کہانی کی کہانی:’’ایک ایسی رقاصہ کی داستان جو محل کی زندگی سے اوب کر آزادی کے لیے بے چین رہتی ہے۔ وہ جب بھی باہر نکلتی ہے وہاں لوگوں کو ہنستے گاتے اپنی مرضی کی زندگی گزارتے دیکھتی ہے تو اسے اپنی زندگی سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ اسے وہ محل کسی سونے کے پنجرے کی طرح لگتا ہے اور وہ خود کو اس میں قید چڑیا کی طرح تصور کرتی ہے۔‘‘
شاہی دربار کی حسین ترین رقاصہ اپنے آراستہ و پیراستہ کمرے میں داخل ہوئی اور ایک لفظ کہے بغیر کنیزوں کی مدد سے اپنی سیر کامخصوص لباس اتارنے لگی اور چند منٹ بعد اس کام سے فراغت پاکر مخملیں کرسی میں دھنس گئی۔ زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ وہ مغموم و ملول نظر آ رہی تھی۔۔۔ دونوں کنیزیں ایک گوشے میں کھڑی حیرت سے ایک دوسری کو دیکھ رہی تھیں۔
’’تم چلی جاؤ اور جب تک میں نہ بلاؤں کمرے میں نہ آنا۔۔۔ کوئی اور بھی کمرے میں نہ آئے۔‘‘ رقاصہ نے جھنجھلاکر کہا۔ کنیزیں مبہوت و ششدر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں۔
ان کے چلے جانے کے بعد رقاصہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر سر رکھ کر اپنے خیالات میں کھوگئی۔ دو تین منٹ کے بعد سر اٹھایا، سامنے دیکھا اور اس کی نگاہیں سنگ مرمر کی میز پر رکھے ہوئے ایک سفید مجسمہ پر جم گئیں۔ یہ ایک نہایت حسین و جمیل مجسمہ تھا۔ جس کے ساتھ، ایک بھیانک سیاہ سانپ لپٹا ہواتھا۔ رقاصہ ٹکٹکی باندھ کر اس مجسمے کو دیکھنے لگی اور خیالات کا وہ ہجوم جو کئی دن سے اس کے ذہن میں منڈلا رہا تھا اب سمندر کی طوفانی موجیں بن بن کر اس کے دل و دماغ میں بےقرار ہو گیا۔ وہ مضطرب ہوکر کرسی سے اٹھ بیٹھی اور کمرے میں ٹہلنے لگی۔
وہ دربار کی سب سے بری رقاصہ تھی۔ اسے دنیا کی ہر نعمت حاصل تھی، ہر قسم کی آسایش میسر تھی، اس کی نئی پوشاکوں پر، اس کے گلے کے ہاروں پر اور اس کے خوبصورت زیورات پر ہر ماہ ہزاروں روپے خرچ ہو جاتے تھے۔ محل اور محل کے باہر اس کی اتنی قدر ومنزلت تھی کہ لوگ اس کی قسمت پر رشک کرتے تھے۔ بادشاہ اس پر خاص مہربان تھا۔ مگر ان تمام چیزوں کے باوجود چند دن سے اس کی روح میں ایک خلش سی، اس کے دماغ میں ایک اضطراب سا اور اس کے دل میں ایک بے قراری سی موجزن تھی۔
’’میں محل میں محکوم ہوں۔۔۔ ایک خادمہ کی سی زندگی بسر کر رہی ہوں۔‘‘ وہ بار بار سوچتی اور ہر بار اسے اپنے وجود سے نفرت ہونے لگتی تھی۔
پرسوں وہ سیر کرتے کرتے دور نکل گئی۔ ایک جگہ جلاہے کپڑے بن رہے تھے، وہ وہاں ٹھہر گئی۔ مزدوروں میں سے ہر مرد، ہر عورت، نہایت مسرور، نہایت خنداں نظر آ رہی تھی۔ تمام کے تمام لوگ خوشی کے گیت گا رہے تھے۔ گیت گا گا کر اپنا کام کر رہے تھے۔ کسی کے چہرے سے بھی غم و فکر کے آثار نمایاں نہیں تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ جانتے ہی نہیں غم و فکر بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
وسیع میدان، کھلی ہوا اور پھر آزادی کی نعمت، رقاصہ نے آہ بھری اور ایک مزدور عورت سے باتیں کرنے لگی۔
اس عورت نے اسے پہچان لیا اور بڑے ادب کے ساتھ اس سے گفتگو کرنے لگی۔ آناً فاناً دوسرے مزدوروں کو بھی رقاصہ کی حیثیت کا علم ہو گیا۔ تمام کے تمام اپنا کام کاج، چھوڑکر اس کے گرد کھڑے اسے اس انداز سے دیکھنے لگے گویا وہ کوئی عجیب انسان ہے اور اس قسم کا عجیب و غریب انسان وہ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں۔
رقاصہ نے سنا ایک عورت دوسری عورت سے کہہ رہی تھی، ’’یہی تو وہ رقاصہ ہے جس کے لیے ہم کپڑا بنا کرتے ہیں۔ یاد ہے پچھلے مہینہ وہ خوبصورت کپڑا اسی کے لیے بنایا گیا تھا نا۔ بادشاہ اس سے بڑی محبت کرتا ہے۔ یہ اس کے دربار میں ناچتی ہے۔‘‘
’’آخر ہے تو نوکرانی ہی نا؟‘’ دوسری بولی۔
آخری فقرہ سن کر رقاصہ کو اپنے وجود سے شدید نفرت ہو گئی۔ وہ دربار کی حسین ترین رقاصہ سہی، بادشاہ کی منظور نظر سہی، پھر بھی وہ نوکرانی ہے، صرف ایک نوکرانی جس کی کوئی حیثیت نہیں، جس کی کوئی وقعت نہیں اور جس کا مقصد حیات یہ ہے کہ وہ بادشاہ کے احکام کی تعمیر کرے۔ بادشاہ کو ہر طرح خوش رکھنے کی کوشش کرے۔
رقاصہ یہی سوچ رہی تھی کہ اس کے خادم گاڑی لے آئے۔
’’بادشاہ سلامت آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ ایک خادم نےکہا۔
واقعی بادشاہ اس کا انتظار کر رہا تھا۔ کیونکہ اس دن رقاصہ کو بادشاہ کے سامنے نیا رقص کرنا تھا۔ وہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ مزدور پھر ہنستے گیت گاتے اپنا کام کرنے لگے۔
آج بھی رقاصہ مزدوروں کے پاس کئی منٹ تک کھڑی رہ کر ان کے ساتھ اپنا موازنہ کرتی رہی تھی۔ اس کے خیال میں مزدور اس سے زیادہ خوش نصیب تھے۔ کیونکہ انہیں آزادی حاصل تھی اور یہ محکوم تھی، غلام تھی، تمام راہ وہ اسی خیال میں ڈوبی رہی۔ وہ آرزو مند تھی کہ آزادی کے ساتھ پھرے، آزادی کے ساتھ گفتگو کرے۔۔۔ آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرے۔۔۔ مگر بادشاہ کےعیش و عشرت نےاس کا وجود، اس کی ہستی، اس کادل و دماغ، الغرض اس کا سب کچھ خرید لیا تھا۔ اس کی زندگی کا ہر لمحہ بادشاہ کے لیے وقف ہو چکا تھا۔ اس کے پیش نظر صرف ایک مقصد تھا اور وہ تھا بادشاہ کی خوشنودی کا حصول، آقا جب چاہے اس کے وجود کو، ایک رنگین کھلونا سمجھ کر اپنا دل بہلائے۔ اس کے رقص سے لطف حاصل کرے۔ اس کی شیریں آواز سے اپنے کانوں کو راحت پہنچائے۔۔۔ رقاصہ پھر کرسی میں دھنس گئی۔
سورج کی شعاعیں بند کھڑکیوں کی درزوں میں سے داخل ہوکر اس کے سنہری چپل پر پڑ رہی تھیں۔ کمرے میں حبس سا پیدا ہو گیا تھا۔ مگر رقاصہ اس وقت ہر چیز سے بےنیاز ہوکر اپنے خیالات میں غرق تھی۔ اس کی نگاہوں کے سامنے ایک نیا واقعہ پھر رہا تھا۔
آج سے کئی ماہ قبل ایک نزہت آگیں صبح کو وہ بادشاہ کے سامنے اپنا استادانہ رقص کر رہی تھی اور بادشاہ خاص طور پر اس کے رقص سے محظوظ ہو رہا تھا۔ اتنے میں چند سپاہی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ایک وجہیہ نوجوان کو بادشاہ کی بارگاہ میں لے آئے۔ ایک سپاہی نے بیان کیا، ’’حضور، یہ شوخ، گستارخ اور بےادب ہے۔ حضور کے احکام کی تعمیل نہیں کرتا۔‘‘
’’ہمارے احکام کی تعمیل نہیں کرتا؟‘‘ بادشاہ نے گرجتی ہوئی آواز میں کہا۔
’’ہاں حضور! آپ نے حکم دیا تھا کہ نئے محل کو جلد سے جلد مکمل کیا جائے۔ اسی کے لیے ہم نے ہزاروں آدمی اس کام پر لگا دیے۔ ہم نے اس شخص سے بھی کہا کہ محل کی تعمیر میں ہماری مدد کر۔ مگر اس نے انکار کر دیا۔ حضور! یہ باغی ہے، نافرمان ہے۔‘‘
بادشاہ کی آنکھیں غصہ سے سرخ ہو گئیں۔
’’سچ ہے یہ؟‘‘
’’بالکل سچ ہے۔‘‘
’’اتنی جرأت؟‘‘
’’آپ اسے جو چاہیں سمجھ لیں، مگر میں سمجھتا ہوں کہ ایک ظالمانہ حکم کی پابندی مجھ پر لازم نہیں۔‘‘
’’ظالمانہ حکم؟‘‘ بادشاہ کی آواز غضبناک ہو گئی۔
’’رعیت کے فاقہ کش اور بےکس افراد کو اپنا حقیر ترین غلام سمجھنا کہا ں کا انصاف ہے؟‘‘
’’ملعون، بے شرم!‘‘
میں ملعون اور بے شرم سہی، مگر میں ظلم کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ میں ایک بے غیرت غلام نہیں۔‘‘
’’ذلیل انسان۔۔۔!‘‘
’’میں ذلیل انسان نہیں، ذلیل انسان وہ ہے جو تمہاری ذرا سی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنا دل، اپنا دماغ تمہارے قدموں پر ڈال دیتا ہے، میں اپنے دل و دماغ کا مالک ہوں، دنیا کی کوئی طاقت بھی میرے ارادوں پر قبضہ نہیں کر سکتی۔ دنیا کی کوئی ہستی بھی مجھ سے میری آزادی نہیں چھین سکتی۔‘‘
’’پاجی تمہارے سر پر موت منڈلا رہی ہے۔‘‘
’’آزادی کی ایک گھڑی غلامی کے ہزاروں سالوں سےبہتر ہے۔ نوجوان نے دلیری سےجواب دیا۔‘‘
’’لے جاؤ اسے ٹکڑے ٹکڑے کردو۔‘‘ تاج و تخت کے مالک نے گرج کر کہا۔
نوجوان کے چہرے پر خوف کا ہلکا سا اثر بھی نہیں تھا۔ وہ جس بے باکی سے آیا تھا اسی بےباکی سے جانے لگا۔
رات کو جب رقاصہ بستر پر لیٹی تو یہ واقعہ اس کی نگاہوں کے سامنے پھرنے لگا اور وہ اس پر غور کرنےلگی۔ نوجوان کی بے باکی، جرأت اور دلیری نے اس پر بہت اثر کیا۔ مگر اس کے ساتھ ہی وہ سمجھتی تھی کہ نوجوان نے جو کچھ کیا ہے جذبات کے زیر اثر کیا ہے۔ بادشاہ رعیت کا مالک ہے۔ وہ جو چاہے رعیت کے ساتھ سلوک کر سکتا ہے۔ مگر آج بار بار غور کرنے کے بعد اس کا یہ نظریہ تبدیل ہو چکا تھا۔ اس کے دل میں اس دلیر نوجوان کی قدر و منزلت بہت بڑھ گئی تھی، اس نے سمجھ لیا تھا کہ نوجوان نے جو کچھ کیا ہے، بالکل درست اور بجا ہے۔ آخر بادشاہ کو کیا حق ہے کہ وہ اپنے عیش و عشرت کے لیے غریب رعایا پر ظلم کرے؟ وہ کیوں دوسروں کو آزادی کی نعمت سے محروم کرے۔ لوگ کس لیے اس کی پرستش کریں، رعیت کا ہر فرد اسی کی طرح انسان ہے۔ پھر ایک انسان دوسرے انسان کو کیوں پوجے؟
وہ بےقرار ہوکر کرسی سے اٹھ بیٹھی اور اپنی زندگی پر غور کرنے لگی۔
’’کیا میری زندگی بادشاہ کی خوشنوا بلبل کے مانند ہے؟‘‘ اس نے سوچا۔ ’’بادشاہ نے خوبصورت اور خوش نوا بلبل کو سنہرے پنجرے میں بند رکھا ہے۔ اس پنجرے میں نہایت خوب صورت اور زریں برتن رکھے ہوئے ہیں۔ پنجرہ ایک بلند جگہ پر لٹکایا گیا ہے۔ مگر کیا یہ بلبل اسیر اتنی قدر و منزلت پر، اتنے آرام و آسایش پر، اتنی تزئین و آرایش پر خوش ہے؟ کیا وہ اپنےآپ کو خوش نصیب سمجھتا ہے؟ نہیں،ہرگز نہیں۔ وہ بادشاہ کا منظور نظر سہی، مگر ہے تو اسیر، اسے طرح طرح کا آرام میسر سہی، مگر ہے تو آزادی سےمحروم، پنجرہ لوہے کا ہو یا سونے کا۔ تیلیوں کا ہو یا کسی اور چیز کا، بہر حال پنجرہ ہے۔ قیدخانہ ہے اور اس ظالم پنجرے میں، اس ہولناک قیدخانہ میں کوئی پرندہ بھی خوش نہیں رہ سکتا۔
یہ بدنصیب پرندہ جب فضا میں دوسرے پرندوں کو خوشی سے اڑتے ہوئے، خوشی سے گیت گاتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہے؟ اس کا دل کس قدر چاہتا ہے کہ وہ بھی ہوا ہی میں اڑے، دور تک اڑتا چلا جائے، گائے اور آزادی کے ساتھ گائے، مگر آہ وہ سنہری سلاخوں میں گرفتار، انگاروں پر لوٹ رہا ہے۔ چمکتی ہوئی سلاخیں آگ کے شعلے ہیں یہ سونے کے برتن آگ کے انگارے ہیں اور حہ مخملیں گدی کانٹوں کا بستر ہے۔
وہ بھی مخمل میں لپٹی ہوتی ہے۔ زیورات سےلدی ہوتی ہے۔ مگر بلبل اسیر کے مانند ہر لحظہ ہر گھڑی قید ہے۔ بادشاہ اسے خوبصورت ترین لباس سلوا کر دیتا ہے تاکہ اس کے حسن میں اضافہ ہو اور وہ اس کے وجود سے زیادہ سے زیادہ لطف حاصل کر سکے۔ وہ اس کے لیے دور دور سے ماہرین فن بلاتا ہے تاکہ اس کے رقص میں اور کمال پیدا ہو اور یہ کمال رقص اس کے لیے خاص تفریح کاسامان بن سکے۔ بادشاہ کے پیش نظر صرف ذاتی اغراض ہیں۔ رقاصہ کے تمام جذبات، تمام احساسات، غلام ہیں۔ اس سے زیادہ اور کیا غلامی ہو سکتی ہے؟ اس سے بڑھ کر آزادی سے کیا محرومی ہو سکتی ہے؟
یکایک اس کی نگاہ کمرے کے ایک حصے میں بکھرے ہوئے چمکتے ہوئے لباس پر پڑی۔ اس لباس پر درزیوں کے کئی مہینے صرف ہو گئے تھے۔ یہ لباس خاص طور پر رقاصہ کے لیے بنوایا گیا تھا تاکہ وہ جشن شاہی کے دن یہ لباس پہن کر بادشاہ کے سامنے رقص کرے۔
رقاصہ نے محسوس کیا کہ لباس میں نشتر لگے ہوئے ہیں۔ اس نے بیزار ہوکر منھ پھرا لیا۔ کیا وہ ہمیشہ غلامی کی زندگی بسر کرتی رہےگی؟ کیا وہ اسی طرح بادشاہ کے لیے ذریعہ عشرت بنی رہےگی؟ اس نے مضطربانہ کھڑکی کھول دی، ہوا کے ٹھنڈے جھونکے کمرے میں رقص کرنے لگے۔ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ ننھے ننھے بچے اچھلتے کودتے جا رہے تھے۔ غریب لوگ آزادی کے گیت گارہے تھے۔ پرندے آزادانہ میں اڑ رہے تھے۔ محل کے باہر ہر چیز آزاد تھی۔
یکایک اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اس نے دروازے پر پہنچ کر خادمہ کو آواز دی۔ وہ دوڑی ہوئی آئی۔
’’میری طبیعت ذرا خراب ہے۔ سیر کو جاؤں گی۔ مگر گاڑی میں اکیلی بیٹھوں گی۔‘‘
’’تو کیا میں بھ ساتھ نہ چلوں؟‘‘ خادمہ نے پوچھا۔ وہ خوش تھی کہ آخر کس کی مخدومہ کا غم و فکر دور ہو گیا ہے۔
’’ہاں! تم گاڑی میں بیٹھ سکتی ہو!‘‘
خادمہ چلی گئی۔
خادمہ کے جانے کے بعد رقاصہ نےآخری بار نفرت انگیز نگاہ سے لباس کو دیکھا اور بےقراری کے ساتھ کمرے میں ٹہلنے لگی۔
’’گاڑی آ گئی ہے۔‘‘ خادمہ نے کہا۔ رقاصہ کی نگاہیں اور چمک اٹھیں اور کمرے سے وہ اس طرح نکل گئی۔۔۔ جس طرح ایک پرندہ پنجرے سےآزاد ہوکر اڑ جائے۔
مأخذ : غلاموں کی بغاوت
مصنف:مرزا ادیب