محبت یا ہلاکت؟

0
195
Urdu Story Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’کہانی ایک ایسے شخص کی داستان کو بیان کرتی ہے جو اپنی چچازاد بہن سے بہت محبت کرتا ہے۔ یکبارگی وہ چچازاد بیمار پڑ جاتی ہے اور اسکے علاج کے لیے ایک نوجوان ڈاکٹر آنے لگتا ہے۔ چچازاد ڈاکٹر کی جانب مائل ہونے لگتی ہے اور اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔ اس کے اس فیصلے پر اس کا چچازاد بھائی اپنے رقیب ڈاکٹر کا قتل کر دیتا ہے۔‘‘

(حیاتِ انسانی کا ایک عبرت انگیز واقعہ)

(باب ۱)
عشق کیا کیا ہمیں دکھاتا ہے
آؤ تم بھی تو اِک نظر دیکھو

لوگو! میرا دوستانہ مشورہ یہی ہے کہ خدا را دنیا میں سب کچھ کرو۔ آسمانوں پر پہنچ جاؤ، زمین کے نیچے چلے جاؤ، ہوا میں معلق ہو، مریخ و زہرہ کے باشندوں سے یگا نگت پیدا کرو، سب کچھ کرو مگر للہ۔۔۔ محبت نہ کرو۔ خود پر رحم کرو۔ محبت نہ کرو! یہ تمہیں تباہ کر دے گی، فنا کر دے گی اور صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دے گی۔میرے پیارے دوستو! کنوئیں میں گرنا اچھا، سمندر میں کودنا بہتر، مگرمحبت کی شفاف اور خوبصورت نہر سے ایک بوند لینا بھی نہایت خطرناک!

آج میں چاہتا ہوں کہ اپنی عبرت انگیز داستان کو اپنی زندگی کی آخری گھڑیوں میں آپ کو سنا دوں تاکہ میرے بعد میرے ہم جنسوں پر روشن ہو جائے کہ محبت اور عورت ہلاکت کا دوسرا نام ہے اور کوئی بھول کر بھی اس ہلاکت میں نہ پڑے۔

دل دے کے اس کو یہ مجھے معلوم ہو گیا
سب کچھ کرے مگر نہ محبت کرے کوئی

خیر مجھے ان باتوں سے مطلب نہیں۔ وقت تھوڑا ہے اور داستان طویل۔ اس لیے میں مختصر الفاظ میں اپنا فسانۂ زندگی از ابتدا تا انتہا بیان کردوں گا۔

 مجھے جیروس پہنچے دوسرا ہی ہفتہ تھا کہ ایک عجیب و غریب واقعہ گزرا۔ اس کی ’’عجیب و غربییت‘‘ صرف ایک افسانہ یا رومانس (Romance) کی حد تک ختم نہیں ہوتی بلکہ آہ! وہ میرے شیرازۂ ہستی یا یوں کہیے کہ کتاب حیات کے اوراق کو بکھیردیتی ہے۔

میں وطن سے نکل بھاگا تھا اور ایک خاص سلسلے میں جیروس بھاگا بھاگا آیا تھا اور گمنامی روپوشی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ اکثر اوقات اپنی زندگی کی المناک واقعات کو یاد کر کے پریشان ہو جایا کرتا تھا۔ اکثر ایسا ہوا کہ شدتِ وحشت میں دن دن بھر چلچلاتی دھوپ میں پہاڑوں کے دامن میں بھوکا پیاسا بیٹھا رہا ہوں۔ اس بادیہ پیمائی کا سبب کیا ہے؟ میں کیوں روپوش ہوا؟ یہ سب آپ کو آئندہ معلوم ہوگا۔

ایک گرم شام طبیعت متوحش ہو ئی تو اپنے کمرے کے باہر سڑک پر ٹہلنے نکل گیا۔ دور سے ایک ہجوم نظر آنے لگا۔ میں کھڑا ہو گیا اور غور سے لوگوں کے جیتے جاگتے دریا کو دیکھنے لگا۔ ایسا خاموش ہجوم آج تک میری نظروں سے نہ گزرا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں عود و عبیر کی متبرک خوشبو آنے لگی۔ میں سمجھ گیا کہ کسی کا جنازہ ہے۔ دفعتاً لوگ نہایت موثر دھیمے لہجے میں قرآنی مقدس آیتوں کو پڑھنے لگے۔ اب وہ لوگ بہت قریب آگیے تھے۔ جب یہ ہجوم میرے بالکل قریب آیا تو اگرچہ میں جیروس کے باشندوں کے لیے بالکل اجنبی تھا اور کسی سے میری واقفیت نہیں تھی۔ تا ہم مذہبی احترام اور مسلم قومی کی اخوت کے مطابق مجھے بھی خاموشی کے ساتھ اس ہجوم میں شریک ہونا پڑا تاکہ قبرستان تک اپنے مرحوم مذہبی بھائی کو پہنچا دوں۔

جب قبرستان پہنچ کر لوگ میت کو ایک طرف رکھ کر نماز پڑھنے کے لیے تیار ہوئے تو میں نے ان میں سے ایک سے دریافت کیا کہ کس کا جنازہ ہے؟ مجھے سے کہا گیا کہ شہر کے ایک معزز اور بڑے تاجر کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس کے بعد ہم سب نے مل کر مرحوم بھائی کی مغفرت کے لیے اللہ پاک سے دعا مانگی۔

میت کو سپرد خاک کر کے لوگ قبرستان سے واپس ہو رہے تھے کہ کسی نے دوستانہ لہجہ مجھے پکارا، ’’جعفر! جعفر!‘‘ میں نے مڑ کر دیکھ تو ایک معمر شخص کھڑا تھا۔ اس کی سفید لمبی سی داڑھی نے اسے نہایت قابل تعظیم بنا دیا تھا۔ اس کی آنکھیں بھوری تھیں اور بال روئی کے گالے کی طرح سفید، اور اس قدر لمبے تھے کہ کندھوں کو چھپا رہے تھے۔ پہلے پہلے تو میں کچھ ڈرسا گیا کیونکہ میرا حافظہ کام نہیں کرتا تھا۔ مجھے کبھی خواب میں بھی اس شخص کی صورت نظر نہ آئی تھی، مگر تھوڑی دیر بعد ہم کسی قسم کی بے تکلفی سے باتیں کرنے لگے۔ لوگ جلد جلد قدم اٹھاتے سڑک پر سے گزر رہے تھے مگر ہم دونوں نہایت اطمینان سے آہستہ آہستہ باتیں کرتے ہوئے ابھی ابھی قبرستان کی سرحد سے نکلے تھے اور ایک سنسان سڑک پر چلے جا رہے تھے۔

’’جناب! مجھے یاد نہیں پڑتا۔۔۔ جناب کا نام؟‘‘ 

’’فواد۔‘‘ 

’’فواد؟‘‘ میں نے دوہرایا، ’’فواد؟ اچھا۔۔۔ تمہارے خاندان میں کوئی ڈاکٹر گزرا ہے؟‘‘ 

’’کیوں؟‘‘ 

’’نہیں تم کو بتانا پڑے گا۔‘‘ میں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا، ’’بتاؤ کوئی ڈاکٹر بھی تھا؟‘‘ بوڑھا مسکرایا، ’’نوجوان آدمی! مضبوط اور طاقتور ہو کر ایک بوڑھے شخص سے اس قدر کیوں وحشت زدہ ہوتے ہو۔‘‘ میں نے قدرے بے پروائی سے کہا، ’’میں ڈرا نہیں ہوں۔ ہاں متعجب ضرور ہوں۔‘‘ 

بوڑھا فواد مسکرایا، ’’تمہاری حیرت بجا ہے کیونکہ مجھے تم سے کبھی ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ مگر شاید تمہیں یاد ہو تین سال پہلے پہلی دفعہ میں نے تمہیں دمشق کے ایک بازار میں دیکھا تھا۔ پھر ایک دفعہ مسجد میں نماز پڑھتے بھی دیکھا، اس واقعہ کو آج تین سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔‘‘ میں کسی قدر بے چین ہو گیا، ’’مجھے کچھ یاد نہیں، ممکن ہے کہ آپ نے مجھے دیکھا ہو۔ آپ میرے سوال کا جواب دیں۔ آپ کے خاندان میں کوئی ڈاکٹر بھی گزرا ہے؟‘‘ بوڑھا فواد مسکرایا، ’’مجھے کچھ یاد نہیں! تم بار بار مجھ سے یہ سوال کیوں کرتے ہو؟ ہاں تم یہ تباؤ تم دمشق میں بھی رہ چکے ہو نا؟‘‘ 

مجھے یہ سوال بہت نا گوار گزرا۔ چند سال سے مجھے سوال کے نام سے نفرت اور دہشت پیدا ہو جاتی تھی۔ میں نے نہایت خشک لہجہ میں کہا، ’’جناب! میں ان سوالات کا جواب نہیں دے سکتا، اس لیے کہ مجھے اس گفتگو سے کسی قسم کی دلچسپی نہیں۔‘‘ فواد ہنس پڑا، ’’واللہ! تم بھی عجب وحشت پسند ہو۔ میں سچ کہتا ہوں، میں نے تمہیں تین سال ہوئے دمشق کے بازار میں دیکھا تھا۔‘‘ 

میں اب ضبط نہ کر سکا، ’’اجی حضرت، اٹھا رکھیے، دیکھا ہوگا آپ نے مجھے کہیں۔ اب بار بار ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ بوڑھا فواد بڑے میٹھے لہجہ میں کہنے لگا، ’’اور اسی وقت سے مجھے تم سے محبت ہو گئی۔‘‘ 

’’وجہ؟‘‘ 

فواد مسکرایا، ’’نوجوان آدمی! تم تو محبت کی وجہ عدالتی لہجہ میں دریافت کرتے ہو۔ میں اپنی پہلی وحشت پر پچھتایا۔‘‘ 

’’معاف کیجئے، لیکن آخر مجھ اجنبی سے محبت کرنے کا سبب؟‘‘ 

’’محبت کے اسباب کیا ہوتے ہیں۔ یہ تو کوئی بتا ہی نہیں سکتا۔ مگر خوش اخلاقی، خوبصورتی، شیریں بیانی بھی انسان کو انسان کا گرویدہ کردیتی۔۔۔‘‘ 

 میں بول اٹھا، ’’مگر میرا خیال ہے کہ ان اعلیٰ صفات میں سے ایک بھی مجھ میں موجود نہیں!‘‘ فواد نے مجھ پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہوئے کہا، ’’نوجوان شخص، انسان اپنے اخلاق کا آپ نقاد نہیں ہو سکتا۔یہ غلطی ہے۔ ممکن ہے کہ تم میں اور اوصاف نہ ہوں مگر ایک حقیقت تم میں بالکل نمایاں ہے اور وہ تمہارا بے نظیر حسن ہے۔ اگرچہ اب میں اس عمر کو پہنچ گیا ہو ں کہ کسی کے حسن سے مستفیض نہیں ہو سکتا مگر (مسکرا کر) شاید تمہیں حیرت ہو کہ اب بھی میں حسن پرست ہوں۔ جوانی کے عالم میں میں عمر خیام کی رباعیات گایا کرتا تھا جو حسن اور شراب کی تعریف میں لکھی گئی ہیں۔‘‘ 

مجھے ایک خیال نے چونکا دیا۔ میں نے اپنے مضبوط ہاتھوں کو قدرے نفرت سے دیکھا اور نہایت حقارت سے کہنے لگا، ’’میں حسین ہوں؟ حسن؟ تف ہے ایسے حسن پر، لعنت جو کسی کو مسخر نہ کر سکے۔ میں خوبصورت ہوں؟ غلط ہے۔ جناب! مجھے کہنے دیجئے کہ غلط ہے! اگر میں حسین ہی ہوتا تو آج کسی کی نگاہِ انتخاب ’’دوسرے‘‘ پر کیوں پڑتی؟‘‘ 

’’او ہو۔۔۔‘‘ فواد چونک پڑا، ’’معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے تم سے بے وفائی کی ہے۔ بھئی رنج نہ کرو۔ عورتیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔‘‘ میں چلا اٹھا، ’’مجھے عورت کے نام سے نفرت ہے! محبت کے نام سے ہیبت اور وحشت ہے!‘‘ فواد نے ایک سرد آہ کھینچی، ’’ٹھیک! دنیا کی جنت کہو یا دروزخ عورت اور محبت ہی کے دو مختلف نام ہیں!‘‘ 
میں نے التجا کے پیرایہ میں کہا، ’’خدا کے لیے اب اس تذکرے کو جانے بھی دو۔ میرے آگے عورت کا نام نہ لو۔ ہاں یہ تو کہو کہ تم نے اس سے پہلے مجھ سے تعارف کیوں نہ پیدا کرلیا؟ تین سال کے طویل مدت ہم کو وفادار دوست بنانے کے لیے کافی تھی۔ (تھوڑی دیر بعد) شاید تم نے پروا نہ کی۔‘‘ 

’’کیوں نہیں؟ یہ تو میری عین تمنا تھی کہ تم سے تعارف پیدا کر لوں۔‘‘ فواد نے جواب دیا۔

’’تو پھر۔۔۔‘‘ میں کہنے لگا، ’’تو پھر رکاوٹ ہی کیا تھی؟ میں یقینا کوئی سیاسی قیدی یا جاسوس نہیں تھا کہ مجھ سے ملنے میں تمہیں دقتیں پیش آتیں۔‘‘ 

’’یہ تو سچ ہے۔‘‘ بوڑھا کہنے لگا کہ، ’’تم سے بآسانی مل سکتا تھامگر حضرت دمشق سے آپ ایسے غائب ہوئے کہ کہیں پتہ نہ لگا۔ اکثر محفلوں، جلسوں میں میری مشتاق نظریں تم کو ڈھونڈ ا کرتی تھیں۔ تم آخر کدھر چلے گیے تھے؟ مصر؟ افریقہ؟ ہندوستان؟‘‘ 

میں کسی قدر بے چین ہو گیا، ’’ہاں۔۔۔ میں باہر چلا گیا تھا۔‘‘ 

’’کیا تین سال سے یہیں ہو؟‘‘ میرا اضطرار بڑھتا گیا۔ میرا سانس پھولنے لگا۔ دل چاہتا تھا کہ کسی طرف کو بھاگ جاؤں۔ مجبوراً جواب دیا، ’’ٹھیک ہے صرف انہیں تین ممالک پر کیا منحصر ہے، بغداد، بصرہ، شام وغیرہ بھی گیا تھا۔‘‘ 

’’شاید تجارتی سلسلے میں؟ اب مستقل سکونت کہاں اختیار کی ہے؟‘‘ 

میں حقارت سے مسکرانے لگا۔ نہیں نہیں! آہ۔۔۔ 

سب اہل مکاں مجھ سے مکاں پوچھ رہے ہیں
غربت زدہ، آوارہ، پتہ دو ں میں کہاں کا

میرا دل بے قرار ہو گیا۔ گزشتہ المناک واقعات یکے بعد دیگرے یاد آنے لگے اور میری آنکھوںمیں آنسو چمک اٹھے۔ تھوڑی دیر ہم خاموش رہے۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے اس تنگ راستے سے گزر رہے تھے۔ شام گرم تھی اور قبرستان کا راستہ ویران ہو گیا تھا۔ کوئی راہ گیر نظر نہ آتا تھا۔ صنوبر اور دیودار کے تنا ور درختوں کے پتوں میں ہوا سائیں سائیں کرتی چل رہی تھی۔ ہر طرف موت کی سی خاموشی تھی۔ ہاں کبھی کبھی کوئی یونانی بلبل کسی دور کے خشخاش کے درخت پر بیٹھی زور سے سیٹی بجا دیا کرتی تھی۔میرا دل بہت بے چین ہو گیا تو طبیعت کو بہلانے کے لیے میں نے باتیں شروع کردیں۔ اگر چہ فضول باتیں۔ ’’مرحوم کو کیا بیماری تھی؟‘‘ مجھے کیا خبر تھی کہ اس سوال کے ساتھ ہی ایک عجیب و غریب گفتگو کا سلسلہ چھڑ جائے گا جو میرے شیرازۂ زندگی کو ہی بکھیر دے گا۔

فواد کہنے لگا، ’’جو شخص آج مرا ہے، وہ شہر کانہایت معتبر اور معزز تاجر تھا۔ خدا غریق ِ رحمت کرے مرحوم کو،جس کی آجاتی ہے وہ ہر بہانے سے جاتا ہے۔ اسے کیا تھا؟ صرف دو دن کا بخار تھا، بھلا چنگا آدمی تھا۔ دیکھو میاں موت کیسی اندھی ہوتی ہے کہ پیرو جوان کو نہیں دیکھتی۔‘‘ 

مجھے پچپن ہی سے موت کے نام سے وحشت تھی۔ میں نے نہایت بے قراری سے پوچھا، ’’کیا موت ایسی ظالم ہوتی ہے؟ میں نے گردن جھکا لی۔ راستہ اور بھی ویران ہوتا گیا۔ فواد کہتا رہا، ’’زندگانی کااعتبار ہی کیا؟ پھر بھی لوگ موت کو بھولے ہوئے ہیں۔ گناہ کرتے ہیں، چوری، قمار بازی، جھوٹ۔‘‘ 

مجھے غصہ آگیا۔ میں کہہ چکا ہوں کہ جب سے جیروس آیا تھا، ایک دیوانگی کی سی کیفیت محسوس کر رہا تھا کیونکہ میرے اندرورنی جذبات اور صدمات مجھے ہمیشہ متوحش رکھتے تھے۔ میں بے ساختہ بول اٹھا، ’’گناہ سبھی کرتے ہیں، اس سے تو خود آپ بھی بری نہیں۔‘‘ 

’’بے شک نہیں!‘‘ فواد مسکرا کر بولا، ’’مگر خدا علیم ہے کہ میں نے کبھی چوری نہیں کی۔ کبھی کسی سے دغا بازی نہیں کی۔ کسی کو دھوکا نہیں دیا۔ عیسائیوں اور یہودیوں کی طرح شراب نہیں پی، مگر سو چولو گ آئے دن کیسے جیسے جرم کرتے ہیں۔‘‘ 

’’جرم؟‘‘ جرم کے نام ہی سے میرا خون خشک ہوتا تھا۔ مجھے اس نام سے وحشت تھی۔ میں چلا اٹھا، ’’خدا کے لیے خاموش رہو۔ میں برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘ فواد زیادہ پر اسرار نظر آنے لگا۔ بولا، ’’تم ابھی کمسن ہونوجوان دوست! جرم کے نام سے ہی وحشت زدہ ہو گیے؟ مگر خیال کرو کہ لوگ کس بے باکی سے جرم کے مرتکب ہو تے ہیں۔ لڑتے ہیں، جھگڑتے ہیں۔ ایک دوسرے کو زخمی کرتے ہیں اور بعض تو قتل بھی کرتے ہیں۔‘‘ 

میرے منہ سے ایک چیخ نکل گئی۔ ’’قتل؟‘‘ میں لرز گیا۔ ’’اف قتل؟‘‘ میں بہت دیر تک کانپتا رہا۔ پھر عالم بے اختیار میں چیخیں نکل نکل گئیں۔ ’’بوڑھے آدمی قتل؟ لوگ قتل بھی کرتے ہیں۔۔۔؟ تو۔۔۔ تو اس کی سزا کیا ملتی ہے؟‘‘ 

’’خون کا بدلہ خون۔۔۔ یہ مذہب کا حکم ہے۔‘‘ فواد نے ایک عجیب حقارت آمیز تبسم کے ساتھ کہا۔میں اب تک اپنے ہوش میں نہ تھا۔ ’’اُف اُف۔۔۔ بلند آسمان! چپ رہو! چپ رہو!‘‘ میں نے فواد کے کندھوں کو پکڑ لیا اور قبرستان کے آسیب زدہ درختوں کے سایوں سے نکل کر جلدی سے ایک تنگ راستے پر لے آیا۔ سورج بالکل ڈوب چکا تھا اور تاریکی پھیل رہی تھی۔شام کی منحوس چڑیاں ویران راستوں پر چیخیں مار رہی تھیں۔

بوڑھے فواد نے خوف سے کانپ کر کہا، ’’بیٹا! تم تو پاگل معلوم ہوتے ہو، مذہب کا یہی حکم ہے۔ مگر اب قاتل کہاں ملتے ہیں؟ ان کاسراغ کون لگاتا ہے؟ عدالتیں ہیں مگر انصاف مفقود!‘‘ میں مسکرایا، ’’تو پھر آج کل کے قاتل یو نہی چھوڑ دیے جاتے ہیں؟‘‘ 

( ہنس کر)

’’خوب! قتل کرو اور زندہ رہو! زندگی کے مزے لوٹو، خوب!‘‘ 

فواد نے نہایت جوشیلے لہجہ میں کہا، ’’نہیں میاں نہیں، ایسا مت سمجھو۔ عدالت پر خاک ڈالو۔ یہاں کی عدالت قاتل کو نہ پہنچان سکے تو کیا ہوا۔۔۔؟ پرور دگار موجود ہے اور اس کی طاقت موجود۔۔۔! وہ ایک ایسی زبردست طاقت ہے جو ہر مجرم کو اس کی سزا کو پہنچاتا ہے۔‘‘ 

’’وہ کس طرح؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ وہ کہنے لگا، ’’میں نے حال ہی میں ایک مصنف۔۔۔ ایک پرانے مصنف کا قصہ پڑھا۔‘‘ ’’اس میں کیا لکھا ہے بھلا؟‘‘ میں نے شوق ظاہر کیا۔وہ نہایت عالمانہ لہجہ میں کہنے لگا، ’’اس میں لکھا ہے کہ قاتل پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ چھپا ہوا قابل نیچے کی طرف سے پکڑا جاتا ہے۔ اور۔۔۔‘‘ 

میں نے قطع کلام کیا، ’’اُف! ظالم! جھوٹے ہو تم!‘‘ 

’’میں جھوٹ نہیں بولتا!‘‘ 

میں نے کچھ سوچ کر سوال کیا، ’’بولو۔ تمہارے خاندان میں کوئی ڈاکٹر بھی گزرا ہے؟‘‘ 

’’مجھے خبر نہیں!‘‘ 

’’تو خیر۔۔۔ اچھا کہو کہ چھپا ہوا قاتل کس طرح پکڑا جاتا ہے۔‘‘ 

اس نے پھر گفتگو شروع کی، ’’سنو اس کتاب میں لکھا ہے کہ ایک قاتل تین سال،تین ماہ، تین دن کے اندر ہی اندر اپنے جرم کا اقبال کر لیتا ہے۔‘‘ 

’’کیو ںکر لیتا ہے؟‘‘ میں نے نہایت بے چینی اور حیرت سے پوچھا۔

’’اسے کرنا پڑتا ہے۔ وہ ضرور کرے گا۔ کرچکا ہے۔ بہت سے قاتلوں نے کرلیا۔ تین سال تین ماہ، تین دن! اگرچہ وہ عدالت میں جھوٹ بولتا ہے، انصاف کی آنکھوں میں خاک ڈالتا ہے۔ قانونی مشیروں کو رشوت دے دے کر انہیں کاٹھ کی پتلیاں بنا چھوڑتا ہے۔ تاہم۔۔۔ تاہم۔۔۔ اک مضبوط طاقت اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ۔۔۔ وہ اپنے جرم کا اقبال کر لے۔‘‘ 

’’وہ کیا طاقت ہے؟‘‘ میرے منہ سے ایک چیخ نکل گئی۔

’’ضمیر۔۔۔! معمولی لفظ ہے۔ہر لغت میں موجود!‘‘ 

میں بت بن گیا تھا، ’’کیا ضمیر ہر انسان میں موجود ہوتا ہے؟‘‘ 

فواد مسکرایا، ’’میرا تو خیال ہے کہ حیوان میں بھی ضمیر موجود ہے، جبھی تو پالتو کتا بھی مالک کے ہاں چوری نہیں کرتا۔‘‘ 

’’تو پھر مجھ میں بھی۔۔۔ ضمیر کی بلا موجود ہے؟‘‘ 

فواد متعجب ہوا، ’’ہاں یقینا جب کہ تم انسان ہو۔ مگر تم اسے بلاکہتے ہو بھلے آدمی؟‘‘ میں کوئی جواب نہ دے سکا مگر پوچھا، ’’تم نے کس کتاب میں یہ باتیں پڑھیں؟‘‘ 

’’ایک پرانے مصنف کی کتاب میں۔ ہاں تین سال۔۔۔ اس اثنا میں قاتل کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ خواہ کسی بہانے سے، وبا سے، بخار سے یا پھر عدالت کی طرف سے۔ کچھ نہیں تو ضمیر خود اسے خودکشی کی ترغیب دیتا ہے۔ اسے مجبور کرتا ہے۔‘‘ 

’’تم پر لعنت ہو،لعنت!‘‘ میں نے نفرت انگیز لہجہ میں کہا۔ میرا خون میری رگو ں میں دوڑ نے لگا۔ میرا سر چکرانے لگا۔ کہیں مجھے غش تو نہیں آرہا؟ ایک عجیب جنون کی سی کیفیت میں میں نے اپنے گھر کی راہ لی اور راستہ بھر یہی سوچتا گیا کہ کہیں فواد ڈاکٹر رشدی کا کوئی رشتہ دار تو نہیں، میں بے تحاشا اپنے کمرے میں بھاگا۔

(باب ۲)
محبت یا ہلاکت!

میری موت تھی رازِ الفت کے ساتھ
رہا ضبط آخر گلا گھونٹ کر

جب میں واپس اپنے کمرے میں آیا تو تاریکی بڑھ رہی تھی۔ زندگی کی تمام قوتیں جس طرح موت کے وقت سلب ہو جاتی ہیں،اسی طرح دن کی روشنیاں مغرب میں گم ہوتی جاتی ہیں۔ گرم موسم کی شفق کی گہری سرخی کمرے کی اونچی اونچی سفید دیواروں کو رنگین کر رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھاجیسے کہ کسی مقتول کے تازہ گرم خون کے چھینٹے ہیں۔میرے مزاج میں سودا سما گیا۔ عالم وحشت میں بھاگا بھاگا کمرے کے آخری حصے میں گیا۔ میز پر ایک آئینہ پڑا تھا، اس میں اپنی شکل دیکھ کر منہ سے بے تحاشا چیخیں نکل گئیں۔

’’آہ! وہ میری اگلی حسین صورت کدھر غائب ہو گئی تھی؟ وہ شگفتہ رخسار سرخ لب کیا ہو گیے؟‘‘ آئینہ دیکھ کر میں لرز گیا۔۔۔ سرخ انگاروں کی سی آنکھیں،گلے کی رگیں ابھری ہوئی، چہرہ تمتمایا ہوا۔ اس پر غضب یہ کہ خود بخود ایک نامعلوم طریق پر میری مٹھیاں مضبوطی سے بند ہو ئی جاتی تھیں۔میں عالم وحشت میں نوکر کو چیخ چیخ کر آوازیں دینے لگا۔ زور سے چیخا۔ ایسی بلند آواز سے کہ در و دیوار لرز گئے! اُف وحشت!

’’حضور‘‘ نوکر نے کمرے میں آکر جواب دیا۔

’’دوست، ایک چھری تو لاؤ۔۔۔ ایک تیز چھری۔۔۔ چھرا۔۔۔ جلدی کرو، جلدی کرو۔‘‘ 

وہ سہم گیا، ’’حضور۔۔۔‘‘ 

’’بے وقوف!‘‘ میں چلا اٹھا، ’’زیادہ مت بکو! جاؤ بھاگو! تم نے لمبا سا کرتہ پہن رکھا ہے۔ اس کے نیچے۔۔۔ چمکدار۔۔۔ لمبی سی تیز چھری لے آؤ۔۔۔‘‘ 

اِدھر وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔ اُدھر میں نے نکٹائی کھول کر پھینک دی۔ کوٹ اتار دیا۔ چھری کے انتظار میں لمبے لمبے قدم ڈالتا ٹہلنے لگا۔۔۔ یکا یک چونک پڑا۔کہیں وہ میرے مجنونانہ حرکات کی اطلاع پولیس کو نہ دے۔ اس خیال کے آتے ہی کمرے سے باہر نکلا، دیکھا تو واقعی وہ زینہ طے کر رہاتھا۔ میں نے پیچھے سے جاکر اسے پکڑ لیا اورساتھ لے آیا اور ایک کمرے میں ڈال کر کمرہ مقفل کردیا۔ اس کارروائی کے بعد میں نہایت اطمینان سے اپنے کمرے میں چلا گیا اور دروازہ بند کرلیا۔ کرسی کھینچی اور میز پر بیٹھ گیا اور اپنی عبرت انگیز۔۔۔ مختصرزندگی کے حالات لوگوں کی عبرت کے لیے نہایت جلدی جلدی ایک کاغذت پر لکھنے لگا۔


(باب ۳)
بیروت

ابھی کمسن ہو رہنے دو، کہں کھو دو گے دل میرا
تمہارے ہی لیے رکھا ہے لے لینا جواں ہو کر

بیروت میرے چچا کی لڑکی تھی، جسے ان کے والدین کے انتقال کے بعد میرے والدین نے اپنے سایہ عاطفت میں لے لیا تھا۔ وہ شام مجھے کبھی نہ بھولے گی جب کہ چھوٹی بیروت پہلی مرتبہ اپنے والدین کے انتقال کے بعد ہمارے پاس اپنی انّا کے ساتھ ہمیشہ کے لیے آگئی تھی۔

چونکہ اماں جان کو لڑکیاں بہت پسند تھیں اور ان کے کوئی لڑکی نہ تھی، اس لیے انہو ں نے بیروت کو ایک عطیہ الٰہی سمجھ کر اس کی پرستش شروع کردی۔ ان کی محبت بیروت سے کچھ اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ بعض اوقات مجھے رشک ہوتا تھا۔ ابا جان بھی اس پر فریفتہ تھے۔ ایک تو بھتیجی، اس پر مرحوم بھائی کی نشانی! جتنا بھی چاہیں کم۔

ایک انہیں دونوں پر کیا منحصرہے۔بیروت کا حسن اس کی ہر دل عزیزی کا سبب تھا۔ بچہ، بوڑھا، اپنا، پرایا، سبھی اس کے گرویدہ تھے۔ اماں جان سے ان کی سہیلیاں ملنے آتی تھیں تو بیروت کو اپنی بیٹیوں کی طرح پیار کرتی تھیں۔ غرض بیروت بہت جلد ہمارے خاندان میں گھل مل گئی۔ وہ محل میں ایک بلبل کی طرح چہچہاتی پھرتی تھی اور ہر شخص اس کے ناز اٹھانے کو تیار نظر آتا تھا۔ وہ مجھ سے دوسال چھوٹی تھی اور ہم دونوں میں بے حد ملاپ تھا۔

اب ہم دونوں کی تعلیم و تربیت کا زمانہ شروع ہو گیا تھا۔ ابا جان نے ہم دونوں کو اسکول میں داخل کرا دیا۔ گھر پر بھی ہمارے لیے اتالیق مقرر کیے گیے۔ بیروت کے لیے ایک اوراستاذ بھی مقرر کیاگیا جو ہفتے میں دو مرتبہ اسے موسیقی کے سبق دیا کرتا تھا۔ یہ ہوا تعلیم کا انتظام۔ ادھر ہماری تربیت کے لیے اماں جان ہی کیا کم تھیں، اس پھر دو فرانسیسی گورنسیں بھی مقر ر کی گئیں۔ ایک مصری مولوی صاحب بھی تھے جو خاص مذہبی باتوں کے لیے مقرر کیے گیے تھے۔ ان تمام باتوں کاخوشگوار نتیجہ یہ ہوا کہ ہم ترقی کرنے لگے۔ بیروت تو آٹھ سال کی عمر ہی ہی فرانسیسی زبان ایسی شستہ اور خوش لہجہ میں بولا کرتی تھی، جیسے وہ اپنی مادری زبان فارسی بولتی تھی۔ اس نے’’مقدس کتاب‘‘ کی کئی دعائیں یاد کرلی تھیں۔ ستار و ہ نہایت عمدگی سے بجایا کرتی تھی۔

غرض دن گزر تے گیے۔ اب بچپن کی منزل طے کر کے ہم آہستہ آہستہ لڑکپن کے زینہ پر قدم رکھ رہے تھے۔ بیروت کو اسی مہینے تیر ہواں سال لگا تھا اور اب تو وہ اس قدر ترقی کر گئی تھی کہ لوگ عش عش کر رہے تھے، مگر ابھی وہ بچہ ہی تھی، اسے ابھی بہت کچھ سیکھنا تھا۔

حرم سرا میں اماں جان کا ایک نہایت خوبصورت ملاقاتی کمرہ تھا، جس کے آگے سرخ گلاب اور چنبیلی کا باغیچہ لگا تھا۔ گرمیوں کی ایک صبح میں گرمی سے پریشان ہو کر اپنے کمرے سے باہر نکالا اور اماں جان کے پائیں باغ میں بیروت کو ڈھوٹڈتا ہوا چلا گیا، مگر بیروت وہاں نہیں تھی۔ اماں جان اپنے کمرۂ ملاقات میں تھیں اور ادھر سے بہت سی خواتین کے ہنسنے بولنے کی سریلی آوازیں آرہی تھیں۔ اس کمرے کے دروازوں پر ہری ہری چلمنیں پڑی تھیں۔ کبھی کبھی کنیزیں جلد جلد کمرے سے باہر نکلتی ہوئی اور واپس جاتی نظرآتی تھیں۔

مجھے حیرت تھی کہ وہاں کیاں ہو رہا ہے۔ اگرچہ میں ابھی پندرہ سالہ بچہ ہی تھا، تاہم مجھے خواتین سے بڑی جھجھک معلوم ہوتی تھی۔ میں دبے پاؤں زینے طے کر کے ایک دریچے کے پاس گیا اور جھانکنے لگا مگر میں کچھ نہ دیکھ سکا سوائے اس کے کہ بہت سی عورتیں کسی ایک چیز کو گھیرے ہوئے تھیں اور نہایت مسرور معلوم ہوتی تھیں۔ وہ سب مسلم سنگار کیے ہوئے تھیں۔آنکھو ں میں سرما لگا ہو ا تھا۔ ناخنون پر حنا کا رنگ چڑھا ہوا تھا اور سیاہ ریشمی رومال سب کے سروں پر لپٹے ہوئے تھے۔گردنوں پر صندل بھی لگایا گیا تھا، جسے مشرقی عورتیں خوشی کے موقعوں پر استعمال کرتی ہیں۔

یا اللہ! یہ کیا ماجرا ہے! میں سخت پریشان ہو گیا۔ اسی وقت ایک بوڑھی اور پرانی حبشن خادمہ باہر نکل آئی۔ میں نے اس سے سوال کیا، ’’زینب!یہاں کیا ہو رہا ہے؟ بیروت کہاں ہے؟ 

بوڑھی حبشن بہت ہی مسرور نظر آرہی تھی۔ بگڑی ہوئی عربی میں بولی، ’’تم اندر جاسکتے ہو!کوئی تم سے پردہ نہ کرے گا۔ ابھی تم بچے ہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ مگر میں اڑ گیا۔ ’’کبھی نہیں میں اندر جاؤں گا! میرا ہاتھ چھوڑ دو۔ یہاں کیا ہو رہا ہے؟ بیروت کو بلا دو۔۔۔‘‘ وہ اپنی بھدی آواز میں ہنسنے لگی، ’’صاحب زادے! اب تمہاری بہن یہاں نہ آئے گی۔‘‘ 

’’یہاں نہ آئے گی کیوں؟‘‘ میں نے متحیر ہو کر پوچھا۔

’’وہ غلاموں اور دوسرے مرد خدمت گاروں کی موجودگی میں یہاں نہیں آسکیں گی۔‘‘ اس کے جواب نے مجھے اور بھی متعجب کر دیا۔ مجھے غصہ آگیا۔ پوچھا، ’’اوتم بوڑھی لومڑی! مذاق کرتی ہو مجھ سے؟ کیا غلام اور دوسرے مرد خدمت گار اسے کھالیں گے؟‘‘ 

بوڑھی حبشن نے کوئی جواب نہیں دیا اور چوبے ملیدے کا ایک بڑا طباق اٹھا کر اندر چلی گئی اور میں پریشان برآمدے میں ٹہلتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد میری چھوٹی چچی باہر نکل آئیں۔ انہوں نے مجھے پکارا، ’’آو۔۔۔ شربت پیو۔۔۔‘‘ 

’’بیروت کہاں ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔وہ مسکرائیں۔ سبز لباس میں وہ ایک پری معلوم ہوتی تھیں۔ بولیں، ’’وہ اندر ہے۔‘‘ 

’’تو اسے یہاں بھیج دیجئے۔‘‘ میں نے التجا کی۔ ان کے رخسار جگمگانے لگے، ’’وہ یہاں نہیں آسکتیں۔‘‘ 

’’کیوں؟ کیا بیمار ہیں؟ اور یہ سب عورتیں کیوں آئی ہیں؟‘‘ 

’’تمہاری شادی ہوگی۔‘‘ چچی نے حسبِ معمول مذاق شروع کردیا۔ وہ بڑی چلبلی عورت تھیں۔

’’جعفر کی شادی ہو رہی ہے اور ہم سب کے سب شریک ہیں۔‘‘ 

’’للہ چچی۔۔۔‘‘ میں نے تنگ آکر کہا، ’’مجھے پریشان نہ کیجئے اور فرمائیے کہ کیا ہو رہا ہے۔ بیروت کو آپ لوگوں نے کیوں پکڑ رکھا ہے؟‘‘ 

چچی شیریں زور سے ہنسنے لگیں، ’’بچے! تیری بہن نے آج پہلی دفعہ نقاب پہنی ہے۔ اسی کی خوشی میں سب کی دعوت ہے، خواتین کی۔ میں تمہاری ماں کے بلاوے پر صبح سے آئی ہوئی ہوں۔ بیروت اب مردوں کے آگے بے نقاب نہیں آئے گی۔ یہ گناہ ہے۔‘‘ 

یہ سن کر میرا سر چکرا گیا، ’’آہ! وہ عورت بن گئی! اب وہ قیدیوں کی سی زندگی بسر کرے گی!حرم سرا کی اونچی اونچی دیواروں میں مقید کردی جائے گا۔ امی جان اور کنبے کی دوسری خواتین کی طرح سیاہ رومال سے اپنے بال اور نصف چہرہ چھپائے گی۔آہ! آہ! میرے ساتھ باغوں میں کودتی نہ پھرے گی! حکم ہے۔ یہ حکم ہے! پردہ۔۔۔ عورتوں پر ظلم ہے۔ یہ رسم تو بوڑھیوں کے لیے مخصوص ہونی چاہیے نہ کہ لڑکیوں کے لیے۔‘‘ چچی شیریں ہنس پڑیں، ’’تم بڑے بے وقوف ہو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ یہودیوں کی طرح اور عیسائیوں کے مانند تمہاری بہن ماری ماری گلیوں میں پھرا کرے۔‘‘ 

ان باتوں پر بحث کرنے کے لیے میں بہت چھوٹا تھا۔ میں گھبرا کر اپنے کمرے میں بھاگ گیا اور دریچے کے پاس ایک کوچ پر لیٹ کر رونے لگا۔ بیروت کی آزادی کانوحہ،

آزادیاں کہاں وہ بچپن کی تھیں وہ باتیں
اپنی خوشی سے آنا، اپنی خوشی سے جانا

خدا جانے میں کتنی دیر روتا رہا کہ گھڑیال نے آٹھ بجا دیے۔ دیکھا تو دھوپ شیشے کے دریچوں اور دروازوں میں سےچھن چھن کر اندر آرہی ہے اور کمرہ جگمگا رہا ہے۔ دفعتاً میری نظر دریچے کی طرف اٹھی۔ دیکھا کہ اماں جان اور چچی برآمدے میں سے گزر رہی ہیں اور ان کے ساتھ سیاہ ریشمی اور لمبی چادروں میں لپٹی ہوئی ایک لڑکی چپ چاپ چلی جارہی ہے۔ میں دولمحے غور سے دیکھتا رہا پھر سمجھ گیا کہ یہی میری بہت بیروت ہے۔ آہ! میری بیروت! وہ آج کن مصائب میں گرفتار ہے۔

میں اٹھ کھڑا ہوا اور دبے پاؤں اماں جان اور چچی کے ساتھ ساتھ گیا۔ وہ لوگ بیروت کو لے کر اس کے کمرے میں داخل ہوگیے اور میں کمرے کی دیوار کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور جھانکنے لگا۔

’’جعفر! میری ماں کی آواز تھی۔

’’جی۔۔۔؟‘‘ 

’’اندر آؤ بیٹا! کوئی نہیں ہے۔ اندر چلے آؤ پیارے۔‘‘ 

میں ڈرتے ڈرتے بیرو ت کے کمرے کا سبز پردہ ہٹا کر اند رداخل ہوا۔ کمرے میں عود و عبیر کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ بیروت ایک مخملی صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ایک چھوٹی سی دریچی میں سے سورج کی تیز اور گرم شعاعیں اس پر پڑ رہی تھی۔ وہ بالکل ایک گڑیا معلوم ہوتی تھی۔ اس کا نصف چہرہ باریک جالی کے سیاہ نقاب میں چھپا ہو اتھا۔ صرف اس کی آنکھیں اور پیشانی مجھے نظر آرہی تھی۔ اس کے لمبے سیاہ بال چادر میں سے ہو کر نیچے قالین پر کچھ کچھ لٹک رہے تھے۔ وہ اس وقت ایک مغرور سطان کی طرح بیٹھی زمین کو دیکھ رہی تھی اور بظاہر بہت خوش نظر آتی تھی۔ اسے اس کا احساس نہ تھا کہ اس کی آزادی سلب کر لی گئی ہے۔

 اماں جان اس وقت ایک سفید ریشم کا خوبصورت لباس پہننے ہوئے تھیں۔ ان کا چہرہ مسرت کے سبب سرخ ہو رہا تھا۔ وہ ہنس کر بولیں، ’’تمہاری بہن تمہارے ساتھ اب باہر ناچتی نہ پھرے گی۔‘‘ میں کچھ نہ بول سکا۔ میں نے دروازہ کھولا اور جلدی سے باہر نکل گیا۔


(باب ۴)

چاہ کا نام جب آتا ہے بگڑ جاتے ہو
وہ طریقہ تو بتادو تمہیں چاہیں کیونکر

ان واقعات کو پانچ سال کا عرصہ گزر گیا۔ اگرچہ اب ہم بچے نہ رہے تھے مگر ہمارے تعلقات میں کسی قسم کا فرق نہیں آیا تھا۔ ہم دونوں اب بھی دن بھر دارالمطالعہ میں بیٹھے اپنے علمی مشاغل میں مصروف رہتے۔ بڑے بڑے مصنفین کے افسانے، مشہور مشہور شعرا ء کی نظمیں پڑھا کرتے۔ اس پر لطف سلسلے اور اختلاطِ باہمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری زندگی پر محبت کی خاموش مگر زبردست طاقت نے اثر ڈالنا شروع کردیا اور ہم دونوں بہت جلدایک دوسرے پر فریفتہ ہو گیے۔ جب ہم دونوں باغ میں جاتے تو چڑیوں کے خوبصورت لہجے عین محبت کے سریلے اور میٹھے سُر معلوم ہوتھے۔ کیسا پر لطف زمانہ تھا، 

صبح عشرت کے مزے، شام محبت کے مزے
ان دنوں کچھ اور ہی تھے رنج و راحت کے مزے

بچپن کے زمانے میں تو کسے ایسی عقل ہوتی ہے کہ کسی کی محبت پر غور کر کے پہچان سکے کہ یہ محبت اصلی ہےیا نقلی مگر جب میں سنہ کے موسم بہار میں آکسفورڈ سے ڈگری لے کر واپس آیا تو چند ہی دنوں کے تجربے نے اس المناک راز کا انکشاف کیا کہ جس شدت کی محبت مجھے سیاہ چشم بیروت سے ہے، اسے مجھ سے نہیں۔ ممکن ہے یہ میرا خیال ہی خیال ہو۔بیروت مجھ سے محبت ضرور کرتی تھی کیونکہ اس کے وہ خطوط جومجھے ہر ہفتے آکسفورڈ میں پہنچتے تھے، اس کی محبت کے شاہد ہیں جو میرے ساتھ تھی مگر اسے وہ عشق نہ تھا جو مجھے اس کے ساتھ تھا۔ا ماں جان کو بھی میرے اس عشق کی خبر تھی اور ایک انہیں پرکیا منحصر ہے،سب جانتے تھے کہ مجھے بیروت سے محبت ہے۔ میری محبت کو بھلا محبت کون کہتا تھا۔ اسے سب دیوانگی یا جنون جیسے الفاظ میں یاد کرتے تھے۔

ایک دفعہ رات کے کھانے کے بعد ہم سب کے سب گاڑیوں میں سیر کو نکلے۔ گیارہ بجے کے قریب واپس آئے۔ میں بڑے ہال کی ایک فرانسیسی کھڑکی میں کھڑا چاند دیکھ رہا تھا کہ بیروت مجھے’’شب بخیر‘‘ کہنے آگئی۔ میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا، ’’بیروت! تم کو وہ چاند دکھائی دے رہا ہے؟ تم ایسی ہی خوبصورت ہو۔‘‘ وہ ہنسنے لگی۔

’’مگر جعفر!‘‘ وہ کہنے لگی، ’’ایسی چمک دمک لے کر میں کیاکروں گی؟ نہ بھئی، مجھے یہ ہر گز گوارا نہیں کہ میری گردن پر بجائے میر ے چہرے کے ایک گول اور زرد چاند جگمگائے۔‘‘ 

میں نے مسکرا کر ایک محبت پاش نظر ڈالی اور نہایت عاجزی سے بولا، ’’میں سچ کہتا ہوں تم مجھے ایسی ہی خوبصورت معلوم ہوتی ہو، 

یہ حسن یہ عالم جوانی
یوسف کا فسانہ اک کہانی

یہ نرم وہ سیاہ تاکمر بال
ہیں طائر دل کے واسطے جال

یہ پھول سے سرخ سرخ رخسار
پھر اس پر غضب جمال خوددار

رفتار بلا کی فتنہ پرور
ہے جس کے تلامذہ میں محشر

یہ نرگس نیم باز آنکھیں
آفاق میں انتخاب آنکھیں

قامت وہ کہ سروپابگل ہے
پا مال دم خرام دل ہے

آنکھوں سے شراب ہے ٹپکتی
صورت سے ہے سادگی برستی

آغوش ہے پیارے کشادہ
ڈھاتا ہے غضب یہ حسن سادہ

پیاری بیروت! میں سچ کہتا ہوں، مجھے تم سے عشق ہے۔‘‘ وہ ہنس کر بولی، ’’بھئی عشق ہے تو رہنے دو۔ میں اسے کیا کروں؟‘‘ میں اس کی سادگی پر مسکرایا۔ ’’بیروت! ایسا ستم نہ کرو! ایسے خشک جواب نہ دیا کرو۔ بخدا میں اس کا متحمل نہیں! تم میرا مضحکہ نہ اڑاؤ۔ اپنے عاشق کا مضحکہ۔۔۔!‘‘ وہ زور سے ہنس پڑی، ’’آپ عاشق۔۔۔؟‘‘ 

میں نے سنجیدگی سے کہا، ’’خدا کے لیے بیروت ہنسی میں نہ ٹالو۔ سچ کہو میرے متعلق تمہارا کیا خیا ل ہے؟‘‘ وہ نہایت بے پروائی سے بولی، ’’تم اچھے لڑکے ہو۔‘‘ 

میں چونک پڑا، ’’بس؟ اچھا لڑکا؟ بس اسی قدر بیروت؟‘‘ 

 وہ ہنسی اور بولی ’’تو کیا برا لڑکا۔۔۔؟ اچھا یو نہی سہی۔‘‘ 

یہ گفتگو یہیں ختم ہو گئی مگر دوسرے دن دوپہر کے کھانے کی میز پر میں بہت ہی اداس پایا گیا، کیونکہ میں بیروت سے اپنی محبت کا اقرار کرنا چاہتا تھا، مگر وہ شریر ٹال جاتی تھی۔ میز پر اماں جان نے مجھے خلاف معمول خاموش دیکھ کر اپنی چھری اور کانٹا رکابی میں رکھ دیا اور گھبرا کر مجھ سے پوچھنے لگیں، ’’پیارے! تم بہت خاموش ہو،مزاج اچھا ہے؟‘‘ اتفاق سے چچی شیریں بھی کھانے پر آئی ہوئی تھیں۔ وہ میز کے دوسرے سرے پر تھیں۔ وہ شوخی سے مسکرا کر کہنے لگیں، 

ہائے اس زخمی شمشیرِمحبت کا جگر
درد کو اپنے جو ناچار چھپا رکھا ہے

میز پر ابا جان غیر حاضر تھے۔ وہ کہیں دعوت میں گیے تھے۔ صرف ہم چاروں کھانا کھا رہے تھے۔ اماں جان نے تو چچی شیریں کے شعر پر چند اں غور نہیں کیا، مگر شریر بیروت زور سے ہنس پڑی اور میں گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا اور باہر چلا گیا۔

(باب ۵)
بیروت کی علالت اور میرا آغاز مصیبت

کچھ اور دل لگی نہیں اس خوش نصیب سے
ہم جانتے ہیں کھیلتے ہو تم رقیب سے
کیا خوب رازدار ملا ہے نصیب سے
کھل کھیلے پردے پردے میں تم تو رقیب سے

انہیں ایام میں ایک دفعہ شہر میں کہیں شادی تھی۔ ہمارے ہاں کی تمام عورتیں مدعو تھیں۔ اماں جان اور بیروت بھی گئی تھیں۔ یہ لوگ دن بھر وہیں رہے مگر جب شام کو دونوں واپس آئے تو بیروت بے چین اور مضمحل نظر آرہی تھی۔ میں اس کی ذراسی بے کلی پہچان جاتا تھا اور خود بے کل ہو جاتا تھا۔ جو نہی گاڑی سے اماں جان اور وہ اتریں، میں نے اس سے پوچھا، ’’کیوں بیروت! کیسی طبیعت ہے؟ مضمحل سی نظر آتی ہو؟‘‘ 

’’کچھ نہیں۔۔۔ کوئی بات نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اماں جان کے ساتھ بڑے ہال میں چلی گئی۔ ابا جان بڑے ہال میں بیٹھے ’بغداد ٹائمز‘ پڑ ھ رہے تھے۔ میں بھی وہیں آگیا اور دریچے کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اماں جان دن بھرکے واقعات بڑے لطف سے ابا جان سے کہہ رہی تھیں اور وہ سن رہے تھے۔ بیروت خاموش تھی اور ایک کرسی پر لیٹی تھی۔

’’کیا بات ہے؟‘‘ ابا جان کہنے لگے، ’’بیٹی بیروت!تم بہت سست ہو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس پر جھکے اور اس کا ماتھا چھو کر کہنے لگے، ’’اوفوہ، بیروت تو سخت بخار میں مبتلا ہے۔‘‘ یہ سن کر اماں جان حواس باختہ بیروت کی طرف آئیں۔ میری پریشانی کا تو ذکر فضول ہے۔ میں نے نہایت اضطرار کی حالت میں پوچھا، ’’ابا جان! کیا کسی ڈاکٹر کو ٹیلی فون کروں؟‘‘ 

’’بہتر ہے کہ ڈاکٹر رشدی کو بلا لیا جائے۔‘‘ ابا جان نے جواب دیا۔ اس اثنا میں اماں جان بیروت کو لے کر اس کے کمرے میں چلی گئیں تھیں۔ اب شام ہو گئی تھی اور ہر طرف اندھیرا چھا رہا تھا۔ میں ٹیلی فون کر کے ڈاکٹر کے انتظار میں برآمدے میں ٹہل رہا تھا۔ اتنے میں ڈاکٹر رشدی کی کار برساتی میں آکر رکی۔ وہ خوش رونوجوان اور بہت خلیق آدمی معلوم ہوتا تھا۔

’’کیاآپ ہی ڈاکٹر رشدی ہیں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ اس نے نہایت خلیق انداز میں مسکرا کر ٹوپی اٹھائی۔ میں اسے لے کر بیروت کے کمرے میں گیا۔ اماں جان اور ابا جان بھی وہیں تھے۔ یبروت بالکل نڈھال نظر آرہی تھی اور سفید برف کے سے بستر پر زرد چنبیلی کی کلی کی طرح پڑی تھی۔

ڈاکٹر رشدی نے اس کا معائنہ کیا اور تسلی دی کہ معمولی بخار ہے۔ کل تک طبیعت سنبھل جائے گی۔ دوسرے دن واقعی بخار اتر گیا، مگر تیسرے دن ہی وہ یکا یک بے ہوش ہو گئی۔ ڈاکٹر رشدی کی تشخیص یہ ہوئی کہ وہ ہسٹریا میں مبتلا ہو گئی ہے۔ اس کے بعد اسے غشی کے دورے پڑنے شروع ہوئے اور وہ خطرناک طور پر اس مہلک بیماری میں مبتلا ہو گئی۔ باقاعدہ علاج شروع ہوگیا۔ ڈاکٹر رشدی دن میں دو دفعہ بلا ناغہ اور کبھی کبھی تین دفعہ آجایا کرتے تھے اور مریضہ سے انہیں بے حد دلچسپی ہو گئی تھی۔ کہنا فضول ہے کہ میں نے بیروت کی بیماری کے زمانے میں اس کی خدمت کس طرح کی۔ دن کا چین اور راتوں کی نیند مجھ پر حرام تھی۔

تین ماہ اس حالت میں گزر گیے۔ سب کو بیروت کی زندگی سے ناامیدی ہو گئی تھی مگر بیروت کی خوش قسمتی سے اسے ڈاکٹر ایسا ملا تھا کہ سرتوڑ کر کوشش کر رہا تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ تیمار دار ایسا تھا کہ رات دن مریض کی پٹی سے لگا رہتا تھا۔ سچ پوچھیے تو خدا کی مہربانی کے بعد ہم دونوں یعنی میری او ررشدی کی ان تھک کوششوں نے مریضہ کو دوسری زندگی بخشی تھی۔ تقدیر کو تدبیر نے اس دفعہ خوب تماشہ دکھا یا تھا۔ یہ سوال مشکل ہے کہ اس بیماری میں ڈاکٹر رشدی نے زیادہ محنت کی یا میں نے۔ دونوں ایک ساتھ نوٹنکی کرتے رہتے جس کا خوشگوار نتیجہ یہ تھا کہ آج بیروت نے غسل صحت کیا تھا۔

اماں جان کے لیے بیروت کی تندرسی کا دن عید سے زیادہ تھا۔ وہ اسی خوشی میں نیچے دعوت کا انتظام کر رہی تھیں، مگر میں بیروت کے ساتھ اوپر بالا خانے پر تھا۔ اسے چلنے پھرنے کی اگرچہ ممانعت نہ تھی مگر اس میں اتنی طاقت ہی نہ تھی کہ چل پھر سکتی۔ ڈاکٹر اب تک دن میں دو مرتبہ آکر دیکھا کرتا تھا۔

اتنے میں کسی نے دروازہ آہستہ سے کھٹکھٹایا ہی تھا کہ میں نے کہا، ’’ڈاکٹر رشدی ہوں گے تشریف لائیے۔‘‘ وہ اندر آیا۔ اس وقت اس نے ہلکے زرد رنگت کے ریشم کا کوٹ پہنا تھا۔ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ وہ ایک خوش رو نوجوان تھا۔ اب تو مسرت اور کامیابی نے اس کے چہرہ کو اور بھی روشن کر دیا تھا۔ وہ بیروت کو دیکھ کر مسکرا کر بولا، ’’اوہو خاتون! آپ نے آج غسل کرلیا۔ مجھے بے حد مسرت ہے، دلی مبارک باد!‘‘ 

بیروت مسکرائی اور خاموش ہو گئی۔ میں بو ل اٹھا، ’’رشدی! میں کس طرح آپ کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔آپ نے جو احسان عظیم مجھ پر کیا ہے، اس کے لیے اگر میں عمر بھر بھی شکریہ ادا کرتا ہوں تو کم ہے۔‘‘ 

رشدی بولا، ’’مجھے آپ کے شکریے کی ضرورت نہیں،اور جناب! سچ تو یہ ہے کہ میں یہ احسان آپ پر نہیں بلکہ اپنے آپ پر کیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس انداز سے ہنس پڑا کہ میں سناٹے میں آگیا۔ بیروت ایک سفید نفیس فلا لین کی شال اوڑھے لیٹی تھی اور دریچے کی صبح کی ہوا سے شاید کسی قدر کانپ رہی تھی۔

’’بیروت کیا دریچہ بند کردوں؟‘‘ یہ کہہ کر میں نے کھڑکی بند کردی۔

(باب، ۶)
تبدیل آب ہوا کی رائے

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

مئی کا مہینہ شرع ہو گیا تھا۔ موسم نہایت گرم ہو چکا تھا۔ اکثر اوقات شدت گرمی سے پریشان ہو کر ہم لوگ سر د پانی میں کپڑا بھگو کر اوڑھ لیا کرتے تھے۔ ایشیائی ممالک کا گرم آفتاب آگ کے شعلہ کی طرح دہک رہا تھا۔ اُف!

بیروت اگرچہ بیمار اور فریش نہ تھی مگر حد درجہ مضمحل اور ناتواں تھی اور زرد رہا کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اکثر لیٹی رہتی تھی اور میں اس کی دل جوئی اور دل بستگی کے لیے افسانے یا اخبار پڑ کر اسے سنایا کرتا تھا۔

ایک خوشگوار اور چمکیلی صبح، وہ لیٹی ہوئی تھی اور مشغلے کے طور پر ایک پرانے لفافے کو مروڑ رہی تھی۔ میں حسب معمول اس کے پاس کرسی پر نصف لیٹا تھا اور آسکر وائلڈ کا ایک معرکۃ الآراء افسانہ پڑھ کر سنا رہا تھا۔ کبھی کبھی ہم دونوں افسانوں کے کسی موضوع پر بحث بھی کرنے لگ جاتے تھے۔ دریچے کھلے ہوئے تھے اور لیمو کی گھاس کی خوشبو کمرے میں آ رہی تھی۔ سامنے باغیچے میں روشن دھوپ جگمگا رہی تھی۔ نارنگی کے درختوں پر گرم موسم کے خوش رنگ پرندے بیٹھے ابھی تک صبح کا گیت گا رہے تھے۔

اتنے میں ابا جان اندر آئے۔ میں اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’تسلیم! آئیے چچا جان،تشریف رکھیے۔‘‘ بیروت نے انہیں دیکھ کر کہا۔ ابا جان نے جھک کر بیروت کی پیشانی چومی اور اس کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بیٹھ گیے، ’’کیسی طبیعت ہے بیروت؟‘‘ والد نے سوال کیا پھر کمرے میں اِدھر اُدھر دیکھ کر رومال سے پیشانی خشک کرتے ہوئے بولے، ’’اُف! کس قدر گرم دن ہے۔ آج تو صبح ہی سے آگ برسنے لگی! پنکھا کھول دو بیٹا جعفر۔۔۔ پنکھا موجود ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اس کو استعمال نہ کیا جائے۔ ایسی بھی کیا حماقت۔‘‘ میں نے پنکھا کھول دیا۔ بیروت بولی، ’’ہاں چچا جان، بس اسی گرمی نے مجھے بے حال کردیا ہے۔ ورنہ میں کبھی کی اچھی ہو چکی ہوتی۔ ڈاکٹر رشدی گزشتہ شام مجھ سے یہی کہہ رہے تھے۔‘‘ 

’’جعفر!‘‘ ابا جان نے گرمی سے پریشان ہوتے ہوئے میری طرف دیکھا، ’’کیا یہ بہتر ہوگا کہ بیروت برائے چند ے کسی پہاڑ چلی جائیں؟ میرے خیال میں’’مارس فور‘‘ کی آب و ہوا اس کے لیے مفید ہے۔ یہاں کی گرمی اس کے لیے بہت مضر ہوں گی۔ تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘ یہ جملہ ابھی ختم بھی نہ ہواتھا کہ ڈاکٹر رشدی اپنے وقت پر دروازے پر آ موجود ہوئے۔

’’تسلیم ‘‘ آتے ہی انہوں نے ہم سب کو دیکھ کر کہا۔

’’اے لو۔۔۔ ڈاکٹر رشدی بھی آگیے۔‘‘ ابا جان بول اٹھے، ’’ڈاکٹر صاحب! میں چاہتا ہوں کہ بیروت کو مارس فور بھیج دو ں۔‘‘ ڈاکٹر رشدی چونک پڑا، ’’کیا اتفاق ہے جناب!میں خود اگلے ہفتے مارس فور جارہا ہوں۔ میں نے کل ہی صاحب زادی سے کہا تھا کہ اگر وہ مارس فور چند دنوں کے لیے چلی جائیں تو بہتر ہے۔‘‘ 

میرے والد نہایت مسرور لہجہ میں بولے، ’’واہ خوش قسمتی ہے کہ آپ بھی مارس فور تشریف لے جارہے ہیں۔ تو جعفر! میری رائے ہے کہ تم سب کے سب اگلے ہفتے کی شام ہی کو چلے جاؤ۔‘‘ 

’’جناب! کیا میں بھی جاؤں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

’’ہاں ہاں تم بھی۔۔۔ مہربانی کر کے ذرا اپنی اماں سے پوچھ آؤ۔ وہ بھی ساتھ چلیں گی یا نہیں۔ انہیں ہمیشہ شہر کی دعوتوں میں شریک رہنا پڑتا ہے۔ مجھے امید نہیں کہ وہ چلیں۔‘‘ 

یہ سن کر میں حرم سرا کی طرف گیا اور اماں جان سے کل کیفیت کہہ سنائی۔ اس وقت وہ اپنی چند بوڑھی سہیلیوں سے مصروفِ گفتگو تھیں۔ کیفیت سن کر کہنے لگیں، ’’اے ہے تمہارے ابا کو کیا ہوگیا! بیروت کو کہاں بھیج رہے ہیں؟ میرا تو ارادہ ہے کہ اس ماہ کے اختتام پر اس کا بیاہ کردیا جائے۔ خیر سے اب تم بھی تو ہر طرح سے تیار ہو۔ شادی ہو جائے تو دونوں’’ایام عروسی‘‘ بسر کرنے مارس فور جاسکتے ہو۔‘‘ ان کی دوسری سہیلیوں نے بھی یہی رائے دی۔

میں کہنے لگا، ’’اماں جان! بیروت ابھی بہت کمزور ہے۔ میرے خیال میں اسے چند دن کے لیے مارس فور بھیجا جائے تو واقعی بہت بہتر ہے، شادی کی کیا جلدی ہے۔‘‘ اماں جان بولیں، ’’کمزور ہے تو کیا ہوا، طاقت آہی جائے گی۔ وہ خدا نخواستہ کچھ بوڑھی تھوڑی ہے کہ طاقت آتے سالہا سال لگ جائیں، اور تم میرے جانے کے متعلق پوچھتے ہو۔ میں تو جاہی نہیں سکتی۔ شہر میں کئی ایسی شادیاں ہونے والی ہیں، جہاں میرا جانا بہت ضروری ہے۔ لو۔۔۔ میں خود وہاں آؤں گی اور تمہارے ابا سے بات چیت کروں گی۔ تم جاؤ۔‘‘ 

میں اوپر آیا۔ جونہی مجھ پر ابا جان کی نظر پڑی بولے، ’’بھئی تم نے تو بڑی دیر لگا دی۔‘‘ میں نے کہہ دیا کہ، ’’والدہ نہیں جا سکتیں۔‘‘ یہ سن کر ابا جان کہنے لگے، ’’تو میں ساتھ چلوں گا۔ تم، میں، بیروت اور ڈاکٹر رشدی۔ تو یہ مختصر قافلہ اگلے ہفتے یہاں سے کوچ کرے گا۔‘‘ 

اسی وقت اماں جان اوپر آئیں، ’’کون سا قافلہ؟ کہاں جائے گا۔۔۔؟‘‘ ان کے اچانک سوال پر سب کی نظر اوپر اٹھی۔ سب نے ان کا خیر مقدم کیا اور وہ ایک صوفے پر بیٹھ گئیں۔ ابا جان نے کل کیفیت کہہ سنائی۔ اماں جان ابا جان کی طرف دیکھ کر بولیں، ’’ناصر! تم تو میری امیدوں پانی پھیر رہے ہو۔ ایسی کیا ضرورت ہے کہ ابھی سے بیروت مارس فور بھیجوادی جائے۔‘‘ 

’’مطلب؟‘‘ ابا جان نے سوال کیا، ’’تو آپ یہ چاہتی ہیں کہ دو مہینے بعد جب گرمیاں رخصت ہو جائیں گی اور سردیاں تشریف لاویں گی ہم پہاڑ کی سردی سے ٹھٹھرنے کے لیے وہاں جائیں؟‘‘ اماں جان ہنس پڑیں، ’’میرے خدا! اچھا مطلب اخذ کیا آپ نے۔ میری تمنا یہ ہے کہ اس ماہ کے اختتام پر عقد ہو جائے۔‘‘ 

’’عقد؟ کس کا عقدکروگی؟‘‘ ابا جان نے پوچھا۔

اماں جان مسکرائیں، ’’ماشاء اللہ!آپ تو آج کسی بات کو پہنچانتے ہی نہیں۔ جانے کیا ہو گیا ہے۔۔۔ عقد کس کا کروں گی؟ بھتیجی کا، بیٹے کا۔ کیوں ڈاکٹر صاحب!کیا یہ بہتر ہوگا کہ عقد کے بعد دونوں کوایامِ عروسی بسر کرنے کے لیے مارس فور بھیجا جائے؟‘‘ 

ڈاکٹر رشدی گومگو کی حالت میں تھا۔ ابا جان نے فرمایا، ’’او۔۔۔ میں اب سمجھا۔ یہ مطلب تھا آپ کا۔ مجھے کوئی عذر نہیں مگر ڈاکٹر کی رائے سب پر مقدم ہے۔‘‘ 

یہ سن کر اماں جان ڈاکٹر رشدی کی طرف دیکھنے لگیں، ’’کیوں ڈاکٹر صاحب! آپ اپنا خیال ظاہر کیجئے۔‘‘ ڈاکٹر تھوڑی دیر بعد مسکرائے، ’’خاتون!میں میں کیا عرض کر سکتا ہوں؟ مگر میری رائے تویہی ہے کہ بہتر ہوتا عقد کا خیال دو چار ماہ کے لیے ملتوی کردیا جائے۔ آپ لوگوں کو کوئی عذر تو نہیں؟‘‘ 

’’نہیں کوئی عذر نہیں۔‘‘ ابا جان نے جواب دیا مگر اماں جان مایوس نظر آنے لگیں۔ ’’خیر، جب آپ کا یہی خیال ہے تو میں صبر کرلوں گی۔‘‘ بارے وہ پھر ابا جان کی طرف دیکھ کر بولیں، ’’تو آپ سب لوگ کب جائیں گے؟‘‘ 

’’اگلے ہفتے کی شام۔‘‘ 

غرض ہم لوگ ہفتے کی شام مارس فور کے لیے نکل گیے۔

(باب ۷)
مارس فور

وہی میں ہو ں کہ غیروں کو وہاں آنے نہ دیتا تھا
وہی میں ہو ں کہ پہروں منتیں کرتا ہوں غیروں کی

بیروت اس سفر سے بے حد خوش تھی اور اسے خوش دیکھ کر میں خوش تھا۔ بیروت گویا میری جان تھی اور میں قالب۔مارس فور کا موسم بے حد خوشگوار تھا اور صبح کے وقت خاصی خنکی محسوس ہوتی تھی۔ بعض اوقات عین دو پہر کے وقت بھی جرسی پہن لینی پڑتی تھی۔

صبح کا وقت تھا۔ ہم لوگ ناشتے کے بعد باغیچے میں آگیے تھے۔ یہاں تو اچھی خاصی سردی تھی۔ بیروت ایک نیلی ریشمی شال میں لپٹی ہوئی تھی اور اس قدر خوبصورت معلوم ہوتی تھی جیسی نیلی چڑیا ہوتی ہے۔ اسے دیکھ کر میں نے کہا، ’’میری جان! تم کس قدر پیاری پیاری ہو۔‘‘ 

’’بھئی مجھ سے تو چلا نہ جائے گا سردی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر ابا جان روزانہ اخبار لے کر باغ کی پہلی روش پر بیٹھ گیے۔ ڈاکٹر رشدی ملاقاتی کمرے میں کسی دوست سے باتیں کر رہے تھے۔ میں بیروت کو لے کر باغ کے آخری حصے کی طرف چلا۔ اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر دل ہی دل میں مرمٹ رہا تھا۔ آخر ضبط نہ کر سکا، ’’بیروت! آج کی صبح تو تم معمولی طور پر حسین نظر آرہی ہو۔‘‘ 

’’دیوانے تو نہیں ہو گیے؟‘‘ اس نے بے ساختہ ہنستے ہوئے کہا۔میں چلتے چلتے رک گیا۔ اس کی طرف دیکھ کر بولا، ’’واللہ! میں مذاق نہیں کرتا! تم آخر یقین کیوں نہیں کرتیں؟ خدا کے لیے بیروت یہ توبتاؤ کہ تم مجھے کتنا چاہتی ہو؟‘‘ 

’’اتنا۔۔۔!‘‘ اس نے دونوں ہاتھوں سے ایک گول دائرہ بناتے ہوئے کہا۔ اب تو مجھے بھی ہنسی آگئی، ’’تم بڑی شریر ہوبیروت! شریر اور پیاری!‘‘ 

’’اور تم؟‘‘ اس نے شوخ لہجہ میں کہا، ’’شریر اور احمق!‘‘ 

’’احمق؟ بیروت! تم مجھے احمق سمجھتی ہو؟‘‘ 

’’ہاں۔۔۔ کیونکہ محبت کرنا بے وقوفی ہے۔ اسی لیے عاشق کو میں احمق کہا کرتی ہوں۔‘‘

’’ہائے تم بڑی ظالم ہو۔ خیر یو نہی سہی۔ ہم احمق ہیں مگر یہ تو کہو آخر تم بھی تو محبت کرتی ہو۔ تم میں بھی تو یہ حماقت موجود ہے۔‘‘ 

اسی وقت ڈاکٹر رشدی صبح کی ایک نہایت نفیس فلالین میں ہلکی ہلکی سیٹی بجاتے ادھر آگیے۔ ایک چھوٹا سا سفید گلاب کوٹ کے کاج میں لگا ہوا تھا اور یہ نوجوان بہت شوخ نظر آرہا تھا۔ بیروت نے مسکرا کر ان کی طرف دیکھا، ’’صباح الخیر ڈاکٹر رشدی! آپ تو صبح سے غائب تھے!‘‘ رشدی مسکرایا، ’’جی ہاں خاتون، کچھ دوست آگیے تھے۔ انہیں رخصت کر کے آرہا ہوں۔‘‘ 

’’گویا ان سے پیچھا چھڑا کے آرہے ہیں آپ۔‘‘ بیروت نے شگفتہ لہجہ میں کہا۔

’’بالکل یہی۔۔۔‘‘ ڈاکٹر شدی نے ہنس کر کہا۔

تھوڑی دیر اِدھر اُدھر کی گفتگو ہوتی رہی۔ پھر دفعتاً رشدی نے بیروت کی طرف دیکھ کر کہا، ’’خاتون! تم نے دھوپ گھڑی نہیں دیکھی؟ پہلے زمانے میں لوگ اسی سے گھڑی کا کام لیتے تھے۔‘‘ 

’’میں نے نہیں دیکھی، کدھر ہے؟‘‘ مشتاق لہجہ میں بیروت نے سوال کیا۔

’’وہ بہت دور ہے بیروت۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

بیروت بولی، ’’بس تم بڑے کاہل ہو۔ تم سے چلا نہیں جاتا تو یہیں بیٹھے رہو۔ ہم دونوں دیکھ آئیں گے۔ ڈاکٹر رشدی تم مجھے لے چلو گے؟‘‘ رشدی فوراً راضی ہو گیا۔ میں ہنس کر بولا، ’’ہاں تم دونوں دیکھ آؤ۔ میں یہاں بیٹھا رہوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر میں ایک کوچ پر بیٹھ گیا اور سگریٹ سلگا لیا۔ دونوں باتیں کرتے ہوئے انگور کے بیلو ں میں نظروں سے اوجھل ہو گیے۔

اب تو ابا جان بھی اپنی ڈاک دیکھنے کے لیے اندر چلے گیے تھے۔ میں اکیلا بیٹھا بیٹھا اکتا گیا۔ دیکھا تو سورج سر پر آرہا تھا۔ میں گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا اور مکان کے زینے طے کر ہی رہا تھاکہ پیچھے سے باغ میں بیروت کی سریلی آواز آئی، ’’یہ لوگ تو اندر چلے گئے۔‘‘ 

میں زینے پر کھڑا ہو گیا، ’’تم دونوں نے بڑی دیر لگا دی۔ بیروت!تم تھک تو نہیں گئیں پیاری؟‘‘ بیروت بھی اوپر آگئی بولی، ’’تم اتنی فکر کیوں کرتے ہو۔ ڈاکٹر میرے ساتھ ہیں پھر مجھے کیا فکر؟‘‘ میں مسکرایا، ’’ٹھیک ہے! ڈاکٹر کی موجودگی میں مرض محسوس نہیں ہوتا۔‘‘ 

اس کے بعد ہم سب کمرہ طعام میں آگیے۔ کھانا کھانے کے دوران میں میز پر بیروت اباجان سے دھوپ گھڑی کاحال بیان کرتی رہی۔ اُف اس کی تقریر میں بلا کا جادو تھا! اگر چہ وہ کبھی مجھ سے عشقیہ لہجہ میں بات نہیں کرتی تھی، تاہم اس کے الفاظ کچھ اس قدر میٹھے ہوتے تھے کہ میں گھنٹوں ان سے لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔

ایک صبح میں اور ڈاکٹر رشدی باغ میں بیٹھے شطرنج کھیل رہے تھے کہ بیروت آگئی اور قہقہہ لگاکر بولی، ’’شطرنج۔۔۔ خدا خیر کرے! مگر یقین کرو میاں جعفر! تم ڈاکٹر رشدی کا مقابلہ کبھی نہ کر سکو گے( ہنس کر) ڈاکٹر بڑا چلتا پرزہ ہے مگر تم نہایت کاہل اور کند ذہن ہو۔‘‘ 

اسے لوگوں میں میری تحقیر کر کے ایک خاص لطف آتا تھا اور میں ان باتوں کا عادی تھا، اس لیے مسکر کر بولا، ’’بیروت صاحبہ آپ کے فرمانے سے پہلے ہی ہمیں علم ہے کہ رشدی صاحب نہایت مشاق شاطر ہیں اور اگر میں کند ذہن ہوں تو تم آجاؤ میری مدد کو۔‘‘ 

’’کبھی نہیں۔‘‘ وہ شرارت آمیز ہنسی ہنسنے لگی، ’’بلکہ میں تو ڈاکٹر کی طرف ہو جاؤں گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ڈاکٹر کے پہلو میں بیٹھ گئی اور میرا کھیل فنا کرنے لگی۔ میں تنگ آکر بولا، ’’بیروت! یہ تم کیا غضب کرتی ہو۔ رشدی خود اچھے شاطر ہیں۔ اب تمہاری مدد کی انہیں ضرورت نہیں۔‘‘ 

’’خیر خاتون۔‘‘ رشدی نے مسکرا کر کہا، ’’مسٹر جعفر مجھ سے جلنے لگیں گے، آپ مجھے اب کچھ نہ بتائیں۔‘‘ بیروت نے رشدی کا ہاتھ پکڑ لیا، ’’کبھی نہیں ڈاکٹر رشدی! میں کبھی نہ اٹھوں گی۔ تا وقتیکہ آپ جیت نہ جائیں۔ ہاں جعفر حاسد ہیں، عجب نہیں کہ جی میں جل رہے ہوں‘‘ میں ہنس پڑا، ’’ہرگز نہیں! تم یہ کیا کہتی ہو۔۔۔ جس میں تم خوش، اُس میں میں خوش۔۔۔ تم رشدی صاحب کی طرف سے کھیل کر جیتنا چاہتی ہو تو لو۔۔۔ میں ہارنے پر تیار ہوں۔‘‘ 

بیروت ہنس کر بولی، ’’لو۔۔۔ اب یہ شرما کر لگے باتیں بنانے۔ ان کا کھیل بگڑ چکا رشدی صاحب۔ آپ بڑے ہی اچھے کھلاڑی ہیں۔ حیرا ن ہوں کہ خدا نے تم میں کتنی اچھی اچھی باتیں بھر دیں۔ دیکھو جعفر! یہ رشدی صاحب کیسے عجیب و غریب آدمی ہیں۔ اچھے شکاری ہیں، اچھے ڈاکٹر ہیں، دلچسپ جلیس ہیں، مہربان دوست ہیں۔‘‘ 

ڈاکٹر رشدی اپنی خوش قسمتی پر مسکرانے لگا۔ سچ تو ہے کہ اگر رشدی کی جگہ میں ہوتا تو سن کر مر مر جاتا۔ تھوڑی ہی دیر بعد بیروت یکا یک اٹھ کھڑی ہوئی، ’’جعفر! تم سے تو چلا نہیں جاتا، تم ایک سست مفلوج بوڑھے کی طرح ہی بیٹھے رہو، ہم دھوپ گھڑی تک جائیں گے۔ کیوں ڈاکٹر؟‘‘ 

’’بسروچشم۔‘‘ یہ کہہ کر رشدی بھی اٹھ کھڑا ہوا اور دونوں چلے گیے۔ اسی دن شام کے وقت میں برآمدے میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا اور اخبار پڑھتا جاتا تھا۔ بیروت باغ کے راستے سے میرے پاس آگئی۔ ’’کیا کر رہے ہو؟ اخبار! اسے اٹھا کر پھینکو! یہ خشک بوڑھوں کا مشغلہ ہے۔‘‘ میں مسکرا کر اخبار رکھتے ہوئے بولا، ’’کیا اخبار پڑھنا خشک مشغلہ ہے؟ بلکہ یو ں کہو کہ نہ پڑھنا خشک مشغلہ اور بوڑھوں کا مشغلہ! اس سے دنیا کے مختلف حصوں کی کیفیت سے آدمی باخبر ہو جاتاہے۔‘‘ 

’’اچھا تو لاؤ میں بھی پڑھوں۔۔۔‘‘ وہ کوچ پر بیٹھ گئی اور بڑے غور سے اخبار پڑھنے لگی۔ دوہی منٹ میں اس نے اخبار پھینک دیا۔ ’’مجھ سے تو اب پڑھا نہ جائے گا۔ شام کے وقت یہ مشغلہ موزوں نہیں۔ آج میرا جی نہیں لگتا۔ ڈاکٹر رشدی اپنے چند دوستوں کے ساتھ ہرن کے شکار کو گیے ہیں۔‘‘ 

’’ہرن کے شکار۔۔۔؟ یہ تو عورتوں یا لڑکیوں کا کام ہے۔۔۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔

’’کیوں؟‘‘ بیروت نے متعجب ہو کر مجھے دیکھا، ’’ہاں اتنے بڑے سے توانا مرد کو ایک خوبصورت سے ہرن کو مار کر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اس کے شایان ِ شان نہیں۔ یا کم از کم تمہارا عاشق تو ہرن کو مارکر خوش نہیں ہوتا۔‘‘ 

’’اپنا اپنا مذاق ہے جعفر! تم اپنی تعریف کرتے ہو۔۔۔؟ خیر بھئی اب کچھ اچھی باتیں کرو۔رشدی کی عدم موجودگی میں میرا دل مشکل سے بہلتا ہے۔‘‘ میں فوراً اس کی طرف متوجہ ہوگیا۔

’’جانِ جعفر! کیا میں اس قابل نہیں ہوں کہ رشدی کی عدم موجودگی میں تمہارا دل بہلاؤں؟ وہ ہنسنے لگی، ’’قابل۔۔۔؟ قابل کی بھی ایک ہی کہی۔ اس سے تمہارا مطلب کیا ہے؟‘‘ 

’’میرا مطلب یہ تھا کہ کیا تم مجھے اپنا دلچسپ جلیس یا رفیق نہیں سمجھتیں؟‘‘ 

’’جعفر! تم بہ نسبت اچھے رفیق کے، اچھے تیمار دار ہو۔ تم نے میری بہت تیمار داری کی ہے۔ رشدی البتہ بہترین رفیق کہلائے جاسکتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ان میں بہت سی دلچسپ باتیں ہیں۔‘‘ 

میں نے سگریٹ پھینک دیا، ’’میں بے حد خوش ہوں بیروت! تمہیں ایک اچھا دوست مل گیا ہے۔ میں ڈاکٹر رشدی کا بہت ہی ممنون ہوں کہ وہ ہر وقت تمہاری دلجوئی کا خیال رکھتے ہیں۔ بیروت! آج کل سچے دوستوں کا فقدان ہے۔‘‘ یہ سن کر بیروت جوشیلے لہجہ میں بولی، ’’ہاں! اور کیا۔۔۔ تم رشدی کو فرشتہ کہو، وہ اسی کے قابل ہیں۔‘‘ 

’’اگر تم انہیں فرشتہ کہنا پسند کرتی ہو تو مجھے بھلا کیا انکار ہو سکتا ہے؟ تمہاری خوشنودی مجھے ہر وقت منظور ہے۔‘‘ 

’’مگر جعفر! وہ ابھی تک نہیں آئے۔ کیا معاملہ ہے؟‘‘ 

 میں ہنسا، ’’پیاری بیروت! تم نہیں جانتی کہ شکار کا شوق انسان کوکیسا دیوانہ بنا دیتا ہے۔‘‘ 

دفعتاً مکان کی طرف سے کسی کے کراہنے پھر لوگوں کے بولنے کی آواز آئی۔ ہم حواس باختہ اندر چلے۔

(باب ۸)
زخمی
ہم باغیچے سے حواس باختہ مکان میں داخل ہوئے ہی تھے کہ ابا جان نے گھبرا کر مجھے آواز دی، ’’جعفر! جعفر۔۔۔‘‘ 

سنتے ہی میں برآمدے کی طرف دوڑا۔ دیکھا تو برساتی میں ایک کار کھڑی تھی۔ ڈاکٹر رشدی نیم ہوشی کی حالت میں تھے اور دو چار آدمی انہیں پکڑ ے ہوئے تھے۔

’’اُف! یہ کیا ہو گیا ابا جان!‘‘ میں نے نہایت پریشان ہو کر سوال کیا، ’’زخمی ہو گیے ہیں۔‘‘ 

’’کس طرح؟‘‘ والد جلدی میں کچھ نہ کہہ سکے سوائے اس کے’’شکار کو گیے تھے۔‘‘ 

ہم سب انہیں اٹھا کر کمرے میں لے آئے اور کوچ پر لٹا دیا۔ وہ بری طرح سے زخمی ہو گیے تھے۔ پیشانی پر بھی خراشیں آئیں تھیں۔ ان کی آنکھیں بند تھیں۔ ابا جان نہایت پریشان تھے اور ڈاکٹر کو بلانے کے لیے ٹیلی فون کر کے برآمدے میں ٹہل رہے تھے۔ مجھے مریض کے پاس چھوڑا تھا۔

تھوڑی دیر بعد بیروت کمرے آئی۔ وہ نہایت پریشان نظر آرہی تھی اور بار بار رشدی کو جھک جھک کر دیکھتی تھی۔ مجھ سے اس کی پریشانی دیکھی نہ گئی۔ میں اس کے قریب گیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا، ’’پیاری بیروت! تم اس قدر پریشان نہ ہو۔ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا، وہ اچھے ہو جائیں گے۔‘‘ 

اسی وقت رشدی نے آنکھیں کھول دیں اور اتفاق سے ان کی نظر بیروت پر پڑی، ’’کیاہے؟‘‘ رشدی نے سوال کیا، ’’کچھ نہیں رشدی۔ تم اچھے ہو۔‘‘ بیروت نے نہایت دھیمے لہجے میں جواب دیا۔۔میں نے دل میں کہا۔ رشدی؟ صرف رشدی؟ بیروت تو انہیں ڈاکٹر رشدی کہا کرتی تھی۔ شاید عالم پریشانی اور بدحواسی میں منہ سے ڈاکٹر رشدی کے بجائے صرف رشدی نکل گیا۔ میں اس کی بدحواسی پر مسکرانے لگا۔ رشدی نے بیروت سے پھر سوال کیا، ’’کمرے میں کون کون ہیں؟‘‘ بیروت اس پر جھک کر بولی، ’’تم یہ کیوں پوچھتے ہو؟‘‘ 

’’بیروت! تم کہیں نہ جاؤ۔ آہ! میں سخت درد میں مبتلا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر رشدی نے آنکھیں بند کرلیں۔میں اب تک رشدی کے سرہانے کھڑا تھا اور اسے میری موجودگی کا علم نہ تھا۔ اب میں سامنے آیا اورنہایت ہمدرد لہجے میں بولا، ’’رشدی صاحب! بیروت کہیں نہ جائیں گی۔ وہ یہیں رہیں گی۔ ہم سب آپ کے پاس ہیں۔ بے شک تیمار دار ی کے لیے سوائے عورت کے کوئی ہستی موزوں نہ ہوسکتی۔‘‘ 

ڈاکٹر نے کوئی جواب نہ دیا اور آنکھیں بند کیے پڑا رہا۔ بیروت ایک چھوٹی سی کرسی پر بیٹھ گئی۔ ’’آہ! اس قدر خون بہہ گیا ہے۔۔۔ او۔۔۔ میں بھولی۔۔۔ مجروح کے آگے بار بار اس کا ذکر نہ کرنا چاہیے۔‘‘ (دفعتاً) ’’مگر آہ۔۔۔۔ کتنا زیادہ۔۔۔ کتنا بہت خون۔۔۔! اُف میں دیکھ نہیں سکتی۔‘‘ ڈاکٹر رشدی نے بمشکل کروٹ بدلی اور بیروت کی طرف مڑ کر مسکرا کر کہنے لگا، ’’پیاری خاتون! اس قدر نہ ہراساں ہو۔‘‘ 

میں نے غور سے دیکھا تو بیروت کی سیاہ آنکھیں آنسوؤں سے جگمگا رہی تھیں۔ مجھے سخت صدمہ ہوا،بولا، ’’پیاری بیروت! میں تمہارے آنسو نہیں دیکھ سکتا۔ انہیں جلد خشک کرلو۔‘‘ میں کچھ سوچتا ہوا دریچے تک آیا۔ آسمان پر گلابی گلابی بادل اِدھر اُدھر دوڑتے پھرتے تھے۔ہوائیں نہایت سریلی تھیں اور کائنات کی ہر چیز بے فکر نظر آرہی تھی، جب کہ میں ایک نہایت اہم پیچیدہ معاملہ پر غور کر رہا تھا جو میری سمجھ سے یقینا بالا تر تھا! وہ کیا معمہ تھا؟ 

(باب ۹)
میری علالت

تو پوچھے یا نہ پوچھے مجھ کو یہ سودا مبارک ہو
یہ کیا کم ہے کہ دم بھر تا ہوں میں تیری محبت کا

بیچارے ڈاکٹر رشدی بری طرح سے زخمی ہو گیے تھے۔ کامل دو ہفتے بیمار رہے۔ ہم سب کو ان کا بڑا خیال تھا۔ بیروت نے تو ان کی واقعی بڑی خدمت کی۔ وہ دن بھر ان کے پاس رہتی تھی، مگر رات کو میری ڈیوٹی تھی۔ ایک رات ہی پر کیا منحصر ہے، میں نے محض بیروت کو خوش کرنے کے لیے اس کے دوست کی چوبیس گھنٹے وہ خدمت کی کہ اس کی ماں نے بھی اس کو پالنے میں اتنی تکلیف نہ اٹھائی ہو گی۔ عاشق کو سگ حبیب محبوب ہوتا ہے۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے اپنے آرام کا کوئی خیال نہ کیا۔ اس کا صلہ مجھے مل گیا یعنی بیروت مجھ سے بے حد خوش تھی اور میری عالی ظرفی کی تعریف کرتی تھی۔ میرا خال تھا کہ تیمارداری کی محنت نے مجھے مضمحل اور علیل کردیا ہے مگر نکلا ملیریا۔۔۔ خود رشدی میرا علاج کرنے لگے۔

میں دن بھر اپنے کمرے میں اکیلا پڑا سرد آہیں بھرا کرتا تھا، مگر میری تسلی کے لیے وہاں کوئی نہ تھا۔ ابا جان دن میں اکثر آیا کرتے تھے مگر وہ میرے ہم عمر اور ساتھ کے کھیلے تو تھے نہیں کہ ان سے بے تکلفی کی باتیں کر کے زمانۂ علالت کی وحشت کو دور کرتا۔ اگرچہ رشدی بہ حیثیت طبیب میرے دیکھنے کے لیے دن میں دو مرتبہ تشریف لاتے تھے مگر بہت جلد کمرے سے باہر چلے جاتے۔ لہذا ان کا آنا نہ آنا میری دل بستگی کے لیے یکساں تھا۔ البتہ مجھے ہلکی سی شکایت اپنی بیروت سے ضرور تھی کہ وہ میری مزاج پرسی کو دن میں صرف ایک دفعہ اور وہ بھی بے حد جلدی میں آتی اور چلی جاتی۔ مگر یہ سوچ کر چپ ہو جاتا تھا، 

فائدہ کیا ہو س دل کے بڑھانے سے جلیل
وہی نکلیں گے جو ارماں ہیں نکلنے والے

شام کا وقت تھا۔ آفتاب غروب ہو چکا تھا۔ میں اپنی تنہائی اور علالت پر رنج کرتا ایک کوچ پر نیم دراز تھا۔ دریچہ کھلا تھا اور اس میں سے ہوکر مدھم روشنی اس کتاب پر پڑرہی تھی جو میرے ہاتھ میں تھی اورجسے میں نہایت بے توجہی سے پڑھ رہا تھا۔ اتنے میں دروازہ کھلا، خوشبو کمرے میں مہکنے لگی۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو بیروت اپنے شام کے تفریحی لباس میں کھڑی مسکرا رہی تھی۔

’’میری جان! تم اپنے قدر دان کو کل صبح سے دیکھنے نہیں آئیں۔‘‘ بیروت آکر میرے پاس بیٹھ گئی۔ ’’ہاں جعفر! مجھے معاف کرو۔ موقع نہ تھا۔ ایں! کیا تم کتاب پڑ ھ رہے ہو؟ تاریکی میں! آنکھیں خراب ہو جائیں گی۔‘‘ میں مسکرایا، ’’پھر تنہائی میں کیا کرتا؟‘‘ 

اپنے بیمار سے پرہیز کیا کرتے ہو
جاؤ بھی بس تمہیں اے رشک مسیحا دیکھا

’’کیا چچا جان نہیں آتے تمہیں دیکھنے؟ میں کیا کرو ں جعفر! یہ رشدی بڑی ضدی شخص ہے۔ بھئی سچ پوچھو تو اب میں خود اس سے تنگ آگئی ہوں۔ وہ آج مجھے دریا پر مچھلی کا شکار دکھانے لے گیے تھے۔ میں نے ہر چند چلنے سے انکار کیا اور کہاکہ میں جعفر کو بیمار چھوڑ کر کہیں نہیں جاسکتی مگر اس نے نہ مانا۔ یہی کہتا رہا کہ میں خود ڈاکٹر ہوں اور جانتا ہوں کہ مسٹر جعفر اب بالکل اچھے ہیں۔ صرف نقاہت باقی ہے۔ اب تم ہی کہو میں کیا کرتی؟‘‘ میں مسکرایا، ’’ڈاکٹر نے واقعی سچ کہا ہے۔ اب میں اچھا ہوں صرف نقاہت باقی ہے۔‘‘ 

’’کیا دن بھر تنہا تھے۔‘‘ میں نے کتاب بند کر کے رکھ دی۔ دریچے کا پردہ روشنی کے لیے ہٹا دیا اور کوچ پر بیٹھ کر بولا، ’’ہاں۔۔۔ مگر تم فکر نہ کرو۔ میں ہر گز نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے تمہاری دلچسپیوں میں رکاوٹ پیدا ہو۔ یہ تو خود غرضی ہے کہ بیمار اپنی مسرت کے لیے ایک تندرست خوش مزاج آدمی کو اپنے کمرے کی اداس فضا میں مقید کر رکھے۔ میں اسے سخت نا پسند کرتا ہوں۔‘‘ 

اس نے پھر گفتگو شروع کی، ’’رشدی عجب شوقین نوجوان ہے۔ انہیں مچھلی کے شکار سے خاص دلچسپی ہے۔ انہوں نے کچھ اس اصرار سے بلایا کہ میں انکار نہ کرسکی۔ تم بھی ہوتے تو انکار نہ کر سکتے۔‘‘ میں مسکرایا، ’’اب میں نے تم سے شکایت تھوڑا ہی کی تھی؟ تم نے بہت اچھا کیا جو کچھ کیا۔ تمہار ا دل بہل جاتا ہے تو گویا میری دل بستگی کا سامان ہو جاتا ہے، 

میں نہیں کہتا کہ اغیار سے زنہار نہ مل
میری الفت میں کوئی ہو نہیں سکتا حائل

کبھی ہوگا اثر اندازمرا دل جذبۂ دل
اک نہ اک روز تھے چھوڑے گا کر کے قائل

اب برا ہے تو کوئی قت بھلا آئے گا
آپ سے آپ مرے گھر تو چلا آئے گا‘‘ 

’’اب وہ کل مجھے پھولوں کی نمائش میں لے جانا چاہتے ہیں مگر تم بیمار ہو۔ ایں۔۔۔ تمہارا ہاتھ بہت ہی گرم ہے!‘‘ بیروت نے دریچے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’کچھ مضائقہ نہیں، تم کل ضروری چلی جاؤ۔‘‘ 

’’ہاں۔۔۔ میں نے وعدہ کرلیا ہے، جانا ہی پڑے گا۔اچھا اب خدا حافظ! خدا جانے تم اس کمرے میں تنہا کس طرح پڑے رہتے ہو۔ دس منٹ مجھ سے بیٹھا نہیں جاتا۔ شام کا وقت ہی کچھ ایسا ہوتا کہ صرف تفریح میں گزارنا چاہیے۔ میں کل شام یقینا تمہیں دیکھنے آؤں گی۔‘‘ 

’’شکریہ پیاری بیروت! ضرور آؤ۔‘‘ 

(باب ۱۰)
تقدیر کا نوشتہ!
ایک دن اپنے کمرے میں آئینہ کے آگے کھڑا نکٹائی باندھ رہا تھا کہ ایک پرانی ملازمہ نے میرے شانے کو چھوا اور بولی، ’’صاحب زادے!کیا صاحب کا ارادہ ڈاکٹر صاحب کو داماد بنانے کا ہے؟‘‘ 

’’اس کا کیا مطلب؟‘‘ میں نے جھلّا کر سوال کیا۔ وہی بوڑھیا بولی، ’’ڈاکٹر رشدی سے صاحب زادی بیروت بیاہی جائے گی؟‘‘ 

میرا سر چکرانے لگا اور میں نے نفرت انگیز لہجہ میں کہا، ’’بیہودہ مت بکو! پگلی بوڑھی چوہیا۔‘‘ کچھ دنوں بعد یہی سوال میرے ایک دوست نے مجھ سے کیا جس کے جواب میں میں نے اسے تھپڑ رسیدکیا۔ میں کسی قدر پریشان ہو کر باغ میں نکل آیا۔ شام ہو گئی تھی۔ سورج نارنجی رنگ کا ہوکرغروب ہو رہا تھا۔ گھر میں کوئی نہ تھا۔ ابا جان کسی دوست کے پاس گیے تھے۔ بیروت اور ڈاکٹر رشدی بھی چہل قدمی کے لیے نکل گیے تھے۔ مجھے تنہائی محسوس ہونے لگی۔ طبیعت پہلےہی سے پراگندہ تھی۔ ہری ہری دوب پر کچھ سوچتا ہوا ٹہلنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ بیروت اور ڈاکٹر رشدی واپس آرہے ہیں۔ رشدی تو مکان میں داخل ہوگیامگر بیروت مجھے دیکھ کر ٹھٹکی، ’’ایں جعفر! تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ 

’’ٹہل رہا ہوں۔‘‘ 

’’اکیلے ٹہل رہے ہو؟ چچا جان کہاں ہیں؟‘‘ 

’’وہ باہر گیے ہیں۔‘‘ 

وہ بھی میرے ساتھ ٹہلنے لگی۔ ہم آہستہ آہستہ ساحل کی طرف چلے۔ چاند طلو ع ہونے لگا تھا۔ کائنات پرایک خاموش حسن برس رہا تھا۔ کبھی کبھی ایک آدھ پرند دفعتاً پکار اٹھتا تھا ورنہ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ موجیں ساحل سے ٹکرا رہی تھی۔ ساحل پر پہنچ کر بیروت نے کہا، ’’تم نہیں جانتے رشدی بڑے اچھے کشتی بان ہیں۔‘‘ 

’’واقعی؟‘‘ 

’’ہاں۔۔۔! ہم دونوں کشتی چلاتے رہے۔‘‘ 

’’تم بھی؟‘‘ 

’’ہاں۔۔۔ پہلے تو میں ڈری مگر پھر میں بھی ان کے ساتھ کشتی میں بیٹھ گئی۔‘‘ 

میں مسکرایا، ’’بیروت تمہارے دوست ہمہ صفت موصوف ہیں۔ اب تو ایک دن تم بھی اس فن میں طاق ہو جاؤ گی۔تم ہرروز ان کے ساتھ کشتی پر جایا کرو۔‘‘ 

’’ویسے ہر روز ہی ان کے ساتھ جایا کرتی ہوں مگر آج تو خوب لطف آیا۔ ان کے خیالات نہایت بلند ہیں۔ ان کی صحبت انسان کو شگفتہ بنا دیتی ہے۔‘‘ 

میں پھر مسکرایا، ’’ہاں وہ ایسے ہی ہیں بیروت! وہ ایسے ہی ہیں۔ مگر مجھے فکر ہے تو یہی کہ وہ بہت جلد ہم سے جدا ہو جائیں گے۔ پر کیا ہوگا۔‘‘ بیروت قدرے گھبراکے لہجہ میں بولی، ’’کیوں کیوں؟ وہ کہا ں جائیں گے؟‘‘ 

’’پیاری بیروت۔‘‘ میں کہنے لگا، ’’وہ ہمارے زرخریدے غلام تھوڑے ے ہی ہیں کہ عمر بھر ہمارے گھر پڑے رہیں؟ ہم بہت جلد گھر واپس جائیں گے۔ پھر ڈاکٹر رشدی بھی اپنی ملازمت پر چلے جائیں گے۔ اب تو وہ ابا جان کے کہنے پر تمہاری طبی خبر گیری کے لیے ہمارے ساتھ آئے ہیں۔‘‘ 

اسے بہت خاموش دیکھ کر اس کی تسلی کے لیے میں نے کہا، ’’مگر تم اس قدر اُداس نہ ہو جاؤ میں انہیں تاکید کروں گا کہ اکثر شام کے وقت ہمارے پاس آجایا کریں۔‘‘ اس کے جواب میں وہ ہنسنے لگی، ’’تمہاری تاکید کی ضرورت نہیں۔ یہ تو پہلے ہی تصفیہ ہوچکا ہے۔‘‘ 

’’کیسا تصفیہ؟‘‘ 

’’یہی کہ ہم کبھی جدا نہ ہوں۔‘‘ 

’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کبھی جدا ہی نہ ہوں؟‘‘ 

’’کیوں نہیں؟ جعفر! ہم نے سوچ سوچ کر یہ تدبیر نکالی ہے کہ ایک دوسرے کے شریک زندگی بن جائیں۔‘‘ میراسر چکرانے لگا۔

’’یعنی؟‘‘ 

وہ ہنسنے لگی، ’’یعنی کیا۔۔۔؟ واہ! اتنا بھی نہیں سمجھے، ہم شادی کر لیں گے۔‘‘ 

حیرت نے مجھے مردہ کر دیا،افسوس! یہ کیا سن رہا ہوں میں؟ روح قفس عنصر ہی میں پھڑ پھڑانے لگی۔ سرچکرانے لگا۔ ہائے! میری خرمنِ آروز پر بیروت کی بے وفائی نے بجلی گرائی۔ اب میں نہیں جیوں گا۔ موت میرے لیے بہترین تحفہ، میرا جینا فضول، میری زندگی بے فائدہ، مجھے بیروت سے عشق تھا۔ میں بغیر اس کی اتنی بڑی اتنی لمبی پہاڑ سی زندگی کیونکر بسر کر سکوں گا؟ نا ممکن! آخر میں نے کیا خطا کی؟ وہ مجھے محروم کیوں کر رہی ہے! مجھ سے کیا قصور سرزد ہوا آخر؟ 

’’جعفر! تم خاموش ہو گیے۔‘‘ میں بھلا کیا جواب دے سکتا تھا؟ اتنا کہا، ’’میری جان! کیا خاک بولوں؟ جس میں تمہاری خوشی ہے وہی کر و مگر۔۔۔ للہ یہ توبتاؤ میں نے آخر کیاخطا کی؟ بیروت تم جانتی ہو کہ،

لب کشائی تو ازل سے نہیں عادت میری 
 مجھ کو مجبورمگر کرتی ہے حالت میری

تجھ سے شکوہ ہے مرا تجھ سے شکایت میری
غیرکی داد کی طالب نہیں الفت میری

تجھ سے ظالم پہ طبیعت جو نہ آئی ہوتی
آج میں نے بھی یہ حالت نہ بنائی ہوتی

بھول کر بھی نہ کیا تو نے کبھی یاد مجھے
ضبط کی بھی نہ ملی آہ کبھی داد مجھے

رکھا محروم جفا سے ستم ایجاد مجھے 
اس تغافل نے تیری کردیا برباد مجھے

آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا کبھی شیدائی کو
کیا کرے کوئی صنم تیری مسیحائی کو

میں کس طرح سے بھی قابلِ آزار نہ تھا 
گر گناہ گار تھا، اتنا بھی گناہ گار نہ تھا

رہ گئی ایک تمنایہ تری الفت میں 
کاش تو ہوتا وفادار مری الفت میں

یاد ہے مجھ کو ترا عہد فراموشی بھی 
ساتھ اغیار کے سرگوشی بھی روپوشی بھی

ان کی محفل میں سرمستی بھی مے نوشی بھی
ان سے اظہار ِ محبت بھی ہم آغوشی بھی

باوجود یکہ میں اندوہ ستم سہتاہوں
دیکھ مجبوریاں میری کہ میں چپ رہتا ہوں

آرزوؤں کی جو دنیا تھی مٹا دی تو نے 
بزم خلوت کدۂ عشق اٹھا دی تو نے

رسم الطاف مروت کی بھلا دی تو نے
اے مری جان مجھے ہائے دغا دی تو نے

ان جفاؤں کے صلہ میں وفا کرتا ہوں
تو سلامت رہے ہر دم یہ دعا کرتا ہوں

’’چلو۔۔۔ اندر چلو۔۔۔ میں خوش نصیب رشدی کو مبارکباد دے لوں۔‘‘ 

(باب ۱۱)
کچھ اپنی نسبت

میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سریاد آیا

میں ایک مدّت سے دیکھ رہا تھا،آزما رہا تھا کہ بیروت رشدی پر فریفتہ ہے۔ میں خوب جانتا تھا کہ وہ در پردہ مجھے دھوکا دے رہی ہے۔ میرے آگے وہ میرے رقیب سے مصروف اختلاط ہے۔ وہ مجھے تنہا چھوڑ کر میرے رقیب کے ساتھ تفریح کے لیے چلی جایا کرتی تھی۔ میں خاموش تھا اور ایک نتیجہ پر پہنچنا چاہتا تھا۔ آہ! وہ میرے رقیب کے آگے میری تحقیر کرتی تھی اور نامراد شخص کو خوش کیا کرتی تھی۔ میں بھی ضبط کرتا رہا۔ اس کے بعد میں نے محض اس کی خوشنودی کے لیے اس کے عاشق اور اپنے رقیب کا تیمار دار بنا۔ اس کی خدمت کی مگر علالت میں دونوں نے طوطا چشمی اختیار کی۔ میں دن دن بھر اکیلا رہتا تھا اور وہ اپنے عاشق کے ساتھ سیر کو نکل جاتی تھی، تب بھی میں نے صبر کیا۔

اُف نہ کی! مگر اب۔۔۔ اب مجھ سے برداشت نہیں ہوسکتا! اب جب کہ میرا دامن ِ آرزو تار تار کردیاگیا ہے، مجھ سے ضبط و صبر نہیں ہو سکتا۔ میں اب وہ کر گزروں گا جو میرے دل میں ہے۔ میں بہادر اور جنگجو قوم کا مرد ہوں۔ انتقام کی آگ میرے سینہ میں بھڑک اٹھی ہے۔ میں فنا کردوں گا سب کو۔۔۔ سب کو، لعنت ہے دنیا پر، دنیا کی زندگی پر۔۔۔ یہاں کے دھوکوں پر۔۔۔ دغا بازیوں پر۔ اُف یہ دنیا دوزخ سے بھی زیادہ بری جگہ ہے،

غلط ہے دعویٔ الفت سراسر عاشقی جھوٹی 
ثبوتِ یکدلی جھوٹا دلیلِ دوستی جھوٹی
عزیزوں کی ہے تقریر خلوص باطنی جھوٹی
غرض جھوٹی ہے دنیا اور جھوٹی بھی بڑی جھوٹی

میں اپنے رقیب کو موت کے گھاٹ اتار دوں گا۔ اس کے بعد میں بھی اس دنیا میں نہ رہوں گا۔ میری محبت! میری تلوار۔۔۔! میرا ریوالور۔۔۔!

(باب ۱۲)
محبت کا انجام

دل دے کے تم کو یہ مجھے معلوم ہو گیا
سب کچھ کرے مگر نہ محبت کرے کوئی

لیجئے! میں نے اپنا افسانۂ زندگی آپ کو سنا دیا! میری زندگی کی کہانی یہیں ختم ہوتی ہے۔ میں اپنے ارادے، خوفناک ارادے میں کامیاب ہو گیا۔ کس طرح ہوا کیونکر ہوا، اس کے بتانے کی نہ مجھے ضرورت ہے نہ آپ کو سننے کی۔ مختصر یہ کہ میں نے اپنے رقیب کاخاتمہ کردیا۔ ایک لطیف چاندنی رات میں ہم دونوں کشتیوں کی سیر میں نکلے، بس وہیں اس کا خاتمہ ہوگیا۔ اگرچہ میں انتقام کو نہایت کمینہ حرکت سمجھتا ہوں مگر انسان رقابت میں کیا کچھ نہیں کر گزرتا؟ آپ کو کبھی کسی سے اس شدت کی محبت ہوئی ہی نہیں ہے۔ نہ ایسی رقابت کا حادثہ آپ پر گزرا ہے۔ پھر للہ کوئی بتائے کہ آپ کو کیا حق ہے مجھے موردِ الزام بنائیں؟ 

ان واقعات کو آج تین مہینے اور کئی دن گزر چکے ہیں۔ میں وطن چھوڑ کر جیروس آگیا ہوں اور ایک کمرے میں اطمینان سے بیٹھا اپنی زندگی کے عبرت انگیز واقعات صفحۂ قرطاس پر منقش کرتا جاتا ہوں اور جو نہی یہ افسانہ ختم ہو گا۔ میں۔۔۔ بجائے اس کے فرشتہ ٔ موت میرے پاس آنے کی تکلیف کرے، میں خود اس کے پاس جا پہنچوں گا۔

میرا خیال ہے کہ میں نے افسانہ ختم کردیا۔۔۔ لو۔۔۔ میری کتاب زندگی بھی بند ہوئی جاتی ہے۔۔۔ خدا حافظ! میری اس المناک سوانح کے پڑھنے والو! دعا کرو کہ تمہارے ایک بدنصیب بھائی کے ایک عظیم گناہ کو پرور دگار معاف کرے۔

خود کشی! اُف۔۔۔ اُف

ایسی حسرت سے جان دی کہ تجھے
اک تماشہ بنا دیا ہم نے

مأخذ : گلستاں اور بھی ہیں

مصنف:حجاب امتیاز علی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -
- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here