(رات کے سناٹے میں)
کچھ خبر ہے تجھ کو اے آسودہ خواب لحد
شب جو تیری یاد میں ہم تا سحر رویا کے
رونے والے تیرے تجھ کو عمر بھر رویا کے
روزوشب رویا کئے شام و سحر رویا کےا
پیارے رفیق! مجھے ڈر ہے کہ آج کی رات بھی۔۔ اپنی الم انگیزی اور ماتمی نشانات کے سبب کتاب زندگی کا اک یادگار باب بنےگی! کیونکہ دریچہ کھلا ہوا ہے اور گرم ممالک کا زرد چاند آسمان پر چمک رہا ہے۔
کھڑکی کے پاس ہی رات کی اس اداس تنہائی میں اک الو اپنی ویران آواز میں کچھ گنگنا رہا ہے۔ آہ شاید قصہ ماضی کو دہرا رہا ہے۔ اس کے لہجے مرے ماتمی خوابوں کو از سر نو بیدار کر رہے ہیں۔ مری اشکبار روح کو آمادہ گریہ کر رہے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے۔۔۔ اور آہ اس کا احساس بھی کس درجے مایوس کن ہے۔ کہ سوائے اس زرد چاند کے جو اس وقت آسمان پر فرشتے کی پیشانی کی طرح چمک رہا ہے۔ اس دنیا میں میرا کوئی رفیق نہیں۔ سچا رفیق۔۔!۔۔ کیونکہ ہر طرف موت کی سی خاموشی طاری ہے اور مرے پاس تسکین دینے والی کوئی چیز موجود نہیں! سامنے بہت سے اونچے اونچے پہاڑ نظر آ رہے ہیں۔ پر ان پر بھی آج کی دہشت انگیز رات کی تنہائی میں درندے بھی چلتے پھرتے نظر نہیں آتے۔ گویا میں آزمائش کے لیے نیچر کی طرف سے تنہا چھوڑ دی گئی ہوں۔
پروردگار! ترے آدم نے بھی دنیا میں پہلے پہل اتنی تنہائی محسوس نہ کی تھی جتنی اس وقت میں کر رہی ہوں۔
کمرے میں۔۔۔ اک طرف کونے میں تپائی پر موم بتی کے پاس ہی اک ٹائم پیس رکھا ہوا ہے۔ جس کی ’’ٹک ٹک‘‘ درودیوار سے ٹکرا کر مجھ غم نصیب کی طرف آتی ہے۔ اور مرے بربط خیال کو چھیڑ چھیڑ کر اس میں سے عجیب ہولناک دہشت خیز راگ پیدا کر رہی ہے۔
آہ رفیق! مرادل اس تنہائی ویرانی، اداسی میں دھڑک رہا ہے اور وہ بہت زورزور سے دھڑک رہا ہے۔ میں ڈرتی ہوں کہ وہ ساکت ہو جائےگا۔ میں ڈرتی ہوں کہ میں اس المناک تنہائی کے احساس سے رو پڑوں گی۔ اور بہت دیر تک روتی رہوں گی۔ اور اگر کچھ دیر میں یونہی اپنے جزیرئہ خیال میں بھٹکنے کے لیے تنہا چھوڑ دی گئی اور تاریکی میں میںنے کوئی روشنی نہیں دیکھی، کسی انسانی ہاتھوں کو ہموارانہ طریق پر اپنی طرف بڑھتے ہوئے نہیں دیکھا، تو بے شبہ آج رات میں اپنی جان فنا کرنے پر آمادہ ہو جاؤں گی۔ آہ مری ناشاد روح!
معبود!! کیسی سنسان اور گرم رات ہے!!! مشرقی ممالک کی اک پرفسوں، مگر تنہا اور ویران رال!! اداس اور غمگین رات!!
چاند چمک رہا ہے، مگر اس کی روشنی میں مجھے عجب قسم کی تاریکی نظر آرہی ہے! کائنات کی آوازیں، شورشیں، آخر کدھر غائب ہو گئیں؟ مرے مالک!! آخر کدھر چھپ گئیں؟ آخر میں تنہائی کی اس مصیبت کے لیے نیچر کی طرف سے کیوں منتخب کر لی گئی؟۔۔۔ کیا اس لیے کہ میں اک حساس دل اور افسانہ پسند روح والی عورت ہوں؟
آہ رفیق۔۔۔ اس وقت مجھے یاد رفتگان بے طرح ستانے لگی! آہ میں دیوانی ہو جاؤں گی، رات کی تاریکی مرے تخیل کو ان غیر آباد اجڑے مکانوں کی طرف لے جا رہی ہے، جو کبھی مری اور مرے رفتگان خاک کی قیام گاہیں تھیں۔ جنکے آج پردہ دنیا پر نہ ہونے سے یہ روشن کائنات میرے لیے اندھیر ہو رہی ہ اوریہ چمکتاہوا چاند بے ضیا نظر آ رہا ہے۔ پھلے پھولے گلشن اجڑے ہوئے کھنڈر معلوم ہو رہے ہیں۔
مجھے ڈر ہے میں نیچر کی اس آزمائش میں پوری نہ اتر سکوں گی۔ مجھے ڈر ہے کہ میں اپنے دامن صبر و ضبط کو چاک کردوں گی اور بےاختیار بچوں کی طرح مچل مچل کر رونے لگوں گی۔
اس وقت مری خواہش ہے۔ آہ کس قدر غمگین، مگر زبردست خواہش ہے۔ کہ تمآؤ اور مجھے مری اس تنہا اور غضب کی المناک رات میں صبر کی تلقین کرو۔ آہ کاش تمآؤ۔۔۔ اور مجھے ہمت بندھائو۔
محبوب روح!۔۔۔ مری پیاری روح! اے بچھڑی ہوئی روح!
اگر تم نہ آؤگی تو مجھے یقین ہے کہ آج رات میں اپنے پریشان خیالات سے متاثر ہو کر اور غمگین جذبات کو برداشت نہ کر سکتے ہوئے، آہ بیچاری میں۔۔۔ غش کر جاؤں گی!۔۔۔ یا سپیدئہ سحر کے نمودار ہونے تک بالکل پاگل ہو جاؤنگی۔
ہائے مجھے اب یاد آتاہ ے کہ تم بھی اس دنیا میں موجود نہیں، پھر کیوں کر آؤگی؟ کھوئی ہوئی روح! کیوں کر آؤگی؟ ہم دونوں میں اک زبردست خلیج حائل ہے جو کبھی ہم کو اس فانی دنیا میں ملنے نہ دے گی تاوقتیکہ میں تمہارے پاس آ جاؤں! میں اپنی الم انگیز زندگی پر آہیں بھرا کروں گی۔ پر آہ، تمہیں دیکھ نہ سکوں گی۔۔ ! مگریہ تو بتائو کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ یہ مضبوط پتھر ہٹ جائے اور تم مسکراتی ہوئی اس تنگ و تاریک قبر سے باہر نکلآؤ۔۔۔؟ مری رفیق کیا یہ ممکن نہیں؟
آج رات بھر مجھے نیند نہ آئےگی، اور غمگین خواب مجھے ستائیں گے! جانے مجھے آج کیا ہو گیا ہے ، لحظہ بہ لحظہ رفتگان خاک کی یاد مری روح مری جان کو بے طرح تڑپا رہی ہے بےچین کر رہی ہے۔ آہ معلوم ہوتا ہے کہ ان ہمیشہ کے بچھڑے ہوئوں کی یاد مجھے بے موت مار ڈالےگی! نیند بھلا کیونکر آئے؟ کیونکہ جونہی میں آنکھ بند کرتی ہوں مرے بچھڑے ہوئے خواب، میری بے چاری روح کو جھنجوڑ جھنجوڑکر بیدار کرنے لگتے ہیں۔ مرا تخیل آج سے کئی سال قبل کے واقعات کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ مجھے ساحل ’’سیں تھوم‘‘ پر تمہاری روح کھڑی مسکراتی ہوئی نظر آتی ہے پھر بھلا نیند کیونکر آئے؟
مجھے اس رات کے رنگ ڈھنگ سے شبہ ہوتا ہے کہ یہ رات۔۔۔آج کی رات۔۔۔ آج ۱۲ جولائی ۱۹۳۰ء کی رات بھی مری زندگی کی تاریخی راتوں میں جگہ پائےگی۔
آہ! اس سلسلے میں مجھے اپنی گذشتہ مختصر زندگی کی چند یادگار راتیں یاد آتی ہیں، مگر مرا تخیل اور مری یاد، جہاں تک کام کرتے ہیں مجھے یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ گذشتہ راتیں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر عبرت انگیز ، دردناک، دہشت خیز ہیں۔
اک وہ رات یاد آتی ہے جبکہ تمہارا رشتہ حیات اس دنیا سے منقطع ہوا تھا۔ تمہارا طائر روح، زندگی کا آخری راگ گاکر ہمیشہ کے لیے چپ ہو گیا تھا، ہائے، میں اس رات کا ذکر کیونکر کروں؟ مری زبان مراقلم، مری روح،۔۔۔ ناتواں، مجروح اور بے قرار ہے۔۔۔ مختصر یہ کہ لوگ تم کو تمہاری ’’ابدی قیام گاہ‘‘ میں پہنچا آئے اور معبود جانے وہاں تم پر کیا بیتی؟ پر آہ، مجھ سے نہ پوچھو، لللہ مجھ سے نہ پوچھو، تم پوچھوگی تو میں بے اختیار رو پڑوں گی، اس لیے بخدا نہ پوچھو، کہ وہ رات، وہ پہلی رات تمہاری موت کی رات مجھ پر کیسی گذری؟
اس کے بعد زندگی کی اک دوسری رات یاد آتی ہے!
چاند بادلوں میں چھپ گیا تھا، ہوا خاموشی میں ڈوب گئی تھی۔ ستارے تو مشق تیراک کی طرح بادلوں کے عمیق سیاہ سمندر میں ڈوب ڈوب کر نکل نکل کر ڈوب جاتے تھے۔۔۔ مگر مری خوشیو ں کا ستارہ ہمیشہ کے لیے ڈوب چکا تھا!۔۔۔ موت کا تصور مری روح کے تبسم کو فنا کر رہا تھا میری تصوری آنکھ قبر کے سیاہ اور سرد گڑھے کو آنے والی تقدیر سمجھ کر صبر وشکر کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔ اونچے اونچے سیاہ سرو اور بے رونق اداس ناشپاتی کے درخت یاس کے عالم میں چپ چاپ کھڑے تھے۔۔۔ اور مرے اطراف چند بھورے بھورے غمگین پتھر نظر آ رہے تھے۔۔۔ جنکے نیچے انسانی ڈھانچ، آہ! وہی ڈھانچ۔۔۔ جو کبھی کسی کی مرکز تمنا، سجدہ گاہ آرزو ہونگے، آج بےگوشت و پوست دبے پڑے تھے!
آہ اس سرزمین میں ہمارے ہم جنس صدیوں سے اک افسوسناک بے ہوشی کی حالت میں پڑے موت کا خواب دیکھ رہے ہیں۔۔۔ تقدیر نے اس بے ہوشی کو تم پر بھی مسلط کر دیا تھا، میں تنہا تمہاری اداس، بے درودیوار ’’ابدی قیام گاہ‘‘ کو کھڑی تک رہی تھی۔ اور رات آہستہ آہستہ گزرتی جاتی تھی!۔۔۔ کبھی کبھی جنگلی گلاب اور زرد پھولوں کی بیل میں ہوا سرسراہٹ پیدا کر دیتی تھی تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ان مدت کے سونے والوں نے ایک لمبی سانس لی!۔۔۔ زرد بیلیں اونچے اونچے پیڑوں پر چڑھی ہوئی تھیں، اور افسردہ گھاس ان قبروں کی محافظت کر رہی تھی۔ جن کے اندر انسانی زندگی کے عجیب و غریب افسانے پوشیدہ ہیں! آہ میں اس رات کو مدت العمر نہ بھولوں گی!
میں نے آسٹریلیا کے ٹوبیٹر، اور ۔۔۔ کانین ڈائل کی روحانی کتابوں کا مطالعہ کیا، میں نے روحانی ریسرچ سوسائٹی کی ممبری قبول کر لی، پر آہ۔۔۔
باتیں یہ سب درست، بجا یہ تسلیاں
لیکن دل حزین پہ کسے اختیار ہے
لوگ کہتے ہیں کہ موت عارضی نیند ہے، مصنوعی سکوت ہے، بے معنی جدائی ہے، اگر ایسا ہوتا، اگر واقعی ان مصنفین کا کہنا سچا ہوتا تو پھر مرے دل کو اطمینان نصیب ہو جاتا ہے، مگر قرار کیونکر آئے؟ مرے غم نصیب دل کو بھلا قرار کیونکر آئے؟ موت خوہ مصنوعی نیند ہو، عارضی جدائی ہو، بے معنی سکوت ہو، آخر جدائی ہے! اور پھر ایسی جدائی جو زندگی بھر برداشت کی جاتی ہے جو انسان کی خوشیوں کو پامال کر دیتی ہے۔
دیکھو! اب مجھ سے لکھا نہیں جاتا!
مرا دل دھڑک کر ساکت ہونے کے قریب ہو رہا ہے۔ مرا سر چکرانے لگا، رات کے دو بج گئے، ہو ا میں خنکی پیدا ہو گئی۔ الو بھی اپنا دکھڑا رو چکا، اور موم بتی کا شعلہ ٹمٹما رہا ہے!
مجھے اب چپ ہونے دو۔ مجھے یونہی چھوڑ دو۔ یادرفتگاں میں تڑپنے ، سسکنے کے لیے یونہی چھوڑ دو۔
مأخذ : کتاب : لوح (Pg. 194) Author : ممتاز احمد شیخ مطبع : رہبر پبلشر، اردو بازار، کراچی (2017) اشاعت : Jun-December
مصنف:حجاب امتیاز علی