عمدہ قسم کا سیاہ رنگ کا چمک دار جوتا پہن کر گھر سے باہر نکلنے کا اصل لطف تو جناب جب ہے جب منہ میں پان بھی ہو، تمباکو کے مزے لیتے ہوئے جوتے پر نظر ڈالتے ہوئے بید ہلاتے جا رہے ہیں۔ یہی سوچ کر میں جلدی جلدی چلتے گھر سے دوڑا۔ جلدی میں پان بھی خود بنایا۔ اب دیکھتا ہوں تو چھالیہ ندارد۔ میں نے خانم کو آواز دی کہ چھالیہ لانا اور انہوں نے استانی جی کو پکارا۔ استانی جی نے واپس مجھے پکارا کہ وہ سامنے طاق میں رکھی ہے۔
میں دوڑا ہوا پہنچا۔ ایک رکابی میں کٹی اور بےکٹی یعنی ثابت چھالیہ رکھی ہوئی تھی۔ سروتا بھی رکھا ہوا تھا اور سب سے تعجب کی بات یہ کہ شطرنج کا ایک رخ بھی چھالیہ کے ساتھ کٹا رکھا تھا۔ اس کے تین ٹکڑے تھے۔ ایک تو آدھا اور دو پاؤ پاؤ۔ صاف ظاہر ہے کہ چھالیہ کے دھوکے میں کترا گیا ہے، مگر یہاں کدھر سے آیا۔ غصہ اور رنج تو گمشدگی کا ویسے ہی تھا۔ اب رخ کی حالت زار جو دیکھی تو میرا وہی حال ہوا جو علی بابا کا قاسم کی لاش کو دیکھ کر ہوا تھا۔ خانم کے سامنے جا کر رکابی جوں کی توں رکھ دی۔ خانم نے بھویں چڑھا کر دیکھا اور یک دم ان کے خوبصورت چہرے پر تعجب خیز مسکراہٹ سی آ کر رک گئی اور انہوں نے مصنوعی تعجب سے استانی جی کی طرف رکابی کرتے ہوئے دیکھا۔ استانی جی نے ایک دم سے بھویں چڑھا کر دانتوں تلے زبان داب کے آنکھیں پھاڑ دیں، پھر سنجیدہ ہو کر بولیں،
’’جب ہی تو میں کہوں یا اللہ اتنی مضبوط اور سخت چھالیہ کہاں سے آ گئی۔ کل رات اندھیرے میں کٹ گیا۔ جب سے رکابی جوں کی توں وہیں رکھی ہے۔‘‘
’’اجی یہ یہاں آیا کیسے؟‘‘ میں نے تیز ہوکر کہا۔ استانی جی نے چوروں کی طرح خانم کی طرف دیکھ کے کہا، ’’خدا جانے کہاں سے آیا۔۔۔ میں۔۔۔‘‘
’’میں خوب جانتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر غصہ سے میں نے خانم کی طرف دیکھا اور زور سے کہا، ’’ہنستی کیوں ہو؟ میں خوب جانتا ہوں۔۔۔ ان باتوں سے کیا فائدہ؟‘‘
ادھر وہ ہنس پڑیں اور ادھر دروازے سے استانی جی کا لڑکا گھر میں داخل ہوا۔ میری جان ہی تو جل گئی اور میں نے یہ کہہ کر کہ ’’اسی موذی کی شرارت ہے۔‘‘ لڑکے کا کالر پکڑ کر دو تین بید ایسے جمائے کہ مزہ آ گیا۔ یہ بید گویا خانم کے لگے۔ دوڑ کر انہوں نے بید پکڑنے کی کوشش کی اور روکنا چاہا مگر میں نے مارنا بند نہ کیا۔ میں مار رہا تھا اور خانم کہہ رہی تھی، ’’اس کی کوئی خطا نہیں۔‘‘ مگر میں غصہ میں دیوانہ ہو رہا تھا اور مارے ہی گیا حتیٰ کہ نوبت بایں جا رسید کہ خانم نے بید پکڑ کر کہا، ’’تم مجھے مار لو مگر اسے نہ مارو۔‘‘ مگر مجھے غصہ ہی بے حد تھا۔ میں نے بید چھڑا لیا اور وہ روتی ہوئی کمرے میں چلی گئیں۔ میں غصہ میں کانپتا ہوا باہر چلا آیا۔
میرا غصہ حق بجانب تھا یا نہیں۔ ناظرین خود انصاف کریں۔ شطرنج کا شوق ہوا تو ہاتھی دانت کے مہرے منگائے۔ یہ مہرے نہایت ہی نازک اور خوبصورت تھے اور خان صاحب نے دو ہی دن میں سب کی چوٹیاں توڑ کر ہفتہ بھر کے اندر ہی اندر تمام مہرے برابر کر دیے تھے۔ خان صاحب نہ میز پر کھیلتے تھے اور نہ فرش پر، وہ کہتے تھے کہ شطرنج تخت پر ہوتی ہے تاکہ زور سے مہرہ پر مہرہ مارنے کی آواز آئے۔ اس کے بعد پھر بنارسی مہرے منگائے۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت، نہایت ہی سادہ اور سبک مہرے تھے کہ بس دیکھا کیجئے۔ ہفتہ بھر مشکل سے ان مہروں سے کھیلنے پائے ہوں گے کہ سفید بازی کا ایک پیدل خان صاحب کے سال بھر کے بچے نے کھا لیا۔ بہت کچھ اس کے حلق میں خان صاحب نے انگلیاں گھنگھولیں۔ چت لٹایا، جھنجھوڑا، پیٹھ پر دھموکے دیے، مگر وہ ظالم اسے پار ہی کر گیا۔
سفید بازی چونکہ خان صاحب لیتے تھے لہذا پیدل کی جگہ اپنی انگوٹھی رکھ دیتے، پیدل پٹ جاتا تو اس کو رکھ لیتے لیکن اس کے بعد ہی جلد لال بازی کا بادشاہ کھو گیا۔ بہت ڈھونڈا، تلاش کیا مگر بےسود۔ اس کی جگہ دو ایک روز دیا سلائی کا بکس رکھا، پھر ایک روز مناسب عطر کی خالی شیشی مل گئی۔ وہ شاہ شطرنج کا کام دیتی رہی کہ اس کے بعد ہی لال بازی کا فیل اور سفید کا ایک گھوڑا غائب ہو گیا۔ خان صاحب تجربہ کار آدمی تھے اور پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ ہو نہ ہو مہرے ’’آپ کے گھر میں‘‘ سے چروائے جاتے ہیں مگر میں یہی کہہ دیتا کہ یہ ناممکن ہے۔ انہیں بھلا اس سے کیا مطلب۔ بہتیرا وہ مجھے یقین دلاتے سر مارتے کہ سوائے ان کے کوئی نہیں، مگر مجھے یقین ہی نہ آتا۔
خان صاحب کہتے تھے ’’عورتوں کو شطرنج سے بغض ہوتا ہے۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ خانم میری شطرنج بازی کے خلاف تو تھیں اور بہت خلاف تھیں، مگر مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس طرح مخل ہو سکتی ہیں، غرض ان مہروں کے بعد ہی رام پور سے خان صاحب نے منڈے مہرے امرود کی لکڑی کے منگوا دیے۔ رام پور کے بہتر، عمدہ، خوبصورت اور ساتھ ہی ساتھ مضبوط مہرے ہونا ناممکن ہیں۔ ابھی چار روز بھی آئے نہ ہوئے تھے کہ یہ واقعہ ہوا۔ یعنی استانی جی نے چھالیا کے ساتھ اس نئی شطرنج کا رخ کتر ڈالا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
میں نے اس واقعہ کا ذکر سب سے پہلے خان صاحب سے کیا۔ انہوں نے بائیں طرف کی ڈاڑھی کا چھبو جو ذرا نیچے آ گیا تھا خوب اوپر چڑھاتے ہوئے اور آنکھیں جھپکا کر اپنی عینک کے اوپر سے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا، ’’میں نہ کہتا تھا کہ مرزا صاحب کہ ہو نہ ہو یہ آپ کے ’’گھر میں‘‘ ہی ہیں۔۔۔ اجی صاحب یہاں اللہ بخشے مرنے والی (پہلی بیوی) سے دن رات جوتی پیزار ہوتی رہتی تھی۔ پھر اس کے بعد اب اس سے بھی دو تین مرتبہ زور کے ساتھ چائیں چائیں ہو چکی ہے اور ہوتی رہتی ہے مگر میں شطرنج کے معاملہ میں ذرا سخت ہوں۔ گھر والی کو سونے کا نوالہ کھلائے، مگر وہ جو کہے کہ شطرنج نہ کھیلو تو بس اسے کھا ہی جائے۔۔۔ جب جا کے کہیں شطرنج کھیلنی ملتی ہے۔ ورنہ یہ سمجھ لیجیے کہ آئے دن کے جھگڑے رہیں گے اور شطرنج کھیلنی دوبھر ہو جائےگی۔ ویسے آپ کا مزاج۔۔۔ میں تو کچھ کہتا نہیں۔‘‘
میں نے سوچا خان صاحب واقعی سچ کہتے ہیں۔۔۔ مگر اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ خان صاحب بولے، ’’ابھی کوئی سترہ برس کا ذکر ہے کہ مرنے والی لڑنے پر آمادہ ہو گئی۔ وہ پان نہیں بھیجتی تھی۔ ذرا غور تو کیجیے کہ ہم تو باہر شطرنج کھیل رہے ہیں۔ یہ صاحب بیٹھے ہیں اور پان ندارد! خدا بخشے کسی معاملہ میں نہیں دبتی تھی۔ ہاں تو۔۔۔ کوئی سترہ برس ہوئے وہ لڑنے پر آمادہ ہو گئی۔ خوب چھنی۔ بڑی مشکل سے رام کیا۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
خان صاحب نے سر ہلا کر ایسا جواب دیا جیسے شاید ڈیوک آف ویلنگٹن نے نپولین کو شکست دے کر وزیر اعظم سے کہا ہوگا، ’’آپ بتائیے۔۔۔ پہلے آپ بتائیے۔ سنئے۔۔۔ میں نے صاف صاف کہہ دیا۔ بیگم صاحب یہ لو اپنا پانچ روپے کا مہر اور گھر کی راہ لو۔ بندہ تو شطرنج کھیلےگا۔۔۔ پر کھیلےگا۔۔۔ پان بناؤ تو بناؤ، نہیں تو گاڑی بڑھاؤ اور چلتی پھرتی نظر آؤ۔ آخر جھک مار کر بنانا پڑے، اور وہی مثل رہی۔
پانڈے جی پچھتائیں گے
وہی چنے کی کھائیں گے
تو بات یہ ہے۔۔۔ مرزا صاحب بات یہ ہے کہ عورت ذات ذرا شطرنج کے خلاف ہوتی ہے اور ذرا کمزوری دکھائی اور سر پر سوار۔ خان صاحب نے اپنے بائیں ہاتھ کی کلمے کی انگلی پر داہنے ہاتھ کی دو انگلیوں کو سوار کرتے ہوئے کہا۔ اب میں یہ لیکچر سن کر ترکیب سوچ رہا تھا کہ کیا کروں۔ جو کہوں کہ اپنا راستہ دیکھو تو خانم سیدھی طوفان میل سے گھر پہنچےگی۔ ایک لمحہ نہیں رکےگی۔ گھر پر جی نہیں لگےگا۔ تار الگ دینے پڑیں گے اور ہفتہ بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد ہی لانا ہی پڑےگا۔‘‘
خان صاحب نے کہا، ’’چلی جانے دیجئے۔ جھک مار کر پھر آخر کو خود ہی آئیں گی۔ مہینہ، دو مہینہ، تین مہینہ آخر کتنے دن نہ آئیں گی۔‘‘ میں نے دل میں کہا کہ یہ علت ہے اور خان صاحب سے کہا کہ ’’مگر مجھے تکلیف ہو جائےگی۔‘‘
’’آپ بھی عجیب آدمی ہیں۔‘‘ خان صاحب نے چیں بہ چیں ہو کر کہا، ’’آپ شطرنج نہیں کھیل سکتے۔۔۔ لکھ لیجیے کہ آپ کے ’’گھر میں‘‘ آپ کا شطرنج کھیلنا سولی کر دیں گی۔ آپ نہیں کھیل سکتے۔۔۔‘‘
’’آخر کیوں؟‘‘
خان صاحب بولے، ’’لکھ لیجیے۔۔۔ بندہ خاں کی بات یاد رکھئےگا لکھ لیجئے۔۔۔‘‘
’’آخر کیوں لکھ لوں؟ کوئی وجہ؟‘‘
’’وجہ یہ!‘‘ خان صاحب نے اپنی داہنے ہاتھ کی مٹھی زور سے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر مار کر کہا، ’’وجہ یہ کہ معاف کیجئےگا آپ زن مرید ہیں۔۔۔ زن مرید۔۔۔! جدھر وہ جائیں گی ادھر آپ۔۔۔ (انگلی گھما کر نقل بناتے ہوئے) ’’ہائے جورو! ہائے جورو! ایسے کہیں شطرنج کھیلی جاتی ہے۔ لاحول ولا قوۃ۔‘‘ میں نے طے کر لیا کہ خانم سے اس بارے میں قطعی سخت لڑائی ہوگی۔ میں نہیں دبوں گا۔ یہ میرا شوق ہے، شوق۔ انہیں ماننا پڑےگا۔
(۲)
تین چار روز تک خانم سے سخت ترین جنگ رہی، یعنی خاموش جنگ، ادھر وہ چپ ادھر میں چپ۔ خانم کی مددگار استانی اور میرے مددگار خان صاحب۔ پانچویں دن یہ شطرنج دوبھر معلو م ہونے لگی۔ میری سپاہ کمزوری دکھا رہی تھی۔ جی تھا کہ الٹا آتا تھا۔ خاموش جنگ سے خدا محفوظ رکھے۔ ایسا معلوم ہوتا کہ جیسے گیس کی لڑائی ہو رہی ہے۔ غنیم کا گیس دم گھوٹے دیتا تھا۔ خان صاحب طرح طرح کے حملے تجویز کرتے تھے، مگر جناب اس گیس کی لڑائی میں کوئی تدبیر نہ چلتی تھی۔ خان صاحب ماہر فنون تھے مگر جرمن گیس کا جواب توپ اور بندوق نہیں دے سکتی۔ یہ انہیں معلوم نہ تھا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ پرانے زمانے کی لڑائیاں لڑے ہوئے بیچارے کیا جانیں کہ خاموشی کا گیس کیا بلا ہوتی ہے۔ میری کمزوری پر دانت پیستے تھے، کہتے تھے، ’’نہ ہوا میں۔۔۔ دکھا دیتا۔‘‘
خان صاحب اول تو خود جنگی آدمی اور پھر جنرل بھی اچھے، مگر جناب سپاہی ہمت ہار جائے تو جنرل کیا کرے۔ چھ دن گزر گئے اور اب میں جنگ مغلوبہ لڑ رہا تھا۔ بہت ہمت کی، بہت کوشش کی، مگر ہار ہی گیا۔ شرائط صلح بھی بہت خراب تھی۔ شاید معاہدہ ورسیلز جس طرح ترکوں کے لئے ناقابل پذیرائی تھا، اسی طرح میرے لیے بھی شرائط ضرورت سے زیادہ سخت تھیں، مگر بقول ’’بزور شمشیر و بنوک سنگین‘‘ مجھ کو مجبوراً صلح نامہ پر دستخط کرنا پڑے اور صلح نامہ کی سخت شرائط ذرا ملاحظہ ہوں؛
(۱) خان صاحب سے تمام تعلقات دوستی منقطع کر دوں گا، وہ گھر پر آئیں گے تو کہلوا دوں گا کہ نہیں ہوں۔ ویسے حصہ وغیرہ ان کے یہاں جائےگا اور آئےگا۔
(۲) شطرنج کھیلنا بالکل بند۔ اب کبھی شطرنج نہیں کھیلوں گا۔ خصوصاً رات کو تو کھیلوں گا ہی نہیں۔
(۳) شطرنج کے علاوہ تاش بھی نہیں کھیلوں گا۔ سوائے اتوار کے، رات کو وہ بھی نہیں۔
(۴) رات کو دیر کر کے آنا شطرنج کھیلتے رہ جانے کے برابر متصور ہوگا۔ کوئی ثبوت لیے بغیر تصور کر لیا جائےگا کہ شطرنج کھیلی گئی۔ کوئی عذر تسلیم نہ کیا جائےگا۔
پانچویں اور چھٹی شرط میں خود بیان کرنا پسند نہیں کرتا۔
ساتویں شرط یہ تھی کہ اس معاہدہ کی پابندی نہ کی گئی تو ’’تم اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر خوش۔‘‘
خان صاحب سے میں نے اپنی شکست اور شرائط صلح کا ذکر صاف صاف نہیں کیا مگر اتنا ضرور تسلیم کیا کہ مہرے برابر استانی جی کے لڑکے سے چروائے جاتے رہے۔ پھر صلح کا ذکر کیا اور اس کے بعد کچھ روز کے لیے مصلحتاً شطرنج کھیلنا بند کرنے کا ذکر کیا۔ خان صاحب تجربہ کار آدمی تھے۔ دانت نکال کر انہوں نے ران پر ہاتھ مار کر پہلے تو دنیا بھر کی لڑاکا بیویوں کو گالیاں دیں اور پھر کہا، ’’میاں لمڈے ہو۔ مجھ سے باتیں بنانے آئے ہو۔ بیوی کی جوتیاں کھا رہے ہو! شطرنج کھیلیں گے۔۔۔ یہ شطرنج ہے! ہونہہ۔۔۔ میں نہ کہتا تھا۔۔۔ میری بلا سے۔ تم جانو تمہارا کام، مگر لکھ لو ایک دن سر پکڑ کر روؤگے۔۔۔ گھر والی کو اتنا سر پر نہیں چڑھاتے۔۔۔ تم جانو تمہارا کام۔۔۔ جب کبھی ملاقات ہوئی علیک سلیک کر لی۔ بس لکھ لو۔۔۔‘‘
خان صاحب کی گفتگو سے کچھ پھریری سی آئی۔ گھر میں آیا تو خانم کو پھول کی طرح کھلا ہوا پایا۔ لاحول ولا قوۃ۔
شطرنج جائے چولھے میں۔ اتنی اچھی بیوی سے شطرنج کے پیچھے لڑنا حماقت ہے۔ کون لڑے۔ گول کرو۔
کسی نے سچ کہا ہے چور چوری سے جائے تو کیا ہیرا پھیری بھی چھوڑ دے۔ لگے ہاتھوں ادھر ادھر کبھی کبھار ایک دو بازیاں جم ہی جاتیں۔ کبھی خان صاحب کے یہاں پہنچ گیا تو کبھی میر صاحب کے یہاں۔ پھر بات چھپی نہیں رہتی۔ خانم کو بھی معلوم ہو گیا کہ کبھی کبھار میں کوئی جرم نہیں۔ خود خانم نے ہی کہا۔ میرا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ قسم کھانے کو بھی نہ کھیلو، کھیلو، شوق سے کھیلو، مگر ایسے کھیلو کہ کبھی کبھار ایک دو بازی وقت پر کھیل لیے، نہ یہ کہ یہ کہ جم گئے تو اٹھتے ہی نہیں۔
خانم کو نہیں معلوم کہ ’’کبھی کبھار‘‘ سے اور شطرنج سے باپ مارے کا بیر ہے۔ کبھی کبھار والا بھلا کھیلنے والے کے آگے کیا جمے؟ جو لوگ مجھ سے آٹھ آٹھ ماتیں کھاتے تھے وہ الٹی مجھے آٹھ آٹھ پلانے لگے۔ دو ایک روز پھر ایسا ہوا کہ قدرے قلیل دیر سے آنا پڑا۔ خانم نے کبھی ناک بھویں سکیڑیں، کبھی ذرا چیں بہ جبیں ہوئیں، لیکن کبھی چپقلش کی نوبت نہ آئی، بس بڑبڑا کر رہ گئیں۔ ’’پھر وہی شطرنج بازی۔۔۔ خان صاحب کے ساتھ۔۔۔ پھر کھیلنے لگے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ غرض اسی قسم کے جملوں تک خیریت گزری۔
(۳)
ایک روز کا ذکر ہے کہ خانم نے بزاز سے بمبئی کے کام کی عمدہ عمدہ ساڑیاں منگائی تھیں۔ ایک ساڑی بےحد پسند تھی، مگر جیب میں اتنے دام نہیں۔ بار بار بےچین ہو کر وہی پسند آتی، مگر میرے پاس بھلا اتنے دام کہاں۔ کیسی اچھی ہے۔۔۔ رنگ تو دیکھو۔۔۔ بیل! کیا کام ہو رہا ہے۔۔۔ اور پھر کپڑا۔۔۔ وہ جو میں دلا رہا تھا، اس کو طرح طرح سے گھما پھرا کر اس طرح مہنگا ثابت کیا گیا کہ سستا روئے بار بار اور مہنگا روئے ایک بار۔ ایسے موقع پر غریب شوہر کے کلیجہ پر ایک گھونسا لگتا۔ دل پر سانپ سا لوٹ جاتا ہے۔ دل ہی دل میں کہتا ہے کہ ’’ظالم تجھے کیا خبر میرا بس چلے تو جہان لے دوں مگر کیا کروں۔ بیوی بھی بے بسی کو دیکھتی ہے۔ مجبوری کو تسلیم کرتی ہے۔ ایک سانس لے کر چپ سی ہو جاتی ہے۔ مرد کے لئے شائد اس سے زیادہ کوئی تکلیف دہ چیز نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک دفعہ وہ اس تکلیف کو برداشت نہ کرے اور کہیں نہ کہیں سے روپیہ پیدا کرے۔ اپنی چہیتی کا کہنا کر دے مگر وہاں تو یہ حال ہے کہ آج ساڑی کا قصہ ہے تو کل جمپر کا اور آج یہ چیز ہے تو کل وہ چیز۔ کہاں تک کرے۔ بیوی بیچاری بھی کچھ مجبور نہیں کرتی مگر اس کی آنکھیں مجبور ہیں۔ زبان قابو میں ہے، مگر دل قابو میں نہیں۔ عمر کا تقاضا ہے، کیا اس سے بھی گئی گزری۔
غرض ایسا ہی موقع آیا۔ پسند کردہ ساڑھی نہ لی جا سکتی تھی اور نہ لینے کی طاقت تھی۔ مجبوراً ایک دوسری پسند کی گئی تھی اور دام لے کر میں خود جا رہا تھا کہ کچھ نہیں تو دس پانچ روپیہ اسی میں کم کر دے اور اگر آدھے داموں میں دے دے تو پھر بڑھیا والی ہی لیتا آؤں۔ چلتے وقت خانم نے کہا، ’’دیکھئے ادھر سے جائیےگا۔ ادھر سے ہو کر۔‘‘ انگلی کے اشارہ سے کہا۔ اس سے یہ مطلب تھا کہ دوسری سڑک سے یعنی خان صاحب کے گھر سے بچتے ہوئے کہ شطرنج نہ کھیلنے لگوں۔ میرا ارادہ شطرنج کا نہ تھا۔ میں نے ہنس کر کہا، ’’اب ایسا دیوانہ بھی نہیں کہ کام سے جا رہا ہوں اور چھوڑ چھاڑ شطرنج پر ڈٹ جاؤں۔‘‘ خان صاحب کی بیٹھک کے سامنے سے گزرا تو دیکھوں کہ کچھ بھیڑ بھڑکا ہے۔ جی نہ مانا، رفتار کچھ ہلکی ہی تھی۔ آواز سن کر خان صاحب ننگے پیر چوکھٹ پر کھڑے ہو کر چلائے، ’’اجی مرزا صاحب‘‘ اونگھتے کو ٹھیلنے کا بہانہ، سائکل کا انجن روک دیا اور اتر پڑا۔
’’دور ہی دور سے چلے جاؤگے۔ ایسا بھی کیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر خان صاحب نے ہاتھ پکڑ کر مونڈھے پر بٹھایا۔ ایک نئے شاطر آئے ہوئے تھے۔ دو یا تین ماتیں میر صاحب کو دے چکے تھے۔ اب ایک اور صاحب ڈٹے ہوئے تھے۔ بڑے زور کی بازی ہو رہی تھی۔ دونوں بازیاں برابر کی تھیں۔ گزشہ بازیوں کی خان صاحب نے تفصیل سنائی۔ میر صاحب نے بتایا کہ کس طرح پہلی بازی میں خان صاحب نے ایک غلط چال بتا کر ان کا گھوڑا پٹوا دیا اور پھر کس طرح دھوکہ میں خود انہوں نے اپنا رخ پیدل کے منہ میں رکھ دیا۔ ورنہ وہ بازی میر صاحب ضرور جیت جاتے بلکہ جیت ہی گئے تھے۔ کیونکہ قلعہ دشمن کا توڑ ہی دیا تھا اور بادشاہ زچ بیٹھا تھا۔ بس ایک گھوڑے کی شہ کی دیر تھی کہ غلطی سے پیدل کے منہ میں رخ رکھ دیا۔ ورنہ گھوڑا کم ہونے پر بھی انہوں نے مات کر دی ہوتی۔ نئے شاطر نے کچھ اس کی تردید کی، وہ دراصل کافی دیر کرتے مگر مجبوری تھی اور کھیل میں منہمک تھے۔ دوسری بازی کی تفصیل بھی میر صاحب سنانا چاہتے تھے کہ کن غیر معمولی وجوہات سے اتفاقاً یہ بازی بھی بگڑ گئی، مگر اب موجودہ کھیل زیادہ دلچسپ ہوا جا رہا تھا۔
بازی بہت جلد ختم ہو گئی اور نئے شاطر پھر جیتے۔ میں خان صاحب سے یہ کہتا ہوا ا ٹھا کہ ’’ابھی آیا کچھ کپڑا لے آؤں۔‘‘ خان صاحب نے بڑے پختہ وعدے لیے جب جا کر چھوڑا۔ کپڑے والے کی دکان پر پہنچا اور ساڑھی خریدی۔ دام نقد ہی دے دیے۔ لالہ صاحب بہت معقول آدمی تھے اور بقول ان کے تمام کپڑے مجھے دام کے دام پہ دے دیتے تھے۔ دکان سے ساڑھی لے کر واپس آیا اور خان صاحب کے یہاں شطرنج دیکھنے لگا۔ بڑے کانٹے کی شطرنج کٹ رہی تھی۔ کیونکہ میر صاحب نے ان نو وارد شاطر کو ایک مات دی تھی اور اب دوسری بازی بھی چڑھی ہوئی تھی۔
میرے بتانے پر نو وارد صاحب نے بھنا کر میری طرف دیکھا اور کہا، ’’بولنے کی نہیں ہے صاحب۔‘‘ خان صاحب تیز ہو کر بولے، ’’میر صاحب کیا اندھے ہیں؟ کیا انہیں اتنا نہیں دکھائی دیتا کہ مہرہ پٹ رہا ہے۔ کیا وہ ایسے اناڑی ہیں؟‘‘
’’آپ اور بھی بتائے دیتے ہیں‘‘ نو وارد نے کہا۔ ادھر صاحب واقعی اندھے ہو رہے تھے اور اگر خان صاحب نہ بولتے تو گھوڑا مفت پٹ گیا ہوتا۔ وہ گھوڑے کو پٹتا چھوڑ کر رخ چل رہے تھے۔ اب رخ کی چال واپس کر کے انہوں نے گھوڑا پکڑا۔
’’چال ہو گئی۔‘‘ نووارد نے بگڑ کر کہا۔ ’’چال کی واپسی نہیں۔‘‘
میر صاحب جل کر بولے، ’’جھوٹی موٹی تھوڑی ہو رہا ہے۔ شطرنج ہو رہی ہے۔ چال کی واپسی کی برابر نہیں، مگر میں نے چال بھی تو نہیں چلی۔ میں نے رخ کو چھوا اور چال ہو گئی؟ یہ کیا۔۔۔؟ روتے ہو۔۔۔‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ نووارد نے کہا۔ ’’چال ہو گئی آپ کو رخ وہی رکھنا پڑےگا۔ میں چال واپس نہیں دوں گا۔ یہ کہہ کر رخ اٹھا کر اس جگہ رکھ لیا اور میر صاحب نے پھر واپس رکھ لیا۔ تیز ہو کر نووارد نے جھنجھلا کر کہا، ’’جی نہیں چلنا پڑےگا۔‘‘ اور پھر اپنی چال بھی چال دی۔ یعنی رخ سے میر صاحب کا گھوڑا مار مٹھی میں مضبوط پکڑ لیا۔ میر صاحب نے اور خان صاحب نے ہلڑ سا مچایا۔ میر صاحب کو جو تاؤ آیا تو گھوڑے کو رخ سے مار دیا۔ نووارد نے رخ کو رخ سے مارا تو خان صاحب نے غصہ میں اپنے وزیر سے مخالف کے فیل کو دیدہ و دانستہ مار کر وزیر پٹاکر مہرے بساط پر یہ کہہ کر پٹک دیئے ’’شطرنج کھیلتے ہو کہ روتے ہو؟ یہ لو میں ایسے اناڑیوں سے نہیں کھیلتا۔‘‘
اب میں بیٹھا، مگر نہ میر صاحب کی زبان قابو میں تھی اور نہ خان صاحب کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میر صاحب میرے مہرے اٹھا اٹھا کر چلنے لگے۔ دو ملاؤں میں مرغی حرام، وہ مضمون اس بازی کا ہوا۔ شیخ جی (نووارد) ویسے بھی اچھی شطرنج کھیلتے تھے، بازی بگڑنے لگی کہ میر صاحب نے پھر ایک چال واپس کی۔ شیخ جی نے ہاتھ پکڑ لیا حالانکہ میر صاحب چال چل چکے تھے، مگر کہنے لگے کہ ’’ابھی تو مہرہ میرے ہاتھ میں تھا۔‘‘ خوب خوب جھائیں جھائیں ہوئی۔ شیخ جی مہرہ پھینک کر بگڑ کھڑے ہوئے، نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ جی بھاگ گئے۔ میں بھی اٹھنے کو ہوا تو میر صاحب نے کہا کہ ’’آو ایک بازی ہو جائے۔‘‘ میں نے گھڑی دیکھی۔ ابھی تو شام ہی تھی، میں نے جلدی جلدی مہرے جمائے کہ لاؤ ایک بازی کھیل لوں۔
میر صاحب روز کے کھیلنے والے، جھٹ پٹ انہوں نے مات کر دیا۔ میں نے جلدی سے دوسری بچھائی۔ وقت کی بات میر صاحب نے وہ بھی مات کیا۔ تیسری بچھائی، یہ دیر تک لڑی۔ میری بازی چڑھی ہوئی تھی اور میں ضرور جیت جاتا کہ میرا وزیر دھوکہ میں پٹ گیا۔ چال واپس کی ٹھہری نہیں تھی۔ یہ بھی میر صاحب جیتے۔ خوش ہو کر کہنے لگے، ’’اب تم سے کیا کھیلیں، ہماری شطرنج خراب ہوتی ہے۔ کوئی برابر والا ہو تو ایک بات تھی۔‘‘
مجھے غصہ آ رہا تھا۔ میں نے کہا، ’’میر صاحب وہ دن بھول گئے۔ جب چار چار مات دیتا تھا اور ایک نہیں گنتا تھا۔ میری شطرنج چھوٹی ہوئی ہے۔‘‘ میر صاحب نے اور میری جان جلائی کہنے لگے، ’’ہار جاتے ہیں تو سب یوں ہی کہتے ہیں۔‘‘ غرض پھر ہونے لگی، اب میں جیتا۔ میں کوشش کر رہا تھا کہ تینوں بازیاں اتار دوں اور میں نے دو اتار دیں اور تیسری زور سے جمی ہوئی تھی کہ خان صاحب نے سر اٹھا کر باہر جھانکا، ’’کون ہے؟‘‘ انہوں نے کہا اور سارس کی سی گردن اونچی کر کے دیکھا اور کہا، ’’لیجیے۔‘‘ کچھ طنزاً کہا۔ ’’لیجئے وہ ایلچی آ گیا۔‘‘
یہ میرا ملازم احمد تھا۔ وہ جا رہا تھا۔ میں نے آواز دے کر بلایا، ’’کیوں کیسے آئے۔‘‘
’’کچھ نہیں صاحب۔۔۔ دیکھنے بھیجا تھا۔‘‘
’’اور کچھ کہا تھا؟‘‘
’’جی نہیں بس یہی کہا تھا کہ دیکھ کے چلے آنا۔۔۔ جلدی سے۔‘‘
’’تو دیکھو‘‘ میں نے کہا۔ ’’کہا کہو گے جا کے؟ یہ کہنا کہ خان صاحب کے یہاں نہیں تھے۔ یوسف صاحب کے یہاں تھے۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔ تم سے تو یہی کہا ہے کہ خان صاحب کے یہاں دیکھ لینا۔۔۔ تو بس یہی کہہ دینا نہیں تھے۔۔۔ دیکھو۔۔۔‘‘
’’لا حول ولا قوۃ۔‘‘ خان صاحب نے بگڑ کر کہا۔ ’’ارے میاں تم آدمی ہو کہ پنج شاخہ! بیوی نہ ہوئی نعوذ باللہ وہ ہو گئی۔‘‘ نہیں جی۔ ’’خان صاحب نے غصہ سے احمد سے کہا، ’’جاؤ کہنا خان کے یہاں بیٹھے شطرنج کھیل رہے ہیں اور ایسے ہی کھیلیں گے۔‘‘
’’نہیں نہیں دیکھو۔۔۔‘‘ میں نے کہا مگر خان صاحب نے جملہ کاٹ دیا۔
’’جاؤ یہاں سے کہہ دینا شطرنج کھیل رہے ہیں۔‘‘
’’مت کہنا۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’ابھی آتا ہوں۔‘‘
احمد چلا گیا اور اب خان صاحب نے مجھے آڑے ہاتھوں لیا۔ بہت سی انہوں نے تجویزیں میرے سامنے پیش کیں، مثلاً یہ کہ ’’میں ڈوب مروں۔۔۔ دوسری شادی کر لوں۔۔۔ گھر چھوڑ دوں۔۔۔ یہ سب محض اس وجہ سے کہ ایسی زندگی سے کہ بیوی کی سخت گیری کی وجہ سے شطرنج کھیلنا نہ ملے، موت سے بدرجہا بہتر۔ غرض اسی حجت اور بحث میں میرا ایک رخ پٹ گیا اور میری بازی بگڑنے لگی کہ میں نے میر صاحب کا وزیر مار لیا۔ میر صاحب غصہ ہو کر پھاند پڑے، ’’ادھر لاؤ وزیر۔۔۔ ہاتھ سے وزیر چھینتے ہو۔ ابھی تو میرے ہاتھ میں ہی تھا۔‘‘
’’اس کی نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’وزیر واپس نہیں دوں گا۔ ابھی ابھی تم نے مجھ سے گھوڑے والا پیدل زبردستی چلوا لیا تھا اور اب اپنی دفعہ یوں کہتے ہو! میں نہیں دوں گا۔‘‘
خان صاحب بھی میر صاحب کی طرف داری کرنے لگے۔ مگر یہ آخری بازی تھی جس سے میں برابر ہوا جا رہا تھا، لہذا میں نے کہا کہ میں ہرگز ہرگز چال واپس نہ دوں گا۔ خوب خوب حجت ہوئی، گزشتہ پرانی بازیوں کا ذکر کیا گیا۔ مجھے ان سے شکایت تھی کہ پرانی ماتیں جو میں نے ان کو دی تھیں وہ بھول گئے اور یہی شکایت ان کو مجھ سے تھی۔ پرانی ماتوں کا نہ میں نے اقبال کیا اور نہ انہوں نے۔ بالاخر جب یہ طے ہو گیا کہ میں وزیر واپس نہیں دوں گا تو میر صاحب نے مہرے پھینک کر قسم کھائی کہ اب مجھ سے کبھی نہ کھیلیں گے، لعنت ہے اس کے اوپر جو تم سے کبھی کھیلے۔ بے ایمان کہیں کے، تف ہے اس کم بخت پر جو تم سے اب کھیلے۔‘‘
میں نے بھی اسی قسم کے الفاظ دہرائے اور نہایت بدمزگی سے ہم دونوں اٹھنے لگے۔ خان صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا، ’’بھئی یہ تو کچھ نہ ہوا برابر برابر ہو گئی۔ ایک کو ہارنا چاہیے۔‘‘ اس پر میر صاحب بولے کہ میں جیتا اور میں بولا کہ یہ غلط کہتے ہیں، برابر ہے، خان صاحب نے کہا کہ اچھا، ایک بازی اور ہو، مگر میر صاحب کہنے لگے، ’’تو یہ ہے، ارے میاں خان صاحب تم مسلمان ہو اور میرا یقین نہیں کرتے میں قسم کھا چکا، لعنت ہو اس پر جو اب ان سے کھیلے۔‘‘ میں نے میر صاحب سے طنزاً کہا، ’’میر صاحب قبلہ یہ شطرنج ہے‘‘ اس کو شطرنج کہتے ہیں۔ مذاق نباشد۔ ابھی سیکھئے کچھ دن۔‘‘
’’ارے جاؤ۔‘‘ میر صاحب بولے۔ ’’بہت کھلاڑی دیکھے ہیں۔ نہ معلوم تم سے کتنوں کو سکھا کر چھوڑ دیا۔ ابھی کچھ دن اور کھیلو۔‘‘ اسی قسم کی باتیں کرتے ہوئے میر صاحب اٹھ کر چلے گئے۔ خان صاحب میرے لیے پان لینے گئے، میں اپنی سائکل کے پاس پہنچا اور بتی جلائی۔ اتنے میں خان صاحب پان لے کر آ گئے اور میں چل دیا۔
بمشکل سامنے کے موڑ پر پہنچا ہوں گا کہ سامنے سے ایک آدمی نے ہاتھ سے مجھے روکا۔ میں رک گیا تو اس نے پیچھے اشارہ کیا۔ مڑ کر دیکھتا ہوں کہ میر صاحب چلاتے بھاگتے آتے ہیں، ’’اجی مرزا صاحب، خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔‘‘ میر صاحب ہانپتے ہوئے بولے۔ ’’واللہ میں نے اچھی طرح حساب کیا کعبہ کے رخ ہاتھ اٹھا کر کہتا ہوں میری دو بازیاں اس آخری بازی کو چھوڑ کر تمہارے اوپر چڑھی رہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’بالکل غلط، بلکہ میری ہی آپ پر ہوں گی۔ آپ وہ اس اتوار والی بازی بھی لگاتے ہوں گے، وہ جس میں آپ کا رخ کم تھا۔‘‘
’’کیوں نہیں ضرور لگاؤں گا۔‘‘ میر صاحب نے کہا۔
’’یہ کیسے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’خوب! خان صاحب کی بازی اگر میں دیکھنے لگا اور ایک آدھ چال بتا دی تو وہ مات مجھے کیسے ہوئی۔‘‘
’’اچھا وہ بھی جانے دو خیر تو پھر ایک تو رہی۔‘‘
’’وہ کون سی؟‘‘
’’وہ جو شوکت صاحب کے یہاں ہوئی تھی۔‘‘
’’کون سی، کون سی مجھے یاد نہیں۔‘‘
’’ہاں ہاں بھلا ایسی باتیں تمہیں کیوں یاد رہنے لگیں، ایسے بچہ ہونا۔‘‘
’’مجھے تو یاد نہیں میر صاحب۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’ہمیشہ آپ کو مات دے کر چھوڑ کر اٹھا ہوں یا اتار کر، ورنہ آپ پر چڑھا کر۔‘‘
’’ارے میاں ایک روز سب کو مرنا ہے۔ کیوں اپنی عاقبت ایک بازی شطرنج کے پیچھے خراب کرتے ہو۔ ذرا خدا اور رسولﷺ سے نہیں ڈرتے۔ شرم نہیں آتی، مات پہ مات کھاتے ہو اور بھول جاتے ہو۔‘‘
’’میر صاحب۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’آپ تو تین جنم لیں تب بھی مجھے مات دینے کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔ وہ اور بات ہے کہ بھول چوک میں ایک آدھ بازی پڑی مل جائے۔‘‘
’’ارے تم بیچارے کیا کھا کے کھیلو گے۔ گھر والی تو قابو میں آتی نہیں۔ میاں شطرنج کھیلنے چلے ہیں۔ اب دس برس رخ اٹھا کے کھلاؤں۔ کیا بتاؤں قسم کھا چکا ہوں ورنہ ابھی بتا دیتا۔‘‘
’’میر صاحب یہ شطرنج ہے۔‘‘ میں نے طنزاً کہا۔ ’’کبھی خواب میں بھی جیتے ہو؟‘‘
’’کیا قسم میری تم تڑواؤگے؟‘‘
’’ابھی شطرنج سیکھئے۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے پیر مار کے انجن اسٹارٹ کر دیا اور سائیکل کو آگے بڑھایا۔
’’تو پھر ایک بازی میری رہی۔‘‘ میر صاحب ہینڈل پکڑ کر بولے۔
’’غلط بات۔‘‘ میں نے کہا۔
لیکن، میر صاحب نے سائیکل کو روک کر کھڑا کر دیا اور بولے۔ ’’ماننا پڑے گی۔‘‘
میں نے کہا، ’’نہیں مانتا۔‘‘
میر صاحب پھر بولے، ’’تمہیں ماننا پڑے گی۔ نہیں تو پھر آ جاؤ۔۔۔ ابھی۔۔۔ قسم تو ٹوٹے ہی گی۔۔۔ خیر لیکن بازی۔‘‘
میں نے کچھ سوچا۔ یہ واقعہ تھا کہ اگر کھیلوں تو میر صاحب بھلا کیا جیت سکتے تھے۔ لہٰذا میں نے میر صاحب سے طے کر لیا کہ بس ایک بازی پر معاملہ طے ہے۔ میں ہار جاؤں یا وہ ہاریں تو ہمیشہ ہارے کہلائیں گے۔ سودا اچھا تھا۔ لہٰذا میں نے سائیکل موڑ لی۔ خان صاحب کے اخلاق کو دیکھیے۔ کنڈی کھٹکھٹاتے ہی کھانا کھانے سے اٹھ کر آئے اور ’’بھئی واللہ!‘‘ کہہ کر پھر اندر گس گئے اور پھر جو آئے تو لالٹین اور کھانے کی سینی ہاتھ میں لیے۔ بہت کچھ معذرت کی مگر بیکار، خان صاحب نے زبردستی کھلایا اور پھر شاباش ہے خان صاحب کی بیوی کو۔ انڈے جلدی سے تل کر فوراً تیار کیے۔ کھانا وغیرہ کھا کر ہم دونوں نے اپنا معاملہ خان صاحب کے سامنے پیش کیا۔ قصہ مختصر شطرنج جم گئی۔ مجھے جانے کی بڑی فکر تھی کہ خانم کیا کہےگی، مگر ایک بازی کا کھیلنا ہی کیا۔
شروع ہی سے میری بازی چڑھ گئی اور تابڑ توڑ دو چار تیز چالیں نکال کے اپنے رخ سے میر صاحب کا وزیر عروب میں لے لیا۔ میر صاحب نے یہ کہہ کر مہرے پھنک دیے کہ یہ ’’اتفاق کی بات ہے نظر چوک گئی۔‘‘ میں اٹھ کر چلنے لگا کہ دیر ہو رہی ہے۔ خان صاحب نے ہاتھ پکڑا کہ ایک بازی اور سہی۔ میر صاحب چپ تھے کہ میں نے کہا، ’’اب ہم دونوں برابر ہو گئے، اب کوئی ضرورت نہیں۔، خان صاحب ہنس کر بولے کہ ’’واہ یہ طے ہو جانا چاہیے کہ کون زبردست کھلاڑی ہے، برابر رہنا ٹھیک نہیں۔‘‘ ادھر میر صاحب نے کہا کہ اب اس اتوار والی بازی کو پھر شمار کر لیا جائے، جس سے وہ دستبردار ہو گئے تھے اور کہنے لگے کہ ایک اب بھی مجھ سے جیتے ہیں۔ ادھر خانم کا ڈر لگا ہوا، ادھر میر صاحب کی ضد اور خان صاحب کی کوشش۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بس ایک بازی اور ہو اور طے ہو جائے۔ قسمت کی خوبی کہ بازی جمائی اور چو مہری اٹھی، اس کے بعد کی بازی میر صاحب نے ایک چال پر قائم کر دی۔ شہ، شہ، شہ، شہ۔ بس شہ دیے جائیں تو ان کی بچت ہے، یہ بھی قائم اٹھی۔ پھر دوسری بازی بچھی اس کو میں بڑی کامیابی کے ساتھ کھیلا اور میں نے سوچا پیدل کی مات کروں گا۔ پورا مہرہ زائد تھا، مگر بدقسمتی سے میر صاحب کا بادشاہ زچ ہو گیا اور یہ بھی قائم اٹھی۔ میں گھبرا گیا۔ بڑی دیر ہو گئی تھی۔ جاڑوں کے دن تھے۔ گھڑی پر نظر کی، ساڑھے بارہ بجے تھے۔
(۴)
میں گھبراکر اٹھا۔ بڑی دیر ہو گئی۔ اب کیا ہوا؟ خانم کیا کہے گیَ خوب لڑے گی۔ بڑی گڑبڑ کرے گی، غالباً صبح تک لڑتی رہےگی۔ کیا کیا جائے؟ کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا۔ ایک تدبیر سمجھ میں آ گئی، سیدھا بزاز کی دکان پر پہنچا۔ دوکان بند تھی۔ مکان معلوم تھا، رات کو لالہ کو جا کھٹکھٹایا۔ لالہ گھبرائے ہوئے باہر نکلے۔ میں نے مطلب بیان کیا کہ ’’وہ عمدہ والی ساڑی دے دو۔ ابھی ابھی چاہئے۔‘‘ لالہ صاحب گھبرائے، کہا۔ ’’خیر تو ہے؟‘‘ مگر میں نے کہا کہ ابھی دو۔ لالہ نے بہانے کیے، مگر میں کب ماننے والا تھا۔ لالہ نے اپنے دو آدمی ساتھ لئے اور میں نے وہی عمدہ والی ساڑی لے لی اور جو پہلے لے گیا تھا وہ واپس کر دی۔ اب سیدھا گھر کا رخ کیا۔ جیسے ہی پھاٹک میں داخل ہوا انجن روک دیا اور پیدل گاڑی کو گھسیٹتا لے چلا۔ گاڑی کھڑی کر کے بنڈل ہاتھ میں لیا اور چپکے سے دروازے کا رخ کیا کہ اپنے ہی کتے نے ٹانگ لی۔ اسے چپکا کیا اور برآمدے میں پہنچ کر راستہ تلاش کیا۔ سب دروازے بند تھے۔ خیال آیا کہ غسل خانے کی چٹخنی ڈھیلی ہے، مگر وہاں بھی ناکامی ہوئی۔ صحن کی دیوار پر چڑھنے کی ٹھانی۔ نیم کے نیچے بھینس بندھتی تھی۔ اس کی ناندپر کھڑے ہو کر ایک پیر دروازہ پر رکھ کر دوسرے ہاتھ کا سہارا لے کر اندر داخل ہوا۔ دھیرے دھیرے سونے کے کمرے کی طرف چلا۔ چاروں طرف سناٹا تھا اور میں چپکے سے کپڑے بدل کر کمرے میں داخل ہو گیا اور بڑی پھرتی سے لحاف کے اندر گھس گیا۔
میں سمجھا کہ خانم سورہی ہے، مگر وہ جاگ رہی تھی۔ وہ جھوٹ موٹ کھانسی گویا یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ ’’میں جاگتی ہوں، ادھر میں کھنکارا کہ، ’’جاگتی ہو تو کیا کر لوگی۔ میرے پاس بڑھیا والی ساڑی ہے۔‘‘ ایک اور کروٹ انہوں نے لی اور پھر بڑبڑائیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ میں بھلا کب دبنے والا تھا۔ میں نے کہا، ’’کیوں، کیا جاگتی ہو؟‘‘
وہ بولیں، ’’تمہاری بلاسے۔ تم شطرنج کھیلنے جاؤ، میں کل جاتی ہوں۔‘‘
’’تم بھی عجیب عورت ہو!‘‘ میں نے ڈانٹ کر کہا۔ ’’بزاز کے یہاں گیا وہاں پر خان صاحب مل گئے اور زبردستی انہوں نے وہی پیازی رنگ والی ساڑی دلوا دی۔ بہت کچھ میں نے کہا کہ دام نہیں مگر۔۔۔‘‘
’’پھر؟‘‘ خانم نے بات کاٹ کر کہا۔ ’’پھر وہ ساڑی کیا ہوئی؟‘‘ اٹھ کر وہ لحاف میں بیٹھ گئیں۔
’’ہوئی کیا۔۔۔ وہاں سے ساڑی لے کر خان صاحب کے یہاں گیا، کھانا انہوں نے کھلایا، دو چار آدمی۔۔۔‘‘
’’ہوگا۔‘‘ خانم نے کہا۔ ’’ہوں گے آدمی، پھر وہ ساڑی وہی پیازی رنگ والی۔‘‘
’’یہ لو۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے بنڈل لا پرواہی سے خانم کے لحاف پر مارا۔ لیمپ کی روشنی فوراً تیز کر کے انہوں نے تیزی سے بنڈل کھولا۔ ساڑی کو کھول کر جلدی سے دیکھا پھر میری طرف بجائے غصہ کے ان کی آنکھوں سے محبت آمیز شکریہ ٹپک رہا تھا۔ شطرنج پر اعتراض تو کجا نام تک نہ لیا۔ ’’وہ مارا اناڑی کو۔‘‘ میں نے دل میں کہا۔
بہت دن تک تو جناب اسی ساڑی کی بدولت خوب دیر کر کے آیا۔ خوب شطرنج ہوتی رہی جیسے بیشتر ہوتی تھی۔ فرق تھا تو یہ کہ بجائے میرے گھر کے اب خان صاحب کے گھر پر جمتی۔ مگر رفتہ رفتہ غیر حاضری اور شطرنج بازی پر پھر بھویں چڑھنے لگیں۔ بجائے ملائمت کے ترش روئی اور سختی! دراصل استانی جی خانم کو بھڑکاتی رہتی تھیں۔ آہستہ آہستہ خانم نے پیچ کسنا شروع کیا۔ مگر شطرنج کسی نہ کسی طرح ہوتی ہی رہی۔
ساری خدائی ایک طرف، خانم کا بھائی ایک طرف۔ وجہ شاید اس کی یہ تھی کہ خانم کے بھائی اصلی معنی میں بھائی تھے۔ یعنی صورت شکل ہو بہو ایک، بالکل ایک ذرہ بھر بھی فرق نہ تھا۔ صرف گھنٹہ بھر بڑے تھے۔ جڑواں بہن بھائیوں میں بے حد محبت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے خانم کی مناسبت سے مجھے بھی خانم کے بھائی بےحد عزیز ہیں۔ پہلی مرتبہ بہن کے یہاں آئے۔ بہن کا نام سنتے ہی یہ حال ہو گیا کہ ننگے پیر دوڑ کر بھائی سے لپٹ گئی، بھائی خود بیتاب تھا، سینہ سے لگا کر بہن کی گردن کو بوسہ دیا۔ بھائی بہن نے گھنٹوں جم کر یکسوئی کے ساتھ اس طرح باتیں کیں کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ دونوں دیوانے ہیں۔ بہن اپنے بھائی کو کتنا چاہتی تھی۔ اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ میں خانم کو بھائی سے محبت دیکھ کر رشک کر رہا تھا۔ یہ شائد بھائی کی محبت کا ہی تقاضا تھا کہ خانم نے مجھے کونے میں لے جا کر بڑے پیار سے کہا کہ ’’دیکھو اب دو چار روز شطرنج نہ کھیلنا۔‘‘
میں نے خانم کے خوبصورت چہرے کو دیکھا۔ کس طرح اس نے محبت سے مجھ سے کہا، ’’شاید اسی طرز و انداز نے بت پرستی و شرک کی بنا ڈالی ہے! مظلوم غریب کیا کرے، ظالم کے کہنے کو کیسے رد کرے؟ خانم کی آنکھ کے نیچے کسی چیز کا ذرہ لگا ہوا تھا۔ میں نے اس کو ہٹانے کے لیے انگلی بڑھائی۔ آنکھیں جھپکا کر خانم نے خود رومال سے اس کو پاک کیا، پھر ہاتھ پکڑ کر اور بھی زیادہ صفائی سے زور دے کر شطرنج کو منع کیا۔
قبل اس کے کہ میں کچھ کہوں۔ خانم کے بھائی پکارے، ’’بجو۔۔۔‘‘
بیتاب ہو کر خانم نے کہا، ’’بھیا۔۔۔‘‘ اور بے تحاشہ جیسے توڑا کر بھاگی کہ بھیا خود آ گئے، ’’کیا کر رہی ہو؟ خانم کے بھائی نے اپنے خوبصورت چہرہ کو عجیب جنبش دے کر مسکراتے ہوئے کہا۔ ایک ٹھنڈی سانس بھر کر خانم نے اس طرح کہا جیسے کوئی دکھ بھری داستان کا حوالہ تھا، ’’شطرنج کو منع کر رہی ہوں۔۔۔ شطرنج۔۔۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’دن دن بھر کھیلتے ہیں۔ رات رات بھر کھیلتے ہیں اور وہ کم بخت خان صاحب ہیں کہ۔۔۔‘‘
’’بھائی خدا کے واسطے شطرنج چھوڑیے۔ آپ برج نہیں کھیلتے۔۔۔؟ برج کھیلا کیجئے۔‘‘ بھیا نے کہا۔ ’’ہاں برج کھیلیں مگر یہ شطرنج تو۔۔۔‘‘
’’بڑی خراب چیز ہے بھائی۔‘‘ بجو (بہن سے اپنی مخاطب کر کے کہا) تو ان کی شطرنج جلا ڈال۔‘‘
’’رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’بھیا میرے پاس۔۔۔‘‘ خانم ذرا چیخ کے بولی۔ ’’وہ کم بخت خان صاحب ایسے ہیں کہ ان کے ہاں جاجا کر کھیلتے ہیں۔۔۔‘‘
مجھ سے مخاطب ہو کر خانم نے کہا۔ ’’وعدہ کیجئے جب تک بھیا ہیں بالکل نہ کھیلئےگا۔‘‘ چنانچہ پختہ وعدہ کر لیا، پختہ!
(۵)
چلتے وقت خانم نے مسکرا کر انگلی گھما کر کہا تھا۔ ’’ادھر سے جائیےگا۔ ادھر سے۔‘‘ بھیا کی طرف میں نے مسکرا کے دیکھا۔ ’’دیکھتے ہو تم ان کا پاگل پن۔‘‘ بھیا کچھ نہ سمجھے کہ ان باتوں کا یہ مطلب ہے کہ خان صاحب کی طرف ہو کے مت جانا۔ میں تو چل دیا۔ بہن اپنے بھائی کو سمجھاتی رہی ہو گی کہ اس کا کیا مطلب ہے۔
’’وہ بھئی واہ! غضب کرتے ہو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے خان صاحب ہاتھ کا سگنل سامنے کئے ہوئے کھڑے تھے۔ ’’ایسا بھی کیا کہ پھٹ پھٹ کرتے بھاگتے جاتے ہو، سنتے ہی نہیں۔‘‘ میں نے گاڑی تو روک لی، مگر اترا نہیں اور ویسے ہی کنارے ہو کر کہا، ’’کام سے جا رہا ہوں، کام سے۔‘‘
’’ایسا بھی کیا ہے!‘‘ خان صاحب نے بازو پکڑے ہوئے کہا، ’’ذرا بیٹھو۔‘‘
’’اماں مرزا صاحب۔۔۔ مرزا جی۔۔۔‘‘ میر صاحب بیٹھک میں سے بولے۔ ’’واللہ دیکھو۔۔۔ تمہیں واللہ۔ اماں سنتے نہیں۔۔۔‘‘ ہاتھ سے بلا کر بولے، ’’تمہیں واللہ ذرا آ کر تماشا تو دیکھو، کیسا لالہ جی کا وزیر گھیرا ہے۔۔۔ ارے میاں ذرا۔۔۔‘‘
’’نہیں تمہیں ہم نہ چھوڑیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر خان صاحب نے گھسیٹا۔
’’بخدا مجھے بڑے ضروری کام سے جانا ہے۔ کل صبح تڑکے ہی موٹر چاہیے۔۔۔ اتوار کا دن ہے۔ ویسے ہی موٹر خالی نہیں ہوتا۔۔۔‘‘
’’بیر سٹر صاحب کے یہاں جا رہے ہوں گے۔۔۔ موٹر لینے۔۔۔ کیوں۔۔۔ کیا کرو گے؟‘‘
میں نے خان صاحب کو بتایا کہ خانم اور ان کے بھائی دونوں کو کل دن بھر مختلف مقامات کی سیر کرانا ہے۔
’’لاحول ولاقوۃ‘‘ خان صاحب نے مجھے گھسیٹتے ہوئے کہا، ’’اماں ہم سمجھے کوئی کام ہوگا۔۔۔ واللہ تم نے تو غضب ہی کر دیا۔ ذرا غور کرو۔۔۔ بھئی اندر چلو ذرا۔۔۔‘‘
’’میں رک نہیں سکتا۔‘‘
’’بخدا ذرا دیر کو۔۔۔ بس دو منٹ کو۔۔۔ بس پان کھاتے جاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر خان صاحب نے آخر گھسیٹ ہی لیا۔ بیٹھک میں پہنچا تو میر صاحب مارے خوشی کے بےحال تھے۔
’’واللہ۔۔۔ بھئی مرزا کیا بتاؤں تم نہ آئے۔ دیکھو ان کا وزیر یہاں تھا۔۔۔ میں نے پیدل جو آگے بڑھایا تو۔۔۔‘‘
’’تو مہرے آپ کیوں جگہ سے ہٹاتے ہیں۔ کھیلنا ہو تو کھیلئے‘‘ یہ کہہ کر لالہ صاحب نے میر صاحب کو چپ کیا اور ادھر خان صاحب نے اپنا سلسلہ کلام شروع کیا۔
’’تو۔۔۔ ہاں وہ آپ کیا کہہ رہے تھے۔۔۔ ہاں تو بات یہ ہے میاں تم ابھی نا تجربہ کار ہو۔ بھلا عورتوں کو موٹروں کی سیر سے کیا تعلق؟ خدارا کچھ سیکھو، جب ہی تو ہے نا کہ آپ کی ’’گھر میں‘‘ آپ شطرنج بھی نہیں۔۔۔‘‘
’’نقشہ دیکھو۔۔۔ ارے رے!‘‘ میرے صاحب نے زور سے پکڑ کر خان صاحب کو ہلا ڈالا، ’’و اللہ! بادشاہ کو گھیرا ہے۔۔۔ اپنا وزیر پٹا کر۔۔۔؟ مخالف سے مخاطب ہو کر، ’’مارئیے وزیر، لالہ صاحب۔۔۔ وزیر مارنا پڑےگا۔۔۔ مارو تو مات، نہ مارو تو مات۔۔۔ یہ لو مہرے اور بنو۔۔۔ بوندیں آ گئیں۔۔۔ اور بنو۔۔۔ ہٹاؤ چرخہ۔۔۔ یہ لو۔‘‘
میر صاحب نے واقعی خوب مات کیا تھا، اور میں اٹھنے لگا۔
’’بھئی ہم نہ جانے دیں گے۔۔۔ بغیر پان کھائے ہوئے۔۔۔‘‘ ارے پان لانا۔ خان صاحب نے زور سے آواز دی اور پھر کہا۔ ’’بھئی کوئی بات بھی ہے۔ عورتوں کو اول تو سیر کرانا ہی منع ہے اور پھر تم دیکھ رہے ہو کہ روز بروز تمہارے گھر کی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے۔۔۔ آج شطرنج کو منع کرتی ہیں کل کہہ دیں گی کچہری نہ جایا کرو۔۔۔ چھوڑو ان باتوں کو اور سہی تو ایک بازی میرصاحب کی دیکھ لو، چلے جانا، جلدی کاہے کی ہے۔‘‘
’’میر صاحب کا کھیل میں نے بہت دیکھا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’مجھے جلدی جانا ہے۔‘‘
’’میرا کھیل؟‘‘ میر صاحب بولے۔ ’’میرا کھیل دیکھا ہے۔۔۔ یہ کہو مذاق دیکھا ہے، تمہارے ساتھ کھیلتا تھوڑی ہوں۔ مذاق کرتا ہوں۔‘‘
’’اس روز زچ ہو گئی۔۔۔ بازی زچ ہو گئی ہو گی۔ ورنہ پیدل ہوتی اور وہ بھی پیدل پسند۔‘‘ ’’بازی تو آپ کی خوب چڑھی ہوئی تھی۔‘‘ خان صاحب نے تائید کی۔
’’جی ہاں۔‘‘ میر صاحب بولے، ڈھیل دے کر کاٹتا ہوں۔۔۔ ’’اناڑی کو بڑھا کر مارتا ہوں اور ایک میری اب بھی چڑھی ہوئی ہے۔‘‘
’’مر گئے چڑھانے والے۔‘‘ میں نے ترش روئی سے کہا، ’’میر صاحب یہ شطرنج ہے۔‘‘
پھر آ جاؤ نا۔۔۔ تمہیں آ جاؤ۔۔۔‘‘
’’بھائی ہو گی۔۔۔ ہو گی۔۔۔ ہٹو تو۔۔۔‘‘ خان صاحب نے شطرنج میری طرف گھسیٹتے ہوئے کہا۔
’’ہوگی۔۔۔ بس ایک بازی ہوگی۔‘‘
’’نہیں صاحب مجھے جانا ہے۔۔۔ ضروری کام سے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہم آدمی بھیج دیں گے۔۔۔ دیکھا جائےگا۔ اماں بیٹھو۔۔۔ رکو۔۔۔ بس، ایک۔‘‘
میں نے گھڑی کی طرف دیکھا۔۔۔ جماہی لے کر کہا۔ ’’اچھا لائیے۔ ایک بازی میر صاحب کو مات دے ہی دوں۔ آؤ بس ایک ہوگی۔‘‘
ایک بازی میر صاحب پر نظر کی چوک سے ہو گئی اور بڑی جلدی ہو گئی تو میں اٹھنے لگا۔ لیکن خاں صاحب نے آستین پکڑ لی کہ ’’بھئی یہ اتفاق ہے یہ کچھ نہیں ایک اور کھیل لو۔‘‘ میں نے کہا کہ ’’خیر اچھا کھیلے لیتا ہوں۔‘‘ اور بیٹھ گیا۔
مگر اتفاق تو دیکھیے کہ یہ اس سے بھی جلدی چٹ پٹ ہو گئی۔ میر صاحب کا چہرہ فق ہو گیا۔ غضب ہے دس منٹ میں دو بازیاں۔ خان صاحب نے پھر پکڑ لیا اور کہا کہ یہ کوئی بات نہیں۔ غرض اسی طرح پانچ بازیاں میر صاحب پہ ہو گئیں۔ اب میں بھلا کیسے جا سکتا تھا۔ کیوں نہ ساتھ بازیاں کر کے میر صاحب کی لنگڑی باندھوں اور پھر دو بازیاں اور یعنی پورے نوکر کا ’’نوشیرواں‘‘ کر دوں۔ ضروری کروں گا، ابھی تو بہت وقت ہے۔ میں نے کہا کہ، ’’میں جاتا ہوں ورنہ لنگڑی کے لیے رسی منگائیے، میر صاحب غصہ میں خود چارپائی کی ادوان کھولنے لگے۔ خان صاحب نے فوراً رسی منگا دی اور اب زور شور سے شطرنج شروع ہو گئی۔
ایک بج گیا اور میں اب گویا چونک سا پڑا۔ بلا مبالغہ سیکڑوں بازیاں ہوئیں مگر مجھے لنگڑی نصیب نہ ہوئی۔ میں شطرنج چھوڑ چھاڑ کر سیدھا گھر بھاگا۔ پھاٹک پہ جب سائیکل روکی ہے تو آدھی رات گزر کر سوا بجے کا عمل تھا۔
’’یا اللہ اب کیا کروں؟‘‘ میں نے پریشان ہو کر کہا، ’’خانم کیا کہے گی، لاحول ولاقوۃ۔ میں نے بھی کیا حماقت کی۔ بھیا کیا کہےگا؟ بڑی لڑائی ہو گی۔‘‘ شش و پنج میں کھڑا سوچتا رہا، مگر اب تو جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔
اسی روز کی طرح بھینس کی ناند پر سے دیوار پار کی۔ استانی جی کے کمرے کے سامنے ہوتا ہوا تیزی سے نکل گیا۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ ٹٹول کر کپڑے اتارے، سلیپر بغل میں دابے برابر والے کمرے میں داخل ہوا جس میں بھیا کا پلنگ تھا۔ بڑی ہوشیاری سے چاروں ہاتھ پاؤں پر چلتا ہوا گویا جانور کی طرح جانے کی ٹھہرائی۔ آدھے کمرے میں جو پہنچا تو ماتھے میں میز کا پایہ لگا اوپر سے کوئی چیز اس زور سے گردن پر گری کہ اس اندھیرے میں آنکھوں تلے اندھیرا آ گیا۔ میں دبک کر بیٹھ گیا۔ میں جانتا ہی تھا کہ بھیا غافل سونے والاہے، خانم سے بھی نمبر لے گیاہے۔ بغیر یہ دیکھے ہوئے کہ یہ کیا گردن زدنی چیز تھی جو میری گردن پر گری، رینگتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ اور اٹھ کر اب خانم کے کمرے کے دروازہ پر پہنچا۔ خدا کا شکر ہے کہ اندھیرا گھپ تھا۔ اسی طرح پھر چاروں ہاتھ پاؤں کے بل رینگنا شروع کیا، کیونکہ اس روز خانم اٹھ بیٹھی تھی۔ چپکے چپکے پلنگ تک پہنچا اور غڑاپ سے اپنے بچھونے میں لحاف تان کے دم بخود پڑے پڑے سو گیا۔
صبح دیر سے آنکھ کھلی، اٹھا جو سہی تو کیا دیکھتا ہوں کہ خانم مع بسترا غائب۔ ارے! نکل کر دوڑا تمام معاملہ ہی پلٹ گیا۔ نہ بھیا ہیں نہ خانم، نہ استانی جی! نوکر نے کہا کہ رات کی بارہ بجے کی گاڑی سے سب گئے۔ غضب ہی ہو گیا۔ نہ تو ناشتے میں جی لگا اور نہ کسی اور طرف۔ سخت طبیعت پریشان تھی۔ اندھیرا ہو گیا، جن کمروں میں بھیا اور خانم کی مزیدار باتوں اور قہقہوں سے چہل پہل تھی ان میں سناٹا تھا۔ ادھر گھوما، ادھر گوما، گھر ایک اجڑا مقام تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد باؤلوں کی طرح گھومنے لگا۔ ایک دم سے غصہ آیا کہ چلو خان صاحب کے یہاں پھر جمےگی۔ کپڑے آدھے پہنے تھے کہ پھر طبیعت پہ خلجان سوار ہو گیا۔
خدا خدا کر کے تین بجے، اب خانم گھر پہنچنے والی ہو گی، لہٰذا تار دیا۔ ’’جلدی آؤ اور فوراً تار سے جواب دو۔‘‘ مگر جواب ندارد۔ وقت گزر گیا۔ دوسرا جوابی تار دیا کہ ’’جلدی آؤ۔‘‘ جواب آیا۔ ’’نہیں آتے‘‘ پھر جواب دیا۔ ’’اب شطرنج کبھی نہیں کھیلیں گے، جواب رات کو آیا۔ ’’خوب کھیلو۔‘‘
رات کے بارہ بجے کی گاڑی سے خود روانہ ہو گیا۔
خانم کے گھر پہنچا۔ خانم کی ماں اور باپ دونوں خانم سے بےحد خفا تھے۔ مگر خانم جب چلنے پر راضی ہوئی جب خدا اور رسول اور زمین و آسمان معہ قرآن مجید اور خود خانم کے سر اور بھیا اور خود خانم کی محبت کی قسم کھائی۔ وہ بھی بڑی مشکل سے وہ دن اور آج کا دن، جناب میری شطرنج ایسی چھوٹی ہے کہ بیان سے باہر، مگر سوچ میں رہتا ہوں کہ کون سی تدبیر نکالوں۔ شائد کوئی شاطر بتا سکے۔
مصنف:مرزا عظیم بیگ چغتائی