انگوٹھی کی مصیبت

0
264
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

میں نے شاہدہ سے کہا، تو میں جا کے اب کنجیاں لے آؤں۔ شاہدہ نے کہا، آخر تو کیوں اپنی شادی کے لئے اتنی تڑپ رہی ہے؟ اچھا جا۔ میں ہنستی ہوئی چلی گئی۔ کمرہ سے باہر نکلی۔ دوپہر کا وقت تھا اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اماں جان اپنے کمرہ میں سو رہی تھیں اور ایک خادمہ پنکھا جھل رہی تھی۔ میں چپکے سے برابر والے کمرے میں پہنچی اور مسہری کے تکیہ کے نیچے سے کنجی کا گچھا لیا۔ سیدھی کمرے پر واپس آئی اور شاہدہ سے کہا، جلدی چلو۔

ہم دونوں نے چپکے سے چلتے ہوئے کہ کہیں کوئی پیر کی آہٹ نہ سن لے زینے کی راہ لی اور ابا جان والی چھت پر داخل ہوئی۔ وہاں بھی حسب توقع سناٹا پایا۔ سب سے پہلے دوڑ کر میں نے دروازہ بند کر دیا جو باہر زینے سے آنے جانے کے لیے تھا۔ اس کے بعد یہ دروازہ بھی بند کر دیا جس سے ہم دونوں داخل ہوئے تھے۔ سیدھی ابا جان کے کمرہ میں پہنچ کر ان کی الماری کا تالہ کھولا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ سامنے بیچ کے تختہ پر تمام خطوط اور تصویریں رکھی ہیں۔

وہ دیکھ! وہ دیکھ! وہ اچھا ہے شاہدہ نے کہا۔

نہیں شروع سے دیکھو۔۔۔ ادھر سے۔ یہ کہہ کر میں نے شروع کا بنڈل کھولا اور اس میں سے تصویر نکالی۔ یہ ایک پروفیسر صاحب کی تصویر تھی۔ جن کی عمر پینتیس سال کی ہوگی۔ یہ نہایت ہی عمدہ سوٹ پہنے بڑی شان سے کرسی کا تکیہ پکڑے کھڑے تھے۔ کرسی پر ان کا پانچ سال کا بچہ بیٹھا تھا۔ ان کی پہلی بیوی مر چکی تھیں۔ اب مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ نام اور پتہ وغیرہ سب تصویر کی پشت پر موجود تھا۔

یہ لے! شاہدہ نے کہا۔ پہلی ہی بسم اللہ غلط میں نے تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا، کیوں؟ کیا یہ برا ہے؟

- Advertisement -

کمبخت یہ دوہا جو ہے، بہن اس سے بھول کے بھی مت کیجؤ۔ تو تو اپنی طرح کوئی کنوارا ڈھونڈھ۔ اری ذرا اس لونڈے کو دیکھ! اگر نہ تیرا یہ ناک میں دم کر دے اور نتھنوں میں تیر ڈال دے تو میرا نام پلٹ کر رکھ دیجؤ۔ دیکھتی نہیں کہ بس کی گانٹھ کتنا شریر ہے اور پھر راتوں کو تیری سوت خواب میں الگ آکر گلا دبائےگی۔

تو تو پاگل ہو گئی ہے۔ میں نے کہا۔ شاہدہ ڈھنگ کی باتیں کر۔ شاہدہ ہنستے ہوئے بولی، میری بلا سے۔ کل کی کرتی تو آج کر لے میری دانست میں تو اس پروفیسر کو بھی کوئی ایسی ہی ملے تو ٹھیک رہے جو دو تین موذی بچے جہیز میں لائے اور وہ اس کے چھوکرے کو مارتے مارتے اتو کر دیں۔ چل رکھ اس کو۔۔۔ دوسری دیکھ۔

پہلی تصویر پر یہ ریمارکس پاس کیےگیے اور اس کو جوں کا توں رکھ کر دوسری تصویر اٹھائی اور شاہدہ سے پوچھا، یہ کیسا ہے؟ شاہدہ غور سے دیکھ کر بولی، ویسے تو ٹھیک ہے مگر ذرا کالا ہے۔ کون سے درجے میں پڑھتا ہے ؟ میں نے تصویر دیکھ بھال کر کہا، بی۔اے۔ میں پڑھتا ہے۔ کالا تو ایسا نہیں ہے۔ شاہدہ نے کہا، ہوں! یہ آخر تجھے کیا ہو گیا ہے، جسے دیکھتی ہے اس پہ عاشق ہوئی جاتی ہے۔ نہ کالا دیکھتی ہے نہ گورا، نہ بڈھا دیکھتی ہے نہ جوان! میں نے زور سے شاہدہ کے چٹکی لے کر کہا، کمبخت میں نے تجھے اس لیے بلایا تھا کہ تو مجھے تنگ کرے! غور سے دیکھ۔ غور سے تصویر دیکھ کر اور کچھ سوچ کر شاہدہ بولی، نہ بہن یہ ہر گز ٹھیک نہیں، میں تو کہہ چکی، آئندہ تو جانے۔

میں نے کہا، خط تو دیکھ بڑے رئیس کا لڑکا ہے۔ یہ تصویر ایک طالب علم کی تھی جو ٹینس کا بلا لیے بیٹھا تھا۔ دو تین تمغے لگائے ہوئے تھا اور دو تین جیتے ہوئے کپ سامنے میز پر رکھے ہوئے تھے۔شاہدہ بولی، ویسے تو لڑکا بڑا اچھا ہے۔ عمر میں تیرے جوڑ کا ہے۔ مگر ابھی پڑھتا ہے اور تیرا بھی شوکت کا سا حال ہوگا کہ دس روپے ماہوار جیب خرچ اور کھانے اور کپڑے پر نوکر ہو جائےگی اور دن رات ساس نندوں کی جوتیاں، یہ تو جھگڑا ہے۔ میں نے کہا، بی۔ اے۔ میں پڑھتا ہے، سال دو سال میں نوکر ہو جائےگا۔

ٹینس کا جمعدار ہو رہا ہے تو دیکھ لیجؤ دو تین دفعہ فیل ہوگا اور ساس نندیں بھی کہیں گی کہ بیوی پڑھنے نہیں دیتی اور پھر دوڑنے دھوپنے کا شوقین، تجھے رپٹا مارےگا۔ ویسے تو لڑکا اچھا ہے، صورت بھی بھولی بھالی ہے اور ایسا ہے کہ جب شرارت کرے، اٹھا کر طاق پر بٹھا دیا۔ مگر نہ بابا میں رائے نہ دوں گی۔ اس تصویر کو بھی رکھ دیا اور اب دوسرا بنڈل کھولا اور ایک اور تصویر نکلی۔

آخاہ! یہ موا پان کا غلام کہاں سے آیا۔ شاہدہ نے ہنس کر کہا، دیکھ تو کمبخت کی داڑھی کیسی ہے اور پھر مونچھیں اس نے ایسی کتروائی ہیں کہ جیسے سینگ کٹا کر بچھڑوں میں مل جائے! میں بھی ہنسنے لگی۔ یہ ایک معزز رئیس آنریری مجسٹریٹ تھے اور ان کی عمر بھی زیادہ نہ تھی۔ مگر مجھ کو یہ ذرہ بھر پسند نہ آئے۔ غور سے شاہدہ نے تصویر دیکھ کر پہلے تو ان کی نقل بنائی اور پھر کہنے لگی، ایسے کو بھلا کون لڑکی دےگا؟ نہ معلوم اس کے کتنی لڑکیاں اور بیویاں ہوں گی۔ پھینک اسے۔ یہ تصویر بھی رکھ دی گئی اور دوسرا بنڈل کھول کر ایک اور تصویر لی، یہ تو گبرو جوان ہے؟ اس سےتو فورا کر لے۔ شاہدہ تصویر دیکھ کر بولی، یہ ہے کون! ذرا دیکھ۔میں نے دیکھ کر بتایا کہ ڈاکٹر ہے۔

بس بس، یہ ٹھیک، خوب تیری نبض ٹٹول ٹٹول کے روز تھرمامیٹر لگائےگا۔ صورت شکل ٹھیک ہے۔ شاہدہ نے ہنس کر کہا، میرا میاں بھی ایسا ہی ہٹا کٹا موٹا تازہ ہے میں نے ہنس کر کہا، کمبخت آخر تو ایسی باتیں کہاں سے سیکھ آئی ہے، کیا تو نے اپنے میاں کو دیکھا ہے؟

دیکھا تو نہیں مگر سنا ہے کہ بہت اچھا ہے۔

بھدا سا ہو گا۔

شاہدہ نے چیں بچیں ہو کر کہا، اتنا تو میں جانتی ہوں کہ جو کہیں تو اسے دیکھ لے تو شاید لٹو ہی ہو جائے۔

میں نے اب ڈاکٹر صاحب کی تصویر کو غور سے دیکھا اور نکتہ چینی شروع کی۔ نہ اس لیے کہ مجھے یہ ناپسند تھے، بلکہ محض اس لیے کہ کچھ رائے زنی ہو سکے۔ چنانچہ میں نے کہا، ان کی ناک ذرا موٹی ہے۔

سب ٹھیک ہے۔ شاہدہ نے کہا۔ ذرا اس کا خط دیکھ۔ میں نے دیکھا کہ صرف دو خط ہیں۔ پڑھنے سے معلوم ہوا کہ ان کی پہلی بیوی موجود ہیں مگر پاگل ہو گئی ہیں۔پھینک پھینک اسے کمبخت کو پھینک۔شاہدہ نے جل کر کہا، جھوٹا ہے کمبخت کل کو تجھے بھی پاگل خانہ میں ڈال کے تیسری کو تکے گا۔ ڈاکٹر صاحب بھی نامنظور کر دیے گیے اور پھر ایک اور تصویر اٹھائی۔

شاہدہ نے اور میں نے غور سے اس تصویر کو دیکھا۔ یہ تصویر ایک نو عمر اور خوبصورت جوان کی تھی۔ شاہدہ نے پسند کرتے ہوئے کہا، یہ تو ایسا ہے کہ میری بھی رال ٹپکی پڑ رہی ہے۔ دیکھ تو کتنا خوبصورت جوان ہے۔ بس اس سے تو آنکھ میچ کے کر لے اور اسے گلے کا ہار بنا لیجیو۔ ہم دونوں نے غور سے اس تصویر کو دیکھا ہر طرح دونوں نے پسند کیا اور پاس کر دیا۔ شاہدہ نے اس کے خط کو دیکھنے کو کہا۔ خط جو پڑھا تو معلوم ہوا کہ یہ حضرت ولایت میں پڑھتے ہیں۔

ارے توبہ توبہ، چھوڑ اسے۔ شاہدہ نے کہا۔

میں نے کہا، کیوں۔ آخر کوئی وجہ؟

وجہ یہ کہ بھلا اسے وہاں میمیں چھوڑیں گی۔ عجب نہیں کہ ایک آدھ کو ساتھ لے آئے۔

میں نے کہا، واہ اس سے کیا ہوتا ہے۔ احمد بھائی کو دیکھو، پانچ سال ولایت میں رہے تو کیا ہو گیا۔

شاہدہ تیزی سے بولی، بڑے احمد بھائی احمد بھائی، رجسٹر لے کر وہاں کی بھاوجوں کے نام لکھنا شروع کرےگی تو عمر ختم ہو جائےگی اور رجسٹر تیار نہ ہوگا۔ میں تو ایسا جوا نہ کھیلوں اور نہ کسی کو صلاح دوں۔ یہ ادھار کا سا معاملہ ٹھیک نہیں۔

یہ تصویر بھی ناپسند کر کے رکھ دی گئی اور اس کے بعد ایک اور نکالی۔ شاہدہ نے تصویر دیکھ کر کہا، یہ تو اللہ رکھے اس قدر باریک ہیں کہ سوئی کے ناکہ میں سے نکل جائیں گے۔ علاوہ اس کے کوئی آندھی بگولا آیا تو یہ اڑ اڑا جائیں گے اور تو رانڈ ہو جائےگی۔ اسی طرح دو تین تصویریں اور دیکھی گئیں کہ اصل تصویر آئی اور میرے منہ سے نکل گیا، اخاہ۔

مجھے دے۔ دیکھوں، دیکھوں۔ کہہ کر شاہدہ نے تصویر لے لی۔ہم دونوں نے غور سے اس کو دیکھا۔ یہ ایک بڑی سی تصویر تھی۔ ایک تو وہ خود ہی تصویر تھا اور پھر اس قدر صاف اور عمدہ کھینچی ہوئی کہ بال بال کا عکس موجود تھا۔ شاہدہ نے ہنس کر کہا، اسے مت چھوڑیو۔ ایسے میں تو میں دو کر لوں۔ یہ آخر ہے کون۔۔۔؟ تصویر کو الٹ کر دیکھا جیسے دستخط اوپر تھے ایسے ہی پشت پر تھے مگر شہر کا نام لکھا ہوا تھا اور بغیر خطوط کے دیکھے ہوئے مجھے معلوم ہو گیا کہ کس کی تصویر ہے۔ میں نے شاہدہ سے کہا، یہ وہی ہے جس کا میں نے تجھ سے اس روز ذکر کیا تھا۔

اچھا یہ بیرسٹر صاحب ہیں۔ شاہدہ نے پسندیدگی کے لہجہ میں کہا، صورت شکل تو خوب ہے، مگر ان کی کچھ چلتی بھی ہے یا نہیں؟ میں نے کہا، ابھی کیا چلتی ہوگی۔ ابھی آئے ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔

تو پھر ہوا کھاتے ہوں گے۔ شاہدہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ خیر تو اس سے ضرور کر لے۔ خوب تجھے موٹروں پر سیر کرائےگا، سینما اور تھیٹر دکھائےگا اور جلسوں میں نچائےگا۔

میں نے کہا، کچھ غریب تھوڑی ہیں۔ ابھی تو باپ کے سر کھاتے ہیں۔

شاہدہ نے چونک کر کہا، اری بات تو سن۔

میں نے کہا، کیوں۔

شاہدہ بولی، صورت شکل بھی اچھی ہے۔ خوب گورا چٹا ہے۔ بلکہ تجھ سے بھی اچھا ہے اور عمر بھی ٹھیک ہے۔ مگر یہ تو بتا کہ کہیں کوئی میم ویم تو نہیں پکڑ لایا ہے۔میں نے کہا، مجھے کیا معلوم۔ لیکن اگر کوئی ساتھ ہوتی تو شادی کیوں کرتے۔

ٹھیک ٹھیک۔ شاہدہ نے سر ہلا کر کہا، بس اللہ کا نام لے کر پھانس میں نے خط اٹھائے اور شاہدہ دوسری تصویریں دیکھنے لگی۔ میں خط پڑھ رہی تھی اور وہ ہر ایک تصویر کا منہ چڑا رہی تھی۔ میں نے خوش ہو کر اس کو چپکے چپکے خط کا کچھ حصہ سنایا۔ شاہدہ سن کر بولی الا اللہ! میں نے اور آگے پڑھا تو کہنے لگی۔ وہ مارا۔ غرض خط کا سارا مضمون سنایا۔ شاہدہ نے خط سن کر کہا کہ، یہ تو سب معاملہ فٹ ہے اور چول بیٹھ گئی ہے۔ اب تو گڑ تقسیم کر دے۔

پھر ہم دونوں نے اس تصویر کو غور سے دیکھا۔ دونوں نے رہ رہ کر پسند کیا۔ یہ ایک نوعمر بیرسٹر تھے اور غیر معمولی طور پر خوبصورت معلوم ہوتے تھے اور ناک نقشہ سب بےعیب تھا۔ شاہدہ رہ رہ کر تعریف کر رہی تھی۔ ڈاڑھی مونچھیں سب صاف تھیں اور ایک دھاری دار سوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہاتھ میں کوئی کتاب تھی۔ میں نے بیرسٹر صاحب کے دوسرے خط پڑھے اور مجھ کو کل حالات معلوم ہو گیے۔ معلوم ہوا ہے کہ بیرسٹر صاحب بڑے اچھے اور رئیس گھرانے کے ہیں اور شادی کا معاملہ طے ہو گیا ہے۔ آخری خط سے پتہ چلتا تھا کہ صرف شادی کی تاریخ کے معاملہ میں کچھ تصفیہ ہونا باقی ہے۔

میں نے چاہا کہ اور دوسرے خط پڑھوں اور خصوصا آنریری مجسٹریٹ صاحب کا مگر شاہدہ نے کہا، اب دوسرے خط نہ پڑھنے دوں گی۔ بس یہی ٹھیک ہے۔ میں نے کہا، ان کے ذکر کی بھنک ایک مرتبہ سن چکی ہوں۔ آخر دیکھ تو لینے دے کہ معاملات کہاں تک پہنچ چکے ہیں۔

شاہدہ نے جھٹک کر کہا، چل رہنے دے اس موذی کا ذکر تک نہ کر۔ میں نے بہت کچھ کوشش کی مگر اس نے ایک نہ سنی۔ قصہ مختصر جلدی جلدی سب چیزیں جوں کی توں رکھ دیں اور الماری بند کر کے میں نے مردانہ زینہ کا دروازہ کھولا اور شاہدہ کے ساتھ چپکے سے جیسے آئی تھی ویسے ہی واپس ہوئی۔ جہاں سے کنجی لی تھی، اسی طرح رکھ دی۔ شاہدہ سے دیر تک بیرسٹر صاحب کی باتیں ہوتی رہیں۔ شاہدہ کو میں نے اسی لیے بلایا تھا۔ شام کو وہ اپنے گھر چلی گئی مگر اتنا کہتی گئی کہ خالہ جان کی باتوں سے بھی پتہ چلتا ہے کہ تیری شادی اب بالکل طے ہو گئی اور تو بہت جلد لٹکائی جائےگی۔

(۲)

اس بات کو مہینہ بھر سے زائد گزر چکا تھا۔ کبھی تو ابا جان اور اماں جان کی باتیں چپکے سے سن کر ان کے دل کا حال معلوم کرتی تھی اور کبھی اوپر جا کر الماری سے خطوط نکال کر پڑھتی تھی۔میں دل ہی دل میں خوش تھی کہ مجھ سے زیادہ خوش قسمت بھلا کون ہو گی کہ یک لخت معلوم ہوا کہ معاملہ طے ہو کر بگڑ رہا ہے۔

آخری خط سے معلوم ہوا کہ بیرسٹر صاحب کے والد صاحب چاہتے ہیں کہ بس فوراً ہی نکاح اور رخصتی سب ہو جائے اور اماں جان کہتی تھیں کہ میں پہلے صرف نسبت کی رسم ادا کروں گی اور پھر پورے سال بھر بعد نکاح اور رخصتی کروں گی کیونکہ میرا جہیز وغیرہ کہتی تھیں کہ اطمینان سے تیار کرنا ہے اور پھر کہتی تھیں کہ میری ایک ہی اولاد ہے۔ میں تو دیکھ بھال کے کروں گی۔ اگر لڑکا ٹھیک نہ ہوا تو منگنی توڑ بھی سکوں گی۔ یہ سب باتیں میں چپکے سے سن چکی تھی۔

ادھر تو یہ خیالات، ادھر بیرسٹر صاحب کے والد صاحب کو بےحد جلدی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ اگر آپ جلدی نہیں کر سکتے تو ہم دوسری جگہ کر لیں گے۔ جہاں سب معاملات طے ہو چکے ہیں۔ مجھے یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ ابا جان نے اس کا کیا جواب دیا اور میں تاک میں لگی ہوئی تھی کہ کوئی میرے دل سے پوچھے کہ میرا کیا حال ہوا۔ جب ایک روز چپکے سے میں نے ابا جان اور اماں جان کا تصفیہ سن لیا۔ طے ہو کر لکھا جا چکا تھا کہ اگر آپ کو ایسی ہی جلدی ہے کہ آپ دوسری جگہ شادی کیے لیتے ہیں تو بسم اللہ۔ ہم کو ہماری لڑکی بھاری نہیں ہے، یہ خط لکھ دیا گیا اور پھر ان کمبخت مجسٹریٹ کی بات ہوئی کہ میں وہاں جھونکی جاؤں گی۔ نہ معلوم یہ آنریری مجسٹریٹ مجھ کو کیوں سخت ناپسند تھے کہ کچھ ان کی عمر بھی ایسی نہ تھی۔ مگر شاہدہ نے کچھ ان کا حلیہ یعنی ڈاڑھی وغیرہ کچھ ایسا بنا بنا کر بیان کیا کہ میرے دل میں ان کے لئے ذرہ بھر جگہ نہ تھی۔ میں گھنٹوں اپنے کمرے میں پڑی سوچتی رہی۔

اس بات کو ہفتہ بھر بھی نہ گزرا تھا کہ میں نے ایک روز اسی طرح چپکے سے الماری کھول کر بیرسٹر صاحب کے والد کا ایک تازہ خط پڑھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے یہ خط شاید ابا جان کے آخری خط ملنے سے پہلے لکھا تھا کہ بیرسٹر صاحب کو خود کسی دوسری جگہ جانا ہے اور راستہ میں یہاں ہوتے ہوئے جائیں گے اور اگر آپ کو شرائط منظور ہوئیں تو نسبت بھی قرار دے دی جائےگی۔ اسی روز اس خط کا جواب بھی میں نے سن لیا۔ انہوں نے لکھ دیا تھا کہ لڑکے کو تو میں خود بھی دیکھنا چاہتا تھا، خانہ بےتکلف ہے۔ جب جی چاہے بھیج دیجئے مگر اس کا خیال دل سے نکال دیجئے کہ سال بھر سے پہلے شادی کر دی جائے۔ اماں جان نے بھی اس جواب کو پسند کیا اور پھر انہی آنریری مجسٹریٹ صاحب کے تذکرہ سے میرے کانوں کی تواضع کی گئی۔

ان سب باتوں سے میرا ایسا جی گھبرایا کہ اماں جان سے میں نے شاہدہ کے گھر جانے کی اجازت لی اور یہ سوچ کر گئی کہ تین چار روز نہ آؤں گی۔

شاہدہ کے ہاں جو پہنچی تو اس نے دیکھتے ہی معلوم کر لیا کہ کچھ معاملہ دگرگوں ہے۔ کہنے لگی کہ ، کیا تیرے بیرسٹر نے کسی اور کو گھر میں ڈال لیا؟

میں اس کا بھلا کیا جواب دیتی۔ تمام قصہ شروع سے آخیر تک سنا دیا کہ کس طرح وہ جلدی کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد شادی ہو جائے۔ مگر اماں جان راضی نہیں ہوتیں۔ یہ سب سن کر اور مجھ کو رنجیدہ دیکھ کر وہ شریر بولی، خوب! چٹ منگنی پٹ بیاہ بھلا ایسا کون کرےگا۔ مگر ایک بات ہے۔ میں نے کہا، وہ کیا؟ وہ بولی، وہ تیرے لئے پھڑک رہا ہے اور یہ فال اچھی ہے۔ میں نے جل کر کہا، یہ تو فال نکال رہی ہے اور مذاق کر رہی ہے۔

پھر کیا کروں؟ شاہدہ نے کہا۔ (کیونکہ واقعی وہ بیچاری کر ہی کیا سکتی ہے۔)

میں نے کہا، کوئی مشورہ دو۔ صلاح دو۔ دونوں مل کر سوچیں۔

پاگل نہیں تو۔ شاہدہ نے میری بیوقوفی پر کہا، دیوانی ہوئی ہے، میں صلاح کیا دوں؟

اچھا مجھے پتہ بتا دے۔ میں بیرسٹر صاحب کو لکھ بھیجوں کہ ادھر تو اس چھوکری پر نثار ہو رہا ہے اور ادھر یہ تیرے پیچھے دیوانی ہو رہی ہے، آکے تجھے بھگا لے جائے۔

خدا کی مار تیرے اوپر اور تیری صلاح کے اوپر۔ میں نے کہا۔ کیا میں اسی لئے آئی تھی؟ میں جاتی ہوں۔ یہ کہہ کر میں اٹھنے لگی۔

تیرے بیرسٹر کی ایسی تیسی۔ شاہدہ نے ہاتھ پکڑ کر کہا۔ جاتی کہاں ہے شادی نہ بیاہ، میاں کا رونا روتی ہے۔ تجھے کیا؟ کوئی نہ کوئی ماں کا جایا آ کر تجھے لے ہی جائےگا۔ چل دوسری باتیں کر۔

یہ کہہ کر شاہدہ نے مجھے بٹھا لیا اور میں بھی ہنسنے لگی۔ دوسری باتیں ہونے لگیں۔ مگر یہاں میرے دل کو لگی ہوئی تھی اور پریشان بھی تھی۔ گھوم پھر کر وہی باتیں ہونے لگیں۔ شاہدہ نے جو کچھ ہمدردی ممکن تھی وہ کی اور دعا مانگی اور پھر آنریری مجسٹریٹ کو خوب کوسا۔ اس کے علاوہ وہ بیچاری کر ہی کیا سکتی تھی۔ خود نماز کے بعد دعا مانگنے کا وعدہ کیا اور مجھ سے بھی کہا کہ نماز کے بعد روزانہ دعا مانگا کر۔ اس سے زیادہ نہ وہ کچھ کر سکتی تھی اور نہ میں۔میں گھر سے کچھ ایسی بیزار تھی کہ دو مرتبہ آدمی لینے آیا اور نہ گئی۔ چوتھے روز میں نے شاہدہ سے کہا کہ، اب شاید خط کا جواب آ گیا ہوگا اور میں کھانا کھا کے ایسے وقت جاؤں گی کہ سب سوتے ہوں۔ تاکہ بغیر انتظار کئے ہوئے مجھے خط دیکھنے کا موقع مل جائے۔

چلتے وقت میں ایسے جا رہی تھی جیسے کوئی شخص اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لیے جا رہا ہو۔ میری حالت عجیب امید و بیم کی تھی۔ نہ معلوم اس خط میں بیرسٹر صاحب کے والد نے انکار کیا ہوگا یا منظور کر لیا ہوگا کہ ہم سال بھر بعد شادی پر رضامند ہیں۔ یہ میں بار بار سوچ رہی تھی۔ چلتے وقت میں نے اپنی پیاری سہیلی کے گلے میں ہاتھ ڈال کر زور سے دبایا۔ نہ معلوم کیوں میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ شاہدہ نے مذاق کو رخصت کرتے ہوئے کہا، بہن خدا تجھے اس موذی سے بچائے۔ تو دعا مانگ اچھا۔ میں نے چپکے سے کہا، اچھا۔

(۳)

شاہدہ کے یہاں سے جو آئی تو حسب توقع گھر میں سناٹا پایا۔ اماں جان سو رہی تھیں۔ اور ابا جان کچہری جا چکے تھے۔ میں نے چپکے سے جھانک کر ادھر ادھر دیکھا۔ کوئی نہ تھا۔ آہستہ سے دروازہ بند کیا اور دوڑ کر مردانہ زینہ کا دروازہ بھی بند کر دیا اور سیدھی کمرہ میں پہنچی۔ وہاں پہنچی تو ششدر رہ گئی۔

کیا دیکھتی ہوں کہ ایک بڑا سا چمڑے کا ٹرنک کھلا پڑا ہے اور پاس کی کرسی پر اور ٹرنک میں کپڑوں کے اوپر مختلف چیزوں کی ایک دکان سی لگی ہوئی ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ آخر یہ کون ہے، جو اس طرح سامان چھوڑ کر ڈال گیا ہے۔ کیا بتاؤں میرے سامنے کیسی دکان لگی ہوئی اور کیا کیا چیزیں رکھی تھیں کہ میں سب بھول گئی اور انہیں دیکھنے لگی۔ طرح طرح کی ڈبیاں اور ولائتی بکس تھے جو میں نے کبھی نہ دیکھے تھے۔ میں نے سب سے پیشتر جھٹ سے ایک سنہرا گول ڈبہ اٹھا لیا۔ میں اس کو تعریف کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔ یہ گنی کے سونے کا ڈبہ تھا اور اس پر سچی سیپ کا نفیس کام ہوا تھا۔ اودی اودی کندن کی جھلک بھی تھی۔ ڈھکنا تو دیکھنے ہی سے تعلق رکھتا تھا۔ اس میں موتی جڑے ہوئے تھے اور کئی قطاریں ننھے ننھے سمندری گھونگھوں کی اس خوبصورتی سے سونے میں جڑی ہوئی تھیں کہ میں دنگ رہ گئی۔

میں نے اسے کھول کر دیکھا تو ایک چھوٹا سا پوؤڈر لگانے کا پف رکھا ہوا تھا اور اس کے اندر سرخ رنگ کا پاؤڈر رکھا ہوا تھا۔ میں نے پف نکال کر اس کے نرم نرم روئیں دیکھے جن پر غبار کی طرح پاؤڈر کے مہین ذرے گویا ناچ رہے تھے۔ یہ دیکھنے کے لیے یہ کتنا نرم ہے، میں نے اس کو اپنے گال پر آہستہ آہستہ پھرایا اور پھر اس کو واپس اسی طرح رکھ دیا۔ مجھے خیال بھی نہ آیا کہ مرے گال پر سرخ پاؤڈر جم گیا۔ میں نے ڈبہ کو رکھا ہی تھا کہ میری نظر ایک تھیلی پر پڑی۔ مہ سبز مخمل کی تھیلی تھی۔ جس پر سنہری کام میں مختلف تصویریں بنی ہوئی تھیں۔

میں نے اس کو اٹھایا تو میرے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی۔ کیونکہ دراصل یہ ولایتی ربڑ کی تھیلی تھی، جو مخمل سے بھی زیادہ خوبصورت اور نرم تھی، میں نے غور سے سنہری کام کو دیکھا۔ کھول کر جو دیکھا تو اندر دو چاندی کے بالوں میں کرنے کے برش تھے اور ایک ان ہی کے جوڑ کا کنگھا تھا۔ میں نے اس کو بھی رکھ دیا اور چھوٹی خوبصورت ڈبیوں کو دیکھا۔ کسی میں سیفٹی پن تھا، کسی میں خوبصورت سا بروچ تھا اور کسی میں پھول تھا۔ غرض طرح طرح کے بروچ اور بلاؤس پن وغیرہ تھے۔ دو تین ڈبیاں ان میں ایسی تھیں جو عجیب شکل تھیں۔ مثلاً ایک بالکل کتاب کی طرح تھی اور ایک کرکٹ کے بلے کی طرح تھی۔ ان میں بعض ایسی بھی تھیں جو مجھ سے کسی طرح بھی نہ کھلیں۔ علاوہ ان کے سگریٹ کیس، دیا سلائی کا بکس وغیرہ وغیرہ۔ سب ایسی کہ بس ان کو دیکھا ہی کرے۔

میں ان کو دیکھ ہی رہی تھی کہ ایک مخمل کے ڈبہ کا کونہ ٹرنک میں ریشمی رومالوں میں مجھے دبا ہوا نظر آیا۔ میں نے اس کو نکالا۔ کھول کر دیکھا تو اندر بہت سے چھوٹے چھوٹے ناخن کاٹنے اور گھسنے کے اوزار رکھے ہوئے تھے اور ڈھکنے میں ایک چھوٹا سا آئینہ لگا ہوا تھا۔ میں نے اس کو جوں کا توں اسی جگہ رکھا تو میرے ہاتھ ایک اور مخمل کا ڈبہ لگا۔ اس کو جو میں نے نکال کر کھولا تو اس کے اندر سے سبز رنگ کا ایک فاؤنٹین پن نکلا۔ جس پر سونے کی جالی کا خول چڑھا ہوا تھا۔ میں نے اس کو بھی رکھ دیا۔ ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ ایک چھوٹی سے سنہری رنگ کی ڈبیہ پر نظر پڑی۔ اس کو میں نے کھولنا چاہا۔ مگر وہ کمبخت نہ کھلنا تھی نہ کھلی۔ میں اس کو کھول ہی رہی تھی کہ ایک لکڑی کے بکس کا کونہ نظر پڑا۔ میں نے اس کو فوراً ٹرنک سے نکال کر دیکھا۔ یہ ایک بھاری سا خوبصورت بکس تھا۔ اس کو جو میں نے کھولا تو میں دنگ رہ گئی۔ اس کے اندر سے ایک صاف شفاف بلور کا عطردان نکلا جو کوئی بالشت بھر لمبا اور اسی مناسبت سے چوڑا تھا۔ میں نے اس کو نکال کر غور سے دیکھا اور لکڑی کا بکس جس میں یہ بند تھا، الگ رکھ دیا۔

عجیب چیز تھی۔ اس کے اندر کی تمام چیزیں باہر سے نظر آ رہی تھیں۔ اس کے اندر چوبیس چھوٹی چھوٹی عطر کی قلمیں رکھی ہوئی تھیں۔ جن کے خوشنما رنگ روشنی میں بلور میں سے گزر کر عجیب بہار دکھا رہے تھے۔ میں اس کو چاروں طرف سے دیکھتی رہی اور پھر کھولنا چاہا۔ جہاں جہاں بھی جو بٹن نظر آئے میں نے دبائے مگر یہ نہ کھلا۔ میں اس کو دیکھ رہی تھی کہ میری نظر کسی تصویر کے کونے پر پڑی جو ٹرنک میں ذرا نیچے کو رکھی تھی۔ میں نے تصویر کو کھینچ کر نکالا کہ اس کے ساتھ ساتھ ایک مخمل کی ڈبیہ رومالوں اور ٹائیوں میں لڑھکتی ہوئی چلی آئی اور کھل گئی۔

کیا دیکھتی ہوں کہ اس میں ایک خوبصورت انگوٹھی جگ مگ جگمگ کر رہی ہے۔ فوراً تصویر کو چھوڑ کر میں نے اس ڈبیا کو اٹھایا اور انگوٹھی کو نکال کر دیکھا۔ بیچ میں اس کے ایک نیلگوں رنگ تھا اور ارد گرد سفید سفید ہیرے جڑے تھے۔ جن پر نگاہ نہ جمتی تھی۔ میں نے اس خوبصورت انگوٹھی کو غور سے دیکھا اور اپنی انگلیوں میں ڈالنا شروع کیا۔ کسی میں تنگ تھی تو کسی میں ڈھیلی۔ مگر سیدھے ہاتھ کی چھنگلی کے پاس والی انگلی میں میں نے اس کو زور دے کر کسی نہ کسی طرح تمام پہن تو لیا اور پھر ہاتھ اونچا کر کے اس کے نگینوں کی دمک دیکھنے لگی۔ میں اسے دیکھ بھال کر ڈبیا میں رکھنے کے لئے اتارنے لگی تو معلوم ہوا کہ پھنس گئی ہے۔

میرے بائیں ہاتھ میں وہ بلور کا عطردان بدستور موجود تھا اور میں اس کو رکھنے ہی کو ہوئی تاکہ انگلی میں پھنسی ہوئی انگوٹھی کو اتاروں کہ ایکا ایکی میری نظر اس تصویر پر پڑی جو سامنے رکھی تھی اور جس کو میں سب سے پیشتر دیکھنا چاہتی تھی۔ اس پر ہوا سا باریک کاغذ تھا جس کی سفیدی میں سے تصویر کے رنگ جھلک رہے تھے۔ میں عطردان تو رکھنا بھول گئی اور فوراً ہی سیدھے ہاتھ سے تصویر کو اٹھا لیا اور کاغذ ہٹا کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ سب سامان بیرسٹر صاحب کا ہے کہ یہ انہی کی تصویر تھی۔ یہ کسی ولایتی دکان کی بنی ہوئی تھی اور رنگین تھی۔ میں بڑے غور سے دیکھ رہی تھی اور دل میں کہہ رہی تھی کہ اگر یہ صحیح ہے تو واقعی بیرسٹر صاحب غیر معمولی طور پر خوبصورت آدمی ہیں۔ چہرے کا رنگ ہلکا گلابی تھا۔ سیاہ بال تھے اور آڑی مانگ نکلی ہوئی تھی۔ چہرہ، آنکھ، ناک، غرض ہر چیز اس صفائی سے اپنے رنگ میں موجود تھی کہ میں سوچ رہی تھی کہ میں زیادہ خوبصورت ہوں یا یہ۔ کوٹ کی دھاریاں ہوشیار مصور نے اپنے اصلی رنگ میں اس خوبی سے دکھائی تھیں کہ ہر ایک ڈورا اپنے رنگ میں صاف نظر آ رہا تھا۔

میں اس تصویر کو دیکھنے میں بالکل محو تھی کہ دیکھتے دیکھتے ہوا کی رمق سے وہ کمبخت باریک سا کاغذ دیکھنے میں مخل ہونے لگا۔ میں نے تصویر کو جھٹک کر الگ کیا۔ کیونکہ بایاں ہاتھ گھرا ہوا تھا۔ اس میں وہی بلور کا عطردان تھا پھر اسی طرح کاغذ اڑ کر آیا اور تصویر کو ڈھک دیا۔ میں نے جھٹک کر الگ کرنا چاہا۔ مگر وہ چپک سا گیا اور علیحدہ نہ ہوا۔ تو میں نے منہ سے پھونکا اور جب بھی وہ نہ ہٹا تو میں نے اونھ کر کے بائیں ہاتھ کی انگلی سے جو کاغذ کو ہٹایا تو وہ بلور کا عطردان بھاری تو تھا ہی ہاتھ سے پھسل کر چھوٹ پڑا اور چھن سے پختہ فرش پر گر کر کھیل کھیل ہو گیا۔

میں دھک سے ہو گئی اور چہرہ فق ہو گیا۔ تصویر کو ایک طرف پھینک کے ایک دم سے شکستہ عطردان کے ٹکڑے اٹھا کر ملانے لگی کہ ایک نرم آواز بالکل قریب سے آئی، تکلیف نہ کیجئے، آپ ہی کا تھا۔ آنکھ اٹھا کر جو دیکھا تو جیتی جاگتی اصلی تصویر بیرسٹر صاحب کی سامنے کھڑی ہے! تعجب!! اس تعجب نے مجھے سکتہ میں ڈال دیا کہ الہٰی یہ کدھر سے آ گیے۔ دو تین سیکنڈ تو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کروں کہ ایک دم سے میں نے ٹوٹے ہوئے عطردان کے ٹکڑے پھینک دیے اور دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر جھٹ سے دروازہ کی آڑ میں ہو گئی۔

(۴)

میری حالت بھی اس وقت عجیب قابل رحم تھی۔ بلیوں دل اچھل رہا تھا ۔یہ پہلا موقع تھا جو میں کسی نامحرم اور غیر شخص کے ساتھ اس طرح ایک تنہائی کے مقام پر تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ عین چوری کرتے پکڑی گئی۔ سارا ٹرنک کرید کرید کر پھینک دیا تھا اور پھر عطردان توڑ ڈالا، اور نہایت ہی بے تکلفی سے انگوٹھی پہن رکھی تھی۔

اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے تھی۔ سارے بدن میں ایک سنسنی اور رعشہ سا تھا کہ ذرا ہوش بجا ہوئے تو فوراً انگوٹھی کا خیال آیا۔ جلدی جلدی اسے اتارنے لگی۔ طرح طرح سے گھمایا۔ طرح طرح سے انگلی کو دبایا اور انگوٹھی کو کھینچا۔ مگر جلدی میں وہ اور بھی نہ اتری۔ جتنی دیر لگ رہی تھی، اتنا ہی میں اور گھبرا رہی تھی۔ پل پل بھاری تھا، اور میں کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ہر طرح انگوٹھی اتارنے کو کوشش کر رہی تھی۔ مگر وہ نہ اترتی تھی۔ غصہ میں میں نے انگلی مروڑ ڈالی۔ مگر کیا ہوتا تھا۔ غرض میں بےطرح انگوٹھی اتارنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا، شکر ہے کہ انگوٹھی آپ کو پسند تو آ گئی۔

یہ سن کر میرے تن بدن میں پسینہ آ گیا اور میں گویا کٹ مری۔ میں نے دل میں کہا کہ میں منہ چھپا کر جو بھاگی تو شاید انگوٹھی انہوں نے دیکھ لی۔ اور واقعہ بھی دراصل یہی تھا۔ اس جملہ نے میرے اوپر گویا ستم ڈھایا۔ میں نے سن کر اور بھی جلدی جلدی اس کو اتارنے کی کوشش کی مگر وہ انگوٹھی کمبخت ایسی پھنسی تھی کہ اترنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ میرا دل انجن کی طرح چل رہا تھا اور میں کٹی جا رہی تھی اور حیران تھی کہ کیونکر اس نامراد انگوٹھی کو اتاروں۔

اتنے میں بیرسٹر صاحب آڑ سے ہی بولے، اس میں سے اگر اور کوئی چیز پسند ہو تو وہ بھی لے لیجئے۔ میں نے یہ سن کر اپنی انگلی مروڑ تو ڈالی کہ یہ لے تیری یہ سزا ہے، مگر بھلا اس سے کیا ہوتا تھا؟ غرض میں حیران اور زچ ہونے کے علاوہ مارے شرم کے پانی پانی ہوئی جاتی تھی۔اتنے میں بیرسٹر صاحب پھر بولے، چونکہ یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ مجھے اپنی منسوبہ بیوی سے باتیں کرنے کا بلکہ ملاقات کرنے کا موقع مل گیا ہے لہذا میں اس زریں موقع کو کسی طرح ہاتھ سے نہیں کھو سکتا۔

یہ کہہ کر وہ دروازہ سے نکل کر سامنے آ کھڑے ہوئے اور میں گویا گھر گئی۔ میں شرم و حیا سے پانی پانی ہو گئی اور میں نے سر جھکا کر اپنا منہ دونوں ہاتھوں سے چھپا کر کونہ میں موڑ لیا۔ کواڑ میں گھسی جاتی تھی۔ میری یہ حالت زار دیکھ کر شاید بیرسٹر صاحب خود شرما گیے اور انہوں نے کہا، میں گستاخی کی معافی چاہتا ہوں مگر۔۔۔ یہ کہہ کر سامنے مسہری سے چادر کھینچ کر میرے اوپر ڈال دی اور خود کمرے سے باہر جا کر کہنے لگے، آپ مہربانی فرما کر مسہری پر بیٹھ جائیے اور اطمینان رکھیے کہ میں اندر نہ آؤں گا۔ بشرطیکہ آپ میری چند باتوں کے جواب دیں۔

میں نے اس کو غنیمت جانا اور مسہری پر چادر لپیٹ کر بیٹھ گئی کہ بیرسٹر صاحب نے کہا، آپ میری گستاخی سے خفا تو نہیں ہوئیں؟ میں بدستور خاموش انگوٹھی اتارنے کی کوشش میں لگی رہی اور کچھ نہ بولی بلکہ اور تیزی سے کوشش کرنے لگی تاکہ انگوٹھی جلد اتر جائے۔اتنے میں بیرسٹر صاحب بولے، بولیے صاحب جلدی بولیے۔ میں پھر خاموش رہی۔ تو انہوں نے کہا، آپ جواب نہیں دیتیں تو پھر میں حاضر ہوتا ہوں۔میں گھبرا گئی اور مجبوراً میں نے دبی آواز سے کہا، جی نہیں میں برابر انگوٹھی اتارنے کی کوشش میں مشغول تھی۔ بیرسٹر صاحب نے کہا، شکریہ۔ یہ انگوٹھی آپ کو بہت پسند ہے؟

یا اللہ میں نے تنگ ہو کر کہا، مجھے موت دے۔ یہ سن کر میں دراصل دیوانہ وار انگلی کو نوچنے لگی۔ کیا کہوں میرا کیا حال تھا۔ میرا بس نہ تھا کہ انگلی کاٹ کر پھینک دوں۔ میں نے اس کا کچھ جواب نہ دیا کہ اتنے میں بیرسٹر نے پھر تقاضا کیا۔ میں اپنے آپ کو کوس رہی تھی اور دل میں کہہ رہی تھی کہ بھلا اس کا کیا جواب دوں۔ اگر کہتی ہوں کہ پسند ہے تو شرم آتی ہے اور اگر ناپسند کہتی ہوں تو بھلا کس منہ سے کہوں۔ کیونکہ اندیشہ تھا کہ کہیں وہ یہ نہ کہہ دیں کہ ناپسند ہے۔ تو پھر پہنی کیوں؟ میں چپ رہی اور پھر کچھ نہ بولی۔

اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا، شکر ہے عطر دان تو آپ کو ایسا پسند آیا کہ آپ نے اس کو برت کر ختم بھی کر دیا اور گویا میری محنت وصول ہو گئی، مگر انگوٹھی کے بارے میں آپ اپنی زبان سے اور کچھ کہہ دیں تاکہ میں سمجھوں کہ اس کے بھی دام وصول ہو گیے۔ میں یہ سن کر اب مارے غصے اور شرم کے رونے کے قریب ہو گئی تھی اور تمام غصہ انگلی پر اتار رہی تھی، گویا اس نے عطر دان توڑا تھا۔ میں عطردان توڑنے پر سخت شرمندہ تھی اور میری زبان سے کچھ بھی نہ نکلتا تھا۔ جب میں کچھ نہ بولی تو بیرسٹر صاحب نے کہا، آپ جواب نہیں دیتیں لہذا میں حاضر ہوتا ہوں۔

میں گھبرا گئی کہ کہیں آنہ جائیں اور میں نے جلدی سے کہا، بھلا اس بات کا میں کیا جواب دوں۔ میں سخت شرمندہ ہوں کہ آپ کا عطر دان۔۔۔

بات کاٹ کر بیرسٹر صاحب نے کہا، خوب! وہ عطردان تو آپ کا ہی تھا۔ آپ نے توڑ ڈالا، خوب کیا۔ میرا خیال ہے کہ انگوٹھی بھی آپ کو پسند ہے جو خوش قسمتی سے آپ کی انگلی میں بالکل ٹھیک آئی ہے اور آپ اس کو اب تک از راہ عنایت پہنے ہوئی ہیں۔

میں اب کیا بتاؤں کہ یہ سن کر میرا کیا حال ہوا۔ میں نے دل میں کہا کہ خوب انگوٹھی ٹھیک آئی اور خوب پہنے ہوئے ہوں۔ انگوٹھی نہ ہوئی گلے کی پھانسی ہو گئی۔ جو ایسی ٹھیک آئی کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ میں نے دل میں یہ بھی سوچا کہ اگر یہ کمبخت میری انگلی میں نہ پھنس گئی ہوتی تو کاہے کو میں بے حیا بنتی اور انہیں یہ کہنے کا موقع ملتا کہ آپ پہنے ہوئے ہیں۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس نامراد انگوٹھی کو اتارنے کے لیے کیا کیا جتن کر چکی ہوں اور برابر کر رہی تھی۔ مگر وہ تو ایسی پھنسی تھی کہ اترنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ میں پھر خاموش رہی اور کچھ نہ بولی۔ مگر انگوٹھی اتارنے کی برابر کوشش کر رہی تھی۔

بیرسٹر صاحب نے میری خاموشی پر کہا، آپ پھر جواب سے پہلو تہی کر رہی ہیں۔ پسند ہے یا ناپسند۔ ان دو جملوں میں سے ایک کہہ دیجیئے۔میں نے پھر غصے میں انگلی کو نوچ ڈالا اور قصہ ختم کرنے کے لیے ایک اور ہی لفظ کہہ دیا، اچھی ہے۔

جی نہیں۔ بیرسٹر صاحب نے کہا، اچھی ہے اور آپ کو پسند نہیں تو کس کام کی۔ علاوہ اس کے اچھی تو خود دکاندار نے کہہ کر دی تھی، اور میں یہ پوچھتا بھی نہیں، آپ بتائیے کہ آپ کو پسند ہے یا ناپسند، ورنہ پھر حاضر ہونے کی اجازت دیجیئے۔ میں نے دل میں کہا یہ قطعی گھس آئیں گے اور پھر جھک مار کر کہنا ہی پڑےگا، لہذا کہہ دیا۔ پسند ہے۔ یہ کہہ کر میں دانت پیس کر پھر انگلی نوچنے لگی۔

شکریہ۔ بیرسٹر صاحب نے کہا۔صد شکریہ۔ اور اب آپ جا سکتی ہیں۔ لیکن ایک عرض ہے اور وہ یہ کہ یہ انگوٹھی تو بے شک آپ کی ہے اور شاید آپ اس کو پہن کر اتارنا بھی نہیں چاہتی ہیں۔ لیکن مجھ کو مجبوراً آپ سے درخواست کرنا پڑ رہی ہے کہ شام کو مجھ کو چونکہ اور چیزوں کے ساتھ اس کو رسماً بھجوانا ہے لہذا اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو اس وقت اس کو یہاں چھوڑتی جائیں۔ میں علیحدہ ہوا جاتا ہوں۔ خدا حافظ۔ یہ کہہ کر وہ ہٹ گیے اور میں نے ان کے جانے آواز سنی۔ وہ سامنے کے غسل خانے میں چلے گیے۔ دراصل وہ اسی غسل خانے میں کنگھا وغیرہ کر رہے ہوں گے، جب میں بے خبری میں آکر پھنس گئی۔

اب میں سخت چکر میں تھی اور انگلی سے انگوٹھی اتارنے کی سر توڑ کوشش کی گھبراہٹ اور جلدی میں پاگل سی ہو رہی تھی۔ پریشان ہو کر میں نے علاوہ ہاتھ کے، دانتوں سے بھی امداد لی اور انگلی میں کاٹ کاٹ کر کھایا مگر وہ کمبخت انگوٹھی جان لیوا تھی اور نہ اترنا تھی نہ اتری۔ میں نے تنگ آ کر اپنا سر پیٹ لیا اور رو رو کر کہا، ہائے میرے اللہ میں کس مصیبت میں پھنس گئی۔ یہ کمبخت تو میری جان لیے لیتی ہے۔

بیرسٹر صاحب غسل خانے میں کھڑے کھڑے تھک گیے اور میں وہیں کی وہیں تھی۔ وہ لوٹ آئے اور بولے، معاف کیجیے نہیں معلوم تھا کہ انگوٹھی اتارنے پر آپ رضامند نہیں اور اس شرط پر جانا بھی نہیں چاہتیں۔ مگر چونکہ اس رسم کا نام ہی انگوٹھی کی رسم ہے، لہذا میں اس کی خالی ڈبیہ رکھ دوں گا۔ اور کہلا دوں گا کہ انگوٹھی آپ کے پاس ہے۔ یہ کہہ کر ذرا رک کر بولے، اور تو کسی بات کا خیال نہیں صرف اتنا کہ آپ کے والد اس کو بدقسمتی سے دیکھ چکے ہیں۔

میں اپنی انگلی توڑ رہی تھی اور یہ سن کر گھبرا گئی۔ یہ تو خیر مذاق تھا کہ وہ کہہ دیں گے انگوٹھی میرے پاس ہے۔ مگر میں سوچ رہی تھی کہ جب ابا جان انگوٹھی دیکھ چکے ہیں تو آخر بیرسٹر صاحب ان سے اس کے بارے میں کیا کہیں گے۔ اتنے میں بیرسٹر صاحب کو شبہ گزرا کہ میں اس وجہ سے نہیں جا رہی ہوں کہ کہیں وہ غسل خانہ میں سے مجھ کو جاتے ہوئے نہ دیکھ لیں۔ لہذا وہ ایک دم سے بولے، اوہو! اب میں سمجھا۔ لیجیے بجائے غسل خانہ کے زینے میں کھڑا ہو جاتا ہوں۔

میں بےحد پریشان تھی، مجبور تھی کہ اس غلط فہمی کو جلد از جلد دور کر دوں اور اصل وجہ بتا دوں۔ میری عقل کام نہ کرتی تھی کہ الہی کیا کروں۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن، تو میرا حال تھا اور بیرسٹر صاحب نہ جانے کیا خیال کر رہے تھے۔ بالاخر جب میں نے دیکھا کہ اب یہ زینے میں روپوش ہونے جا رہے ہیں تو مرتا کیا نہ کرتا، تنگ آ کر نہ معلوم میں نے کس طرح دبی آواز میں کہا، وہ نہیں اترتی۔

ادھر تو میرا یہ حال تھا اور ادھر بیرسٹر صاحب گویا مارے خوشی کے اچھل پڑے اور انہوں نے ہنس کر بڑی خوشی کے لہجہ میں جیسے کوئی بے تکلفی سے کہتا ہے۔ کہا، واللہ!یہ معاملہ ہے!! خدا کرے نہ اترے۔ میں بھلا اس جملے کے بعد کیا بولتی۔ اسی طرح چپ تھی اور اپنی بنتی کوشش کر رہی تھی کہ انگوٹھی اتر آئے۔ لیکن جب دیر ہوئی تو انہوں نے کہا، اگر آپ کو ناگوار نہ ہو تو میں اتار دوں۔

یا اللہ! میں نے اپنے دل میں کہا۔ اب کیا کروں۔ میں تو نہ اترواؤں گی۔ یہ طے کر کے میں پھر کوشش کرنے لگی۔ مگر توبہ کیجیئے وہ بھلا کیوں اترتی۔ اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا، وہ آپ سے ہر گز نہ اترےگی۔ کوئی حرج نہیں ہے میں باہر سے اتار دوں گا۔

میں چونکہ اب تنگ آ گئی تھی اور اس مصیبت سے کسی نہ کسی طرح جان چھڑوانا چاہتی تھی لہذا میں نے مجبوراً ہار کر مسہری پر بیٹھ کر ہاتھ دروازے سے باہر کر دیا۔ بیرسٹر صاحب نے انگلی ہاتھ میں لے کر کہا، شاباش اس انگوٹھی کو! کیوں صاحب تعریف تو آپ بھی کرتی ہوں گی کہ میں کسی ناپ تول کے ٹھیک ٹھیک انگوٹھی لایا ہوں۔ وہ انگوٹھی ہی بھلا کس کام کی جو یہ تماشا نہ دکھائے۔ میں مجبور تھی اور چار و ناچار سن رہی تھی۔ مگر اس جملے پر مجھ کو اس مصیبت میں بھی ہنسی آ گئی کہ دیکھو تو کمبخت کس ناپ کی انگوٹھی آئی کہ مجھے اس مصیبت ڈال دیا۔ انگلی کو انہوں نے خوب ادھر ادھر سے دیکھ کر اور دبا کر کہا، یہ تو پھنس گئی ہے۔ یہ کہہ کو وہ اتارنے کی کوشش کرنے لگے۔

ایک دم سے بولے، اخاہ! معاف کیجیئےگا۔ آپ بتا سکتی ہیں کہ اس غریب انگلی پر دانت کس نے تیز کیے ہیں؟ میں نے جھٹ شرمندہ ہو کر ہاتھ اندر کر لیا۔

لائیے۔ لائیے۔بیرسٹر صاحب نے کہا، اب میں کچھ نہ کہوں گا۔

مجبورا پھر ہاتھ بڑھانا پڑا۔ اور انہوں نے انگوٹھی اتارنے کی کوشش کرنا شروع کی۔ انہوں نے خوب خوب کوشش کی۔ خوب دبایا اور وہ بھی ایسا کہ درد کے مارے میرا حال برا ہو گیا۔ مگر وہ دشمن جان انگوٹھی نہ اترنا تھی نہ اتری۔ لیکن وہ بے چارے ہر ممکن کوشش کر رہے تھے اتنے میں کسی نے مردانہ زینے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بیرسٹر صاحب غسل خانے کی طرف چلے کہ، آج شام نہ سہی کل شام مگر براہ کرم یہ انگوٹھی جس طرح بھی ممکن ہو میرے پاس ضرور پہنچا دیجیئےگا۔ چلتے چلتے وہ ایک ستم کا فقرہ اور کہہ گیےاور وہ یہ کہ سرخ پاؤڈر کی آپ کو چنداں ضرورت تو نہ تھی۔میں کٹ ہی تو گئی۔ کیونکہ کم بختی سے ایک گال پر سرخ پاؤڈر لگائے ہوئے تھی جو انہوں نے دیکھ لیا تھا۔

ادھروہ غسل خانے میں بند ہوئے اور ادھر میں چادر پھینک کر سیدھی بھاگی اور اپنے کمرے میں آ کر دم لیا۔ سب سے پہلے آئینہ جو دیکھا تو ایک طرف کے گال پر سرخ پوڈر رنگ دکھا رہا تھا اپنے کو کوستی گئی اور پونچھتی گئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے انگلی پر ایک پٹی باندھی تاکہ انگوٹھی چھپ جائے اور بہانہ کر دوں کہ چوٹ لگی ہے۔

(۵)

خیر سے یہ بہانہ کارگر ہوا اور اماں جان نے چوٹ یا زخم تک کی وجہ نہ پوچھی۔ میں نے سر درد کا بہانہ کر دیا اور وہ ملازمہ سے یہ کہہ کر چپ ہو رہیں۔ رہنے دے اس کا منگیتر آیا ہوا ہے۔ شرم کی وجہ سے نہیں نکل رہی۔ انہیں یا ملازمہ کو بھلا کیا معلوم تھا کہ یہ کمبخت اس سے ملاقات کر آئی ہے اور صرف ملاقات ہی نہیں بلکہ تمام چیزیں اس کی بگاڑ آئی ہے۔

تیسرے پہر کا وقت تھا اور مجھ کو ہر لمحہ شاہدہ کا انتظار تھا۔ اس کو میں نے بلوایا تو اس نے انکار کر دیا۔ کیونکہ آج ہی تو میں اس کے یہاں سے آئی تھی۔ میں نے پھر اس کو ایک خط لکھا تھا کہ بہن خدا کے واسطے جس طرح بھی بن پڑے جلد آ، ورنہ میری جان کی خیر نہیں۔ اس خط کے جواب میں اس کا انتظار بڑی بے چینی سے کر رہی تھی۔میں جانتی تھی کہ وہ ضرور آئےگی۔ چنانچہ وہ آئی۔ میں اس کو لینے بھی نہ گئی۔ اماں جان سےاس کو معلوم ہوا کہ بیرسٹر صاحب آئے ہوئے ہیں۔ اس کی گھبراہٹ رفع ہو گئی اور ہنستی ہوئی آئی اور آتے ہی اس نے نہ سلام نہ دعا کہا، اری کمبخت باہر جا کے ذرا مل تو آ۔

میں تو مل بھی آئی۔ میں نے مسکرا کر کہا۔ تجھے یقین نہ آئے تو یہ دیکھ۔ یہ کہہ کر میں نے انگلی کھول کر دکھائی۔

میں نے شروع سے آخر تک سارا واقعہ تفصیل سے سنایا تو شاہدہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ بولی، تو نے بڑی مزیدار ملاقات کی۔ یہ کہہ کر وہ چٹکیاں لینے کو آگے بڑھی۔ میں نے کہا، ملاقات تو گئی چولہے میں، اب اس ناہجار انگوٹھی کو کسی طرح اتارو، چاہے انگلی کٹے یا رہے۔ مگر تو اسے اتار دے اور اسی لیے تجھے بلایا ہے۔

شاہدہ نے کہا، خیر یہ اتر تو ابھی آئےگی مگر اسے دینے کیا تو جائےگی؟

اب میں چکرمیں آئی کہ یہ کس طرح جائے گی۔ ایسے جانا چاہیے کہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے۔ کچھ سوچ کر شاہدہ نے کہا کہ، میں پان میں رکھ کر بھیج دوں گی۔ نوکرانی سے کہلوا دوں گی کہ یہ پان ان کے ہاتھ میں دینا اور کہہ دینا کہ تمہاری سالی نے دیا ہے۔یہ تجویز مجھے پسند آئی۔ کیونکہ اماں جان یہی خیال کرتیں کہ پان میں کچھ مذاق ہوگا۔ جو نئی بات نہ تھی۔

جب اس طرف سے اطمینان ہو گیا تو شاہدہ نے انگوٹھی اتارنے کی کوشش شروع کی۔ بہت جلد معلوم ہو گیا کہ اس کا اترنا آسان کام نہیں ہے، تیل اور صابن کی مالش کی گئی مگر بےکار۔ جب ہر طرح کوشش کر لی تو شاہدہ گھبرا گئی اور کہنے لگی کہ انگلی سوج گئی ہے اور یہ خدا ہی ہے جو اتارے۔ غرض گھنٹوں اس میں کوشش اور محنت کی گئی۔ بورا سینے کا بڑا سوا لایا گیا۔ چھوٹی بڑی قینچیاں آئیں۔ موچنا لایا گیا۔ کاک نکالنے کا پیچ اور مشین کا پیچ کس۔ غرض جو بھی اوزار ممکن تھا لایا گیا اور استعمال کیا گیا مگر سب بےکار۔

رات کو اسی فکر میں مجھ سے کھانا بھی نہ کھایا گیا۔ تھک کر میں بیٹھ گئی اور رو رو کر شاہدہ سے کہتی تھی کہ خدا کے لیے کوئی صورت نکال۔ رات کو گرم پانی میں انگلی ڈبوئی گئی اور طرح طرح سے ڈورے ڈال کو کھینچی گئی مگر کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ رہ رہ کر میں پریشان ہوتی تھی اور شاہدہ جب کوشش کر کے تھک جاتی تھی تو یہ کہتی تھی کہ خدا کے واسطے مجھے اس انگوٹھی کی مصیبت سے نکال۔

آخر تو عشق بازی کرنے گئی ہی کیوں تھی؟ شاہدہ نے خود تنگ ہو کر مجھ سے پوچھا۔

خدا کی مار پڑے تمہاری عشق بازی پر۔ میں تو اس مصیبت میں گرفتار ہوں اور تمہیں یہ مذاق سوجھ رہا ہے۔ میں نے منہ بنا کر کہا۔

یہ عشق بازی نہیں تو اور کیا ہے؟ گئیں وہاں اور شوق سے پاؤڈر اور مسی لگاتے لگاتے میاں کے چونچلے میں آکر انگوٹھی پہن لی۔ شاہدہ نے کہا، اب عشق بازی کے مزے بھی چکھو۔ مزے مزے کی باتیں تو کرنے گئیں اور اب۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھ سے اس کا منہ بند کر کے کہا، خدا کے لیے ذرا آہستہ بولو۔

قینچی سے انگوٹھی کتر دوں؟

نہ بہن کتراؤں گی نہیں۔ نہ معلوم کتنی قیمتی انگوٹھی ہوگی، ایک تو میں شامت کی ماری عطردان توڑ آئی اور اب اسے کاٹ ڈالوں۔

بھلا مجال ہے جو وہ چوں بھی کر جائے۔ ابھی کہلوا دوں، میاں راستہ دیکھو، ہماری چھوکری فاضل نہیں، کہیں اور مانگ کھاؤ۔ یہ کہہ کر شاہدہ نے قینچی لی اور مجھ سے کہا، لاؤ ادھر لاؤ۔

نہیں نہیں میں نے کہا۔ ایسا نہ کرو۔ پھر وہی کوششیں جاری ہو گئیں۔ غرض انگوٹھی نے رات کو سونا حرام کر دیا۔ رات بھی انگلی طرح طرح سے کھینچی گئی، کبھی میں اپنے آپ کو خوب کوستی تھی اور کبھی انگوٹھی کو برا بھلا کہتی تھی اور کبھی گڑگڑاکر دعا مانگتی تھی کہ خدایا میری مشکل آسان کر دے۔ مجبور ہو کر صبح میں نے شاہدہ سے کہا کہاب میری انگلی ویسے بھی درد کے مارے پھٹی جا رہی ہے؛ تو کاٹ دے۔

شاہدہ نے قینچی سے کاٹنے کی کوشش کی۔ امید تھی کہ سونا ہے اور آسانی سے کٹ جائے گا مگر وہ گنی کا سخت سونا تھا اور تھوڑی دیر بعد معلوم ہو گیا کہ اس کو کاٹنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ طرح طرح کے اوزار استعمال کیے گیے مگر سب بیکار۔ اب تو میں اور بھی گھبرا گئی اور ایسی حواس باختہ ہوئی کہ شاہدہ سے کہنے لگی کہ مجھے زہر مل جائے تو میں کھا کر اپنا قصہ ختم کر دوں۔ اب شاہدہ بھی متفکر تھی، اور اس نے بہت سوچ سمجھ کر مجھ سے نرمی سے کہا، کہ اب صرف ایک ترکیب ہے۔

وہ کیا؟

وہ یہ ہے۔ شاہدہ نے مسکرا کر کہا، وہ یہ کہ تم اوپر جاؤ اور اپنے چہیتے سے نکلواؤ، ورنہ شام تک پکڑی جاؤ گی۔ اور ناک چوٹی کٹےگی۔

میں تو کبھی نہ جاؤں گی۔ میں نے کہا۔

یہ باتیں اور وہ بھی ہم سے! شاہدہ نے کہا۔ ذرا دل سے تو پوچھ میں نے واقعہ کہا کہ خدا کی قسم میں کسی طرح بھی جانا پسند نہیں کرتی۔ میں اس وقت بدبخت انگوٹھی کی بدلے جان سے بیزار ہو رہی ہوں۔

شاہدہ بولی، مذاق نہیں کرتی۔ خواہ پسند کرو یا نہ کرو، جانا ضرور پڑےگا۔ کیونکہ گھر کے کسی اوزار سے بھی ناممکن ہے کہ میں یا تم اسے اتار یا کاٹ سکیں۔

میں چپ بیٹھی رہی اور سوچتی رہی۔ شاہدہ نے آہستہ آہستہ سب اونچ نیچ بتائی کہ کوئی نقصان نہیں۔ خاص طور پر جب وہ اس قدر شرمیلے اور باحیا ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا کوئی چارہ ہی نہ تھا اور مجبوراً میں راضی ہو گئی۔

(۶)

جب سناٹا ہو گیا تو اوپر پہنچی اور شاہدہ بھی ساتھ تھی۔ دروازے کے پاس پہنچ کر میرا قدم نہ اٹھتا تھا۔ شاہدہ نے مجھے ہٹا کر جھانک کر دیکھا۔ کواڑ کی آواز سن کو بیرسٹر صاحب نکل آئے، کیونکہ وہ شاید منتظر ہی تھے۔ وہ سیدھے غسل خانہ میں بند ہونے چلے۔ وہ جیسے ہی دروازے کے سامنے آئے، اس شریر شاہدہ کی بچی نے مجھے ایک دم سے آگے کرکے دروازہ تیزی سے کھول کر اندر کو زور سے دھکیل دیا ۔وہ اتنے قریب تھے کہ میں سیدھے ان سے لڑ گئی۔ وہ اس نا معقولیت کے لیے بالکل تیار نہ تھے۔ ارے ؟ کہہ کر انہوں نے مجھے ہاتھوں سے روکا۔ وہ خود بے طرح گھبرا گیے۔ میری حالت پر انہوں نے رحم کھا کر منہ موڑ لیا۔ میں کیا بتاؤں کہ میرا کیا حال ہوا۔ دروازہ شاہدہ نے بند کر لیا تھا۔ میں سیدھی کمرے میں گھس گئی اور چادر میں اچھی طرح اپنے کو لپیٹ کر بیٹھ گئی۔

بیرسٹر صاحب آئے تو سب سے پہلے انہوں نے سلام کر کے زبردستی اندر گھسنے کی دھمکی دے کر جواب لیا اور پھر مزاج پوچھا۔ اس کے جواب میں میں نے ہاتھ دروازہ سے باہر کر دیا۔

یہ کیا حالت ہے؟ بیرسٹر صاحب نے انگلی کو دیکھ کر کہا۔

معلوم ہوتا ہے کہ انگلی اور انگوٹھی دونوں پر آپ نے عمل جراحی کیا ہے۔

میں کچھ نہ بولی اور انہوں نے انگلی کو چاروں طرف سے اچھی طرح دیکھا اور پھر پوچھا۔

براہ مہربانی پہلے یہ بتا دیجئے کہ یہ کون شریر ہیں جنہوں نے آپ کو میرے اوپر دھکیل دیا۔ آپ کے لگی تو نہیں؟

میں نے صرف ایک لفظ کہا، شاہدہ۔

آپ کی کوئی ہم جولی معلوم ہوتی ہیں۔ بیرسٹر صاحب نے کہا، ماشاءاللہ ہیں بڑی سیدھی۔ میں دل میں شاہدہ کی شرارت پر ہنسنے لگی کہ دیکھو اس کمبخت نے کیسی شرارت کی۔

میں صابون لاتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ صابون لینے گیے۔ مجھ سے کہا بھی نہ گیا کہ صابون کی مالش ہو چکی ہے۔ بیرسٹر صاحب نے صابون سے خوب مالش کی اور پھر طرح طرح سے انگوٹھی اتارنے کی کوشش کی گئی مگر سب بے سود ثابت ہوئی۔ جب ہر طرح طرح وہ کوشش کر چکے تو تھک کر انہوں نے کہا۔ یہ انگوٹھی آپ پہنے رہیے۔ میری قسمت اچھی ہے۔ ورنہ ہزار روپیہ خرچ کرتا جب بھی اس ناپ کی انگوٹھی مجھے نہ ملتی۔ میں گھبرا گئی اور مجھے شرم آئی۔ بجائے منہ سے بولنے کے میں نے ہاتھ کو جھٹکا کہ گویا اتار دیجیئے۔

اب نہیں اتر سکتی۔ انہوں نے نہایت لاپروائی سے کہا، پہنے رہیے۔ میں سخت گھبرائی اور شرم و حیا اب رخصت کر کے بولی، خدا کے واسطے میرے اوپر رحم کیجئے۔ اور کوئی تدبیر کیجیئے۔ خواہ انگلی کٹے یا رہے۔

بیرسٹر صاحب بولے، اتر تو سکتی ہے۔ مگر آپ منظور نہ کریں گی۔ میں چپ رہی کہ الہٰی کیوں نہ منظور کروں گی بیرسٹر صاحب بھی چپ رہے۔ مجبور ہو کر میں نے پھر بےحیا بن کر کہا، مجھے سب منظور ہے، اتر جائے۔

مجھے قطعی معلوم نہ تھا کہ اس سے ان کا کیا مطلب ہے۔ وہ یہ سن کر اندر چلے آئے۔ میں چادر میں منہ چھپا کر بالکل سکڑ گئی۔ وہ پلنگ کے سامنے بالکل میرے مقابل ایک کرسی پر بیٹھ گیے اور کہنے لگے دراصل اس میں تین ہاتھوں کی ضرورت ہے۔ آپ کو منظور ہو تو میں اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے آہستہ آہستہ صابون لگا کر دباتا ہوں، آپ اپنے ہاتھ سے انگوٹھی اوپر کرنے کی کوشش کریں ورنہ اور کوئی تدبیر نہیں۔

مجبوری سب کچھ کرواتی ہے۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ انہوں نے صابون کی مالش کر کے انگلی دبائی اور میں نے انگوٹھی اتارنے کی کوشش کی۔

میرا سر اور منہ چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ کیونکہ میں سر سے پاؤں تک چادر میں لپٹی ہوئی بیٹھی تھی اس لیے میں ٹٹول کر انگوٹھی اوپر کر رہی تھی۔ دو مرتبہ انگوٹھی چکر کھاکر انگلی کی گرہ پر سے لوٹ گئی۔ بیرسٹر صاحب نے جب تیسری مرتبہ دیکھا کہ میں کہیں کی کہیں سرکاتی ہوں تو انہوں نے کہا، آپ کو تو انگوٹھی اتروانے کے لیے سب منظور ہے کیونکہ اس کام میں تین ہاتھوں کے علاوہ دراصل چار آنکھوں کی بھی ضرورت ہے اور بدقسمتی سے یہاں صرف دو ہی کام کر رہی ہیں۔ مگر آپ کو سب منظور ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے ایک جھٹکے سے میری چادر اتار لی اور کھینچ کر اس کو الگ پھینک دیا۔ میں سمٹ سی گئی اور میں نے اپنا منہ گود میں چھپا کر چادر کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

بخدا میری یہ ہمت نہیں کہ آپ کی طرف آنکھ بھی اٹھا سکوں۔ لہذا چادر کی قطعی آپ کو ضرورت نہیں۔ یہ کہہ کر وہ واقعی بالکل نیچی نظر کر کے پھر سے کوشش کرنے لگے۔ میں پھر چادر کی طرف بڑھی تو انہوں نے انگلی گھسیٹ کر روکا اور کہا، آپ دوسرا ہاتھ منہ پر رکھے ہیں، کیا میری قسم کا آپ کو اعتبار نہیں؟ بخدا میں آپ کو ہرگز نہ دیکھوں گا۔

یہ انہوں نے اسی طرح کہا جیسے کوئی برا مان کر کہتا ہے۔ میں نے مجبوراً ہاتھ ہٹاکر، انگلی کو دبانا شروع کیا۔ مگر کیا کہوں میرا کیا حال تھا۔ حالانکہ وہ میری طرف بالکل نہیں دیکھ رہے تھے اور دیدہ و دانستہ ضرورت سے زیادہ گردن جھکائے تھے مگر پھر بھی میں سمٹی جا رہی تھی، دونوں ہاتھ علیحدہ تھے اور سمجھ میں نہ آتا تھا کہ چہرہ کدھر لے جاؤں۔لیکن یہ حالت تھوڑی ہی دیر رہی۔ کیونکہ انہوں نے کہا کہ آپ تو اتارنے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں لیتی ہیں۔ میں سب گویا بھول کر کوشش کرنے لگی۔

دونوں کی کوششیں جاری تھیں۔ لیکن میں رہ رہ کر اپنی نظریں انگوٹھی پر سے ہٹاکر بیرسٹر صاحب کی کشادہ پیشانی اور صاف شفاف جھکے ہوئے چہرے پر بھی ڈالتی تھی۔ کبھی میں ان کے پپوٹوں کو دیکھتی اور کبھی کبھی لمبی لمبی پلکوں کو دیکھتی تھی۔۔۔ مجھ کو یہ معلوم نہ تھا کہ جب میں ایسا کرتی ہوں تو میرا ہاتھ کام کرنے سے خود بخود رک جاتا ہے اور جو شخص غور سے انگلی اور انگوٹھی کی طرف دیکھ رہا ہے وہ آسانی سے بغیر میرے چہرے کو دیکھے ہوئے معلوم کر سکتا ہے کہ میری آنکھیں اب کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ میں نے ہمت کر کے بیرسٹر صاحب کے چہرے کو غور سے نظر بھر کر دیکھا، وہاں میرا ہاتھ معطل ہو گیا تو بیرسٹر صاحب نے مجبوراً تنگ آ کر کہا، مجھے آپ بعد میں فرصت میں دیکھ لیجئےگا۔ اس وقت براہ کرم ادھر دیکھیئے۔ یہ کہہ کر انہوں نے میری انگلی کو جھٹکا، مجھے اس قدر شرمندگی معلوم ہوئی کہ میں نے جھٹ اپنا منہ اپنے بائیں ہاتھ کی کہنی سے چھپا لیا۔

بیرسٹر صاحب نے کہا: اچھا معاف کیجئے۔ اور یہ کہہ کر اسی طرح نیچی نظر کیے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ کر کام میں لگا دیا۔

پھر میری ہمت نہ پڑی کہ بیرسٹر صاحب کی طرف دیکھوں اور بڑے غور سے میں نے اپنی انگوٹھی اتروانے کی کوشش کی۔ خوب خوب ہم دونوں نے کوشش کی۔ مگر وہ دشمن جان نہ اترنا تھی نہ اتری۔ جب بیرسٹر صاحب زچ آ گیے اور کوئی امید نہ رہی تو انہوں نے ہاتھ روک لیا اور اسی طرح نظر نیچی کیے ہوئے بولے، یہ نہیں اتر سکتی، کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ آپ نے یہ کس مقصد سے پہنی تھی؟میں جھینپ گئی اور میں نے بائیں ہاتھ کی کہنی سے اپنا منہ چھپا لیا۔

بیرسٹرصاحب نے کہا، بس ایک سوال کا جواب دے دیجئے، تو ابھی آپ کو خلاصی مل جائے۔ وہ یہ کہ آپ صرف یہ بتا دیں کہ آخر قبل از وقت آپ نے اسے کیوں پہن لیا ہاتھ کو انہوں نے آہستہ سے جھٹک کر کہا۔ بولیے۔میں کچھ نہ بولی تو انہوں نے کہا، تو پھر آپ جانیں اور آپ کا کام، میں صرف اسی شرط پر مشکل آسان کر سکتا ہوں۔میں نے بڑی کوشش سے زبان ہلائی۔ کہا۔ یونہی۔ میں اپنی آنکھوں کے گوشہ سے کہنی کی آڑ سے بیرسٹر صاحب کے خوبصورت چہرہ کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھی۔۔ ان کی لمبی لمبی سیاہ پلکیں بدستور اسی طرح زمین کی طرف جھکی ہوئی تھیں۔

انہوں نے میرا جواب سن کر نہایت ہی سادگی سے کہا، آپ کے والد صاحب قبلہ تو سال بھر کا وقت مانگتے ہیں۔مگر شکر ہے کہ آپ خود۔۔۔ انہوں نے شاید میرے اوپر رحم کیا کہ جملہ پورا نہ کیا۔ گو کہ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ ایک دم سے بات بدل کر بولے، آپ کے جواب کا شکریہ، اب عرض یہ ہے کہ انگوٹھی کٹ کر اترے گی اور مجھ کو بازار سے جا کر خود ریتی لانا پڑےگی۔

یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور دروازے کی طرف رخ کر کے دیکھنے لگے۔ میں نے موقع کو غنیمت خیال کر کے چادر قبضے میں کر کے اپنے اوپر ڈال لی۔ مجھے ایک دم سے خیال آیا کہ ایک چھوٹی سی ریتی میں اس چھوٹے سے بکس میں دیکھی تھی جس میں بہت سے چھوٹے چھوٹے ناخن کترنے اور گھسنے اوزار رکھے تھے۔ میں بولنے ہی کو تھی کہ بیرسٹر صاحب نے کہا، میں اس مقام سے واقف نہیں؛ مگر جاتا ہوں اور کہیں نہ کہیں سے ریتی ڈھونڈ کر لاتا ہوں۔ آپ مناسب خیال کریں تو اندر چلی جائیں۔ یہ کہہ کر وہ کھونٹی کی طرف اپنی ٹوپی لینے بڑھے۔

میں نے ہمت کر کے صرف اتناکہا کہ۔۔۔ ہے۔

کہاں ہے۔ بیرسٹر صاحب نے مڑ کر پوچھا۔ میں نے جواب میں ٹرنک کی طرف انگلی اٹھا دی۔

میرے ٹرنک میں؟ بیرسٹر صاحب نے متعجب ہو کر پوچھا، میرے ٹرنک میں؟

جی میں نے دبی آواز میں کہا۔

کم از کم ابھی تک تو مجھے ریتی اور پھاوڑے سوٹ کیس میں رکھنے کی ضرورت پڑی نہیں۔ آئندہ خدا مالک ہے۔ وہ اور بات ہے کہ جب آپ۔۔۔ اتنا کہہ کر رک گیے لیکن میں سمجھ گئی کہ خواہ مخواہ کی چوٹ مجھ پر کستے ہیں۔ بولے کہ،  تو آپ پھر تکلیف کر کے نکال بھی دیں۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ میرے پاس کوئی ریتی یا پھاؤڑہ نہیں ہے۔

اٹھنا تو پڑتا ہی۔ یہ سوچ کر کہ اس بھلے آدمی کو ذرا قائل ہی کر دوں، میں اٹھی۔ انہوں نے بڑھ کر سوٹ کیس کو کھول دیا۔ میں ادھر ادھر دیکھ کر اور چیزیں الٹ پلٹ کر وہ بکس نکال کر ان کے سامنے ڈال دیا۔

اوہو! بے شک اس میں ضرور ہو گی۔ معاف کیجیےگا۔ آپ نے خوب ہی تو میرے ٹرنک کا جائزہ لیا ہے، مگر دیکھ لیجیے، پھاؤڑہ نہیں ہے۔ ان کی آنکھیں واقعی اسی طرح تھیں کہ میں آزادی سے بار بار دیکھ رہی تھی۔ مگر وہ بےچارے قسم کھانے کو بھی پلک نہ اٹھاتے تھے۔ میں سوچ رہی تھی کہ یہ کتنے اچھے اور شرمیلے شخص ہیں۔

بکس میں سے ایک لمبی سی سیپ کے دستہ کی نازک سی ریتی نکلی اور بیرسٹر صاحب نے کہا، اگر اب تین ہاتھ اور چار آنکھیں کام میں لگیں تو بس پانچ منٹ کا کام ہے۔ چونکہ کافی دیر ہو گئی تھی۔ میں نے بہت دیکھ بھال کے اپنی انگلی اچھی طرح پکڑ لی، اس طرح کہ انگوٹھی نہ ہٹ سکے اور بیرسٹر صاحب نے ایک باریک اور تیز ریتی سے اس ظالم انگوٹھی کو کاٹنا شروع کیا۔ دراصل اس کا ریتنا بھی دشوار ہو رہا تھا کیونکہ ادھر ادھر انگلی کا گوشت ابھرا ہوا تھا۔ بیرسٹرصاحب انگوٹھی کاٹنے میں مشغول تھے اور میں کمبخت آنکھ کے گوشے سے ان کی لمبی لمبی پلکیں اور صاف و شفاف پیشانی دیکھ رہی تھی۔ انگوٹھی کو کاٹتے کاٹتے بیرسٹر صاحب نے مجھ سے پوچھا، آپ نے مجھ کو اچھی طرح دیکھا ہے؟

میں نے کچھ جواب نہ دیا تو انہوں نے کہا، تو پھر کام چھوڑے دیتا ہوں ورنہ جواب دیجیے۔ یہ کہہ کر انہوں نے ہاتھ روک لیا۔مجھ کو جلدی ہو رہی تھی اور میں سمجھی کہ یہ سوال اسی جواب پر ختم ہو جائےگا۔ لہٰذا میں نے کہہ دیا۔ جی ہاں۔ یہ کہہ کر میں شرما گئی۔ بیرسٹر صاحب نے کہا، مگر میں نے اب تک آپ کو نہیں دیکھا ہے سوائے ایک جھلک کے اور وہ بھی محض اتفاقاً۔

دراصل یہ واقعہ تھا کہ مجھے انہوں نے ایک مرتبہ بھی نظر بھر کر نہ دیکھا تھا حالانکہ ان کو میں برابر دیکھتی رہی تھی۔ جس سے انکار ہی نہ کر سکتی تھی۔ میں چپ ہو رہی اور کچھ نہ بولی۔ انگوٹھی ذرا سی رہ گئی تھی اور بیرسٹر صاحب نے ہاتھ روک کر اسی طرح نظر نیچی کئے ہوئے کہا، اتنی محنت میں نے مفت کر دی۔ لیکن اب میں بغیر مزدوری لئے قطعی نہیں کر سکتا۔ وعدہ کیجیے۔ کیونکہ یہ تو بے انصافی ہے کہ آپ مجھ کو دیکھ لیں اور میں نہ دیکھوں۔

میں چپ رہی اور چادر سے منہ کو اچھی طرح چھپانے لگی کہ انہوں نے انگلی بھی چھوڑ دی۔ مجھ کو سخت جلدی ہو رہی تھی اور میں نے پریشان ہو کر کہا، خدا کے واسطے۔

بس۔ بس۔ یہ لیجئے۔ یہ کہہ کر انہوں نے چشم زدن میں انگوٹھی کو کاٹ کر نکال دیا اور میری جان میں جان آئی۔

میری مزدوری۔ بیرسٹر صاحب نے کہا۔

میں نے اور بھی چادر میں منہ چھپا لیا۔

یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ کہہ کر انہوں نے ایک جھٹکے سے چادر کو منہ سے الگ کر دیا۔ سیدھا ہاتھ میرا پکڑے ہوئے تھے۔ میں نے بائیں ہاتھ کی کہنی اپنے منہ پر رکھ لی۔

یہ کوئی انصاف نہیں ہے۔ بیرسٹر صاحب بولے۔ اگر آپ کو کافی فرصت ہے تو بسم اللہ! اسی طرح بیٹھی رہیں۔ میں سخت گھبرا رہی تھی اور سر زمین کی طرف جھکائے ہوئے کہنی سے منہ چھپائے بیٹھی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کیسے جان چھڑاؤں، سیدھا ہاتھ تو وہ پکڑے ہی تھے، انہوں نے کہا، معاف کیجئےگا۔ اور یہ کہہ کر میرا بایاں ہاتھ جس سے منہ چھپائے تھی، میرے منہ سے ہٹا دیا۔ مجبوراً میں نے اپنا منہ کندھوں اور گریبان اور اپنی گود میں چھپانے کی کوشش کی تو انہوں نے ہاتھ چھوڑ کر اپنے ہاتھ سے میری ٹھوڑی اوپر کو کی تو میں نے پھر اپنا ہاتھ آزاد پا کر اس سے چہرہ ڈھک لیا۔ زچ ہو کر بیرسٹر صاحب نے کہا، کاش کہ میرے تین ہاتھ ہوتے۔ قصہ مختصر وہ میرے دونوں ہاتھ پکڑ لیتے تو میں گود میں منہ چھپا لیتی اور ہاتھ چھوڑ کر میرا سر اوپر کرتے تو میں ہاتھ سے چھپا لیتی۔

تنگ آکر بیرسٹر صاحب نے کہا، اب دیر ہو رہی ہے۔ خواہ کچھ ہی ہو آپ کو نجات اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک کہ آپ ایمانداری سے میری مزدوری نہ چکا دیں۔ مجبوراً اپنی جان چھڑانے کے لیے میں نے لمحہ بھر کے لیے آنکھیں بند کر لیں اور ہاتھ چہرے پر نہ لے گئی۔ میں نے آنکھیں کھولی تو ان کو اپنے چہرے کی طرف گھورتے ہوئے پایا اور دوسرا ہاتھ بھی جھٹک کر میں نے چھڑا لیا اور دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر چادر کو اکٹھا کر کے جانے کے لئے سرکی۔

میں چلنے ہی کو تھی کہ انہوں نے نرم آواز میں کہا، ٹھہریے۔ میں نے جھانک کر دیکھا تو وہ سوٹ کیس میں سے کوئی چیز نکال رہے تھے۔ انہوں نے ایک چھوٹا سا ڈبہ نکالا اور اس میں سے ایک سونے کی گھڑی نکال کر میری کلائی پر باندھی اور کہا، بقیہ چیزیں شام کو۔ اتنا کہہ کر میرا ہاتھ پکڑ کر ذرا جھٹک کر کہا، ہمیں بھولو گی تو نہیں؟میں کچھ نہ بولی۔ مگر اپنی کہنی اور چادر کی آڑ سے ان کے خوبصورت چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ کیا کہوں کہ اس جملہ کا میرے دل پر کیسا اثر ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے یہ الفاظ دل سے کہے تھے۔

ایک مرتبہ انہوں نے مجھ سے پھر یہی کہا اور جب میں پھر کچھ نہ بولی تو بائیں ہاتھ سے میری ٹھوڑی اوپر اٹھا کر کہا، خدا کے واسطے بھولو گی تو نہیں۔

میں نے سر ہلا کر بتایا کہ نہیں بھولوں گی۔ وہ جھکے ہوئے تھے اور میری آنکھیں چادر کے کونے سے چار ہوئیں۔ کیونکہ میں کمبخت پھر جھانک رہی تھی۔ میرا یہ سر ہلانا بس غضب ہی تو ہو گیا۔ ایک ہاتھ تو میری ٹھوڑی پر تھا۔ دوسرے ہاتھ سے بےخبری میں انہوں نے جھٹک کر میرا ہاتھ چہرے سے الگ کر دیا، بھولنا مت بھولنا مت، بھولنا مت۔ خدا کی پناہ! میری آنکھیں بند ہو گئیں اور سانس رک گئی۔جس طرح بھی بن پڑا میں اس مصیبت سے اپنی جان چھڑا کر بھاگی اور تیر کی طرح دروازے میں گھس گئی۔

اری یہ کیا؟! یہ کیا؟! شاہدہ نے مجھے بےترتیب اور حیران دیکھ کر کہا، یہ کیا؟

میں نے بن کر کہا، کچھ نہیں، ہوتا کیا۔

شاہدہ بولی، خالہ آئی تھیں اور پوچھتی تھیں۔میں سن سی ہو گئی اور گھبرا کر میں نے کہا، پھر تم نے کیا کہہ دیا۔ شاہدہ نے نہایت سادگی سے کہا، کہتی کیا؟ میں نے کہہ دیا کہ شہد کھا رہی ہے ابھی آتی ہے۔

خدا کی مار تیرے اوپر، تو نے مجھے دہلا دیا۔ وہ بولی، ذرا مجھے بتا تو سہی کہ یہ کیا ہو رہا تھا۔؟ کمبخت۔۔۔ میں نے بات کاٹ کر کہا، ہم نہیں بتاتے یہ کہہ کر میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ گھسیٹا۔ کمرہ میں آئی اور اسے وہ گھڑی دکھانے لگی۔ جو بیرسٹر صاحب نے تحفتاً پہنا دی تھی۔

شاہدہ نے اس میں کوک بھری اور پھر کان سے لگا کر کہنے لگی۔، اب تو نے بیرسٹر کو پھانس لیا اور وہ سال بھر چھوڑ! دو سال انتظار کرےگا، مگر کرےگا تجھی سے۔

شام کو تمام دوسری چیزیں مثلاً پوڈر کا ڈبہ اور دوسری ڈبیاں وغیرہ وغیرہ مع انگوٹھی کے آئیں۔ نہ معلوم کس سے اس قدر تھوڑے وقت میں بیرسٹر صاحب نے انگوٹھی کو اس صفائی سے جڑوایا کہ سوائے شاہدہ کے کسی کو پتہ بھی نہ چلا۔ ابا جان کو بیرسٹر صاحب نے پھسلا کر راضی کر لیا اور وہ سال بھر کے بجائے چھ مہینے پر آ گیے۔

بیرسٹر صاحب دو مہینہ بعد پھر آئے۔ میرا دل کہہ رہا تھا کہ وہ ضرور مجھ سے ملنا چاہتے ہوں گے، بلکہ شاید اسی امید پر آئے ہوں گے۔ مگر میں جھانکنے تک نہ گئی۔ کچھ تحفہ وغیرہ بھجوا کر چلے گیے۔

چھ مہینوں میں سے چار مہینے تو گزر گیے ہیں اور دو مہینے باقی ہیں۔ کچھ بھی ہوا، اچھا یا برا، مگر اس انگوٹھی کی مصیبت کو عمر بھر نہ بھولوں گی۔

مصنف:مرزا عظیم بیگ چغتائی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here