کہانی کی کہانی:’’شناخت کے بحران کی کہانی ہے۔ ایک شخص اپنے وجود کی تلاش میں غلطاں و پیچاں پھر رہا ہے لیکن اسے کوئی مناسب حل نہیں ملتا ہے۔ ایک شخص خود کو تلاش کرتا ہوا ایک عبادت خانے کے دروازے پر دستک دیتا ہے تو بایزید پوچھتے ہیں کہ تو کون ہے؟ کس کی تلاش ہے؟ وہ بتاتا ہےکہ میں بایزید کو تلاش کر رہا ہوں۔ بایزید فرماتے ہیں کہ کون بایزید۔ میں تو خود اسی کی تلاش میں ہوں۔‘‘
وہم تھا۔ اس نے سوچا۔ ورنہ یوں بھی کہیں ہوا ہے؟ اس نے اپنی عینک درست کی اور رومال سے گردن کو پونچھا، اتنی سی دیر میں وہ پسینے سے تر بتر ہوگیا تھا، دل اب بھی زور زور سے دھڑک رہا تھا لیکن دھڑکنوں کے درمیان وقفے لمبے ہوگئے تھے۔ اب اسے پشیمانی ہو رہی تھی کہ محض ایک وہم پر وہ بھاگ کھڑا ہوا، بھاگنے کی آخر کیا تک تھی؟ کوئی اسے پکڑے لے جا رہا تھا؟ وہ کوئی مجرم تو نہیں تھا؟ یا اس نے کسی کو قتل کیا تھا؟ اس نے طے کیا کہ بہتر ہے پلٹ کر چلو اور اطمینان کرلو، ورنہ خواہ مخواہ ایک وہم ہوجائے گا۔
جب وہ دوبارہ ہوٹل میں داخل ہوا تو یوں بالکل گھبرا یا ہوا نہیں تھا، مگر دل آپ ہی آپ پھر قدرے زور سے دھڑکنے لگا اور قدم بھاری ہونے لگے، تاہم اس نے اس کیفیت پر فوراً ہی قابو پالیا اور بڑے اعتماد سے اندر داخل ہوا، اندر داخل ہوکر اس نے اس میز پر نظر ڈالی جہاں وہ اسے بیٹھا چھوڑ کر گیا تھا۔ کہاں گیا وہ؟ اتنی جلدی؟ اتنی جلدی کیسے جا سکتا ہے؟ تعارف کرانے سے ذرا ہی پہلے تو اس نے آرڈر دیا تھا اتنی جلدی کیسے جا سکتا ہے، اتنی جلدی کھانا آبھی گیا اور کھا بھی لیا اور چلا بھی گیا؟ نہیں شاید کلی کرنے باتھ روم میں گیا ہو؟ وہ اس میز سے قریب ہی ایک خالی میز پر جا بیٹھا اور اخبار پڑھنا شروع کر دیا۔ مگر وہ اخبار کیا پڑھ رہا تھا کنکھیوں سے باتھ روم کے دروازے کو زیادہ دیکھتا جا رہا تھا۔
پھر باتھ روم کا دروازہ کھلا اور ایک شخص عجلت سے نکل کر رومال سے ہاتھ پونچھتا ہوا ایک میز کی طرف چلا اور چائے پینے والوں کے حلقے میں شامل ہوگیا۔ وہ کہاں گیا؟ اب اسے واقعی تعجب ہونے لگا، اتنی جلدی کھانا بھی کھا لیا اور بل بھی ادا کر دیا اور چلا بھی گیا، آدمی تھا یا سایہ؟ اخبار وہیں چھوڑ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا، کاؤنٹر کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے خیال آیا کیوں نہ منیجر سے پوچھ لیا جائے مگر پھر یہ سوچ کر چپ ہوگیا کہ اتنے گاہکوں میں اسے کہاں یاد ہوگا کہ کون آیا اور کون گیا اور یوں بھی یہ بات ایسی مناسب نہیں، جانے کوئی کیا سمجھے، وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔ اس نے سائیکل اسٹینڈ کو ایک نظر دیکھا اور سائیکل سنبھالنے والوں میں سے ایک ایک چہرے کا جائزہ لیا، پھر سڑک پر نظر ماری، پھر حیران حیران اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
ایک نام کے دو کیا ہوتے نہیں، اس نے اپنے آپ سے استدلال کیا، بلکہ ایک نام کے کئی کئی ہوتے ہیں اور بعض نام تو اتنے پیش پا افتادہ ہیں کہ ایک ہی محلے میں دو دو تین تین آدمی اس کے نام نکل آتے ہیں، مگر ایک شکل کے بھی دو ہوسکتے ہیں؟ اس پر وہ کھیل گیا، ایک دفعہ پھر تھوڑی دیر کے لئے اس کی سمجھ معطل ہوگئی۔ آنکھوں میں پھر وہ تصویر پھر گئی، چائے پینے اور ساتھ میں اخبار پڑھنے میں وہ پہلے اتنا مست رہا کہ اس کی طرف نظر بھر کر دیکھا ہی نہیں، ہوٹل ہو یا گاڑی کا سفر، اسے اجنبیوں سے تعارف کرتے ہوئے ہمیشہ وحشت ہوئی، مگر جب تعارف کراتے ہوئے اس شخص نے اپنا نام بتایا تو اس کے کان کھڑے ہوئے۔ یہ تو میرا نام ہے۔ اس نے چونک کر اس پر نظر ڈالی، وہ سکتے میں آگیا اور اس کی پتلیاں پھیلتی چلی گئیں، اس کی تو شکل و صورت بھی عین مین۔۔۔ وہ پھر سر سے پیر تک کانپ گیا اور تیز تیز چلنے لگا۔ چل کیا رہا تھا بھاگ رہا تھا، ایک تصور اس کا تعاقب کر رہا تھا، وہ اس کی زد سے پرے نکل جانا چاہتا تھا۔
میں کیوں بھاگ رہا ہوں؟ میں نے قید خانے کی دیوار تو نہیں پھاندی ہے، یا میں نے کوئی قتل کیا ہے؟ اس کی چال ڈھیلی پڑ گئی، اب وہ اپنی بدحواسی پر بھی قابو پا چلا تھا اور ٹھنڈے دل سے سوچ رہا تھا، یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہم نامی نے ہم شکلی کا طلسم کھڑا کیا ہو، پھر اس نے سوچا کہ آخر ہم شکل ہونا بھی نا ممکنات میں سے تو نہیں۔ آدمی آدمی سے مشابہت رکھتا ہے، بہرحال وہ اس کا ہم شکل نہیں تھا، اس نے قطعی انداز میں دل ہی دل میں کہا، محض تصّور تھا۔
برامدے میں داخل ہوکر وہ اپنے کمرے کی طرف چلا، پھرا سے اچانک خیال آیا کہ کل جب وہ گھر سے باہر تھا تو اسے کوئی پوچھنے آیا تھا اور وہ اپنے کمرے کی طرف جاتے جاتے پلٹا اور بڑے کمرے میں ہوتا ہوا صحن میں نکل گیا، ’’اماں جی! مجھے کوئی پوچھنے تو نہیں آیا تھا؟‘‘
’’نہیں تو۔‘‘
’’کل کون تھا جو آیا تھا؟‘‘
’’میں کیا جانوں کون تھا؟ کچھ بتا کے تو گیا نہیں۔‘‘
’’نام نہی بتایا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’نام نہیں بتایا۔۔۔ اچھا۔۔۔‘‘ وہ رکتے ہوئے بولا۔
’’کس شکل و صورت کا تھا؟‘‘
’’مجھ ڈوبی کو کیا خبر کیسی صورت شکل تھی، میں کوئی باہر نکل کے اسے دیکھنے گئی تھی۔‘‘
پھر اس بے تکے سوال پر وہ بھی سٹپٹایا۔ کون تھا، کیوں آیا تھا؟ کوئی دوست، مگر دوست تو تقریباً سب ہی روز ملتے ہیں، کل شام بھی ملے تھے، کسی نے ذکر نہیں کیا کہ میں تمہارے گھر ملنے گیا تھا، کوئی ملنے والا ہو؟ لیکن اگر ملنا ہی مقصود تھا تو ایک دفعہ عدم موجودگی میں گھر کا پھیرا لگا جانا اور پھر سرے سے غائب ہی ہوجانا کیا معنی رکھتا ہے، آدمی تھا کہ سایہ، اسی ادھیڑ بن میں اسے مصباح الدین کی بات یاد آئی کہ پرسوں اسے کوئی کالج میں ڈھونڈتا پھرتا تھا۔ اسے کرید ہونے لگی کہ آخر کون بھلا مانس ہے کہ جہاں میں نہیں جاتا ہوں وہاں وہ مجھے ڈھونڈتا ہے۔ وہ اپنے کمرے کی طرف جاتے جاتے باہر کی طرف مڑ گیا۔ اس کا رخ مصباح الدین کے گھر کی طرف تھا، ’’یار مصباح الدین کون آیا تھا پرسوں مجھے ڈھونڈنے؟‘‘
’’یہ مجھے نہیں معلوم۔ ویسے اس نے تمہیں تلاش بہت کیا۔‘‘
’’نام بتایا تھا؟‘‘
’’نام تو نہیں بتایا۔‘‘
’’کس شکل و صورت کا آدمی تھا؟‘‘
’’شکل و صورت؟‘‘ مصباح الدین الجھن میں پڑ گیا۔
’’میرا مطلب ہے کیا حلیہ تھا؟‘‘ اس نے فوراً وضاحت کی۔
’’یار، بات یہ ہے کہ میری اس سے ملاقات نہیں ہوئی۔‘‘ اس نے ان سوالوں سے پیچھا چھڑاتے ہوئے کہا، ’’میں نے سمیع کو ایک شخص سے باتیں کرتے دیکھا تھا، مگر میں نے کوئی دھیان نہیں کیا تھا، بعد میں سمیع نے آ کر کہا کہ یار ایک شخص حسن کو ڈھونڈتا پھرتا تھا۔ میں نے کہا کہ آج بھی وہ آیا نہیں ہے۔ اس کے بعد ہم نے ادھر ادھر دیکھا مگر وہ دکھائی نہیں دیا۔ پھر ہم کلاس میں چلے گئے۔‘‘ اس بیان سے اس کی تسکین نہیں ہوئی بلکہ بے اطمینانی کچھ اور بڑھ گئی۔ گھڑی بھر وہ سوچ میں ڈوبا کھڑا رہا۔ پھر ایکا یکی بولا، ’’اچھا بھئی، میں چلا۔‘‘
’’کہاں، ابھی سے؟‘‘
’’نہیں، میں چلوں گا۔ سمیع کی طرف جاؤں گا ذرا۔‘‘
’’یار تو عجب آدمی ہے، میاں جسے غرض ہے وہ خود آ کر ملے گا۔ میں تو کبھی پرواہ کرتا نہیں کہ کون مجھے پوچھنے آیا تھا۔ اپنا اصول یہ ہے کہ جسے تیری تلاش ہے وہ خود تجھے ڈھونڈ لے گا۔‘‘
’’نہیں یار، جانے کون ہو، اور کیا خبر ہے کوئی ضروری ہی بات ہو۔‘‘
مصباح الدین کے گھر سے چل کر قدم بڑھاتا ہو ا وہ سمیع کے گھر پہنچا، ’’سمیع صاحب۔‘‘ اس نے دروازہ زور سے کھٹکھٹایا۔ پہلے قدموں کی چاپ سنائی دی پھر دروازہ کھلا اور سمیع باہر نکل آیا، ’’آؤ بھئی۔‘‘ اس نے سارے آداب اور تکلفات کو بر طرف کرکے سیدھا سوال کیا، ’’یار پرسوں میں تو کالج آیا نہیں تھا، مصباح کہتا تھا کوئی مجھے ڈھونڈتا ہوا آیا تھا، کون تھا؟‘‘
’’ہاں یار ایک صاحب تھے، انہوں نے تمہیں بہت ڈھونڈا، بعد میں پتا چلا کہ تم کالج ہی نہیں آئے ہو۔‘‘
’’’’کیا نام تھا؟‘‘
’’نام! نام تو نہیں بتایا۔‘‘
’’شکل کیسی تھی؟‘‘
’’شکل۔۔۔ شکل۔۔۔‘‘ سمیع اپنے حافظے پر زور دینے لگا۔
’’چھریرا بدن تھا؟ جیسا میں ہوں؟‘‘
سمیع نے فوراً تائید کی، ’’ہاں ہاں۔‘‘
’’عینک لگاتا تھا؟‘‘
’’عینک؟‘‘ سمیع سمجھا تھا اس کی گلو خلاصی ہوگئی ہے، فوراً ہی دوسرا سوال ہونے پر وہ گڑ بڑا گیا، ’’عینک! ہاں۔۔۔ شاید۔۔۔‘‘ پھر فوراً ہی اس نے اس جھمیلے سے چھٹکارا پانے کی راہ نکالی، ’’یار کچھ دھیان نہیں، بہر حال وہ تمہارے گھر پہنچے گا۔‘‘
’’اچھا!‘‘ پھر وہ رک کر بولا، ’’یار گھر بھی کل کوئی آیا تھا، اس وقت وہاں جاکر وہ مجھے ڈھونڈتا ہے۔‘‘
’’ویسے وہ صاحب ایڈورڈ ہوسٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔‘‘
’’ایڈورڈ ہوسٹل میں! کون سے کمرے میں ؟‘‘
اس سوال پر سمیع پھر کھیل گیا، ’’کمرے کا نمبر تو بتایا نہیں، بھئی قصہ یہ ہےکہ میں نے مصباح الدین سے آکر پوچھاکہ حسن کہاں ہے، اس نے کہا کہ تم کالج ہی نہیں آئے ہو، تب مجھے خیال آیاکہ انہیں بتا دیا جائے اور ان سے اتا پتا پوچھ لیا جائے، مگر وہ صاحب ایسے غائب ہوئے کہ کہیں نظر ہی نہیں آئے، بہر حال باتوں باتوں میں انہوں نے ایڈورڈ ہوسٹل کا ذکر کیا تھا کہ اس کی اپر اسٹوری پر وہ ٹھہرے ہوئے ہیں۔‘‘
’’اپر اسٹوری میں! پھر تو شاید پتہ چل جائے۔‘‘ اس نے اس ننھی سی تفصیل کو اس وقت بہت غنیمت سمجھا۔
’’میرا خیال ہے۔۔۔‘‘ سمیع نے کہا، ’’وہ پھر تمہارے گھر آئیں گے، اگر ملنا ہے تو آنا چاہئے۔‘‘
اس نے بھی تائید کی، ’’ہاں قاعدے سے تو انہیں پھر کسی وقت گھر کا پھیرا لگانا چاہئے، اچھا بھئی میں چلا۔‘‘ اور یہ رخصتی جملہ اس نے اس بے ساختگی سے کہا کہ سمیع اس پر کچھ بھی تو نہیں کہہ سکا۔ سمیع سے رخصت ہوکر اس نے یہی سوچا تھا کہ بہتر ہے گھر چلو، جسے ملنا ہے وہ گھر آجائے گا، مگر بس اسٹینڈسے گزرتے ہوئے اس نے دیکھا کہ ایڈورڈ ہوسٹل کی طرف جانے والی بس کھڑی ہے اور اس نے سوچا کہ بس مل گئی ہے تو کیوں نہ ایڈورڈ ہوسٹل کا ایک چکر لگالیا جائے۔ آخر دیر ہی کتنی لگے گی اور وہ جھٹ پٹ بس میں سوار ہوگیا۔
بس میں سوار ہونے کے بعد جب اس کی نظر کنڈ کٹر پر پڑی تو اسے ایک ذرا تعجب ہوا کہ جب وہ صبح بس میں چلا تھا تو اس وقت بھی یہی کنڈکٹر تھا اور اب پھر اسی کنڈکٹر سے مڈ بھیڑ ہوگئی تھی، اس نے بسوں کے سفر کے اپنے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سوچا کہ ایسا اتفاق تو خیر اکثر ہوجایا کرتا ہے کہ جس بس سے صبح کو چلے ہیں وہی بس واپسی میں ملتی ہے اور پھر اسی کنڈکٹر سے مڈبھیڑ ہوجاتی ہے، اس پر تو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ کبھی کنڈکٹر کی طرح ہم سفر سے بھی دوبارہ مڈبھیڑ ہوجاتی ہے۔
اس خیال کی تقریب سے اسے اپنا پچھلے مہینے والا سفر یاد آگیا کہ ایک شخص کو جس نے اسے لاری میں اپنے پاس کی نشست پر بیٹھے دیکھا تھا، شہر پہنچ کر دوسرے دن بازار میں ایک ہوٹل سے نکلتے دیکھا اور جب تیسرے دن وہ واپس ہورہا تھا تو اس نے دیکھا کہ وہی شخص اس کے پیچھےوالی نشست پر بیٹھا ہے۔ وہ سوچنے لگا کہ ہم سفر بھی طرح طرح کے ہوتے ہیں جو نہ پہلے کبھی دیکھے ہوئے ہوتے ہیں، نہ بعد میں کبھی دکھائی دیتے ہیں، سفر میں تھوڑے عرصے کے لئے ملتے ہیں، خوب شیر و شکر ہوجاتے ہیں اور پھر اوجھل ہوجاتے ہیں۔ اور ایسے ہم سفر بھی ہوتے ہیں جو سفر کے بعد بھی کئی موڑوں پر خلاف توقع دکھائی دیتے ہیں، اس کے باوجود اجنبی رہتے ہیں، اور اس نے دل میں کہا کہ ہم سفر بہر صورت ایک بھید ہے، ہم سفر کا ایک دفعہ نظر آکر پھر کبھی نظر نہ آنا بھی ایک بھید ہے اور ایک دفعہ نظر آکر دوبارہ نظر آنا بھی ایک بھید ہے۔ اس خیال کے ساتھ اس کے اندر ایک حیرت جاگنے لگی تھی اور طرح طرح کے دھیان آنے لگے تھے کہ اتنے میں ایڈورڈ ہوسٹل والا بس اسٹاپ آگیا اور دھیان اس کا بٹ گیا، جھٹ پٹ بس سے اترا اور سامنے والی پکی سرخ عمارت میں داخل ہوگیا۔
زینے کی اندھی روشنی میں چڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ یہ عمارت باہر سے تو نئی ہونے کا دھوکا دیتی ہے، اندر آئیے تو گمان ہوتا ہے کہ باواآدم کے زمانے میں بنی ہوگی، جانے کن خیالوں میں گم وہ چڑھتا چلا گیا اور یکایک زینے سے نکلتے ہوئے اس نے دیکھا کہ وہ ایک لمبی چوڑی اندھیری چھت پر نکل آیا ہے۔ پہلے تو اس کا دل دھک سے رہ گیا پھر اسے فوراً ہی خیال آیا کہ اسے تو اس سے پہلے موڑ پر برامدے میں اتر جانا چاہئے تھا، الٹے پاؤں تیزی سے اترا اور پہلا موڑ آنے پر ایک لمبے برامدے میں اتر گیا۔ برامدہ اس سرے سے اس سرے تک خالی اور خاموش تھا، یہاں آخری سرے پر اس نے دیکھا کہ ایک شخص موڑ مڑکر دوسرے برامدے میں داخل ہوا ہے، مگر وہ اس کی طرف اوجھل ہوتی ہوئی پشت دیکھ سکا۔
وہ کمروں پر احتیاط سے نظر ڈالتا ہوا چلنے لگا، ان کمروں نے اسے چکرا دیا، آخر کون سا کمرہ ہو سکتا ہے؟ کس سے پوچھا جائے؟ کس نام سے پوچھا جائے؟ کمروں کے دروازے بالعموم بند تھے، کسی کمرہ میں اندھیرا تھا اور باہر قفل پڑا تھا۔ کسی کمرے کے میلے شیشے اندر جلتی ہوئی بجلی سے پیلے پیلےہورہے تھے، ایک کمرے کا ایک پٹ اک ذرا کھلا ہوا تھا۔ اس نے بہت احتیاط سے اس کے اندر نظر ڈالی۔ مگر جتنے حصے تک اس کی نظر گئی اتنے حصے تک کوئی آدم زاد نظر نہیں آیا، ان اندھیرے اور منور کمروں کے سامنے سے گزرتا ہوا جب موڑ کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ایک کمرے کا دروازہ چوپٹ کھلا ہے، بجلی روشن ہے، ایک بستر سے آراستہ پلنگ اور سامنے اس کے ایک کرسی۔ کمرے میں کوئی نہیں ہے اسے کرید ہوئی کہ اس کمرے کا مکین کون ہے؟ کہاں گیا ہے؟ اور اتنی بے پروائی کیوں کہ کمروں کے کواڑ چوپٹ کھلےچھوڑ دیے ہیں، برامدے کے موڑ پر مڑتے ہوئے اسے اس شخص کا خیال آیا جو اس موڑ پر مڑ کر اوجھل ہوگیا تھا، کہاں گیا وہ؟
موڑ مڑ کر وہ دوسرے برامدے میں چلنے لگا کہ پچھلے برامدے کی طرح خالی اور خاموش تھا اور اندر سے بند روشن کمرے اور باہر سے مقفل تاریک کمرے قطار کی صورت دور تک چلے گئے تھے، وہ برامدے کے آخری سرے تک گیا، آخری سرے پر ایک اندھیرے زینے کو دیکھ کر اس کے قدم رک گئے، یہاں تو بہت اندھیرا ہے اور اس خیال کے ساتھ آگے پیچھے کئی سوال اس کے دماغ میں پیدا ہوئے، اس زینے میں روشنی کیوں نہیں ہے؟ کیا یہ زینہ استعمال میں نہیں آتا، استعمال میں نہیں آتا تو کھلا ہوا کیوں ہے؟ یہ زینہ کہاں اترتا ہے؟ وہ وہاں سے واپس ہو پڑا۔
واپسی میں جب وہ مڑ کر پہلے والے برامدے میں داخل ہوا توا س کی نظرپھر اس کھلے کمرے پر پڑی، جہاں ایک خالی کرسی اور بستر سے آراستہ پلنگ پڑا تھا، باہر سے جس حد تک اس کمرے کا جائزہ لیاجا سکتا تھا اس حد تک اس کا جائزہ لیتا ہوا وہ آگے نکل گیا۔ ایک اندر سے بند کمرے کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے گمان ہوا کہ اندر کچھ لوگ باتیں کر رہے ہیں، اس نے اپنی رفتار سست کر دی اور کمرے کے برابر سے چلنے لگا، اسے سنائی تو کچھ نہ دیا، ہاں یہ شک ضرور ہوا کہ بولنے والوں نے بولتے بولتے اچانک لہجہ دھیما کر لیا ہے اور اس شک کا اثر یہ ہوا کہ اس کے قدم پھر تیزی سے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ اسے یہ گمان بھی گزرا تھا کہ پیچھے ایک کمرے کا دروازہ کھلا ہے اور کسی نے جھانک کر دیکھا ہے، مگر اب وہ اس برامدے میں بھٹکنا بے سود سمجھ رہا تھا، وہ بڑھا چلا گیا بلکہ اس کی رفتار اور تیز ہو گئی۔ چلتے چلتے اسے کچھ وسوسہ ہوا اور آن کی آن میں ایک تصور سا بندھ گیا، جیسے کوئی اسے ڈھونڈ رہا ہے اور کمرے کمرے چھپتا پھر رہا ہے جسے تری تلاش ہے وہ خود تجھے ڈھونڈے گا، میری کس کو تلاش ہے؟ آخر کس کو۔۔۔؟
کیوں؟
وہ کون ہے؟
میں کون ہوں؟
اور وہ شخص عبادت خانے کے دروازے پر پہنچا اور دستک دی، تب حضرت بایزید نے اندر سے پوچھا تو کون ہے اور کس کو پوچھتا ہے؟ اور اس شخص نے جواب دیا کہ مجھے با یزید کی تلاش ہے اور حضرت با یزید نے پوچھا کون با یزید؟ وہ کہاں رہتا ہے اور کیا کام کرتا ہے؟ تب اس شخص نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا اور پکارا کہ میں با یزید کو ڈھونڈتا ہوں اور حضرت با یزید پکارے کہ میں بھی با یزید کو ڈھونڈتا ہوں مگر وہ مجھے نہیں۔۔۔
وہ زینے کی چوکھٹ سے ٹھوکر کھاتے کھاتے بچا، پھر وہ سنبھلا اور تیزی سے زینے سے نیچے اتر گیا، جب وہ سیڑھیاں اتر رہا تھا تو اسے یوں لگا کہ اوپر سب کمروں کے دروازےکھل گئے ہیں اور بہت سے لوگ برامدے میں نکل آئے ہیں اور زور زور سے باتیں کر رہے ہیں، بہت پیچھے اٹھتا ہوا یہ مدھم شور اس کے ذہن میں منڈلاتی ہوئی ان کہانیوں میں گڈمڈ ہوگیا، جن میں شہزادے فقیر کا بتایا ہوا پھل توڑ کر جب واپس ہوتے تھے تو ان کے پیچھے اک شور اٹھتا تھا، وہ مڑ کر دیکھتے تھے اور پتھر کے بن جاتے تھے۔ کہیں آدمی بھی پتھر بن سکتا ہے؟ اس نے اس بے سروپا خیال کو فوراً رد کر دیا۔
جب و ہ باہر نکل کر سڑک پر آیا تو حیران رہ گیا، ہائیں اتنی رات ہوگئی! حیرانی یہ سوچ کر ہو رہی تھی کہ ابھی دن تھا جب وہ گھر سے مصباح الدین کی طرف چلا تھا، مصباح الدین سے وہ کھڑے کھڑے ملا اور سمیع کے گھر کی طرف چل پڑا، سمیع کے پاس بھی وہ ایسا کہاں ٹھہرا تھا، ڈھائی بات کرکے فوراً ہوسٹل کی طرف آگیا تھا۔ ہوسٹل سے الٹے پیروں واپس ہوا اور باہر نکل آیا اور اب باہر نکل کر یہ معلوم ہو رہا ہے کہ جانے کتنے گھنٹے وہ اندر بھٹکتا رہا ہے، آخر اتنی دیر کہاں لگی اور کیسے لگی، میں راستے میں کہیں بھٹک تو نہیں گیا تھا۔ مگر کہاں؟ تو پھر اتنی رات کیسے ہو گئی؟ یا پھر یہ محض اپنا احساس ہے کہ اتنی رات بیت گئی۔
اس نے ایک مرتبہ پھر سڑک پر دور تک نظر ڈالی، ٹریفک کے کوئی آثار نہیں تھے۔ دور تک سڑک سنسان پڑی تھی اور روشنی کی یہ کیفیت تھی گویا ادھر سے ادھر تک قمقموں سے پروئی ہوئی ایک ڈوری تنی ہوئی ہے، سامنے بس اسٹاپ تھا مگر خالی خالی، سائبان میں اندھیرا تھا۔ اسے شک ہوا اندر کوئی ہے، مگر جب اس نے غور سے دیکھا تو یہ شک رفع ہوگیا اور اس نے قدم بڑھاتے ہوئے سوچا کہ بسوں کا وقت بیت گیا، اب گھر تک پیدل مارچ کرنا ہے۔ ایک خالی اندھیری بس برابر سے گزرتی چلی گئی، یہ بس تھی! اسے تعجب ہوا کہ بس تو اس شور سے چلتی ہے کہ فرلانگوں دور سے اس کی آمد کا اعلان ہونے لگتا ہے، مگر یہ بس اتنی چپ چاپ گزر گئی کہ جب تک برابر نہ آگئی اس کا پتا ہی نہ چلا۔ اس کے اندھیرے دریچے اس کی آنکھوں میں پھر رہے تھے۔ وہ سوچنے لگا کہ روشنی نہ ہو تو یہ دیکھی بھالی بس کتنی پراسرار معلوم ہونے لگتی ہے۔
روشنی نہ ہو تو یہی دیکھی بھالی چیزیں کتنی پراسرار بن جاتی ہیں، مگر اس نے دیکھا کہ چیزیں تو بجلی کی روشنی میں بھی پر اسرار نظر آرہی تھیں۔ اول تو وہ اسی پر حیران تھا کہ جب اس نے سڑک پر قدم رکھا تھا تو سڑک کے سارے قمقمے آپس میں پیوست نظر آرہے تھے، اور اب اس نے چلنا شروع کیا تھا تو کھمبے اتنی دور رور نظر آئے کہ ایک کھمبے سے دوسرے کھمبے تک پہنچنے کے لئےاچھے خاصے اندھیرے سے گزرنا پڑتا تھا اور کھمبے سے کھمبے تک کی مسافت میں اتنے نشیب و فراز آتے کہ آگے چلتی ہوئی پرچھائیں زیادہ سیاہ اور زیادہ قریب ہوتی جاتی، پھر وہ تیزی سے چل کر برابر آجاتی اور برابر چلنے لگتی، پھر کھمبے کی منزل پر پہنچ کر وہ چھلا وہ بن جاتی اور جب پھر کھمبے سے کھمبے کی منزل کا سفر شروع ہوتا تو غائب پرچھائیں ظاہر ہوجاتی، پھر دوکالی پرچھائیاں زاویہ حادہ بناتیں اور وہ دو پر چھائیوں کے درمیان گھرا ہوا کھمبے کھمبے گزرا چلا جاتا۔ یہ دوسری پرچھائیں کس کی ہے؟ اور اس اچانک حیرت کے ساتھ خوف کی ایک مبہم رواس کے جسم میں تیرتی چلی گئی، اس کے اندر ایک لہر اٹھی کہ مڑ کر دیکھے مگر وہ فوراً ہی ٹھٹک گیا۔
’’تو میاں میں اکیلا چل پڑا، بارہ بجے ہوں گے، آدھی رات اِدھر آدھی رات اُدھر، سڑک بھائیں بھائیں کرے اور میراجی اندر سے یوں یوں کرے۔‘‘ اس نے پانچوں انگلیوں کو جوڑ کر اشارہ کیا، ’’لوجی جب میں املی کے نیچے سے نکلا ہوں تو مجھے لگا کہ کوئی پیچھے آرہا ہے، مڑ کر جو دیکھوں تو کوئی آدمی۔‘‘
’’نہیں بے۔‘‘
’’قسم اللہ پاک کی، آدمی، میرا دل دھک سے رہ گیا کہ بے بندو آج تو مارا گیا، پھر جی وہ مجھ سے آگے نکل گیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرنے لگا، پھر وہ لمبا ہونے لگا، اور لمبا ہوا، اور لمبا ہوا۔ پھر جی املی کے پیڑ کے برابر ہوگیا۔ بھیا میں نے دل ہی دل میں قل پڑھنی شروع کر دی، بس جی تین دفعہ پڑھی تھی کہ سالا چھو ہوگیا، تو میاں یو ہے قل کی برکت۔‘‘
سامنے سے زور شور سے آتی ہوئی کارنے اسے ہڑ بڑا دیا، گھڑی بھر کے لئے ساری سڑک جگمگ ہوگئی اور کار ہارن کے شور کے ساتھ فراٹے سے برابر سے گزرتی چلی گئی، کار کی یہ فراٹے کی رفتار اس کے مزاج کو کسی قدر برہم کر گئی، یوں اندھا دھند کار چلانا کہاں کی شرافت ہے؟ کون تھا یہ شخص؟ وہ کوشش کے باوجود اس کی شکل و صورت کو تصور میں نہ لا سکا۔ وہ گزرا بھی تو سائے کی طرح تھا، پھر اسے یونہی خیال سا گزرا کہ کہیں وہ اسی لئے تو کار تیز نہیں چلا رہا تھا کہ کوئی اسے شناخت نہ کر سکے۔
ہوٹل کے سامنے سے گزرتے گزرتے اس نے ایک نظر ہوٹل پر ڈالی، ہوٹل ابھی تک کھلا تھامگر لوگ آتے جاتے نظر نہیں آتے تھے۔ سائیکل اسٹینڈ پر سائیکلوں کا جو ہجوم وہ پہلے دیکھ کر گیا تھا اب غائب تھا، لے دے کے ایک سائیکل کھڑی تھی، تو گویا ایک شخص ابھی موجود ہے اور اس خیال کے ساتھ کئی سوال بہتے چلے آئے۔ ایک کسٹمر کے لئے ہوٹل کھلا ہوا ہے، وہ کون شخص ہے جو اتنی رات گئے تک ہوٹل میں بیٹھا ہوا ہے۔ یہ ہوٹل رات بھر کھلا رہتا ہے؟ اس کے قدم ہوٹل کی طرف اٹھنے لگے، مگر سائیکل اسٹینڈ تک پہنچتے پہنچتے اس نے ارادہ بدل دیا۔ رات بہت ہوگئی ہے گھر چلنا چاہئے، اور وہ پلٹ پڑا۔
وہ پھر دو پرچھائیوں کے درمیان گھرا گھرا چلنے لگا، کیا ان پر چھائیوں کی قید سے رہائی ممکن نہیں ہے؟ اور اس نے سڑک سے ہٹ کر کھمبوں کے پرے چلنا شروع کر دیا، میں اندھیرے میں چلوں گا کہ اندھیرے میں آدمی سے سایہ جدا ہوجاتا ہے۔ مگر مخالفت سمت کے کھمبوں کی روشنی اب بھی اس حد تک پہنچ رہی تھی اور اس نے پرچھائیوں کی قید سے رہائی نہیں پائی تھی، کیا پرچھائیوں کی قید سے رہائی ممکن نہیں ہے؟ اور اس نے اس جسم کا تصور کیا جس کا سایہ نہیں تھا اور جس پر بادل مستقل سایہ کرتا تھا، جس پر مکھی نہیں بیٹھتی تھی، اس خیال نے اس پر کچھ اثر کیا کہ دفعتاً سب وسوسے اور واہمے دھل گئے اور اس کے اندر ایک لطیف سی کیفیت امنڈنے لگی۔ اپنے قدموں کی چاپ کسی دوسرے عالم سے آتی ہوئی معلوم ہورہی تھی، جیسے وہ کسی اور راستے پر مڑ گیا تھا اور عقیدت میں ڈوبی ہوئی ایک لرزتی کانپتی آواز عجب نغمگی کے ساتھ کانوں میں گونج رہی تھی۔ اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے۔۔۔
سفید بگلا ایسا ململ کا کرتا، اجلا اجلا چہرہ، ترکی ٹوپی، دادا جان کی تصویر اس کی آنکھوں میں پھر گئی، جب صبح کی نماز کے بعد وہ مناجات پڑھنی شروع کرتے تھے تو آنکھیں ان کی ڈبڈبانے اور ہونٹ کانپنے لگتے تھے اور رفتہ رفتہ وہ سفید داڑھی آنسوؤں میں تر ہو جاتی، اس تصور کے ساتھ اس کی طبیعت میں گداز پیدا ہوگیا۔ وہ رقت بھری آواز ایک وجد کی کیفیت بن کر اس کے دل و دماغ پرچھا گئی، اس کا بے ساختہ جی چاہا کہ وہ اسی انگھڑ شیریں ترنم کے ساتھ مناجات شروع کردے۔
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے
مگر پھر وہ جھجک گیا کہ رات گئے بہ آواز بلند مناجات پڑھنا کچھ مناسب نہیں، پھر اس نے یاد کرنا چاہا کہ اس زمانے میں کیا واقعہ گزرا تھا کہ دادا جان نے مناجات رقت کے ساتھ پڑھنا شروع کردی تھی، مگر اسے کچھ یاد نہیں آیا، پھر اسے تھوڑا تھوڑا یاد آیا کہ دوسرا مصرعہ وہ کسی اور طرح پڑھتے تھے۔ کس طرح پڑھتے تھے، یہ اسے یاد نہیں آیا، حافظے پر زور دینے کے اس عمل کے ساتھ اس کی وہ وجد کی کیفیت رفتہ رفتہ بالکل رخصت ہوگئی، بس اب تو ایک دکھ بھرا احساس اس کے چٹکیاں لے رہا تھا۔ وہ جسم جو پر چھائیں سے ماورا تھا اور اور اپنا بدن جو محض پرچھائیں ہے اور جس پر مکھیوں کا بسیرا ہے اور جس پر کوئی بادل سایہ نہیں کرتا، ہم کس جسم کی پرچھائیں ہیں۔
قافلہ جو گزر گیا اور پرچھائیاں جو بھٹک رہی ہیں، ہم کس گزرے قافلے کی بھٹکتی پرچھائیاں ہیں، میں بھٹکتی پرچھائیوں کے قافلے میں سے ایک بھٹکتی پرچھائیں، میں کس وہم کی موج ہوں؟ میں ہوں؟ ہر چند کہ ہوں، نہیں ہوں۔۔۔ اس مرددانشمند نے کہا کہ اے میرے عزیز سن تیرے پیچھے غار ہے۔ غار میں آگ بھڑک رہی ہے، بھڑکتی آگ کے غار کے آگے ایک دیوار ہے، ایک دیوار بھڑکتی غار کے آگے ہے، ایک دیوار اس سے بلند تیرے آگے ہے، تو جو دیوار بھڑکتی آگ کے غار کے آگے ہے اس پر زنجیروں سے جکڑے ہوئے غلاموں کی پرچھائیاں چل رہی ہیں، اور اے عزیز تو مڑ کر نہیں دیکھ سکتا۔ پس نہ تو بھڑکتی آگ کو دیکھ سکتا ہے نہ مقید غلاموں کو دیکھ سکتا ہے۔ تو ساری عمر اس آگ کا عکس اور اس عکس میں رینگتی ہوئی پرچھائیاں دیکھےگا۔
سامنے سے آتی ہوئی بس کو دیکھ کر وہ کھمبوں کے سائے سائے چلنے لگا۔ بس جو ایک آنکھ سے اندھی تھی، جب اپنے ایک زرد دھندلے بلب کے ساتھ گزری تو اس نے دیکھا کہ اندر تو بالکل ہی اندھیرا تھا، اس کے گزر جانے پر اسے گمان گزرا کہ سب سے پیچھے کی سیٹ پر کھڑکی کے قریب کوئی بیٹھا تھا، سوچا کہ کنڈکٹر ہوگا۔ مگر کنڈیکٹر چھپ کر پچھلی نشست پر کیوں بیٹھا تھا۔ چند لمحے وہ اسی ادھیڑ بن میں چلتا رہا کہ بس کی پچھلی نشست پر کون بیٹھا تھا اور کیوں بیٹھا تھا، پھر اس نے جلد ہی دل میں یہ طے کیا کہ بس بالکل خالی تھی۔ یہ محض اس کا وہم ہے کہ پچھلی نشست پہ کوئی بیٹھا تھا، بھلا پچھلی نشست پہ کنڈکٹر کیوں بیٹھتا اور بس خالی ہو تو پھر کوئی پچھلی نشست پہ کیوں بیٹھنے لگا؟ اس کے جی میں آئی کہ مڑ کر دیکھے کہ بس کتنی دور نکل گئی یا کہیں تھوڑی دور چل کر کھڑی ہوگئی ہے، مگر وہ مڑتے مڑتے ٹھٹک گیا، وہ پھر لمبے لمبے ڈگ بھرنے لگا۔
جب وہ اپنی کوٹھی میں داخل ہو رہا تھا تو اس کی پرچھائیں ایک ساتھ لمبی ہو کر اس سے پہلے اندر داخل ہوگئی، ایک کتا اندر سے جانے کس طرف سے دم دبا کر تیزی سے گیٹ کی طرف بڑھا، کتے کی پرچھائیں اس کی پرچھائیں کو تیزی سے کاٹتی ہوئی گیٹ سے باہر نکل گئی۔ برامدے میں قدم رکھتے ہوئے اس نے سوچا کہ اماں جی جاگ تو نہیں رہی ہیں، اگر جاگ رہی ہیں تو پھر سوالوں کا تانتا بندھے گا، کہ کہاں تھے اب تک؟ کیا کر رہے تھے؟ کھانا کھا لیا؟ اور وہ اس احتیاط سے کہ قدموں کی آہٹ نہ ہو، آہستہ سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا، ہولے سے چٹخنی کھولی اور چپکے سے اندر سٹک گیا۔
کمرے میں چیزیں وہ جس طرح بکھری چھوڑ کر گیا تھا اسی طرح بکھری پڑی تھیں، سوائے ایک ناول کے کہ وہ الماری میں رکھ کر گیا تھا، مگر اب وہ میز پر کھلا ہوا الٹا پڑا تھا، اسے کرید ہوئی کہ اس کے پیچھے کتابوں کو کس نے ٹٹولا تھا۔ وہ میز پر الٹے پڑے ناول کو دیکھنے لگا، پھر اسے شمیم کا خیال آیا جو دن میں ایک دفعہ ضرور کتابوں کو ٹٹولتی ہے اور کوئی نہ کوئی ناول برامد کر لیتی ہےتو گویا آج پھر کتابوں کو الٹ پلٹ کیا گیا ہے، پھر اس نے آتش دان پہ رکھے آئینے کو دیکھا، وہ ایسے زاویے سے کھڑا تھا کہ اسے اپنی صورت تو اس میں نظر نہیں آئی البتہ کئی مکھیاں اس کی روشن سطح پر بیٹھی دکھائی دیں، اس نے اس خیال سے کہ نئے آئینے کو مکھیاں غلاظت کر کرکے میلا کردیں گی، بڑھ کر آہستہ سے آئینہ پوش ڈال دیا۔
وہ کپڑے بدل کر بتّی بجھا کر لیٹ تو گیا مگر کوشش کے باوجود اسے نیند نہ آئی، وہ بہت دیر تک کروٹیں بدلتا رہا، اندھیرے میں آنکھیں کھولیں، بند کیں، یہاں تک کہ اس کی پلکیں دکھنے لگیں اور آنکھیں جلنے لگیں، پھر اس نے دکھتی آنکھیں کھولیں تواسے اندھیرے میں اور تو کچھ دکھائی نہ دیا، ہاں دروازے کے شیشے سفیدی کے دو بڑے بڑے مدھم دھبوں کی صورت دکھائی دے رہے تھے۔ سفیدی کے ان مدھم دھبوں کو اس نے بار بار غور سے دیکھا کہ ان کے اس طرف کیا ہوسکتا ہے، پھر اسے آپ ہی آپ پسینہ آنے لگا اور اس کا دم گھٹنے لگا۔ آخر اس نے اٹھ کر بتی جلا دی۔ کمرے کی فضا میں اس تبدیلی سے تھوڑی دیر کے لئے اسے کچھ سکون رہا، مگر پھر خفقان ہونے لگا، اور بجلی کی تیز روشنی میں دم گھٹنے لگا۔
بغیر کسی ارادے کے وہ بستر سے اٹھ کھڑا ہوا، کپڑے بدلے، بال درست کئے، کنگھا کرتا ہوا آئینے کی طرف چلا، پھر فوراً ہی اس تکلف کو ملتوی کر بجلی گل کی اور کمرہ بند کرکے باہر ہو لیا۔ وہ باہر سڑک پر اس طرح آیا جیسے قید خانے کی دیوار پھاند کر نکلا ہے۔ سڑک خالی اور خاموش تھی اور روشنی کی نالیاں آڑی آڑی بہتی ہوئی دور تک دکھائی دے رہی تھیں۔ اگلے کھمبے سے پرے درخت کے نیچے جہاں کچھ کچھ اندھیرا تھا اس نے دیکھا کہ ایک کانسٹبل لمبی سی لاٹھی تھامے چپ چاپ کھڑا ہے، اس نے اپنے قدموں کو ڈھیلا نہیں پڑنے دیا اور خوداعتمادی سے بڑھتا چلا گیا، کانسٹبل اپنی لمبی لاٹھی تھامے اسی طرح بے حس و حرکت جیسے لکڑی کا بنا ہو، کھڑا رہا اور وہ خود اعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی طرف نظر اٹھائے بغیر بڑھتا چلا گیا۔
جب اس منزل سے وہ بہ اطمینان گزر گیا تو اس نے دیکھا کہ پھر اس کے آگے پیچھے دو پرچھائیاں چل رہی ہیں، وہ سڑک سے ہٹ کر کچے میں چلنے لگا، میں اندھیرے میں چلوں گا کہ اندھیرے میں آدمی سے سایہ جدا ہوجاتا ہے اور آدمی کو آدمی نہیں پہچانتا۔ جب وہ روشنی سے اندھیرے میں آیا تو اس نے اطمینان کا سانس لیا کہ سایہ تو میرا ہمسایہ ہے، پر جب وہ پل کے قریب پہنچا تو ایک درخت کے نیچے اندھیرے میں کھڑی ہوئی بے جتی گاڑی کے نیچے سے ایک کتا نکلا اور بھونکتا ہوا اس کی طرف بڑھا، تب اس نے دل میں کہا کہ میرا ہمسایہ میرا دشمن ہے اور وہ اندھیرے کے دائرے سے نکل کر روشنی کے چکر میں آگیا۔ کتا روشنی میں بھی اس کے پیچھے پیچھے بھونکتا چلتا رہا، یہ دیکھ کر اس نے روشنی سے لبریز سڑک پر لمبے لمبے ڈگ بھرنے شروع کر دیے، پھر تو وہ کتا اور زور زور سے بھونکنے لگا، تب اس نے جھلا کر اینٹ اٹھائی اور دفعتاً مڑ کر کھینچ کر کتے کو ماری۔ کتا پلٹ کر بھاگا اور اس نے کئی قدم کتے کا تعاقب کیا اور اجالے اور اندھیرے کی اس سرحد تک گیا جہاں سے کتا عبور کر کے اندھیرے میں گم ہوا تھا۔
وہ مڑ کر پھر اپنے رستے پر پڑ لیا اورلمبے لمبے ڈگ بھرنے لگا، اس وقت اس کے تصور میں آگ سے بھڑکتے شعلے اگلتے غار کی تصویر پھرا بھری اور اسے ایسا لگا کہ پا بہ زنجیر غلام کتے کا تعاقب کرتا پیچھے رہ گیا ہے، اور وہ، اس کی پرچھائیں آگے نکل آیا ہے۔
مأخذ : گنی چنی کہانیاں
مصنف:انتظار حسین