اس کی موت کے تین روز بعد، یک دم اس احساس نے آن گھیرا کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔
میں اس امر سے واقف تھا کہ یہ جذبہ میری ذلت کا باعث بن سکتا ہے، سو میں اس سے جوجھنے لگا اور یہی سے نیستی کا آغاز ہوا۔
بدقسمتی کسی کیمیائی عمل کے دوران جنم لینے والے حادثات کے مانند ہوتی ہے، جس سے مزید حادثات پھوٹ پڑتے ہیں اور یوں ایک زنجیری عمل شروع ہو جاتا ہے اور میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔
اسے بھلانے کی جتنی کوشش کرتا، اتنی شدت سے اس کی یادیں یلغار کر دیتیں اور بےبسی کی رذیل کیفیت میں میں بستر پر جا گرتا۔
وہ خوف زدہ تھی۔ بس، یہی اس کی کل داستان ہے۔۔۔ وہ خوف زدہ تھی کہ کہیں وہ محبت کے شکنجے میں نہ آ جائے۔ اسی خوف کے سبب ہر گزرتے پل کے ساتھ شکنجا کستا گیا۔
میری اس سے پہلی ملاقات، شہر کے گنجان علاقے میں کھڑی ایک بوسیدہ عمارت کی نویں منزل پر موجود 151 چار تاریک کمروں پر مشتمل 151 ایک کال سینٹر میں ہوئی۔ وہ نئی ضرور تھی، تاہم اعتماد کی روشنی چہرے پر بکھیری تھی۔ (کئی روز بعد مجھے پتا چلا کہ اس روشنی کے حصول کے لیے اس نے مثبت خودکلامی کی متواتر مشق کی تھی)
معاشی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے بی اے پاس زرناب کو ملازمت کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ متوسط طبقے کی دیگر لڑکیوں کی طرح اس کے لیے بھی یہ فیصلہ آسان نہیں تھا، لیکن مسائل بہت ظالم ہوتے ہیں۔۔۔ انسان کو مجبور کردیتے ہیں، وہ سب کرنے کے لیے، جو وہ نہیں کرنا چاہتا۔
بہن بھائیوں میں بڑی، والد مزدور پیشہ، والدہ گھریلو خاتون اور پھر بیمار۔۔۔ متوسط طبقے کی لڑکی کو ملازمت پر مجبور کرنے کے لیے یہ جواز کافی تھے۔
دوسرے درجے کے کال سینٹر میں تن خواہوں کی کمی کا مسئلہ ایک طویل عرصے سے زیرِ بحث تھا اور میں، جسے اس پیشے میں آئے ڈیڑھ سال بیت چکا تھا، مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں بقا کی جنگ لڑ رہا تھا۔ میری ہی تحریک پر ’’تن خواہ بڑھاؤ آندولن‘‘ شروع ہوا۔ خواتین کی نمایندگی آنٹی رحمان کر رہی تھیں، جو کسٹمرز کی کالز کے دوران آنے والے مختصر وقفوں میں پبلک سروس کمیشن کے امتحان کی تیاری میں مصروف رہتیں، تاکہ اس ملازمت سے نجات حاصل کرکے کسی کالج میں لیکچرار لگ سکیں۔
کسٹمز کی شکایت سننے کے دوران میرا ذہن مسلسل چلتا رہتا، تن خواہ میں اضافے کے لیے کسی ایسے طریقے کی تلاش میں، جس کے ذریعے شناخت مخفی رکھتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کروایا جا سکے۔ زرناب کو ہماری تحریک کا حصے بننے میں خاصا وقت لگا۔ آج سوچتا ہوں کہ وہ کبھی ہمارا حصہ بنی ہی نہیں تھی، صرف حصہ بننے کا ڈھونگ کرتی رہی۔ یہ سبب نہیں ہے کہ وہ خاموش طبع اور شرمیلی تھی۔ وہ تو ہمارے ساتھ لنچ کرتی، دوسروں سے بےدھڑک پوچھ لیتی کہ آج ان کے ٹفن میں کیا چھپا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ کھانے کے دوران ہاتھ بڑھا کر دوسروں کی پلیٹ میں اپنا نوالہ بھی ڈبو دیتی۔
اسی بدتہذیبی کے سبب میں اس کی سمت متوجہ ہوا اور وہ مجھے اچھی لگنے لگی۔ گو آنٹی نے مجھے مطلع کر دیا تھا کہ نئی لڑکی انقلاب فرانس سے متاثر ہوکر شروع کی جانے والی ’’کال سینٹر زکا انقلاب‘‘ نامی تحریک کا حصہ بننے کی خواہش مند نہیں، یہ اس کی پہلی ملازمت ہے اور وہ اپنی چار ہندسوں پر مشتمل تن خواہ سے مطمئن ہے، اس کے باوجود میں نے اپنے کیبن سے سر اٹھا کر اس سے ’’وقفہ برائے چائے‘‘ میں بات کرنے کی اجازت چاہی آج سوچتا ہوں کہ میں کبھی اسے ’’تن خواہ بڑھاؤ آندولن‘‘ کا حصہ بنانے کے لیے سنجیدہ نہیں تھا، میری دل چسپیوں کا محور تو اس کے گال پر موجود سیاہ نشان تھا، جو اپنے عجیب و غریب پھیلاؤ کے باعث دھبے اور تل کے درمیان کہیں کھڑا تھا۔ دوران گفت گو نہ جانے کیوں خواہش ہوئی کہ اس دھبے یا نشان یا تل 151 جو بھی وہ ہے 151 اس پر ہونٹ رکھ دوں، لیکن جلد ہی اس خواہش پر قابو پا لیا۔
وقفہ برائے چائے کے بعد میں مطمئن تھا کہ اس سے مزید بات کرنے کا جواز ہاتھ آ گیا ہے۔ بے شک وہ اس انقلابی تحریک کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں، لیکن میرے نظریات سے متاثر ضرور ہے اور ان کے بارے میں مزید جاننے کی آرزومند بھی!
ایک اور وقفہ برائے چائے میں مَیں نے اسے بتایا کہ ہماری تحریک صرف اس کال سینٹر تک محدود نہیں، انقلاب کے بعد دیگر کال سینٹرز بھی آزادی کے سرخ جھنڈے تلے آ جائیں گے، کال سینٹر میں بیٹھ کر کال سننے والے ہی اب آمدنی کے مالک ہوں گے۔
’’جو بوئےگا، وہی کھائےگا!‘‘ جذبات کی رو میں میں اس کے سامنے یہ نعرہ بھی لگا بیٹھا۔
وہ متاثر نظر آ رہی تھی۔
میں نے وعدہ کیا کہ میں اسے کمیونسٹ پارٹی کا مینی فیسٹو پڑھنے کے لیے دوں گا۔ شومئی قسمت، میرے جس دوست کے پاس کسی زمانے میں وہ کتاب تھی، وہ اب دوسرے شہر میں جابسا تھا اور جانے سے پہلے تمام کتابیں ایک کباڑی کو سستے داموں بیچ گیا۔ یوں وہ بے چاری اپنی زندگی میں کمیونسٹ پارٹی کا منشور نہیں پڑھ سکی۔
اسے آئے پانچ ماہ گزر چکے تھے اور اس عرصے میں ہماری تحریک تقریباً دم توڑ چکی تھی۔ ہمارے مطالبات تسلیم کیے جانے کے سبب نہیں، بلکہ لیڈروں کے بکنے کی وجہ سے!
آنٹی کی اور میری تن خواہ میں معمولی اضافہ کرکے ہمارا منہ بند کر دیا گیا اور یوں ایک ایسا انقلاب جو کال سینٹر انڈسٹری کی قسمت بدل سکتا تھا، چند ضمیر فروشوں کے باعث سبوتاژ ہو گیا۔
زرناب اور میرے درمیان فاصلہ کم ہوتا گیا۔ بڑے ہی فلمی انداز میں وہ میرے قریب آ گئی اور جب ہم ایک دوجے کی حدت کو محسوس کرسکتے تھے، میں نے ایک شریف نوجوان کی حیثیت سے اسے اس حقیقت سے آگاہ کر دیا کہ جو خواب وہ دیکھ رہی ہے، اس کی تعبیر ناممکن کے زمرے میں آتی ہے۔
اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
میں نے انسانی ہم دردی کے تحت اس کا شانہ دبایا۔ اس نے میرے سینے پر سر رکھ دیا۔ اندر ہل چل ضرور ہوئی، تاہم میں نے فلمی انداز میں اسے خود سے جدا کرتے ہوئے سنبھلنے کی نصیحت کی۔ سوچتا ہوں کہ یہ سب اس شریف سرکاری ملازم کے خون کا اثر ہے، جو مجھے اپنا بیٹا کہتا ہے۔ اسی وجہ سے میں اپنی محبت میں گرفتار ایک قبول صورت لڑکی سے، جو دوسروں کی پلیٹوں میں بھی یک ساں دل چسپی لیتی تھی، جسمانی تعلق قائم نہیں کر سکا۔ (شریف زادہ ہونا کسی عذاب سے کم نہیں!)
چار کمروں کے اس خستہ حال فلیٹ میں یہ خبر گردش کرنے لگی کہ زرناب کو کسی اچھے کال سینٹر سے آفر ہوئی ہے، لیکن جلد ہی خبر دب گئی۔ ہم نے اسے افواہ قرار دیا، لیکن اس کی موت سے چند روز قبل مجھے آنٹی نے بتایا کہ وہ فقط میری وجہ سے یہاں ٹکی ہوئی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس انکشاف سے مجھے بہت دکھ ہوا۔ اس سبب نہیں کہ وہ میری وجہ سے رک گئی، بلکہ اس باعث کہ اس سے سینئر ہونے کے باوجود میں ہنوز اچھی آفرز سے محروم ہوں۔
اس وقت میں نے صورت حال کو منحوس سرمایہ دارانہ نظام کی تخلیق قرار دیا تھا۔
جلد ہی اسے پتا چل گیا کہ میں اپنے محلے دار اعوان صاحب کی بیٹی فری سے محبت کرتا ہوں۔ شکستگی اس کے چہرے سے عیاں تھی، تاہم میں نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا کہ شکستگی زندگی کا ایک تجربہ ہے۔
اور جب اسے خبر ہوئی کہ انتہائی کم تن خواہ اور مالی مسائل کے باوجود میں جلد اعوان صاحب کی بیٹی سے بندھ جاؤں گا، تو شکستگی بڑھ گئی اور گال پر موجود نشان پھیل گیا۔ لیکن میں اس بار بھی معمول کے مطابق رہا۔۔۔ بڑھتی شکستگی بھی زندگی ہی کا حصہ ہے، محنت کشوں کو ان چھوٹے چھوٹے انفرادی مسائل سے ابھر کر ایک بڑے
مقصد کے لیے اجتماعی معاملات پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے!
اپنی موت سے ایک روز قبل، جب ہم دونوں نویں منزل کی تاریک راہ داری میں ساتھ تھے، زرناب مجھ سے لپٹ گئی۔ اندر اتھل پتھل ہوئی۔ ہم دردی کے جذبے کے تحت میں نے اپنے بازو اس کے گرد حمائل کر لیے، تاکہ اسے تسلی ہو جائے کہ وہ تنہا نہیں، ایک شریف زادہ اس کا دکھ محسوس کرتا ہے۔
تاریک اور بوسیدہ راہ داری میں اس نے ایک سستے گفٹ پیپر میں لپٹا چھوٹا سا ڈبا مجھے تھما دیا۔ میں مسکرا دیا اور اسے سمجھایا کہ اس کی ضرورت نہیں، تاہم دل میں خوش تھا۔
گھر آکر جب وہ ڈبا کھولا، تو مسرت اور شرمندگی کی اکتسابی کیفیت نے مجھے گھیر لیا۔ اس میں زرناب کی پورے مہینے کی تن خواہ تھی۔ ساتھ ایک تہنیتی کارڈ بھی، جس پر ’’نئے رشتے کا تحفہ‘‘ لکھا تھا۔
میں مسکرا دیا اور سوچا کہ کل اسے یہ پیسے لوٹا دوں گا اور اگر اس نے ضد کی تو اس رقم کا ایک چوتھائی رکھ لوں گا۔
یہ امر بہت سوں کے لیے باعث حیرت تھا کہ زرناب اب دنیا میں نہیں رہی۔ میں بھی حیران ہونے والوں میں شامل تھا۔ خبر کی تلاش میں معاملہ کریدا گیا اور ایک گھسا پٹا المیہ ہمارے سامنے آیا۔
کل رات اس کے پیٹ کے دائیں حصے میں شدید درد اٹھا۔ ٹیکسی میں ڈال کر اسے قریبی کلینک پہنچایا گیا۔ ڈاکٹر نے اپنڈکس کا درد قرار دیتے ہوئے اسپتال کا رخ کرنے کا مشورہ دیا۔ اس کے گھر والے ناخواندہ اور سادہ نکلے۔ ایک مشہور پرائیویٹ اسپتال جا پہنچے۔ پیسے تھے نہیں، بھلا ہو نیک دل اسپتال والوں کا، جنھوں نے اپنے فنڈ سے آپریشن کا فیصلہ کیا، تاہم کاغذی کارروائی پوری ہوتے ہوتے زرناب دم توڑ گئی۔
واقعہ اتنا سادہ اور حقیقی تھا کہ بھونڈا معلوم پڑا۔
ہم سب افسردہ تھے، تاہم کوئی رویا نہیں۔ آنٹی اس کے گھر جانا چاہتی تھیں، لیکن مصروفیات کے باعث کوئی ساتھ دینے کو تیار نہیں تھا، سو وہ بھی تعزیت کے فیصلے سے دست بردار ہو گئیں۔
میں بجھا بجھا گھر کو لوٹا۔ اسی روز میرے متوقع ساس سسر گھر آ دھمکے اور میں مستقبل کی مسرتوں میں حال کے المیے کو بھول گیا۔ سورج غروب ہوا اور یوں زرناب کی موت کو ایک روز گزرا۔۔۔ میں پہلے جیسا ہی تھا، کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
پھر دوسرا دن!
میں نے معمول کے مطابق دفتر میں کام نمٹایا اور دوستانہ انداز میں اپنے باس کو دھمکایا کہ جلد میری شادی ہونے والی ہے، میری تن خواہ میں اضافے کی بابت سنجیدگی سے سوچا جائے کہ آنٹی رحمان، سلیمان بھائی اور کامریڈ غفور کے بعد میں ہی سب سے سینئر ہوں۔
گھر لوٹا اور اگلی صبح کے لیے چند پروگرام ترتیب دیے۔
اور پھر اس کے تیجے والے دن میں بیدار ہوا۔ چھٹی کا فیصلہ کیا اور شاپنگ کی غرض سے نکل گیا اور نہ جانے کیوں، میری نظر ایک مہنگے سوٹ پر اٹک گئی۔
میری جیب میں کچھ پیسے تھے۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ رقم کیوں کر مجھ تک پہنچی ہے، میں نے وہ سوٹ خرید لیا۔ گھر آکر اسے زیب تن کیا اور آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ اچانک مجھے ہل چل کا وہ احساس ہوا، جو اسے آغوش میں لیتے سمے ہوا تھا۔
اور اچانک سب اتھل پتھل ہو گیا۔
میں نے گھبراہٹ کی تیزرو میں لباس تن سے جدا کیا اور بتی بجھا کر لیٹ گیا، لیکن جلد ہی گھبراہٹ نے وحشت کی شکل اختیار کرلی اور تب دفعتاً احساس ہوا کہ
مجھے زرناب سے شدید محبت تھی۔
میں نے اس خیال سے جوجھنے کی کوشش کی، لیکن وہ ہر گزرتے پل کے ساتھ قوی ہوتا ہے۔
بدقسمتی کسی کیمیائی عمل کے دوران جنم لینے والے حادثات کے مانند ہوتی ہے، جس سے مزید حادثات پھوٹ پڑتے ہیں۔
آج اعوان صاحب کے گھر دعوت پر جب فری کھانے کی میز پر بیٹھی تھی، مجھے پہلی بار اس کے گال پر ایک مسّا دکھائی دیا اور یکایک میرا منہ کڑوا ہو گیا۔
اور جب اس کا مہندی سے رنگا ہاتھ اپنے چھوٹے بھائی کی پلیٹ میں داخل ہوا، میری طبیعت کی اتھل پتھل قے کی صورت باہر آ گئی!
مصنف:اقبال خورشید