پاک ناموں والا پتھر

0
196
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’بوسیدگی، زنگ آلود قفل اور خستہ حال عمارتوں کی فضا سے معمور اس کہانی میں پاک ناموں والے پتھر کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ راوی کے خاندان میں اس پتھر کی اہمیت اس قدر زیادہ تھی کہ ساری جائداد ایک طرف اور پتھر ایک طرف رہتا تب بھی لوگ پتھر کے حصول کو ترجیح دیتے۔ اس پتھر کے سلسلہ میں اس خاندان میں خوں ریزیاں بھی ہوئیں لیکن جب راوی کو وہ پتھر ملتا ہے تو اسے اس میں کوئی خاص بات نظر نہیں آتی، پتھر معمولی ہوتا ہے اور اس پر پاک نام نقش ہوتے ہیں بس۔ پھر بھی وہ اسے گلے میں پہن لیتا ہے اور پھر ایک دن اتار کر ان متبرک چیزوں کے ساتھ رکھ دیتا ہے جو اس کے ساتھ دفن کی جائیں گی۔‘‘

پاک ناموں والا پتھر بیضوی قطع کی ایک سفیدی مائل لوح کی شکل ہے جس پر باریک حرفوں میں پاک نام کندہ ہیں۔ ایک نظر دیکھتے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ کبھی اس کا رنگ خالص سفید رہا ہوگا، لیکن اب یہ بتانا ممکن نہیں کہ اس میں اور کس رنگ یا رنگوں کی آمیزش ہو چکی ہے۔ پتھر نیم شفاف ہے اور روشنی کے رخ کر کے دیکھنے سے اس پر کھدے ہوئے پاک نام صاف پڑھنے میں آتے ہیں۔ اس میں سے اس پار کی چیزیں بھی دھندلی دھندلی دکھائی دیتی ہیں، البتہ ان کی جسامت میں فرق آ جاتا ہے اور پتھر کے رخ میں ہلکی سی تبدیلی کے ساتھ چیزوں کی جسامت بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس طرح دیکھنے سے اس پار کی چیزوں پر پاک نام لکھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے خاندان کا نشان ہے، لیکن کئی پشتوں سے غائب تھا۔ میرے ان پڑھ باپ کو صرف اتنا معلوم تھا کہ ہمارے خاندان کا کوئی نشان ہے جو اب بھی گھر میں کہیں موجود ہے۔

باپ کے مرنے کے بعد کئی مہینے تک میں اپنے مکان کے بیرونی حصوں کو کرائے پر اٹھاتا رہا۔ بیرونی حصے داخلے کی ڈیوڑھی کے دونوں طرف بنے ہوئے حجروں کی شکل کے تھے۔ داہنے بائیں چھ چھ خاصے کشادہ حجرے تھے جن میں دروازے نہیں تھے۔ یہ آسانی سے کرائے پر اٹھ گئے اور دکان داروں نے ان میں دروازے لگوا کر دکانیں کھو لیں۔ اس طرح میری آمدنی کا مستقل ذریعہ پیدا ہو گیا۔ اس کے بعد میں مکان کے اندر سامان کی طرف متوجہ ہوا۔

زنگ آلود کنجیوں سے زنگ آلود قفلوں کے کھولنے میں مجھ کو دقت ہوئی۔ کوئی کوئی کنجی تو زنگ ہی کی بنی ہوئی معلوم ہوتی تھی اور مجھے اندیشہ ہوتا تھا کہ اگر اسے گھمانے کے لئے زور لگاؤں گا تو وہ ٹوٹ کر قفل میں پھنسی رہ جائےگی۔ لیکن آخرکار کسی طرح سب دروازوں کے قفل کھل گئے۔ ان کے پیچھے کوٹھریاں، کمرے اور چھوٹے چھوٹے گودام تھے جن میں پرانا سامان کباڑ کی طرح بھرا ہوا تھا۔۔۔ میں نے سامان کو سرسری دیکھا۔ اس میں میرے کام کی چیزیں بہت کم تھیں۔ لکڑی، شیشے اور دھاتوں کی بنی ہوئی روزمرہ کے استعمال کی اور آرائشی چیزیں زیادہ تھیں جو تھوڑی بہت ٹوٹ پھوٹ یامحض پرانی ہو جانے کی سے الگ کردی گئی تھیں۔

ریشمی کپڑوں کے ملبوسات بھی تھے جن کو دیکھتے ہی معلوم ہو جاتا تھا کہ یہ مختلف زمانوں کے لباس ہیں۔ ان میں بعض بہت کم یا بالکل نہیں پہنے گئے تھے کہ شاید ان کا چلن ختم ہو گیا، یا ان کا پہننے والا ختم ہو گیا اور وہ لکڑی کے صندوقوں میں گودڑ کی طرح بھر دیے گئے۔

- Advertisement -

صبح سے تیسرے پہر تک میں نے یہ سارا سامان دیکھ ڈالا۔ ساری کنجیاں قفلوں میں لگ چکی تھیں، لیکن جب میں گرد میں اٹا ہوا دالان میں آیا تو میں نے دیکھا کہ میرے پاس ایک کنجی ابھی باقی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کنجی کہاں کی ہے، اس لئے کہ میری دانست میں اب مکان کا کوئی دروازہ مقفل نہیں رہ گیا تھا، تاہم میں نے ایک بار پھر سب دروازے دیکھے۔ دہرے دالان کی اندرونی دیواروں کے جو دروازے ہمیشہ کھلے رہتے تھے ان میں سے ایک بند تھا اور اس میں موٹے کنڈے کا ایک بڑا قفل لٹک رہا تھا۔ تھک جانے کے باوجود میں نے کوشش کر کے اس قفل کو کھول دیا۔ اس بڑی کوٹھری میں پہلے بھی میں آتا جاتا رہا تھا اور اس وقت کوٹھری کے ایک دو مچانوں پر میرے کھیلنے کی چیزیں رہتی تھیں، باقی پوری کوٹھری خالی پڑی رہتی تھی، لیکن اب اس کے سب مچانوں پر چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔

ایک ہی نظر میں مجھ کو اندازہ ہو گیا کہ دوسری کوٹھریوں کے برخلاف یہاں سامان سلیقے اور ترتیب کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ اس میں کئی چیزیں مجھے ایسی نظر آئیں جو میرے باپ نے میرے سامنے بنائی تھیں۔ انہیں دیکھ کر میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس کوٹھری کا سارا سامان میرے باپ کے ہاتھ کا بنایا ہوا ہے۔ کبھی کبھی وہ دیر تک میری طرف دیکھتے رہنے کے بعد اچانک ہنس پڑتا تھا۔ مجھے اس کی بچوں کی سی ہنسی یاد آئی، بلکہ میرے کانوں میں اس کے ہنسنے کی آواز بھی آئی۔ اسی وقت میری نظر ایک مچان کے نیچے رکھے ہوئے لکڑی کے صندوق پر پڑی۔

کوٹھری میں اندھیرا پھیل رہا تھا اور میں تھک چکا تھا، لیکن اب یہی ایک صندوق رہ گیا تھا جس کا سامان میں نے نہیں دیکھا تھا، اس لئے میں نے اس کا ڈھکنا اوپر اٹھایا۔ اس میں رنگ برنگے کپڑوں کی چھوٹی بڑی کترنیں تھیں جیسی لباس سینے کے بعد بچ رہتی ہیں۔ صندوق میں سیلن دوڑ گئی تھی اور کترنیں برف کی طرف ٹھنڈی ہو رہی تھیں۔ میں نے بالکل نیچے تک ٹٹول کے دیکھا لیکن میرے ہاتھ میں صرف کترنیں آئیں۔ میں نے ڈھکنا بند کر دیا اور کوٹھری سے باہر نکل آیا۔

اس رات سونے سے پہلے میں دیر تک اپنے باپ کو یاد کرتا رہا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس کی صورت مجھے ٹھیک سے یاد نہیں آ رہی ہے۔ اس کا سبب میری سمجھ میں یہی آیا کہ طفولیت کے ان دنوں کے سوا جب وہ مجھے اپنے زانوؤں پر لٹاتا تھا، میں نے کبھی غور سے اور دیر تک اس کے چہرے کو نہیں دیکھا تھا، اس لئے کہ زیادہ تر وہی میرے چہرے کو دیکھتا رہتا اور میری عادت تھی کہ اگر کوئی میری طرف دیکھنے لگتا تو میں اس کی طرف نہیں دیکھتا تھا۔ میں اپنے باپ کی صورت یاد کرنے کی کوشش کرتا اور ناکام ہوتا رہا، یہاں تک کہ مجھے یقین سا ہونے لگا کہ اگراس وقت اچانک وہ میرے سامنے آ جائے تو میں اسے پہچان نہ سکوں گا۔

مجھ کو بےچینی محسوس ہوئی اور میں بسترسے اٹھ کھڑا ہوا۔ دہرے دالان سے نکل کر صحن میں جمع ملبے کے ڈھیر پر سے ہوتا ہوا میں پچھواڑے کی بے مرمت دیوار تک پہنچ گیا۔ دیوار میں ہلکا سا شگاف تھا جس میں سے آتی ہوئی باہر کی ہوا آڑی لکیر کی طرح میرے چہرے پرلگ رہی تھی۔ میں آدھی رات تک وہیں کھڑا اپنے باپ کی باتیں یاد کرتا رہا۔ پھرمجھے اپنا بوڑھا استاد یاد آیا۔ وہ دیکھنے میں فقیر معلوم ہوتا تھا لیکن مجھے پڑھاتے وقت اس کا چہرہ بدل جاتا تھا۔ مجھے اس بڑی کتاب کے سادہ ورق یاد آئے جن میں سے ایک پر پہلی مرتبہ استاد کے ہاتھ نے میرا ہاتھ پکڑ کر کچھ لکھوایا تھا۔ مجھے وہ بڑی بڑی کتابیں یاد آئیں جو میرے اسلاف نے لکھی تھیں اور میں نے ان کو نہیں پڑھا تھا۔ حالانکہ اب پڑھ سکتا تھا۔

مجھے یقین ہو گیا کہ میرا باپ چاہتا تھا میں ان کو پڑھوں۔ مجھے اس چیز کا خیال آیا جو میرے خاندان کا نشان تھی۔ میرے باپ نے مجھ سے اسے تلاش کرنے کو کہا تھا لیکن یہ نہیں بتا سکا تھا کہ وہ کیا چیز ہے۔ اس نے کہا تھا کہ وہ ان کتابوں میں بھی ہوگی۔ مجھے استاد کا اس وقت کا چہرہ یاد آیا جب وہ آخری بارمجھ سے ملنے آیا تھا اور میری طرف اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے مجھ سے کسی بات کی توقع کر رہا ہو۔ کس بات کی توقع؟ کہ میں ان کتابوں کو پڑھوں؟ کہ میں اس نشان کو کتابوں میں تلاش کروں؟ میں نے وہیں کھڑے کھڑے اپنے خواب آلود ذہن میں یہ فیصلہ کر لیا کہ میں اسے تلاش کروں گا خواہ اس میں میری عمر تمام ہو جائے۔ اور اچانک مجھ پر تھکن اور نیند کا غلبہ ہوا۔ میں دالان میں زمین پر بچھی ہوئی چٹائی کی طرف بڑھنے لگا اور شاید اس پر لیٹنے سے پہلے ہی سو گیا۔

(۲)

میری آنکھ صدر دروازے پر دستک کی آواز سے کھلی۔ باپ کے مرنے کے بعد سے قریب قریب روز کوئی نہ کوئی میرے مکان پر ضرور آتا تھا۔ کوئی اس کے مرنے کی خبر سن کر افسوس ظاہر کرنے کے لئے آتا، کوئی اس کو پوچھتا ہوا آتا اور مجھ سے اس کے مرنے کی خبر سن کر افسوس ظاہر کرتا ہوا واپس جاتا تھا۔ مجھے دونوں طرح کے لوگوں کا آنا برا لگتا تھا۔ دستک کی یہ آواز بھی بری لگی۔ تاہم میں نے جاکر صدر دروازہ کھولا۔ مفلوک الحال سا آدمی تھا۔ میں نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، لیکن اس کی صورت مجھے پہچانی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔ یہ معمہ اس نے یہ کہہ کر فوراً ہی حل کر دیا، ’’آپ کے استاد کا بیٹا ہوں۔ شریک نام ہے۔‘‘ اس نے جیب سے ایک خط نکال کر مجھے دیا اور ایک طرف سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے خط کی پہلی سطر پر نظر ڈالی اور کہا، ’’یہ میرے نام نہیں ہے۔‘‘

’’آپ ہی کے پڑھنے کے لئے ہے۔‘‘ اس نے سر اٹھا کر جوا ب دیا۔ استاد کی تحریر دیکھ کر میری نگاہوں میں اس کی صورت گھومنے لگی۔ شریک واقعی اس سے بہت ملتا تھا اور اس وقت وہ بھی میری طرف اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے مجھ سے کسی بات کی توقع کر رہا ہو۔ مجھے استاد کے ساتھ اپنی بدسلوکیاں یاد آئیں اور اس کے بیٹے کا آنا اچھا معلوم ہوا۔

’’میں ان کے آخر وقت میں ان کے پاس نہیں تھا۔‘‘ اس نے میرے خط پڑھنے کے بیچ ہی میں کہا، ’’انہوں نے مجھے گھر سے نکال دیا تھا۔‘‘ میں خط پڑھ رہا تھا۔ خط شریک ہی کے نام تھا۔ زبان پرانے انداز کی تھی۔ مجھے اس میں شک تھا کہ شریک اس خط کا مطلب ٹھیک ٹھیک سمجھا ہو۔ میں نے اس سے پوچھا، ’’تم کیا کرتے تھے؟‘‘ اور خط تہہ کر کے اسے دے دیا۔ وہ کسی خیال میں گم ہو گیا تھا۔ میں نے اپنا سوال دہرایا اور اس نے جواب دیا، ’’پرانی چیزوں کا بیوپار۔ کوئی اور کام بھی کر سکتا ہوں۔‘‘

’’کام چھوڑ کیوں دیا؟‘‘

’’انہوں نے منع کر دیا تھا۔‘‘

’’استاد نے؟ کیوں؟‘‘

’’بےایمانی۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ میں بیوپار میں بے ایمانی کرتا ہوں۔ حالانکہ۔۔۔ لوگ مجھے اپنے یہاں کا سامان بیچنے کو دیتے تھے اور اندازے سے اس کی قیمت بتا دیتے تھے۔ یہ بھی بتا دیتے تھے کہ اس سے کم پرنہ بیچنا۔ میں زیادہ قیمت پربیچتا اور ان کے بتائے ہوئے پیسے ان کے حوالے کر دیتا۔ وہ خوشی خوشی میرا حصہ مجھے دے دیتے۔ لیکن ابا کو یہ بے ایمانی معلوم ہوتی اور انہوں نے مجھے گھرسے نکال دیا۔‘‘ استاد نے خط میں لکھا تھا کہ اگر وہ نئے سرے سے کام شروع کرنا چاہے تو میں اس کو ہر ممکن مدد دوں گا مگر شرط یہ ہے کہ کام میں بے ایمانی نہ ہو۔ میں نے شریک کو دو دن کے بعد بلایا اور اس کے جانے کے بعد خود کو کتابوں والے کمرے میں بند کر لیا۔

کتابوں میں زیادہ تر میرے اسلاف کی لکھی ہوئی تھیں۔ انہیں میں نے الگ کر لیا، بلکہ وہ الگ ہی رکھی ہوئی تھیں۔ ان کے علاوہ جو کتابیں تھیں وہ زیادہ تر میرے شہر سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان میں سیاسی اور سماجی تاریخیں بھی تھیں اور صنعت و حرفت کی کتابیں، رزنامچے، خطوں وغیرہ کے مجموعے اور اسی طرح کی اور بہت سی کتابیں۔ یہ زیادہ قلمی تھیں اور مختلف زمانوں میں لکھی گئی تھیں۔ میں نے ان کو جھاڑ پونچھ کر موضوع کے لحاظ سے الگ الگ رکھا اور اس عرصے میں شریک کے بارے میں بھی سوچتا رہا۔ دو دن بعد وہ آیا۔ آج وہ قاعدے کا لباس پہنے ہوئے تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک بہت پرانا چراغ دان تھا جو چراغ لگانے کے قابل نہیں رہ گیا تھا، اس لئے کہ کئی جگہ سے ٹوٹا ہوا تھا۔ میں نے پہلا سوال یہی کیا، ’’یہ کیا لیے ہوئے ہو؟‘‘

وہ ہنسنے لگا۔ پھر اس نے بتایا کہ اس طرح کی کوئی نہ کوئی چیز ہاتھ میں رکھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ بیوپاری بتاتا ہے کہ وہ پرانی چیزوں کا خریدار ہے، خواہ وہ کسی کام کی نہ رہ گئی ہوں۔ اس طرح بات آگے بڑھتی ہے اور لو گ اپنے اور دوسروں کے یہاں کی پرانی چیزوں کا پتا دینے لگتے ہیں۔

’’ایسی چیزیں تو خود اس مکان میں بہت ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ان کا کیا کروں۔‘‘

’’سب بک جائیں گی۔‘‘ شریک نے کہا، ’’بس دکان ہونا چاہئے اور چیزوں کو سلیقے سے رکھنا چاہئے۔‘‘

’’میں اپنے گھر کا سامان بیچ کر نہیں کھاؤں گا۔ جو چیزیں میرے کام کی نہیں ہیں وہ تم لے لینا۔ پھر ان کا جو جی چاہے کرنا۔‘‘

مکان کے پہلو والا ایک بڑا کمرہ، جو نئے بازار کی طرف کھلتا تھا، میں نے اسے دکان کے لئے دے دیا۔ کچھ اپنے گھر کی پرانی چیزیں اور کچھ نقد رقم بھی دی اور کچھ دن کے لئے اسے بالکل بھول گیا۔ اس کے بعد میرا قریب قریب سارا وقت کتابوں والے کمرے میں گذرنے لگا۔ میں نے سب سے پہلے اپنے اسلاف کی کتابیں دیکھیں۔ سب نے اپنے اپنے حالات بڑی تفصیل کے ساتھ لکھے تھے۔ یہ اپنے زمانے کے با اثر اور رئیس لوگوں میں تھے لیکن جب میں نے اپنے شہر کی تاریخ کا مطالعہ کیا تو ان میں سے کسی کا نام مجھے نہیں ملا۔ ان میں کوئی کوئی بہت پڑھا لکھا معلوم ہوتا تھا لیکن شہر کی علمی تاریخوں میں اس کا بھی کہیں نام نہیں تھا۔

میں نے اپنے شہر کے بارے میں بہت پڑھا اور بہت غور سے پڑھا۔ میرے اسلاف کا کہیں، کسی بھی سلسلے میں، ذکر نہیں تھا۔ مجھے شبہ ہوا کہ شاید ا ن لوگوں نے اپنے اصلی نام استعمال نہیں کئے ہیں، لیکن اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آئی۔ پھر مجھے یقین ہو گیا کہ یہ لوگ اپنے زمانے میں مشہور تھے، جیسے بہت سے لوگ اپنے زمانے میں مشہور ہوتے ہیں، لیکن ان کے بعد زمانے نے ان کو بھلا دیا، جیسے بہت سے لوگوں کو بھلا دیتا ہے۔ مجھے بہرحال ان کا نام باقی رہنے نہ رہنے کی زیادہ فکر نہیں تھی۔ مجھے اس نشان کی تلاش تھی جو ہمارے خاندان کی پہچان تھا اور وہ کہیں نہیں مل رہا تھا، کم سے کم ان کتابوں میں نہیں مل رہا تھا۔

(۳)

ایک دن شریک سویرے سویرے میر ے پاس آیا۔

’’آئیے اپنی دکان تو دیکھ لیجیے۔‘‘

’’دکان تمہاری ہے۔ میری کہاں سے ہو گئی؟‘‘ میں نے کہا۔

’’آپ ہی کی وجہ سے ہے۔‘‘ اس نے کہا، ’’اور ابھی تو اس میں مال بھی آپ ہی کا زیادہ ہے۔‘‘

میں اس کے ساتھ دکان میں گیا اور اسے دیکھ کر حیران ہو گیا۔ شریک نے اسے بڑے سلیقے سے سجایا تھا۔ اس میں زیادہ ترمیرے ہی گھر کا سامان تھا۔ چیزیں جو میرے یہاں کباڑ کی طرح بھری ہوئی تھیں، یہاں ایک ترتیب سے لگی ہوئی تھیں اور ان کواس طرح سجایا گیا تھا کہ ٹوٹی پھوٹی چیزوں میں بھی ایک حسن نظر آ رہا تھا۔ کچھ سامان باہر سے بھی خریدا ہوا تھا۔ اس میں قدیم زمانے کے کپڑوں کی کچھ کترنیں بھی تھیں۔ شریک نے بتایا کہ یہ وہ کپڑے ہیں جواب مدت سے نہیں بنتے اور کپڑوں کے کارخانوں والے ان کے نمونوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔

مجھے وہ لکڑی کا صندوق یاد آیا۔

’’ایسی کترنیں میرے پاس بہت ہیں۔ وہ تم کو دے دوں گا۔‘‘ میں نے کہا اور دکان سے چلا آیا۔

لکڑی کا صندوق بہت بھاری نہیں تھا۔ میں اسے آسانی سے صحن میں لے آیا۔ دہرے دالان میں بچھی ہوئی چٹائی میں نے صحن میں بچھا دی، جہاں اب دھوپ آ رہی تھی۔ میں نے صندوق سے کترنیں نکال نکال کر چٹائی پر رکھنا شروع کیں۔ وہ اب مجھے برف کی طرح سرد معلوم ہوئیں۔ باہر دن کی روشنی میں ان کے رنگ چمک اٹھے تھے اور ان کی وضعوں کی باریکیاں نمایاں ہو گئی تھیں۔ میں نے پورا صندوق خالی کر دیا۔ سب سے نیچے کچھ لمبی لمبی کترنیں تھیں جو ایک گولے کی شکل میں لپیٹ دی گئی تھیں۔ میں نے انہیں کھول ڈالا تو پتہ چلا وہ کسی چیز پر لپٹی ہوئی تھیں۔ میں نے اس چیز کو دیکھا۔ یہ بدرنگ تانبے کی ایک بیضوی ڈبیا تھی۔ کچھ دقت کے ساتھ میں نے ڈبیا کو کھول لیا۔ اس طرح پاک ناموں والا پتھر میرے قبضے میں آیا۔ لیکن اس وقت میری سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ یہی میرے خاندان کا نشان ہے۔

لیکن ایک دن جب میں ان کتابوں میں اپنے پردادا کا حال پڑھ رہا تھا تو اس میں جائیداد کی تقسیم کے ایک تنازعے میں مجھے شبہ ہوا کہ اس پتھر کا ذکر آیا ہے۔ پھر اس سے پہلے کے ایک مقدمے میں بھی، پھر اور کئی جگہ۔ مگر اس کا نام نہیں لکھا جاتا تھا بلکہ اشاروں کنایوں میں اس کا ذکر ہوتا تھا اور یہ ذکر وہاں سے شروع ہو گیا تھا جہاں سے ہمارے خاندان کی تاریخ شروع ہوتی تھی۔ جائیداد کے جھگڑے بھی اسی وقت سے شروع ہوگئے گئے۔ ان جھگڑوں میں بعض دفعہ تقسیم اس طرح ہوئی تھی کہ پوری جائیداد ایک طرف تھی اور پاک ناموں والا پتھر ایک طرف۔ پھر بھی ہر فریق پتھر ہی لینا چاہتا تھا اور ان جھگڑوں میں خوں ریزیاں بھی ہوئی تھیں۔

تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ ہمارا نشان ہے۔ مگر اس کا ذکرمیرے پردادا کے ذکر کے ساتھ ختم ہو گیا تھا۔ خاندانی تاریخ کا سلسلہ بھی اس کے بعد زیادہ نہیں چلا۔ بس میرے باپ کی پیدائش کا حال بیان ہو رہا تھا کہ ایک ناتمام جملے پر تاریخ ختم ہو گئی اوریہ اس سلسلے کی آخری کتاب تھی۔ یہ وہی کتاب تھی جس کے بہت سے ورق سادہ تھے اور ان میں سے ایک پر میرے استاد نے مجھ سے کچھ لکھوا کر میری تعلیم کا آغاز کیا تھا۔

میں نے پاک ناموں والے پتھر کو بہت دیر تک اور بہت غور سے دیکھا۔ اس میں اس کے سوا کوئی خاص بات نظر نہیں آئی کہ وہ بہت پرانا تھا۔ خود پتھر بہت قیمتی نہیں تھا اور پاک ناموں کی لکھاوٹ میں بھی کوئی خاص خوبی نہیں معلوم ہوتی تھی۔ اس طرح کے پتھر میں نے بہت دیکھے تھے جو برکت کے لئے گلے میں ڈالے جاتے تھے اور دو تین شریک کی دکان میں بھی تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ ہمارے خاندان کا نشان کیوں تھا۔ لیکن چونکہ اس میں کسی دھات کا ایک چھوٹا سا کنڈا بھی لگا ہوا تھا، اس لئے میں نے کنڈے میں ڈورا ڈال کر اسے گلے میں پہن لیا اور اسے شریک کو دکھانے کے لئے دکان پر گیا۔

دکان پر شریک تنہا تھا۔ گاہک یوں بھی دکان پر کم آتے تھے۔ اس دن وہ خریداری کر کے آیا تھا۔ ایک میز پر خریدا ہوا مال رکھا تھا۔ مجھ کو وہ محض کباڑ معلوم ہوا۔ شریک نے تپاک سے میرا استقبال کیا اور مجھ کو اپنی خریداری دکھانے لگا۔ کچھ برتن تھے لیکن زیادہ تر ٹوٹے یا چٹخے ہوئے، البتہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ کسی زمانے میں وہ بہت قیمتی رہے ہوں گے۔ اب بھی ان کے رنگ چمک رہے تھے اور ان پر بنے ہوئے نقش و نگار کا کچھ نہیں بگڑا تھا۔ لیکن انہی میں ایک آدھی طشتری بھی تھی۔ یہ بدرنگ فیروزی رنگ کی چینی کی تھی اور موٹی بنی ہوئی تھی۔ میں نے کہا، ’’یہ تو اچھی نہیں ہے۔‘‘

’’یہ سب سے خاص چیز ہے۔‘‘ شریک نے کہا، ’’یہ غوری کی طشتری ہے۔ اس میں زہر آلود چیز رکھی جائے تو اس کا رنگ بدل جاتا ہے۔ اگر تیز زہر ہو تو ٹوٹ جاتی ہے۔ ہر گھر میں غوری کا ایک آدھ برتن ضرور ہوتا تھا اور رکھے رکھے غائب ہو جاتا تھا، پھر آ موجود ہوتا تھا۔‘‘ مجھے یقین نہیں آیا لیکن میں کچھ بولا نہیں، اور ایک کرسی کا ٹوٹا ہوا ہتھا اٹھا لیا۔ یہ سیاہ لکڑی کا تھا اور اس پر کٹاؤ کا بہت باریک کام بنا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا، ’’اسے کون خریدےگا؟‘‘

’’ہر مال کا گاہک موجود ہے، ڈھونڈنے والا چاہئے۔‘‘ یہ شریک کا پسندیدہ فقرہ تھا، ’’جو اس کا خریدار ہوگا وہ اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت دےگا۔ نہیں تو دکان میں پڑا رہےگا۔ ایک خریدار میرے پاس ہے جو دنیا بھر میں گھومتا ہے اور مردوں سے متعلق جو جرم کیے جاتے ہیں ان کا سامان جمع کرتا ہے۔‘‘

’’مردوں سے متعلق جرم؟‘‘

’’اس نے پانچ چھ سو سال پہلے تک کا سامان جمع کر لیا ہے۔ قبریں کھودنے، لاش کے حصے کاٹنے کے اوزار، تابوت اور معلوم نہیں کیا کیا۔ بہت پیسے والا آدمی ہے اور اپنے مطلب کی چیز کی کچھ بھی قیمت دے سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ اصلی چیز ہو۔ اور اصلی چیز وہ ایک نظر میں پہچان لیتا ہے۔ اسے کوئی دھوکا نہیں دے سکتا۔ پرانی چیزیں جمع کرنے والے جو اصلی لوگ ہوتے ہیں وہ کبھی دھوکہ نہیں کھاتے۔ اب اس کو ایک چیز کی تلاش ہے۔ اس نے یہاں کے کفن چوروں کے بارے میں سنا ہے کہ ان کے پاس کوئی ایسا اوزار ہوتا تھا جس سے وہ قبر کے اندر سے مردے کا کفن نکال لیتے تھے اور انہیں پوری قبر کھودنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ بس قبر کے سرہانے ایک سوراخ کرنا ہوتا تھا جسے کام پورا ہونے پر بند کر دیتے تھے۔ کسی کو پتا بھی نہ چلتا تھا کہ مردہ قبر کے اندر ننگا پڑا ہے۔‘‘

وہ چیز میرے ہاتھ میں رہ چکی تھی۔ میں بچپن میں جس دوسری درسگاہ میں پڑھتا تھا اس سے متصل ایک میدان تھا۔ اس میدان کے ایک سرے پر ایک بہت پرانا مقبرہ اور اس سے متعلق چھوٹا سا قبرستان تھا۔ ایک دن میں درس گاہ پہنچا تو قبرستان میں مجمع لگا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ کل یہاں ایک میت دفن کی گئی تھی۔ آدھی رات کے وقت کوئی کفن چور میت کا کفن نکال رہا تھا کہ میدان کے کنارے والے ایک مکان میں جاگ ہوگئی اور کفن چور اپنا کام ادھورا چھوڑکر بھاگ کھڑا ہوا۔ کفن آدھے کے قریب قبرسے باہر نکلا رہ گیا۔ میں جب پہنچا تو قبر کھول کر اور مردے کو پھر سے کفنا کر بند کی جا چکی تھی۔ اور وہ اوزار، جس سے کفن کھینچا جا رہا تھا ایک کنارے پڑا ہوا تھا۔

یہ لوہے کی ایک نکیلی چھڑتھی جس کے سرے کے پاس ایک آنکڑا اس طرح لگایا گیا تھا جس نے چھڑ کے ساتھ مل کر ایک چھوٹے چمٹے کی سی شکل بنا دی تھی۔ نوک سے قبرکے سرہانے کی طرف چھید کیا جاتا تھا۔ پھر قبر کے پٹروں تک پہنچ کر آخری پٹرے کو ابھارا اور اوزار کو میت تک پہنچا دیا جاتا تھا اور آنکڑے کی مدد سے کفن کی بندش کھول لی جاتی تھی۔ پھر چمٹے میں کفن کا ایک سرا پھنسا کر اس کو تین چار مرتبہ گھمایا جاتا یہاں تک کہ کفن کا سرا اس میں اچھی طرح لپٹ جاتا۔ یہ سب کام محض اندازے سے ہوتا تھا اور کفن چور کا انداز ہ غلط نہیں ہوتا تھا۔ وہ سرے کو آہستہ آہستہ کھینچ کر قبرسے لے کر باہر لے آتا۔ اس کے بعد کا کام آسان تھا۔ کفن کا سرا ہاتھ میں آجانے کے بعد اس کو تیزی سے کھینچا جاتا۔ قبر میں میت الٹ پلٹ ہوتی رہتی اور اس کا کفن باہر نکلتا رہتا تھا۔ اسی طرح سب پارچے نکال لیے جاتے تھے اور قبر کا چھید مٹی بھر کر بند کر دیا جاتا تھا۔

یہ تفصیل مجمعے میں سے ایک شخص نے بتائی جو صور ت سے خود بھی کفن چور معلوم ہوتا تھا۔ لوگ ابھی باتیں کر رہے تھے کہ اچانک بہت تیز بارش آگئی۔ کچھ لوگ مقبرے میں گھس گئے اور کچھ ادھر ادھر بھاگے۔ میں نے وہ چھڑ اٹھا لی، بھاگ کر درس گاہ کے اندر آ گیا اور اپنے ساتھیوں کو اس سے ڈراتا رہا۔ پھر مجھے یاد نہیں کہ میں نے چھڑ کیا کی۔ میں نے شریک کو یہ واقعہ بتایا تو وہ بے چین ہو گیا۔

’’آپ کو اس اوزار کی شکل اچھی طرح یاد ہے؟‘‘

’’میرا خیال ہے کہ یاد ہے، مگر یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا۔ کیوں؟‘‘

’’پرانے لوہے کی دکانوں پر شاید وہ مل جائے۔ مجھے کاغذ پر اس کی شکل بنا دیجیےگا۔‘‘ اس کے بعد اس نے سبز رنگ کے پتھر کا ایک ٹکڑا اٹھایا۔ یہ بھی کسی ٹوٹی ہوئی چیز کا حصہ تھا۔

’’سنگ سماق۔‘‘ اس نے کہا، ’’یہ اب بھی کہیں کہیں مل جاتا ہے، لیکن سبز سماق بہت نایاب ہے۔‘‘ تب مجھے اپنے گلے میں پڑا ہوا پاک ناموں والا پتھر یاد آیا۔ میں نے اتار کر شریک کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ اس نے پتھر کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور دیر تک دیکھتا رہا۔ پھر بولا، ’’پتھر میں تو کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ اب بھی ملتے ہیں۔ تعویذ کے طور پر پہنے جاتے ہیں۔‘‘

’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’لیکن یہ ہمارے خاندان کا نشان کیوں ہے؟‘‘

مگر شریک سے مجھے اس میں کوئی مدد نہیں ملی اور میں نے اسے پھر گلے میں ڈال لیا۔ شریک اپنی خریداری کی چھنٹائی کرنے لگا۔ آج میں نے اس کا چہرہ غور سے دیکھا۔ مجھے اپنے استاد کا فقیروں کا سا چہرہ یاد آیا۔ شریک کا جوان چہرہ تھا، لیکن استاد سے اس کی مشابہت حیرت انگیز تھی۔ میرا اس سے باتیں کرنے کو جی چاہنے لگا۔ ابھی تک میں نے اس سے بہت کم گفتگو کی تھی اور مجھے اس کے بارے میں، سوا اس کے کہ وہ استاد کا بیٹا ہے، کچھ بھی نہیں معلوم تھا۔ میں نے اس سے پوچھا، ’’تمہیں پرانی چیزوں کے بارے میں اتنی باتیں کہاں سے معلوم ہوئیں؟‘‘

’’کام کرتے کرتے محاورہ ہو گیا ہے۔ اور۔۔۔ آپ کے استاد بھی جوانی میں یہی کام کرتے تھے۔ پھر چھوڑ دیا۔‘‘

’’کیوں چھوڑ دیا؟‘‘

’’پرانے مال کی خریداری میں انہیں کہیں سے بہت سی کتابیں ہاتھ لگ گئیں۔ انہیں پڑھنے میں لگے تو انہیں کے ہو رہے۔ ان کا کام میں نے سنبھال لیا۔ انہوں نے مجھ کو بہت کچھ بتایا۔ پھر اور بھی بہت کچھ معلوم ہوا۔ پھر انہوں نے مجھے گھر سے نکال دیا تو میں ایک اور جگہ کام کرنے لگا۔‘‘

’’کس جگہ؟‘‘

اس نے نوادر فروشی کی ایک بڑی دکان کا نام لیا جو شہر کے تجارتی علاقے میں تھی۔

’’وہاں کام کیوں چھوڑ دیا؟‘‘

’’وہ لوگ نئی چیزیں بھی پرانی بتا کر بیچ دیتے ہیں۔ صراحیاں، آب خورے جن پرکائی لگی ہوتی ہے، وہ تک بیچ دیتے ہیں۔‘‘

’’لیکن تم توکہتے ہو پرانی چیزیں جمع کرنے والا کبھی دھوکہ نہیں کھاتا۔‘‘

’’اصلی آدمی دھوکہ نہیں کھاتا۔‘‘

پھر اس نے بتایا کہ اس دکان پر غیر ملکوں کے سیاح بہت آتے ہیں جو یہاں سے پرانے زمانے کی کچھ یادگاریں اپنے وطن لے کے جانا چاہتے ہیں۔ ان میں اکثر بےتمیز ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھ کوئی بھی چیز جو ذرا سی کہنہ معلوم ہو، پرانے زمانے کی کہہ کر بیچی جا سکتی ہے۔

’’میں وہاں کام کرتا تھا کہ ایک دن مجھے ابا کی آواز سنائی دی، ’تم اب بھی میری روح کو تکلیف پہنچا رہے ہو۔ “ کسی گھر کا پرانا رہنے والا جب مر جاتا ہے تو کچھ دن تک گھر میں اس کی آواز سنائی دیتی ہے۔ زیادہ تر سمجھ میں نہیں آتا کہ اس نے کیا کہا۔ لیکن اس آواز کا ایک ایک لفظ اتنا صاف تھا کہ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ بولنے والا مر چکا ہے۔ لیکن خیر، دوسرے ہی دن سے میں نے دکان پرجانا چھوڑ دیا۔ پھر آپ کی مہربانی سے۔۔۔‘‘

مجھے استاد کا گھر دیکھنے کی خواہش ہوئی، جہاں استاد کی آواز آتی تھی۔

’’استاد کا گھر کہاں ہے؟‘‘

اس نے پتا بتا دیا۔ میں نے پوچھا، ’’تم بھی اسی گھر میں رہتے ہو؟‘‘ مجھے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ استاد نے شریک کے نام خط میں اس کو ہدایت کی تھی کہ اسی گھر میں چلا آئے۔

’’گھرکا ہے کو، بس پڑ رہنے کی جگہ ہے۔ اس لئے آپ کو ابھی تک وہاں نہیں لے گیا۔‘‘

’’کسی دن لے چلو۔‘‘ میں نے کہا، ’’آخر میرے استاد کا گھر ہے۔‘‘

(۴)

دوسرے دن میں شریک کے ساتھ استاد کے گھر گیا۔ بس ایک اندھیری کوٹھری تھی۔ مجھے اس کے سامان میں صرف ایک چٹائی کا اندازہ ہوا، وہ بھی اس لئے کہ شریک نے اسی پر مجھے بٹھایا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ میرا استاد صورت سے جتنا فقیر معلوم ہوتا تھا حقیقت میں اس سے زیادہ فقیر تھا۔ مگراس کے سینے میں معلومات کا دریا تھا۔ میں نے شریک سے اس کے بارے میں طرح طرح کے سوال کیے لیکن وہ بھی اپنے باپ کے بارے میں بہت کم جانتا تھا۔ استاد کے آخر وقت کے بارے میں بھی اسے کچھ نہیں معلوم تھا۔

’’مجھے ان کے (مرنے کے بعد؟) کئی دن بعد خبر ہوئی۔‘‘

’’کس طرح؟‘‘

’’طاہرہ بی بی سے۔‘‘

’’طاہرہ بی بی۔۔۔‘‘

’’لیکن طاہرہ بی بی کو میرا پتا نہیں معلوم تھا۔ کئی دن کی تلاش کے بعد۔۔۔‘‘

’’طاہرہ بی بی کون ہیں؟ مجھے بھی استاد کی خبر انہی نے پہنچائی تھی۔‘‘

’’ابا نے انہیں پڑھایا تھا۔ بیٹی بنایا تھا۔ قریب ہی رہتی ہیں۔ وہی آخر وقت میں ان کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ مجھ کو ابا کی خدمت کا موقع نہیں ملا۔‘‘

میں اٹھ کھڑا ہوا۔ شریک میرے ساتھ ہی کوٹھری سے باہر نکلا۔ کچھ دیرتک باہر کی تیز دھوپ میں میری آنکھوں نے ٹھیک کام نہیں کیا۔ لیکن میں شریک کا ہاتھ پکڑے ہوئے چلتا رہا۔ میں نے سوچا استاد کے مرنے پر مجھے شریک سے افسوس کا اظہار کرنا چاہئے، لیکن اب یہ بے موقع بات ہوتی، اس لئے چپ چاپ چلتا رہا۔ کچھ دور چلنے کے بعد وہ رکا اور بولا، ’’طاہرہ بی بی اسی مکان میں رہتی ہیں۔ ان سے بھی مل لیا جائے؟‘‘

ہم ایک چھوٹے سے مکان کے سامنے کھڑے ہوئے تھے۔ شریک نے میرے جواب کا انتظار نہیں کیا اور اس مکان میں داخل ہو گیا۔ کچھ دیر بعد واپس آیا اور مجھے مکان کی ڈیوڑھی میں لے گیا۔ ڈیوڑھی کے اندرونی دروازے پر پڑے ہوئے پردے کے اس طرف ایک کرسی رکھی ہوئی تھی، میں اس پر بیٹھ گیا۔ پردے کے دوسری طرف مجھے ایک ہیولا سا دکھائی دیا۔ میں نے اسے سلام کیا۔ اس نے جواب دینے کے ساتھ پوچھا، ’’آپ کو کنجیاں بھجوا دی تھیں۔ سب دروازے کھل گئے؟‘‘

’’جی ہاں۔‘‘ میں نے کہا، ’’بعض قفل ذرا مشکل سے کھلے، مگر کھل گئے۔‘‘

’’سامان آپ نے دیکھ لیا؟‘‘

’’اکیلے تو شاید نہ دیکھ سکتا، لیکن شریک کی وجہ سے۔۔۔‘‘

’’شری۔۔۔؟‘‘

’’ہم کو کہہ رہے ہیں۔‘‘ شریک نے اسے بتایا۔

’’تمہارا نام شریک ہے؟‘‘ اس نے کہا، ’’ہم تو تمہارا گھر کا نام جانتے ہیں۔‘‘

’’شریک کے ساتھ قریب قریب سب سامان دیکھ لیا۔‘‘ میں نے کہا۔

’’اور کتابیں؟‘‘

’’سب پڑھ ڈالیں۔ بعض کئی کئی دفعہ۔۔۔‘‘

’’ان کو آپ سے یہی امید تھی۔‘‘

’’استاد کو؟‘‘

’’اور آپ کے والد صاحب کو بھی۔‘‘

’’میں نے سب کتابیں پڑھ لیں۔‘‘

پھروہ کچھ دیرخاموش رہنے کے بعد بولی، ’’وہ ملا؟‘‘ میں سمجھ گیا کہ وہ کس چیز کو پوچھ رہی ہے۔ میں نے ذرا مایوسی کے ساتھ کہا، ’’جی ہاں، مل گیا۔ وہ ایک پتھر ہے جس پر پاک نام کھدے ہوئے ہیں لیکن اس میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔‘‘

’’وہ آپ کے خاندان کا نشان ہے۔‘‘

’’مگر کیوں؟ میرے باپ نے کہا تھا اس کی خاطر خون بہا ہے۔‘‘

’’اس کی کچھ تاثیر ہوگی۔‘‘ طاہرہ بی بی نے کہا۔

’’مگر کیا؟‘‘

’’کتابیں پھر سے دیکھئے۔‘‘

پھر اس نے استاد کی موت کا حال بیان کرنا شروع کیا۔ اس میں اس کا خطاب زیادہ تر شریک سے تھا۔ استاد کے آخری تین چار دن، اس کی دوادارو، اس کا مرنا، آخری رسوم، سب کچھ اس نے تفصیل سے بتایا۔ بیچ بیچ میں اس کی آواز ٹوٹ جاتی تھی، غالباً روتی تھی۔ میرے پاس کھڑا ہوا شریک بھی روتا تھا۔ آخر وہ بولا، ’’ہم تو ان کی کوئی خدمت نہ کر سکے۔ آپ نہ ہوتیں تو۔۔۔‘‘

’’توکیا میت پڑی رہتی؟ ہم نہ اٹھواتے، کوئی اور اٹھواتا۔‘‘

اب مجھے کچھ بولنا ضروری معلوم ہوا۔

’’مجھے بھی وقت پر اطلاع نہ ہو سکی۔‘‘

’’ہم نے تین دفعہ لڑکی کو بھیجا۔ لیکن آپ کے دروازے پر تالا پڑا ہوا تھا۔‘‘

’’میں استاد کو ڈھونڈنے نکل جاتا تھا۔‘‘

’’مرنے سے پہلے وہ آپ سے ملنے گئے تھے۔‘‘

’’اسی کے بعد۔ لیکن مجھے ان کا گھرنہیں ملا،‘‘ مجھے استاد کے ساتھ اپنی بدسلوکیاں یاد آئیں، ’’میں نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔‘‘

’’وہ بتاتے تھے اور ہنستے تھے۔‘‘

پھر دیر تک خاموش رہی۔ آخر میں اٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے شریک کو چلنے کا اشارہ کیا۔

’’اچھا طاہرہ بی بی۔‘‘ اس نے ہیولے کو مخاطب کیا، ’’ہم لوگ جا رہے ہیں۔‘‘ اس نے ہمیں ذرا دیر رکنے کو کہا۔ ایک چھوٹی لڑکی پردے کے پیچھے سے تانبے کی سینی میں دو گلاس لیے ہوئے نکلی۔ گلاسوں میں کسی قسم کا شربت تھا۔

’’اس تکلف کی کیا ضرورت تھی۔‘‘ میں نے کہا اور گلاس اٹھا لیا۔

’’کتابیں پھر سے دیکھیےگا۔‘‘ اس نے کہا اور مجھے یاد آیا کہ پاک ناموں والا پتھر میرے گلے میں پڑا ہوا ہے۔ میں نے اسے اتار کر لڑکی کو دیا، لڑکی نے پردے کے اس طرف جا کرطاہرہ بی بی کو دیا۔ میں نے کہا، ’’و ہ نشان یہ ہے۔‘‘ پردے کے ادھر سے پتھر کو چومنے کی آواز آئی۔ پھر پاک نام پڑھنے کی آواز آئی۔ لڑکی نے مجھے واپس کیا۔ میں اسے گلے میں پہن رہا تھا کہ طاہرہ بی بی نے پھر کہا، ’’کتابیں دیکھیےگا۔‘‘

(۵)

اس رات سوتے سے میری آنکھ کھل گئی۔ دل دھڑک رہا تھا اوربدن پسینے پیسنے تھا۔ میں نے اٹھ کر پانی پینا چاہا، لیکن اٹھا نہ گیا۔ یوں ہی پڑا رہا۔ کچھ دیربعد طبیعت قابو میں آئی اور میں پھر سو گیا۔ دوسرے دن اٹھ کر پھر کتابوں میں گم ہو گیا۔ ایک بار پھر مجھے حیرت ہوئی کہ میرے بزرگ جو شہر کے سربرآوردہ لوگوں میں تھے، ان کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ میں نے ایک بار پھر اور اس بار بہت غورسے کتابوں کو دیکھنا شروع کیا۔ بہت سے بیان ایسے ملے جن کا اس سے پہلے پڑھنا مجھے یاد نہ آیا، خصوصاً ایسے بیان جنہیں لکھنے والوں نے مبہم اشاروں میں لکھا تھا۔ اب میں نے بیانوں کو رک رک کر اور دوسرے بیانوں سے ملا ملا کر پڑھنا شروع کیا۔ ان میں خوں ریزیوں کے بیان بہت ملے۔ لوگوں کی موت کے بھی کئی بیان ملے۔ موت کے بیان یوں بھی بہت تھے لیکن کچھ بیان مبہم اشاروں میں تھے اور ان سب کے ساتھ، خون ریزیوں کے بیانوں کے ساتھ بھی، مجھے محسوس ہوا، پاک ناموں والے پتھر کا بھی ذکر آتا تھا لیکن اس وقت لکھنے والوں کا بیان اور بھی مبہم ہو جاتا تھا۔

آخر میں نے ان سب بیانوں کو صاف صاف نقل کر لیا۔ پرانے کاغذوں اور لکھنے والوں کی شکستہ تحریروں کی وجہ سے وہ بہت زیادہ مبہم معلوم ہوتے تھے۔ میری اپنی مانوس تحریر میں ان کا ابہام کم ہو گیا۔ کئی دن بعد جب میں نے آخری بیان لکھ کر ختم کیا تو خاصی رات گزر چکی تھی۔ میں نے سوچا اسی وقت اپنے لکھے کو پڑھنا شروع کر دوں، لیکن مجھے نیند کے جھونکے آ رہے تھے، اس لئے میں نے کاغذوں کو باندھ کر رکھ دیا اور سونے لیٹ گیا۔ اس رات پھر مجھے بےچینی محسوس ہوئی، سینے میں درد بھی ہونے لگا۔ میں نے تھوڑا پانی پیا، کچھ دیرتک سینہ سہلاتا رہا۔ درد کم ہوتے ہوتے ختم ہو گیا اور باقی رات میں آرام سے سویا۔

صبح میری آنکھ دستک کی آواز سے کھلی۔ شریک تھا اور پریشان نظر آ رہا تھا۔ اس نے کئی دن غائب رہنے کی معذرت کی۔ مجھے اس کے نہ آنے کا احساس بھی نہیں تھا۔ میں نے اس کے غائب رہنے کا سبب بھی نہیں پوچھا۔ میرا دماغ کاغذوں میں الجھا ہوا تھا۔ میں شریک کے ہونٹ ہلتے دیکھ رہا تھا لیکن مجھے سنائی نہیں دے رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ پھروہ دکان چلا گیا اور میں نے کاغذ نکال کر ان کو پڑھنا شروع کر دیا۔

سب کچھ بہت صاف تھا۔ ہر موت اور ہر خون کے ساتھ یہ ضرور بتایا جاتا تھا کہ پتھر مرنے والے کے پاس نہیں تھا۔ کئی لوگوں نے مرض کی شدت میں اسے گلے سے اتار دیا تھا۔ کئی کے گلے سے اسے اتار کر انہیں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بعض نے غسل کرتے وقت اسے اتار دیا تھا اور غسل کرنے ہی میں ختم ہوگئے۔ کئی بیماروں کو جب ان کی حالت مایوسی کی ہو گئی، پتھر پہنا دیا گیا تھا اور وہ اچھے ہو گئے تھے۔ پتھر ہمارے خاندان کا نشان تو تھا ہی، مجھے محسوس ہوا کہ خاندان کا سب سے بڑا مسئلہ بھی تھا، اس لئے کہ جب تک کسی کے گلے میں رہتا، اسے موت نہ آتی۔ اس لئے سب اس کے طلب گار رہتے تھے اور اسی لئے اس کی خاطر خون بہتا تھا۔

اب، جب مجھے اس کی تاثیر معلوم ہو گئی تھی، میں نے خود کوبہت ہلکا محسوس کیا اور یہ بھی محسوس کیا کہ اب مجھے کوئی کام نہیں رہ گیا ہے۔ دوپہر ہو گئی تھی۔ میں دکان پر چلا گیا۔ شریک موجود تھا لیکن دکان بند کر رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے کہا، ’’کچھ گاہکوں کو بلایا تھا۔ اب پھر وہیں جا رہا ہوں۔‘‘

’’کہاں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’طاہرہ بی بی کے یہاں۔ سویرے آپ کو بتایا تھا۔‘‘ اس نے دوبارہ بتایا کہ طاہرہ بی بی کی کوئی پرانی بیماری پلٹ آئی ہے اور اس بار زیادہ شدت کے ساتھ پلٹی ہے۔

’’لیکن اس دن تو وہ بالکل ٹھیک تھیں۔‘‘ میں نے کہا۔

’’بس اسی کے دوسرے دن سے طبیعت بگڑ گئی۔‘‘ میرا دل اسے دیکھنے کو چاہا، لیکن اب وہ پردے کے پیچھے آکر کھڑی نہیں ہو سکتی تھی۔ مجھ کو اس سے بہت سی باتیں کرنا تھیں۔ مجھے یقین تھا کہ میرے استاد کے بارے میں وہ مجھ سے بہت زیادہ جانتی ہے، بلکہ میرا خیال تھا وہ میرے باپ کے بارے میں بھی مجھ سے زیادہ جانتی ہے۔ میں بھی وہ باتیں جاننا چاہتا تھا۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ مر نہ جائے۔

میں نے اپنے گلے سے پتھر اتارا اور کہا، ’’اسے میری طرف سے ان کے گلے میں ڈال دینا۔ جب وہ بالکل اچھی ہو جائیں تو۔۔۔‘‘ لیکن ابھی وہ میرے ہی ہاتھ میں تھا کہ دکان میں ایک لڑکا داخل ہوا اور شریک کو دیکھ کر رونے لگا۔ اس نے سسکیاں لے لے کر شریک کو کچھ بتایا۔

’’تم چلو، میں آ رہا ہوں۔‘‘ شریک نے کہا اور دکان کے دروازے بند کرنے لگا۔ باہر نکل کر اس نے مجھے بتایا جو میں پہلے ہی سمجھ گیا۔ میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن وہ جا چکا تھا۔ طاہرہ بی بی کا خیال مجھے تین دن تک آتا رہا۔ پردے کے پیچھے اس کا ہیولا مجھے یاد آتا تھا۔ اس کی عمر زیادہ نہیں تھی۔ کم سے کم مجھ سے وہ چھوٹی ہی تھی۔

کئی دن بعد مجھے پتھر کا خیال آیا۔ میں نے اسے طاہرہ بی بی کو بھجوانے کے لئے گلے سے اتارا تھا۔ مجھے یاد نہیں آیا کہ اس کے بعد میں نے اسے کیا کیا۔ میں نے اسے ان جگہوں پر تلاش کیا جہاں میں اپنا ضروری سامان رکھتا تھا، مگر وہ معلوم نہیں کہاں غائب ہو گیا تھا۔ کئی دن تک میں اسے تلاش کرتا رہا لیکن وہ نہیں ملا۔

ایک رات پھر میرے سینے میں درد شروع ہوا اور جب میں اپنا سینہ سہلا رہا تھا تو میرے ہاتھ کو پتھر کی سختی محسوس ہوئی۔ اس وقت مجھے یاد آیا کہ میں نے ہر جگہ اسے تلاش کیا تھا لیکن یہ نہیں دیکھا تھا کہ وہ ہمیشہ کی طرح میرے گلے میں پڑا ہوا ہے۔ درد اچانک بہت تیز ہوا اور اچانک غائب ہو گیا۔

صبح اٹھ کر میں نے پاک ناموں والے پتھر کو بہت دیر تک دیکھا۔ اس کو روشنی کے رخ کر کے زاویے بدل بدل کر دیکھا۔ اس کے پار کی چیزوں کو اپنی جسامت بدلتے دیکھا اور یہ دیکھا کہ اس پار کی چیزوں پر پاک نام لکھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔

اب، جب میں نے باپ کی خواہش اور استاد کی توقع پوری کر دی ہے، میں نے اسے گلے سے اتار کر ان متبرک چیزوں میں رکھ دیا ہے جومیرے ساتھ دفن کی جائیں گی۔ یہ ضروری تھا، ورنہ شاید اس کی خاطر پھر خون بہنے لگتا۔

مأخذ : گنجفہ

مصنف:نیر مسعود

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here