کیا میں زندہ ہوں،وجود رکھتی ہوں، موجود ہوں؟
نہیں نہیں میں موجود نہیں ہوں، میں صرف ماضی، حال اور مستقبل کے ربط کے ساتھ تن تنہا موجود کیسے ہو سکتی ہوں، میں کھو چکی ہوں کہیں،میں نے ماریہ پر نظر ڈالی وہ موجود تھی مگر میں نہیں تھی۔ میں نے آہستہ سے اس کو آواز دی! ماریہ
ہوں! کہہ کر اس نے میری طرف دیکھا، ماریہ کیا میں تمہیں نظر آ رہی ہوں؟ ہاں ہاں تم موجود ہو مجھے نظر آ رہی ہو۔ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا، تمہیں کیا ہو جاتا ہے کبھی کبھار! وہ فکر مندی کے انداز میں بولتی ہوئی میرے قریب آ گئی اور میرے پاس بیٹھ کر اپنا بازو میرے کندھے پر رکھ کر تشویش بھری نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔
کچھ بھی نہیں۔ میں نے اس کو مطمئن کرنا چاہا۔ مگر وہ مطمئن نہیں ہوئی۔ مسلسل فکر مندی سے مجھے دیکھے گئی۔ ماریہ مجھے لگتا ہے میں کھو چکی ہوں۔
مگر کیوں! کیوں اس طرح لگتا ہے تمہیں ! اب کے وہ جھنجھلا گئی۔
دیکھو ماریہ! میں اٹھ کر الماری تک گئی۔ اپنے تمام افسانوں، شاعری اور کالموں کا پلندہ نکال کر اس کے آگے پھینکا۔ دیکھو ان کو۔ مگر وہ اب بھی میری طرف متوجہ تھی۔ ہاسٹل کے اس کمرے میں ہم دونوں ہی ایک دوسرے کی ساتھی تھیں وہ میری بہت اچھی رفیق تھی۔
دیکھو ان کی طرف۔میں ہذیانی انداز میں چلائی۔ ماریہ نے بے بسی سے ان کاغذات کو دیکھا۔ وہ جانتی تھی میں نے راتوں کو جاگ جاگ کر یہ افسانے تخلیق کئے تھے۔ یہ شاعری اور کالم لکھے تھے۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اپنی کم حیثیت کے باوجود میں نے اپنی ضروریات روک کر یہ افسانے اور کالم مختلف اخبارات کو ارسال کئے تھے اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ میں کتنی مشکلوں سے ہر ہفتے کا اخبار خریدتی تھی۔ تاکہ اس میں شائع ہونے والا اپنا افسانہ دیکھ سکوں۔ لیکن ہر نیا رسالہ میری رہی سہی امیدیں بھی توڑ دیتا تھا۔ ماریہ افسانوں اور کالموں کے اس ڈھیر کے پاس بےحس وحرکت بیٹھی تھی اور وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔
ماریہ! میں نے اسے پکارا تو اس نے گہری افسردہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور خاموش رہی۔ میں اس کے سامنے بیٹھ گئی۔
اب بھی تم کہتی ہو ں میں موجود ہوں۔ مجھے میرے وجود کا احساس دلاتی ہو؟ دیکھو !یہ لوگ زندہ ہیں، موجود ہیں جن کے الفاظ اس رسالے کے اندر جگمگا رہے ہیں۔ان کا ذخیرہ الفاظ دیکھو اور میرا ذخیرہ الفاظ دیکھو۔ کیا یہ سب کچھ ایک جیسا نہیں ہے؟ میں نے رسالہ اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا اور اس نے خاموشی کے ساتھ پکڑ لیا۔ جب سب کے لفظ ایک سے ہیں تو پھر کیوں میرے لفظ اتنے بےمول اور بے حیثیت ہیں ماریہ کہ ان کو کبھی نمائندگی نہیں ملی؟
ماریہ چپ تھی۔ رسالہ اس کے ہاتھوں میں کپکپا رہا تھا اور نگاہوں میں گہری اداسی اور سوچ تھی۔ شاید وہ بحث کرکے تھک گئی تھی۔ جب وہ کچھ بھی نہیں بولی تو میری آواز سرگوشیوں میں بدل گئی۔
میرے لفظ اس لئے بے حیثیت ہیں کہ میرا اپنا کوئی وجود نہیں ہے۔ کوئی نام نہیں ہے۔یہ دنیا بڑی عجیب ہے یہاں نام بکتا ہے۔ شخصیت بکتی ہے۔ جاوید چوہدری ایک کالم کا اتنا بھاری معاوضہ اس لئے لے رہا ہے اس کا ایک وجود ہے ایک ٹھوس اور مستند وجود۔ اس لئے اس کے لفظوں کا بھی وجود ہے اور لفظ بھی انہی کے وجود میں آتے ہیں جن کے وجود سے پیسہ وجود میں آئے۔
ڈیم اٹ! وجود! وجود! وجود ماریہ پھٹ پڑی۔
جاوید چوہدری نے اپنا وجود خود بنایا ہے کبھی وہ بھی تمہاری طرح معدوم ہوگا۔ نہ جانے اس نے کتنی محنت کی ہوگی خود کو عدم سے وجود میں لانے کیلئے۔ یہ نہیں سوچتی تم۔ آج اس کی شخصیت ہے۔ اس کا نام ہے۔ اس کے لفظوں کی وقعت ہے تم کیا ہو؟ ایک بےنام لڑکی جس کو کوئی بھی نہیں جانتا۔ پھر تمہارے لفظوں کی کیا وقعت ہے؟ تمہارے کالموں یا افسانوں کے چھپنے سے کون سا اخبارات اور رسائل کی Circulation بڑھ جانی ہے۔ اپنی حیثیت پہچانو اور اوقات میں رہو۔ اچھی طرح ڈانٹ چکنے کے بعد وہ واش روم میں گھس گئی۔
میں نے اپنی حیثیت ہی تو پہچانی ہے خود کو ہونے نہ ہونے کے معیار پر پرکھا ہے اور اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ میں بےوجود لڑکی ہوں۔ میری ذات ہوتی تو میرا نام ہوتا۔ میرا نام ہوتا تو میرے لفظوں کا بھی کوئی وجود ہوتا۔ ان کی حیثیت ہوتی کوئی قیمت ہوتی۔
وہ واش روم سے باہر آئی اور میرے کاغذات کے بکھرے ہوئے ڈھیر کو سمیٹنے لگ گئی۔ پھر نہ جانے کس خیال کے تحت رکی اور سیدھی ہوکر میری طرف دیکھنے لگ گئی۔
دیکھو مدح! مجھے تمہاری بات کی سمجھ آگئی ہے واقعی لفظ شخصیت کے ساتھ شناخت پاتے ہیں ورنہ ان کی اپنی حیثیت بھی کھو جاتی ہے۔ یہی لفظ ہوتے ہیں جب کسی مشہور آدمی کے قلم سے ترتیب پاتے ہیں تو انتہائی انمول ہو جاتے ہیں اور جب کسی گمنام کے ہاتھوں صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوتے ہیں تو اپنی شناخت بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ انہیں بھی سجنے سنورنے کیلئے ہنر مند ہاتھوں اور زرخیز دماغ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بنجر ذہنوں میں اگنے والے لفظ بھی جھاڑ جھنگاڑ کی مانند ہوتے ہیں اور بےہنر ہاتھوں سے لکھے گئے لفظ موتیوں کی ٹوٹ کر بکھری ہوئی لڑی کی طرح۔اس کے لہجے میں نرمی تھی اور آنکھوں میں محبت۔ وہ بڑے جذب کے عالم میں بولتی جا رہی تھی۔
اور سنو! جس طرح جڑے ہوئے خوبصورت موتی، مالا اور طرح طرح کے ڈیزائنوں کو جنم دیتے ہیں اور ہم ان ڈیزائنوں کو بڑی چاہ کے ساتھ خرید کر لاتے ہیں۔ یہی حال لفظوں کا بھی ہے۔ لفظوں کو ہنر سے سجا سنوار کر کوئی بھی شاہکار تخلیق کیا جاسکتا ہے میری جان! تم بے وجود نہیں ہو اور نہ ہی تمہارے لفظوں نے اپنی شناخت کھوئی ہے۔ صرف تمہارا ہنر بازیافت نہیں ہوا۔ تمہیں خود کو ڈھونڈنا ہے۔ اس کے بعد اپنے لفظوں کو خوبصورت ڈیزائن دینے ہیں۔ انہیں خوبصورت مرقعوں میں ڈھالو گی تو یہ جی اٹھیں گے اور جب تمہارے لفظ جی اٹھیں گے تو تم بھی وجود میں آ جاؤگی۔
وہ بالکل کسی مفکر کی طرح لگ رہی تھی میرے کندھوں کو چھوڑ کر دوبارہ کاغذات کی طرف متوجہ ہو گئی اور انہیں اٹھاکر بڑی محبت سے الماری میں رکھنے لگی۔
مدح! کوئی بھی لفظوں کا کھلاڑی لفظوں کی امامت نہیں کرتا۔ بلکہ یہ اس کی شناخت ہوا کرتے ہیں۔ ہر مشہور شاعر، ادیب اور مفکر پہلے الفاظ کی تلاش کرتا ہے، ان کو مجسم کرتا ہے اور پھر خود زندہ ہو جاتا ہے۔ وہ لفظوں کو حیات دیتا ہے تو لفظ اس کی حیات بن جاتے ہیں۔ یاد رکھنا میری جان !شخصیت کے مفقود ہونے سے لفظ نہیں کھوتے جو تم سمجھتی ہو بلکہ لفظوں کی عدم بازیابی سے شخصیت کھو جاتی ہے۔ اپنی موت آپ مرجاتی ہے اور تم تو ابھی زندہ ہو۔ کاغذ قلم اٹھاؤ اور اپنے لفظوں کے کفن پھاڑ ڈالو۔ اس نے ڈائری اور پینسل اٹھا کر میرے ہاتھ میں تھمائی اور خود کچن کے اندر غائب ہو گئی۔
مصنف:منزہ احتشام گوندل