’گیہوں کی بالیاں کچھ زیادہ بڑی ہونے لگی ہیں ،
۔’’ہاں اور پگڈنڈیاں اب سکڑ گئی ہیں۔ دو لوگ ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘‘۔
کوئی ایک مانوس سی آواز نے سرگوشی کی۔ اس نے آس پاس دیکھا۔ ادھ پکی بالیوں کے لہلانے کی آواز تھی۔ کچھ دن قبل سرپھری ہوا چلی تھی، ابروباراں میں زبر اور گھنی فصلیں چت لیٹ گئیں تھیں۔ کسان راحت کی سانس لےرہے تھے کہ پروا چل رہی ہے۔ گیہوں کے دانے اب سوکھے اور پتلے نہیں ہوں گے۔
وہ آٹھ سال اور پانچ مہینے میں دوسری بار گاؤں آیا تھا، گاؤں جو پہلے جیسا نہیں تھا۔ یہ وہ گاؤں نہیں تھا جس کی بل کھاتی گلیاں بچپن کی شوخیوں، آرزوؤں اور محرومیوں کی گواہ تھیں۔ بڑےcپیڑ ایک ایک کرکے سوکھ رہے تھے اور جو سرسبز تھے وہ بے ثمر تھے۔ نکڑ بھی ویران تھے، افتادگان خاک بیڑی اپنے گھروں میں سلگاتے تھے، دھواں کہیں اور چھوڑتے تھے اور بھی بہت کچھ بدل چکا تھا، سکھی سہیلیوں میں بھجیا چوبھا، لولا لپسی، چوکھا،چٹنی اور سالن کا تبادلہ تقریبا معدوم ہو چکا تھا، گھٹ گھٹی کم ہو رہی تھی، سب کو اپنا اپنا اسپیس چاہئےتھے۔۔۔ اسپیس سکڑ رہا تھا
وہ دالان میں بیٹھا بےچینی کا پیرہن اوڑھے بور ہو گیا تھا، باپ کے آنے میں وقت تھا، چھوٹی امی اپنے معمول کے کام میں مصروف تھیں، انکے یہاں اشرف کا وجود نہیں تھا۔ وہ کویتا کاکی کے گھر پر گیا جو سڑک پار اناجوں کے لئے تعمیر شدہ کوٹھریوں کے ساتھ واقع تھا مگر دروازے پر تالا لگا ہوا تھاسو وہ کھیت کی اور نکل گیا۔ کھیت جس نے اسے کبھی گاؤں کے دیگر بچوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع نہیں دیا۔ کھیت! دور تک پھیلا ہوا ادھیڑ عمر کی اوبڑ کھابڑ عورت کی طرح ناہموار اور دور تک پھیلے ہوئے کھیتوں کے غیر مسطح بدن پر چھوٹے چھوٹے پستان نما چند میدانی ٹیلے گویا آسمان نے میخ ٹھونک دیا ہے اور وہیں پر واقع ایک خاموش و ملول تالاب جو کئی غیر مرئی مقدس گناہوں کی تعمیل و تکمیل اور تطہیر و تدفین کا مبہم استعارہ تھا۔
وہ وہیں پر کھڑا چاروں طرف نظر دوڑانے لگا۔ چہار جانب دور دور تک صرف گندم کی فصلیں تھیں اور کہیں کہیں ایک دو کھیت میں ارہر کی بوائی ہوئی تھی۔ پوری فضا پر گیہواں رنگ چھایا ہوا تھا اور ارہر کے چھوٹے چھوٹے سبزپتوں کی موجودگی یوں معلوم ہورہی تھی کہ جیسے فلک نے زمین کے اس گیہواں بدن پر ہری اوڑھنی اچھال دی ہے۔۔۔ گیہواں بدن۔۔۔ جس کی کشش کا اسے پہلے کوئی ادراک نہیں تھا، جس کے نشیب و فراز جسم کے کسی حصے میں کوئی ارتعاش پیدا نہیں کر رہے تھے، اب اسے خیال آتا ہے کہ شاید وہ بدن نہیں تھا جمالیات کا سرچشمہ تھا۔وہ ارہر کی طرف مڑنے والی گذرگاہ پر چل پڑا۔ یادوں کی راہ گذر پر لمحوں کی بانسری بجاتا ہوا۔ پگڈنڈی سکڑ گئی تھی، دو لوگ ایک ساتھ نہیں چل سکتے تھے۔
’’اکیلے جا رہے ہو؟ پگڈنڈیاں سکڑ گئی ہیں؟ دو لوگ ایک ساتھ نہیں چل سکتے؟‘‘
خلاء سے کوئی صندلی آواز آئی۔ یہ آواز نہیں تھی، بےبسی کا استعارہ تھا، یہ شکایت نہیں ایک طنز تھا زیست کے گوشوارے پر فسردہ کن، مضمحل، مضطرب، جاں سوز۔ دو چار گام آگے بڑھا، وہ محسوس کر رہا تھا کہ ہر گام کے ساتھ آہٹ تیز ہوتی جا رہی ہے، پگڈنڈی کے دونوں طرف خودرو گھاس پابہ زنجیر ہو گئی ہے۔اسے خیال آیا سردیوں کے موسم میں گھاس پر جمی شبنم کی چھتوں کے چھینٹے اڑاتے ہوئے ننگے پاؤں دور چلے جایا کرتے تھے ۔ ۔۔۔۔۔
اب گھر میں کوئی نہیں تھا۔ ماں کی کوئی شبیہ اس کے ذہن میں نہیں تھی، باپ نے صرف اتنا بتایا تھا کہ وہ کوئی پری لے کر آرہی تھی کہ عزازیل نے دھکا مار دیا۔ سوتیلی ماں تھی جو اپنی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ دن بہ دن جوان ہو رہی تھی اور باپ تھا جس پرمرض، نقاہت اور پیری کا پیرہن دن بہ دن دبیز ہوتا جا رہا تھا
سور ج کے اطراف شفق کا حصار بڑھتا جا رہا تھا۔ اس نے برامدے میں بیٹھے بیٹھے چاروں طرف نظر دوڑائی، سامنے سڑک کے اس پار کویتا کا گھر تھا، برامدے میں کوئی روشنی نہیں تھی، اسے یاد آیا کہ وہاں سرشام ایک لالٹین لٹکا کرتی تھی۔ دھیمی دھیمی زرد روشنی میں ایک سایا دھیمے دھیمے آگے پیچھے گھٹتا بڑھتا رہتا تھا۔ ایک ایک پل گاہ بہت ہی مسرت آگیں اور گاہ بہت ہی اذیت ناک گذر رہا تھا۔وہ اپنے گھر سے نکل آیا اور وہاں برامدے میں جاکر ایک ادھ بنی بوسیدہ کھٹیا پر بیٹھ گیا جہاں سرشام کوئی لالٹین جلا کرتی تھی اور۔۔۔ اور کوئی لالٹین جلایا کرتی تھی اور اسی روشنی میں دو لوگ اپنا اپنا ہوم ورک کر رہے ہوتے تھے۔۔۔
’’تونے کچھ سنا ہے؟ مائی بول رہی تھی کہ امتحان کے بعد ہم لوگ شہر چلے جائیں گے‘‘ اس نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا ’’مائی بول رہی تھی کہ اب ہم شہرمیں ہی رہیں گے‘‘
اس نے دیکھا کہ لالٹین کی روشنی میں اس کا گندمی، بیضوی چہرہ کچھ اور دمک رہاہے۔ شہر جانے کی خوشی میں؟؟؟؟ کیا وہ بھی شہر جانا چاہتی ہے؟
’سنا ہے شہر بہت بڑا ہوتا ہے، وہاں بہت بڑے بڑے میلے لگتے ہیں، تو میلے میں گم ہو گئی تو؟‘
یہ سنتے ہی اسے جھرجھری آ گئی گویا وہ واقعی گم ہو گئی ہے، چہرے پر خوف اور تشویش کی لکیریں رقص کرنے لگیں کیونکہ وہ ایک بار قصبے کے میلے میں غائب ہو چکی تھی اور پہلی بار اشرف کو خوب مار پڑی تھی۔
’میں بھی تیرے ساتھ چلوں گا، لے چلےگی نا؟‘
دونوں کے ہاتھ ورق میں الجھ گئے۔۔۔ کاغذ کے سرے مڑنے لگے۔ مدھم آواز پیدا کرتے ہوئے آہستہ آہستہ جیسے ایک دوسرے کا خیال موڑ رہے ہوں، ایک دریا چڑھ رہا تھا،ایک ندی اتر رہی تھی، پہلی بار کچھ الگ احساس ہوا۔۔۔ اس نے محسوس کیا سروجنی کے بدن سے کوئی خوشبو پھوٹ رہی ہے اور اس کے انگ انگ میں پھیل رہی ہے۔
دوسرے دن جب وہ دونوں سہ پہر کے خاتمے کے وقت اسکول سے واپس آ رہے تھے تو ارہر کے کھیت کے پاس پل بھر کے لئے رکے۔ یہ ان کا معمول تھا، گاؤں اور اسکول کے درمیان ایک پڑاؤ تھا، سستانے کا، تازہ دم ہونے کا، بدمعاش بچوں اور ماسٹروں کو برا بھلا کہنے کا۔
’’چل تالاب پر چلتے ہیں، بہت مہوا گرا ہواہے‘‘ وہ سروجنی کا ہاتھ پکڑ کر ارہر کے کھیت کے اس پار جانے لگا جہاں کھیتوں کی آبپاشی کے لئے کئی ایکڑ پر محیط ایک اوسط سائز کا تالاب واقع تھا۔ بندھ کے اوپر ایک مخصوص فاصلے پر شیشم، جامن، بیری اور مہووا کے پیڑ لگے ہوئے تھے۔۔۔ بڑے بابو کبھی کبھار آتے تھے۔۔۔ اس وقت تالاب تین چوتھائی بھرا ہوا تھا، خودرو آبی پودوں، جل کمیوں، اور کنول نے پانی کی سطح کو مدور شکل میں ڈھانپ لیا تھا۔ چھوٹے بچے ادھر نہیں جاتے تھے، اس نےسن رکھا تھا کہ اس میں مگر مچھ بھی رہتے ہیں۔۔۔سروجنی کچھ دور اس کے ساتھ طوعاً و کرہاً گئی اور جب تالاب پر نظرپڑی تو یوں محسوس ہوا گویابتالاب نہیں مگرمچھ اپنا جبڑا کھولے ہوئے اس کی آمد کا انتظار کر رہا ہے۔ وہ ہاتھ چھڑا کر باہر بھاگ آئی اور گھر کی طرف سرپٹ دوڑنے لگی۔
’’تالاب پر نہیں گئے تھے؟ تالاب ! یاد ہے تم نے مجھے ڈوبنے سے بچایا تھا؟‘‘ خیالات کا تسلسل ٹوٹ گیا، یادوں کے آباد خرابے سے لوٹ آیا۔
امتحان ختم ہوتے ہی خلیق احمد اسے شہر چھوڑ آئے ’’یہ شہرہے، یہ جب اپنے شہریوں کو خود میں ضم کرتا ہے تو ہضم کر لیتا ہے، ڈکار تک نہیں لیتا۔ محنت سے پڑھو اور کوشش کرو کہ اس شہر کا خوراک نہ بنو‘‘ وہ مبہوت کھڑا اپنے باپ کی شکل دیکھ رہا تھا۔ سپاٹ، کرخت، کھردرا۔ لاتعلق۔۔۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس کے باپ نے اچانک اسے شہر کیوں بھیجا تھا۔ شہر تو سروجنی کو جانا تھا۔۔۔ ماموں کے پاس، ہمیشہ ہمیش کے لئے۔۔۔ شروع کے چار سال خلیق احمد نے خیر خبر لی اور پھر اسے وقت کے آتشدان کے حوالے کر دیا۔۔۔ اب وہ راکھ ہو جائے یا کندن اس کے جینے کی آرزو پر منحصر ہے، خاک یا کیمیا ہونا اس کی جہد مسلسل کا ماحصل ہے۔
خلیق احمد خان قرب و جوارکے سب سے بڑےمہتو تھے، طویل قامت۔ وجیہہ اور تعلیم یافتہ، یہ گاؤں ان کے آبا واجداد کا بسایا ہوا تھا، یوں تو ضرورت پڑنے پر مزدوروں کی کمی نہیں تھی لیکن ایک وفادار ہرواہ رکھنے کی خاندانی روایت تھی۔ دلارے خاندانی ہرواہوں کی آخری کڑی تھا، قد کاٹھ اور شکل و شباہت میں ان سے کچھ ملتا جلتا تھا۔ دلارے کو ان کے والد نے چار کمروں پر مشتمل ایک کوٹھری بنواکر دی تھی۔ کویتا جب بیاہ کر آئی تو دیکھنے والوں کی آنکھیں نکل پڑیں۔ کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایک چمائن بھی زہرہ جبین ہو سکتی ہے۔ ایک گُڑیت بھی لالہ عذار ہو سکتی ہے!!!!
سروجنی کوئی چار سال کی رہی ہوگی۔ دلارے کھیت میں دھا ن کی فصل کٹوا رہا تھا کہ اسے ایک ناگ نے ڈس لیا اور وہ بھگوان کو پیارا ہو گیا، کویتا کی دنیا ختم ہو گئی، جوانی میں بیوہ ہونے سے زیادہ سنگین جرم اور کیا ہو سکتا تھا۔ اسے یہ خوف بھی لاحق تھا کہ اگر ’بڑے بابو‘ نے گھر خالی کروا لیا تو کیا ہوگا۔ وہ یہ جانتی تھی کہ خلیق صاحب دن بہ دن ’چھوٹی بیگم‘ کے بس میں ہوتے جا رہے ہیں۔ خلیق صاحب یہ بات جانتے تھے کہ انہوں نے کئی دنوں سے کویتا کی خبر نہیں لی ہے اور کویتا دلارے کی فوتیدگی شدت سے محسوس کرنے لگی ہے۔ رات کے کسی پہر وہ کویتا کی خبر لینے گئے اور ایک لمبا دلاسا دے کر آگئے۔سب کچھ نارمل ہو گیا۔۔۔ وقت، حالات، موسم اور ان سے وابستہ خوشگوار نزاکتیں۔
برامدے میں رفتگاں کے پری خانے میں ایک اور گھنگھرو بجا، وہ چار سال پیچھے لوٹ گیا جب بارہویں کا امتحان نمایاں نمبرات سے پاس ہونے کی خوش خبری دینے کے لئے آیا تھا۔ خوش خبری دینا تو ایک بہانہ تھا، دراصل وہ سروجنی سے ملنا چاہ رہا تھا جو ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ سروجنی رگ رگ میں تھی، نس نس میں تھی، کہیں خیال و خواب کے مانند اور کبھی سراب و واہمے کی صورت یہ آہو لہو میں ناچ رہی تھی۔ سروجنی! کون تھی؟
ایک چمائن کی بیٹی؟ دلارے کی دلاری؟ ایک عشق زادے کی بانسری؟ ایک گڑیت کی آفت جاں یا خان صاحبوں کی ملفوف محبت کا مظہر؟ سروجنی ایک راز تھی، یخ بستہ و سربستہ، سروجنی چھ اشعار کی ایک غزل تھی۔ تہہ دار و طرح دار۔
اشرف کی اچانک آمد خلیق صاحب کو پسند نہیں آئی۔ سوتیلی ماں سے تعلقات بس رسمی سے تھے۔ کویتا کے گھر ماں بیٹی نے استقبال کیا، کاکی قدموں میں بچھی جا رہی تھی، بیٹی سگیان ہو چکی تھی، کچھ محتاط، محجوب، اور شرمیلی۔ دوپٹے نے دونوں شعلہ فشاں ’بالیوں‘ کو قاعدے سے ڈھانپ رکھا تھا، یہ حسن اور جوانی دونوں کا تقاضا تھا، اس نے چار برسوں کا گوشوارہ پیش کیا، شہر کی زندگی کے حالات، بےحس، بےروح، خالص مشینی۔ اپنے مشاہدات، مساعی اور محرومیاں۔ کویتا ہمہ تن گوش تھی گویا وہ کوئی کویتا سن رہی ہے’’بابو تیں کتنا سنر ہوئیگے ہس، کتنا بڑھیا بولت ہس‘‘ ( بابو تو کتنا سندر ہو گیا ہے، کتنا اچھا بولتا ہے)۔ اس نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے رگ رگ میں دوڑنے والی آہو باہر نکل پڑے۔
’’چل باہر چلتے ہیں، تالاب کی طرف‘‘ اس نے سروجنی کو مخاطب کرتے ہوئے کاکی کی طرف دیکھا۔ کویتا کچھ سمجھ نہیں پائی کہ وہ اجازت لے رہا تھا یا مطلع کر رہا تھا، وہ عجیب کشمکش میں پڑ گئی، ہاں ناں کہتے ہوئے کچھ بن نہیں پڑ رہا تھا۔ سروجنی اپنی ماں کی طرف دیکھنے لگی۔ اشرف نے واپس کہا’’ کاکی ہم لوگ بس گئے اور آئے‘‘ کویتا نے قدرے ٹھہر کر کہا ’’اب تم لوگ بچے نہیں رہ گئے‘‘ اس نے بین السطور پڑھ لیا اس لئے ماحول کو بوجھل ہونے سے بچانے کے لئے مذاقاً کہا ’’کاکی تالاب کی طرف بچے نہیں جاتے‘‘
وہ دونوں گھر سے تالاب کی طرف نکل پڑے، اب قدموں میں بےخودی نہیں تھی، رویے میں لاابالی پن نہیں تھا، ایک ٹھہراؤ تھا، فضا خاموش اور بوجھل تھی۔ پگڈنڈی قدم بہ قدم سکڑ رہی تھی۔ بالآخر وہ کھیت آگیا جس نے ان گنت پڑاؤ دیکھے تھے اور وہ گذرگاہ بھی جو ایک رمیدہ آہو کے پلٹنے کے انتظار میں تھی۔ تالاب کی اور لے جانے والی گذرگاہ پر قدم رکھتے ہی پہلی بار سروجنی شکایتی لہجے میں گویا ہوئی’’پگڈنڈیاں سکڑتی جا رہی ہیں، دو لوگ ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘‘ کھیت چوڑے ہو گئے تھے اور پگڈنڈیاں پتلی۔وہ کھیت میں اتر گئی۔ دونوں ایک بوڑھے شیشم کے پیڑ کے نیچے دوب پر بیٹھ گئے۔’کھڑی دُپہریا‘ بیٹھنے والی تھی، پوروا چل رہی تھی، مسام سے خوشبوئیں پھوٹ رہی تھیں۔ تالاب تقریباً سوکھ چکا تھا، کنول غائب ہو گئے تھے، جل کمیاں دھوپ کی شدت سے جل بجھ رہی تھیں ساتھ ہی اشرف کا دل بھی ۔ اس کا سکوت، جھجھک اور درون خانہ کشمکش سروجنی کو عجیب مخمصے میں ڈالے ہوئے تھے، وہ یوں بیٹھی ہوئی تھی جیسے تغارچے میں پڑی مٹی کوزہ گر کے انتظار میں سوکھ رہی ہے۔ کوزہ گر نے خیال کو لفظوں کے پیکر میں ڈھالنا شروع کیا ’’تجھ سے اب اور دور نہیں رہا جاتا، مجھے نہیں معلوم تو کیا سوچتی ہےلیکن میں ہر پل تجھے ہی سوچتا ہوں‘‘ سروجنی کی غزال سی آنکھوں میں گرم وحشت لو دینے لگی، ایک قطرے نے صدیوں کی داستان بیان کر دی ’’مجھے ہر چیز میں تمہاری عادت پڑ گئی تھی‘‘۔
’’میں تجھ سے شادی کرنا چاہتا ہوں‘‘
’’میں ایک چمائن کی بیٹی ہوں‘‘
’’مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘
’’بڑے بابو کو پڑتا ہے‘‘
’’بڑے بابو نے تم لوگوں کو کبھی چما ر نہیں سمجھا‘‘
’’یہی تو دکھ ہے کہ ہمیں چمار نہیں سمجھا گیا‘‘
’’اس گاؤں کے دکھن ٹولے میں ایک پوری چمروٹی ہے لیکن یہ اختیار کسی اور کو نہیں ملا‘‘
’’ اور وہ چمروٹی ہمیں اپنا نہیں سمجھتی‘‘
اشرف بات بڑھانا نہیں چاہ رہا تھا سو اس نے رخ موڑدیا ’’تجھے مجھ سے زیادہ کوئی خوش نہیں رکھ سکتا اور تیرے بغیر میں کبھی خوش نہیں رہ سکتا‘‘
’’ہم چمائن، پیدائشی ابھاگن ہیں، مقدر کی اتنی دھنی نہیں ہو سکتیں، جدھر ناتھ دیا، ادھر چل پڑے‘‘
دونوں ہاتھ کی ریکھاؤں میں مقدر کھوجتے ہوئے دور نکل گئے۔ چشم نم سے نکلنے والے دو گرم قطروں کو پوچھتے ہوئے ہاتھ لب لعلیں سے گذرتے ہوئے پستانوں پر آکر ٹھہر گئے۔ مسام جاں سے پھوٹنے والی خوشبو نے کچھ یوں مدہوش کیا کہ بند قبا کھلنے پر ہوش آیا۔ بروقت، برمحل۔
صبح اس نے دالان میں خلیق صاحب کوگاؤں کے کچھ مقدمات نمٹاتے ہوئے دیکھا سو وہ بھی پاس میں جاکر بیٹھ گیا۔ جب وہ لوگ چلے گئے تو اس نے ہمت کرکے سروجنی کے تعلق سے بات کرنے کی کوشش کی۔
’’ابو سروجنی کے بارے میں آپ کا خیال ہے‘‘
ٹھیک خیال ہے،پڑھ رہی ہے، بہت سمجھدار ہے۔ وہ بے خیالی میں بولتے گئے، پھر اچانک سے کچھ خیال آیا
تم کہنا کیا چاہتے ہو؟
’’میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں‘‘
تمہاری کیا عمر ہے
’’اٹھارہ ‘‘
’’تمہیں اور آگے نہیں پڑھنا ہے؟‘‘
’’پڑھنا ہے‘‘
’’پہلے پڑھائی مکمل کرلو‘‘
خلیق صاحب جہاندیدہ آدمی تھے، انہوں نے کوئی منظر منقش کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ یہ جانتے تھے کہ یہ چند دنوں کا نشہ ہے جلد اتر جائےگا۔ انہیں خبر نہیں تھی کہ سروجنی سجنی ہو گئی ہے۔ رگ جاں میں اتر گئی ہے۔ وہ پانی پر دوڑ رہا تھا اور چھینٹے نہیں اڑ رہے تھے۔ بہر حال اشرف نے ان کے پورے وجود کو جھنجھوڑ دیا تھا۔ اطمینان قلب چاہتے تھے اور یہ کویتا عطا نہیں کر سکی ’بڑے بابو! مجھے نہیں معلوم، ہل تو آپ نے بھی چلایا تھا، آپ ہی طے کرو‘۔
کوئی ہاتھ اس نے اپنے شانوں پر محسوس کیا، خواب سے بیدار ہو گیا۔ سامنے اس کا باپ کھڑا تھا جو غالباً مسلسل طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے نحیف اور لاغر ہو گیا تھا۔ گال اندر کو دھنسے جا رہے تھے اور آنکھیں اسی تناسب سے باہر نکلی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔ چہرے پر ایک پر اسرار مسکراہٹ تھی جیسے کوئی ویران حویلی میں آباد آسیب اپنے غیرآباد مکینوں کا استقبال کر رہا ہو۔
’’یہاں کیوں بیٹھے ہو، یہاں اب کوئی لالٹین نہیں جلےگی‘‘
شام بتدریج شب دیجور میں ڈھل رہی تھی۔ خلیق صاحب نے سکوت کو توڑا۔
۔۔۔میں نے تمہیں اس لئے بلایا ہے کہ میرے پاس اب گنے چنے دن بچے ہیں۔ تمہیں کھیت پر اس لئے بھیجتا تھا تاکہ تم گاؤں کے اوباش بچوں کی صحبت سے دور رہو اور اس مٹی کی بو باس بدن کے ایک ایک پور میں سرایت کر جائے۔ تمہاری پرورش کو لے کر میں مطمئن تھا کہ ایک دن کویتا نے کچھ دیکھ لیا، پھر میں نے طئے کیا کہ اس سے قبل کہ تم میری خاندانی عزت و شرافت کا جنازہ نکال دوتمہیں شہر بھیج دینا مناسب رہےگا۔ تمہاری رپورٹ اطمیان بخش تھی، پھر تم ایک دن اچانک گاؤں آ گئے، اور سروجنی سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کر بیٹھے، میرے حواس معطل ہو گئے، میں نے فوری طور پر کوئی مزاحمت نہیں کی۔ طوفان کو خوش فہمیوں کے حوالے کر دیا تم خوش خوش شہر چلے گئے۔ طوفان شانت ہو گیا۔۔۔
اب تم انجینئر ہو گئے ہو، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ تم شادی کر لو اور آبا واجداد کی وراثت سنبھالو تاکہ میں اطمینان سے مر سکوں۔۔۔ میں نے تمہارا رشتہ نزہت سے طے کر دیا ہے۔
اشرف کے ہوش اڑ گئے ’’نزہت؟ مگر وہ تو میری بہن ہے‘‘
’’نہیں! وہ نہیں ہے‘‘
’’سروجنی کہاں ہے؟‘‘
سروجنی گریجویشن تک اپنی ماں کے ساتھ یہیں تھی۔ کسی قدیم تاریخی مسجد کی مسماری کے بعد حالات پورے ملک میں کشیدہ ہو گئے، یہاں بھی تھے، خون خرابے کی خبریں آئے دن ریڈیو پر نشر ہو رہی تھیں، ہر طرف انسان نہیں مذہبی جنون گھوم رہے تھے۔ اس دن سروجنی مجھے لے کر ڈاکٹر کے پاس گئی تھی معمول کے چیک اپ کے لئے۔ کسی ایک خارجی مولوی کی قیادت میں کچھ مذہبی انتہاپسندوں نے اس کے گھر پر دھاوا بول دیا، وہ ہندوؤں سے انتقام لینا چاہتے تھے، شکل کوئی بھی ہو، وہ کویتا کو دھمکی دے کر چلے گئے، کویتا اس صدمے کو برداشت نہیں کر سکی۔۔۔ ایک معقول رشتہ تلاش کرکے فوراً سروجنی کے ہاتھ پیلے کر دیئے۔۔۔ ایک بات اور۔۔۔ میں نے تمہارا کوئی بھی خط سروجنی تک پہنچنے نہیں دیا۔۔۔
اسے ایک ایک لفظ جھوٹ معلوم ہوا، قوت سماعت مفقود ہوتی گئی، کویتا کی موت اور سروجنی کی شادی دونوں قیامت خیز سانحے تھے۔ قیامت آکر گذر گئی تھی۔۔۔
وہ جبراً سن رہا تھا، برسوں بعد اس کا باپ اسے کچھ سنا رہا تھا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ سروجنی نے شادی کرلی ہے، اسے یقین تھا کہ سروجنی شادی نہیں کرےگی حالانکہ اس نے ایسا کوئی عہدو پیمان نہیں کیا تھا پھر بھی اسے یقین تھا۔
اشرف نے ہمت مجتمع کرتے ہوئے کہا گویا چراغ بجھنے سے پہلے پھڑپھڑا رہا ہے ’’میں سروجنی سے ملنا چاہتا ہوں‘‘
’’اطمیان رکھو! جہا ں بھی ہے وہ بہت خوش ہے‘‘
’’کیا وہ زندہ ہے؟‘‘ اپنے باپ سے اس نے کبھی بحث نہیں کی تھی، حالات، تعلیم، تجربے، مشاہدے اور دربدری کی بھٹی نے اسے میچور اور سنجیدہ بنا دیا تھا
’’ہاں! مگر تمہارے لئے مر چکی ہے‘‘
’’یہ میں طئے کروں گا‘‘
’’اب وہ تمہارے اختیار میں نہیں‘‘
مجھے معلوم پڑا تھا کہ تم بہت ضدی ہو گئے ہو اسی لئے میں نے سروجنی کو یہاں سے بہت دور بھیج دیا ہے اس حلف کے ساتھ کہ وہ یہاں کبھی نہیں آئےگی۔
’’کیا میں تمہارے لئے اب مر چکی ہوں، تم کچھ بتاتے کیوں نہیں، تم آتے کیوں نہیں، کسی خط کا کوئی جواب کیوں نہیں دیتے۔۔۔‘‘
یہ تمہارا آخری خط تھا جو مجھے موصول ہوا، اس کے بعد میں نے درجنوں خطوط تم کو لکھے مگر کسی خط کا کوئی جواب نہیں آیا، کیا میں تمہارے لئے مر چکا ہوں، کچھ بولتی کیوں نہیں، کسی خط کا کوئی جواب کیوں نہیں دیتیں۔۔۔
خلیق صاحب کو لیوکیمیا ہو گیا تھا، وہ کچھ ہی دن میں وفات پا گئے۔ سروجنی کو کئی دن بعد نزہت کا ایک خط ملا۔
گاؤں میں اس کا بیشتر وقت تالاب کے کنارے جامنی سائے کے نیچے گزرتا تھا۔
’’گیہوں کی بالیاں اب کتنی بڑی ہونے لگی ہیں؟‘‘
ہواؤں کے خواب آگیں شور میں اسے ایک آواز سنائی دی، جانی پہچانی سی، اس نے گردن گھماکر دیکھا وہی خوش خرام آ رہی تھی۔ کچھ دور پیچھے نزہت کا ہیولیٰ بھی تعاقب کئے ہوئے تھا۔
’پگڈنڈیاں ہماری اب بھی بڑی ہیں دو لوگ ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔‘ اس نے خودکلامی کی۔
’’ کیا کر رہے ہو؟‘‘
’ تمہیں خراج پیش کر رہا تھا‘
تب تک نزہت بھی پہنچ گئی۔ کھیت کھلیان، تالاب اور باغات کی باتیں ہونے لگیں۔
سروجنی دو تین دن کے لئے آئی ہوئی تھی، بیشتر اوقات نزہت کے ساتھ رہتی، اشرف نے محسوس کیا کہ وہ قصداً اس سے اعراض کر رہی ہے۔
وہ سروجنی کو اسٹیشن پر چھوڑنے گیا تھا۔ پہلی بار سروجنی اسے مکمل ملی تھی۔
’’چل بھاگ چلتے ہیں، ابھی بھی کوئی دیر نہیں ہوئی ہے‘‘
’’اب بہت دیر ہو چکی ہے‘‘ گاڑی سیٹی بجا کر رینگنے لگی۔ وہ اپنی اصل میں دور ہوتی جا رہی تھی اور تخیل میں بہت پاس۔۔۔ بہت پاس ہوتی جا رہی تھی۔۔۔
جب وہ شکتہ حال گھر پہنچا تو تکئیے کے نیچے ایک خط پڑا ہوا تھا۔
’’جو بالیاں تمہیں عزیز تھیں وہ نہیں دے سکتی، یہ صدیوں کی ریت ہے، کسی اور کے گناہوں کا کفارہ کسی اور نے ادا کیا ہے‘‘ (سروجنی)
مصنف:محمد ہاشم خان