وہ جو کھوئے گئے

0
178
Urdu Story Afsana
- Advertisement -

زخمی سر والے آدمی نے درخت کے تنےسے اسی طرح سرٹکائے ہوئے آنکھیں کھولیں۔ پوچھا، ’’ہم نکل آئے ہیں؟‘‘

باریش آدمی نے اطمینان بھرے لہجہ میں کہا۔ ’’خدا کاشکر ہے ہم سلامت نکل آئے ہیں۔‘‘

اس آدمی نےجس کے گلے میں تھیلا پڑا تھا تائید میں سرہلایا، ’’بیشک، بیشک کم از کم ہم اپنی جانیں بچاکر لے آئے ہیں۔‘‘ پھر اس نے زخمی سر والے کے سر پر بندھی ہوئی پٹی کی طرف دیکھا۔ پوچھا۔ ’’تیرےزخم کا اب کیاحال ہے؟‘‘

زخمی سر والا بولا، ’’مجھے لگتا ہے کہ خون ابھی تھوڑا تھوڑا رِس رہاہے۔‘‘

باریش آدمی نے پھر اسی اطمینان بھرے لہجہ میں کہا۔ ’’عزیز فکر مت کر۔ خون رک جائے گا اور زخم اللہ چاہے تو جلد پھرجائے گا۔‘‘

- Advertisement -

زخمی سر والے نے پوری آنکھیں کھول کر ایک ایک کو دیکھا۔ پھر انگلی اٹھاکر ایک ایک کو گنا، باریش آدمی کو، تھیلے والے آدمی کو، نوجوان کو۔ پھر تعجب سے بولا ’’ایک آدمی کہاں ہے؟‘‘

نوجوان چوک پڑا، ’’کیا۔۔۔؟ ایک آدمی کم ہے؟‘‘

باریش آدمی نے نوجوان کو غصہ سے دیکھا، پھر زخمی سر والے کونرم لہجہ میں سرزنش کی، ’’عزیز ہم اتنی تعداد میں نہیں ہیں کہ تو گننے میں گھپلا کرے۔‘‘

تھیلے والے نے باریش آدمی کی تائید کی، پھر اعتماد کے ساتھ ایک ایک کو گنا، باریش آدمی کو، زخمی سر والے کو، نوجوان کو، پھر ٹھٹھک گیا۔ بولا، ’’ایک آدمی کہاں ہے؟‘‘

نوجوان نے ہراساں ہوکر تھیلے والے کو دیکھا۔ پھر خود ایک ایک کو گنا،باریش آدمی کو، تھیلے والے کو، زخمی سر والے کو، پھر تشویش کے لہجہ میں بولا۔ ’’کہاں گیا، ایک آدمی؟‘‘

باریش آدمی نے غصیلی نظروں سے تینوں کو دیکھا۔ پھر خود انگلی اٹھاکر ایک ایک کو دیکھا۔ زخمی سر والے کو، تھیلے والے کو، نوجوان کو، ٹھٹھک گیا۔ پھر گنا، پھر ٹھٹھکا، تیسری بار پھر بڑی احتیاط سے گنا اور پھر ٹھٹھک گیا۔ دھیرے سے بڑبڑایا، ’’عجیب بات ہے۔‘‘

پھر چاروں نے ایک ہراس بھری حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ پھر وہی ایک فقرہ ایک وقت میں چاروں کی زبان پر آیا، کچھ سرگوشی کی کیفیت لیے ہوئے، ’’عجیب بات ہے۔‘‘ پھر چپ ہوگئے۔

وہ ایک لمبی چپ تھی۔ مگر دور کہیں ایک کتا بھونکنے لگا تھا۔ نوجوان نے خوف بھری نظروں سے سب کو دیکھا۔ پھر آہستہ سے بولا۔ ’’یہ کتا کہاں بھوک رہا ہے۔‘‘

زخمی سر والے نے بے تعلقی سے پوچھا، ’’کون ہوگا؟‘‘

’’وہی ہوگا‘‘، باریش آدمی نے اعتماد سے اونچی آواز میں کہا۔ ’’اسے زیادہ دور نہیں ہونا چاہیے۔ وہ یہیں کہیں ہم سے بچھڑا ہے۔‘‘

زخمی سر والے نے پاس پڑی ہوئی لاٹھی اٹھائی اور اٹھتے ہوئے بولا۔ ’’اگر یہ وہی ہے اور کتے نے اس کا رستہ روکا ہوا ہے تو میں مرجاتا ہوں اور اسے لے کر آتا ہوں۔‘‘

زخمی سر والا لاٹھی لے کر اس طرف چلا گیا۔ جس طرف سے کتے کے بھونکنے کی آواز آرہی تھی۔ وہ تینوں چپ بیٹھے رہے۔ پھر تھیلے والا بولا، کیا واقعی وہی ہوگا۔‘‘

باریش آدمی بولا، ’’اس کے سوا اس غیر وقت میں اس غیر جگہ اور کون ہوسکتا ہے۔‘‘

’’ہاں وہی ہوگا‘‘، تھیلے والا اب کسی قدر اطمینان کے لہجہ میں بولا۔ ’’وہ آگے بھی کتے سے ڈرتا تھا۔ رستے میں کہیں نظر آجاتا تو وہ رک کر کھڑا ہوجاتاتھا۔‘‘

نوجوان پھر شک بھرے لہجہ میں بولا، ’’مگر کیا تم نے غور کیا کہ اب کتے کی آواز نہیں آرہی۔‘‘

تھیلے والے نے تھوڑی دیر کان لگاکر سننے کی کوشش کی، پھر کہا، ’’ہاں اب آواز نہیں آرہی ہے۔ جانے کیا بات ہے۔‘‘

باریش آدمی نے اطمینان دلانے کے لہجہ میں کہا، ’’کتے کو دونوں نے مل کر بھکا دیا ہے۔ اب وہ آرہے ہوں گے۔‘‘

پھر تینوں چپ ہوگئے۔ جس طرف زخمی سر والا گیا تھا اسی طرف ان کی آنکھیں لگی ہوئی تھیں۔ تھیلے والا اس طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ پھر جیسے کچھ دیکھ لیا ہو کہنے لگا۔ ’’وہ تو اکیلا ہی آرہا ہے۔‘‘

’’اکیلا؟‘‘ باریش آدمی نے سوال کیا۔

’’ہاں اکیلا۔‘‘

تینوں زخمی سر والے کو دیکھتے رہے۔زخمی سر والا آیا۔ لاٹھی الگ رکھتے ہوئے بیٹھا اوربولا، ’’وہاں تو کوئی بھی نہیں ہے۔‘‘

تھیلے والےنےتعجب سےسوال کیا، ’’پھر کتا کس پر بھونکا تھا؟‘‘

نوجوان بولا، ’’کتے خلا میں تو نہیں بھونکتے۔‘‘

زخمی سر والا کہنے لگا۔ ’’مگر وہاں تو کوئی بھی نہیں تھا۔‘‘

’’بڑی عجیب بات ہے‘‘، تھیلے والے نے کہا۔

نوجوان نے پھر کان کھڑے کیے۔ پھر بولا، ’’کیا خیال ہے یہ کتے کے بھونکنے کی آواز نہیں ہے۔‘‘

سب کان لگاکر سننےلگے۔ پھر باریش آدمی زخمی سر والے سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا، ’’تم کہاں نکل گئے تھے کتے کی آواز تو اس طرف سے آرہی ہے۔‘‘

تھیلے والے نے زخمی سر والے کے قریب پڑی ہوئی لاٹھی اٹھائی۔ کھڑے ہوتے ہوئے بولا، ’’میں جاکر دیکھتا ہوں۔‘‘

باریش آدمی بھی اٹھ کھڑا ہوا، ’’سب چل کر کیوں نہ دیکھیں۔‘‘

یہ سن کر باقی دو بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ چاروں مل کراس طرف گئے جس طرف سے ابھی ابھی کتے کے بھونکنے کی آواز آئی تھی۔ دور تک گئے۔ کچھ نظر نہ آیا۔ تھیلے والا چلتے چلتےبڑبڑایا، ’’یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے۔‘‘

باریش آدمی نے اس کی ہمت بندھائی۔ کہاکہ ’’پکار کر دیکھو۔ اسے یہیں کہیں ہونا چاہیے۔ آخر چھلاوا تو نہیں تھا کہ غائب ہوگیا۔‘‘

زخمی سر والے نے کسی قدر مایوسانہ لہجہ میں کہا، ’’ہاں پکار کر بھی دیکھ لو۔‘‘ اور اس نے پکارنے کی نیت سے جھرجھری لی۔ پھر اچانک ٹھٹھکا۔ تھیلے والے سے مخاطب ہوا، ’’میرے ذہن سے تو اس کا نام ہی اتر گیا۔ کیا نام تھا اس کا؟‘‘

’’نام؟‘‘ زخمی سر والے نے ذہن پر زور ڈالا۔’’نام تو اس کا مجھے بھی یاد نہیں آرہا۔‘‘ پھر نوجوان سےمخاطب ہوا، ’’نوجوان تجھے یاد ہوگا؟‘‘

نوجوان نے جواب دیا، ’’نام کیسا، مجھے تو اس کی صورت بھی یاد نہیں۔‘‘

’’صورت بھی یادنہیں۔‘‘ تھیلے والاسوچ میں پڑ گیا۔ بولا عجب بات ہے اس کی صورت مجھے بھی یاد نہیں آرہی۔ پھر باریش آدمی سے مخاطب ہوا، ’’اے بزرگ تجھے تو اس کی صورت یاد ہوگی،اور نام بھی۔‘‘

باریش آدمی سوچ میں پڑگیا۔ ذہن پر زور ڈال کر سوچتا رہا۔ پھر متفکر لہجہ میں بولا، ’’عزیزو پلٹ چلو کہ اب ڈھونڈنے میں جوکھوں ہے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’یوں کہ اب نہ ہمیں اس کا نام یاد ہے نہ صورت یاد ہے۔ ایسی صورت میں کیا خبر کون مل جائے۔ ہم سمجھیں کہ وہ ہے۔ اور وہ، وہ نہ ہو، کوئی اور ہو۔ یہ غیر وقت ہے اور ہم راستے میں ہیں۔‘‘

چاروں پلٹ پڑے۔ چلتے چلتے پھر وہیں آگئے جہاں سے چلے تھے۔ پھر انہوں نے آگ روشن کی اور تھیلے والے نے تھیلے سے موٹا جھوٹا نکالا اور آگ پر پکایا۔

کھانے پینے کے بعد انہوں نے آگ پر ہاتھ تاپے اور انہیں یاد کرکے آبدیدہ ہوئے جنہیں وہ چھوڑ آئے تھے۔

’’مگر وہ آدمی کون تھا؟‘‘ نوجوان نے سوال کیا۔

’’سب نے انجانے پن میں پوچھا، ’’کون آدمی؟‘‘

’’وہ جو ہمارےہمراہ تھااور پھر ہم سے ٹوٹ گیا۔‘‘

’’وہ آدمی‘‘ اچھا وہ آدمی۔۔۔ ’’اسے تو ہم بھول ہی چلے تھے۔ کون تھا وہ؟‘‘

’’عجیب بات ہے‘‘، تھیلے والا کہنے لگا۔ ’’نہ ہمیں اس کا نام یاد رہا نہ صورت یاد رہی۔‘‘

’’تو کیا وہ ہم میں سے نہیں تھا؟‘‘

نوجوان کے اس سوال پر سب سناٹے میں آگئے۔ پھر تھیلے والا بولا، ’’اگر وہ ہم میں سے نہیں تھا تو پھر کن میں سے تھا۔ اور کس مقصد سے ہمارے ساتھ لگا ہوا تھا۔ اس کا یوں یکایک غائب ہوجانا۔۔۔یوں یکایک غائب ہوجانا۔۔۔ یوں یکایک غائب ہو جانا۔۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے چپ ہوگیا۔ ایک دوسرے کو تکنے لگے جیسے سوچ میں پڑ گئے ہوں کہ آخر ہمراہ چلتے چلتے یوں غائب ہوجانا، کیوں، کیسے، کس لیے۔

آخر باریش آدمی نے حوصلہ پکڑا اور کہا کہ ’’عزیزو شک مت کرو کہ شک میں ہمارے لیے عافیت نہیں ہے۔ وہ بے شک ہمیں میں سے تھا مگر یہ کہ جس قیامت میں ہم گھروں سے نکلے ہیں۔ اس میں سے کون کس کو پہچان سکتا تھا۔ اور کون کس کو شمار کرسکتا تھا۔

’’کیاں ہمیں یہ یاد نہیں۔‘‘ نوجوان نے پھر سوال کیا، ’’کہ جب ہم چلے تھے، تب کتنے تھے۔‘‘

’’اور کہاں سے چلے تھے۔‘‘ نوجوان نے ٹکڑا لگایا۔

باریش آدمی نے اپنے ذہن پر زور ڈالا۔ پھر بولا، ’’مجھے بس اتنا یاد ہے کہ جب میں غرناطہ سے نکلا ہوں۔۔۔

’’غرناطہ سے‘‘، ایک دم سے سب چونک پڑےاور باریش آدمی کو تعجب سے دیکھنے لگے۔

پھر تھیلے والے نے زورزورسے ہنسنا شروع کردیا۔ باریش آدمی سب کے چونک پڑنے پر سٹپٹاگیا تھا۔ اب اس ہنسی سے بالکل ہی سٹپٹا گیا۔ وہ ہنسے جارہا تھا پھر بولا، ’’یہ ایسی ہی بات ہے کہ میں ہانکنے لگوں کہ جب میں جہاں آباد سے نکلا ہوں تو۔۔۔‘‘

’’جہاں آباد سے‘‘، پھر سب چونک پڑے۔

تھیلے والا خود بھی کہ ابھی تک باریش آدمی پر ہنسے جارہا تھا، سٹپٹاکر چپ ہوگیا۔ یہ یاد رکھنےسے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں غرناطہ سے نکلا ہوں یا جہاں آباد سے نکلا ہوں یا بیت المقدس سے یا اور کشمیر سے۔۔۔‘‘ کہتے کہتے وہ رکا۔

زخمی سر والے کی اس بات سے سب عجیب طرح متاثر ہوئے کہ چپ سے ہوگئے مگر باریش آدمی آبدیدہ ہوااور یہ کلام زبان پر لایا کہ ’’ہم اپنا سب کچھ تو چھوڑ آئے تھے مگر کیا ہم اپنی یادیں بھی چھوڑ آئے ہیں۔‘‘

تھیلے والا آدمی بہت سوچ کر بولا، ’’مجھے اب بس اس قدر یاد ہے کہ ہمارے گھر دھڑدھڑ جل رہے تھے اور ہم باہر نکل رہے تھے، بھاگ رہے تھے۔‘‘

نوجوان کا دل بھر آیا۔ بولا، ’’مجھے بس اتنا یاد ہے کہ اس وقت میرا باپ جانماز پہ بیٹھا تھا اور ہاتھ میں اس کے تسبیح تھی، ہونٹ اس کے ہل رہے تھے اور گھر میں دھواں ہی دھواں تھا۔۔۔‘‘

باریش آدمی نے رقت بھری آواز میں کہا، ’’تیرا باپ یہ کچھ دیکھنے کے لیے زندہ رہا۔‘‘

نوجوان نےکوئی جواب نہیں دیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبارہے تھے۔

تھیلے والا بہت سوچ کر بولا ’’مجھے بس اب اس قدر یاد ہے کہ گھر دھڑ دھڑ جل رہے تھے اور ہم سراسیمہ و بدحواس نکل رہے تھے۔‘‘

زخمی سر والے پر کوئی اثر نہ ہوا۔ بولاتو یہ بولا کہ ’’دوست یادوں میں کیا رکھا ہے۔ میرے لیے یہ یاد رکھنے سےکیا فرق پڑتاہے کہ میرے سر پر بلم پڑا تھا، یا لاٹھی پڑی تھی یا اسےتلوار نےدونیم کیا تھا۔ میرے لیے اصل بات یہ ہے کہ اس وقت میرا سر بے طرح دکھ رہا ہے اور خون اس سے ہنوز رس رہا ہے۔

سب ہمدردانہ زخمی سر کودیکھنے لگے۔

باریش آدمی زخمی سروالے کو تکتارہا پھر بولا، ’’میرا سینہ تیرے سر سےزیادہ زخمی ہے۔‘‘ آہ سرد بھری۔ پھر بولا، ’’کیا بستی تھی کہ جل گئی۔‘‘

’’کیا خلقت تھی کہ نظروں سے اوجھل ہوگئیں‘‘، نوجوان افسردہ ہوکر بولا۔ وہ یادوں ہی یادوں میں دور تک گیا،اس ساعت تک جس ساعت اس نے اپنی زندگی کا پہلا بوسہ کسی لب پر ثبت کیا تھا۔ اور اس نے وہ اعلانات کیے جوایسی ساعت میں کیے جاتے ہیں کہ اس ساعت میں تو وقت اورمعاشرہ دونوں ہیچ دکھائی دیتے ہیں اور محبت کاراستہ جادواں نظر آتا ہے۔ اس ساعت کو اس نے ایک اداسی کے ساتھ یاد کیا۔ پھر بڑبڑایا۔

’’اگروہ اس وقت یہاں ہوتی تو ہم پورے ہوتے۔‘‘

’’ہوتی؟‘‘ باریش آدمی نے اسے تعجب سے دیکھا، ’’کون ہوتی؟‘‘

’’وہ‘‘

’’وہ کون؟‘‘

نوجوان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ ٹکٹکی باندھے خلا میں دیکھ رہا تھا۔ باریش آدمی اور تھیلے والا اسے غور سے دیکھتے رہے تھے۔ زخمی سر والے نے درخت کے تنے سے ٹیک لگائی اور آنکھیں موندلیں جیسے وہ اس سارے قصے سے تھک گیا ہے۔ تھیلے والا نوجوان کو دیکھتا رہا، پھر آہستہ سے بولا، ’’کیا وہ عورت تھی؟‘‘

’’عورت‘‘ باریش آدمی چونک پڑا۔

زخمی سر والے نے بھی چونک کر آنکھیں کھول دیں۔

’’اگر وہ عورت تھی‘‘، تھیلے والا بولا۔ ’’تو خدا کی قسم ہم ایک اچھے ہمسفر سے محروم ہوگئے ہیں۔‘‘

باریش آدمی نے غصے سے اسے دیکھااور کہا، ’’اگر وہ عورت تھی تو خدا کی قسم اس کی ہمسفری ہمیں بہت خراب کرتی۔‘‘

زخمی سر والا تلخ ہنسی ہنسا اور کہا، ’’اب ہم خراب نہیں ہیں؟‘‘

’’مگر وہ خرابی در خرابی ہوتی۔‘‘

تب زخمی سر والے نے کسی قدر درشت لہجہ میں اسے مخاطب کیا، ’’اے بوڑھے آدمی، عورت کی بدولت خراب ہونا اس سے بہتر ہے کہ ہم بلا سبب وبلا وجہ خراب پھریں۔‘‘ پھر اس نےآنکھیں موندلیں اور سر تنے پر ٹکا دیا۔

دیر تک خاموشی رہی۔ تھیلے والے نے آس پاس سے ایندھن جمع کیا اور الاؤ میں ڈال دیا۔ چپ چاپ اپنے اپنے خیالوں میں گم اپنے اپنے وسوسوں میں غلطاں وہ بیٹھے رہے۔ ہاتھ تاپتے رہے۔ پھر باریش آدمی بڑبڑایا، ’’عجیب بات ہے نہ اس کا نام یاد رہا، نہ صورت یاد رہی۔ نہ یاد رہا کہ وہ عورت تھی یا مرد تھا۔‘‘

تھیلے والا ذہن پر زور ڈالتے ہوئے کہنے لگا، ’’سمجھ میں نہیں آتا کہ کون آدمی تھا۔ کون ہوسکتا ہے۔‘‘

تھیلے والے نےشک بھرے لہجہ میں کہا، ’’اور ہوسکتا ہے کہ آدمی ہی نہ ہو۔‘‘

’’آدمی ہی نہ ہو‘‘، نوجوان چکراسا گیا۔

باریش آدمی نے تامل کیا۔ پھر آہستہ سےکہا، ’’ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے۔‘‘

اس پر خاموشی چھاگئی۔ مگر نوجوان کہ وسوسے میں پھنس گیا تھا بولا، ’’اگر وہ آدمی نہیں تھا تو پھر کون تھا؟‘‘

باریش آدمی اور تھیلے والا آدمی دونوں ہی اس سوال پر سوچ میں پڑگئے۔ زخمی سروالے نے آنکھیں کھولیں، نوجوان کو دیکھا۔کہا، ’’اگر وہ عورت نہیں تھی تو میری بلا سے وہ کون بلا تھی۔‘‘ اور پھر آنکھیں موندلیں۔

’’بلا‘‘، تینوں چونک پڑے۔

تھوڑے تامل کے بعد باریش آدمی نے کہا، ’’عزیز، ایسا مت کہہ، مبادا آدمی پر سے ہمارا اعتبار اٹھ جائے۔‘‘

زخمی سر والے نے آنکھیں کھول کر باریش آدمی کو دیکھا، اپنے مخصوص تلخ انداز میں ہنسا اور بولا، ’’اے بزرگ، آدمی پر تیرا اعتبار ابھی تک قایم ہے۔‘‘ پھر اس نے آنکھیں موندلیں اور سرڈھلک کرتنے پر ٹک گیا۔

باریش آدمی نے اسے تشویش سےدیکھا اور پوچھا، ’’عزیز کیا تیرا سر زیادہ درد کر رہا ہے۔‘‘

زخمی سر والے نے اسی طرح آنکھیں موندے ہوئے نفی میں سرہلایا اور ساکت ہوگیا۔

باریش آدمی نے پھر پوچھا، ’’تمہیں کچھ یادہے کہ تمہیں ضرب کس چیز سے آئی اور تم نرغے سے کیسے نکلے۔‘‘

زخمی سر والے نےاذیت بھرے لہجہ میں آنکھیں موندےموندےکہا، ’’مجھے کچھ یاد نہیں ہے۔‘‘

’’عجیب بات ہے،‘‘ نوجوان بولا۔

’’کوئی عجیب بات نہیں ہے‘‘، باریش آدمی کہنے لگا۔ ’’چوٹ زیادہ شدید ہو تو دماغ سن ہوجاتا ہے اور حافظہ تھوڑی دیر کے لیے معطل ہوجاتا ہے۔‘‘

’’میرے سر میں کوئی چوٹ نہیں لگی‘‘، تھیلے والا بولا،۔ ’’پھر بھی مجھے خاصی دیر تک یوں لگا جیسے میرا دماغ سن ہوگیا ہے۔‘‘

باریش آدمی نے اسے سمجھایا، ’’ایسے حالات میں ایسا ہوجاتا ہے۔ آدمی دہل جاتا ہے۔‘‘ یہ کہتے کہتے باریش آدمی چونکا۔ کچھ دیر یوں بے حس و حرکت بیٹھا رہا جیسے کچھ سننے کی کوشش کر رہا ہے۔ پھر سوالیہ نظروں سے تھیلے والے کو دیکھا۔ ’’یہ وہی آواز نہیں ہے۔‘‘

تھیلے والا کان لگائے سنتا رہا، پھر بولا، ’’وہی آواز ہے۔‘‘

تینوں کچھ دیر تک کان لگائے کچھ سنتے رہے۔ پھر انہوں نے خوف بھری نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ دیکھتے رہے۔ پھر باریش آدمی اٹھ کھڑا ہوا۔ تھیلے والا اور نوجوان بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ جب وہ چلنے لگے تو زخمی سر والے نے آنکھیں کھول کر انھیں دیکھا۔ ایک تکلیف کے ساتھ اٹھا اور پیچھے پیچھے ہولیا۔

دور تک گئے، ایک سمت میں پھر دوسری سمت میں۔ پھر وہ حیران ہوئے۔ اور تھیلے والا بولا، ’’یہاں تو دور تک کوئی دکھائی نہیں دیتا۔‘‘

باریش آدمی بولا، ’’مگر کوئی تو ہے جو کتا بار بار بھونکتا ہے۔‘‘

’’تو پھر کتا کہاں ہے؟‘‘ نوجوان نے سوال کیا۔

اس سوال پر سب چکراگئے۔ یہ تو کسی نے اب تک سوچاہی نہیں تھا کہ کتا بھی ابھی تک نظر نہیں آیا تھا۔

تھیلے والے نے کہا، ’’اب کتا بھی معمہ بن گیا۔‘‘

باریش آدمی بولا، ’’معمہ کتانہیں ہے، آدمی ہے۔‘‘

زخمی سر والے نے بے تعلقی سے ٹکرا لگایا، ’’بشرطیکہ ہم دونوں میں فرق قائم رکھ سکیں۔‘‘

باریش آدمی نے اس کی بات سنی ان سنی کی پھر دفعتاً پلٹا، ’’چلو واپس۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’زیادہ دور جانا ٹھیک نہیں۔‘‘

اور وہ پلٹ پڑے۔ چپ چاپ چلتے رہے۔ اور پھر وہیں آکر پسر گئے جہاں سے چلے تھے۔ نوجوان نے بیٹھتے ہی خوف زدہ آوازمیں کہا۔ ’’ہم اس کا پیچھا کر رہے ہیں یا وہ ہمارا پیچھا کر رہا ہے۔‘‘

’’وہ ہماراپیچھا کر رہا ہے‘‘، تھیلے والے آدمی نے ڈری ہوئی آواز میں کہا۔

’’یہ تجھے کیسے گمان ہوا۔‘‘

’’مجھے یہ ایسے گمان ہوا کہ جب ہم واپس آرہے تھے تو لگا کہ کوئی پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔‘‘

’’تونے مڑ کر دیکھا؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

باریش بزرگ نے اسے داد دی، ’’نوجوان، یہ تونے اچھا کیا۔ پیچھے مڑکر نہیں دیکھنا چاہیے۔‘‘

زخمی سر والا کہ آتے ہی تھک کر لیٹ گیا تھا یہ سن کر دفعتاً اٹھ بیٹھا۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نوجوان کو دیکھا۔ پھر بولا، ’’یہ تو میرے ساتھ بھی ہواتھا۔ جب میں اسے ڈھونڈنے گیا تھاتو پلٹتے ہوئے مجھے لگا کہ کوئی لمبے لمبے ڈگ بھرتا پیچھے آرہا ہے۔‘‘

باریش بزرگ نے تشویش سے کہا، ’’مگرعزیز یہ تو تجھے اسی وقت بتانا چاہیے تھا۔‘‘

’’میں تو بھول ہی گیا تھا، اب نوجوان کے کہنے پر یاد آیا۔‘‘ کہتے کہتے ٹھٹھکا اور سوچ میں پڑگیا۔

’’کیوں، کیا ہوا۔‘‘

’’ٹھہرو یاد کرلینے دو۔‘‘ یاد کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر گویا ناکام ہوکر۔۔۔ ’’عزیز و تمہیں یاد ہو تو بتاؤ۔ جب میں گن رہاتھا تو میں نے اپنے آپ کو گنا تھا یا نہیں گنا تھا۔‘‘

’’اپنے آپ کو؟‘‘ تھیلے والے نے چکراکر کہا۔

زخمی سروالا سوچتا رہا۔ پھر بولا، ’’شاید میں نے اپنے آپ کو نہیں گنا تھا۔۔۔ ہاں بالکل۔ میں اپنے آپ کو تو گننابھول ہی گیا تھا۔‘‘

تینوں اس پر چکرا سےگئے۔ بولے، ’’اچھا پھر؟‘‘

’’تو پھر یوں ہے کہ جو ایک آدمی کم ہے وہ میں تھا۔‘‘

’’تو؟‘‘ سب نےچوک کر اسے دیکھا۔

’’ہاں میں۔‘‘

یہ بات سن کر سب سناٹےمیں آگئے اور زخمی سر والے کو تکنے لگا۔پھر نوجوان دفعتاً چونکا۔ اسے یاد آیا کہ گنتے ہوئے اس نے بھی اپنے آپ کو نہیں گنا تھا۔ اور اس نے کہا کہ ’’جو آدمی کم ہے وہ میں ہوں۔‘‘

یہ کلام سنتے سنتے تھیلے والے آدمی نے یاد کیا کہ گنتے ہوئے تو اس نے بھی خود کو نہیں گنا تھا۔ اس نے سوچا کہ کم ہوجانےوالا آدمی وہ ہے۔ باریش آدمی دیر تک فکر میں غلطاں رہا۔ پھر وہ بعد تذبذب کے یہ حرف زبان پر لایا کہ ’’عزیزو مجھے یہ چوک نہیں ہونی چاہیے تھی۔ مگر مجھے بھی ہوئی۔ میں نے گنتے ہوئے سب کو گنا، مگر خود کو فراموش کیا۔ تو جو ایک آدمی کم ہوا ہے وہ یہ بندۂ کمترین ہے۔‘‘

تب سب چکر میں پڑگئے اور یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ آخر وہ کون ہے جو کم ہوگیا ہے۔ اس آن زخمی سر والے کو پھر وہ وقت یاد آیا جب کم ہوجانے والے آدمی کو ڈھونڈ کرپلٹ رہاتھا۔ کہنے لگا، ’’اس وقت مجھے لگا کہ وہ آدمی تو یہیں کہیں ہے مگر میں نہیں ہوں۔‘‘

باریش آدمی نےاسے سمجھاتے ہوئے کہا، ’’عزیز تو ہے۔‘‘ یہ سن کر زخمی سر والے نے ایک ایک ساتھی کو یوں دیکھا جیسے اسے باریش کے بیان پر اعتبار نہیں آیا ہے۔ ایک ایک ساتھی نےاسےیقین دلایا کہ وہ ہے۔ تب اس نےٹھنڈا سانس بھرا اور کہا کہ ’’چونکہ تم نے میری گواہی دی اس لیے میں ہوں۔ افسوس کہ میں اب دوسروں کی گواہی پر زندہ ہوں۔‘‘

اس پر باریش آدمی نے کہا، ’’اے عزیز شکر کرکہ تیرے لیے تین گواہی دینے والے موجود ہیں۔ ان لوگوں کو یاد کرو جو تھے مگر کوئی ان کا گواہ نہ بنا۔ سو وہ نہیں رہے۔‘‘

زخمی سر والا بولا،’’سو اگر تم اپنی گواہی سے پھرجاؤ تو میں بھی نہیں رہوں گا۔‘‘

یہ کلام سن کر پھر سب چکراگئے اور ہر ایک دل ہی دل میں یہ سوچ کر ڈرا کہ کہیں وہ تو وہ آدمی نہیں ہے جو کم ہوگیا ہے۔ اور ہر ایک اس مخمصہ میں پڑ گیا کہ اگر وہ کم ہوگیا ہے تو وہ ہے یا نہیں ہے۔ دلوں کاخوف آنکھوں میں آیا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ پھر ڈرتے ڈرتے اپنا اپنا شک بیان کیا۔ پھر انہوں نے ایک دوسرے کا حوصلہ بندھایا اور ایک دوسرے پر گواہ بنے۔ دوسرے سے گواہی لے کر اور دوسرے کی گواہی دے کر مطمئن ہوگئے۔ مگر نوجوان پھر شک میں پڑگیا۔ ’’یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ چونکہ ہم ایک دوسرے پرگواہ ہیں اس لیے ہم ہیں۔‘‘

زخمی سر والا ہنسا۔ رفیقوں نے پوچھا کہ اے یار تو کیوں ہنسا۔ اس نے کہا کہ ’’میں یہ سوچ کر ہنسا کہ میں دوسروں پر تو گواہ بن سکتا ہوں مگر اپنا گواہ نہیں بن سکتا۔‘‘

اس کلام نے پھر سب کو چکرادیا۔ ایک وسوسے نے ان سب کو گھیرا اور ان سب نے نئے سرے سے اپنےآپ کو گننا شروع کردیا۔ اس بار ہر گننے والے نےگننے کاآغاز اپنےآپ سے کیا مگر جب گن چکا تو گڑبڑاگیا اور باقیوں سے پوچھا کہ ’’کیا میں نے اپنے آپ کو گنا تھا؟‘‘

ایک نے دوسرے کو، دوسرے نے تیسرے کو اور تیسرے نےچوتھے کو گڑبڑایا۔ آخر نوجوان نےسوال کیا کہ ’’ہم تھے کتنے؟‘‘ اس سوال نے دلوں میں راہ کی۔ ہر ایک نے ہر ایک سے پوچھا۔ ’’آخر ہم تھے کتنے؟‘‘ باریش آدمی نے سب کی سنی۔ پھر یوں گویا ہوا کہ عزیزو میں صرف اتناجانتا ہوں کہ جب چلے تھے تو ہم میں کوئی کم نہیں تھا۔ پھر ہم کم ہوتے چلے گئے۔ اتنے کم ہوئے اتنے کم ہوئے کہ انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے۔ پھر ہمارا اپنی انگلیوں پر سے اعتبار اٹھ گیا۔ ہم نےایک ایک کرکے سب کو گنا اورایک کو کم پایا۔ پھر ہم میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی چوک کو یاد کیا اور اپنے آپ کو کم پایا۔‘‘

نوجوان نے ایک شک کے ساتھ کہا، ’’تو کیا ہم سب کم ہوگئے ہیں؟‘‘

باریش آدمی نے نوجوان کو غصےسے دیکھا جو سلجھی ہوئی ڈور کو پھر الجھائے دے رہا تھا، ’’کوئی کم نہیں ہواہے۔ ہم پورے ہیں۔‘‘

نوجوان نے الہڑپن سے پھر سوال کیا، ’’ہم کیسے جانیں کہ ہم پورے ہیں۔ آخر ہم تھے کتنے؟‘‘

’’کب کتنےتھے؟‘‘ باریش آدمی نے برہم ہوکر پوچھا۔

’’جب ہم چلے تھے۔‘‘

زخمی سر والے نے نوجوان کو گھور کر دیکھا، ’’ہم کب چلے تھے؟‘‘

نوجوان زخمی سر والے کو تکنےلگا۔ پھر اس کی آنکھ بھر آئی۔ بولا، ’’کچھ یاد نہیں پڑتا کہ کب چلے تھے۔ بس اتنا یاد ہے کہ گھر میں دھواں اٹا ہواتھا اور میرا باپ اس گھڑی جانماز پر بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور ہونٹ ہل رہے تھے اور انگلیوں میں تسبیح گردش کر رہی تھی۔‘‘

زخمی سر والا نوجوان کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے بڑی حسرت سے کہا، ’’نوجوان تجھے بہت کچھ یاد ہے۔ مجھے تو اب کچھ بھی یاد نہیں۔‘‘

نوجوان نےافسردہ ہوکر کہا، ’’مگر مجھے بالکل یاد نہیں آتا کہ وہ اس وقت کہاں تھی۔‘‘

باریش آدمی آبدیدہ ہوا اور بولا، ’’کاش ہم یاد رکھ سکتےکہ ہم کہاں تھے کب نکلے تھے اور کیسے نکلے تھے؟‘‘

’’اور کیوں نکلے تھے؟‘‘ نوجوان نے ٹکڑا لگایا۔

’’ہاں اور کیوں نکلے تھے‘‘، باریش آدمی نے تائیدی لہجہ میں کہا جیسے یہ بات اس کے ذہن سےاتر گئی تھی اور نوجوان نے یاد دلائی ہے۔

نوجوان پھر کسی فکر میں غلطا ہوگیا۔ کہنے لگا، ’’اگر میں واقعی جہاں آباد سے نکلا تھا تو مجھے بس اتنا یاد ہے کہ رت برسات کی گزر چکی تھی اور کوئل آم کےباغوں سے جاچکی تھی اور جھولا ہمارے آنگن والے نیم سے اترچکا تھا۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ خیالوں میں کھوگیا۔ لہجہ دھیما ہوگیا جیسے اپنے آپ سےباتیں کرتا ہو، ’’مگر وہ تو جھولا اترجانے کے بعد بھی ہمارے گھر آتی رہی تھی۔ خیالوں ہی خیالوں میں وہ دور تک گیا، ساون میں بھیگے ان دنوں تک جب آنگن میں کھڑے ہوئے اس گھنے نیم تلے پیلی پیلی بنولیاں ہی بنولیاں بکھری پڑی رہتیں اور جھولے میں بیٹھ کر وہ لمبے جھونٹے لیتی اور گاتی، ننھی منی بوندیاں رے۔ ساون میں میرا جھولنا، مگر وہ تو برسات کے بعد بھی ہمارے گھر آتی رہی تھی۔۔۔ ہاں بالکل۔۔۔ مگر اس روز کہاں تھی۔‘‘ وہ یاد کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر تھک گیا۔ بولا، ’’کچھ یاد نہیں آتا کہ اس روز وہ کہاں تھی۔‘‘

زخمی سر والا پھر نوجوان کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔

تھیلے والا آدمی بولا، ’’اور اگر تو جہاں آباد سےنہ نکلا ہو تو؟‘‘

’’یعنی؟‘‘ نوجوان نے اسے حیرت سےدیکھا۔

’’مثلاً جیسا کہ ہمارے بزرگ نے کہاہم غرناطہ سے نکلے ہوں تو؟‘‘ تھیلے والے نے یہ بات ایسے لہجہ میں کہی جیسے وہ بہت مضحکہ خیز بات ہو اور جیسے وہ باریش آدمی کا مذاق اڑا رہا ہو مگر نوجوان تذبذب میں پڑگیا۔ ’’غرناطے سے؟‘‘ سوچتا رہا۔ پھر افسوس کے ساتھ کہنے لگا، ’’اگر میں غرناط سے نکلا ہوں تو پھر مجھے کچھ یاد نہیں ہے۔‘‘

’’اگر ہم غرناطہ سےنکلے ہیں‘‘، باریش آدمی نے دبے سے لہجہ میں کہا، اور سوچ میں پڑگیا۔ پھر کہنے لگا، ’’مجھے یاد آتا ہے کہ ابھی صبح کا دھندلکا تھا، اور مسجد اقصیٰ کے مینار۔۔۔‘‘

تھیلے والا بے ساختہ ہنسا، ’’مسجد اقصیٰ کےمینار،غرناطہ میں۔‘‘

باریش آدمی سٹپٹاکر چپ ہوگیا۔ نوجوان نے باریش آدمی کویوں دیکھاجیسے کچھ نہ سمجھا ہو۔ ’’مسجد اقصیٰ؟‘‘ بڑبڑایا اور چپ ہوگیا۔

زخمی سر والا بدمزہ ہوگیا، ’’میں اکھڑچکا ہوں۔ اب میرے لیے یہ یاد کرنےسے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ کون سی ساعت تھی اور کون ساموسم تھا اور کون سی بستی تھی۔‘‘

’’ہاں اب یہ یاد کرنےسے کیا فرق پڑتا ہےکہ وہ کون سی ساعت تھی اور وہ کون سی مسجد کے مینار تھے۔‘‘ باریش آدمی نے ٹھنڈا سانس بھرا۔ ’’پھر بھی اچھاہوتا اگر ہم یاد رکھ سکتےکہ ہم کب نکلے تھے اور کہاں سے نکلے تھے۔‘‘

’’اور کیوں نکلے تھے۔‘‘ نوجوان نے ٹکڑا لگایا۔

’’ہاں یہ بھی کہ کیوں نکلے تھے۔‘‘

’’اور یہ کہ‘‘ نوجوان نے مزید ٹکڑا لگایا، ’’جب ہم نکلے تھے تو کتنے تھے۔‘‘

باریش آدمی نےنوجوان کو سمجھانے کے لہجہ میں کہا، ’’ہم اس وقت پورے تھے۔‘‘

نوجوان نے باریش آدمی کی بات غور سے سنی پھر پوچھا۔ ’’کیا وہ نکلتے وقت ہمارے ساتھ تھا؟‘‘

’’کون؟‘‘ باریش آدمی نے تعجب سے پوچھا۔

’’وہ جو ہم میں سے کم ہوگیا تھا؟‘‘

’’وہ؟‘‘ باریش آدمی نےنوجوان کو دیکھا۔ وہ کوئی نہیں تھا۔

کوئی نہیں تھا۔ ایک نے دوسرے کو اور دوسرے نے تیسرے کو دیکھا۔ سب کی حیرت اور خوف تھااور گم سے بیٹھے تھے۔

ایسے جیسے اب کبھی نہیں بولیں گے۔

نوجوان نے تھوڑی جنبش کی اور کان کھڑے کیے۔ کچھ سننےکی کوشش کرنے لگا۔ اسے دیکھ کر دوسروں کے کان بھی کھڑے ہوئے۔ سب کان لگائے ہوئے تھے اور کچھ سننےکی کوشش کر رہے تھے۔

’’کوئی ہے؟‘‘ نوجوان نے سرگوشی میں کہا۔

’’ہاں ساتھیو! کوئی ہے جب کتا بھونک رہاہے‘‘، تھیلے والے نے کہا۔

چاروں ایک دوسرے کوتکنے لگے۔ پھر نوجوان نے آہستہ سے کہا، ’’کہیں وہی نہ ہو؟‘‘

’’کون؟‘‘

’’وہی‘‘

باریش آدمی نے گھور کرنوجوان سے کہا۔ سوچ میں پڑگیا۔ پھر دفعتاً اٹھ کھڑا ہوا۔ دوسرے بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ جس طرف سےآواز آئی تھی۔ پھر اسی طرف سب چل کھڑے ہوئے۔

مصنف:انتظار حسین

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here