مصری کورٹ شپ

0
285
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

’’میں نے جو پیرس سے لکھا تھا وہی اب کہتا ہوں کہ میں ہرگز ہرگز اس بات کے لئے تیار نہیں کہ بغیر دیکھے بھالے شادی کر لوں، سو اگر آپ میری شادی کرنا چاہتی ہیں تو مجھ کو اپنی منسوبہ بیوی کو نہ صرف دیکھ لینے دیجئے بلکہ اس سے دو چار منٹ باتیں کر لینے دیجئے۔‘‘ یہ الفاظ تھے جو نوری نے اپنی بہن سے پر زور لہجے میں کہے۔

’’مگر یہ تو بتاؤ کہ آخر اس سے کیا فائدہ، تمہارا یہ خیال ہے کہ اگر لڑکی کی صورت شکل اچھی نہ ہوئی تو تم انکار کر دوگے؟ ہرگز ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا، جب سب معاملات طے ہو چکے ہیں اور شادی کرنا ہی ہے تو پھر تم کو دیکھنے سے کیا فائدہ؟‘‘ بہن نے یہ تقریر ختم ہی کی تھی کہ ماں صاحبہ بھی آ گئیں اور اب نوری کو بجائے ایک کے دو سے بحث کرنی پڑی۔

’’معلوم ہوتا ہے کہ تین سال فرانس میں رہ کر تم نے اپنی قومیت اور مذہب کو بھی خیر باد کہہ دیا۔‘‘ یہ الفاظ ماں نے اسی سلسلہ گفتگو میں کہے۔

’’جی نہیں یہ ناممکن ہے، میں پکا مسلمان ہوں اور مصری ہوں۔ نہ میں نے مذہب کو چھوڑا ہے اور نہ قومیت کو، میں تو اپنے حق پہ لڑتا ہوں کہ جس سے میری شادی ہونے والی ہے اس کو میں دیکھ لو۔‘‘

’’اور اگر ناپسند ہو تو شادی نہ کروں۔‘‘ ماں نے گویا جملہ پورا کیا۔

- Advertisement -

’’تم کو بھی معلوم ہے کہ تمہاری منسوبہ بیوی کس کی لڑکی ہے؟ وہ جامعہ ازہر کے نائب الشیخ کی لڑکی ہے اور شرافت اور امارت اور تمول میں وہ لوگ ہم سے کہیں زیادہ ہیں۔ ذرا ان لوگوں کو دیکھو اور اپنے کو دیکھو، گورنمنٹ کے روپے پر یورپ جا کر تعلیم حاصل کر کے آئے ہیں اور انجنیئر بن گیے ہیں تو ہم کو کسی شمار ہی میں نہیں لاتے۔‘‘

’’یہ سب کچھ آپ صحیح کہتی ہیں جو مجھ کو لفظ بلفظ تسلیم ہے مگر اس کے تو یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ ان وجوہ کی بناء پر اپنا پیدائشی حق کھو بیٹھوں۔‘‘

’’مگر میں شادی پختہ کر چکی ہوں اور شادی کے تمام ابتدائی مراحل بھی طے ہو چکے ہیں اور اب میں یہ نسبت نہیں توڑ سکتی۔‘‘ ماں نے نوری سے یہ الفاظ ایک مجبوری کا لہجہ لیے ہوئے کہے۔

’’میں کب کہتا ہوں کہ آپ یہ نسبت توڑ دیں، مجھ کو تو یہ رشتہ خود بسر و چشم منظور ہے۔‘‘ یہ الفاظ سنتے ہی بہن چمک کر بولی، ’’پھر آخر کیوں الٹی سیدھی باتیں کرتے ہو؟ یہی تم نے پیرس سے لکھا تھا ورنہ ہم لوگ کیوں یہ غلطی کرتے؟‘‘

غرض اسی قسم کی بحث بہت دیر تک ہوتی رہی مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ ماں نے بہت کوشش کی کہ نوری اپنی ضد سے باز آئے مگر بے سود اور ادھر نوری نے بےحد کوشش کی کہ ماں اس کی منسوبہ بیوی کے گھر کہلا بھیجے کہ لڑکا لڑکی سے ملنا چاہتا ہے مگر بیکار، ماں کو اپنی بات کا پاس تھا، وہ اپنے ہم چشموں میں ذلیل ہونا گوارا نہ کر سکتی تھی، وہ پرانی رسموں کی قیود کو توڑنا نہیں چاہتی تھی اور یہ ناممکن تھا کہ ایسا ناشائستہ پیغام لڑکی والوں کے یہاں کہلوا بھیجے کہ جس کو وہ ان لوگوں کی کھلی ہوئی توہین خیال کرتی ہو۔

نتیجہ ماں بیٹے کی ضد کا یہ ہوا کہ ماں خفا ہو گئی، گھنٹوں بیٹھ کر روئی، نوری نے بہت خوشامد کی مگر بیکار، نوری کو ماں کو رنجیدہ کرنے کا بہت افسوس تھا مگر مجبور تھا۔ کھانے کا وقت آیا اور ماں نے کھانا نہ کھایا مگر مصالحت کی کوئی صورت نہ بن پڑی۔ بحث کا سلسلہ چھڑ گیا، نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ ماں خوب روئی پیٹی مگر سنگدل بیٹے نے اپنے اصول سے جنبش نہ کی۔ اب گھر گویا غم کدہ بنا ہوا تھا، ماں نے کھانا نہ کھایا اور بیٹی اور بیٹے نے بھی کھانا نہ کھایا، یہی صورت دوسری شام تک رہی اور ۲۴ گھنٹے سے زیادہ گزر گیے۔

نوری اپنے کمرے میں بیٹھا تھا، ماں کی تکلیف کا خیال تھا، ماں کی ستیہ گرہ آخرکار کامیاب ہو گئی اور نوری نے ماں کی شرائط منظور کر لیں تاکہ ماں کھانا کھا لے۔

(۲)

یہ بھی دراصل نوری کی چال تھی تاکہ ماں کھانا کھا لے۔ چنانچہ ماں کو اس نے راضی کر لیا لیکن وہ اب سوچ میں تھا کہ کرنا کیا چاہیے۔ صبح کا وقت تھا اور اس واقعے کو دو روز گزر چکے تھے۔ نوری اپنے کمرے میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا کہ اس نے اخبار رکھ دیا اور اٹھ کر الماری سے احادیث کی دو کتابیں اٹھا لایا۔ ان کتابوں کا مطالعہ وہ پیشتر بھی کر چکا تھا اور اکثر کرتا رہتا تھا۔ وہ اسی سوچ میں تھا کہ اب کیا کرنا چاہیے کہ معاً اس نے دل میں نئی بات ٹھان لی، نوکر کو حکم دیا کہ گاڑی لاؤ کپڑے پہن کر تیار ہوا اور کہا کہ نائب الشیخ کے ہاں چلو۔ گاڑی ایک عالیشان مکان پر رکی۔ مکان کا ظاہری ٹھاٹھ کہہ رہا تھا کہ کسی امیر کبیر کا مکان ہے۔ ایک نوکر دوڑ کر گاڑی کے قریب آیا، نوری نے اپنا کارڈ دیا اور اطلاع کی گئی۔ نائب الشیخ اپنے منسوبہ داماد کی آمد کی خبر سن کر باہر استقبال کے لئے آئے۔ نوری نے بڑھ کر مصافحہ کیا اور قابل احترام شیخ کے ہاتھوں کو بوسہ دیا، شیخ نے نوری کی پیشانی پر بوسہ دیا اور ہاتھ پکڑ کر کمرے میں لا بٹھایا۔

کمرہ مغربی سامان آرائش سے سجا ہوا تھا۔ جگہ جگہ خوبصورت کام ہو رہا تھا اور تمام فرنیچر اور دیگر سامان اعلیٰ قسم کا تھا۔ اس ہال کے ایک حصہ میں بہترین رومی غالیچوں کا فرش بھی تھا اور مشرقی فیشن کا بہترین سامان سجا ہوا تھا۔ نیچے نیچے زمین سے ملے ہوئے خوبصورت صوفے پڑے ہوئے تھے جن پر لوگ اطمینان سے پالتی مارے تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ نائب الشیخ نے نوری کا اپنے ملنے والوں سے تعارف کرایا اور ملنے والوں نے شیخ کو داماد کے انتخاب پر مبارک باد دی۔ تھوڑی دیر بعد قہوہ کا دور چلنے لگا اور شیخ نوری سے بسلسلہ گفتگو فرانس کی باتیں پوچھتے رہے۔ قہوہ کا دور ختم ہوا اور تھوڑی دیر بعد شیخ صاحب کے دوست اٹھ کر چلے اور نوری اور شیخ رہ گیے۔ بڑی مشکل سے اور بڑی دیر کے سوچ کے بعد نوری نے شیخ سے نہایت مودبانہ طریقہ سے کہا، ’’میں جناب کی خدمت میں ایک خاص مقصد سے آیا تھا۔‘‘

’’وہ کیا؟‘‘

’’اگر جناب اجازت دیں تو کچھ عرض کرنے کی جرأت کروں؟‘‘

’’بسر و چشم، بسم اللہ کہو کیا کہتے ہو۔‘‘

نوری نے کچھ تامل کیا اور شاید وہ الفاظ ڈھونڈ رہا تھا کہ اپنا مدعا کن مناسب الفاظ میں ادا کرے کہ شیخ نے پھر کہا، ’’تم ضرور اپنے دل کی بات کہو کوئی وجہ نہیں کہ تامل کرو۔‘‘ نوری نے ہمت کر کے نیچی نظریں کر کے دبی زبان سے کہا، ’’جناب سے اپنا حق مانگتا ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ میں اپنی منسوبہ سے پانچ منٹ کے لئے مل لوں؟‘‘

نوری نے نظر اٹھا کر جو دیکھا تو نائب الشیخ کو ہکا بکا پایا، وہ بالکل تیار نہ تھے اور ان کی خود داری کو کچھ اس سے ٹھیس سی لگی تھی۔ شیخ نے اپنے کو عجیب شش و پنچ میں پایا۔ وہ نوری کو بے حد پسند کرتے تھے مگر اس بات سے وہ اس وقت حواس باختہ تھے۔ اپنے کو سنبھال کر شیخ نے کہا، ’’میں اس کی اہمیت سمجھنے سے قاصر ہوں۔‘‘

’’کیا جناب کو اس بارے میں کسی خاص قسم کا اعتراض ہے؟‘‘

’’بےشک مجھ کو اعتراض ہے۔‘‘

’’مذہبی نقطہ نظر سے یا دنیاوی نقطہ نظر سے؟‘‘

شیخ چونکہ پھر شیخ تھے وہ بولے، ’’مذہبی نقطہ نظر سے اور نیز دنیاوی نقطہ نظر سے کیونکہ ہمارا دین اور دنیا الگ الگ نہیں۔‘‘ نوری نے بھی خوش ہو کر کہا، ’’مگر دین کو دنیا پر سبقت ہے، سب سے پہلے ہمارا مذہب ہے اور پھر دنیا۔‘‘ شیخ نے بھی خوش ہو کر کہا، ’’بےشک، بے شک تم صحیح کہتے ہو۔‘‘

’’پھر جب خداوند تعالیٰ نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے قرآن پاک میں کہہ دیا کہ ان عورتوں سے نکاح کرو جو کہ تم کو بھلی معلوم ہوتی ہوں تو پھر کون سا اعتراض رہ گیا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے نوری نے آیت نکاح پڑھ کر سنائی۔

شیخ صاحب اس رنگ میں بحث کرنے کو خصوصاً نوری کی سی نئی تہذیب کے دلدادہ نوجوان سے قطعی تیار نہ تھے اور نہ اس کی امید تھی، ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کہیں مگر جواب دینے کے لئے کہا، ’’ہاں یہ مذہباً جائز تو ہو سکتا ہے مگر میں اس کو پسند نہیں کرتا اور خصوصاً آج کل کے زمانے میں۔‘‘

نوری نے فوراً شیخ کی کمزوری کو محسوس کیا اور کہا، ’’آپ کا کیا خیال ہے اگر آج کل ہم لوگ سنت رسول اللہ کی پیروی کریں؟ کیا یہ مستحسن نہیں ہے؟‘‘

شیخ نے فوراً کہا، ’’خدا ہم کو رسول اللہؐ کی پیروی کی توفیق دے۔‘‘ نوری نے فوراً جیب میں سے ایک پرچہ نکال کر شیخ کے ہاتھ میں دے دیا، شیخ کی آنکھوں کے سامنے حسب ذیل عبارت تھی،

(۱) جابر سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے نکاح کا پیغام کسی عورت کی طرف بھیجنا چاہے تو ہو سکے کہ اس کو دیکھ لے، جس سے نکاح کا ارادہ ہو تو پھر نکاح کرے۔ (ابی داؤد)

(۲) مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے، پیغام دیا میں نے نکاح کا ایک عورت کے ساتھ زمانے میں رسول اللہﷺ کے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے دیکھ بھی لیا ہے اس کو؟ میں نے کہا نہیں، فرمایا کہ دیکھ لے اس کو، اس سے الفت زیادہ ہوگی تم دونوں میں (نسائی)

(۳) ابو ہریرہ سے روایت ہے پیغام بھیجا ایک آدمی نے لڑکی والوں کے یہاں، فرمایا اس کو رسول اللہؐ نے تونے اس کو دیکھ بھی لیا ہے یا نہیں۔ اس نے کہا نہیں،، آپؐ نے فرمایا اس عورت کو دیکھ لے یعنی بغیر دیکھے نکاح کرنا اچھا نہیں۔ (نسائی)

شیخ نے ان احادیث کو پڑھا۔ وہ ان احادیث کو پہلے بھی پڑھ چکے ہوں گے مگر ان کے لئے گویا اس وقت یہ بالکل نئی تھیں۔ وہ خاموش تھے اور کچھ بولنے میں ان کو تامل تھا کہ نوری نے ان سے کہا کہ ’’کیا آپ مجھے ان احادیث پر عمل نہ کرنے دیں گے؟ کیا واقعی ہم اس زمانے میں رسول اللہ ص کی نصیحتوں سے بے نیاز ہیں اور وہ ہمارے لئے بےکار ہیں؟‘‘

شیخ نے کہا، ’’ہرگز نہیں ہرگز نہیں گفتہ رسول اللہ سر آنکھوں پر مگر میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ آخر تمہارا اس درخواست سے مطلب کیا ہے؟ اگر فرض کرو تمہاری منسوبہ تم کو ناپسند ہوئی تو کیا تم اس نسبت کو توڑ دوگے اور نکاح نہ کروگے؟‘‘ نوری نے جواب دیا، ’’اس سے شاید آپ بھی اتفاق کریں گے اس صورت میں مجبوری ہوگی کیونکہ قرآن کریم کے حکم کے خلاف ہوگا۔‘‘

’’تو اس شرط پر تو تمہاری شادی صرف یورپ ہی میں ہو سکتی ہے۔‘‘ شیخ نے کچھ ترش رو ہو کر کہا، ’’مجھ کو ہر گز گوارا نہیں ہے کہ میری لڑکی سے نسبت کرنے کے لئے لوگ گاہک بن کر آئیں اور ناپسند کر کے چلے جائیں۔ کیا تم نے میری عزت و آبرو کا اندازہ غلط لگایا ہے؟ کیا تم نہیں خیال کرتے کہ نائب الشیخ کی توہین ہوگی، معاف کیجئےگا میں اس قسم کی گفتگو پسند نہیں کرتا جس میں میری عزت و آبرو کا سوال ہو۔‘‘

نوری بھی پختہ ارادہ کر کے آیا تھا اور اس نے بھی تیز ہو کر کہا، ’’بےشک آپ مصر میں وہ عزت و مقام رکھتے ہیں جو دوسروں کو نہیں مگر مجھ کو اجازت دیجئے کہ عرض کروں کہ پھر بھی آپ کو وہ عزت حاصل نہیں ہے جو امیر المومنین عمر بن خطاب رض کو مدینے میں حاصل تھی اور آج ساری دنیا میں حاصل ہے۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ حضرت عمر نے اپنی بیٹی ام المومنین حفصہ کو حضرت عثمان کے سامنے پیش کیا اور نکاح کی خواہش ظاہر کی اور جب حسب خواپش جواب نہیں ملا تو پھر ان کو حضرت ابو بکر صدیق کے سامنے پیش کیا اور وہاں بھی ناکامی ہوئی۔ کیا ان سے ان کی عزت و آبرو میں خدانخواستہ بٹا لگ گیا؟‘‘ شیخ کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور وہ لاجواب ہو کر بولے کہ دونوں حضرات تو ان کے دوست تھے۔

’’مگر میں بھی آپ کے عزیز ترین دوست مرحوم کی نشانی ہوں۔‘‘ شیخ نے نظریں نیچی کر لیں اور کچھ تامل کے بعد کہا، ’’مجھ کو کوئی انکار نہیں ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے شیخ گھر میں چلے گیے۔

(۳)

نوری کا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا، اس نے کانپتے ہاتھوں سے ریشمی سیاہ پردہ اٹھایا اور اندر داخل ہوا حالانکہ دن تھا مگر کمرے میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے بجلی کا لیمپ روشن تھا، سامنے کرسی پر سیاہ گاؤن پہنے ایک سولہ یا سترہ سال کی نہایت حسین و جمیل لڑکی بیٹھی تھی!

نوری کو دیکھ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی نوری نے سلام کیا کچھ جواب نہ ملا۔ اس نے دوبارہ سلام کیا تو لڑکی نے آہستہ سے جواب دیا، لڑکی کی نظریں نیچی تھیں صرف داخل ہوتے وقت اس نے ایک لمحہ کے لئے نظر اٹھا کر نوری کو ضرور دیکھا تھا۔ وہ ساکت کھڑا تھا اور لڑکی نے نوری سے بیٹھنے تک کو نہ کہا۔ نوری اجازت طلب کرتے ہوئے بیٹھ گیا مگر لڑکی نے کچھ جواب نہ دیا اور کھڑی رہی۔ نوری پھر کھڑا ہو گیا تو کہا کہ بیٹھ جائے۔ نوری نے اپنی کرسی قریب کر لی اور کہا کہ ’’مجھے فخر ہے کہ میں اس وقت اپنی منسوبہ نازلی خانم کے سامنے بیٹھا ہوں اور ان سے کچھ گفتگو کرنے کا مجھ کو موقع ملا ہے کیا مجھ کو اجازت ہے؟‘‘

نازلی نے دبی زبان سے کہا، ’’فرمائیے۔‘‘

’’آپ میرے نام سے تو واقف ہیں کیا میں دریافت کر سکتا ہوں کہ آپ کو مجوزہ یہ رشتہ پسند ہے؟‘‘ اس کا نازلی نے کوئی جواب نہ دیا اس کے چہرے پر ایک خفیف سا رنگ آیا اور چلا گیا وہ زمین کی طرف دیکھ رہی تھی اور اپنے بائیں ہاتھ کی انگلی سے داہنا ہاتھ کرید رہی تھی۔ انداز سے نوری نے معلوم کر کے کہا میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اسی سلسلے میں نوری نے پوچھا، ’’کیا آپ میری اس ملاقات کو ناپسند کرتی ہیں؟‘‘

’’جی نہیں۔‘‘

’’تو پھر آپ نے اپنے والد صاحب سے اس بارے میں غیر آمادگی کا اظہار کیوں کیا تھا؟‘‘

نازلی کے لبوں پر ایک مسکراہٹ آئی لیکن شرم کی وجہ سے شاید کچھ نہ کہہ سکی، نوری نے فوراً کہا، ’’آپ کو اس بات کا جواب ضرور دینا پڑےگا اور میں بےپوچھے نہ مانوں گا۔‘‘ نازلی نے کچھ تامل سے کہا، ’’میں نے یونہی کہہ دیا تھا۔‘‘ نوری نے برجستہ کہا، ’’تو اس سے یہ مطلب میں نکال سکتا ہوں کہ آپ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔‘‘ نوری نے یہ کہتے ہوئے نازلی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور پھر کہا، ’’سچ سچ بتائیے کہ کیا آپ مجھ سے ملنا چاہتی تھیں ؛ میں آپ کے دل کی بات معلوم کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

نازلی کی نظریں نیچی تھیں، اس کے سرخ اونی شال پر بجلی کی روشنی چمک رہی تھی جس کا عکس اس کے چہرے پر پڑ کر سیاہ گاؤن کے ساتھ ایک عجیب کیفیت پیدا کر رہا تھا۔ اس نے ذرا تامل سے کہا، ’’میں آپ کو دیکھنا چاہتی تھی، ملنے کا تو مجھ کو خیال بھی نہ آ سکتا تھا۔‘‘

’’کیا آپ مجھ کو بتا سکتی ہیں کہ آپ مجھ کو کیوں دیکھنا چاہتی تھیں؟‘‘ یہ سوال کرنے سے نوری کو خود ہنسی آ گئی۔ نازلی نے بھی اب ہمت کر کے کہا، ’’پہلے آپ ہی بتائیے کہ آپ آخر کیوں مجھ سے ملنا چاہتے تھے، جس لیے آپ مجھ سے ملنا چاہتے تھے اس لئے میں بھی چاہتی تھی کہ آپ کو دیکھ لوں۔‘‘ نوری نے کہا، ’’میں تو آپ کو اس لیے دیکھنا چاہتا تھا کہ جو کچھ بھی میں نے اپنی بہن اور ماں سے آپ کے بارے میں سنا ہے اس کی تصدیق کر لوں مگر یہ تو بتائیے کہ آپ کیوں مجھ کو دیکھنا چاہتی تھیں؟‘‘

نازلی نے اب نظریں اوپر کر لی تجیں اور اب روبرو ہو کر باتیں سن رہی تھی، اس کو ان سوالات پر کچھ ہنسی بھی آ رہی تھی اور اس نے جواب دیا کہ ’’میں تو یونہی آپ کو دیکھنا چاہتی تھی۔‘‘

’’مگر میں آپ سے بغیر اس کی وجہ پوچھے نہ مانوں گا۔‘‘ نازلی نے کہا، ’’مجھ کو معلوم ہی نہیں تو پھر بھلا آپ کو کیا بتاؤں۔‘‘ نوری کو اس جواب سے اطمینان ہو گیا لیکن اس نے اب دوسرا سوال پیش کر دیا، ’’میں جب پیرس میں بیمار پڑ گیا تھا تو آپ کو یاد ہوگا آپ نے دو مرتبہ اپنے خطوط میں میری بہن کو لکھا تھا کہ تمہارے بھائی اب کیسے ہیں؟ یہ آخر کیوں لکھا تھا؟‘‘ نازلی کو اس بات پر ہنسی آ گئی اور وہ کہنے لگی، ’’معاف کیجئے گا آپ کیسے سوالات کر رہے ہیں کیا کسی کی خیریت دریافت کرنا گناہ ہے؟‘‘

نوری نے کہا، ’’اچھا آپ صرف یہ بتائیے کہ کیا آپ میری بیماری کا سن کر کچھ متفکر ہوئی تھیں اور کیا آپ کو میرا خیال آیا تھا۔‘‘ نازلی نے سمجھ لیا تھا کہ ایسے سوالوں سے نوری کا مطلب کیا ہے اور اس کو بھی ان سوالات میں دلچسپی آ رہی تھی۔ اس نے بجائے جواب دینے کے ہنستے ہوئے کہا، ’’اچھا پہلے آپ بتائیے کہ اگر اسی زمانہ میں میں بیمار پڑتی اور آپ کو اس کا علم ہوتا تو آپ میری خیریت دریافت کراتے یا کچھ متفکر ہوتے یا آپ کو میرا کچھ خیال آتا؟‘‘

نوری کچھ لاجواب ہو کر، ’’میرا خیال ہے کہ ضرور مجھ کو بہت خیال آتا اور فکر بھی ہوتی اور میں خیریت بھی دریافت کراتا۔‘‘ نازلی کامیابی کی خوشی کے لہجے میں تیزی سے بولی، ’’آخر کیوں، آخر کیوں، نہ میں نے کبھی آپ کو دیکھا اور نہ آپ نے ہی مجھ کو دیکھا تھا۔‘‘

نوری اس مسئلہ پر غور کر رہا تھا۔ نازلی کا ہاتھ بدستور اس کے ہاتھوں میں تھا اس نے اس کے ہاتھ کو نرمی سے دباتے ہوئے عجیب پیرایہ میں کہا، ’’میری جو باتیں خود سمجھ میں نہیں آتی تھی انہیں دریافت کرنا چاہتا تھا لیکن دراصل میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آپ کی طرف سے جو خیالات میرے دل میں تھے، کیا ویسے ہی میری طرف سے آپ کے دل میں بھی ہیں۔‘‘

’’پھر آپ نے کیا پایا؟‘‘

’’آپ کی اور اپنی حالت کو یکساں پایا۔ یہ ایک بات ہے کہ یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم دونوں میں محبت کی بنیاد دراصل اس وقت سے استوار ہو گئی جب ہم دونوں کو اس کا علم ہوا کہ یہ رشتہ قائم ہوگا۔‘‘

اس کا جواب نازلی نے کچھ نہ دیا صرف اس کے نرم ہاتھ کو جنبش سی ہوئی جو نوری کے ہاتھ میں تھا اور یہی جواب تھا جو اس کے جذبات کی صحیح ترجمانی کر رہا تھا۔ نوری نے متاثر ہو کر کہا، ’’ایک سوال اور کروں گا اور اس کا جواب خدا کے واسطے ضرور دینا وہ یہ کہ آپ نے جو اپنے ہاتھ سے ایک جنگل کے سین کی رنگ برنگی تصویر بنا کر میری بہن کو بھیجی تھی، وہ کیوں بھیجی تھی؟‘‘

’’وہ میں نے اس لیے بھیجی تھی کہ انہوں نے مجھ کو تصویروں کا ایک البم بھیجا تھا، تبادلہ تحفہ جات تو ایک پرانی رسم ہے۔‘‘

نوری نے بےتاب ہو کر کہا، ’’خدا کے واسطے ذرا اپنے دل کو ٹٹولئے اور اچھی طرح ٹٹولئے ہر معاملہ میں میرا اور آپ کا حال ایک سا نکلتا ہے بخدا مجھ کو ایسا معلوم ہوا کہ تصویر آپ نے میری بہن کے لیے نہیں بلکہ میرے لئے بھیجی تھی تاکہ میں دیکھوں اور خوش ہوں، اس وقت جس وقت تصویر آئی تو میرے دل میں یہی خیال تھا اور اب بھی یہی خیال ہے، سچ مچ کہئےگا کہ آپ جس وقت تصویر بھیج رہی تھیں کیا آپ کے دل میں کچھ میرا خیال آیا تھا۔‘‘ نازلی کچھ حیران سی رہ گئی کیونکہ اس وقت نوری نے اس کے دل کی گہرائی کا اس طرح پتہ لگا لیا کہ اس کو وہم و گمان بھی ہونا ناممکن تھا۔ وہ کچھ جواب نہ دے سکی اور حیرت میں تھی، ساتھ میں حقیقی شرم بھی اس کو بولنے نہ دیتی تھی۔

نوری نے اصل حقیقت کو سمجھ لیا اور اصرار کے ساتھ کہا، ’’اس بات کا میں آپ سے ضرور جواب لوں گا یہ میرا آخری سوال ہے اور میں اس وقت آپ کے صحیح جواب کا بےتابانہ انتظار کر رہا ہوں بتائیے تو سہی کہ وہ تصویر آپ نے کس کے لیے بھیجی تھی۔‘‘

’’آپ کے لئے‘‘ یہ کہہ کر نازلی نے آنکھیں نیچی کر لیں۔

نوری کی آنکھیں چمکنے لگیں اس کا دل جواب سن کر دھڑکنے لگا۔ اس نے زور سے نازلی کا ہاتھ گویا لاعلمی میں دبایا اور خوش ہو کر اس کے منہ سے نکلا، ’’بخدا؟‘‘

’’بخدا‘‘ نازلی کی زبان سے بھی نکلا۔

دونوں تھوڑی دیر تک خاموش رہے۔ نازلی نیچی نظریں کئے ہوئے بیٹھی تھی، نوری نے گھڑی دیکھی اور چاروں طرف دیکھ کر نازلی کا ہاتھ آہستہ سے چھوڑ دیا، اپنی جیب سے اس نے ہیرے کی ایک انگوٹھی نکالی جس کی دمک سے بجلی کی روشنی میں آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں، نازلی نے آنکھ کے گوشہ سے انگوٹھی کو دیکھا تو اس نے مسکرا کر کہا، ’’یہ آپ کے لیے ہے‘‘ ہاتھ پکڑ کر کہا، ’’کیا آپ اجازت دیتی ہیں‘‘ اور یہ کہتے ہوئے نازلی کی انگلی میں انگوٹھی پہنا کر اس کے ہاتھوں کو لبوں سے لگا کر آہستہ آہستہ سے چھوڑ دیا۔

’’خدا حافظ۔ خدا حافظ۔‘‘ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا، ایک طویل مصافحہ کیا اور پھر خدا حافظ کہہ کر اجازت چاہی۔ ’’خدا حافظ‘‘ نازلی نے آہستہ سے کہا۔ چلتے چلتے دروازے سے مڑکر اس نے نازلی کی طرف دیکھا جو خود اس کو جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔

مصنف:مرزا عظیم بیگ چغتائی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here