جلیان والا باغ میں ہزاروں کا مجمع تھا۔ اس مجمع میں ہندو تھے، سکھ بھی تھے اور مسلمان بھی۔ ہندو مسلمانوں سے اور مسلمان سکھوں سے الگ صاف پہچانے جاتے تھے۔ صورتیں الگ تھیں، مزاج الگ تھے، تہذیبیں الگ تھیں، مذہب الگ تھے لیکن آج یہ سب لوگ جلیان والا باغ میں ایک ہی دل لے کے آئے تھے۔ اس دل میں ایک ہی جذبہ تھا اور اس جذبے کی تیز اور تند آنچ نے مختلف تمدن اور سماج ایک کر دئیے تھے۔
دلوں میں انقلاب کی ایک ایسی پیہم رو تھی کہ جس نے آس پاس کے ماحول کو بھی پر فسا دبنا دیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس شہر کے بازاروں کا ہر پتھر اور اس کے مکانوں کی لہر ایک اینٹ اس خاموش جذبے کی گونج سے آشنا ہے اور اس لرزتی ہوئی دھڑکن سے نغمہ ریز ہے۔ جو ہر لمحے کے ساتھ گویا کہتی جاتی ہو۔ آزادی، آزادی۔۔۔
جلیان والا باغ میں ہزاروں کا مجمع تھا اور سبھی نہتے تھے اور سبھی آزادی کے پرستار تھے۔ ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں نہ ریوالور، نہ برین گن نہ اسٹین گن۔ ہنڈ گری نیڈ نہ تھے۔ دیسی یا ولایتی ساخت کے بمب بھی نہ تھے مگر پاس کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی نگاہوں کی گرمی کسی بھونچال کے قیامت خیز لاوے کی حدّت کا پتہ دیتی تھی۔
سامراجی فوجوں کے پاس لوہے کے ہتھیار تھے۔ یہاں دل فولاد کے بن کے رہ گئے تھے اور روحوں میں ایسی پاکیزگی سی آگئی تھی جو صرف اعلیٰ و ارفع قربانی سے حاصل ہوتی ہے۔ پنجاب کے پانچوں دریاؤں کا پانی اور ان کے رومان اور ان کا سچا عشق اور ان کی تاریخی بہادری آج ہر فرد بشر بچے بوڑھے کے ٹمٹماتے ہوئے رخساروں میں تھی۔ ایک ایسا اجلا اجلا غرور جو اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب قوم جوان ہو جاتی ہے اور سویا ہوا ملک بیدار ہو جاتا ہے۔ جنہوں نے امرتسر کے یہ تیور دیکھے ہیں۔ وہ ان گروؤں کے اس مقدس شہر کو کبھی نہیں بھلا سکتے۔
جلیان والا باغ میں ہزاروں کا مجمع تھا اور گولی بھی ہزاروں پر چلی۔ تینوں طرف راستہ بند تھا اور چوتھی طرف ایک چھوٹا سا دروازہ تھا۔ یہ دروازہ جو زندگی سے موت کو جاتا تھا۔ ہزاروں نے خوشی خوشی جام شہادت پیا۔ آزادی کی خاطر، ہندو مسلمانوں اور سکھوں نے مل کر اپنے سینوں کے خزانے لٹا دئیے اور پانچوں دریاؤں کی سرزمین میں ایک چھٹے دریا کا اضافہ کیا تھا۔ یہ ان کے ملے جلے خون کا دریا تھا یہ ان کے لہو کی طوفانی ندی تھی جو اپنی امنڈتی ہوئی لہروں کو لئے ہوئے اٹھی اور سماجی قوتوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گئی، پنجاب نے سارے ملک کے لئے اپنے خون کی قربانی دی تھی اور اس وسیع آسمان تلے کسی نے آج تک مختلف تہذیبوں، مختلف مذہبوں اور مختلف مزاجوں کو ایک ہی جذبے کی خاطر یوں مدغم ہوتے نہ دیکھا تھا۔ جذبہ شہیدوں کے خون سے استوار ہو گیا تھا۔ اس میں رنگ آ گیا تھا۔ حسن، رعنائی اور تخلیق کی چمک سے جگمگا ٹھا۔ آزادی، آزادی، آزادی۔۔۔
صدیق کٹرہ فتح خاں میں رہتا تھا۔ کٹرہ فتح خاں میں اوم پرکاش بھی رہتا تھا جو امرتسر کے ایک مشہور بیوپاری کا بیٹا تھا۔ صدیق اسے اور اوم پرکاش صدیق کو بچن سے جانتا تھا۔ وہ دونوں دوست نہ تھے کیونکہ صدیق کا باپ کچا چمڑہ بیچتا تھا اور غریب تھا اور اوم پرکاش کا باپ بینکر تھا اور امیر تھا لیکن دونوں ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ دونوں ہمسائے تھے اور آج جلیان والا باغ میں دونوں اکٹھے ہو کر ایک ہی جگہ پر اپنے رہنماؤں کے خیالات اور ان کے تاثرات کو اپنے دل میں جگہ دے رہے تھے۔ کبھی کبھی وہ یوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ لیتے اور یوں مسکرا اٹھتے جیسے وہ سدا سے بچپن کے ساتھی ہیں اور ایک دوسرے کا بھید جانتے ہیں۔ دل کی بات نگاہوں میں نتھر آئی تھی۔ آزادی، آزادی،آزادی۔۔۔
اور جب گولی چلی تو پہلے اوم پرکاش کو لگی کندھے کے پاس اور وہ زمین پر گر گیا۔ صدیق اسے دیکھنے کے لئے جھکا تو گولی اس کی ٹانگ کو چھیدتی ہوئی پار ہو گئی۔ پھر دوسری گولی آئی۔ پھر تیسری۔ پھر جیسے بارش ہوتی ہے۔ بس اسی طرح گولیاں برسنے لگیں اور خون بہنے لگا اور سکھوں کا خون مسلمانوں میں اور مسلمانوں کا خون ہندوؤں میں مدغم ہوتا گیا۔ ایک ہی گولی تھی، ایک ہی قوت تھی، ایک ہی نگاہ تھی جو سب دلوں کو چھیدتی چلی جا رہی تھی۔
صدیق اوم پرکاش پر اور بھی جھک گیا۔ اس نے اپنے جسم کو اوم پرکاش کے لئے ڈھال بنا لیا اور پھر وہ اوم پرکاش دونوں گولیوں کی بارش میں گھٹنوں کے بل گھسٹتے گھسٹتے اس دیوار کے پاس پہنچے جو اتنی اونچی نہ تھی کہ اسے کوئی پھلانگ نہ سکتا لیکن اتنی اونچی ضرور تھی کہ اسے پھلانگتے ہوئے کسی سپاہی کی گولی کا خطرناک نشانہ بننا زیادہ مشکل نہ تھا۔ صدیق نے اپنے آپ کو دیوار کے ساتھ لگا دیا اور جانور کی طرح چاروں پنجے زمین پر ٹیک کر کہا،
’’لو پرکاش جی خدا کام نام لے کے دیوار پھلانگ جاؤ۔‘‘ گولیاں برس رہی تھیں۔ پرکاش نے بڑی مشکل سے صدیق کی پیٹھ کا سہارا لیا اور پھر اونچا ہو کر اس نے دیوار کو پھلانگنے کی کوشش کی۔ ایک گولی سنسناتی ہوئی آئی۔
’’جلدی کرو ‘‘صدیق نے نیچے سے کہا۔
لیکن اس سے پہلے پرکاش نیچے جا چکا تھا۔ صدیق نے اسی طرح اکڑوں رہ کر ادھر ادھر دیکھا اور پھر یک لخت سیدھے ہو کر جو ایک جست لگائی تو دیوار کے دوسری طرف لیکن دوسری جاتے جاتے سنسناتی ہوئی گولی اس کی دوسری ٹانگ کے پار ہو گئی۔ صدیق پرکاش کے اوپر جا گرا پھر جلدی سے الگ ہو کر اسے اٹھانے لگا۔
’’تمہیں زیادہ چوٹ تو نہیں آئی پرکاش۔‘‘
لیکن پرکاش مرا پڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ہیرے کی انگوٹھی بھی زندہ تھی۔ اس کی جیب میں دو ہزار کے نوٹ کلبلا رہے تھے۔ اس کا گرم خون ابھی تک زمین کو سیراب کئے جا رہا تھا۔ حرکت تھی، زندگی تھی، اضطراب تھا، لیکن وہ خود مر چکا تھا۔ صدیق نے اسے اٹھایا اور اسے گھر لے چلا، اس کی دونوں ٹانگوں میں درد شدت کا تھا۔ لہو بہ رہا تھا۔ ہیرے کی انگوٹھی نے بہت کچھ کہا سنا۔ لوگوں نے بہت کچھ سمجھایا۔ وہ تہذیب جو مختلف تھی۔ وہ مذہب جو الگ تھا، وہ سوچ جو بیگانہ تھی۔ اس نے طنز و تشنیع سے بھی کام لیا ۔لیکن صدیق نے کسی کی نہ سنی اور اپنے بہتے ہوئے لہو اور اپنی نکلتی ہوئی زندگی کی فریاد بھی نہ سنی اور اپنے راستے پر چلتا گیا۔ یہ راستہ بالکل نیا تھا ۔گو کٹرہ فتح خاں ہی کو جاتا تھا۔ آج فرشتے اس کے ہمراہ تھے۔گو وہ ایک کافر کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھا۔آج اس کی روح اس قدر امیر تھی کہ کٹرہ فتح خاں پہنچ کراس نے سب سے کہا، ’’یہ لو ہیرے کی انگوٹھی اور یہ لو دو ہزار روپے کے نوٹ اور یہ ہے شہید کی لاش‘‘ اتنا کہہ کر صدیق بھی وہیں گر گیا اور شہر والوں نے دونوں کا جنازہ اس دھوم سے اٹھایا گویا وہ سگے بھائی تھے۔
ابھی کرفیو نہ ہوا تھا۔ کوچہ رام داس کی دو مسلمان عورتیں، ایک سکھ عورت اور ایک ہندو عورت سبزی خریدنے آئیں۔ وہ مقدس گوردوارے کے سامنے سے گزریں ۔ہر ایک نے تعظیم دی اور پھر منہ پھیر کر سبزی خریدنے میں مصروف ہو گئیں۔ انہیں بہت جلد لوٹنا تھا۔ کرفیو ہونے والا تھا اور فضا میں شہیدوں کے خون کی پکارگونج رہی تھی پھر بھی باتیں کرتے اور سودا خریدتے انہیں دیر ہو گئی اور جب واپس چلنے لگیں تو کرفیو میں چند منٹ ہی باقی تھے۔
بیگم نے کہا، ’’آؤ اس گلی سے نکل چلیں۔ وقت سے پہنچ جائیں گے۔‘‘
پارو نے کہا، ’’پر وہاں تو پہرہ ہے گوروں کا۔ شام کور بولی اور گوروں کا کوئی بھروسہ نہیں۔‘‘
زینب نے کہا، ’’وہ عورتوں کو کچھ نہ کہیں گے۔ ہم گھونگھٹ کاڑھے نکل جائیں گی جلدی سے چلو۔‘‘
وہ پانچوں دوسری گلی سے ہولیں۔ فوجیوں نے کہا، ’’اس جھنڈے کو سلام کرو یہ یونین جیک ہے۔‘‘ عورتوں نے گھبرا کر اور بوکھلا کر سلام کیا۔ اب یہاں سے وہاں تک۔ فوجی نے گلی کی لمبائی بتاتے ہوئے کہا، ’’گھٹنوں کے بل چلتی ہوئی یہاں سے فی الفور نکل جاؤ۔‘‘
’’گھٹنوں کے بل۔ یہ تو ہم سے نہ ہو گا۔‘‘ زینب نے چمک کر کہا۔ ’’اور جھک کر چلو۔ سرکار کا حکم ہے گھٹنوں کے بل گھسٹ کر چلو۔‘‘
’’ہم تو یوں جائیں گے‘‘۔ شام کور نے تن کر کہا، ’’دیکھیں کون روکتا ہے۔ ہمیں‘‘ یہ کہہ کر وہ چلی۔
’’ٹھہرو، ٹھہرو‘‘ پارو نے ڈر کر کہا۔ ’’ٹھہرو، ٹھہرو۔‘‘
گورے نے کہا، ’’ہم گولی مارے گا۔ ‘‘
شام کور سیدھی جا رہی تھی۔ ٹھائیں، شام کور گر گئی۔ زینب اور بیگم نے ایک دوسری کی طرف دیکھا اور پھر وہ دونوں گھٹنوں کے بل گر گئیں۔ گورا خوش ہو گیا اس نے سمجھا کہ سرکار کا حکم بجا لا رہی ہیں۔ زینب اور بیگم نے گھٹنوں کے بل گر کر اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور چند لمحوں کے سکوت کے بعد وہ دونوں سیدھی کھڑی ہو گئیں اور گلی کو پار کرنے لگیں۔ گورا بھونچکا رہ گیا۔ پھر غصے سے اس کے گال تمتما اٹھے اور اس نے رائفل سیدھی کی۔ ٹھائیں، ٹھائیں۔
پارو رونے لگی۔ ’’اب مجھے بھی مرنا ہو گا۔ یہ کیا مصیبت ہے۔ میرے پتی دیو۔ میرے بچو، میری ماں جی، میرے پتا، میرے ویرو، مجھے شما کرنا۔ آج مجھے بھی مرنا ہو گا، میں مرنا نہیں چاہتی، پھر مجھے بھی مرنا ہو گا، میں اپنی بہنوں کا ساتھ نہیں چھوڑوں گی۔ ‘‘پارو روتے روتے آگے بڑھی۔
گورے نے نرمی سے اسے سمجھایا ، ’’رونے کی ضرورت نہیں، سرکار کا حکم مانو اور اس گلی میں یوں گھٹنوں کے بل گر کر چلتی جاؤ، پھر تمہیں کوئی کچھ نہ کہے گا‘‘۔ گورے نے خود گھٹنے پر گر کر اسے چلنے کا انداز سمجھایا۔
پارو روتے روتے گورے کے قریب آئی۔ گورا اب سیدھا تن کر کھڑا تھا۔ پارو نے زور سے اس کے منہ پر تھوک دیا اور پھر پلٹ کر گلی کو پار کرنے لگی۔ وہ گلی کے بیچوں بیچ سیدھی تن کر چلی جا رہی تھی اور گورا اس کی طرف حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ چند لمحوں کے بعد اس نے اپنی بندوق سیدھی کی اور پارو جو اپنی سہیلیوں میں سب سے زیادہ کمزور اور بزدل تھی۔ سب سے آگے جا کر مر گئی۔
پارو، زینب، بیگم اور شام کور۔
گھر کی عورتیں، پردے دار خواتین، عفت مآب بیبیاں، اپنے سینوں میں اپنے خاوند کا پیار اور اپنے بچوں کی ممتا کا دودھ لئے ظلم کی اندھیری گلی سے گزر گئیں۔ اس کے جسم گولیوں سے چھلنی ہو گئے، لیکن ان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔ اس وقت کسی کی محبت نے پکارا ہو گا۔ کسی کے ننھے بازوؤں کا بلاوا آیا ہو گا کسی کی سہانی مسکراہٹ دکھائی دی ہو گی لیکن ان کی روحوں نے کہا نہیں، آج تمہیں جھکنا نہیں ہے۔ آج صدیوں کے بعد وہ لمحہ آیا ہے جب سارا ہندوستان جاگ اٹھا ہے اور سیدھا تن کر اس گلی سے گزر رہا ہے۔ سر اٹھائے آگے بڑھ رہا ہے، سر اٹھائے آگے بڑھ رہا ہے۔ زینب،بیگم، پارو، شام کور۔۔۔
کس نے کہا اس ملک سے سیتا مر گئی؟ کس نے کہا اب اس دیس میں ستی ساوتری پیدا نہیں ہوتی؟۔ آج اس گلی کا ہر ذرہ کسی کے قدوسی لہو سے روشن ہے۔ شام کور، زینب، پارو، بیگم، آج تم خود اس گلی سے سر اونچا کر کے نہیں گزری ہو، آج تمہارا دیس فخر سے سر اٹھائے اس گلی سے گزر رہا ہے۔ آج آزادی کا اونچا جھنڈا اس گلی سے گزر رہا ہے، آج تمہارے دیس تمہاری تہذیب، تمہارے مذہب کی قابل احترام روایتیں زندہ ہو گئیں۔ آج انسانیت کا سر غرور سے بلند ہے۔ تمہاری روحوں پر ہزاروں، لاکھوں سلام۔۔۔
مأخذ : ہم وحشی ہیں
مصنف:کرشن چندر