گھومنے پھرنے اور لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے کابھی شوق تھا۔ میں خوداپنی بات توٹھیک سے نہیں کہہ پاتا تھا لیکن یہ کمی دوسروں کی باتیں غور سے سن کر اور دل ہی دل میں انہیں دہرا کر پوری کرتا تھا۔ کبھی کبھی میری طبیعت الجھنے ضرور لگتی تھی لیکن میں وہاں خوش بھی تھا اس لئےکہ وہاں کے لوگ مجھے پسند نہیں کرتےتھے، اورسب سے بڑھ کر اس لئے کہ میرا منھ بولا باپ مجھے بہت چاہتا اور میری ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا۔

لیکن کچھ دن سے وہ پریشان پریشان نظر آ رہا تھا۔ ایک نئی بات یہ ہوئی تھی کہ وہ دیردیر تک مجھ سے باتیں کرنے لگاتھا۔ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر ایسے سوال کرتا تھا جن کے جواب میں مجھے دیر تک بولنا پڑے، اور بیچ میں ٹو کےبغیر بڑی توجہ سے میری بات سنتا رہتا تھا۔ میں تھک کرہانپنے لگتا تب بھی وہ میری بات پوری ہونےکا انتظار کرتا اور جب میں نئے سرے سے بولنا شروع کرتا تب بھی وہ اتنی ہی توجہ سے سنتا رہتا۔ میں سوچتا تھا کہ اب وہ مجھے ڈانٹنے ہی والا ہے اور میری زبان میں گرہ پڑنے لگتی لیکن وہ کچھ بولےبغیر میری طرف دیکھے جاتا تھا۔

تین ہی دن میں مجھ کو اپنی زبان کچھ کچھ کھلتی معلوم ہونےلگی۔ سینے پر زور پڑنا بھی کم ہوگیا اور میں اس دن کا خواب دیکھنے لگا جب میں بھی دوسروں کی طرح آسانی اور صفائی سے بولنے لگوں گا۔ میں نےدل ہی دل میں وہ باتیں بھی جمع کرنا شروع کردیں جو دوسروں سے کرنا چاہتا تھا لیکن چوتھے دن باپ نے مجھے پاس بلا کر بٹھایا۔ دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا، پھر چپ ہوگیا۔ میں انتظار کر رہا تھا کہ اب وہ مجھ سے کوئی سوال کرے گا، لیکن اچانک اس نے کہا: ’’پرسوں تمہاری نئی ماں آرہی ہے۔‘‘

اس نے مجھے خوش ہوتے دیکھا، کچھ پریشان ہوا، پھر آہستہ سے بولا: ’’تمہیں بولتے دیکھے گی تو پاگل ہوکے مرجائے گی۔‘‘ دوسرے دن صبح میرا سامان بندھا ہوا تھا۔ اس سےپہلے کہ میں کچھ پوچھتا، باپ نے میراہاتھ پکڑا اورکہا: ’’چلو۔‘‘

سفر میں وہ مجھ سے کچھ نہیں بولا۔ لیکن راستے میں ملنے والے ایک آدمی کے پوچھنے پراس نے بتایا: ’’اسے جہاز نے مانگ لیاہے۔‘‘

پھر وہ دونوں جہازکی باتیں کرنے لگے۔ مجھے بھی جہاز یاد تھا۔ جب میں شروع شروع میں باپ کے پاس آیا تھا توجہاز میلوں اور بازاروں میں مسخرے پن کی نقلیں کرکے روزی پیدا کرتا تھا۔ وہ اپنی پیٹھ پر چھوٹا سا گلابی رنگ کا بادبان باندھے رہتا تھا۔ شاید اسی لئے اس کا نام جہاز پڑ گیا تھا، شاید جہاز نام ہونے کی وجہ سے وہ پیٹھ پر بادبان باندھنے لگاہو۔ ہوا تیز چلتی تو گلابی بادبان پھول جاتا اور جہاز کچھ ایسا معلوم ہوتا کہ اسی بادبان کے سہارے آگے بڑھ رہاہے۔ وہ طوفان میں گھرے ہوئے جہاز کی نقل بہت اچھی اتارتا تھا۔ بالکل ایسا معلوم ہوتا تھا کہ غصیلی ہوائیں، بپھری ہوئی موجیں اورتیز گھومتے ہوئے بھنور کسی جہاز کو ڈبونے پر تل گئے ہیں۔

نقال کے منھ سے ہوا کی غراہٹ، موجوں کے تھپیڑوں، بھنور کے سناٹے، بلکہ بادبانوں کےپھڑپھڑانے اورتختوں کے چرچرانے تک کی آوازیں صاف نکلتیں اور آخر وہ ڈوب ہی جاتا۔ یہ نقل بچوں اورلڑکوں کوبہت پسند تھی لیکن یہ صرف اس وقت دکھائی جاتی تھی جب ہواتیزچل رہی ہو۔ اگر ہوا رک جاتی تویہ چھوٹے تماشائی اوربھی خوش ہوتے اورشورمچانےلگتے: ’’تمباکو، تمباکو!‘‘

جہازکا ساتمباکو پینے والا میں نےکوئی نہیں دیکھا۔ تمباکو کی جتنی قسمیں اور تمباکو پینے کے جتنے طریقے ہوسکتے تھے شایدوہ اس کے استعمال میں تھے اور رکی ہوئی ہوا میں وہ منھ سے دھویں کے بادل چھوڑچھوڑکر ان سے ایسے ایسے کھیل دکھاتا تھا کہ تماشائیوں کواپنی آنکھوں پریقین نہیں آتاتھا۔ کبھی کبھی وہ دھویں کے بہت سے مرغولے نکال کرکئی قدم پیچھے ہٹ جاتا، پھرہاتھوں اورکلائیوں کو اس طرح گھماتا اور موڑتاتھا جیسے نرم گندھی ہوئی مٹی سے کوئی مورت بنارہاہو۔او رواقعی مرغولے کسی مورت کی صورت بن کر کچھ دیر تک ہوا میں ٹکے رہتے۔ کچھ نقلیں وہ ایسی بھی کرتا تھا جن کادیکھنا سننا لڑکوں کوسخت منع تھا۔ ان موقعوں پر وہ بازاریوں کے تنگ ہوتے ہوئے دہرے تہرے دائروں میں چھپ جاتا اور دور والوں کو صرف جھونکےکھاتے ہوئے بادبان اور تماشائیوں کےقہقہوں سے پتا چلتا کہ جہاز نقلیں کر رہا ہے۔

منھ بولے باپ کے پاس میرے آنے کے پہلے ہی سال جہاز کی آواز خراب ہوگئی تھی اور وہ بر ی طرح کھانسنے لگا تھا۔ نقلیں دکھانےمیں وہ بہت طرح سے بولا کرتا تھا لیکن اب کچھ بولنا شروع کرتا تو کھانسی باربار اس کا گلا بند کردیتی اور بعض وقت اسے بھی اپنی بات پوری کرنے میں قریب قریب اتنی ہی دیر لگتی جتنی مجھے لگتی تھی۔ اس نےنقلیں کرنا بلکہ ہماری طرف آنا بھی چھوڑ دیا اور پہلے سال کے بعد سے میں نے اسے نہیں دیکھا تھا۔

ہمارے راستے میں بڑی جھیل کے کناروں کی کئی بستیاں اور گھاٹ آئے۔ ہر جگہ میرے باپ کے جاننے والے موجودتھے اور سب کو وہ یہی بتاتا تھا کہ جہازنے مجھے مانگ لیاہے۔ اس کامطلب میری سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر میں نے باپ سے کچھ پوچھا نہیں۔ میں دل ہی دل میں اس سے ناراض بھی تھا اس لئےکہ اس کے پاس نہ رہنے کے خیال سے میں بالکل خوش نہیں تھا۔ لیکن خوش میرا باپ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ کم سے کم ایسا آدمی تو وہ بالکل نہیں معلوم ہوتا تھا جو دوسرے دن نئی بیوی لانے والا ہو۔

آخر ہم ایک میلی کچیلی بستی میں پہنچے۔ یہاں کے لوگ شیشے کا کام کرتے تھے۔ تھوڑےسےگھر تھے لیکن ہر گھر میں شیشہ پگھلانے کی بھٹیاں تھیں جن کی بھدی چمنیاں چھتوں اور چھپروں سے کچھ اوپر نکلی ہوئی دھواں چھوڑ رہی تھیں۔ دیواروں پر، گلیاروں میں، بلکہ وہاں کے درختوں پر بھی کلونس کی تہیں تھیں۔ آدمیوں کے کپڑے اور آوارہ کتوں، بلیوں کے بدن بھی دھویں سے کالے ہو رہے تھے۔ میرے باپ کے جاننے والے یہاں بھی موجود تھے۔ ان میں سے ایک نے ہم کو کچھ کھانے پینے کےلئے بٹھا لیا۔ مجھے وہاں کی ہرچیز سےوحشت ہورہی تھی۔ میرے باپ نے کچھ دیر غور سے میرے چہرے کو دیکھا، پھر اس سفر میں پہلی بار مجھ سے بات کی۔

’’یہاں لوگ بوڑھے نہیں ہوتے۔‘‘

میری سمجھ میں اس کی بات نہیں آئی۔ میں نے وہاں چلتے پھرتے لوگوں کودیکھا۔ واقعی ان میں کوئی بوڑھا نظر نہیں آرہاتھا۔ مجھے باپ کی آواز سنائی دی: ’’دھواں انہیں کھا جاتا ہے۔‘‘

’’پھر وہ یہاں کیوں رہتے ہیں؟‘‘میں نے پوچھنا چاہا لیکن یہ سوال مجھے بے فائدہ سا محسوس ہوا اور میں باپ کی طرف دیکھنے لگا۔

’’جہاز بھی شیشے کا کام جانتا ہے،‘‘ کچھ دیر کے بعد اس نے کہا،‘‘ اس کا گھر یہیں ہے۔‘‘

میں ایک جھٹکا کھا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ میری زبان میں ایک ساتھ بہت سی گرہیں پڑگئیں، لیکن اب میں چپ نہیں رہ سکتا تھا۔کیا اس بستی میں، جہاں کی ہرچیز پر سیاہ وحشت برستی معلوم ہوتی ہے، مجھ کو جہاز کے سے دھواں اگلتے ہوئے بازاری مسخرے کے ساتھ رہنا پڑے گا؟ یہ بات پوچھے بغیر میں نہیں رہ سکتا تھا چاہے اس میں جتنی بھی دیر لگتی۔ لیکن باپ نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کرتےہوئے اطمینان دلانے والے اندازمیں کہا: ’’لیکن وہ یہاں کا رہنا کب کا چھوڑ چکا ہے۔‘‘

مجھے واقعی کچھ اطمینان ہوا۔ اگرجہاز یہاں، اس بستی میں نہیں رہتاہے، میں نے خودسے کہا، تو میں اس کے ساتھ کہیں بھی رہ سکتاہوں۔ اسی وقت میرے باپ نے کہا: ’’اب وہ گھاٹ پر رہتا ہے،‘‘ اس نے ایک طرف اشارہ کیا، ’’شیشہ گھاٹ پر۔‘‘

اس نام پرایک بارپھر مجھے وحشت ہونے لگی۔ یقینا میرے باپ کونہیں معلوم تھا کہ میں اسی کے گھرمیں کچھ لوگوں سے شیشہ گھاٹ کا ذکر سن چکا ہوں۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ بڑی جھیل کا سب سے مشہور اور سب سے اجاڑ گھاٹ ہے اور بی بی نام کی ایک ڈراؤنی عورت اس کی تنہا مالک ہے، وہ ایک مشہور ڈاکو، یاشاید باغی کی محبوبہ تھی، پھر اس کی بیوی ہوگئی۔ وہ بی بی ہی سے ملنے آیاتھا کہ مخبری ہوگئی اوراسی گھاٹ پر وہ سرکاری آدمیوں کے ہاتھ مارا گیا،لیکن اس کے بعد کچھ ایسی الٹ پلٹ ہوئی کہ پورا شیشہ گھاٹ بی بی کے حوالے کر دیا گیا جہاں اس کی بہت بڑی ناؤ جھیل میں پڑی رہتی ہے اور بی بی نےا سی ناؤ میں اپنے رہنے کا ٹھکانا بنا لیا ہے۔ وہ کچھ کاروبار بھی کرتی ہے جس کی وجہ سے کبھی کبھی کوئی آدمی گھاٹ پر آنے دیا جاتا ہے۔ باقی کسی کوادھر کا رخ کرنے کی اجازت نہیں۔ کسی کی ہمت بھی نہیں ہے۔ بی بی سے سب ڈرتے ہیں۔

جہاز شیشہ گھاٹ پر کس طرح رہنے لگا؟ کیا مجھے بی بی سے ملنا ہوا کرے گا؟ وہ مجھ سے باتیں تونہیں کرے گی؟ مجھے اس کی باتوں کاجواب ضرور دیناپڑے گا؟ وہ میرے بولنے پرغصے سے پاگل تو نہیں ہوجائے گی؟ میں ان سوالوں اور ان کے خیالی جوابوں میں ایسا کھو گیا تھا کہ مجھے شیشے والوں کی بستی سے اٹھ کر چلنے کا پتا بھی نہیں چلا۔ میں اس وقت چونکا جب میرے کان میں باپ کی آوازآئی: ’’پہنچ گئے۔‘‘

(۲)

بڑی جھیل کا شاید یہی سب سے اجاڑ حصہ تھا۔ ایک بنجر میدان کے خاتمے پر مٹیالے پانی کاپھیلاؤ شروع ہوا تھا جس کا دوسرا کنارہ نظر نہیں آتا تھا۔ ہمارے بائیں ہاتھ پر تھوڑا پانی چھوڑ کر ایک بہت بڑی ناؤ جھیل کے کچھ حصے کو چھپائے ہوئے تھی۔ اس پرشاید کبھی لکڑی کے لٹھے لادے جاتےہوں گے۔ اب اس میں لٹھوں ہی سے کئی چھوٹی بڑی کوٹھریاں سی بنالی گئی تھیں۔ ناؤ کے سارے تختے ڈھیلے ہوگئےتھے اوران سے ہلکی چرچراہٹ کی آواز نکل رہی تھی جیسے کوئی بہت بڑی چیز دھیرے دھیرے ٹوٹ رہی ہو۔ جھیل کے کنارے ایک لمبی سی منڈیر زمین پرلیٹی ہوئی تھی۔ آس پاس چارپانچ چبوترے تھے جن میں بڑے بڑےشگاف پڑ گئےتھے۔ ان کے قریب ایک لمبا گلا ہوا بانس تھا جس کومٹی نے قریب قریب چھپا لیا تھا۔

اتنی کم چیزیں تھیں پھر بھی مجھے یقین ہو رہا تھا کہ جب یہ سب کچھ ٹوٹا پھوٹا ہوا نہیں ہوگا تو اس جگہ چہل پہل رہتی ہوگی۔ اب گھاٹ کے نام پرایک لمبا سا سائبان رہ گیا تھا جس کا اگلا حصہ داہنی طرف کے نشیب میں جھیل کے تھوڑے سےپانی کو ڈھانکے ہوئے تھا۔ سائبان کے پیچھے ذرا بلندی پر ایک بے ڈول عمارت تھی جس میں لٹھوں اورچکنی مٹی کا استعمال کچھ اس طرح ہوا تھا جیسے بنانے والا فیصلہ نہ کر پا رہا ہوکہ اسے لکڑی سے بنائے یا مٹی سے، اور اسی ادھیڑبن میں عمارت بن کر تیار بھی ہوگئی ہو۔ چھت البتہ پوری لکڑی کی تھی۔ اس کےبیچوں بیچ والے ابھار پ رلگا ہوا گلابی رنگ کا ایک چھوٹا سا بادبان ہوا سے بار بار پھول رہا تھا۔

میرا منھ بولا باپ ضرور پہلے بھی یہاں آیا ہوگا۔ میرا ہاتھ پکڑکروہ تیزی کے ساتھ سیدھ انشیب میں اترا اور سائبان کے نیچے سے شروع ہونے والےمٹی کے پانچ زینے چڑھ کر عمارت کے دروازے پر جا کھڑا ہوا۔ جہاز سامنے ہی زمین پر بیٹھا تمباکو پی رہا تھا۔ ہم دونوں بھی اندر جاکر زمین پر بیٹھ گئے۔

’’آگیا؟‘‘ اس نے باپ سے پوچھا اور کھانسنے لگا۔

آٹھ برس میں وہ بہت بوڑھا ہو گیا تھا۔ آنکھوں کی زردی اورہونٹوں کی سیاہی اتنی بڑھ گئی تھی کہ شبہ ہوتا تھا انہیں الگ سے رنگا گیا ہے۔ کچھ کچھ دیر بعد اس کی گردن اس طرح ہل جاتی تھی جیسے کسی بات کا اقرار کر رہا ہو۔ اور اسی طرح گردن ہلاتے ہوئے اس نے زرد آنکھوں سے مجھے دیکھا پھر بولا : ’’بڑا ہوگیا۔‘‘

’’ آٹھ برس بعددیکھ رہےہو۔‘‘ میرے باپ نے اسے بتایا۔

ہم بہت دیرخاموش بیٹھے رہے۔ مجھے شبہ ہوا کہ وہ دونوں اشاروں میں باتیں کر رہےہیں۔ لیکن وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ بھی نہیں رہےتھے۔اچانک میرا باپ اٹھ کھڑا ہوا۔ میں بھی اس کے ساتھ اٹھا۔ جہاز نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پوچھا: ’’کچھ رکوگے نہیں؟‘‘

’’کام بہت ہے،‘‘ میرا باپ بولا، ’’ابھی کچھ بھی نہیں کیا ہے۔‘‘ جہازکی گردن پھر اسی طرح ہلی اور میرا باپ دروازے سے باہرنکل گیا۔ مٹی کے زینے اترتےاترتے وہ رک کرمڑا۔ واپس آیا اور مجھے چمٹاکر دیر تک چپ چاپ کھڑا رہا، پھر بولا: ’’دل نہ لگے توجہاز کو بتا دینا، میں آکر لے جاؤں گا۔‘‘ جہاز کی گردن پھر اسی طرح ہلی اورمیرا باپ زینوں سے نیچے اترگیا۔

مجھے جہاز کے کھانسنے کی آواز سنائی دی اور میں اس کی طرف مڑگیا۔ اس نے جلدی جلدی تمباکو کے بہت سے کش کھینچے۔ دیر تک اپنی گھرگھراتی ہوئی سانس کو ہموار کرتا رہا، پھر اٹھا اور میرا ہاتھ پکڑ کر سائبان کے نیچے آگیا۔ وہیں کھڑے کھڑے وہ جھیل پر نظریں دوڑاتا رہا۔ پھر مٹی کے زینوں کی طر ف واپس ہوا لیکن پہلے زینے پر پیر رکھتے رکھتے رک گیا۔

’’نہیں۔۔۔‘‘ اس نے کہا، ’’سب سے پہلے بی بی۔‘‘

جھیل کے کنارے کنارے چلتے ہوئے ہم بڑی ناؤ کے قریب پہنچے۔ دولمبے لٹھوں کو ملا کر کنارے سے ناؤ تک پہنچنے کا راستہ بنایا گیا تھا۔ لٹھوں پر سنبھل سنبھل کر پیر رکھتے ہوئے ہم دوسرے سرے کی چھوٹی سیڑھی تک اور سیڑھی چڑھ کر ناؤ پرپہنچے۔ سامنے کی ایک کوٹھری کے دروازے پر ترپال کا پردہ پڑا ہوا تھا۔ پردے کے آگے ایک دورنگی بلی بیٹھی اونگھ رہی تھی۔ اس نے ادھ کھلی آنکھوں سےہم کو دیکھا۔ جہاز پردے کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ میں اس سے کئی قدم پیچھے کھڑا ہوا تھا۔ جہاز نے پھر کھانسنا شروع کیا تھا کہ پردہ ہٹا کر بی بی سامنے آگئی۔ اسے دیکھ کر مجھے ڈر لگا، لیکن اس سے بھی زیادہ یہ سوچ کر حیرت ہوئی کہ یہ بے ہنگم عورت کبھی کسی کی محبوبہ تھی۔ اس نے جہاز کو دیکھا پھر مجھ کو۔

’’بیٹا آگیا؟‘‘ اس نے جہاز سے پوچھا۔

’’ ابھی پہنچا ہے۔‘‘ جہاز نے بتایا۔

بی بی نے مجھے سر سے پیر تک کئی بار دیکھا، پھربولی: ’’دکھیا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ جہاز کچھ نہیں بولا۔ میں بھی کچھ نہیں بولا۔ دیرتک خاموشی رہی۔ میں نے بی بی کی طرف دیکھا اور اسی وقت اس نے پوچھا: ’’پیراکی جانتے ہو؟‘‘

’’نہیں۔‘‘ میں نے گردن کے اشارے سے اسے بتایا۔

’’پانی سے ڈرتے ہو؟‘‘

’’ڈرتا ہوں۔‘‘ میں نے پھر اشارے سے اسے بتایا۔

’’بہت؟‘‘

’’ہاں بہت۔‘‘ میں نے بتادیا۔

’’ڈرنا چاہئے۔‘‘ اس نے یوں کہا جیسےمیں نے اس کےدل کی بات کہہ دی ہو۔

میں نے جھیل کے پھیلاؤ کودیکھا۔ رکی ہوئی ہوا میں مٹیالا پانی بالکل ٹھہرا ہوا تھا اورجھیل پرکسی بنجرمیدان کا شبہ ہوتاتھا۔ میں نے بی بی کی طرف دیکھا۔ وہ ابھی تک مجھے دیکھ رہی تھی۔ پھروہ جہاز کی طرف مڑگئی جو اس کی طرف تمباکو پینے کا سامان بڑھا رہا تھا۔ دیر تک وہ دونوں تمباکو پیتے اور باتیں کرتےرہے۔ کچھ حساب کتاب قسم کی کاروباری باتیں تھیں۔ اس بیچ میں بھورے رنگ کا ایک کتا کسی طرف سے نکل کر آیا اور مجھے سونگھ کر چلا گیا۔ اونگھتی ہوئی بلی نے کتے کودیکھ کر دم پھلائی اورپیٹھ اونچی کرلی، پھر پردے کے پیچھے چلی گئی۔ میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد بی بی کو دیکھ لیتا تھا۔ مضبوط بنی ہوئی عورت تھی اور اپنی بڑی ناؤ سے بھی کچھ بڑی معلوم ہوتی تھی، لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی اپنی ناؤ کی طرح دھیرے دھیرے ٹوٹ رہی ہے۔ کم سے کم اس کے چہرے سے ایسا ہی ظاہر ہوتا تھا۔ اور اس کی باتوں سے بھی جومجھے صاف سنائی نہیں دے رہی تھیں۔ باتیں کرتے کرتے، رک کر ایک بار اس نے گردن اٹھائی اور زور سے آواز دی: ’’پریا!‘‘

دور کسی لڑکی کےہنسنے کی آواز پانی پر تیرتی ہوئی ہماری طرف آئی اور جہاز میرا ہاتھ پکڑ کر لٹھوں والے راستے کی طرف بڑھنے لگا۔ سیڑھی کے پاس پہنچ کر میں نے اپنی پشت پر بی بی کی آواز سنی۔ ’’اسے اچھی طرح رکھنا، جہاز۔‘‘ اور پھر وہی، ’’دکھیا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ یہ اس نے کچھ اس طرح کہا کہ میں خود کو واقعی دکھیا سمجھنے لگا۔

(۳)

لیکن کوئی وجہ نہیں تھی کہ میں خود کو دکھیا سمجھتا۔ بی بی کے یہاں سے آکر جہاز نے مجھ کو میرے رہنے کا ٹھکانا دکھا دیا تو مجھے یقین نہیں آیاکہ یہ ایک اجاڑگھاٹ پر بنے ہوئے اسی بے ڈول مکان کا حصہ ہے جس کے سامنے مٹیالے پانی کی جھیل اور پشت پر بنجر میدان ہے۔ وہاں میرے آرام کا اچھے سے اچھا سامان موجود تھا۔ سجاوٹ بھی بہت تھی جس میں شیشے کی چیزوں سے زیادہ کام لیاگیا تھا۔ دروازوں اور روشن دانوں میں بھی شیشے استعمال ہوئےتھے۔ مجھ کوتعجب ہواکہ جہاز کسی جگہ کو اتنے سلیقے سے سجا سکتا ہے۔ پھر خیال ہواکہ اس نے اس میں کسی او رکی مدد لی ہے، یا پھر سجاوٹ کا کام باقاعدہ سیکھا ہے۔وہاں کئی چیزیں آج ہی کی لائی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ لیکن مجھے شبہ ہواکہ وہاں سے کئی چیزیں ہٹائی بھی گئی ہیں اور یہ شبہ بھی ہوا کہ اس جگہ مجھ سے پہلے، شاید بہت پہلے، کوئی اور رہتا تھا۔

اپنے ٹھکانے کو دیکھ لینے کے بعد میں سوچ رہا تھا کہ پہلے ہی دن میں نے شیشہ گھاٹ کا سب کچھ دیکھ لیا ہے۔ لیکن پریا کو میں نے دوسرے دن دیکھا۔

مجھے آج تک حیرت ہے کہ میرے منھ بولے باپ کے یہاں جو لوگ شیشہ گھاٹ کی باتیں کررہےتھے ان میں کسی نے بی بی کی بیٹی کا نام بھی نہیں لیا تھا۔ میں نےپہلی بار اس کا نام شیشہ گھاٹ پہنچنے کے پہلے دن سناتھا جب بی بی نے ناؤ پر سے اسے پکارا تھا۔ اس دن کی گھبراہٹ میں مجھے یہ سوچنے کا خیال بھی نہیں آیاتھا کہ پریا کون ہے، لیکن دوسرے دن صبح میں نےگھاٹ کے سامنے جھیل پر سے ہنسی کی آواز سنی۔پھر کسی نے کہا: ’’جہاز تمہارے بیٹے کو دیکھیں گے۔‘‘ جہاز نے لپک کر میرا ہاتھ پکڑ لیا۔

’’بی بی کی بیٹی۔‘‘ اس نے بتایا اور مجھے سائبان کے نیچے لا کھڑا کیا۔

کوئی پچاس قدم کے فاصلے پر جھیل میں دھیرے دھیرے ہلتی ہوئی پتلی سی کشتی کے پچھلے سرے پرمیں نے دیکھا کہ پریا بالکل سیدھی کھڑی ہوئی ہے۔ پھر اس نے اپنے بدن کو ہلکا سا جھکولا دیا اور کشتی سائبان کی طرف بڑھی۔ پریا کے بدن نے ایک اور جھکولا کھایا۔ کشتی اور آگے بڑھی۔ اسی طرح رکتی بڑھتی ہوئی وہ سائبان کے بہت قریب آگئی۔

’’یہی ہے؟‘‘ اس نے جہاز کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

مجھے حیرت ہورہی تھی کہ یہ لڑکی بی بی کی بیٹی ہے۔ جس طرح اس پر حیرت ہوئی تھی کہ بی بی کسی کی محبوبہ رہ چکی ہے۔ میں نے اسے ذرا غور سے دیکھنا چاہا لیکن اب وہ مجھے سر سے پیر تک دیکھ رہی تھی۔

’’دکھیا تونہیں معلوم ہوتا۔‘‘ اس نے جہاز سے کہا، پھر مجھ سے بولی، ’’دکھیا تو نہیں معلوم ہوتے۔‘‘

’’میں نے کب کہاتھا کہ میں دکھیا معلوم ہوتا ہوں۔‘‘ میں نے ذرا جھنجھلاکر کہنا چاہا لیکن صرف ہکلاکر رہ گیا۔ پریا ہنس پڑی اور بولی: ’’جہاز، یہ سچ مچ۔۔۔‘‘ پھراس نے زور زور سے ہنسنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ ناؤ پر سے بی بی کی پاٹ دار آواز آئی: ’’پریا، اسے نہ ستاؤ۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ پریا نے پکار کر پوچھا، ’’دکھیا جو ہے؟‘‘

’’پریا۔‘‘ جہاز نے اسے سمجھایا۔ ’’اس سے تمہارا جی بہلے گا۔‘‘

’’ہمارا جی گھبراتا ہی نہیں۔‘‘ اس نے کہا اور پھر ہنسنے لگی۔

میں خود کوکسی مصیبت میں پھنسا ہوا محسوس کررہا تھا لیکن اسی وقت اس نے مجھ سے پوچھا: ’’تم نے اپنی نئی ماں کو دیکھا ہے؟‘‘

’’نہیں دیکھا۔‘‘ میں نے سر کے اشارے سے اسے بتایا۔

’’دیکھنے کو جی نہیں چاہتا؟‘‘

میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور دوسری طرف دیکھنے لگا۔

’’نہیں چاہتا؟‘‘ اس نے پھر پوچھا۔

جواب میں میرا سر اس طرح ہلاکہ اس کا مطلب ہاں بھی ہو سکتا تھا، نہیں بھی۔ مجھے خیال آ رہا تھا کہ آج نئی ماں میرے پہلے گھر میں آنے والی ہے،یا شاید آچکی ہو۔

باپ نے کہا تھا وہ مجھے بولتے دیکھ کرپاگل ہوجائے گی۔ میں خیال ہی خیال میں خود کوبولتے اور اس کودھیرے دھیرے پاگل ہوتے دیکھنے لگا۔ میں نے سوچنے کی کوشش کی کہ ایسی عورت کے ساتھ، جو میری وجہ سے پاگل ہوگئی ہو، میرا اس گھر میں رہنا کیسا ہوتا۔ مجھے یہ بھی خیال آیاکہ کل اس وقت تک میں اس گھر میں تھا۔اور یہ مجھے بہت پرانے زمانے کی بات معلوم ہوئی۔ مجھے وہاں گزارے ہوئے آٹھ سال آٹھ لمحوں کی طرح یاد آئے۔ پھر مجھے اپنا منھ بولا باپ یاد آنے لگا جوکل مجھے چمٹا کر جہاز کے پاس چھوڑ گیا تھا۔ پہلے بھی مجھ کو یقین تھا،اب اور زیادہ یقین ہوگیا کہ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا تھا۔

’’جہاز بھی تم سے، بہت محبت کرے گا۔‘‘ پریا کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔

میں اسے بھول گیا تھا لیکن وہ اتنی دیر سے میری ہی طرف دیکھ رہی تھی۔ پھر وہ سنبھل سنبھل کر چلتی ہوئی کشتی کے دوسرے سرے پر آئی۔ اس کا بدن آہستہ سے گھوما اورسائبان کی طرف اس کی پیٹھ ہوگئی۔ بدن کے ایک جھکولے کےساتھ اس نے کشتی کو آگے بڑھایا اور دھیرے دھیرے ہم سے دور ہوتی گئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے کوئی عجوبہ دیکھا ہے۔

’’اگر بی بی نے اس کانام لے کرنہ پکارا ہوتا‘‘ میں نے خود کو بتایا، ’’تو میں اسے جھیل کی روح سمجھتا۔‘‘ وہ جھیل کی روح نہیں تو عجوبہ ضرور تھی۔ اس لئے کہ وہ پانی کے نیچے پیدا ہوئی تھی اور اس کے پیروں نے آج تک زمین نہیں چھوئی تھی۔

بڑی ناؤ بی بی کو باپ دادا سے ملی تھی اور معلوم نہیں کب سے جھیل میں پڑی تھی، پریا کے جانے کے بعد جہاز نے بتایا، لیکن خود بی بی جھیل سے دور کہیں اور رہتی تھی جہاں اس کا میاں، وہی ڈاکو، یا جو کوئی بھی وہ تھا، چھپ کر اس سے ملنے آیا کرتا تھا۔ جب پریا پیدا ہونے کو ہوئی تو میاں نے ایک دائی کے ساتھ بی بی کو ناؤ پر پہنچا دیا۔ ولادت کے وقت جہاز بی بی کے درد سے چیخنے کی آوازیں سن رہا تھا۔ پھر یہ آوازیں کچھ بدل گئیں۔ سرکاری آدمی پہنچ گئے تھے اور بی بی سے اس کے میاں کا پتا پوچھ رہے تھے۔ بی بی نے کچھ نہیں بتایا توانہوں نے اس کو جھیل میں غوطوں پر غوطے دینا شروع کئے اور ایسے ہی کسی لمبے غوطے میں پریا پیدا ہو گئی۔

’’میں نے صاف دیکھا،‘‘ جہاز نے بتایا، ’’کہ پانی کے نیچے سے بی بی کی سانسوں کے بلبلے اٹھ رہے ہیں اور انہیں بلبلوں کے بیچ میں ایک بار پریا کا چھوٹا سا سرا بھرا اور اس کے رونے کی آواز آئی۔‘‘ تب ان لوگوں نے سمجھا کہ بی بی بن نہیں رہی تھی۔ وہ چلے گئے لیکن گھات میں رہے اور جیسا کہ انہیں یقین تھا، ایک دن پریا کا باپ گھاٹ پر آیا۔ اسی ناؤ پر اس کو گھیرا گیا۔ اس نے بچ کر نکل جانا چاہا لیکن زخمی ہوکر جھیل میں گرا اور جھیل ہی میں ڈوب گیا۔

اس دن سے بی بی نے بڑی ناؤ کو اپنا اور پریا کا ٹھکانا بنا لیا ہے۔ خود بی بی کبھی کبھی دوسری بستیوں کی طرف نکل جاتی ہے لیکن پریا کو اس نے آج تک زمین پر نہیں آنے دیا ہے۔ وہ اپنی کشتی پر جھیل میں گھومتی رہتی ہے، یا پھر بڑی ناؤ پرماں کے پاس آجاتی ہے۔ یہ کیوں ہو رہا ہے؟ بی بی نے کوئی قسم کھائی ہے؟ کوئی منت مانی ہے؟ کسی کو نہیں معلوم۔ اس لئے کوئی نہیں جانتا کہ پریا کب تک جھیل میں چکر لگاتی رہے گی اور اس کے پیر کبھی مٹی کو چھوئیں گے یا نہیں۔

(۴)

شیشہ گھاٹ پرمیں نے ایک سال گزارا اور ایک سال میں جھیل پر سے سب موسموں کوگزرتے اور ہر موسم میں پریا کی کشتی کوپانی پر گھومتے دیکھا۔ اس کے سوا وہاں میرےلئے دل بہلانے کا زیادہ سامان نہیں تھا۔ میرے ٹھکانے کا باہری دروازہ بنجر میدان میں کھلتا تھا جس کے نزدیکی کناروں پر شیشے والوں کی دھواں دیتی ہوئی بستی کو چھوڑ کر صرف مچھیروں کی آبادیا ں تھیں۔ سوکھتی ہوئی مچھلیوں کی وجہ سے میں ان آبادیوں سے دور دور رہتا تھا۔ مچھیرے ہر وقت کسی نہ کسی کام میں بھی لگے رہتے تھے، اور میرے کسی کام کے نہیں تھے، جس طرح میں ان کے کسی کام کا نہ تھا۔

میدان کے دوسرے کناروں پر بہت گھاٹ تھے، ملاحوں کی بڑی بڑی آبادیاں بھی تھیں۔ کسی کسی گھاٹ پربہت چہل پہل رہتی تھی، لیکن ایک دوبار جب میں کسی گھاٹ پرپہنچا تو پتا چلا کہ وہاں جہاز کے منھ بولے بیٹے کی خبر پہنچ چکی ہے اور لوگ مجھے پہچاننے ہی والےہیں۔ اس لئے خالی میدان میں گھومنے اور وہاں کی کچھ چیزوں کوخواہ مخواہ اپنی دلچسپی کا سامان بنالینے کے سوازیادہ تر میں سائبان کے نیچے بیٹھا رہتا تھا۔ بوڑھا جہاز بھی اپنے کاموں اور ادھر ادھر کی گشتوں سے فرصت پا کر تمباکو پینے کے سامان کے ساتھ وہیں آبیٹھتا اور طرح طرح کے قصے سناتا تھا جویاد رکھنے کے قابل تھے مگرمیں انہیں بھول گیا ہوں۔ البتہ یہ مجھ کو اب تک یاد ہے کہ جب اس کاکوئی قصہ میرا دھیان اپنی طرف کھینچ پاتا تو وہ جوش میں آکر، بلکہ کچھ وحشت زدہ ہوکر، اسے اپنےپرانے نقالوں والے اندازمیں بیان کرنے کی کوشش کرتا تھا۔اس میں اس پر کھانسی کا دورہ پڑجاتا اور اس کے قصے کی رہی سہی دلچسپی بھی ختم ہوجاتی۔

شروع شروع میں میرا خیال تھاکہ شیشہ گھاٹ دنیا سے الگ تھلگ کوئی جگہ اورجھیل کا یہ حصہ ہمیشہ ویران پڑا رہتا ہوگا۔ایسا نہیں تھا، البتہ وہاں بی بی کی اجازت کے بغیر کوئی نہیں آ سکتا تھا۔ یہی میں نے باپ کے گھر پران لوگوں سے سنا تھا اور فرض کر لیا تھا کہ بی بی کبھی کسی کو ادھر نہیں آنے دیتی۔ لیکن جہاز کے یہاں آنے کے بعد میں نے دیکھا کہ کچھ خاص خاص دنوں میں مچھیرے اپنی کشتیاں اور جال لے کر یہاں آتے ہیں۔ کسی کسی دن تو ان کی تعداد اتنی بڑھ جاتی تھی کہ معلوم ہوتا تھا پانی پر کوئی چھوٹا سا میلہ لگاہواہے۔ میں اپنے ٹھکانے پر، کبھی سائبان کے نیچے بیٹھا ہوا مچھیروں کی آوازیں سنتا تھا کہ ایک دوسرے کو پکار رہے ہیں اورکچھ ہدایتیں دے رہے ہیں۔ ان کی آوازوں کے بیچ میں کبھی کبھی پریا کے ہنسنے کی آواز بھی سنائی دیتی تھی۔ کبھی ان کی آوازوں سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ پریا کو کسی بات سے روک رہےہیں۔ کبھی کسی بوڑھے مچھیرے کی آواز سنائی دیتی کہ پریا کو ڈانٹ رہا ہے اور زور زور سے ہنستا بھی جارہا ہے۔ اس وقت ناؤ پر بی بی کی آواز آتی:

’’پریا، انہیں کام کرنے دو۔‘‘

جواب میں پریا کی ہنسی سنائی دیتی اور بوڑھا مچھیرا بی بی کومنع کرتا کہ پریا کو کچھ نہ کہے۔

ان دنوں میں بھی اور دوسرے دنوں میں بھی پریا سویرے سویرے گھاٹ پر ضرور آتی تھی۔سائبان کے سامنے اپنی کشتی پر کھڑے کھڑے وہ کچھ دیر تک جہاز سے باتیں کرتی، کبھی مجھ کوبھی سائبان کے نیچے بلوا لیتی اور اگر جہاز اٹھ کر چلاتا جاتا تو مجھ سے باتیں کرنے لگتی۔ کچھ بچکانی سی باتیں کرتی تھی۔ اپنے کتے بلی کے قصے زیادہ سناتی، یا یہ بتاتی تھی کہ کل بی بی نے اسے کس کس بات پر ڈانٹا تھا۔ کبھی وہ مجھ سے کوئی بات اس طرح اچانک پوچھ بیٹھتی کہ مجھ کو گردن کے اشارے کی جگہ زبان سے جواب دینے کی کوشش کرنا پڑتی۔ اس پر وہ خوب ہنستی اور بی بی کی ڈانٹ کھاتی، پھر جھیل کے دور افتادہ حصوں کی طرف نکل جاتی تھی۔ دوپہر کو بی بی اسے زور سے پکارتی اور اس کی کشتی ناؤ کی طرف بڑھتی نظر آتی۔ اس کے بعدسے ناؤ پر سے بار بار اس کے ہنسنے اور بی بی کے بگڑنے کی آوازیں آتیں۔ تیسرے پہر کو وہ پھر نکلتی اور گھاٹ کے سامنے ٹھہرتی۔ اگر اس وقت جہاز موجود نہ ہوتا تو وہ مجھ سے اس کی باتیں کرتی تھی۔ اسے جہاز کی ہر بات میں ہنسی کا سامان نظر آتا تھا چاہے وہ اس کا تمباکو پینا ہو، یا اس کا بے ڈھنگا لباس ہو، یا اس کے مکان پرلگا ہوا بادبان۔

ایک دن جب وہ مجھے جہاز کا کوئی قصہ سنا رہی تھی، مجھے شبہ ہوا، پھر یقین ہوگیا کہ اسے بالکل نہیں معلوم کہ آٹھ برس پہلے تک جہاز بازاروں میں مسخراپن کیا کرتا تھا اور اس دن پہلی بار میں نے ذرا اطمینان کے ساتھ بولنے اور اسے جہاز کی نقالیوں کے بارے میں بتانے کی کوشش کی۔ دیر تک کوشش کرتا رہا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ پھربھی وہ ہنسےبغیر بڑی توجہ سے میری بات سن رہی تھی۔ جس طرح آخر میں میرا باپ میری بات سننے لگا تھا۔ اسی وقت جہازتمباکو کوپیتا ہوا سائبان کے نیچے آگیا۔ اس نے میری مشکل آسان کی اورپریا کو بتا دیا کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔ پھر اس نے دوتین چھوٹی چھوٹی نقلیں کرکے دکھا بھی دیں۔ مجھ کو وہ اس کی پرانی نقلوں کی بھونڈی نقلیں معلوم ہوئیں لیکن پریا کو اتنی ہنسی آئی کہ کشتی ڈگمگانے لگی۔ وہ کچھ اور نقلیں دیکھنا چاہتی تھی لیکن جہاز اتنی ہی دیرمیں کھانسی سے ہلکان ہوگیا تھا۔ پریا اس کی کھانسی کے رکنے کا انتظار کررہی تھی، لیکن جہاز نے ہاتھ سے اسے اشارہ کیاکہ وہاں سے چلی جائے۔ پریا نے ہنستے ہوئے اپنی کشتی موڑی اور جاتے جاتے بولی:

’’جہاز، جہاز، تم بی بی کو بھی ہنسا دوگے۔‘‘

دوسری صبح وہ روز سے کچھ پہلے سائبان کے سامنے آگئی۔ لیکن اس دن جہاز کہیں نکل گیا تھا۔ اس نے مجھ سے جہاز کی باتیں شروع کردیں اورکل کی نقلوں کاحال اس طرح بتایا جیسے میں نے کل، بلکہ اس سے پہلے بھی کبھی جہاز کونقلیں کرتے نہ دیکھا ہو،بلکہ مجھے یہی پتا نہ ہو کہ جہاز کبھی نقلیں بھی کرتا تھا۔ میں سنتا رہا،پھر اسے بتانے کی کوشش کرنے لگا کہ جہازپیٹھ پربادبان باندھ کر بازاروں میں گھومتا تھا اورجہازوں کے ڈوبنے کی بھی نقلیں کرتا تھا۔ نہیں بتاسکا، نہ زبان سے نہ اشاروں سے۔ آخر چپ ہوگیا۔

’’کل۔‘‘ میں نےدل میں کہا، ’’جیسے بھی ہو، تم کوضرور بتاؤں گا۔‘‘

میں نے اسے واپس جاتے دیکھا۔

’’کل۔‘‘ میں نے پھر دل میں کہا، ’’جیسے بھی ہو۔‘‘

اسی شام میرا منھ بولا باپ شیشہ گھاٹ پرآیا۔اس ایک سال میں وہ اتنا بوڑھا ہوگیاتھا جتنا آٹھ سال میں جہاز نہیں ہوا تھا۔ اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ آگئی تھی اورجہاز اس کوسہارا دے کر لا رہا تھا۔ آتے ہی اس نےمجھ کو چمٹا لیا۔ آخرجہاز نے اس کو مجھ سے الگ کیا،ٹھیک سے بٹھایا، پھر میری طرف مڑا۔

’’تمہاری نئی ماں مرگئی۔‘‘ اس نے مجھے بتایا اور کھانسنے لگا۔

(۵)

منھ بولے باپ سے میری کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ جہاز اس کے آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد اسے لے کر کہیں چلاگیاتھا۔ جہاز بھی کچھ دیر تک تمباکوپینے کے بعد شاید سوگیا۔ میں سوچتا رہاکہ میرا منھ بولا باپ اتنی جلدی بوڑھا کس طرح ہوگیا۔ پھر مجھے اپنی ماں کا خیال کا آیا جو مجھے بولتے دیکھے بغیر مرگئی تھی اور شاید پاگل بھی نہیں ہوئی تھی۔ پھر مجھے شیشہ گھاٹ پر گزارا ہوا اپنا ایک سال یادآنے لگا۔ میں وہاں پھیلی ہوئی اور بہت کم ٹوٹنے والی خاموشی سے کبھی کبھی اکتا جاتا تھا لیکن اب مجھے احساس ہو رہا تھا کہ وہ جگہ ہمیشہ آوازوں سے بھری رہتی تھی۔ شیشے اور مچھیروں اور دوسرے گھاٹوں کی سمت سے مدھم پکاریں آتی تھیں اور جھیل پرآبی پرندے بولتے تھے۔ لیکن میں دھیان نہیں دیتا تھا۔ اس وقت بھی میں نے ذرا سا کانوں پر زور دیا توسائبان کی طرف سے کنارے کو چھوکر پلٹی ہوئی لہروں کی رکی رکی آوازیں آئیں اور بی بی کی ناؤ کے تختوں کی ہلکی چرچراہٹ سنائی دی۔

میں نے فیصلہ کرلیا کہ شیشہ گھاٹ کومیرے ہی رہنے کے لئے اور مجھ کوشیشہ گھاٹ ہی پر رہنے کےلئے بنایا گیا ہے۔

’’کل صبح میں جہاز کو بتا دوں گا۔‘‘ میں نے خود سے کہا اورسوگیا۔صبح کومیری آنکھ روز کی طرح جہاز کے کھانسنے کی آواز سے کھلی۔ پھر مجھے پریا کی آواز بھی سنائی دی۔ دونوں روز کی طرح باتیں کر رہے تھے۔ لیکن جہاز جہاں بیٹھا تھا وہاں سے پریا کی کشتی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس لئے جہاز کو زور زور سے بولنا اور بار بار کھانسنا پڑ رہا تھا۔

میں اٹھ کر سائبان کے نیچے آگیا۔ پریا سامنے ہی اپنی کشتی کے بیچ میں کھڑی تھی۔ اس نے جہاز سے ایک دو باتیں اور کیں۔ بی بی کا کچھ ذکر تھا۔ پھر وہ الٹے قدموں چلتی ہوئی کشتی کے دوسرے سرے پر پہنچ گئی۔ اس کے پیروں کی ہلکی سی جنبش سے کشتی نے دھیرے دھیرے گھوم کر آدھا چکر کھایا۔ اب پریا کی پیٹھ سائبان کی طرف تھی۔ میں نے پہلی بار بی بی کی اس بیٹی کوسرسے پیر تک غور سے دیکھا اور یہ سوچ کرپہلے سے بھی زیادہ حیران ہوا کہ بی بی کی سی عورت اس کی ماں ہے۔ اسی وقت اس کےبدن نے جھکولا کھایا اور کشتی سائبان سے دورہونے لگی۔ پھر آہستہ سے ڈگمگائی اور رک گئی۔ پریا نے اپنے داہنے بائیں اور سامنے پھیلی ہوئی جھیل کو دیکھا۔ کشتی پھر آہستہ سے ڈگمگائی لیکن پریا نے اپنے بدن کو سادھ کر اس کا توازن درست کرلیا۔ اس کے پیروں کو پھر ہلکی سی جنبش ہوئی۔ کشتی نے ایک بار پھر بہت دھیرے دھیرے گھوم کر آدھا چکر کھایا اور میں نے سامنے سے بھی پریا کو سر سے پیر تک دیکھا۔

مجھے اندیشہ ہوا کہ اس کومیرا اس طرح دیکھنا برا نہ لگے، لیکن اس کی نظریں میری طرف نہیں تھیں۔ وہ گھاٹ کے ٹھہرےہوئےپانی کو بہت غور سے، جیسے زندگی میں پہلی بار دیکھ رہی تھی۔ پھر وہ رک رک کر چلتی ہوئی کشتی کے سائبان والے سر ےپر آگئی۔ تھوڑا جھک کر اس نے ایک بارپھر پانی کوغور سے دیکھا، سیدھی کھڑی ہوئی، اپنے پورے بدن کو سادھا اوربہت اطمینان سے جھیل کی سطح پر پیر رکھ دیا جیسے کوئی سوکھی زمین پر قدم رکھتا ہے۔ پھر اس کے دوسرے پیر نے کشتی کو چھوڑا۔ اس نے ایک قدم آگے بڑھایا، پھر دوسرا قدم۔

’’پانی پر چل رہی ہے!‘‘میں نےکچھ حیرت اور کچھ خوف کے ساتھ خود کو بتایا، ذرا دور پرتمباکوپیتےہوئے جہازکی طرف گردن موڑی، پھرجھیل کی طرف دیکھا۔ پریا کی خالی کشتی اور سائبان کے درمیان صرف پانی تھا جس پر موٹی لہروں کےدہرے تہرے دائرے پھیل رہے تھے۔ چندلمحوں کے بعد ان دائروں کے بیچ سے پریا کا سر ابھرا۔ اس نےپانی پر کئی بار ہتھیلیاں ماریں جیسے جھیل کی سطح کو پکڑنا چاہ رہی ہو۔ پانی کی آواز کے ساتھ بہت سے چھینٹے اڑے اور مجھے جہاز کی آواز سنائی دی:

’’پریا، پانی کا کھیل نہ کرو۔‘‘

پھر اس کےگلےمیں دھویں کا پھندا پڑا اور وہ کھانستے دہرا ہو گیا۔ دم بھر کےلئے میری نگاہ اس کی طرف مڑی۔ اس پر دورہ سا پڑا ہوا تھا اوروہ کسی کی مدد کا محتاج معلوم ہو رہا تھا۔ میں نے پھر جھیل کی طرف دیکھا۔ مجھے سپاٹ پانی پر لہروں کے نئے دائرے پھیلتے دکھائی دیے۔ وہ پھر ابھری اورپھر نیچے بیٹھنےلگی۔ میری نظر اس کی آنکھوں پرپڑی اور میں ایک جھٹکےکے ساتھ اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔

’’جہاز!‘‘ میں نے زور سے پکارا، پھر میری زبان میں گرہیں پڑگئیں۔ میں جہازکی طرف لپکا۔ اس کی کھانسی رک گئی تھی لیکن سانس گھرگھرارہی تھی۔ وہ ایک ہاتھ سے اپنا سینہ اور دوسرے سے آنکھیں مل رہا تھا۔ میں نے زینے پر چڑھ کر اس کے دونوں ہاتھ پکڑے اور اسے زور سے ہلایا۔

’’۔۔۔ پریا۔۔۔‘‘ میرے منھ سے نکلا۔

اپنی زردآنکھوں سےکچھ دیر وہ میری آنکھوں میں دیکھتا رہا، پھر اس کی آنکھوں میں بجلی سی کوندی اور مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میرے ہاتھ سے کوئی شکاری پرندہ چھوٹ گیا ہے۔ سائبان میں اترنےوالے کچے زینوں پردھول اڑ رہی تھی اور جہاز پانی کےکنارے تھا۔ پریا کی کشتی اب پورا چکرکاٹ چکی تھی۔ جہاز نے کشتی کو دیکھا، پھر پانی کو۔پھر اس نے کسی اجنبی سی بولی میں پوری طاقت سے ایک آواز لگائی۔ میں نے سنا کہ ناؤ پر سے بی بی نے بھی اتنی ہی طاقت سے اس آواز کو دہرایا۔ پھر دور دور تک کئی طرف سے یہی آواز آئی۔ مجھے پھر بی بی کی آواز سنائی دی:

’’دکھیا؟‘‘

’’پریا!‘‘ جہاز نے اتنے زور سے کہا کہ اس کے سامنے جھیل کا پانی ہل گیا۔دور اورقریب کی آوازوں نے جہاز کی آوازکو بار بار دہرایا اور مجھے جال گھسیٹتے ہوئے اورخالی ہاتھ مچھیرے کئی طرف سے گھاٹ کی جانب دوڑتے دکھائی دیے۔ سائبان تک پہنچنے سے پہلے پہلے ان میں سے کئی پانی میں اترگئے۔ جہاز انہیں اشارے سے کچھ بتارہا تھا کہ بائیں طرف سے پانی کے اچھلنے کی آوازآئی۔ میں نے دیکھا کہ بڑی ناؤ پر کتا بھونکتا ہوا ادھر سے ادھر دوڑرہا ہے اوردورنگی بلی پیٹھ اونچی کئے ایک کوٹھری کی چھت پر سے اسے دیکھ رہی ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ بی بی، قریب قریب ننگی کسی خارش زدہ آدم خور مچھلی کی طرح پانی کو کاٹتی چلی آ رہی ہے۔ اس کا بدن پریا کی کشتی سے ٹکرایا اور کشتی اپنی جگہ پرپھر کی کی طرح گھوم گئی۔ بی بی غوطہ لگاکر کشتی کے دوسری طرف ابھری۔ اس نے جلدی جلدی مچھیروں کو کئی اشارے کئے اورپھر غوطہ لگایا۔

دوسرے گھاٹوں سے ملاحوں کی کشتیاں شیشہ گھاٹ کی طرف دوڑتی ہوئی دکھائی دیں۔ کئی ملاح راستے ہی میں کود کر اپنی کشتیوں کے آگے آگے پیر رہے تھے۔اب پریا کی کشتی سے سائبان تک اورسائبان سے کشتی تک پانی میں سرہی سر تھے۔ جھیل کے کنارے کنارےبھی مجمع بڑھ رہا تھا۔ ہر چیز ہل رہی تھی اور ہر طرف ایک شور تھا۔ ہرشخص کچھ نہ کچھ کہہ رہا تھا لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔ پانی کی اچھالوں کا شور سب سے زیادہ تھا جس میں وقت گزرنے کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔ آخر ایک آواز نے بہت زور سے کچھ کہا۔ شور تیزہوکر اچانک تھم گیا اور پانی میں اترے ہوئے سارے بدن بے آواز پیرتے ہوئے آہستہ آہستہ ایک جگہ جمع ہونے لگے۔ سب بالکل خاموش تھے، صرف ناؤپر سے کتے کے بھونکنے کی آواز آرہی تھی۔ اور اس وقت مجھے محسوس ہواکہ میرا ایک ہاتھ کسی شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ جہاز میرے پاس کھڑا تھا۔

’’چلو۔‘‘ اس نے میرا ہاتھ ہلا کر کہا۔

میری سمجھ میں نہیں آیاکہ وہ مجھے کدھر چلنے کوکہہ رہا ہے۔ مگر اب وہ مجھ کو مکان کے اندر لئے جا رہا تھا۔ میں نے پیچھے گھوم کرجھیل کی طرف دیکھنا چاہا لیکن جہاز نے میرے ہاتھ کو ذرا سا جھٹکا دیا اور میں اس کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کی نظریں مجھ پرجمی ہوئی تھیں۔

’’چلو۔‘‘ اس نے پھر کہا۔

ہم مکان کی پشت والے دروازے پر آئے۔ جہاز نے دروازہ کھولا۔ سامنے بنجر میدان تھا۔

’’وہ مل گئی ہے۔‘‘ اس نے مجھے بتایا، پھرمیدان کے بائیں کنارے کی طرف اشارہ کیا اورجلدی جلدی کہنے لگا، ’’تھوڑی دیر میں شیشے والوں کے یہاں پہنچ جاؤگے۔ وہاں سے سواری مل جائے گی۔ نہ ملے تو کسی کو بھی میرا نام بتا دینا۔‘‘

اس نے رومال میں بندی ہوئی کچھ رقم میری جیب میں ڈال دی۔ میں اس سے بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا اوروہاں سے جانا نہیں چاہتا تھا لیکن اس نے کہا: ’’اسے صرف تم نے ڈوبتے دیکھا ہے۔ سب تم ہی سے ایک ایک بات پوچھیں گے۔ بی بی سب سے زیادہ۔ بتا پاؤگے؟‘‘

میری آنکھوں میں وہ منظر آگیا کہ سارے لوگ کانوں میں بالے پہنے ہوئے مچھیرے اورہاتھوں میں کڑے ڈالے ہوئے ملاح اور گھاٹ گھاٹ کے سیلانی، میرے گرد دہرے تہرے دائرے بنائےہوئے ہیں اورہرطرف سے سوال ہو رہے ہیں، اور بی بی میری طرف دیکھ رہی ہے۔ پھر سب چپ ہوجاتے ہیں اور بی بی آگے بڑھ کر میرے قریب آجاتی ہے۔ جہاز نے میرے کپکپاتے ہوئے بدن کو دیکھا اور بولا:

’’مجھے کچھ بتا دو۔۔۔ کچھ بھی۔۔۔ وہ پانی میں گر گئی تھی؟‘‘

’’۔۔۔ نہیں۔۔۔‘‘ میں نے کسی طرح کہا۔

’’پھر؟‘‘ جہاز نے پوچھا۔ ’’خود جھیل میں کود گئی تھی؟‘‘

’’نہیں۔‘‘ میں نے کہا اور سر سے اشارہ بھی کیا۔

جہاز نے مجھے جھنجھوڑ کر کہا: ’’کچھ بتاؤ، جلدی۔‘‘

مجھے معلوم تھا کہ میں زبان سے کچھ نہ بتا پاؤں گا۔ اس لئے میں نے ہاتھوں کے اشارے سے اسے بتانے کی کوشش کی کہ وہ پانی پر چلنا چاہ رہی تھی۔لیکن میرے ہاتھ بار بار رک جاتے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ میرے اشارے بھی ہکلانےلگےہیں اور ان کا کوئی مطلب نہیں نکل رہا ہے۔ لیکن جہازنے گھٹی گھٹی آواز میں پوچھا: ’’پانی پرچل رہی تھی؟‘‘

’’ہاں۔‘‘ میں پھر ذرا مشکل سے کہا۔

’’اسی میں ڈوب گئی؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’پانی پر۔۔۔ بی بی کی طرف جا رہی تھی؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’پھر؟‘‘ اس نےپوچھا، ’’ہماری طرف آرہی تھی؟‘‘

’’ہاں،‘‘ میں نے گردن کے اشارے سے بتا دیا۔جہاز نے گردن جھکالی اور میرےدیکھتے دیکھتے کچھ اور بوڑھا ہوگیا۔

’’جس دن اس کا چھوٹا سا سرپانی سے ابھرا تھا،‘‘ دیر کے بعد اس نے کہا۔ ’’اس دن سے میں ہر روز اسے دیکھتا تھا،‘‘ اس کو کھانسی آتے آتے رکی، ’’مجھے یہ بھی پتا نہیں کہ اب وہ کتنی بڑی معلوم ہوتی تھی۔‘‘

میں چپ چاپ کھڑا اس کو بوڑھا ہوتے دیکھتا رہا۔

’’بس، جاؤ‘‘، اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا، ’’میں انہیں کچھ بتادوں گا۔ تم کسی سے کچھ نہ کہنا۔‘‘

میں کسی سے کیا کہوں گا، میں نے سوچا اور میرا دھیان جو اتنی دیر میں گھاٹ کی طرف سے ہٹ گیا تھا، پھر ادھر چلا گیا۔ لیکن جہاز نے بہت آہستہ سے مجھے گھما کر میدان کی طرف بڑھا دیا۔ میدان میں پہنچ کرمیں اس کی طرف مڑا او ر وہ بولا: ’’تمہارا باپ کل ہی تمہیں لئے جا رہا تھا۔ میں نے کہا تھا کچھ دن بعد۔۔۔‘‘

پھر اسے ہلکی سی کھانسی آئی۔ اس نے دروازے کے دونوں پٹ پکڑلئے اور دھیرے دھیرے پیچھے ہٹنے لگا۔

دروازہ بند ہونے سےپہلے ہی میں نے واپسی کا سفر شروع کردیا، لیکن پندرہ قدم چلا ہوں گا کہ اس نے مجھے پکارا۔ میں نے گھوم کر اسے دیکھا کہ کچھ رک رک کر میری طرف بڑھ رہا ہے۔ اس وقت وہ طوفان میں گھرے ہوئے کسی ایسے جہازکی نقل اتارتا معلوم ہو رہا تھا جس کے بادبان ہوائیں اڑا لے گئی ہوں۔ پاس آکر اس نے مجھے چمٹا لیا۔ دیر تک چمٹائے رہا۔ پھرمجھے چھوڑکر پیچھے ہٹ گیا۔

’’جہاز!‘‘ گھاٹ کی جانب سے بی بی کی دہاڑ سنائی دی۔ بوڑھے مسخرے کی زرد آنکھوں نے آخری بار مجھے دیکھا۔ اس کی گردن اقرار کے اندازمیں ہلی اورمیں مڑکر آگے بڑھ گیا۔

مأخذ : طاؤس چمن کی مینا

مصنف:نیر مسعود

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here