کہانی کی کہانی:‘‘ہوٹل میں ایک ہی ٹیبل پر بیٹھے ہوئے افراد کسی خفیہ معاملے کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ایڈمنسٹریشن، ملکی سیاست پر تنقید کرتے ہوئے آپس میں ایک دوسرے پر ہی شک کرنے لگتے ہیں۔ان میں ایک شخص کو لگتا ہے کہ دوسرے شخص کی آنکھیں شیشے کی ہیں اسی طرح دھیرے دھیرے سب ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس کی آنکھیں شیشے کی ہو گئی ہیں۔’’
’’شکر ہے کہ میں ان میں سے نہیں ہوں۔‘‘ باتیں سنتے سنتے اس نے سوچا اور اطمینان کا سانس لیا، ایک تو حسنین تھا، ایک عارف تھا، اور ایک وہ خود، پھر شفیق آگیا۔
’’آبھئی شفیق!‘‘ عارف کہنے لگا، ’’یار تو نظر نہیں آیا؟‘‘
’’میں وہاں پہنچا تھا مگر پھر میں پلٹ آیا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’بس پلٹ آیا، سب بکے ہوئے ہیں سالے۔‘‘ شفیق کو بولتے بولتے غصہ آگیا، وہ چپ ہوا، پھر بیرے کو آوازدی، ’’بیرا!‘‘
شریف نے دور سے شفیق کو دیکھا، آیا، بولا، ’’ہاں جی شفیق صاحب جی! کھانا؟‘‘
’’پہلے پانی پلا یار!‘‘ شفیق نے بیزاری کے لہجے میں کہا، پھر عارف سے مخاطب ہوا، ’’کون کون تھا؟‘‘
’’سب ہی تھے۔‘‘ عارف کہنے لگا، ’’طفیل تھا، اشتیاق تھا۔۔۔‘‘
’’اشتیاق!‘‘ شفیق بات کاٹتے ہوئے بولا، ’’اسے میں نے دیکھا تھا، فراڈ!‘‘ اس کی آواز اور غصیلی ہوگئی۔
حسنین اشتیاق کی حمایت میں کہنے لگا، ’’وہ سب سے آگے آگے تھا۔‘‘
شفیق نے حسنین کو لال پیلی نظروں سے دیکھا اور گرما کر بولا، ’’ایسے لوگ سب سے آگے آگے ہی ہوا کرتے ہیں۔‘‘
’’کیسے لوگ؟‘‘ حسنین نے جل کر سوال کیا۔
’’تم اشتیاق کو نہیں جانتے؟‘‘ شفیق نے سوال کے جواب میں سوال کیا۔
’’پتہ نہیں تمہارا کس طرف اشارہ ہے!‘‘ حسنین بولا۔
’’میرا جس طرف اشارہ ہے وہ تم ابھی نہیں سمجھے ہو تو جلدی سمجھ جاؤگے۔ خیر! یہ بتاؤ کہ کوئی گڑ بڑ تو نہیں ہوئی؟‘‘
’’نہیں!‘‘ عارف نے اطمینان کے لہجہ میں کہا۔
’’ہوجاتی۔۔۔‘‘ حسنین کہنے لگا، ’’مگر اشتیاق نے سچویشن کو سنبھال لیا۔‘‘
’’ہاں اگر۔۔۔‘‘ عارف بولا، ’’اشتیاق یو ایس آئی ایس کی طرف جانے سے نہ روکتا تو گڑ بڑ ہوگئی تھی۔‘‘
شریف گزرتے گزرتے پانی کا گلاس میز پر رکھ گیا تھا اور شفیق اطمینان سے پانی پی رہا تھا، مگر عارف کی بات سن کر وہ چونکا۔
’’تو تم لوگ یو ایس آئی ایس نہیں گئے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
شفیق تلخ سی ہنسی ہنسا اور کہنے لگا، ’’جب میں نے اشتیاق کو آگے آگے چلتے چلتے دیکھا تبھی میرا ماتھا ٹھنکا تھا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ حسنین کچھ چکرا سا گیا۔
’’تمھارے ساتھ وہ ہاتھ کر گیا اور تم مجھ سے مطلب پوچھ رہے ہو!‘‘
عارف سوچ میں پڑ گیا، پھر بولا کہ، ’’یار حسنین! شفیق ٹھیک کہہ رہا ہے، اس وقت مجھے بھی تھوڑی حیرانی ہوئی تھی کہ آخر اشتیاق کیوں اتنا معتبر بن رہا ہے!‘‘ حسنین چپ ہوگیا، ’’ہاں یہ آدمی ہے تو گھپلا ہی، صابر تمھارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’میرا۔۔۔!‘‘ وہ چونک پڑا، ’’میرا خیال کیا ہوتا!‘‘
’’اشتیاق کو تم تو بہت جانتے ہو، تمھارا کیا خیال ہے اس کے بارے میں۔‘‘
وہ سوچ میں پڑ گیا، پھر بولا، ’’یار کچھ پتہ نہیں۔‘‘ شفیق ہنسا، ’’صابر کچھ نہیں کہے گا!‘‘ شریف گھومتا پھرتا پھر اس میز پر آگیا، ’’ہاں جی شفیق صاحب جی! چکن کری، چکن روسٹ، برین کری، برین مسالہ، آلو قیمہ، پسندا، پایہ۔‘‘
’’یار پائے لے آ، مگر جلدی! ‘‘ شریف چلنے لگا، مگر اس نے پھر روکا، ’’شریف سنو، چائے بھی!‘‘
’’میں نہیں پیوں گا۔۔۔‘‘ حسنین نے اعلان کیا۔
’’کیوں۔۔۔؟‘‘
’’یار، صبح سے دفتر نہیں گیا ہوں، اب چلنا چاہئے۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے حسنین اٹھ کھڑا ہوا اور باہر نکل گیا۔
’’یار تم نے حسنین کو اکھاڑ دیا۔۔۔‘‘ شفیق نے فاتحانہ انداز میں کہا۔
’’مگر کیوں۔۔۔؟‘‘
’’بس یہ بھی اشتیاق کا بھائی ہے۔‘‘
اب شریف نے پائے کی ڈش لاکر چن دی تھی اور شفیق کھانا کھا رہا تھا۔ کھانا کھاتے کھاتے کہنے لگا، ’’ایک روز یہ بہت تیزی میں بینک آیا اسے چیک بنانا تھا، اتفاق سے اس روز میں کاؤنٹر پر تھا، چیک دیتے دیتے اس نے مجھے دیکھا تو رنگ فق پڑ گیا۔‘‘
’’آخر کیوں۔۔۔؟‘‘
’’یہ مت پوچھو، رقم کچھ لمبی ہی تھی، اور معلوم ہے چیک کہاں سے آیا تھا!‘‘
’’کہاں سے؟‘‘
’’بس یہ مت پوچھو، ویسے اشتیاق بھی ساتھ تھا، مگر وہ مجھے دیکھ کر دور ہی سے پلٹ گیا، اور باہر کار میں جا بیٹھا۔۔۔‘‘ اور شفیق نے پھر بڑے بڑے نوالے لینے شروع کر دیے۔ دروازہ کھلا اور طفیل داخل ہوا، آکر پوچھنے لگا کہ، ’’یار یہاں حسنین تھا، کہاں گیا؟‘‘ عارف ہنسا اور بولا، ’’تھا تو سہی، مگر شفیق نے اسے اکھاڑ دیا۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
شفیق پائے کی ہڈی چوستےچوستے بولا، ’’یار وہ اشتیاق کو Defend کر رہا تھا، جیسے ہم اشتیاق کو جانتے ہی نہیں۔‘‘ طفیل ہنسا اور کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا، ’’اچھا؟‘‘ عارف کہنے لگا، ’’مجھے بھی حسنین کے بارے میں کبھی کبھی شک ہوتا ہے۔‘‘
’’شک۔۔۔؟‘‘ شفیق نے نوالہ شور بے میں ڈبوتے ڈبوتے ہاتھ روکا، ’’تمہیں ابھی تک شک ہے، میں تو یقین سے کہہ سکتا ہوں‘‘، پھر وہ بڑبڑایا، ’’حرام زادے۔۔۔ سب بکے ہوئے ہیں۔۔۔‘‘ پھر اس نے نوالہ شوربے میں ڈبویا اور منہ میں رکھ لیا۔
’’مگر کل تو وہ بہت نعرے لگا رہا تھا۔‘‘ طفیل بولا۔
’’ایسے لوگ نعرے بہت لگاتے ہیں۔‘‘
’’عارف صاحب آپ کا فون ہے۔۔۔‘‘ کاؤنٹر سے آواز آئی۔ عارف لپک کر کاؤنٹر پر گیا، فون پر کچھ دیر باتیں کر تا رہا، پھر وہاں سے واپس آیا، کہنے لگا، ’’یار میں جا رہا ہوں۔‘‘
’’چائے جو آ رہی ہے!‘‘ شفیق بولا۔
’’میرے بدلے کی طفیل پئے گا، میرا فون آگیا ہے، میں جا رہا ہوں۔‘‘ عارف چلا گیا، شفیق خاموشی سے کھانا کھاتا رہا، پھر کھاتے کھاتے بولا، ’’یار عارف کے فون کچھ زیادہ ہی آتے ہیں اور کبھی پتہ نہ چلا کہ کہاں سے آتے ہیں، فون پر یا تو بہت لمبی گفتگو کرتا ہے یا پھر ڈیڑھ دو سیکنڈ بات کی اور فوراً چلا گیا۔‘‘
’’ہاں آدمی خاصا پر اسرار ہے!‘‘ طفیل نے ٹکڑا لگایا۔
خالی پلیٹ میں پائے کی ہڈیوں کی ایک ڈھیری بن گئی تھی اور شفیق اچھی خاصی باتیں کر چکا تھا، پھر چائے آگئی، وہ چائے بنانے لگا، طفیل اٹھ کر باتھ روم کی طرف چلا گیا، شفیق نے چائے بناتے بناتے سادگی سے پوچھا، ’’یار صابر! طفیل تیرا تو دوست ہے آج کل کیا کر رہا ہے؟‘‘
’’فری لانسنگ!‘‘
’’فری لانسنگ! کون کہتا ہے؟‘‘
’’خود طفیل کہہ رہا تھا کہ آج کل فری لانسنگ کر رہا ہوں۔‘‘
’’بکواس کرتا ہے۔‘‘
شفیق چپ ہوگیا، چائے بنانے لگا، پھر پوچھنے لگا، ’’اگر فری لانسنگ کرتا ہے تو کسی اخبار میں اس کا کوئی فیچر کوئی کالم، آنا چاہئے، بتاؤ کس اخبارمیں آتا ہے؟‘‘ اس سوال پر اس نے کچھ سوچا، پھر گھبرا کر کہا، ’’یار پتہ نہیں!‘‘ شفیق جب اس سے براہِ راست سوال جواب کرنے لگتا تو وہ بالعموم گھبرا جاتا، کسی کی بات ہوتی مگر اسے یوں لگتا کہ وہ مجرم ہے اور شفیق کے روبرو کٹہرے میں کھڑا ہے، مگر پھر شفیق نے خود ہی پہلو بدلا، ’’اور اگر فری لانسر بھی ہو تو کیا فرق پڑتا ہے، جو اخبار میں باقاعدہ کام کرتے ہیں انہیں بھی میں جانتا ہوں، سب سالے بکے ہوئے ہیں۔‘‘
طفیل باتھ روم سے واپس آگیا، چائے اب بن گئی تھی، شفیق نے ایک پیالی طفیل کی طرف، دوسری پیالی اس کی طرف، تیسری خود اپنی طرف سرکائی، طفیل پیالی کو مزید اپنی طرف سرکاتے ہوئے پوچھنے لگا، ’’ہاں کیا کہہ رہے تھے؟‘‘
’’میں اپنے ملک کی صحافت کی بات کر رہا تھا۔‘‘
’’کچھ مت پوچھو کہ صحافی کیا کر رہے ہیں!‘‘ طفیل نے ٹھنڈا سانس بھر ا اور چائے پینے لگا، پھر کہنے لگا، ’’میں تو سوچ رہا ہوں کہ پیشہ چھوڑ ہی دوں۔ بہت ذلیل پیشہ ہوگیا ہے۔‘‘
’’پھر کیا کروگے؟‘‘
’’وکالت!‘‘ چپ ہوا، پھر اس سے مخاطب ہوا، ’’صابر! اشتیاق کی وکالت کیسی جا رہی ہے؟‘‘
’’بری تو شاید نہیں جا رہی!‘‘ اس نے سادگی سے کہا۔
’’بہت اچھی جا رہی ہے۔‘‘ شفیق اپنے طنزیہ لہجہ میں بولا۔
’’ہاں بھئی انہی لوگوں کا زمانہ ہے!‘‘ طفیل نے پھر ٹھنڈا سانس بھرا، ’’پتہ ہے کس کے مقدمے لیتا ہے؟‘‘ شفیق نے زہر ناک لہجہ میں کہا۔
’’پتہ ہے!‘‘ طفیل ایسے ہنسا جیسے وہ درون پردہ سارے رازوں سے واقف ہے، شفیق طفیل کے اس ردِ عمل پر خاصا مطمئن تھا، خاموشی سے چائے پینے لگا مگر پھر چائے پیتے پیتے پوچھنے لگا، ’’تو عارف تھا کل؟‘‘
’’ہاں!‘‘ طفیل بولا۔
’’اس نے بھی خوب نعرے لگائے؟‘‘
’’نعرے وارے اس نے نہیں لگائے، بس ساتھ تھا۔‘‘
شفیق کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ کھیل گئی، ’’گھنا آدمی ہے!‘‘ پھر شفیق نے جلدی جلدی چائے پی، بیرے کو آواز دے کے بل ادا کیا۔
’’بس؟‘‘ طفیل اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
’’ہاں یار! دفتر میں کرنے کے لیے بہت کام پڑا ہے۔‘‘
’’رات میں دفتر۔۔۔؟‘‘
’’ہاں آج مہینے کی آخری تاریخ ہے، حساب کلوز ہو رہا ہے۔‘‘ اور وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔ شفیق کے جانے کے بعد میز پر عجب خاموشی چھا گئی۔۔۔ اب طفیل تھا اور وہ تھا، دونوں تھوڑی دیر بیٹھے رہے، باتیں کرتے رہے، پھر بور ہوگئے۔
’’یار چلیں اب!‘‘ طفیل بولا۔۔۔ اور دونوں اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس لمبی سڑک پر وہ اور طفیل دیر تک خاموش چلتے رہے، جیسے چائے کی میز کی گفتگو سے تھک گئے ہوں اور اب چپ رہنا چاہتے ہوں، وہ چائے کی میز کی گفتگو سے بے شک تھک گیا تھا مگر اس گفتگو نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ شفیق کے شک بھرے اعلانات اسے ایک ایک کر کے یاد آرہے تھے۔۔۔
’’یار طفیل!‘‘ وہ چلتے چلتے بولا، ’’شفیق اشتیاق کے بارے میں بہت شک کا اظہار کر رہا تھا، ظاہر میں تو وہ ایسا نظر نہیں آتا، تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’ظاہر میں تو یار سبھی اچھے نظر آتے ہیں۔۔۔‘‘ طفیل رکا، پھربولا، ’’ظاہر کی سنو! تم نے کافی ہاؤس میں ایک آدمی کو دیکھا ہوگا جو وہاں صبح، دوپہر، شام، ہر وقت بیٹھا رہتا تھا، اور سب کے ہاتھ دیکھا کرتا تھا۔‘‘
’’ہاں دیکھا ہے، بلکہ اسے ہاتھ بھی دکھایا ہے۔‘‘
طفیل ہنسا، ’’اچھا تو تم بھی اسے ہاتھ دکھا چکے ہو؟‘‘
’’ہاں یار! مجھے تو اس نے ماضی کی سب باتیں ٹھیک بتائیں۔‘‘
طفیل طنزیہ بولا، ’’ماضی کی باتیں تو وہ سب ہی کو ٹھیک بتاتا تھا، سب ہی کا ماضی اس کی انگلیوں پر تھا۔‘‘
’’میرے ہاتھ کا وہ بہت معترف تھا۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
’’ہاں، کہتا تھا کہ ایسا ہاتھ میں نے نہیں دیکھا، اس نے میرے ہاتھ کا عکس بھی لیا تھا۔‘‘
’’کیا۔۔۔؟‘‘ طفیل چلتے چلتے ایک دم سے رک گیا، ’’تم نے اسے ہاتھ کا عکس دے دیا؟‘‘
’’ہاں! پھر؟‘‘ وہ سٹپٹا کر طفیل کو دیکھنے لگا۔
طفیل غصہ سے بولا، ’’تو تم اسے سچ مچ پامسٹ سمجھتے تھے؟‘‘
وہ کچھ بوکھلا سا گیا، ’’پھر کون تھا وہ؟‘‘
’’صابر! تم نرے گاؤوی ہو!‘‘ طفیل نے بگڑے سے لہجہ میں کہا، اور پھر چلنے لگا۔ طفیل نے اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا تھا، مگر سوال اس کا تعاقب کرتا ہوا چل رہا تھا۔۔۔ پھر کون تھا وہ؟ پامسٹ نہیں تھا! میں تو اسے یہی سمجھتا تھا، سب ہی اسے ایسا سمجھتے تھے اور اپنا اپنا ہاتھ دکھاتے تھے۔ طفیل بکواس کرتا ہے۔ ہاتھ دیکھنا تو وہ جانتا تھا، مجھے ایک ایک بات اس نے صحیح بتائی تھی، میرے ہاتھ کا بہت معترف تھا۔ جبھی تو اس نے اس اہتمام سے میرے ہاتھ کا عکس لیا تھا مگر۔۔۔ وہ ٹھٹک گیا۔
’’یار طفیل! وہ آدمی آج کل نظر نہیں آ رہا، کہاں ہے؟‘‘
طفیل ہنسا، ’’تم نے اسے ہاتھ کا عکس دیا ہے، تمہیں پتہ ہوگا!‘‘
’’ہاتھ کا عکس لینے کے بعد ایک دو دفعہ تو نظر آیا تھا، کہہ رہا تھا کہ میں نے مطالعہ کر لیا ہے، تمہیں بتاؤں گا، پھر وہ غائب ہی سا ہوگیا۔۔۔‘‘ اور کہتے کہتے وہ سوچ میں پڑ گیا کہ آخر وہ شخص گیا کہاں، پھر اسے اپنے ہاتھ کے عکس کا دھیان آیا اور اس کا دل اندر ہی اندر بیٹھنے لگا۔
’’ویسے آج کل ایک نئے صاحب تمہاری میز پر مستقل نظر آتے ہیں۔۔۔‘‘ طفیل کہنے لگا، ’’میں تو انہیں جانتا نہیں، کون صاحب ہیں یہ۔۔۔؟‘‘
’’اچھا وہ جس نے فرنچ کٹ رکھ چھوڑی ہے! بہت معقول گفتگو کرتا ہے۔‘‘
’’کرتا ہوگا، مگر ہے کون؟ حدود اربعہ کیا ہے ان صاحب کا؟‘‘
’’یار، یہ تو میں بھی نہیں جانتا!‘‘
’’گفتگو تو اس سے بہت لمبی ہوتی ہے۔‘‘
طفیل کی اس بات پر اس کا لہجہ کسی قدر معذرتی ہوگیا، ’’یار وہ تو ویت نام کا ذکر آگیا تھا، اس لیے بات ذرا لمبی ہوگئی، ویسے میں ان صاحب کو مطلق نہیں جانتا، اصل میں یہ صاحب عارف کے حوالے سے ہماری میز پر آئے ہیں۔‘‘
’’پھر ٹھیک ہے۔۔۔‘‘ طفیل طنزیہ ہنسی ہنسا۔
’’یار طفیل تم تو دوسرے شفیق بن گئے ہو، ہر ایک پہ شک کرتے ہو!‘‘
’’شفیق کا شک ہمیشہ بے بنیاد نہیں ہوتا!‘‘ طفیل رکا، پھر بولا، ’’تمہیں یاد ہے کہ عارف کے ساتھ ایک زمانے میں ایک گوری چمڑی والا آیا کرتا تھا اور عارف کہتا تھا کہ میرا دوست ہے، کینیڈا سے آیا ہے، اور اینٹی امریکن ہے۔ جنگ چھڑی تو وہ بندہ ایک دم سے غائب ہوگیا، وہ اصل میں ۵ ستمبر کو یہاں سے چلا گیا تھا، اور وہ کنیڈا کا نہیں تھا۔‘‘
’’پھر کون تھا وہ؟‘‘
طفیل نے اسے گھورتے ہوئے کہا، ’’شفیق سے پوچھو، وہ بتائے گا تمہیں!‘‘ شفیق کے حوالے پر اب اس سے رہا نہ گیا، بولا، ’’شفیق تو تمہارے بارے میں بھی بہت کچھ کہتا ہے!‘‘
’’میرے بارے میں!‘‘ طفیل ٹھٹک گیا، ’’میرے بارے کیا کہتا ہے؟‘‘
’’بس تمہاری آمدنی کے ذرائع کے بارے میں شک کرتا ہے۔‘‘
طفیل کسی قدر تامل سے ہنسا، پھر لاپروائی ظاہر کرتے ہوئے بولا، ’’آدمی کے اپنے ذرائع آمدنی مشکوک ہوں تو اسے دوسرے کے ذرائع آمدنی خواہ مخواہ مشکوک نظر آتے ہیں۔‘‘ طفیل کے ردِعمل پر اس کی گئی ہوئی ہمدردی طفیل کے ساتھ بحال ہوگئی اور شفیق کے بارے اس کا اپنا ردِعمل عود کر آیا، ’’یار شفیق عجب ہے، سب ہی کے بارے میں شک کرتا ہے۔‘‘
’’تاکہ خود اس کے بارے میں کوئی شک نہ کرے۔۔۔‘‘ طفیل نے مختصراً کہا، اور خاموش ہو گیا۔ دونوں خاموش چلتے رہے، پھر طفیل نے جھر جھری لی، ’’یار صابر! تم وہاں کیا کرنے لگے تھے؟‘‘
’’میں! کہاں؟‘‘ وہ چکرا سا گیا۔
’’شفیق تمہیں پرسوں کہاں ملا تھا؟‘‘
’’اچھا!‘‘ وہ ہنسا، ’’میں لائبریری گیا تھا، ان امریکیوں کی لائبریری سے استفادے میں بھی مضائقہ ہے؟ کیا کہہ رہا تھا شفیق۔۔۔؟‘‘
’’جو وہ سب کے بارے میں کہا کرتا ہے!‘‘
وہ پھر ہنس پڑا۔ دونوں پھر خاموش چلنے لگے، چلتے چلتے طفیل بولا، ’’شفیق ذرا محتاط رہا کرو!‘‘
’’کیوں؟‘‘ وہ چونکا۔
’’بس میں نے کہہ دیا ہے۔۔۔‘‘ طفیل نے معنی خیز لہجہ میں کہا۔ اب اس کی گلی کا موڑ آگیا تھا، ’’اچھا یار صابر، کل ملیں گے!‘‘
طفیل اپنی گلی میں مڑ گیا، اب وہ اکیلا تھا اور آزادی سے اپنے خیالات میں مگن چل سکتا تھا، چلتے چلتے اسے ایک مرتبہ پھر اشتیاق کا خیال آیا، بات کچھ سمجھ میں نہیں آتی، اشتیاق اس قماش کا آدمی تو نہیں ہے، میں بھی اسے اتنے عرصے سے جانتا ہوں، اور آدمی آخر کب تک اپنے آپ کو چھپا سکتا ہے، مگر شفیق کہتا ہے۔ خیر شفیق تو سب ہی کے بارے میں کہتا ہے، حسنین کے بارے میں بھی، عارف کے بارے میں بھی، طفیل کے بارے میں بھی، تو گویا سب ہی کا دامن آلودہ ہے۔۔۔ حد ہوگئی، اور خود شفیق؟ شفیق اشتیاق کے بارے میں کہتا ہے اور اشتیاق شفیق کے بارے میں کہتا ہے۔
’’یار صابر!‘‘ اشتیاق پوچھ رہا تھا، ’’شفیق کی تنخواہ کیا ہوگی؟‘‘
’’پتہ نہیں یار۔۔۔‘‘
’’قیاس تو کر سکتے ہو کہ کتنی ہوگی، یار میرے نے گلبرگ میں زمین خریدی ہے۔۔۔‘‘
’’گلبرگ میں؟ نہیں یار!‘‘
’’اچھا مت مانو!‘‘ تو اشتیاق شفیق کے بارے میں کہتا ہے اور شفیق اشتیاق کے بارے میں کہتا ہے اور طفیل دونوں کے بارے میں کہتا ہے، شفیق، اشتیاق، طفیل، حسنین، عارف، گویا سب ہی، حد ہوگئی، گویا ہم سب ہی کا دامن آلودہ ہے۔ یہ سوچتے سوچتے ووہ ٹھٹکا۔۔۔ ہم سب کہہ کر تو اس نے آپ کو بھی شامل کر لیا تھا، اس نے فوراً اپنے خیال کی تصحیح کی اور اپنے آپ کو قطار سےالگ کر لیا۔ اصل میں اس پس منظر میں جب جب اس نے اپنا جائزہ لیا تھا، اپنے آپ کو سر سے پیر تک ایمان دار پایا تھا۔ اس وقت اس نے ایک مرتبہ پھر اپنے کردار کا غیر جانب دارانہ محاسبہ کیا اور اپنےآپ کو سب برائیوں سے بری پایا، جو جن میں سے ہے ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا، شکر ہے کہ میں ان میں سے نہیں ہوں۔
اس نے ایک احساس برتری کے ساتھ اطمینان کا سانس لیا، مگر پھر اسے طفیل کی کہی ہوئی بات یاد آگئی، شفیق میرے بارے میں کیا کہتا پھرتا ہے، خیر ایسی باتوں سے کیا فرق پڑتا ہے، میں وہی ہوں جو میں ہوں، اس نے بے اعتنائی سے سوچا اور شفیق کی بات کو رد کر دیا، مگر چلتے چلتے پھر اسے اس بات کا خیال آگیا۔ آخر اس نے ایسا کہا کیوں؟ اور اسے غصہ آتا چلا گیا، اصل میں وہ ان میں شمار نہیں ہونا چاہتا تھا جن میں سے وہ نہیں تھا اور اس نے طے کیا کہ فتنہ کا سدباب فوراً ہونا چاہئے، میں اشتیاق تو نہیں ہوں کہ آنا کانی کر جاؤں، آنا کانی وہ کرے جس کے اندر کھوٹ ہو، اور وہ چلتے چلتے پلٹا۔
اب رات تھی اور سڑک پر اجالا بھی تھا اور اندھیرا بھی تھا، وہ چل کیا رہا تھا، دوڑ رہا تھا، بہت آگے جاکر وہ واپس ہوا تھا، پھر بھی وہ جلد ہی آپہنچا اور تیر کے موافق اندر داخل ہوا۔
’’شریف، شفیق صاحب آے تھے؟‘‘
’’آئے تھے، بہت دیر بیٹھے رہے، ابھی ابھی گئے ہیں!‘‘
اسے سخت افسوس ہوا، ذرا دیر پہلے آجاتا تو اسے پکڑ لیتا، غلطی کی، مجھے رکشا لے لینا چاہئے تھا، پھر وہ بیٹھ گیا، آگئے ہیں تو پی کر چلیں گے مگر تھوڑی ہی دیر میں وہ بے اطمینان ہوگیا اور اٹھ کھڑا ہوا، چائے کا آرڈر منسوخ کرایا اور باہر نکل گیا، خیر کوئی بات نہیں، کل نبٹوں گا، اچھا ہے اس دوران طفیل سے تفصیل بھی معلوم ہو جائے گی۔ اس وقت بھی تو اس نے اڑتی سی ایک بات کہی تھی، میں نے بھی زیادہ دھیان نہیں دیا، پہلے پوری بات معلوم کر لینی چاہئے۔ ویسے ابھی کون سی زیادہ رات ہوئی ہے اور طفیل سویرے سونے والوں میں تو نہیں ہے، ایک لہرآئی اور اس کے قدم طفیل کے گھر کی طرف اٹھ گئے۔ گیٹ کھول لپک جھپک داخل ہوا، بتی صرف برآمدے میں جل رہی تھی، لان میں اندھیرا تھا، قاضی صاحب کی محفل آج زیادہ لمبی چوڑی نہیں تھی۔ روزکے آنے والوں میں صرف مرزا صاحب تھے، باقی ایک صاحب اور بیٹھے تھے جواس کے لیے اجنبی تھے، قاضی صاحب باتیں کرتے کرتے رکے، ’’صابر آؤ بھئی، طفیل ابھی یہیں تھا، کوئی آئے تو بلواتا ہوں، بیٹھو۔‘‘
خالی پڑی ہوئی کرسیوں میں سے ایک کرسی پر وہ بیٹھ گیا، قاضی صاحب نے گفتگو کا ٹوٹا ہوا سلسلہ پھر جوڑا، ’’تو صاحب روز رات کو جب بارہ کا عمل ہوتا تو وہ آدمی آتا، روپیہ پھینکتا اور مٹھائی کا ٹوکرا لے جاتا!‘‘ اجنبی آدمی اپنی کرسی پر کسمسایا، ’’مٹھائی کا ٹوکرا؟ ایک روپے میں؟‘‘ قاضی صاحب ہنسے، ’’ارے بھائی یہ تمہارے زمانے کی بات نہیں ہے، ہمارے زمانے کا ذکر ہے، مرزا صاحب ذرا بتاؤ انہیں اس زمانے میں گیہوں کس بھاؤ تھا۔۔۔‘‘
’’بھاؤ کی بات تو یہ ہے۔۔۔‘‘ مرزا صاحب حقّے کی نے منہ سے الگ کرتے ہوئے بولے، ’’کہ ایک روپے میں گیہوں سے بوری بھر جاتی تھی۔۔۔‘‘
’’صاحب ہم تو یہ جانتے ہیں۔۔‘‘ قاضی صاحب بولے، ’’کہ ایک روپے کے گیہوں کے لیے ہم مزدور کیا کرتے تھے۔۔۔ اب تمہارے ایک روپے کا گیہوں خدا جھوٹ نہ بلوائے مٹھی میں آجاتا ہے۔‘‘
مرزا نے ٹھنڈا سانس بھرا، ’’قاضی صاحب پیسے کی قیمت نہیں رہی!‘‘
’’مرزا صاحب، پیسے کی قیمت تو آدمی سے ہوتی ہے، اب آدمی ہی کی کون سی قیمت رہ گئی ہے!‘‘
’’آدمی!‘‘ مرزا صاحب نے پھر ٹھنڈا سانس بھرا، ’’آدمی تو مولی گاجر بن گئے!‘‘ قاضی صاحب خاموش حقّہ پینے لگے، مرزا صاحب نے آنکھیں بند کر لیں اور خیالوں میں کھو گئے، اجنبی آدمی کرسی میں پھر کسمسایا، ’’صاحب وہ قصّہ تو بیچ ہی میں رہ گیا!‘‘
’’ہاں، وہ قصّہ!‘‘ قاضی صاحب نے حقّے کی نے ایک طرف کی، ’’صاحب کچھ تو ان دنوں مٹھائی سستی تھی اور کچھ شاید اس روپے کی تاثیر تھی کہ مٹھائی کچھ زیادہ ہی تل جاتی تھی، بس یہ سمجھ لو کہ ادھر آدمی ٹوکرا لے کر رخصت ہوا، ادھر یوں لگتا کہ دوکان میں جھاڑو دل گئی۔ رحیم بخش حلوائی کی سمجھ میں کچھ نہ آئے کہ بات کیا ہے، مگر مولا کبڑا بہت پہنچا ہوا تھا، وہ تاڑ گیا، بولا کہ رحیم بخش تیری دکان پہ فلاں فلاں آدمی آوے ہے، مجھے لگے ہے کہ وہ آدمی نہیں ہے، رحیم بخش نے پوچھا کہ بے تونے کیسے جانا۔ مولا بولا کہ میں نے اس کی پتلی دیکھی ہے وہ پھرتی نہیں۔ رحیم بخش چپ رہا، مگر جب رات کے بارہ بجے اور وہ آدمی آیا تو رحیم بخش نے مٹھائی تولتے تولتے اس کی پتلی پر نظر ماری۔ بالکل ساکت۔۔۔ رحیم بخش کے جی میں کیا آئی، پوچھ بیٹھا کہ سیٹھ تمہارا نام کیا ہے، یہ پوچھنا تھا کہ تڑاخ سے ایک تھپڑ پڑا اور آدمی غائب!‘‘
’’آدمی غائب؟‘‘ اجنبی نے تعجب سے پوچھا۔
’’ہاں آدمی غائب، پھر وہ نظر نہیں آیا، پھر نہ پوچھو کہ شہر میں کیسا ہراس پھیلا۔ آدمی آدمی سے خوف کھانے لگا۔۔۔ ہر کوئی کسی پر شک کرتا اور نام پوچھنے سے کتراتا۔‘‘
مرزا صاحب سوچ میں پڑ گئے، پھر بولے کہ، ’’رات کے وقت کسی سے نام نہیں پوچھنا چاہئے۔‘‘
’’صاحب میں تو دن میں بھی نہیں پوچھتا، کیا پتہ کون آدمی اندر سے کیا نکلے، ہاں پتلی ضرور دیکھ لیتا ہوں۔‘‘
مرزا صاحب بولے، ’’آدمی کے پہچاننے کا طریقہ ہی یہ ہے کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھو، کوئی اور مخلوق ہے تو کبھی آنکھ نہیں ملائے گی۔‘‘
’’خطرناک کھیل ہے۔۔۔‘‘ قاضی صاحب آہستہ سے بولے۔
’’ہاں خطرناک تو ہے!‘‘
پھر قاضی صاحب اور مرزا صاحب دونوں کچھ چپ ہوگئے، قاضی صاحب نے حقّے کے چند گھونٹ لیے، پھر خاموشی سے نے مرزا صاحب کی طرف موڑ دی۔ مرزا صاحب نے کھوئے کھوئے انداز میں نے ہونٹوں میں ڈالی اور گھونٹ بھرنےلگے، سامنے برآمدے کی دھندلی روشنی میں ایک سایہ حرکت کرتا نظر آیا، قاضی صاحب نے آواز دی، ’’رمضانی، طفیل کو بھیجو!‘‘
’’طفیل میاں سوگئے جی!‘‘
’’میاں، وہ تو سوگیا۔۔۔‘‘ قاضی صاحب اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
مرزا صاحب حقّہ پیتے پیتے چونکے، ’’رات اچھی خاصی ہی ہوگئی ہے اب چلنا چاہئے۔‘‘
مگر مرزا صاحب کے اٹھنے سے پہلے وہ اٹھ کھڑا ہوا، قاضی صاحب کو سلام کیا اور باہر نکل آیا۔۔۔
طفیل کے گھر سے نکل وہ اپنے گھر کی طرف ہولیا، رات اچھی خاصی ہوگئی تھی۔ آمدو رفت کم و بیش بند تھی، کبھی کوئی رکشا، کبھی کوئی ٹیکسی اک شور کے ساتھ گزری چلی جاتی، اور پھر وہی خاموشی۔ سنسان سڑک پر چلتے چلتے سامنے سے اک شخص آتا نظر آیا۔ قریب آتا گیا، پھر بالکل قریب اسے دیکھتا گزرا چلا گیا۔۔۔ کون شخص تھا یہ؟ بہت غور سے مجھے دیکھ رہا تھا، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خیال آیا کہ مڑ کر دیکھے مگر فوراً ہی اس نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔ ہوگا کوئی، مجھے کیا! سارے سارے دن کافی ہاؤس میں بیٹھا رہتا، کبھی اِس میز پر، کبھی اُس میز پر، کبھی تجریدی آرٹ پر بحث، کبھی سیاسی صورت حال پر گفتگو، پھر ہاتھ دیکھنے لگتا اور سب اپنا اپنا ہاتھ دکھاتے۔ ماضی کی صحیح تفصیلات جان کر حیران ہوتے اور مستقبل کے بارے میں سوال کرتے۔
مگر طفیل کہتا ہے کہ وہ پامسٹ تھا ہی نہیں، کمال ہے، پھر کیسے بتا دیتا تھا، اور اگر پامسٹ نہیں تھا تو پھر کون تھا؟ اور میرے ہاتھ کا عکس؟ اسے کچھ وسوسہ ہونے لگا، مگر پھر فوراً ہی اس نے اپنے آپ پر قابو پا لیا، میں تو شفیق بنتا جا رہا ہوں، حد ہے شفیق سے، حسنین، عارف طفیل سب پر شک کرتا ہے، کمال لوگ ہیں، ہر کوئی ہر کسی پر شک کرتا ہے، آدمی آدمی سے خوف کھانے لگا، وہ ٹھٹکا، یہ تو قاضی صاحب کہہ رہے تھے۔
قاضی صاحب بھی خوب بزرگ ہیں، دنیا کا کوئی ذکر ہو، جنوں کا ذکر درمیان میں ضرور لے آتے ہیں، آخر انہوں نے زندگی میں کتنے جن دیکھے ہیں، کیا اس زمانے میں سب ہی جن بھوت تھے؟ کم از کم اس زمانے میں جن بھوت تو نہیں ہوتے، ہوتے تو ہیں آدمی ہی، مگر شفیق۔۔۔ شفیق تو خیر خود۔۔۔ شفیق اگر قاضی صاحب کے زمانے میں ہوتا تو قاضی صاحب ہوتا۔ سب کی پتلی دیکھا کرتا، حد یہ ہے کہ میرے بارے میں بھی۔۔۔ بس حد ہی ہو گئی، اب وہ غصے میں نہیں تھا، مگر اسے شفیق کی بات پر رہ رہ کر تعجب ہو رہا تھا اور کسی قدر ملال۔ میں اتنا الگ تھلگ رہا ہوں اور میرے بارے میں بھی۔۔۔ پھر رفتہ رفتہ اس نے اپنے غیر جانبدارانہ رویے کو بحال کیا اور سوچنے لگا کہ آخر شفیق کو شک کیسے پڑا، اس نے اپنی کئی بھولی بسری لغزشوں کو یاد کیا، مگر ہر لغزش کا اس کے پاس ایک جواز تھا۔ یوں بھی یہ کون سی بڑی لغزش تھی، دوسرے جوکر رہے ہیں ان کے مقابلے میں تو یہ باتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ باقی کہنے والوں کا کیا ہے، اور میں فرشتہ تو ہوں نہیں، اس نے ایک مرتبہ اپنے حق میں قرار داد اعتماد منظور کی اور مطمئن چلنے لگا۔
سڑک سنسان تھی، کوئی کوئی رکشا شور کرتی تیزی سے قریب سے گزر جاتی اور خاموشی پھر دونی ہوجاتی، بہت رات ہوگئی، ادھر آنا بے سود رہا، آخر اتنی عجلت کی ضرورت کیا تھی، کل طفیل کو ملنا ہی ہے اور شفیق کو بھی، ہاتھ کے ہاتھ دودھ کا ددھ پانی کا پانی ہوجائے گا، چلتے چلتے وہ ٹھٹک سا گیا۔ اب وہ موڑ والی کوٹھی کے سامنے سے گزر رہا تھا، یہاں قدرے اندھیرا تھا، اور کوٹھی کا کتا خاموش کھڑا اسے شک کی نظروں سے گھو رہا تھا، اس نے اپنی چال میں فرق نہیں آنے دیا، اعتماد کا اعلان کرتی آہستہ چال کے ساتھ سامنے سے گزرا چلا گیا۔
گزرتے گزرتے ایک نظر کتے پر ڈالی، اسے لگا کہ اس کی آنکھیں شیشے کی ہیں، تو کتے کی پتلی بھی گردش نہیں کرتی، پھر اسے یونہی اس آدمی کا خیال آگیا کہ جو ابھی تھوڑی دیر پہلے اس کے قریب سے اسے غور سے دیکھتے ہوئے گزرا تھا، عجیب بات ہے کہ دن میں کوئی کسی کی طرف نہیں دیکھتا، رات میں ہر کوئی ہر کسی کو شک بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔
کون تھا وہ؟ کون؟ اس کے دھیان نے پٹری بدلی اور کافی ہاؤس میں چلا گیا، اگر وہ پامسٹ نہیں تھا تو پھر کون تھا۔۔۔؟ اور میرے ہاتھ کا عکس۔۔۔ اس کا دل ڈوبنے لگا تھا، مگر اس نے فوراً ہی جھر جھری لی۔۔۔ میں تو بالکل قاضی صاحب ہوتا جا رہا ہوں، قاضی صاحب کے خیال سے اسے عجیب سا خیال آیا۔۔۔ اشتیاق، طفیل، حسنین، عارف، شفیق، سب کو ایک ایک کر کے وہ دھیان میں لایا، انہیں اور ان کی پتلیوں کو، کیا ان کی پتلیاں۔۔۔ اس نے پھرجھر جھری لی۔۔۔ میں تو بالکل شفیق بنتا جا رہا ہوں، اور اس نے لمبے لمبے ڈگ بھرنے شروع کر دیے۔
گھر پہنچ کر اس نے اطمینان کا سانس لیا، آج اسے یہ مختصر سی مسافت کتنی طویل نظر آئی تھی، کمرے میں جا کر اس نے بجلی جلائی، کمرے کی ہر چیز قرینے سے رکھی تھی۔ شاید آج امّاں جی نے کمرے کی صفائی کرائی ہے، کارنس پر رکھا ہوا بڑا سا آئینہ جوکہ صبح تک میلا میلا تھا کتنا چمک رہا تھا، وہ آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر ٹائی کھولتے کھولتے بے دھیانی سے اپنا چہرہ غور سے دیکھنے لگا، اپنا چہرہ، اپنی پتلیاں، مگر پھر اسے فوراً ہی دھیان آگیا، وہ آئینے کے سامنے سے ہٹا، کپڑے بدلے اورکرسی پر ٹانگیں اٹھا کر بیٹھ گیا۔ اس طرح وہ بیٹھ کر سستایا کرتا تھا، یہ اس کی پرانی عادت تھی۔
بیٹھے بیٹھے اس کا دھیان پھر غوطہ کھا گیا، قاضی صاحب خوب بزرگ ہیں، لوگوں کی پتلیاں دیکھتے ہیں، طفیل کی پتلی بھی دیکھی ہوگی! اس تصوّر سے وہ تھوڑا مسکرایا، مگر دھیان پھر کسی اور سمت میں نکل گیااور اوبڑ کھابڑ چال چلنے لگا، میرے ہاتھ کا عکس۔۔۔ کون تھا وہ آدمی۔۔۔؟ قاضی صاحب۔۔۔ شفیق۔۔۔ جب گیٹ میں داخل ہو کر میں نے لان میں قدم رکھا تھا تو قاضی صاحب نے مجھے کیسے دیکھا تھا۔۔۔ ویسے تو نہیں دیکھا تھا جیسے اس آدمی نے۔۔۔ مگر کیا خبر۔۔۔ اور اسے لگا کہ اس کے ہاتھ کا عکس پھیل گیا ہے اور ساری لکیریں شفیق، اشتیاق، طفیل، سب پر عیاں ہوگئی ہیں، وہ ہڑ بڑا کر اٹھ کھڑا ہوا۔
اس نے انگڑائی لیتے ہوئے سارے وسوسوں اور اندیشوں کو یکسر جھٹکا اور سوچا کہ رات جا رہی ہے، اب سونا چاہئے۔ وہ سخت تھکن محسوس کر رہا تھا، سوچ سوچ کر بھی آدمی کتنا تھک جاتا ہے، سوچا کہ سونے سے پہلے منہ ہاتھ دھو لو کہ تھکن اترے اور چین کی نیند آئے، یہ سوچ کر وہ باتھ روم کی طرف ہو لیا، منہ دھوتے دھوتے اس نے تعجب کرتے ہوئے سوچا کہ کیا اشتیاق واقعی۔۔۔ مگر اشتیاق شفیق کے بارے میں بھی کچھ کہتا ہے، اور شفیق تو سب ہی کے بارے میں کہتا ہے۔عجیب مضحکہ خیز صورت حال ہے، وہ ہنس پڑا مگر جب وہ باتھ روم سے نکل کر تولیہ سے منہ پونچھ رہا تھا تو اس کی ہنسی رخصت ہوچکی تھی۔ اس نے تھکے ہوئے سے انداز میں سوچا کہ شاید ہم سب ہی مشکوک حالات میں نقل و حرکت کر رہے ہیں۔ اشتیاق۔۔۔ طفیل۔۔۔ حسنین۔۔۔ عارف۔۔۔ اور شاید شفیق بھی۔۔۔ اور شاید میں۔۔۔ مگر وہ فوراً ہی ٹھٹک گیا جیسے قدم اٹھ گیا مگر سامنے کھائی دیکھ کر اٹھا کا اٹھا رہ گیا ہو، اور آدمی ایک ٹانگ پر برقرار رہنے کی کوشش کر رہا ہو۔
منہ پونچھتے پونچھتے وہ رک گیا تھا مگر پھر وہ وسوسوں کی دنیا سے واپس آگیا، سب واہموں اور وسوسوں کو دفع کرکے اطمینان سے منہ پونچھا، سر پونچھا، پھر تولیہ کرسی پر ڈالی، ٹھنڈی ٹھنڈی انگلیوں سے ٹھنڈے ٹھنڈے بالوں کو سنوارنے لگا۔ بالوں کو یوں سنوارتے سنوارتے وہ کارنس کی طرف بڑھا، آئینہ دیکھنے لگا تھا کہ رک گیا، رکا، سوچا اور پھر آئینہ الٹ کر رکھ دیا، پھر بجلی گل کی اور بستر پر لیٹتے ہوئے طے کیا کہ شفیق قائل ہونے سے رہا، تو کیوں وضاحت اور صفائی کی کوشش کی جائے! پھر اس نے کروٹ لی اور سوگیا۔
مأخذ : انتظار حسین کے سترہ افسانے
مصنف:انتظار حسین