کہانی کی کہانی:’’اپنے ہی شوہر کے صندوق سے چوری کرنے والی ایک عورت کی کہانی۔ نیند سے آنکھیں بوجھل ہونے کے باوجود وہ رات میں سب کے سو جانے تک جاگتی رہی۔ جب گھر کے سبھی افراد سو گئے تو وہ اندر کمرے میں گئی جہاں اس کا شوہر دکان کا صندوق رکھتا تھا۔ اس کے پاس اس صندوق کی چابی تھی جو اس نے شوہر سے چھپا کر رکھی تھی۔ جب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو چابی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور وہ اس دن چوری نہیں کر سکی۔ دو دن تک وہ احساس ندامت سے روتی رہی۔ پھر تیسرے دن جب وہ چوری کرنے گئی تو اس کے شوہر نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔‘‘
وقت کچھوے کی چال چلتا معلوم ہو رہا تھا۔ بڑی مشکل سے ملکہ بیگم نے تھپک تھپک کر بچوں کو سلایا تھا لیکن ان کی ساس کی عشاء کی نمازطول کھینچتی جا رہی تھی اور محمود میاں تو جیسے آج سارے سال کی پڑھائی ختم کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے تھے حد یہ کہ مسعود میاں ابھی تک اپنی بیکاری کے غم میں مع اپنی امریکی بشرٹ کے غائب تھے اور اسی تائو میں ان کی نئی نویلی دلہن اپنے کمرے میں خدا جانے کیا اٹھا دھرف کر رہی تھیں۔
’’مسعود میاں پر دھونس جمانے کو اپنا جہیز سمیٹ رہی ہوں گی۔ دلہن بیگم۔۔ خوب ہیں آج کل کی لڑکیاں، سمجھتی ہیں اس طرح میاں قابو میں آ جائےگا‘‘۔ ملکہ بیگم نے اپنی سب سے چھوٹی بچی کے منہ سے دودھ نکالتے ہوئے سوچا ۔ ’’اونھ! یہ سارے ہتھ کنڈے بھول جائیں گی بنو۔ ابھی نئی نئی ہیں۔ اس لیے مسعود میاں جھک مارکر منالیتے ہوں گے۔ بیچاری جہیز پر اترا رہی ہیں۔ ارے ہم اتنا لائے تھے کہ گھر بھر گیا تھا۔ اس پر بھی کسی نے ٹھینگے پر نہ مارا ہمیں۔۔۔‘‘
مسعود میاں کی دلہن کے انجام کے بارے میں سوچ کر ملکہ بیگم کو ایک گونہ مسرت ہوئی۔ اپنے جلے ہوئے گھر کے ملبے پر بیٹھ کر جلتی ہوئی دنیا کا تماشہ دیکھ کر کلیجے میں ٹھنڈک نہیں پڑتی توہوک بھی نہیں اٹھتی۔
’’مگر آج یہ سب سوتے کیوں نہیں؟‘‘ ملکہ بیگم نے جماہیوں پر جماہیاں لے کر جھنجھلاہٹ میں سوچا ’’سبھوں کے کام ہی کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتے۔ تو بہ۔۔۔‘‘
چوکی کے گھنٹے نے دس بجائے ملکہ بیگم نے اپنی جلتی اور بند ہوتی ہوئی آنکھیں چیر کر ہر طرف دیکھا۔ ساس عشاء کی نماز ختم کرکے پاندان کھولے پلنگ پر براجمان تھیں۔ محمود میاں کے سرہانے بجلی کا لیمپ اسی طرح روشنی بکھیر رہا تھا اور وہ اپنی اسکول کی کاپی میں عورتوں کی تصویروں والی کتاب رکھے پڑھے جا رہے تھے۔ دلہن بیگم کا کمرہ بھی ابھی تک روشن تھا۔ خدا جانے ایسی سٹر ی گرمی میں کمروں کے اندر بیٹھ کر میاں کا انتظار کرنے میں لوگوں کو کیا مزا آتا ہے۔ ارے باہر پلنگ پر پڑکر انتظار کر لیں تا کہ انتظار سے تھکیں تو ذرا سو لیں اور پھر ملکہ بیگم چپکے سے اٹھ کر۔۔۔
ملکہ بیگم کی بے تابی بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ سوتی اس خیال سے نہ تھیں کہ ایک بار آنکھ لگ گئی تو پھر چاہے ڈھول بجے، دن بھر کی مصروفیت سے ٹوٹا ہوا جسم کروٹ تک نہیں لینے کا۔ پھر تو صاف بات ہے کہ آج کاموقع ہاتھ سے نکل جائےگا۔
’’خدا سمجھے مسعود میاں سے ۔ آہی نہیں چکتے۔ اتنی رات گئے نہ معلوم کن دفتروں کی خاک چھان رہے ہیں۔ ہائے کس مزے سے لوگ سوتے ہیں، ایک ہماری قسمت میں چین کی نیند بھی نہیں‘‘۔ انہوں نے گردن گھماکر اپنے شوہر منظور میاں کی طرف دیکھا جو اپنی راج کپور ٹائپ مونچھوں کے نیچے چوڑے چوڑے نتھنوں والا منھ کھولے خراٹے لے رہے تھے۔
چوکی کے گھنٹے نے اب کے گیارہ بجائے۔ مگر اس سے پہلے ہی مسعود میاں آ چکے تھے اور اپنی دلہن سے کمرے کے اندر ایک معرکہ سر کرنے کے بعد اسے وہیں روتا چھوڑ کر پلنگ پر بیٹھے سگریٹ پی رہے تھے۔ ارے ہاں نہیں تو کون روز روز بیوی کی خوشامدیں کرکے اس کا دماغ بگاڑے۔ آج یوں ہی سہی۔
’’ارے اب مر بھی چکو لوگو! خدا سمجھے تمہیں نیند بھی نہیں آتی‘‘۔ ملکہ بیگم کے دل سے ایک دھواں سا اٹھا اور انہوں نے بے چینی میں اپنا سر تکئیے پر رگڑ ڈالا۔ اس بات پر فوراً ہی ان کی سب سے چھوٹی بچی نے دودھ منہ میں لینے کی کوکوں کوں شروع کر دی۔۔۔
’’او محمود روشنی بند کرو۔ پڑھنا ہے توا ندر جا کر پڑھو، گرمی میں سب کے سرپرروشنی کررکھی ہے‘‘۔ مسعود میاں نے سگریٹ ختم کرکے دھیمی آواز میں محمود کو ڈانٹا۔
’’ہاں خود تو فیل ہو ہو کر اس عمر میں بی۔ اے۔ کیا کہ سرکاری نوکری کی عمر نکل گئی اور اب اتنے دن سے بیٹھے بھائی کی روٹیاں توڑ رہے ہیں۔ شرم نہیں آتی چھوٹے بھائی کو پڑھائی سے منع کرتے‘‘۔ ماں نے زندگی میں پہلی مرتبہ مسعو د میاں کو کھری کھری سنا دی، ورنہ وہ توہمیشہ مسعود میاں کو بے قصور ہی ٹھہراتیں۔ اس جھگڑے سے ملکہ بیگم کا جی خوش سا ہو گیا، انہوں نے سوچا کہ یہ بھی تو کہیں کہ اوپر سے دلہن بھی لاکر بٹھا دی دوسروں کی کمائی کے برتے پر۔
’’اماں جان بس رہنے دیجئے اس وقت۔ ہاں نہیں تو‘‘۔ مسعود میاں ہنکارے۔ ’’تجھ سے کہتا ہوں محمود بندکرروشنی۔ ادھر لا ذرا دیکھوں کیا پڑھ رہا ہے‘‘۔
’’کیوں دکھائوں۔ دیکھ لو اماں جان یہ بڑے آئے۔۔۔‘‘ محمود میاں منمناتے کتابیں سمیٹ لیمپ اٹھا اماں کے کمرے کی طرف بڑھے۔
’’اے ہے لونڈے کو گرمی میں مارےگا۔ یہیں بیٹھ کر پڑھےگا، نیند نہیں آتی تو نہ سو۔۔۔ اس وقت کسی کی نیند کاخیال نہیں آتا جب رات کو بارہ بجے آکر دروازے بھڑبھڑاتے ہو‘‘۔ اماں جان نے محمود کی حمایت لی۔ جب سے مسعود کی شادی ہوئی تھی انکا جی بھر گیا تھا۔
اسی بک بک میں منظور میاں کے خراٹے ٹوٹ گئے۔
’’کیا شور مچ رہا ہے، کمبخت رات کو چین سے سونا بھی نہیں ملتا۔ اور یہ روشنی کیوں ہے۔ بندکرو۔ بجلی مفت کی نہیں‘‘۔
اس فیصلے پر ملکہ بیگم کا کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا اور سب ہی ٹھنڈے پڑ گئے۔ صرف اماں جان نے پاندان بند کر کے دو تین زور دار آہیں بھریں۔
اب ملکہ بیگم کو اپنی آنکھوں پر نیند پتھروں کی طرح دکھی معلوم ہو رہی تھی۔ لیکن وہ سوکیسے جاتیں؟ جلدی جلدی پلکیں جھپکاکر وہ ان پتھروں کو ڈھکیلنے کی کوشش کرتی رہیں۔
صحن میں اندھیرا ہو گیا۔ خاموشی ہو گئی لیکن دلہن بیگم کے کمرے میں ابھی روشنی باقی تھی۔ پھر آہستہ سے ان کے کمرے کی چٹخنی چڑھنے کی آواز آئی اور پھر مکمل اندھیرا چھا گیا۔
اندھیرے آسمان پر ستاروں کی چمک بڑھ گئی۔ کہکشاں نے اپنی راہ موڑ دی ساڑھے بارہ تو بج گئے ہوں گے۔ ملکہ بیگم نے حساب لگایا۔ سب سو گئے۔ اماں جان کے پھسپھسے خراٹے سنائی دے رہے ہیں۔ مسعود میاں اور محمود میاں کی گہری گہری سانسوں تک کی آواز آ رہی ہے۔ سب سوگئے۔ بس اب موقع ہے۔ اب وقت ہے۔ ملکہ بیگم کادل زور زور سے دھڑکنے لگا اس موقع پر ہمیشہ ان کا دل یوںہی دھڑکتا۔ لاکھ جی کو بہلاوے دو ہزار تاویلیں کرو مگر دنیا جس چیز کو گناہ کہہ دے گناہ بن جاتی ہے اور پھر گناہ کھل جائے تو۔۔۔ ملکہ بیگم کاجسم ہمیشہ کی طرح اس خیال سے آج بھی شل ہو گیا۔
چارپائی پر زور دئیے بغیر وہ ہولے ہولے اٹھنے لگیں۔ پھر بھی ایک بار چول چرچرا گئی اور وہ تیزی سے دوبارہ لیٹ گئیں۔
’’اللہ میری توبہ۔۔۔!‘‘ ایک ستارہ ٹوٹ کر نشیب کی طرف لپکا اور ملکہ بیگم کے دل میں بدشگونی نے اپنے پنجے گاڑ دئیے۔ بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ یہ ستارے نہیں ٹوٹتے، یہ تو فرشتے شیطان کو آسمان کی طرف آتا دیکھ کر اپنا گرز چلاتے ہیں۔
ملکہ بیگم کی قوت ایک بار جواب دے گئی۔ ’’یا اللہ معاف کر دے تو منصف ہے تو تو دلو ں کا بھید جانتا ہے۔ تو وہ بے انصافی بھی دیکھتا ہے جو میرے ساتھ روا ہے۔ اللہ چیونٹی بھی پاؤں تلے دبائی جاتی ہے تو کاٹتی ہے۔۔۔ بس تو ہی میرے گناہ بخشنے والا ہے۔ ۔۔‘‘ اور ملکہ بیگم کی نیند بھری آنکھوں میں گرم گرم آنسو جھلک آئے۔ یہ سارے خیالات سنگ ریزوں کی طرح ٹوٹ ٹوٹ کر انہیں اپنے آپ پر گرتے محسوس ہو رہے تھے۔ ذرا دیر کے لیے وہ دبی ہوئی سی پڑی رہیں۔ اس موقع پر انہیں اکثر انہی کیفیات سے سامنا کرنا پڑتا اور جب یہ پر عذاب کیفیات ان پر طاری ہوتیں تو وہ سمجھتیں کہ ان کے گناہ کا کفارہ ادا ہو گیا۔
تھوڑی دیر بعد ملکہ بیگم بھوت کی طرح اندھیرے گھپ کمرے میں ڈوب گئیں۔ وہ اپنے کمرے کے اندھیرے کو پہچانتی تھیں دھیمے مگر نپے تلے قدموں سے وہ اس جگہ تک گئیں، جہاں وہ کنجی رکھتی تھیں۔ یہ کنجی پہلے ان کے میاں چرا کر رکھتے تھے۔ ایک دن یہ ان کے ہاتھ لگ گئی (میاں بےچارے اس دن اپنی کنجی ڈھونڈ ڈھونڈ کر رہ گئے۔ تھک کر انہوں نے تالے کی دوسری کنجی بنوالی تھی) اور اب وہ اس کنجی کو ایسی جگہ چھپا کر رکھتی تھیں کہ کسی کا خیال بھی وہاں نہ پہنچ سکے۔
لیکن آج جی ملکہ بیگم کاہاتھ اس جگہ پہنچا تو کنجی لے کر نہ پلٹا۔ ملکہ بیگم اندھیرے میں اسٹول پر سے گرتے گرتے بچیں۔ انہوں نے اپنی چیخ روکنے کے لیے اپنا کانپتا ہوا خالی ہاتھ کاٹ کھایا۔ انہیں ایک دم یوں معلوم ہوا جیسے ان کے گرد اونچی اونچی سیاہ دیواریں اٹھتی جا رہی ہیں، اور اب وہ قیدی ہیں، بےبس قیدی وہ گم صم سی پکے فرش پر بیٹھ گئیں۔ مگر انہیں یوں لگا جیسے تیز بھنور پر بیٹھی گھوم رہی ہوں، ڈوبی جا رہی ہوں۔
اندھیرے کمرے میں مچھر گنگنا گنگنا کر ان پر جھپٹتے، چیونٹیاں کپڑوں تلے رینگتی اور کاٹتیں، لیکن انہیں توجیسے اپنا ہوش ہی نہیں تھا۔
چوکی پر کتنی بار گھنٹے بج گئے، انہیں اس کی بھی خبر نہ ہوئی۔ انسے ان کی جنتوں کی کنجی چھینی گئی تھی اور اب انہیں سب کچھ بیکار معلوم ہو رہا تھا۔ بھلے ہی مچھر خون چوس لیں، چیونٹیاں بوٹیاں توڑ کر لے جائیں۔ پسینے میں ناک تک غرق ہو جائیں۔ کیا رکھا ہے اب اس زندگی میں کیسے ارمانوں سے انہوں نے سخت اور مایوس کن زندگی کی دیواروں کی کھرچ کر ایک سرنگ نکالی تھی اور وہ سرنگ میں ناک ڈال کر اپنے آپ کو کتنا آزاد، کتنا خوش پاتی تھیں۔ لیکن آج وہ سرنگ بھی نہ جانے کن ظالم ہاتھوں ڈھے گئی۔ اتنے بڑے حادثے نے ملکہ بیگم کو سن کر دیا تھا۔ وہ کچھ بھی نہیں سوچ رہی تھیں۔ دماغ پتھر کے ٹکڑے کی طرح بے حس تھا اور دل وہ تو بس عادتاً اندھیرے مینٹل پیس پر رکھی ہوئی گھڑی کی طرح ٹک ٹک کر رہا تھا۔ یا ہو سکتا ہے صرف گھڑی ہی ٹک ٹک کر رہی ہو۔ ملکہ بیگم اس وقت سوچنے اور فیصلہ کرنے کی حد سے باہر تھیں۔ انہیں یہ تک خیال نہ آیا کہ اگر باہر کسی کی آنکھ کھلی تو انہیں غائب دیکھ کر لوگ کیا سوچیں گے۔
لوہے کی سلاخوں والی کھڑکی کے سفید ہوتے ہوئے آسمان کی روشنی کمرے کے اندھیرے کو ہلکا کرنے لگی۔ آنگن میں ملکہ بیگم کی سب سے چھوٹی بچی نے دودھ ٹٹولنے میں ناکام ہو کر ایک لمحے کو کچھ چیں چاں کی اور پھر ٹھنڈی ہوائوں میں غٹ ہو گئی۔
رات بھر کی گہری نیند کے بعد منظور میاں کا جسم جاگا اور انہوں نے ساتھ کی چارپائی ٹٹولی اور پھر ایک دم آنکھیں کھول دیں۔
’’ارے جان‘‘۔ انہوں نے ملکہ بیگم کو کمرے میں چپ چاپ زمین پر بیٹھے دیکھ کر کہا اور ملکہ بیگم کو احساس ہوا کہ ان کے کولہوں کا گوشت بیٹھے بیٹھے سن ہو چکا ہے اور صبح ہو رہی ہے۔ مگر وہ چپ رہیں۔
’’یہاں میرا انتظار ہو رہا ہے۔ جگا لیا ہوتا مجھے۔ گرمیوں میں عجیب مصیبت ہوتی ہے ، تم سے بات تک کرنے کاموقع نہیں ملتا‘‘ اور پھر انہوں نے کمرے کے ایک کونے میں تھوک کر ملکہ بیگم کو چوتھی کی دلہن کی طرح اٹھاکر اونچی سی شیشوں والی مال غنیمت کی مسہری پر ڈال دیا۔
ملکہ بیگم ایک اذیت ناک ضبط سے چھٹکارا پاکر آن کی آن میں ہچکیوں اور سسکیوں سے طوفان میں بہہ گئیں۔
اب میاں بے چارے پہلے تو مجرم بنے کھڑے رہے، پھر ایک دم بپھر گئے۔ ’’آخر کچھ بولو بھی تمہیں کیا ہو گیا؟‘‘
مگر ملکہ بیگم کچھ نہ بولیں بس روئے چلی گئیں۔ رات بھر کی امڈی ہوئی گھٹا ٹوٹ ٹوٹ کر برسے گئی۔ گھر میں سب جاگ اٹھے۔ ملکہ بیگم کے کمرے سے رونے کی آواز بڑی صاف آ رہی تھی۔ مگر جب اندرمیاں بیوی دونوں ہوں تو اور کون وہاں قدم رکھے۔
’’میاں بیوی کی کوئی بات ہوگی، ملکہ بیگم تو فیل مچانے کی عادت نہ تھی۔ مسعود کی دلہن کے رنگ ڈھنگ وہ بھی سیکھ رہی ہیں کہتے ہیں خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتاہے‘‘۔ وضو کے لیے لوٹا سنبھالتے ہوئے ماں نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے محمود میاں سے کہا جو بستر پر بیٹھے سرکھجا کر نیند کا خمار اتار رہے تھے۔
’’یہ عورتیں واللہ فیلی کرنے میں نمبر اول‘‘۔ مسعود میاں نے اپنی دلہن کے بند کمرے کی طرف دیکھ کر سوچا اور پھر نل سے کھڑے ہی کھڑے منہ دھونے لگے۔
وقت بےحد اذیت سے گزر رہا تھا۔ ملکہ بیگم کا کمرہ پراسرار بنتا جا رہا تھا۔ منظور میاں منہ پھلائے نکلے۔ منہ دھویا اور پھر کمرے میں جانے لگے۔ ان سے کسی کو سوال کرنے کی جرات نہ ہوئی۔
’’ارے اماں جان اسکول کاوقت ہو گیا، ناشتہ دیجئے‘‘۔ محمود میاں سب سے پہلے باورچی خانے میں گھسے۔
ارے منحوس ٹھہر تو، پہلے بڑا بھائی تو دو لقمے منہ میں ڈال لے ۔ سویرے سویرے جی جھلس رہاہے۔ میرا لال۔ اس کے دوکان جانے کا وقت ہو رہا ہے۔ اللہ میری توبہ آگ لگے اس زندگی کو‘‘۔ اماں نے دانت کٹکٹا کٹکٹا کرکہا۔ توے سے اڑی ہوئی چھینٹ نے انہیں اور بھی چراغ پا کر دیا۔ انگوٹھا جل کر رہ گیا تھا۔
مگر محمود میاںنے ناشتے کے لیے بیتابی سے انتظار کرتے ہوئے دیکھا کہ بڑے بھائی حسب معمول سیاہ صندوقچہ ہاتھ میں لیے باہر نکل گئے۔ ابھی آٹھ بھی نہ بجے تھے اور پھر بغیر ناشتہ کئے۔
’’ارے منظور۔ اے ناشتہ تو کر لو‘ تمہاری دوکان پر کون نصیبوں جلا صبح صبح اپنا کفن خریدنے آرہاہے جو اتنی جلدی نہار منہ چل دئیے‘‘۔ اماں جان چلائیں۔
مگر منظور میاں نہ پلٹے وہ کافی تائو میں تھے۔ بگڑنے کی بات تو تھی ہی۔ گھنٹہ بھر سے بیوی سے یوں چہکوں پہکوں رونے کی وجہ پوچھ رہے تھے، مگر وہاں کوئی جواب نہ تھا۔
ملکہ بیگم کے رونے سسکنے کی آواز بدستور آرہی تھی۔ مسعود میاں کی دلہن بھی اپنی خفگی بھول کر کمرے سے نکلیں اور سیدھی ملکہ بیگم کے کمرے کی طرف چلیں۔ ان کے پیچھے اماں جان بھی پر اٹھا ڈلیا میں پٹک کر بھاگیں۔
’’اے جب سے سن سن کر کلیجہ منہ کو آ رہا ہے۔ منظور کے ہوتے کمرے میں آتے شرم آتی تھی۔ اب تک کلیجے پر سل رکھے بیٹھی تھی۔ بتائو ملکہ بیگم آخر ہوا کیا؟‘‘ اماں جان نے جلدی جلدی پوچھا۔
پھر مسعود میاں بھی اندر آ گئے۔ انکے پیچھے محمود میاں اور پھر ملکہ بیگم کے تینوں بچے۔ باہر صحن میں سب سے چھوٹی حلق پھاڑ پھاڑ کررونے لگی۔ مگر ملکہ بیگم سب کی موجودگی میں بھی اس طرح گھٹنوں پر اپنا پھولا سوجا منہ رکھے روتی رہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے اس وقت روئی تھیں جب ان کا پہلا بچہ مرا تھا۔
’’کیا بات ہے بھابھی؟ منظور بھائی نے کچھ کہا؟‘‘ مسعود میاں نے سینہ سپر ہو کر پوچھا۔
وہی آنسو!۔۔۔
’’کہیں درد ورد تو نہیں بھابی‘‘۔ مسعود کی دلہن نے مسہری پر بیٹھ کر لیٹتے ہوئے سوال کیا۔
وہی سسکیاں!۔۔۔
’’اللہ سمجھے جس نے میری بچی کا دل دکھایا ہو۔ ارے یہ بہو نہیں میری بیٹی کی طرح ہے۔ اسی سے میرا کلیجہ ٹھنڈا ہے۔ کیا ہوا میری بچی مجھے بتا دے‘‘۔ اماں جان نے گلے لگا کر رندھی ہوئی آواز میں پوچھنا چاہا۔
بچے بھی تنگ آکر رونے لگے۔ پوتوں پوتیوں کو اس طرح روتے دیکھ کر بےچاری بڑھیا بھی پھوٹ پڑیں۔
’’کیا ہو گیا، کسی کی سنتی ہی نہیں، بچے بےچارے بھوکے پیاسے رو رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے اپنے سفید دوپٹے سے آنسو پونچھے اور ناک سرخ کئے اپنے پوتوں پوتیوں کو سمیٹ کر باہر نکل گئیں۔
مسعود کی دلہن دوڑ کر بے بسی کے عالم میں سب سے چھوٹی بچی کو ہمدردی کا آخری حربہ سمجھ کر اٹھا لائیں۔ لیکن دو بالشت کی جان اتنا تڑپی، اتنا بلکی کہ بےچاری دلہن نے گھبرا کر اسے ملکہ بیگم کی گود میں ٹھونس دیا۔ ننھی نے دودھ کی خوشبو سونگھی تو کو ں کوں کرکے جمپر پر ہاتھ اور منہ مارنا شروع کر دئیے۔اچانک ملکہ بیگم نے آنسو اپنے دوپٹے سے پونچھ دئیے اور پھر ملکہ بیگم کی آنکھوں میں کوئی آنسو نہ آیا۔
ناشتہ مسعود میاں خود لائے۔ مگر ملکہ بیگم نے ادھر آنکھ بھی نہ اٹھائی۔ دوپہر بھی فاقہ کیا، شام بھی ایک کھیل اڑ کر منہ میں نہ گئی۔ وہ تمام دن مسہری پر گم صم بیٹھی سوکھی سوکھی ہچکیاں لیتی رہی۔ رات کو نیند بھی بڑی بھیانک آئی۔ معلوم ہوتا جیسے خواب میں پلنگ سے گر پڑی ہیں۔ سینے میں دل ڈاکو کی طرح دھم سے کودتا اور آنکھ کھل جاتی۔ کبھی لگتا اپنے کان پور والے گھر میں چھوٹی سی ہیں۔ ابا پیسہ دو گنڈیریاں لیں گے۔وہ ابا سے ٹھنک ٹھنک کر کہہ رہی ہیں اور ابا پیسہ نہیں دیتے کیونکہ لڑکی ذات کی چٹورے پن کی عادت پڑنے کا خدشہ ہے۔ پھر گھر میں ایسے اوپر کے چٹھے مٹھے آتے ہی رہتے۔ پھر انہیں کسی طرح ایک پیسہ مل جاتا ہے۔ اپنے پچھواڑے کے کھنڈر نما ٹیلے سے اتر کر وہ گلی میں بیٹھنے والے گنڈیری والے کی طرف بھاگتی ہیں اور پھر پھسل جاتی ہیں۔ نیچے نیچے ایک غار میں۔ وہ چارپائی پر خوف سے اچھل پڑتیں اور پھر ان پہ غنودگی طاری ہونے لگتی۔ پھرخواب اور خواب جانے کہاں کہاں کے تک بےتک سلسلے ملتے جاتے۔ وہ دیکھتیں کہ ان کی دور کی رشتے کی پھوپھی اماں (جنہیں اب وہ اماں جان کہتیں) کے اصرار پر پلائو زردوں کے ترنوالے اڑاتی رہیں۔ پھرآندھی سی چلی۔ دستر خوان اڑ گیا۔ دھائیں دھائیں بادلوں کی گرج کی طرح گولیاں چلیں اور ان کے سسر کی سفید داڑھی خون میں لال ہوگئی۔ رو رو کر وہ دیوانی ہو گئیں۔۔۔ پھر نہ جان خواب میں وہ کہاں نکل گئیں کوئی اجنبی سادیس کوئی گھٹا گھٹا سا گھر۔۔۔ دستر خوان بچھا پررو کھی سوکھی پربھونوں کے اتنے پنجے بڑھے کہ ان کا منہ خالی رہ گیا۔ ایک دم خالی۔ بھوک سے انکے پیٹ میں درد ہونے لگا اور پھرعجیب بات ہے کہ بچوں پربچے انکا بھوکا پیٹ پھاڑ پھاڑ کر باہر آنے لگے۔۔۔ ایک قطار کھڑی ہو گئی۔۔۔ پیٹ میں درد بڑھتا گیا اور وہ چیخیں مارنے لگیں۔
’’ملکہ ! ملکہ! جاگو کیا خواب دیکھ رہی ہو‘‘۔ منظور میاں نے نیند سے اٹھ کر انہیں جھنجھوڑ ڈالا۔
’’کیا ہوا خواب میں ڈر گئیں‘‘۔ اماں جان نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
’’کچھ نہیں‘‘۔ ملکہ بیگم نے چکراتا ہوا سرپکڑ کر جواب دیا۔ ستارے پھیکے پڑ رہے تھے۔ سویرا ہونے والا تھا اور ملکہ بیگم کو خواب سے جاگ کر محسوس ہوا کہ انہیں شدید بھوک لگ رہی ہے۔
سویرے ملکہ بیگم نے تھوڑے سے اصرار پر ڈٹ کر ناشتہ کر لیا او ر جب پیٹ بھر گیا تو پھر اچانک انہیں اپنی جنت گم گشتہ یاد آ گئی لوہے کا ایک ٹکڑا جو ایک تالے کی کنجی کی شکل میں ڈھل گیا تھا۔۔۔ اور ویسا لوہے کا ٹکڑاب انہیں کبھی نہیں مل سکتا تھا۔
ملکہ بیگم نے دوپہر کی گرم تنہائی میں پھر رونا بلکنا شروع کر دیا۔ مسعود کی دلہن اور اماں جان نے بہت بہت پوچھا۔ مگر وہ کچھ نہ کہہ سکیں۔ وہ کیسے کہتیں کہ میں اپنے گناہ کا راستہ مسدود ہونے پر سوگ منارہی ہوں۔ اور یہ نہ کہہ سکنے کی بے بسی انہیں اور بھی رلا رہی تھی۔ آخر ہار کر ساس غریب روتی بین کرتی اپنی کوٹھی میں جا پڑیں۔
ارے آج خدا کو خدا بخشے وہ شہید، مرے سر کا تاج ہوتا تو کیوں میری یہ وقعتیں ہوتیں۔ کوئی میری نہیں سنتا۔ سمجھتے ہیں موئی سڑن بک بک کررہی ہے۔ آج کو منظور کھلا رہے ہیں اپنے بھائیوں کو تو ماں پخنی سے سیدھے منہ بات تک کرنا گوارا نہیں۔ کل میں ناشتے کو بلاتی رہی منہ پھیرے نکل گئے۔ مسعود ہیں وہ الگ ہر وقت تیوری چڑھائے ہیں۔ ارے میں کسی کی جوتیاں کھانے والی نہیں۔ دو نوالے کھاتی ہوں تو نوکروں کی طرح سارا گھر سنبھالتی ہوں۔ مجھ پر کسی کا کوئی احسان نہیں۔ میں اپنے ہاتھ پیروں کا صدقہ کھاتی ہوں۔ ہاں اب تو سب نوچ لیامجھ سے اب کوئی کیو ں پوچھے کہ اماں مرتی ہو یا جیتی ہو‘‘۔ بھری دوپہر میں اماں جان چلاتی رہیں۔
اور ملکہ بیگم کے آنسو یہ سب سن سن کر اور بھی شدت سے بہنے لگے۔ آخروہ دو دن کے سوگ کے بعد پہلی دفعہ ہچکیاں لیتی کہنے لگیں، ’’خدا گواہ ہے دلہن! میں نے اپنا چھلا چھلا انہیں دے دیا کہ دکان میں لگا دیں۔ اس پر بھی انہوں نے میری بات نہ پوچھی۔ روٹی کے علاوہ بھی بچوں کو کچھ چاہیے، انہیں ذرا خیال نہ آیا۔ میں نے صبر کیا، کیا اماں کبھی انہیں نہیں سمجھا سکتی تھیں۔۔ میں نے تو اتنا کرکے بھی احسان نہیں جتایا۔ مگر اماں نے اپن سونے کے کڑے کیا دے دئیے کہ بیٹھی گنا رہی ہیں۔ میرا کیا ہوا کوئی نہیں گنتا۔ کوئی نہیں پوچھتا۔۔۔ اب ایسے میں اگر مجھ سے کوئی گناہ ثواب ہو جائے تو۔۔۔ تو سب۔۔۔!‘‘ ملکہ بیگم کو یک لخت اپنی بے بسی کا احساس ہوا اور انہوں نے اپنے گھٹنوں پر سر ٹکا لیا۔
’’بھابی یہ حال دیکھ کر میں تو اپنے جی میں چور بنی رہتی ہوں۔ تمہارے دیور بھی نوکری کی پوری طرح کوشش نہیں کرتے۔ مجھے شادی سے پہلے معلوم ہوتا کہ ایسی جگہ قسمت پھوٹ رہی ہے تو کچھ کھا لیتی‘‘۔
مسعود کی نئی دلہن کی آنکھوں میں پانی آ گیا اور اس دن آنکھوں کا یہ پانی آنکھوں ہی آنکھوں میں پھیلتا چلا گیا۔ محمود میاں نے اسکول سے آکر کھانا مانگا۔ اماں جان نے ڈوب مرنے کا مشورہ دیا کہ ایسی بے عزتی کے کھانے سے بہتر ہے آدمی سڑک کی دھول پھانک لے۔ محمود میاں بھوکے تھے۔ بھوک میں رونا ذرا جلدی آتا ہے۔ سووہ اچھے خاصے بڑے ہونے کے باوجود بھوں بھوں رونے لگے۔
مسعود میاں جو ابھی اپنی دلہن کے ساتھ کھانے بیٹھے ہی تھے۔ اماں جان کی باتوں کے اصل رخ کو سمجھ گئے۔ نوالہ چھوڑ کر اٹھ گئے اور اپنے کمرے میں جا پڑے۔
اب ڈھنگ کی نوکری نہیں ملتی تو کیا کریں؟ آدھی زندگی تو اس امید میں بسر ہو گئی کہ بی اے کرلیں تو پھر گھر کے سارے دلدر دور کر دیں گے۔ سب کے احسانات یوں چٹکی بجاتے میں اتار دیں گے۔ پر نوکری اپنی جیب میں تو رکھی نہیں ہے کہ نکالی اور کر لی۔ مسعود میاں مارے کھسیاہٹ کے اپنی اکلوتی بشرٹ کی استری کا خیال کئے بغیر آنکھوں کے آنسو چھپانے کو پلنگ پر اوندھ گئے۔
اس دن سارا گھر اوندھ گیا۔ بچے گلی میں دھواں اڑاتے رہے۔ بڑوں میں کسی نے کچھ نہ کھایا۔ صرف منظور میاں کی دوکان کا نوکر کھانا لینے آیا تو کھانا بھیج دیا گیا۔ شام کو بھی اماں جان نے چولھا نہ جلایا۔ صبح کاہی کھانا جوں کا توں پڑا تھا۔ ملکہ بیگم اپنے کمرے میں پڑی پڑی اپنے آپ کو اس اداسی اور کشیدگی کا ذمہ دار سمجھنے لگیں۔ لیکن رات کو جب منظور میاں بغل میں سیاہ صندوقچہ دبائے گھر لوٹے اور چولھا اوندھا دیکھا تو صورت حال سمجھ کر ایک دم بولا کر چیخنے لگے۔
’’سب کے دکھوں کا ٹھیکہ دار میں ہوں میری بوٹیاں نوچ لو۔ میں یہاں سے منہ کالا کر جاؤں تو سب کے دماغ درست ہو جائیں گے۔ دونوں وقت روٹی مل جاتی ہے نا اس لیے سارے لڑائی جھگڑے سوجھتے ہیں۔ ابھی دن بھر چار گز کپڑا بیچنے کے لیے دوکان پر سارا دن بیٹھنا پڑے تو۔۔۔‘‘ منظور میاں کو مارے غصے کے اچھو لگ گیا اور وہ نیم بے ہوش سے ہوکر پلنگ پر گر پڑے اور دوسرے ہی لمحے سب ایک دم ہوش میں آ گئے۔ کوئی دوڑ کر پانی لایا، کسی نے پنکھا جھلا اور جب انہوں نے آنکھیں کھولیں تو سب نے خدا کا شکر ادا کیا۔
اس رات سبھوں نے اکٹھا بیٹھ کر کھانا کھایا اور کھانے کے بعد بڑی دیر تک بڑے اچھے موڈ میں غپ شپ ہوتی رہی۔
ملکہ بیگم کے دل پر گہرا صدمہ تھا مگر پھر بھی انسان غم بھول ہی جاتا ہے۔ ان کا پہلا بچہ مرا تھا تو کیا وہ مر گئی تھیں۔۔۔؟ مسعود میاں کے کئی لطیفوں پر وہ بھی آواز سے ہنس پڑیں۔ ایک زمانے کے بعد یہ خوش گوار رات آئی تھی۔
باتوں سے تھک کر سب سے پہلے منظور میاں کے خراٹے بلند ہونے لگے اور پھر روشنی گل کر دی گئی۔ آہستہ آہستہ سب سو گئے۔ ملکہ بیگم نے حسب معمول سب کے سو جانے کا انتظار کیا اور جب سب کے سو جانے کا یقین ہو گیا تو چند لمبی لمبی ٹھنڈی سانسیں لے کر آنکھیں موند لیں۔ جب راتیں انہیں پراسرار سرگوشیو میں جاگتے رہنے کی تلقین کرتی تھیں تو انہیں نیند کتنی پیاری معلوم ہوتی تھی۔ مگر آج جب رات قبر کی طرح سونی اور خاموش تھی تو نیند ان کی آنکھوں سے دور تھی۔ کتنی اجاڑ مردہ سی رات ہے۔ ملکہ بیگم نے بڑے دکھ سے محسوس کیا اور جانے کب تک یوں ہی بےحس و حرکت اس احساس تلے دبی پڑی ہیں۔ دور کہیں کوئی کتا بڑی منحوس آواز میں روئے چلا جا رہا تھا۔
اور جب بہت رات گئے ایک کتا ان کے دروازے پر آکر منحوس آواز میں رویا تو منظور میاں کی آنکھ کھل گئی۔ اچانک انہیں اپنے کمرے سے کچھ مدھم آوازیں سنائی دیں۔
جیسے کوئی رو رہا ہو اور کہہ رہا ہو، میرا حصہ دو اس میں سے، میرا حصہ۔
منظور میاں کے غنودہ ذہن پر چڑیلوں بھوتوں کا تصور ابھرا۔ لیکن جب انہوں نے اپنی بیوی کی چارپائی کی طرف دیکھا تو اچانک اٹھ کھڑے ہوئے۔
کمرے میں کوئی چیز کسی چیز سے ٹکرا کر زور سے گری۔ سارے گھر والے جاگ پڑے اور منظور میاں کے کمرے میں روشنی دیکھ کر خوف سے ادھر ہی بھاگے۔
اور پھر سب سناٹے میں آ گئے۔
ملکہ بیگم جو ننگے سر ننگے پاؤں کھڑی تھیں، ان کی روتی ہوئی آنکھیں خوف سے پھٹ گئی تھیں اور اماں جان کی بند مٹھی تھرتھرا رہی تھی۔
’’ملکہ ! اماں!! یہاں کیا ہو رہا ہے؟ منظور نے حیران ہوکر دونوں سے پوچھا۔ ملکہ بیگم ساکت کھڑی زمین پر گرے ہوئے صندوقچے کو گھور رہی تھیں اور اماں جان کی تھرتھراتی ہوئی مٹھی بے جان ہوکر کھل رہی تھی۔
مٹھی بڑے آسیبی انداز سے کھل گئی۔ منظور میاں کے سیاہ صندوقچے پر کوئی چیز ٹھن سے بجی۔ سب نے دیکھا، یہ ایک چونی تھی اور لوہے کی ایک کنجی۔
ارے خدا کی شان ہے۔ اپنوں پر ہی ڈاکے پڑتے ہیں۔ جبھی تو میں کہوں کہ چار چھ آنے روز روز حساب میں کم کیوں ہوتے ہیں۔۔۔؟ منظور میاں نے انتہائی دکھ میں اپنے سر کے بال دونوں ہاتھوں سے نوچ لیے۔
مأخذ : کتاب : لوح (Pg. 620) Author : ممتاز احمد شیخ مطبع : رہبر پبلشر، اردو بازار، کراچی (2017) اشاعت : Jun-December
مصنف:ہاجرہ مسرور