کہانی کی کہانی:’’ایک بہت ہی مذہبی شخص اور اس کے افراد خانہ کی کہانی ہے۔ اس شخص کے دو گھر ہیں، ایک میں وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہتا اور دوسرا مکان خالی پڑا ہوا ہے۔ اپنے خالی مکان کو کسی شریف اور نیک شخص کو کرائے پر دینا چاہتا ہے۔ پھر ایک دن اس گھر میں ایک عورت آکر رہنے لگتی ہے، وہ شخص اس کے پاس جانے لگتا ہے۔ اس کے بارے میں جب اس کی بیوی اور گھر کے دیگر افراد کو پتہ چلتا ہے تو کہانی ایک نیا موڑ لیتی ہے اور وہ مذہبی اور دیندار شخص اپنے گھر والوں کی نگاہوں میں قابل نفرین بن جاتا ہے۔‘‘
جس زمانے کا میں ذکر کر رہا ہوں۔ اس وقت میری عمر نو دس سال سے زیادہ نہیں تھی۔
آج کوچہ۔۔۔ کے آخری گوشے میں ایک شاندار حویلی نظر آ رہی ہے۔ مگر اس زمانے میں اس جگہ ایک دو منزلہ مکان کھڑا تھا جو ابا جی ہی کی ملکیت میں تھا اور ہمارے مکان کے بالکل قریب تھا۔
یہ مکان عموماً خالی پڑا رہتا تھا۔ کیونکہ اباجی کا قول تھا، اگر نیک سیرت اور خوش اخلاق کرایہ دار نہیں مل سکتا تو مکان خالی ہی رکھنا چاہیے۔ وہ اس اصول کو کسی حالت میں بھی نظر انداز کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ وہ ہر اس شخص کے اخلاق کا سختی سے جائزہ لیتے تھے جو مکان کو کرایے پر لینے کی خواہش ظاہر کرتا تھا اور عام طور پر کوئی شخص بھی اباجی کے اخلاقی معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔
ایک مرتبہ سائیں مہتاب یہاں آکر رہنے لگے تھے۔ سائیں صاحب اباجی کے گہرے دوست تھے اور ہم سب کو توقع تھی کہ چونکہ اباجی ان کے اخلاق اور عادات پر مطمئن ہیں۔ اس لیے انہیں کبھی بھی نکالنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ مگر ہماری یہ رائے صحیح ثابت نہ ہو سکی۔ اباجی سائیں صاحب کو تو فرشتہ سمجھتے تھے۔ لیکن اس کا کیا علاج کہ اس فرشتہ سیرت انسان کا بیٹا شیطان بن گیا تھا۔
اباجی کو معلوم ہو گیا تھا کہ جلال۔۔۔ سائیں جی کا بیٹا ایک دو مرتبہ رنڈی کے یہاں گیا ہے۔ بس پھر کیا تھا، دوسرے دن سائیں صاحب کو جواب مل گیا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس دن اباجی نے مسجد میں نماز پڑھنے کے بعد کہا تھا۔۔۔ ’’ایک گندی مچھلی سارے جل کو خراب کر دیتی ہے۔ آج وہ تنہا رنڈی کے گھر گیا ہے۔ کل اپنے کسی محلے کے دوست کو بھی ساتھ لے جائےگا۔ ہمیں کرایہ دار کی ضرورت نہیں۔ مہینے میں دس بارہ روپے نہیں ملیں گے تو کیا ہوگا۔‘‘
یہ الفاظ سن کر تمام نمازیوں کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں اور وہ ایک دوسرے کو خاص انداز سے دیکھنے لگے تھے اور جب امام صاحب نے اباجی کو مخاطب کرتےہوئے کہا تھا، ’’شیخ جی! جب تک آپ محلے میں موجود ہیں، کوئی شخص بھی بدکاری کی جرأت نہیں کر سکتا!‘‘ تو میری ہر رگ، ہر ریشے میں ایک شدید جذبہ غرور سرایت کر گیا تھا اور میں نے قسم کھاکر دل میں عہد کر لیا تھا کہ زندگی میں کبھی بھی اباجی کے ساتھ گستاخی سے پیش نہیں آؤں گا اور نہ ان کی حکم عدولی کروں گا۔
اس مکان کی مشرقی دیوار سرخ تھی۔ اس لیے ہم لوگ اسے لال مکان ہی کہا کرتے تھے۔
لال مکان خالی پڑا تھا اور میں دل و جان سے آرزومند تھا کہ یہ ہمیشہ خالی ہی پڑا رہے۔ بات یہ تھی کہ۔۔۔ اسکول سے آکر اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں چلا جاتا تھا اور شام تک وہیں کھیلتا رہتا تھا۔
ایک دن جب میں اسکول سے واپس آیا تو امی اور دادی اماں دونوں کو خلاف معمول آہستہ آہستہ کوٹھڑی میں باتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ میں جھٹ کوٹھڑی میں چلا گیا۔ وہاں دادی اماں نہ معلوم کس کو بازاری گالیاں دے رہی تھیں اور امی بار بار اپنی سرخ آنکھوں کو دوپٹے سے اس طرح پونچھ رہی تھیں گویا ان میں تنکے پڑ گئے ہوں اور وہ درد سے بیتاب ہوں۔
دوسرے کمرے میں آپا نے آواز دی۔ میں کمرے سے باہر نکل آیا۔ آپا نے میرے سامنے کھانا رکھ دیا۔ میں نے پوچھا۔
’’آپا! امی رو رہی ہیں۔ کیوں؟‘‘
آپا نے اس کے جواب میں ’’ہوں‘‘ کہا اور چلی گئیں۔ گویا امی کے رونے کا واقعہ ان کی نگاہوں میں کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا تھا۔
کھانا کھانے کے بعد میں موجودہ واقعے پر خیال آرائی کرتا ہوا لال مکان کی طرف جانے لگا۔ اس وقت میرے ننھے دماغ میں طرح طرح کے خیالات کا ہجوم بیقرار تھا اور میں دل میں کہہ رہا تھا۔ آج ضرور اباجی نےامی کو پیٹا ہے۔ مگر نہیں۔ اباجی کبھی بھی امی سے نہیں لڑے۔ پھر کیا بات ہے۔
انہی خیالات میں محو میں لال مکان کی سیڑھیاں طے کرکے دروازے پر پہنچ گیا۔ دروازہ بند تھا۔
میں نے خیال کیا۔ فیروز مجھ سے پہلے پہنچ گیا ہے اور اس نے شرارت سےدروازہ بند کر دیا ہے۔ میں نے دروازے کو دو تین بار زور زور سے کھٹکھٹایا اور ساتھ ہی فیروز کو گالیاں بھی سنائیں۔ لیکن وہاں فیروز کے بجائے ایک عورت کھڑی تھی۔
میں کچھ شرمندہ سا ہو گیا۔ یہ عورت میرے متعلق کیا رائے قائم کرےگی۔ اتنے نیک باپ کا گالیاں بکنےوالا بیہودہ بیٹا۔ میں نےچاہا کہ فوراً چلا جاؤں۔ یہ ارادہ ہی کیا تھا کہ وہ بڑے پیار سی بولی۔
’’فیروز کو گالیاں دے رہے تھے۔ کون ہے فیروز؟‘‘
’’میرا دوست ہے۔ آپ کون ہیں۔۔۔؟ کرایہ دار؟‘‘
’’ہا۔۔۔ آں!‘‘ یہ کہہ کر وہ پلنگ پر بیٹھ گئی اور چھالیاں کترنے لگی۔
’’پان کھاؤگے؟‘‘
میں خاموش رہا۔ وہ پان بنانے لگی اور پھر مسکرا کر کہنے لگی۔
’’تم شیخ صاحب کے لڑکے ہو نا۔ تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
میں نےاپنا نام بتایا اور پان لے کر بھاگ آیا۔ اس عورت کی باتوں نے مجھے اتنا متاثر کیا تھا کہ میں چاہتا تھا فوراً ابا۔ امی، دادی، آپا، سب کو بتا دوں کہ لال مکان میں ایک عورت آ گئی ہے۔ اگرچہ میں یہ جانتا تھا کہ انہیں یہ بات ضرور معلوم ہوگی۔
میں نے سب سے پہلے دادی اماں سے کہا، ’’دادی اماں! لال مکان میں ایک بڑی اچھی عورت آ گئی ہے۔۔۔ بڑی اچھی دادی جان! اس نے مجھے پان دیا ہے۔ دیکھو تو۔۔۔‘‘
’’پان کھاکر آئے ہو اس حرامزادی کے ہاتھ سے۔۔۔!‘‘ یہ کہہ کر دادی اماں نےمیرے منہ پر تھپڑ مارا اور کہا، ’’ابھی۔۔۔ جلدبیس تیس کلیاں کرو!‘‘
میری تمام خوشی خاک میں مل گئی اور میں مجبور ہوکر کلیاں کرنے لگا۔
میں نے دل میں عہد کر لیا تھا کہ جیسے ہی اباجی گھر میں تشریف لائیں گے ان سے دادی اماں کی شکایت کروں گا۔ کہ ایک اچھی عورت کے ہاتھوں پان کھانے پر انہوں نے مجھے مارا ہے۔
چنانچہ جب تک جاگتا رہا ان کا انتظار کرتا رہا۔ مگر وہ اس وقت آئے جب میں سو چکا تھا۔
دوسرے دن سکول سے واپس آیا تو حسب معمول لال مکان میں جانے کا ارادہ کیا۔ دادی اماں نے یہ ارادہ میرے چہرے سے پڑھ لیا۔ غصے سے بولیں۔۔۔ ’’اگر تو اس چڑیل کے پاس گیا تو کچا چبا ڈالوں گی۔‘‘
زندگی میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ دادی اماں نے اتنے خوفناک الفاظ اتنے درشت لہجے میں کہے تھے۔ میں ایک کونے میں دبک کر جا بیٹھا اور کتاب پڑھنے لگا۔ میری نگاہیں کتاب کے صفحات پر جمی تھیں لیکن دل پر عجیب قسم کے خیالات چھائے ہوئے تھے۔ سوچتا تھا کہ یہ عورت اگر اتنی بُری ہے تو اباجی نے اسے مکان میں رہنے کی اجازت کیوں دی ہے۔۔۔؟ اور وہ عورت بری کب ہے۔ نہایت محبت سے بولتی ہے۔ بڑے پیار سے پان کھلاتی ہے۔
میں اسی کشمکش میں گرفتار تھا کہ اباجی آ گئے اور آتے ہی پلنگ پر بیٹھ گئے۔ آپا نے ان کے ہاتھ دھلائے اور دسترخوان بچھانے لگیں۔ انہوں نے کچھ سوچ کر کہا،
’’وہاں کھانا بھیج دیا ہے۔۔۔؟ نہیں۔۔۔ اچھا وہیں سب کچھ بھجوا دو۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اٹھے اور سیڑھیوں کی طرف جانے لگے۔ امی جان نے زور سے ہاتھ اپنی پیشانی پر مارا اور رونے لگیں۔ اس وقت میرے دل کو سخت تکلیف پہنچی۔ میں بےاختیار چاہتا تھا کہ امی جان کادکھ بانٹ لوں۔ ان کو جو تکلیف پہنچی ہے فوراً دور کر دوں۔ لیکن معاملہ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ امی جان تو روتی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گئیں، مگر دادی اماں چیخ چیخ کر گالیاں دینے لگیں۔۔۔ گالیوں کے ساتھ ساتھ بددعاؤں کی بوچھاڑ بھی ان کے منہ سےنکلنے لگی تھی۔
میں حیران تھا۔ آخر کوسا کسے جا رہا ہے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ دادی اماں لال مکان والی عورت کو کوس رہی ہیں۔ لیکن کیوں؟ اس سوال کے ذہن میں آتے ہی میرا دماغ چکرانے لگا۔
جمعہ کو نامعلوم کس وجہ سے سکول جلد بند ہو گیا۔ میں گھر آیا اور پھر فیروز کے گھر جانے کے بہانے لال مکان میں چلا گیا۔
وہ عورت پلنگ پر بیٹھی گنگنا رہی تھی۔ مجھے آتے دیکھ کر بولی، ’’آ جاؤ۔ اتنے دن کہاں رہے؟‘‘
میں کرسی پر بیٹھ گیا اور تمام واقعہ سنا دیا۔
’’دادی اماں نے تیرے گال پر تھپڑ مارا۔ کیونکہ تم نے میرے ہاتھ سے پان کھایا تھا۔۔۔ یہ لوگ۔۔۔‘‘
اس کے رخسار سرخ ہو گئے اور اس نے منہ پھیر لیا۔
’’تم کون ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں کرایہ دار ہوں۔‘‘ اس نے مسکراکر جواب دیا۔ مگر مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ابھی روپڑےگی!‘‘
’’نہیں۔۔۔ تم۔۔۔ مگر دادی اماں تمہیں برا بھلا کیوں کہتی ہیں؟‘‘
’’اچھا۔۔۔ وہ مجھے برا بھلا کہتی ہیں۔۔۔ کہنے دو۔‘‘
میں حیران تھا وہ میری ہر بات پر کیوں مسکرا دیتی ہے؟ میں اس کی مسراہٹ کا مطلب تو نہ سمجھ سکا۔ لیکن چاہتا تھا کہ وہ ہر وقت مسکراتی رہے۔
مجھے پاس بٹھاکر وہ میرے بالوں میں کنگھی کرنے لگی۔ اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے میری اپنی ماں پیار اور شفقت سے میرے بالوں میں کنگھی کر رہی ہے۔ مجھے دادی اماں پر سخت غصہ آیا کہ وہ اتنی اچھی اور پیار کرنے والی عورت کو گالیاں دیتی ہیں۔
جب میں گھر پہنچا تو خالہ جان موجود تھیں۔ اس سے پیشتر کہ میں خالہ جان کو سلام کروں۔ دادی جان نے میری پشت پر دو ہتڑ مارا اور بولیں، ’’بے شرم! آج تو پھر وہاں چلا گیا تھا۔‘‘ خالہ جان بولیں، ’’بیٹا! وہ عورت بہت بری ہے تم اس کے پاس کیوں جاتے ہو؟‘‘
میں نے کہا، ’’وہ بہت اچھی ہے، مجھے پیار کرتی ہے۔‘‘
شاید میری اور تواضع ہوتی کہ اباجی آگئے۔ خالہ جی نے انہیں سلام کیا اور کہنے لگیں۔ بھائی جان! اس چڑیل کو چوٹی سے پکڑ کر گھر سے نکال دیں۔۔۔ بھائی جان!‘‘
’’اچھا۔۔۔ آ۔‘‘ اباجی مسکرا کر بولے اور لباس تبدیل کرنے لگے۔
اباجی چلے گئے تو دادی اماں اور خالہ جان دونوں کوٹھے پر جاکر، کھڑکی کھول کر اس بے چاری کو گالیاں دینے لگیں۔ مجھے اس پر بڑا رحم آیا مگر میں کر ہی کیا سکتا تھا؟
میں اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر اب لال مکان پر گیا تو میری خیر نہیں۔ پھر بھی دوسرے دن شام کے قریب وہاں چلا گیا۔
دروازہ بند تھا۔ میں دروازے کو کھٹکھٹانے ہی لگا تھا کہ ادھر سے اباجی کی آواز سنائی دی۔ میں جھٹ سے پیچھے ہٹ گیا اور دروازے کی درزوں میں سے اندر دیکھنے لگا۔
اباجی پلنگ پر بیٹھے تھے اور وہ عورت کرسی پر۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی۔ مجھے تم اسی لیے لائے تھے۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتی۔ اس میں میرا کیا قصور ہے۔ میں نے آخر۔۔۔ تم لائے میں آ گئی۔۔۔ جانتے ہو۔ تم نے کیا کیا وعدے کیے تھے؟‘‘
اباجی ہنسے، ’’پاگل ہیں یہ سب۔ تم دیکھو کس طرح ٹھیک کرتا ہوں انہیں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ چارپائی سےاٹھے اور اپنے دونوں ہاتھ اس کی گردن میں حمائل کر دیے۔ میرا دل دھڑکنے لگا۔ میں جلدی جلدی سیڑھیوں سے اترنے لگا۔
دوسرے دن خالو بھی آ گئے اور آتے ہی کہنے لگے، ’’کہاں ہے وہ حرامزادی۔۔۔! چوٹی پکڑ کر سیڑھیوں سے گرا نہ دیا تو میرا نام خدابخش نہیں!‘‘
دادی اماں بولیں، ’’کہیں باہر چلی گئی ہے۔ شام کو آ جائےگی۔‘‘
شام ہوئی۔ میں بستر پر لیٹا ہی تھا کہ فیروز بھاگا بھاگا آیا۔
’’آؤ تمہیں ایک تماشہ دکھاؤں۔۔۔ تمہارا خالو۔۔۔ اس لال مکان والی عورت کو چوٹی سے پکڑ کر۔۔۔‘‘
میں اس کے ساتھ وہاں گیا۔ خالو اس بےچاری کو چوٹی سے پکڑ کر گھسیٹ رہے تھے۔۔۔ مجھے معلوم نہیں۔ میں نے کیا کیا۔ مگر اتنا یاد ہے کہ اس وقت دادی اماں نے زور سے میرے منہ پر تھپڑ مارا تھا۔
رات کو میں سو نہ سکا، بے قراری سے کروٹیں لیتا رہا۔
صبح یہ دیکھ کر میں سخت حیران ہوا کہ اباجی بھی دادی اماں اور خالہ جان کے ساتھ قہقہے لگا رہے ہیں۔ امی جان اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں سے انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی تھیں۔
میں کئی دن تک سوچتا رہا کہ وہ کون تھی۔ آج ہر شخص اس واقعے کو بھول چکا ہے۔ مگر جب کبھی امی۔ مرحوم اباجی کی یاد میں روتی ہیں۔ تو مجھے اس عورت کی روتی ہوئی آنکھیں یاد آ جاتی ہیں۔ جسے خالوجی نے چوٹی سے پکڑ کر سیڑھیوں سے اتار دیا تھا۔
معاً میرے دل میں ایک آگ سی لگ جاتی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اباجی کی تصویر اتار کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں۔
مأخذ : ان داتا
مصنف:مرزا ادیب