میں چار بجے کی گاڑی سے گھر واپس آ رہا تھا۔ دس بجے کی گاڑی سے ایک جگہ گیا تھا اور چونکہ اسی روز واپس آنا تھا لہٰذا میرے پاس اسباب وغیرہ کچھ نہ تھا۔ صرف ایک اسٹیشن رہ گیا تھا۔ گاڑی رکی تو میں نے دیکھا کہ ایک صاحب سیکنڈ کلاس کے ڈبے سے اترے۔ ان کا قد بلا مبالغہ چھ فٹ تھا۔ بڑی بڑی مونچھیں رعب دار چہرے پر ہوا سے ہل رہی تھیں۔ نیکر اور قمیص پہنے ہوئے پورے پہلوان معلوم ہوتے تھے۔ یہ کسی کا انتظار کر رہے تھے۔ دور سے انہوں نے ایک آدمی کو۔۔۔ جو کہ غالباً ان کا نوکر تھا، دیکھا۔ چشم زون میں ان کا چہرہ غضب ناک ہو گیا۔ میں برابر والے ڈیوڑھے درجے میں بیٹھا تھا۔ ایک صاحب نے ان خوفناک جوان کو دیکھا اور آپ ہی آپ کہا، ’’یہ خونی معلوم ہوتا ہے۔‘‘ میں نے ان کی طرف دیکھا اور پھر ان خوفناک حضرت کے غضب ناک چہرے کو دیکھا اور دل ہی دل میں ان کی رائے سے اتفاق کیا۔
آپ یقین کریں کہ ان کی آنکھیں شعلہ کی مانند تھیں اور نوکر کے آتے ہی اس زور سے انہوں نے اس کو ایک قدم آگے بڑھا کر ڈپٹا کہ وہ ڈر کر ایک دم سے پیچھے ہٹا اور گارڈ صاحب سے جو اس کے بالکل ہی قریب تھے لڑتے لڑتے بچا۔ گارڈ صاحب سیٹی بجانا ملتوی کر کے ایک طرف کو ہو گئے۔ انہوں نے ایک نگاہ التفات ملازم پر ڈالی اور پھر ان حضرت کی طرف دیکھا۔ دونوں مسکرائے۔ گاڑی چل دی۔
(۱)
گاڑی اسٹیشن پر رکی اور میں اترا۔ یہ حضرت بھی اترے۔ آپ یقین مانیں کہ میں سمجھا کہ مجھے کوئی بلا لپٹ گئی جب انہوں نے ایک دم سے مجھے ’’ہاؤ‘‘ کر کے چپٹا لیا۔ دراصل انہوں نے کہا تھا، ’’تم کہاں۔‘‘ اگر ان کی توند کچھ نرم نہ ہوتی تو شاہد میری ایک آدھ پسلی ضرور شکست ہو جاتی۔ چھوٹتے ہی ہاتھ پکڑ لیا اور ہنس کر کہا، ’’اب تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔‘‘
یہاں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مجھ کو فضول گوئی سے جتنی نفرت تھی۔ (اب نہیں ہے) اتنی کسی چیز سے نہ تھی۔ دیکھتا تھا کہ لوگ باتیں کر رہے ہیں۔ خواہ مخواہ ایک دوسرے کی بات کاٹ رہا ہے اور ہر شخص کی یہ کوشش ہے کہ دم بخود ہو کر میری ہی بات پر سب کان دھریں۔ بسا اوقات میری غیر معمولی خاموشی پر اعتراض ہوتا۔ مجھ سے شکایت کی جاتی کہ میں باتوں میں دلچسپی نہیں لے رہا۔ میں کوئی جواب نہ دیتا اور دل میں چچا سعدی کے اشعار پڑھنے لگتا،
چور کار بےفضول من بر آید
مراد روئے سخن گفتن نہ شاید
دگر بینم کہ نابینا و چاہ است
اگر خاموش نشینم گناہ است
ایسی صورت میں کہ میراشعار یہ ہو، جب انہوں نے مجھ پکڑ کر کہا، ’’اب تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ تو ممکن تھا میں خاموشی سے کام لیتا۔ لیکن یہاں تو بغیر بولے کام نہ چل سکتا تھا۔ مگر قبل اس کے کہ میں کہوں کہ حضرت آپ کون صاحب ہیں اور مجھ کو کیوں پکڑا ہے اور آخر مجھ کو کیوں نہ چھوڑیں گے اور کیسے نہ چھوڑیں گے۔ انہوں نے بغیر میرا جواب یا میری بات سنے ہوئے سلسلہ کلام جاری رکھا، ’’تم بہت دنوں بعد ملے ہو۔۔۔ کہاں تھے۔۔۔ کیسے ہو۔۔۔ والد صاحب تو بخیریت ہیں۔۔۔ اور لوگ کہاں ہیں۔۔۔؟‘‘ ابے نالائق۔۔۔ نامعقول۔۔۔ یہ دیکھ۔۔۔ یہ دیکھ! آنکھیں کھول۔۔۔ ارے آنکھیں کھول کر۔‘‘
ملازم پر کھڑے دانت پیس رہے تھے۔ میرا شبہ کہ مجھے تو نہیں کہہ رہے ہیں زائل ہو چکا تھا۔ دراصل نہ انہیں میرے جوابات کی ضرورت تھی اور نہ مجھ میں ہمت۔ بعض واقعی حاضر جواب ہوتے ہیں، کاش میں بھی ایسا ہی ہوتا تو شاید ان کو سوالات کے جواب دے کر مزے سے بیٹھا ہوا گھر کی طر ف جا رہا ہوتا۔ میں اب ذرا اپنے آپ کو سنبھال کر ان کی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے الفاظ ڈھونڈ رہا تھا اور اس میں مجھے کامیابی ہوتی بھی معلوم ہوتی تھی، کیونکہ ’’معاف کیجئےگا میں نے پہچانا نہیں۔‘‘ تو نہایت مناسب الفاظ تھے جو مجھ کو مل گئے تھے اور میں نے کہنا شروع کیا، ’’معاف کیجئےگا۔۔۔‘‘
مگر انہوں نے بات کاٹ کر فوراً کہا، ’’جی نہیں۔۔۔ یہ ناممکن ہے۔‘‘ اور پھر اسی سلسلے میں کہا، ’’اسباب نہیں ہے؟‘‘ اور بغیر جواب کا انتظار کیے ہوئے پھر خود ہی انہوں نے کہا، ’’شائد دن بھر کے لیے آئے ہو گے۔ خیر کوئی ہرج نہیں، اب دو تین دن تمہیں نہ چھوڑوں گا۔‘‘ ایک قہقہہ لگایا اور بڑے زور سے کہا، ’’میں نہیں چھوڑوں گا۔ نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘ میں نے دل میں سوچا کہ بھاگوں۔۔۔ ہاتھ چھڑا کر۔ مگر اول تو میری پتلی کلائی گویا پنجہ آہنی میں تھی اور پھر اسٹیشن کی بھیڑ۔ یہ خیال خام تھا۔
(۲)
میرا ہاتھ پکڑے مجھ کو لے جا کر انہوں نے اپنے ساتھ گاڑی پر بٹھایا۔ گاڑی پر بیٹھتے وقت میں ذرا رکا کہ کہوں، ’’جناب آپ مجھ کو کیوں اور کہاں لے جاتے ہیں؟‘‘ میں نے ذرا گلا صاف کر کے کہنا چاہا کہ انہوں نے گویا جبراً ہاتھ پکڑ کر گاڑی میں بٹھا دیا اور خود بھی بیٹھ گئے اور بیٹھتے بیٹھتے کہا، ’’میں تمہیں نہیں جانے دوں گا۔ والد صاحب تو بخیریت ہیں؟‘‘ میں نے کہا، ’’بخیریت ہیں اور۔۔۔‘‘ وہ بات کاٹ کر بول اٹھے، ’’اور سب؟‘‘ اور پھر کہا، ’’سب اچھی طرح ہیں؟‘‘ ارے میاں یہ کیا واہیات ہے، سنا ہے کہ تمہارے والد نے ایک اور شادی کر لی۔ یہ خبر کہاں تک صحیح ہے؟‘‘
’’الہٰی خیر۔‘‘ میں نے دل میں کہا کیونکہ میری والدہ صاحبہ عرصہ ہوا مر چکی تھیں، لیکن پھر بھی بحمد للہ دو والدائیں موجود تھیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ والد صاحب قبلہ کی آبادی پسند طبیعت نے۔ یا پھر مجھی حال زار پر رحم کرتے ہوئے دو مائیں نزول شفقت مادرانہ کے لیے ناکافی سمجھتے ہوئے ایک کا اور اضافہ فرمایا ہو!
حضرت کو شاید میں نے پہچانا نہیں اور ان کی تمام جارحانہ کاروائی حق بجانب تو نہیں؟ آخر کیوں نہ معذرت کر کے دریافت کروں اور آئندہ کے لیے تعارف کر لوں؟ مگر میری کم گوئی (اب تو باتونی ہوں) اور سوالات کرنے سے بچنے کی عادت۔۔۔ ( بحمد للہ اب تو فورا سوال کرتا ہوں۔۔۔) کا خدا بھلا کرے کہ یہ مجھ میں کمزوری تھی۔ میں نے فوراً محسوس کیا کہ یہ تو عجیب بات ہے۔ دست تاسف ملتا تھا اور کچھ کہنا چاہتا تھا مگر یا تو بولا ہی نہ جاتا اور اگر ہمت کر کے بولنے کو ہوتا تو فوراً ہی وہ سوال کر دیتے۔
میں یہی کہتا رہا کہ اب ان سے معاملہ صاف کروں اور اب پوچھوں کہ گاڑی ایک کوٹھی میں داخل ہو گئی۔ مجھے بہانہ ملا اور سوچا کہ اب اطمینان سے ان سے معذرت کروں گا کہ حضرت میں نے آپ کو نہیں پہچانا۔ گاڑی باغ میں داخل ہوئی اور یہ حضرت بولے، ’’پچھلی مرتبہ جو تم آئے تھے تو تم نے وہ انگور کی بیل نہ دیکھی ہوگی۔ اس کی جڑ میں تین بندروں کے سرگڑوائے ہیں۔‘‘ میں بھلا اس کا کیا جواب دیتا۔ کیونکہ عمر میں پہلی مرتبہ یہاں آیا اور وہ بھی پکڑا ہوا مگر زبان سے لفظ ’’بندر‘‘ نکل گیا۔
انہوں نے کچھ فخریہ لہجے میں شاید اسی نیت سے کہا کہ میں ان سے تعجب سے پوچھوں کہ صاحب بندروں نے کیا خطا کی جو ان کے سر کے ساتھ یہ چنگیزی کارروائی کی گئی۔۔۔ اور جب وہ کچھ مناسب وجوہ پیش کریں تو ان کی معلومات پر دنگ رہ جاؤں۔ شاید انہوں نے اسی خیال سے کہا، ’’جی ہاں بندر! بندروں کے سر۔‘‘ مگر میری خاموشی سے ان کی امید منقطع ہو گئی۔ تو وہ خود ہی بولے، ’’آپ کو نہیں معلوم۔۔۔ میں دراصل فن باغبانی پر ایک کتاب لکھ رہا ہوں۔ بات یہ ہے کہ بندر کے سر کی کھاد انگور کے لیے لاجواب ہے۔‘‘ میں بھلا کیا کہتا۔ دل میں سوچ رہا تھا کہ آئندہ انگور اگر ملیں تو کھاؤں یا نہ کھاؤں۔ باغبانی کا تذکرہ چھوڑ کر انہوں نے کہا، ’’وہ دیکھو وہ پرسی کی قبر ہے۔‘‘ انگلی اٹھا کر انہوں نے ایک چوکھونٹے چبوترے کی طرف مجھے دکھا دیا۔
انگریزوں کی قبریں میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ کوئی نئی بات نہ تھی۔ پر سی! ہاں اس نام سے بھی واقف تھا۔ جو بھی اخبار پڑھتے رہے ہیں وہ سر پرسی کا کس ہائی کمشنر عراق کے نام اور ان کے تدبر اور پالیسی سے واقف ہیں۔ مگر یہاں ان کی قبر کیسی؟ ان کے کوئی عزیز ہوں گے۔ میں نے بجائے سوال کرنے کے حسب عادت دل میں یہ کہہ کر اطمینان کر لیا۔ ہم برآمد ے کے پاس پہنچ رہے تھے۔ گاڑی بالکل آہستہ آہستہ چل رہی تھی، وہ اسی طرح بولے، ’’مجھے پرسی کے مرنے کا بہت افسوس ہوا اور ایک روز میں نے کھانا نہیں کھایا۔‘‘
مجھے قطعی یقین ہو گیا کہ ان کی مسٹر پرسی سے دوستی ہوگی۔ اتنے میں، میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا کتا دوڑتا ہوا گاڑی کے پاس پہنچا۔ بنگلہ ابھی بہت دور تھا مگر یہ مالک کے استقبال کو آیا تھا۔ میں غور سے دیکھ رہا تھا کہ یہ کٹ کھنا کہاں تک ہو سکتا ہے کہ وہ بولے، ’’یہ دیکھئے یہ غریب رہ گیا اور پرسی مر گئی۔ بڑی لا جواب کتیا تھی۔‘‘ ادھر میں متعجب تھا اور ادھر وہ تعریف کے لہجہ میں کہنے لگے، ’’آ پ یہ خیال کیجئے کہ اتنی سی کتیا تھی مگر اکیلی بلی کو مار ڈالتی تھی اور پھر تعریف ایک اور بھی تھی، وہ یہ کہ اگر کہیں کوئی اجنبی بنگلے کے احاطہ میں نظر پڑ جائے تو بس اس کی خبر ہی تو لے ڈالتی تھی۔‘‘
میں چوکنا ہوا۔ دل میں، میں نے کہا کہ اچھا ہو اکہ پرسی مر گئی اور آج نہ ہوئی۔ پھر غور کیا کہ یہ کتا بھی تو اسی کے ساتھ ہے! میں جناب کتوں سے بہت ڈرتا ہوں اور بالخصوص ان نالائق کتوں سے جو حالانکہ کٹ کھنے نہ ہوں مگر دوڑ پڑتے ہیں اور تمام ہوش و حواس زائل کر کے اکثر گرا دیتے ہیں۔ میں نے پرسی کی قبر کی طرف اطمینان سے نظر ڈالی اور پھر اس کتے کو یعنی پرسی مرحومہ کے شوہر کو دیکھا۔ اتنے میں گاڑی برآمدے سے آ کر لگی اور میں نے دیکھا کہ ایک خوف ناک بل ڈاگ انگڑائی لے کر اٹھا۔ اتنے میں ہم دونوں اتر پڑے۔ چھوٹا کتا تو دم ہلا کر مالک کے قدموں میں لوٹ رہا تھا، مگر یہ سنجیدہ بزرگ یعنی بل ڈاگ صاحب میری روح قبض کرنے میں مشغول ہو گئے۔ یعنی برآمدہ سے اتر کر انہوں نے مجھے سونگھا۔ میری سانس رک گئی اور چہرے پر ایسی ہوائیاں اڑنے لگیں کہ انہوں نے محسوس کیا اور مسکرا کر کہا، ’’اجی یہ تو وہی پرانا نامی ہے۔ بس صورت ہی ڈراؤنی ہے۔ کاٹنا تو کمبخت جانتا ہی نہیں۔ بہت کیا اس نے اور بڑی بہادر دکھائی تو بس لپٹ جاتا ہے۔۔۔‘‘ انہوں نے میری سراسیمگی پر ایک قہقہہ لگایا۔ کیونکہ میں پھاند کر گاڑی میں پہنچ چکا تھا۔ ’’لاحول ولاقوة۔ تمہارا کتوں سے ڈرنا نہ گیا۔ یہ تو وہی پرانا نامی ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے مجھے ہاتھ پکڑ کر گاڑی سے اتارا اور مجھے تیزی سے بےتکلف کمرے میں داخل ہونا پڑا۔ خوش قسمتی سے کتوں نے ایک گلہری کو پایا جس کے پیچھے وہ ایسے دوڑے کہ نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ میں اطمینان کا سانس لیا۔
(۳)
پہنچتے ہی انہوں نے آواز دی، ’’کھانا لاؤ۔‘‘ خدا خیر کرے۔ میں نے دل میں کہا کہ یہ کھانے کا کون سا وقت ہے۔ بہت جلد ہاتھ دھوئے گئے، انکار وہ کا ہے کو مانتے، میں نے بھی کہا،
این ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر
کھانے کی میز پر گرم کیا ہوا پلاؤ، شامی کباب، انڈوں کا قورمہ اور دوسرے کھانے تھے۔ میں رکابی کے ایک طرف کے چاول اٹھا کر دوسری طرف رکھ کر ٹیلا سا بنانے میں مشغول ہوا اور انہوں نے تیزی سے چاول کھانا۔۔۔ نہیں میں نے غلط کہا بلکہ پینا شروع کیے۔ شاید وہ چبانا نہ جانتے تھے یا چاولوں کو چبانے کی چیز نہ خیال کرتے تھے، ’’عارف میاں کہاں ہیں؟‘‘ چلا کر ملازم سے انہوں نے کہا کہ ’’ان کو جلدی بلاﺅ۔‘‘ اور میری طرف مسکر اکر کہا، ’’تمہارا بھتیجا تو آیا نہیں۔ نہا رہا ہو گا۔ ورنہ وہ ضرور میرے ساتھ کھانا کھاتا ہے۔‘‘
آپ یقین مانیں کہ میں نے ادھر ادھر بھاگنے کی نیت سے دیکھا۔ بھتیجا! یہ لفظ بھتیجا میرے لیے لفظ شیر سے کم نہ تھا۔ جس کے ایک نہ دو بلکہ سگے سوتیلے ملا کر ساڑھے چودہ بھتیجے ہوں، اس سے پوچھئے کہ ایسی دنیا اچھی یا دوزخ؟ واللہ اعلم گنہگاروں کی ایذارسانی کے لیے وہاں بھتیجے بھی ہوں گے یا نہیں۔ اگر میرے بھتیجے جنت میں گئے تو دوزخ کی زندگی کو بدر جہا پر سکون اور جائے پناہ تصور کروں گا۔ میں یہ کہنے میں مبالغے سے کام نہیں لیتا کیونکہ چودہ پندرہ بھتیجے اور سب ایک جگہ رہتے ہوں تو غریب چچا کا جو حا ل ہوگا اس کا اندازہ خود لگا لیجئے۔ ویسے ہی کیا کم میری جان گھر کے پندرہ بھتیجوں نے مصیبت میں ڈال رکھی تھی جو یہ ایک اور نکلا!!! کوئی خودکشی کرتا تو میں معلوم کرنے کی کوشش کرتا کہ اس کے کتنے بھتیجے ہیں۔ ایک ہو تو ہو ورنہ دو ہونے کی صورت میں مجھ کو خودکشی کرنے کی وجہ معلوم کرنے میں دیر نہیں لگتی تھی۔ لفظ بھتیجا کے کچھ بھی معنی ہوں مگر میری دانست میں ملک الموت یا جہنم کے سیکرٹری کا نام بھی بھتیجا ہونا چاہیے۔ میں اس فلسفے پر غور کررہا تھا کہ وہ بولے، ’’تمہارے کتنے بچے ہیں۔‘‘
میں اس کا کیا جواب دیتا کیونکہ میری شادی ہی نہیں ہوئی ہے لیکن شاید ان کو جواب کی ضرورت ہی نہ تھی، کیونکہ فوراً ہی انہوں نے بغیر میرے جواب کا انتظار کئے ہوئے کہا، ’’تمہاری بیوی کہاں ہیں؟ تمہارے کتنے بچے ہیں؟‘‘ انہوں نے بہت زور دے کر پوچھا،
’’تمہارے بچے ہیں؟‘‘
مجبوراً مجھے واقعہ بیان کرنا پڑا، ’’ایک بھی نہیں۔‘‘
چاول کا بڑا سا لقمہ جو انہوں نے منہ میں رکھا ہی تھا، ’’ارے ‘‘ کے ساتھ نگل کر بولے، ’’ارے۔۔۔ دونوں۔۔۔ دونوں بچارے۔۔۔ یہ آخر کب؟ بھئی بات تو یہ ہے کہ خدا اگر بچے دے تو زندہ رہیں، ورنہ ان کا ہونا اور پھر مر جانا تو۔۔۔ خدا کی پناہ۔۔۔‘‘ وہ شاید مجھ سے ہمدردی کر رہے تھے اور انہوں نے کہا، ’’تمہاری بیوی کا نہ معلوم کیا حال ہوگا۔‘‘
آپ خود خیال کیجئے کہ مجھے بھلا کیا معلوم کہ وہ لڑکی کس حال میں ہو گی جو آئندہ چل کر میری بیوی ہو گی اور میں خود مجبور تھا تو بھلا ان کو کیا بتاتا کہ اس کا کیا حال ہوگا کہ اسی دوران وہ آ گیا! کون! اجی وہی ملک الموت یا جہنم کا سیکرٹری یعنی میرا منہ بولا بھتیجا عارف۔ میں گھبرایا کیونکہ تیر کی طرح ’’پاپا! پاپا!‘‘ کا نعرہ مارتا چلا آ رہا تھا۔ میں سنبھل کر بیٹھا اور مدافعت کی صورتوں اور امکانات پر غور کرنے لگا کہ اس کا رخ بدل گیا۔ وہ اپنے پاپا پر گرا اور تیزی سے وہ بھی پلاؤ پینے میں مشغول ہو گیا۔
والد بزرگوار نے فرزند ارجمند سے کہا، ’’تم نے چچا کو نہ تو سلام کیا اور نہ ٹاٹا کیا۔۔۔ ٹاٹا۔۔۔ ٹاٹا‘‘ کئی مرتبہ پھر تقاضا کیا، ’’سلام کرو، ٹاٹا کرو۔۔۔ سلام کرو‘‘ با الفاظ دیگر مجھ سے تقاضا ہو رہا تھا کہ کہوں کہ ’’زندہ باد‘‘ مگر حضرت مجھ سے یہ ریاکاری ہونا نا ممکن تھی۔ ایک تو ویسے ہی خاموش آدمی (تھا، اب نہیں۔۔۔) اور حتیٰ الامکان بغیر بات چیت کیے کام نکالنا چاہتا تھا اور پھر ویسے بھی بھتیجوں کو دعا دینے کے خلاف۔ یہ نہ خیال کیجئےگا کہ میں خدا نخواستہ چاہتا تھا کہ وہ مر جائیں، اجی ہزار برس زندہ رہیں مگر میری دعا سے بےنیاز رہیں تو بہتر۔
بارہا کے تقاضے سے تنگ آکر آخر بھتیجے صاحب نے میری چھاتی پر مونگ دل ہی ڈالی۔ یعنی اپنا سیدھا ہاتھ جو پلاؤ کے گھی میں تر بتر تھا میرے گھٹنے پر رکھ کر اپنا بایا ہاتھ ٹاٹا کے لیے بڑھا دیا۔ میں دم بخود رہ گیا۔ اپنے صاف پتلون پر چکنائی کا دھبہ دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ کیونکہ میرے پاس یہی ایک اچھا پتلون تھا جو بھتیجوں کی دستبرد سے اب تک نہ معلوم کس طرح محفوظ تھا۔ ادھر تو میں نے چاول گھٹنے پر سے صاف کیے اور ادھر انہوں نے کہا، ’’ہائیں الٹے ہاتھ سے۔‘‘ کاش کہ وہ حضرت بھتیجے صاحب پیشتر ہی ٹاٹا (مصافحہ) کے لیے داہنا ہاتھ بڑھاتے اور بایاں شوق سے میرے گھٹنے کیا گلے پر رکھ لیتے۔ میں نے جبراً و قہراً ہاتھ ملایا اور دل میں کہا، ’’ظالم، تو نے مجھے بے موت مارا۔ میرے پاس ایک ہی پتلون تھا جس کو تو نے یوں خراب کیا۔‘‘
(۴)
میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ جب یہ عزیز از جان بھتیجا یہ کہہ کر کھانا چھوڑ کر ایک دم سے بھاگا۔ ’’بلا بلا۔‘‘ یا تو وہ تیز دوڑتا ہی ہو گا، یا پھر یہ روایت بالکل صحیح ہے کہ لاحول پڑھنے سے شیطان بری طرح بھاگتا ہے۔ میں لاحول پڑھ رہا تھا اور اس کے اثر کا دل ہی دل میں قائل ہو رہا تھا۔
’’آپ نے ہڈی کی تجارت آخر کیوں چھوڑ دی؟‘‘ انہوں نے ایک ہڈی کا گودا نکالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
قارئین ذرا غور کریں کہ ہڈی کی تجارت کو میں چھوڑتا تو تب جب کہ اگر میں نے کبھی یہ تجارت شروع کی ہوتی۔ کہنے کو ہوا کہ کہوں کہ ’’حضرت مجھ کو بھلا ہڈی کی تجارت سے کیا تعلق؟‘‘ مگر توبہ کیجئے وہ اپنے تمام سوالات کا جواب شروع ہی سے خود دے رہے تھے، یا پھر جواب کا بغیر انتظار کیے ہوئے دوسرا سوال کر دیتے تھے۔ مجھے بھلا کوئی زریں موقع کیوں دیتے جو میں خلاصی پاتا۔ قبل اس کے کہ میں نوالہ ختم کر کے کہوں۔ انہوں نے کہا، ’’تجارت والا تو تجارت ہی کرتا ہے۔ ہڈی کی نہ سہی پسلی کی سہی۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے زور سے قہقہہ لگایا۔ میں ان کے حلق کی گہرائی پر غور کر رہا تھا کہ وہ ملک الموت آ پہنچا۔۔۔ وہ موذی بلا ہاتھ میں لیے ہوئے چنگھاڑتا ہوا اور کھانا شروع کرنے کے بجائے بلے کی تلوار بنا کر پینترے بدل بدل کر رقص کرنے لگا۔ وہ گویا بنوٹ کے ہاتھ نکال رہا تھا! میرے میزبان یا یو کہئے کہ صیادکا کیا حال ہوا، بدقسمتی سے وہ چاول پینے کی بجائے اگر کہیں کھانے کے عادی ہوتے تو ہنسی کی وجہ سے ضرور ان کے گلے میں پھندا پڑ جاتا، کیونکہ ان کی دانست میں کھانا کھانے میں ہنسی مخل نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ خوب ہنس رہے تھے۔ کہنے لگے کہ ’’بخدا اس شریر کو دیکھئے۔‘‘ میں اس کا کیا جواب دیتا کیونکہ دیکھ ہی رہا تھا اور جانتا تھا کہ جو دم گزر رہا ہے وہ غنیمت ہے۔
بنوٹ کا قاعدہ ہے کہ سارا کھیل بس نظر کا ہوتا ہے۔ غنیم سے جب تک آنکھ ملی رہے یا غنیم کے حرکات پر جب تک نظر جمی رہے اس وقت تک خیر ہے ورنہ ادھر آنکھ جھپکی اور ادھر پٹائی۔ یہ سنتا ہی تھا مگر آج ثابت ہو گیا۔ دو مرتبہ اس کا بلا میرے سر پر سے ہو کر نکل گیا اور اگر میں سر نہ بچاؤ ں تو سر قلم تھا۔ انہوں نے صرف ’’ہائیں‘‘ کہا۔ میں ٹکٹکی باندھے اس گردن زدنی بھتیجے کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ میرے محبی میزبان نے میری کم خوری کا گلہ کر کے کہا، ’’یہ لیجئے کباب نہیں کھائے۔‘‘ ادھر میری نظر چوکی اور ادھر اس زور سے میرے منہ پر بلا پڑا کہ میری ناک پچی ہو گئی، بلکہ مجھ کو ایسا معلوم ہوا کہ شاید میری ناک عینک کے ساتھ اڑی چلی گئی۔ فوراً پہلے تو میں نے اپنی ناک کو دیکھا اور اس کو موجود پا کر لپک کر میں نے عینک اٹھائی۔ بھتیجے صاحب بھی گر پڑے تھے۔ عینک کا ایک تال ٹوٹ گیا تھا۔ یا علی کہہ کر انہوں نے پٹے باز کو سنبھالا اور میں نے اپنی عینک کو۔
’’تم بڑے نالائق ہو۔‘‘ ڈانٹ کر انہوں نے لڑکے سے کہا۔ مجھ سے معذرت کی اور پھر اس سے کہا کہ معافی مانگو۔ حالانکہ میں خود ان سے معافی اور پناہ مانگ رہا تھا۔ وہ چپ ہوا تو کہا، ’’اچھا اب جاؤ اور اپنی امی جان سے کہنا کہ چچا حامد آتے ہیں۔۔۔‘‘
ادھر انہوں نے یہ کہا اور ادھر میں بے چین ہوا کہونکہ میں قطعی حامد نہ تھا۔ ادھر مجھے اپنا نام معلوم ہوا اور ادھر میری طبیعت پر خلجان سوار ہوا۔ کھانے سے میں نے ہاتھ کھینچا اور حسب عادتِ قدین گھٹ کر رہ گیا۔ مگر میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ وہ بول اٹھے، ’’دیکھیے کتنی جلدی جاتا ہے۔‘‘ میں نے دل میں کہا، ’’میں لا حول سے اور بھی تیز پا کر دوں گا، کسی طرح یہ پیچھا تو چھوڑے۔‘‘
(۵)
کھانا ختم کرکے ہم بر آمدے میں آئے اور میں کچھ کہنے ہی کو تھاکہ انہوں نے ایک بڑا سگار سلگایا اور دوسرا مجھے دیا اور میں نے انکار کیا تو تعجب سے بولے، ’’ارے! تم نے چھوڑ دیا؟ یہ کیسے؟ پہلے جب آئے تھے تو خوب پیتے تھے! واقعی کمال کر دیا، بہت اچھا کیا۔ واقعی خراب چیز ہے۔‘‘ پھر ایک مختصر سا لکچر تمباکو کے نقصانات پر دیتے ہوئے کہا، ’’اب تم بھی اچکن اتار کر ذرا ہاتھ منہ دھو لو۔‘‘
دراصل ہم دونوں خیر سے سفر کے بعد آتے ہی کھانے پر تل گئے تھے۔ اتنے میں انہوں نے چلا کر کہا، ’’ارے بھئی ٹامی کو کیوں باندھ دیا، کوئی ہے؟‘‘
ایک آدمی آ کھڑا ہوا، اس سے انہوں نے پوچھاکہ ٹامی کو کیوں باندھ دیا، اس نے میری طرف اشارہ کرکے کہا، ’’آپ کی وجہ سے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’بکتے ہو۔ اس کو فورا کھولو، یہ وقت کتوں کے باندھنے کا نہیں ہے۔‘‘ میری طرف دیکھ کر کہا، ’’دراصل یہ وقت تو کتوں کے کھولنے کے لیے مخصوص ہے۔۔۔‘‘
’’دیکھ چھوٹے چھوٹے کتے کو بھی‘‘ یہ نوکر سے کہا۔
میں نے دل میں کہا یک نہ شد دو شد۔ واللہ اعلم کتوں کے مالکوں کو کتے چھوڑنے میں کیا لطف آتا ہے، یہ نہیں دیکھتے کہ وہ آنے جانے والے پر دوڑتے ہیں۔ ہاں کتوں کے ذکر پر مجھے یاد آیا کہ ایک کتا ہمارے یہاں بھی پالا گیا تھا۔ بھتیجوں نے اگر مجھ غریب پر کوئی کرم کیا یہ کہ اس کو ایک حوض میں نہلاتے نہلاتے ڈبو دیا، کیونکہ اس کو دن بھر نہلاتے تھے۔
’’آئیے باغ میں چلیں۔‘‘ انہوں نے مجھ سے کہا۔ جھٹپٹا وقت تھا اور ہم اٹھنے ہی کو تھے کہ ایک نو عمر خاتون بہت اچھی شکل و صورت کی گلابی کپڑے پہنے نکلیں۔ میں نے دیکھا ہی تھا کہ ’’ارے‘‘ کہہ کر وہ ایک دم سے لوٹ گئیں۔ میرے میزبان گھبرائے۔۔۔ ادھر مڑ کر دیکھا اور ہنسے اور بولے، بہت دن ہو گئے، شاید تم کو پہچانا نہیں، تم میں تغیر تو بہت ہو گیا ہے۔ میری طرف غور سے دیکھ کر بولے اور پھر کہا، ’’ارے آتی کیوں نہیں۔ بڑی احمق ہو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اٹھے۔
اب میرے لیے بھاگنے کا بہترین موقع تھا کیونکہ وہ دوسرے کمرے میں گئے۔ میں چاہتا ہی تھا کہ اس زریں موقع سے فائدہ اٹھاؤں کیا دیکھتا ہوں کہ وہی خوفناک کتا ٹامی مع چھوٹے کتے کے ڈاک گاڑی کی رفتار سے، اسی طرف چلا آرہا تھا۔ یا اللہ اب میں کیا کروں! ایک طرف سے کتے آ گئے تھے اور دوسری طرف سے بیگم صاحبہ سے ے مل کر غلط فہمی رفع ہونے والی تھی۔ اگر کتوں نے مجھ کو گھیر نہ لیا ہوتا تو میں بھاگ گیا ہوتا۔ میرا دل دھڑک رہا تھا اور انہوں نے آدھی آنکھ سے جھانک کر مجھے دیکھا۔ میں دم بخود تھا۔ گویا میری روح پرواز کر گئی، کیونکہ میں دوڑنے کے امکان پر غور کر رہا تھا اور ان کے حملے سے بچنا۔ ایسے کہ کتوں سے بھی بچت ہو۔ صرف ایک بڑا گملا پھاند کر ممکن تھا۔ میں نے گملے کی اونچائی پر نظر ڈالی۔ میاں بیوی میں تیزی سے کچھ باتیں ہوئیں اور وہ کچھ سنجیدہ صورت بنائے ہوئے نکلے۔
میں بھاگنے کے لیے آمادہ ہو کر کھڑا ہوا مگر میرے پیر گویا زمین نے پکڑ لیے۔ وہ میرے قریب پہنچے۔۔۔ میں نے کتوں کی طرف دیکھا اور پھر گملے کی طرف۔۔۔ دل میں سوچا کہ پھاند جاؤں گا اور بائیں طرف سے گھوم کر احاطہ کی دیوار سے نکل جانا ممکن ہے۔۔۔ وہ آ گئے۔۔۔ میں جانتا تھا کہ اگر انہوں نے گھونسا مارا تو میں کلائی سے روکوں گا۔ کلائی ہی ٹوٹ ہی جائے گی مگر منہ بچ جائےگا۔ انہوں نے اپنے جوتے کی چمک کو دیکھا۔ میں نے کمرے کی طرف دیکھا کہ بیگم صاحبہ جھانک رہی ہیں۔ ’’معاف کیجئےگا۔‘‘ میرے میزبان نے نہایت ہی نرمی سے کہا، ’’شاہد غلط فہمی۔۔۔ مجھ کو غلط فہمی ہوئی۔‘‘
میں نے سر جھکا کر کہا، ’’مجھ کو خود افسوس ہے۔‘‘ وہ بولے، ’’جناب کا اسم گرمی۔‘‘ میں نے اپنا نام اور پتہ وغیرہ بتایا۔ وہ ایک دم سے بولے، ’’آپ کے والد صاحب۔۔۔ افوہ۔۔۔! آپ۔۔۔ آپ کے والد صاحب سے تو دیرینہ مراسم ہیں۔ آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔‘‘ انہوں نے ہاتھ ملا کر کہا، ’’کس قدر آپ میرے دوست حامد کے ہم شبیہ ہیں! بالکل وہی۔۔۔ ہو بہو وہی! آنکھیں ذرا آپ کی چھوٹی ہیں اور ذرا پیشانی کم کشادہ ہے۔ ورنہ آپ بالکل وہی ہیں اور ہاں وہ عینک نہیں لگاتے اور ذرا ہونٹ ان کے پتلے ہیں ورنہ بالکل آپ کی صورت شکل ہیں۔ بس صرف کچھ آپ کی ناک ان سے زیادہ بڑی ہے اور چوڑی چکلی ہے اور۔۔۔ تو وہ عینک کی وجہ سے۔۔۔ آپ کی عینک کیا ہوئی؟‘‘ میں نے بتایا کہ چونکہ اس کا ایک تال ٹوٹ گیا ہے، میں نے جیب میں رکھ لی ہے۔ انہوں نے عینک کے ٹوٹنے پر اظہار تاسف کیا، پھر انہوں نے بڑ ے اخلاق سے کہا، ’’کوئی ہرج نہیں، نہ سہی پہلے ملاقات مگر اب تو ہم آپ کے بہترین دوست ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے پھر گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔
میں نے اجازت چاہی تو انہوں نے اصرار کیا، مگر میں نہ مانا تو کہنے لگے کہ گاڑی تیار کرائے دیتا ہوں، مگر میری کم بختی میں نہ مانا۔ انہوں نے بہت کچھ کہا مگر میں نہ مانا۔ تھوڑی دور تک باغ کے پہلے موڑ تک وہ مجھ کو رخصت کرنے آئے اور دوبارہ آنے کا پختہ وعدہ لیا۔ وہ تو واپس ہوئے اور میں تیزی سے پھاٹک کی طرف چلا، مگر حضرت وہ کتے اپنے ساتھ نہ لے گئے اور وہ دم ہلاتے اور کان پھڑ پھڑاتے میرے پیچھے پیچھے چلے آ رہے تھے۔ میرا دل الٹنے لگا اور میں نے اپنی رفتار کچھ تیز کی۔ کتے بھی کم بخت تیز ہوتے، میں اور تیز ہوا اور وہ بھی اور تیز ہوئے۔ مجبور ہو کر میں بھاگا تو وہ بھی بھاگے۔ اب میں ایسا بے تحاشا بھاگ رہا تھا کہ مجھ کو سر پیر کی خبر نہ تھی۔
نظر کمزور ہونے کی وجہ سے عینک لگاتا تھا۔ بغیر عینک کے راہ دھندلی نظر آ رہی تھی اور پھر اندھیرا ہو رہا تھا، مگر جناب جس کے پیچھے کتے لگے ہوں اس کو کچھ ویسے بھی دکھلائی نہیں دیکھتا۔ کتوں سے بچنے کے لیے میں نے جان توڑ کوشش کی اور پھاٹک کی راہ چھوڑ کر ایک طرف احاطہ کی دیوار نیچی دیکھ کر اس طرف بھاگا۔ کتے کم بخت اب بھاگ نہیں رہے تھے بلکہ بھونک بھی رہے تھے۔ نرم نرم کوڑے کے انبار پر میں تیزی سے چڑھا اور اپنی جان سے ہاتھ دھو کر ایسا بے تحاشا بھاگا کہ دیوار کو بغیر دیکھے پھاند گیا۔ گھورے اور کوڑے پر سے لڑھکتا ہوا کوئی پندرہ فٹ کی گہرائی میں گرا، بوکھلا کر اٹھا اور گرا۔ ایک نظر تو دیکھا کہ کتے اوپر ہی رک گئے ہیں اور پھر وہاں سے جس طرح بن پڑا جان بچاکر ایسا بھاگا کہ سڑک پر آرام دم لیا۔ سارا بدن اور کپڑے کوڑے میں اٹ گئے تھے۔ پتلون کا ستیا ناس ہو چکا تھا۔ جھاڑتا پونچھتا ہوا گھر پہنچا۔
وہ دن اور آج کا دن میں نے قسم کھا لی ہے کہ خواہ کوئی کچھ کہے۔ میں باتیں اور وہ بھی فضول باتیں کرنے سے باز نہ رہوں گا اور اگر ذرا بھی میں کسی کو خاموش پاتا ہوں تو اس کو بولنے پر مجبور کرتا ہوں اور اپنے سوالوں کا جواب تو ضرور ہی لیتا ہوں۔
مصنف:مرزا عظیم بیگ چغتائی