کنیز

0
145
Urdu Story Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’یہ ایک عورت کی ازلی مظلومیت اور استحصال کی کہانی ہے۔ کنیز کم عمر کی ایک مطلقہ عورت ہے جو مرادآباد سے اپنے تین بچوں کے ساتھ ہجرت کر کے شوہر کی تلاش میں پاکستان آتی ہے۔ شوہر اسے گھر سے نکال دیتا ہے تو بیگم صاحبہ اپنی کوٹھی میں اسے پناہ دیتی ہیں۔ بیگم صاحبہ بظاہر کنیز کی ماں بن کر ہمدردی اور محبت کی آڑ میں جس طرح سے اس کا استحصال کرتی ہیں وہی اس کہانی کا نچوڑ ہے۔ کنیز ایک طویل مدت تک خدمت کرنے کے بعد بھی محض نوکرانی ہی رہتی ہے اور بالآخر ایک دن وہ کوٹھی چھوڑ دیتی ہے۔‘‘

سول لائنز کی سب سے کشادہ اور سب سے خوبصورت سڑک پر میل ڈیڑھ میل کی مسافت سے تھکی ہوئی کنیز اور ان کی دادی سٹر پٹر جوتیاں گھسٹتی چلی آرہی تھیں۔ دادی کی چادر لو میں پھڑپھڑا رہی تھی۔ کنیز کا پرانا کالا برقع تو ہوا کے زور سےکئی بار سر سے اتر اتر گیا۔ اس پر سےنمی اور چمی! نمی تو خیر ماں کی انگلی پکڑے چلی آرہی تھی، مگر چمی میں اتنی جان کہاں۔ دادی کا سوکھا جسم، جھکی کمر، اس پر سے کولھے پر چمی۔۔۔ لو میں سرخ تانبا ہو رہی تھی۔

’’اللہ تیرا شکر ہے۔ ہم نےصبر کیا تو صبر نہ کیجیو۔‘‘ دادی رہ رہ کر کراہ اٹھتیں۔ لیکن کنیز باربارسوچتی، ’’اماں بیگم تانگےکے لیے روپیہ دے رہی تھیں، لے لیا ہوتا تو کا ہے کو یوں لو میں بھنتے۔ قرض میں بھلا کیا بے عزتی؟ دادی پھر تو اپنی ناک رکھنے کو ادا ہی کرتیں، ویسے لاکھ خست کریں۔‘‘ مگر اس سوچ بچار کے باوجود سڑک لمبی ہی ہوتی جا رہی تھی۔ جو کوٹھی آتی بس، جی چاہتا کاش یہی کوٹھی اپنی ہوتی، جلدی سے اس تپتی سڑک سے بچ کر اندر گھس کر بیٹھ رہتے۔ مگرجب لو دھوپ میں آنکھیں مچمچا کر دیکھا جاتاتو ابھی منزل دور ہی نظر آتی۔۔۔ نہر کے پل کے ادھر ہی تو اپنی ننھی سی کوٹھی تھی۔ لمبے لمبےشیشم، یوکلپٹس، آم، جامن اور گولر کےدرختوں کے گھنے گھنے سایوں میں دبکی ہوئی کوٹھی۔ یہاں سورج بھی مار کھا کر آتا، لو بھی غراتی آنےکے بجائے سسکی لے کر آتی۔

بہر حال حرکت میں برکت ہے۔ ان کی کوٹھی آہی گئی۔ لپک کر اپنے گوشہ عافیت میں سب نے پناہ لی۔ ابھی دروازہ بھی بند نہ ہوا تھا، چادر برقع تک نہ اترا تھا کہ کنیز پر اس کی بپتا نے جھپٹ کر حملہ کردیا۔ ’’ارے تو قصہ ختم۔‘‘ حسرت ناک تعجب کی لہر میں اس نے اچانک اپنے زانوؤں پر ہاتھ مار کر رونا شروع کردیا۔

’’ارے عشرت میاں، میرے ساتھ تم نے دھوکہ کیا، ارے پوچھوں ناؤ کس نے ڈبوئی، کہا خواجہ خضر نے۔‘‘ کنیز نے لہک کر بین کیا اور ماتھا کوٹ لیا۔ دادی نے کپکپاتے ہاتھوں سے چادر اتاری، پان سے لال ہونٹوں کے گوشے لرزے، ٹھوڑی پھڑکی، چہرے کی ایک ایک جھری کانپ گئی۔ اور میلی میلی آنکھوں سے آنسو ٹپک کر جھریوں کی راہ سارے چہرے پر بہنے لگے، انہوں نے چمی کو زمین پر اتارا تو اس نے تیز آواز میں رونا شروع کر دیا۔ دادی، دادی۔ وہ ایک ہی سر میں رو رو کر انہیں اپنی طرف متوجہ کرنےکی کوشش کرنے لگی، لیکن کنیز کو بے حال دیکھ کر دادی کو اتنا ہوش کہاں رہتا۔ نمی کو پیاس لگ رہی تھی، اس نےبھی موقع غنیمت دیکھ کر پانی پانی پکار کر رونا شروع کر دیا۔

- Advertisement -

’’ارے میرا بچہ مجھ سے چھڑایا، عشرت، تو اپنی میا سے چھٹ جائے، تو مر جائے عشرت۔‘‘ کنیز نے کچہری میں ممتاز کو عشرت کے حوالے کیے جانے کا منظر یاد کر کے سینہ پیٹ لیا اور بیہوش ہو کر کھڑے قد سے زمین پر آ رہی۔ اب تو نمی چمی اور دادی نے مل کر وہ ہائے واویلا کی کہ اپنی کوٹھی والے بھی جاگ اٹھے۔ بڑی بیگم ہول کر پلنگ سے اٹھیں تو چابیوں کا گچھا ٹخنوں پر ہتھوڑے کی طرح لگ کر بجا۔ ایک لمحے کو پاؤں پکڑ کر رہ گئیں۔۔۔ لیکن پھر فوراً ہی کمرے سے نکل کر برآمدے میں آگئیں، سلمیٰ بی نے نہایت سستی سے ایک جماہی لے کر اپنے آپ سے کہا، ’’فیصلہ ہوگیا شاید۔‘‘ اور پھر کروٹ بدل لی۔

’’کنیز، اے کنیزادھر تو آؤ، کیا ہوا؟‘‘

’’ہائے کنیز کہاں، کنیز تو چل دیں۔‘‘ دادی کی پھٹی ہوئی آواز گونجی اور بڑی بیگم ننگے پاؤں ہی ادھر بھاگیں۔ پیچھے سے سلمیٰ بی بھی اپنا ساٹن کا پیٹی کوٹ سنبھالتی نکلیں۔

’’چل دی؟ لو بھئی غضب ہوگیا۔ اب کیا کریں؟‘‘ کلیجے میں پنکھے سے لگ گئے۔ مگر کنیز تو وہاں موجود تھی، مری بھی نہیں تھی، کیسی صاف سانس چل رہی تھی۔

’’اے اصغری بیگم !تم نےتو دہلا دیا، کیا ہوا؟‘‘ بڑی بیگم کے ننگے تلوے جیسے ابھی تک بھوبل پر تھے۔

’’ہوا کیا بیٹی، نصیب کے لکھے پورے ہوگئے، کبھی ہمارے گھروں میں کاہے کو ایسا ہوا تھا۔ اس پاکستان نے مٹی خراب کردی۔‘‘

’’رہنے دو بوا، رونےدھونے کو، اچھا ہوا کم بخت سے لونڈیا کا پنڈ چھٹ گیا۔ مہر کا کیا فیصلہ ہوا۔ لڑکا تو اسی کو مل گیا ہوگا۔ لڑکیاں بھی اس کے منہ پر پھینک دی ہوتیں۔ گندی بوٹی کا گندہ شوربا۔‘‘

’’ارے بیٹی کوئی اولاد کیسے چھوڑ دیوے، ارے میں تو پالے پوسے کی محبت میں گھر سے بے گھر ہوگئی، یہ تو اس کے اپنےجنے ہیں۔ لڑکے کے غم میں بے ہوش پڑی ہے۔‘‘ دادی نے رو رو کر کہا۔ بڑی بیگم نے کنیز کے منہ پر پانی کے چھینٹے دیے۔ کنیز نےجلدی سےآنکھیں کھول دیں۔ کٹورا بھر پانی پیا اور سر پکڑ کر لمبی لمبی سانسیں لینے لگی۔ بڑی بیگم نے کنیز کو اپنے کندھے سے لگا لیا اور آنکھوں میں آنسو بھر کر بولیں،’’کنیز تو تو میری بچی ہے، تو کس بات کا فکر کرتی ہے، شکر کر تیرا اس کم بخت سے چھٹکارا ہوگیا۔ ابھی تیری عمر ہی کیا ہے؟ دیکھ لینا ایسی جگہ بیاہوں گی کہ تو اپنی خوشیوں میں مجھے بھی بھول جائے گی۔ پرسوں ہی تیری بات آئی تھی۔ لڑکا پانسو کا نوکر ہے۔ میں نے کہہ دیا، بھئی ابھی لڑکی کا فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ پھر مجھے لڑکے کی شکل بھی پسند نہ تھی،اے اصغری بوا جیسی اپنی کنیز کی شکل صورت ہے ویسا ہی جوڑ کا لڑکا ہو۔‘‘

اسی دوران میں سلمیٰ بی جا چکی تھیں۔ یہ سارے کام انہوں نے اپنی اماں پر چھوڑ رکھے تھے۔ انہیں تو بس اپنے کام سے کام تھا۔۔۔ دادی نے گھور کر سلمیٰ بی کو کوٹھی کی طرف جاتے دیکھا، انہیں یہ لونڈیا پھوٹی آنکھ نہ بھاتی، کنیز سے تو کافی ہنس بول لیتی، مگر دادی کو دو انگلی اٹھا سلام بھی نہ کرتی، جیسے وہ ان کی نوکر ہوں۔ واہ غریبی میں کہیں کوئی شرافت مر جاتی ہے، دادی کو کیا پڑی تھی جو کسی کی خوشامد کرتیں۔ ان کے اپنے ’’بڑے میاں‘‘ کا مراد آباد میں اچھا بھلا پکا مکان تھا۔ وہ تو آئے دن خط لکھتے رہتے کہ آجاؤ، تم نےاپنے بھانجے کی اولاد کےلیے میرا ساتھ چھوڑ دیا، مگر وہ بے چاری لاولد تھیں۔ اپنےمرحوم بھانجے کی ذرا سی بچی کو اولاد کی طرح پالا، شادی بیاہ کیا، اب یہ قسمت کہ اس کا میاں پاکستان آیا اور وہ بھی دیوانی بنی اس کے پیچھے چلی آئیں، پالے پوسے کی آگ تو پیٹ میں رکھنے کی آگ سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔ مگر یہ باتیں آج کل کی لڑکیاں خاک سمجھیں؟ وہ تو بڑی بیگم کی مروت تھی جو دادی سلمیٰ بی کے تیوروں پر کچھ نہیں کہتی۔ اور پھر اس وقت تو جہاں سلمیٰ بی پیٹھ پھیر کر مٹکتی چلی گئیں، وہاں بڑی بیگم نے سب کو اپنوں کی طرح سمیٹا اور اپنے کمرے میں لے گئیں۔

ان کے کمرے میں پلنگ دو ہی تھے، ایک پر سلمیٰ بی پہلے سے مست مارے پڑی تھیں، اب بڑی بیگم کی مسہری پر اتنے لوگ کیسے بیٹھتے، سو فرش پرہی پاندان کھلا۔ دکھ سکھ کی یادیں ہوئیں، اور خوب ہوئیں۔ دادی روئیں، کنیز آنچل منہ پر ڈال کر سسکی تو بڑی بیگم کی آواز بھی بھرا گئی، سلمیٰ بی نے بڑی بیگم کے اتنےخلوص پر سوتے میں کئی بار ہوں ہوں بھی کی۔ آخر بیٹھے بیٹھے بڑی بیگم کی کمر میں درد ہونے لگا۔ اور وہ دادی کے اصرار سے اپنے پلنگ پر لیٹ گئیں، مگر اس وقت بغیر کنیز کے چین کہاں۔۔۔ بولیں، ’’کنیز بیٹی میرے پاس آجا۔ اری میں کہتی ہوں منہ سے کہے کا بھی کیسا پیار ہوتا ہے، تجھے بیاہوں گی تو کیسےقرار آئے گا؟‘‘

یہ سن کر دادی کے ہاتھ قبلے کی طرف اٹھ گئے۔ اللہ بیکسوں کے لیے تو ہی دنیا میں فرشتے بھیج دیوے ہے۔ دادی کی آنکھیں ایک بار پھر پر آب ہوگئیں۔ اور کنیز کے زخموں کی جلن کچھ کم ہوگئی۔ وہ شرماتی، پائنتی بیٹھ گئی، بیگم سے اس کی عقیدت پیروں اور ولیوں سےبڑھ کر ہو گئی۔ بیگم نے اٹھ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا مگر پھر فوراً ہی گھنٹیا کے درد سے مجبور ہوکر اپنے ہاتھوں اپنی پنڈلیاں مسکنے لگیں۔

’’اماں بیگم سو رہئے۔‘‘ کنیز نےانہیں زبردستی لٹا دیا اور ان کی پنڈلیاں مسکنے لگی۔ بڑی بیگم نے بہت نہیں نہیں کی، دادی کوبھی کنیز کی اتنی عقیدت آنکھوں ہی آنکھوں میں کھل گئی، مگر وہ ایک نہ مانی۔ اس نے سوچا کیا ہوا۔ کوئی اپنی ماں کے پاؤں دبانے میں بے عزتی ہووے ہے۔۔۔ ارے یہ ماں نہیں تو اور کیا ہیں، انہیں ہم سے کیا میٹھا لالچ، اس دیس میں کون کسی کو پوچھے ہے۔ ایک یہ بیچاری اپنی طرف کی مل گئیں جو انہوں نے اپنا بنا کر گھر میں جگہ دے دی، ورنہ اماں بیگم کوئی غلط تو نہیں کہتی ہوں گی کہ سارے پنجابی پنجابی بھرے پڑے ہیں اس دیس میں۔ ’’آپ جناب‘‘ تک کا مذاق اڑاوے ہیں۔۔۔ مگر عشرت کو یہ سب سوچنےکی کیا ضرورت تھی۔ طلاق کے دو بول لکھ کر دے دیے اور اپنی کوٹھری سے یہ کہہ کر نکال دیا کہ اب تمہارا مجھ سے پردہ واجب ہے۔ یہ نہ سوچا کہ اپنے مرادآباد میں اس طرح کرتے تو ایسا کچھ برا نہ تھا۔ وہاں میاں نصیبوں جلی کا گھر تو تھا۔ اپنی سگی پوتیوں سے زیادہ سمجھ کر پالا۔ دادا اس بڑھاپے میں بھی ہر طرح مدد کو تیار ہوتے۔۔۔

پر اس پاکستان میں تو دادی غریب کا ساتھ بھی اس حالت میں نہ ہونے کے برابر۔۔۔ دادا کا پیسہ کوڑی بھی آنےکا کوئی راستہ نہیں۔۔۔ نہ یہاں رہنے کا کوئی وسیلہ نہ جانے کی آس۔ اپنے غیر ہوگئے۔ ارے یہ جنم کا ساتھی، اس نے تو ایسی آنکھیں پھیریں کہ طوطا بھی کیا پھیرے گا۔ یہ نہ سوچا کہ اس بڑے شہر میں کہاں جاویں؟ نہ عدت گزارنے کی جگہ، نہ مہر، نہ بچوں کا گزارہ، پھر دعویٰ کیا تو لو وہ بھی برائی۔ کہتا ہے ویسے تو گزارہ دیتا پر اب ضدیا گیا ہوں۔ ارے ایسی ہی جی میں ٹھانی تھی تو پھر پاکستان کیوں بلوایا، اتنے دن سے جدائی تھی، سمجھ لیتے مر کر چھٹ گئی۔۔۔ پھر یہاں بلا کر منجدھار میں چھوڑ دینے کا کیا تک۔ وکیل تو کہتا تھا اب مراد آباد میں جا بسنا بھی مشکل ہے، پر مٹ مہینے دو مہینے کا بنے گا۔۔۔ دادی کو تو شاید دادا کی وجہ سے رہنےکی اجازت بھی مل جاوے پر میرا مشکل ہے۔ ہائے کیسا بےگھر بے در کیا۔ ارے عشرت تیرے پیارے تجھے روئیں۔۔۔‘‘

اور کنیز پھوٹ پھوٹ کر رونےلگی۔۔۔ بیگم سو چکی تھیں۔ دادی بھی تھکی ہاری اونگھ گئی تھیں، سب صبر کر بیٹھے تھے، مگر کنیز کو صبر کیسے آ جاتا۔ سات سال کا پالا پوسا لڑکا چھن گیا۔ اب پتا نہیں نمی چمی کا کیا بنتا ہے۔ دادی قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھی ہیں۔ خود اس کی ایسی عمر نہیں کہ اکیلی کہیں محنت مزدوری کر کے پیٹ بھر لے۔ بقول بڑی بیگم چوبیس پچیس کا سن، صورت شکل کی کہو تو بس فوٹو سا کھنچا ہوا۔ اس پر بھی عشرت بدنصیب کا دل دوسری جگہ اٹکا۔ مراد آباد سے نوٹوں کی پیٹی باندھ بیوی بچوں کو چھوڑ کر پاکستان چلے کہ بس جیسے ہی وہاں برتنوں کا کارخانہ چلا سب کو بلا لوں گا۔ دادی تو عشرت کے کچھن سےخوب واقف تھیں اس پر سے کنیز کی طبیعت کی تیزی بھی ان سے کچھ چھپی نہ تھی۔۔۔

جب عشرت نےکنیز کو جھوٹوں بلایا تو انہوں نے فوراً ہی آنے کی تیاری شروع کردی۔ کنیز کو اکیلے کیسے بھیجتیں۔ دنیا نہ کہتی کہ لونڈیا کو اکیلے پردیس جان بوجھ کر بھیج دیا اور خود بڈھے خصم کے کولہے سے لگی بیٹھی رہیں سوچا لڑکی ذرا رس بس لے تو پھر چلی جاؤں گی مگر یہاں آکر جو دیکھا تو کارخانہ وغیرہ سب چوپٹ اور عشرت میاں ساٹھ ستر کے کسی دکان پر ملازم اور ایک بنگلے کے سرونٹ کوارٹرز کی ایک کوٹھری کے پانچ روپیہ مہینہ کے کرایہ دار۔ دادی کلیجہ مسوس کر رہ گئیں۔ انہیں حالوں ہوتے جب بھی گزر ہو جاتی، مگر ان ساٹھ ستر میں عشرت کی دل لگی بھی تو چلتی اورکنیز کی زبان چلتی۔۔۔ دادی لاکھ کنیز کو لگام دیتیں، مگر وہ تو آپے میں نہ تھی۔۔۔ اور ایک دن عشرت نے بدزبانی اور فضول خرچی کے الزام میں طلاق لکھ دی۔۔۔ لڑکے کا ہاتھ پکڑا، اور کنیز کو ہانک کر کوٹھری میں تالا ڈال دیا۔۔۔ نہ کوئی داد نہ فریاد۔۔۔ اور جب کنیز اور دادی روتی پیٹتی کسی کوٹھی کے سرونٹ کوارٹر کی تلاش میں نکلیں تو بڑی بیگم تک پہنچ ہوگئی۔ پہلے تو بہت بے رخی سے پیش آئیں مگر جب دکھیاریوں کو بے آسرا دیکھا تو پگھل گئیں، نہ صرف کوارٹر مفت رہنے کو دیا بلکہ کنیز کو بیٹی تک کہہ دیا۔۔۔ مانگنے والے کی قسمت ہے، آگ مانگے اور پیمبری تک مل جائے۔

اوربڑی بیگم جواب کنیز کی اماں بیگم بن چکی تھیں، اس وقت گٹھیا کے درد سے نجات پاکر گہری نیند میں منھ کھولے سو رہی تھیں، اور کنیز ان کی پائنتی بیٹھی، اب چپکے چپکے آنسو بہا کر تھک چکی تھی۔ اپنا کوئی پیارا مرجائے جب بھی رو دھوکر صبر تو کرنا ہی پڑتا ہے۔۔۔ رفتہ رفتہ طبیعت ہلکی ہوہی جاتی ہے۔

کنیز کی طبیعت تھوڑے ہی دنوں میں ہلکی کیا بس پھول سی ہوگئی۔ اب عشرت کی حیثیت کنیز کے لیے ویسی ہی تھی جیسی بچپن میں دادی کے منہ سے سنی ہوئی کوئی ادھوری کہانی، جسے سناتے سناتے دادی کی آنکھ لگ گئی ہو اور کنیز دادی کے خراٹے سن کر دو چار منٹ بعد ’’ہوں ہوں‘‘ کرتی خود بھی سوگئی ہو۔۔۔ اور جب صبح آنکھ کھلے تو کٹورا بھر دودھ، باسی روٹی اور کپڑے کی گڑیوں کی بڑی بڑی نمک پاروں جیسی آنکھوں کے سامنے کہانی یاد کرنے کی کسے فرصت؟ کسی کی یاد آنے کے لیے بھی تو فرصت چاہیے اور کنیز کو اب اماں بیگم کی کوٹھی میں اتنی فرصت کہاں تھی۔۔۔ دادی عشرت کو کوستیں تو کنیز منہ بناکر کہتی، ’’اے دادی تمہیں کوئی کام نہیں کیا۔ جو بیٹھی اس کے نام کی مالا جپ رہی ہو۔ مجھے تواس کے نام سے اپنا بچہ یاد آوے ہے، اللہ اسے کبھی تو اتنی سمجھ دیوے گا کہ اپنی میا سے آملے گا۔ باوا حرامزادے کے منہ پر تھوک آوے گا۔‘‘

اور اتنا کہہ کر کنیز آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو پلکوں میں پروئے لپک کر کسی کام میں جٹ جاتی، بجلی کی طرح ساری کوٹھی میں کوندتی پھرتی اور دادی پر ایک نیا غم شام کے اندھیروں کی طرح اترنے اور چھانے لگتا۔ دادی اس کے یوں جھلک دکھا کر غائب ہونے کی نئی ادا سے ہول جاتیں، وہ کنیز کے سامنے بیٹھ کر اس کی بدنصیبی پر رونا چاہتی تھیں، تاکہ کنیز یہ نہ بھولے کہ دادی اس کی کتنی مامتا رکھتی ہیں۔ مگر وہ تو اب کنیز کی صورت کو ترس جاتیں، وہ اس کے پیچھے لپکتیں، مگر ان کی ٹانگوں میں وہ پھرتی کہاں۔ وہ کنیز کے تعاقب میں کوٹھی کے باورچی خانے میں پہنچتیں۔ اتنے میں کنیز سلمیٰ بی کے کمرے میں بولتی سنی جا سکتی تھی، کانکھتی کراہتی دادی برآمدے طے کر کے وہاں پہنچتیں تو کنیز لان میں کھڑی کرسیاں ترتیب سے رکھتی دکھائی دے رہی ہے، ان حالوں پر دادی اپنی پھٹی ہوئی آواز میں چلانے لگتیں۔

’’اری کنیز تو بے حیا چھلا وہ ہوگئی۔ کم بخت عدت میں تو شریف زادیاں اپنی کوٹھری سے باہر بھی قدم نہیں رکھیں ہیں۔۔۔ اری ایسا سگھڑاپا اپنے گھر میں دکھایا ہوتا تو کاہے کو عشرت تھوک کر چھوڑ دیتا جو در در مارے پھرتے؟‘‘ اس اعلان سے ساری کوٹھی گونج جاتی اور بڑی بیگم پر صدمے کا دورہ پڑ جاتا۔ سلمیٰ بی کا مہاسوں بھرا چہرہ تیوریوں پر بل پڑنے سے اور بھی زہر ہو جاتا۔ بڑی بیگم کہیں سے برآمد ہوتیں، چہرے پر رنج و ملال کا گہرا اثر لیے، کنجیوں کے بوجھ سے لٹکا ہوا کمربند نیفے میں اڑس کر اور کنیز کو گلے لگا کر غم میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہتیں،’’جاؤ بیٹی اپنی دادی کے پاس۔ ہم تمہارے ساتھ کچھ کریں، کہلائیں گے غیر۔ ایک ذرا تم اپنی خوشی سے ہاتھ ہلا دو تو تمہاری دادی جان کو کھل جاتا ہے۔ اے حمید و کہاں مرگیا؟ آکر بستر بچھادو!‘‘

اور کنیز کا خون جیسے نچڑ جاتا۔ یہ دادی تو پیر تسمہ پا ہوگئی تھیں اس کے لیے۔ ’’ان کا دل ذرا بڑا نہیں۔ اماں بیگم کیسی تو محبت کریں ہیں اور دادی کا یہ حال کہ بس چاہویں، میں ان کاذرا سا کام بھی نہ کروں۔ ارے اب اپنے پاس اجڑ کر کسی کا احسان اتارنے کو رہ کیا گیا ہے۔‘‘

کنیز دادی کو سمجھا سمجھا کر تھک گئی۔ مگر دادی کی سمجھ میں خاک نہ آتا، ہزارالٹی باتیں ہے، رات دن کولہے پر چمی رہوے ہے۔ لے اتر حرامزادی نہیں تو اٹھا کر پٹخ دوں گی۔ ہائے میری کمر ٹوٹ گئی اللہ۔‘‘ دادی بھاں بھاں کرکے ایسی چلاتیں کہ ساری کوٹھی دہل اٹھتی۔ سلمیٰ بی کو تو اپنی اماں کا ذرا زور سے بولنا تک برا لگتا، آخر کوٹھی میں رہنے کے بھی کچھ تو آداب ہوتے ہیں۔ مگر کنیز کی صورت دیکھ کر صبر کر جاتیں۔ کنیز سلمیٰ بی کا کامدانی والا دھانی دوپٹہ اوڑھے دادی کے پاس کھسیانی ہوئی آتی، ’’اے دادی کچھ تو ہوش کی دوا کرو، لوگ سمجھیں گے شریفوں والی عادتیں ہی نہیں۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دوپٹہ لہرا کر سر پر ڈالتی۔ ’’لاؤ میری لونڈیا کو، تمہیں تو میری اولاد کھلے ہے، ایک تو چھن گیا۔‘‘ اور وہ چمی کو کھسوٹ کر کولہے پر رکھ لیتی، پھر بڑبڑاتی، ’’کیسی میلی ہے۔ سارا نیا دوپٹہ غارت کر دیوے گی۔‘‘

’’نیا دوپٹہ، لو تمہاری آنکھیں بھی پھوٹ گئیں، یہ دو بڑے بڑے بھبھاقے تو ہیں دوپٹے میں، موا سڑاہوا دوپٹہ اوڑھ کر اتراوے ہے۔‘‘ دادی غرا کر کہتیں۔

’’واہ، ابھی کل تو سلمیٰ اوڑھ کر کالج گئی تھیں، سائیکل میں آگیا ہوگا۔ اے دادی بہت کمینی طبیعت ہے تمہاری۔‘‘ کنیز اور بھی کھسیا کر کہتی۔ اور دادی آپے سے باہر ہو جاتیں،’’ ارے جس کے کارن سر منڈایا وہی کہے منڈی آئی۔ اب تو مجھ میں سارے عیب نظر آویں ہیں تجھے۔ تیرے پیچھے بے وطن ہوئی، سب بیچ بیچ تجھے اور تیری لڑکیوں کو کھلاؤں میں اور اماں بنے وہ۔۔۔‘‘

کنیز گھبرا کر دادی کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتی، اور پھر خوب ہی تو روتی، دادی کو اس بات کا طعنہ دیتی کہ وہ کھلا کر گناتی ہیں، اس کی قسمت پھوٹ گئی اس لیے دادی کی آنکھیں بھی بدل گئی ہیں۔ لیکن جب کنیز کی آنکھیں روتے روتے سوج جاتیں تو دادی اس کی خوشامد کرتیں اور دونوں میں میل ملاپ ہو جاتا۔ چمی پھر دادی کی گود میں چڑھ جاتی اور دادی نمی کی انگلی پکڑ کر رات کی ہنڈیا روٹی کے بندوبست کے لیے بازار کو روانہ ہو جاتیں اور کنیز ایک بار پھر چھلاوہ بن جاتی۔ کبھی باورچی خانے میں کبھی گول کمرے میں، کبھی سلمیٰ بی کے کمرے میں۔

کنیز سلمیٰ بی کے کمرے میں ایک آدھ بار مچل جاتی، ’’اے سلمیٰ بی یہ قمیص تو ہم لیں گے۔‘‘

’’واہ واہ، ابھی تو بنائی ہے ہم نے، نہیں دیتے۔‘‘ سلمیٰ بی ٹکا سا جواب دیتیں۔

’’میری بچی نے کیسا منہ پھوڑ کر مانگا۔ ایک تو وہ خود ہی اتنی غیرت دار ہے کہ کبھی کسی چیز کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتی۔ دے دے۔‘‘ بڑی بیگم کنیز کی کمک کو فوراً پہنچتیں۔

’’اوں پھر ہم کو اور قمیص بنا کر دو، اتنی سی قمیصیں تو ہیں میرے پاس‘‘ سلمیٰ بی نخرہ دکھاتیں۔

’’لو اب میں کہاں سے لاؤں، تمہارے باوا کون سی روکڑ چھوڑ چلے تھے میرے پاس۔۔۔ جانے کیسے الطاف میاں کی پڑھائی اور تمہارا نخرہ پورا ہو رہا ہے۔ بنک میں اب دھرا ہی کیا ہے۔۔۔ اب کیا کہوں کیسے گزر ہو رہی ہے۔ تمہاری آنکھوں پر تو پٹی بندھی ہے۔‘‘ بڑی بیگم ایک ٹھنڈی سانس بھرتیں۔

گزر کرنے ہی کی تو بات ہوتی ہے۔ جب گزر نہ ہو تو پھر آدمی کیا کرے؟ کنیز کا برقع پردہ زیادہ دیر کیا چلتا، اب سلمیٰ بی کے ساتھ باہر اٹھنا بیٹھنا، کنیز کو فرصت ملے اور سلمیٰ کی سائیکل میں پنکچر بھی ہو تو کبھی کبھی لمبی چوڑی سڑک پر چہل قدمی بھی ہو جاتی، کنیز نے ذرا باہر کا قصد کیا اور دادی مردہ چوہے کی کھال جیسا بدرنگ برقع لیے کنیز کے سر پر موجود۔ ایک دن تو حد ہی کردی۔ بڑی بیگم کے سامنے بولیں، ’’نا بیوی بغیر برخا عورت دیکھ میرا تو جی جل جاوے ہے۔‘‘

بڑی بیگم بیچاری ہمیشہ دادی کا لحاظ کرتیں۔ اصغری بوا کہتے منہ خشک ہوتا مگر اس بات سے ان کے تن بدن میں مرچیں لگ گئیں،’’اے بوا رہنے دو شیخی بگھارنے کو، ہمارے گھرانے میں جیسا پردہ ہوتا تھا بھلا کیا مقابلہ کروگی، میری لڑکی کی مجال نہیں تھی۔ وہاں کھڑکی سے جھانک لے پر اب دیس چھٹا، وہاں کی باتیں چھٹیں۔ اب کنیز میں کون سا سرخاب کا پر لگا ہے۔ اب تو ایسے ہی گھر بیاہی جائے گی جہاں میاں کے ساتھ سیر کو جائے گی۔۔۔ ویسے بھی میرا کوئی حق نہیں؟ ہم تو تم پر جان دیں اور تم۔۔۔‘‘

دادی چپ ہوگئیں لیکن کنیز نےاس دن اپنا پرانا برقع دھو دھا نمی چمی کی فراکیں مشین پر بیٹھ کر سی ڈالیں۔ سچ ہے بے چاریاں کب سے پھٹے حالوں پھر رہی تھیں۔۔۔ چلو مہینہ دو مہینے اس طرح گزر ہو ہی جائے گی۔ اس کے بعد۔۔۔ اس کے بعد۔۔۔ ارے کیا سوتیلے باپوں کے دل میں اللہ رحم نہیں ڈالتا۔۔۔؟ کنیز نے سوچا اور اس کے کلیجے میں ٹھنڈ سی پڑگئی۔ لیکن گزر ہوتی کیسے، تن ڈھکنے کو ڈھک گئے۔ آہستہ آہستہ پیٹ خالی رہنے لگے۔ دادی کنیز کی صورت دیکھتے ہی دکھڑا لے بیٹھتیں، ’’اب کہاں سے لاؤں، قسم لے لو جواب کچھ ہو میرے پاس؟‘‘ روز روز کی چلی پکار مچنے لگی۔۔۔ نمی چمی دادی کو چھوڑ رات دن کنیز کے پیچھے لگی پھرتیں، ’’اماں روٹی، اماں سالن۔‘‘ بڑی بیگم ایسی دل والی کہ فوراً اپنے سامنے کی چیز اٹھا کر دے دیتیں اور کنیز شرما کر بچیوں کو اپنے چتھڑوں گدڑوں کی طرح سمیٹنے لگتی۔۔۔ جی چاہتا مارے غیرت کے مرجائے۔

’’اے بیٹی مجھ سے کیا غیرت! میرے تو حلق سے نوالہ نہیں اترے گا انہیں بھوکا دیکھ کر، تمہیں ان کی مامتا ہے تو مجھے بھی ہے مگر میں کہتی ہوں بچی تمہیں میرے ہی گھر تو نہیں بیٹھا رہنا ہے۔ اللہ وہ دن لائے گا اپنے گھر بار کی ہوگی، مرد ذات سوتیلے بچوں سے گزر نہیں کرتے، میں تو کہتی ہوں بچی کلیجے پر پتھر رکھ کر ان دونوں کو عشرت نگوڑے کو دے دے، کم بخت کو ذرا پتہ تو چلے کہ طلاق دینا بچوں کا کھیل نہیں۔‘‘ بڑی بیگم کنیز کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر سمجھاتیں۔ کنیز کے دماغ میں تو بات بیٹھ گئی لیکن دادی کسی طرح نہ مانتیں۔ کنیز رو رو کر دادی سے کہتی، ’’ارے دادی مجھ بدنصیب کے ساتھ کیوں لڑکیوں کی مٹی پلید کروگی تم اب کہاں سے کھلاؤگی؟‘‘ مگر دادی تو کانوں پر ہاتھ رکھتیں۔

مگر جب ایک دن دادی باوجود دلی خواہش کے اپنا صندوق نہ کھول سکیں اور دن بھر چولہا نہ جلا تو کنیز ضبط نہ کرسکی،’’اےدادی اب نکالو نا روکڑ، کیوں لڑکیوں کو عذاب دے کر مار رہی ہو۔‘‘ کنیز چلائی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

’’میری بوٹیاں نوچ لو، اب کیا دھرا ہے میرے پاس، اب اپنی کوٹھی والی میا سے کہونا۔۔۔‘‘ دادی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔

’’رہنے دو، اماں بیگم کا نام کیوں بیچ میں گھسیٹتی ہو، وہ کہاں سے لاویں؟ ان کے پاس ہو تو میرے بچوں سے گریز کرنےوالی نہیں وہ۔ کیا کیا کریں وہ، واہ یہ تو وہی سانپ کے بل میں ساہی کے چھپنے والی بات کرتی ہو۔‘‘ کنیز کی آنکھیں لال انگارہ ہو گئیں۔

’’اچھا تو پھر چل اپنے مرادآباد، مہینے دو مہینے کا پرمٹ تو بن ہی جاوے گا۔‘‘ دادی نے آخری حربہ استعمال کیا اور کنیز کا دم نکل گیا۔

’’اچھا کرایہ نکالو، پرمٹ بنوالو۔‘‘ کنیز اتنا کہہ کرکھاٹ پرمنہ ڈھک کر پڑ رہی۔ دادی کا سارا جوش ختم ہوگیا۔ کہیں سے چار جانوں کا کرایہ اور بھی ہوائی جہاز کا، چلو ہو گیا، مان لیا پرمٹ بھی بن گیا۔ پھر وکیل جو کہتا تھا پرمٹ ختم ہونے پر واپسی ہوگی۔۔۔ پھر کیا ہوگا؟

رات کو کنیز نے نمی چمی کو رو رو کر دادی کے ساتھ رخصت کردیا۔ دادی روتی کپکپاتی چمی کو گود میں اٹھائے نمی کی انگلی پکڑے عشرت کی کوٹھری تک پہنچیں۔ عشرت نے نمی کو تو چوم چاٹ کر گود میں بٹھا لیا اور چمی کی طرف آنکھ بھی نہ اٹھائی بولا،’’میں اتنی سی چھچھڑی کو کہاں اٹھائے پھروں۔ اب ایک ہی رکھو۔ مامتا ختم ہوگئی تمہاری؟‘‘

دادی کے پتنگے سے لگ گئے۔ چمی کو زبردستی اتارنا چاہا تو چمی کی چیخوں سے کلیجہ ہل گیا۔۔۔ دادی بغیر کچھ جواب دیے چمی کو لیے واپس آگئیں۔۔۔ اور کنیز جو چمی کو دیکھ کر گود پھیلائے روتی دوڑی تو بس بیگم کا کلیجہ ہل گیا۔ دادی نے اپنے کپکپاتے سر کو اور ہلا کر کہا،’’سچ ہے مامتا بھی کہیں مرے ہے۔‘‘ لیکن دوچار دن بعد ہی سوکھی، کمزور، اور آئے دن کی مریض چمی نے ممی کی یاد میں ہڑک کر دادی کی کمر پر رات دن چڑھائی جو شروع کی تو ’’مامتا‘‘ کی طرف سےان کے خیالات میں بڑی انقلابی تبدیلیاں برپا ہوگئیں۔

’’اللہ تیرا پردہ ڈھک لے بچی، اری بدنصیب کا کوئی نہیں ہورے ہے، نہ ماں نہ باپ۔۔۔‘‘ دادی کی زبردست آہیں کوٹھی کے کونے کونے میں گونج اٹھتیں۔ اور یہ رات دن کے نوحے، یہ آہیں سن سن کر بڑی بیگم کا دل دہل جاتا۔ گھر میں جوان پچھتی بیٹی، ولایت میں پانچ سال کی پڑھائی کے لیے گیا ہوا جوان شیر سا بیٹا۔ اور گھر کے ایک کونے میں افیم کھاکر اونگھتے ہوئے بوڑھے پھونس سسر، اس کوٹھی کے واحد مرد، اس پر غریب الوطنی مستزاد۔۔۔ ان حالوں میں کوٹھی کے اندر دادی کے وقت بے وقت کے نوحے نہ یہ دیکھیں کہ دونوں وقت مل رہے ہیں، نہ یہ کہ اذان کی آواز آ رہی ہے۔۔۔ بس ہمہ وقت دنیا کی بےثباتی کے نقشے کھنچ رہےہیں، کوئی سنے نہ سنے، دکھڑے بیان ہو رہے ہیں۔۔۔ بیگم نحوست کم کرنے اور اپنا دھیان بٹانے کو اس سمے زور زور سے سلمیٰ اور الطاف کی شادی بیاہ کی منظر کشی کرتیں۔۔۔ کنیز کے جہیز کی تفصیلات کے بارے میں سلمیٰ سے مشورہ طلب کرتیں۔

’’اے بھئی اب تو کنیز بی کابھی اپنے ہی اوپر فرض ہے، ابھی سے تیاری کریں گے تب جاکر دوچار سال میں ایسا جہیز بنےگا کہ ہزار پانسو والا بھی دیکھ کر خوش ہو جائے۔ سلمیٰ کنیز کے لیے وہ نگوں والا سوٹ کیسا رہے گا۔ اس پر کھلے گابھی خوب۔۔۔ بالکل سینما کی شہزادی دکھے گی۔ میں تو کہتی ہوں کہ منہ سے یہ کنیز نگوڑی ایسی کچی کچی لگتی ہے کہ اگر کسی کو بچے نہ دکھائے جائیں تو کنواری ہی سمجھے۔۔۔‘‘

چمی کو بڑی بیگم کے دیے ہوئے قلمی آم کھا کر دست لگے ہوئے تھے۔ کنیزکو اپنے کاموں سےاتنی فرصت کہاں کہ اسے پتہ بھی چلتا، ذرا فرصت ملی تو سلمیٰ بی کی ڈریسنگ ٹیبل کے لمبے آئینے کے سامنے کھڑی کامدانی والا دھانی دوپٹہ سینے سے ڈھلکائے دیر سے کنگھی کیے جارہی تھی۔ خدا جانے کب تک آئینے کنگھے سے جوجھی رہتی، اگر دادی کی پھٹی ہوئی آواز کمرے میں نہ گھستی،’’اری کنیز دیکھ تو سہی نامراد۔۔۔ لونڈیا آنکھیں پھیرے لیوے ہے۔‘‘ اور کنیز غرارے میں الجھتی بگٹٹ بھاگی۔ چمی سچ مچ گردن ڈالے دے رہی تھی۔

’’ہائے دادی میری بچی کو کیا زہر کھلادیا، ہائے سب تو چھٹ گئے تھے۔ یہ ایک بھی تمہیں کھل رہی تھی، یہ مرگئی تو مجھے بھی نہ پاؤگی دادی۔‘‘ اسی رات ہسپتال میں چمی چپ چاپ مرگئی۔ کنیز نے مرنے کی بہت کوشش کی۔ سر پھوڑ ڈالا۔ دھانی کا مدانی کا دوپٹہ دانتوں سے نوچ کر چندھی چندھی کردیا۔ مگر وادی اس سے لپٹی ساتھ ساتھ لڑھکتی پھریں، اسے مرنےکا موقع ہی نہ دیا۔۔۔ دادی کو تو اپنے پالے پوسے کی اتنی آگ تھی، پھر جس نے نو مہینے پیٹ میں رکھا ہو اس کے دل کا حال کون نہیں جانتا۔

کنیز نے کئی وقت کھانے کی طرف نگاہ نہ اٹھائی۔ رو رو کر آنکھیں سوج گئیں کہ وہ پلک اٹھانے سے بھی معذور ہوگئی۔ اس کی یہ حالت دیکھ دیکھ بڑی بیگم کے دوپٹے کا پلو بھی آنکھوں سے نہ ہٹتا۔۔۔ سلمیٰ بی بھی کئی بار کنیز کے گلے لگ کر گھگھیا گئیں اور پھر آنکھوں پر ہاتھ رکھے اپنے کمرے میں بھاگ گئیں۔ مگر کوئی کہاں تک روئے، دریاؤں تک کو نکاس کی راہ مل جائے تو اتر جاتے ہیں۔ پھر بڑی بیگم کی غم خواریاں، وہ رات دن اسی فکر میں گھٹتیں کہ کنیز بچوں کا غم بھول جائے، ایک منٹ کے لیے بھی اسے اپنے پاس سے جدا نہ کرتیں، چپکا بھی نہ بیٹھنے دیتیں، سلمی بی کو بھی اب اس کا انتہائی خیال رہتا۔

’’آؤ کنیز دوپٹے میں ستارے ٹانکیں۔‘‘ وہ اپنا دوپٹہ لے بیٹھتیں اور کنیز غم کی ماری کٹھ پتلی کی طرح ادھر ہی لگ جاتی، ایک ایک ستارہ یوں احتیاط سے ٹانکتی جیسے اپنے کلیجے کے ناسور نمائش کے لیے رکھ رہی ہو۔

’’آؤ بیٹی کنیز، سلمیٰ کے دادا میاں کے پاجامے سی ڈالیں۔‘‘ بیگم لٹھے کا تھان اس کے سامنے پھیلا دیتیں اور کنیز وہاں بھی جٹ جاتی۔ غرض بڑی بیگم اور سلمیٰ بی نے کنیز کا غم بھلانے کے لیے کوئی حد نہ اٹھا رکھی، کئی بار بڑی بیگم کنیز کی خاطر سینما تک چلی گئیں۔۔۔ سلمیٰ بی نے اپنے کپڑوں کی الماری کھول دی کہ جو چاہے لے لو۔۔۔ بڑی بیگم نے اپنی چھنگلیا کا سونے کا چھلا تک اتار کر اسے پہنا دیا۔۔۔ اور چپکے سےاس پر جھک کر بولیں،’’ہماری کنیز کا دولہا اسی طرح انگوٹھی پہنائے گا۔۔۔‘‘

اور کنیز اس دن چمی کی موت کے بعد پہلی مرتبہ شرماکر کمرے میں بھاگ گئی۔ اور آہستہ آہستہ وہ پھر یوکلپٹس، شیشم اور گولر کے درختوں میں دبکی ہوئی پراسرار ننھی سی کوٹھی میں چھلاوہ بن گئی۔ ابھی سلمیٰ بی کے کمرے میں ہے تو ابھی باورچی خانے میں بیٹھی سویوں کا زردہ پکا رہی ہے۔ اے لو نظر چوکی کہ وہ بڑی بیگم کے غسل خانے میں غائب، ذرا وقت نہیں لگاکہ بڑی بیگم کا چوڑی دار پاجامہ اور سلمی بی کا دوپٹہ اوڑھے برآمدے کی چکنی سطح پر گیلا کپڑا لٹا لٹا کر فرش چمکا رہی ہے، اب یہ بھی کوئی تک ہے، نہا دھو کر ایسا گندہ کام؟ بڑی بیگم لاکھ لاکھ کہہ رہی ہیں کہ اری کنیز تجھ سے کون کہتا ہے ایسے کاموں کو۔ بھنگن کن کاموں کے لیے ہے مگر کنیز بھی کسی کی سنتی بھلا۔ بڑی بیگم نے زیادہ بڑبڑ کی تو دوڑ کر نلکے سے ہاتھ دھوئے اور تیل کی شیشی لیے بڑی بیگم کے سر پر موجود کہ ہم تو تیل دبائیں گے۔ بڑی بیگم کی آنکھوں سےمحبت نور کی شعاعیں بن کر پھوٹنے لگتیں۔ اور وہ ٹھنڈی سانس بھر کر یہ کہے بنا نہ رہ سکتیں کہ کنیز جس گھر جاؤگی، اجالا کر دو گی۔ عشرت موا گنوار کالٹھ تیری قدر کیا کرتا؟

’’اے تو پھر اب کنیز کے لائق بر ڈھونڈو نا،میرے میاں کے خط آویں ہیں کہ مرتے وخت تو ساتھ دو۔ میں یہاں کب تک جوان لونڈیا کو لیے بیٹھی رہوں۔ نہیں تو میں سوچوں لونڈیا کو ساتھ لے جاؤں رشتے برادری میں بہت لڑکے پڑے ہیں۔‘‘ دادی آئے دن تقاضا کرتیں۔

’’اے اصغری بوا، نام نہ لو اپنے رشتےبرادری کا۔ تم نے پہلے ہی بچی کی قسمت پھوڑنے میں کوئی کسر رکھی تھی؟ میری زبان نہ کھلواؤ۔ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے۔ اپنی سلمیٰ سے دو تین سال بڑی ہوگی اور بوا جو تم کہو جلدی کی، تو میں جیسے سلمیٰ کے لیے دیکھ بھال کروں گی ویسے ہی کنیز کے لیے۔ اب کوٹھی سے رخصت ہوگی تو ہمارے ٹکر والے کے ساتھ ہوگی۔۔۔ کنیز کے پیاموں کی نہ کہو، کئی مشاطاؤں سے کہہ رکھا ہے، ہر چوتھے اٹھوارے کوئی نہ کوئی سوال کرتا ہے اب میں تمہیں کہاں تک دکھاؤں۔۔۔؟‘‘ بڑی بیگم گھنٹوں بڑبڑاتی رہتیں۔

دوسرے چوتھے ہی موٹر سائیکل پر ایک شخص آیا۔۔۔ بڑی بیگم بہانے سے اٹھیں اور دادی کو بلا کر جھنکوا دیا۔

’’اچھا تو ہے کردو۔۔۔‘‘ دادی نے خوش ہو کر کہا۔

’’لو بیوی، کہہ دیا کرو۔۔۔ میں نے پوچھ گچھ کی، پتہ چلا شراب پیتا ہے۔ میں تو نہ کروں چاہے روز آکر ناک رگڑے۔‘‘ بڑی بیگم نے ٹکا سا جواب دیا۔

’’کردو کنیز کی قسمت سے سدھر جائے گا۔‘‘ دادی پر تو جلدی سوار تھی۔ انہیں تو اچھا بھلا بھولا سالگ رہا تھا۔ پھر انہوں نے کا ہے کو کبھی ایسا ’’صاحب‘‘ دروازے آیا دیکھا تھا۔ وہ تو کہتیں بدنصیب طلاقن کو کوئی مرد کی شکل جڑ جائے یہی بہت ہے۔

’’پھر تم ہی لڑکے سے بات کر لو، میں تو بیچ میں نہ پڑوں گی۔ تمہاری ذمہ داری، پھر شکایت نہ کرنا۔‘‘ بڑی بیگم دروازے سےایک طرف ہوگئیں۔ دادی کلیجہ مسوس کر رہ گئیں انہیں یقین ہی نہ آتا تھا کہ ان کی بد نصیب کنیز کے ایسے سرخاب کے پر لگ گئے ہیں۔ آئے دن بیگم راہ چلتے لوگوں کی طرف اشارہ کرکے بتاتیں، ’’ارے دیکھو! اصغری بوا، اس لڑکے کی اماں نے مجھ سے کہا تھا، چاہے کنیز دے دو چاہے سلمیٰ۔ نہ بیوی اس سے تو میں کبھی نہ کروں۔ کالا کلوٹا۔‘‘

ہرشخص میں کوئی نہ کوئی عیب۔ دادی اکتا کر رہ گئیں، جہیز کے کپڑوں پر کپڑے بننے لگے، برتن خریدے جانے لگے اور دادی کو ذرا ڈھارس ہونے لگی کہ دنیا میں منہ بولے کی بھی کچھ وقعت ہے۔ انہوں نے اپنے میاں کو لکھوایا، ’’ارے میاں ذرا صبر کرو لونڈیا کا ٹھور ٹھکانہ کر کے بس چٹکی بجاتے میں پہنچوں گی۔۔۔ پھر چاہے ہم دونوں پاکستان آکر پڑ رہیں گے۔ لونڈیا کے گھر اپنے لیے ایک کوٹھری تو کہیں نہیں گئی۔‘‘

مگر ایک دن ان کی ساری اسکیم ملیا میٹ ہوگئی۔ دادی اس دن کنیز کی بے توجہی پر بہت بپھری ہوئی تھیں۔ چمی کے مرنے کے بعد بڑی بیگم نے اصرار کر کے دادی کو الگ کھانے پکانے سے منع کر دیا تھا۔ سو اب وہ شرما حضوری کوٹھی کے باورچی خانے سے کھاتی تھیں۔ حمیدو بھاگ گیا تھا اور بیگم کہتی تھیں کہ میرے سونے کے بندے لے کر بھاگا ہے۔ پولیس تھانہ کون کرتا مگر انہوں نے آئندہ کے لیے توبہ کرلی تھی کہ مرد نوکر کو ہرگز کوٹھی میں نہ رکھیں گے۔ قریب کا سودا تو دادی مرجی کر لے ہی آتیں، مگر دور بازار جانا ہو تو اس کے لیے وہ مجبور تھیں۔ کنیز نے سلمیٰ بی کی سائیکل چلانا تو سیکھ ہی لی تھی۔ ایک دن بولی، ’’لاؤ دادی سودا میں لے آؤں۔ سائیکل پر دو منٹ لگیں گے۔‘‘ دادی کے گھرانے میں بھلا کاہے کو جوان جہان عورتوں کی یہ جرأتیں! آپے سے باہر ہوگئیں۔ ’’اے لڑکی ہوش کی دوا کرو، کیوں میا باوا کی عزت کے درپے ہووے ہے، کھود کر گاڑ دوں گی اور آہ نہ کروں گی۔‘‘

یہ تو گویا کھلم کھلا بڑی بیگم کی تربیت اور سلمیٰ بی کے چال چلن کے خلاف اعلان جنگ تھا۔ حد ہوتی ہے صبر کی۔ بڑی بیگم کو کوئی اور اس طرح کہتا تو جوتی سے منہ مسل دیتیں اس کا۔ جوتی تو نہ اٹھائی، مگر سنائیں بے بھاؤ کی، ’’شرم نہیں آتی، اتنی بوڑھی ہو گئیں۔ کوٹھیوں میں رہوگی تو کنجڑوں قصائیوں کی طرح رات دن کی بھاں بھاں نہ چلے گی۔ واہ لے کے ساروں میں ہمیں بدنام کر دیا۔ سننے والے ہمیں بھی تمہارے جیسا سمجھیں گے۔‘‘

’’اے دادی تو مجھ بدنصیب کو دم نہ لینے دیویں گی۔ یہ تو مجھے مار کر مریں گی۔ اللہ تو میرا پیچھا کاٹیوان سے۔‘‘ کنیز بھی ضبط نہ کر سکی۔ آخر وہ اتنے دن سے کوٹھی والوں کے خلاف دادی کا معاندانہ اور جارحانہ انداز اپنی آنکھوں سےدیکھ رہی تھی۔ اللہ یہ دنیا فرشتوں پر بھی عیب لگانے سے نہیں چوکتی۔ دادی کنیز کی یہ چوٹ برداشت نہ کر سکیں، خوب لڑیں، اپنے سارے احسان گنائے اوراسی وقت ہندوستان کے لیے پرمٹ کی درخواست دینے نکل کھڑی ہوئیں۔

’’اے بڈھا مرنے کو ڈرا دے جوان بھاگنے کو، پر دادی ایسی کہ بھاگنے کو ڈراویں۔ جانیں میرا کون ساتھ دینے والا ہے۔‘‘ کنیز کےان طعنوں کے باوجود دادی نےاپنا پرمٹ بنوا لیا۔ دبے دبائے زیور کام آہی گئے۔ اگر وہ بھی کھلا دیے گئے ہوتے تو آج مانگےبھیک نہ ملتی۔ چند مہینے سے کنیز کو نہ کھلایا تو آج کنیز کی آنکھیں بدل گئیں، جوتے مارنے کی کسر رہ گئی۔ دادی سوچتیں، کہتے ہیں جس کے پاس دام ہوں اس کا مردہ بھی رونے والے بہت، پرمٹ کے دفتر کے ایک کلرک نے جلد ہی ہوائی جہاز کی ایک سیٹ بھی ریزرو کرادی، اور دادی اپنی بقچی اٹھا چلنےکو کھڑی ہوگئیں، ہر طرف سے دل شکستہ۔ اپنے میاں کے ساتھ مرنےجینے کو۔

تانگے میں سوار ہونے سے پہلے دادی کا دل بھر آیا، ’’کنیز میری، قدر ہووے گی۔۔۔ ابھی کچھ نہیں گیا۔۔۔ اپنےجھمکے بیچ کر مرادآباد آجائیو، مہینہ دو مہینہ میں وہاں تیرا فیصلہ۔۔۔‘‘

’’جانے دو دادی۔۔۔ میری چمی کو مار ڈالا، میری نمی کو چھٹا دیا کہ کھلانے کو نہیں۔۔۔ اب کہاں سے تمہارے کرایے کے نکل آئے، ہائے میا مجھ بدنصیب کو کیوں جنا تھا۔۔۔؟‘‘ کنیز نے منہ پھیر لیا اور دادی کا منہ کڑوا ہوگیا۔ تانگہ چلنے پر کنیز باورچی خانے کی جالی سے لگ کر یوں روئی کہ سارے زخموں کی کھبرند اتر گئی۔ ٹپ ٹپ خون کی بوندیں گرنے لگیں۔ عشرت، ممتاز، نمی، چمی اور دادی، سب دھم دھم کرتے زخمی کلیجے پر سےاچھلتے کودتے غائب ہوگئے۔ بیگم نے سینہ سے لگایا۔ سلمیٰ بی نےتسلی کے لیے اس کامنہ تک چوم لیا۔ حد تو یہ ہے کہ سلمیٰ بی کے دادا تک نےاس دن اس کے سر پرہاتھ پھیرا، اور کنیز کے آنسو پلکوں پر ہی جل گئے۔ لیکن وہ کئی دن تک جیسے کھوئی سی رہی۔ وہ کوٹھی کے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جاتے جاتے رک جاتی۔ سڑک پر نظر ڈالتے ڈالتے آنکھ نیچی کر لیتی۔۔۔ کچھ اس طرح جیسے پنجرے کی تیلیاں ٹوٹ گئی ہوں اور وہ ایک دم کھلی فضا میں پھینک دی گئی ہو۔ اور اب یہ فضا اسے ڈرا رہی تھی۔۔۔ وہ ایک ٹوٹی تیلی اٹھاتی، چومتی، سینے سے لگاتی اور پھر رکھ دیتی۔۔۔ سارے رشتوں سے آزاد ہو کر وہ خود کو کس قدر اجنبی محسوس کر رہی تھی۔

جاڑے کی تیز تیز ہوائیں چلتیں، پیروں تلے آم، گولر، پیپل کے زرد پتے چرمر دب کر ٹوٹتے۔ ہر طرف ایک عجیب سا سناٹا، ایک سوچتی سی ویرانی۔ بڑی بیگم لان میں پلنگ بچھائے، زیادہ وقت پنڈلیوں اور کمر پر تیل کی مالش کرواتی رہتیں، سورج سر پر چمکتا، پھر بھی ان کے جوڑوں میں سردی گھسی درد پیدا کرتی رہتی۔۔۔ انہیں دنوں ایک ڈاکٹر انہیں دیکھنے آیا کرتا۔ بڑی بیگم نےایک دن تھکی ماندی سی کنیز سے پوچھا، ’’ڈاکٹر صاحب تجھ کو کیسے لگتے ہیں؟‘‘

اور کنیز ایک عرصے بعد پھر چونکی۔ دادی کے جانے کے بعد پہلی مرتبہ وہ کنواریوں کی طرح مسکرا کر سرخ ہوگئی اور فوراً وہاں سے اٹھ گئی۔ بہت دنوں بعد جیسے پھر اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں بجلی کی پھرتی بھر گئی۔۔۔ اس نے جی لگا کر باورچی خانے کی صفائی کی، برتن سوکھی راکھ سے اس طرح رگڑ کر مانجھے کہ چاندی کے نئے زیوروں کی طرح چمک گئے۔۔۔ اس کے بعد جھاڑو اٹھائے گھر کی روزانہ صفائی اس محنت سے کی کہ کہیں مکڑی کے جالے کا ایک تار نہ رہ سکا۔ ایک تنکا نہ رہا۔

’’اے سلمیٰ اے سلمیٰ اپنی بہن کا ہاتھ بٹا۔۔۔ بیٹھی کیا دیکھ رہی ہے، دیکھوں گی تو کون سے گھر جائے گی جہاں اٹھ کر تجھےتنکا نہ توڑنا پڑے گا۔‘‘ بیگم پکار پکار کر کہتی رہیں اور سلمیٰ بی بیٹھی اپنے ناخنوں پر پیازی رنگ کی پالش کرتی رہیں۔ کنیز نےاپنے جی میں سوچا، ’’سلمیٰ بی جیسی کاہل لوتھ تو ماں باپ کی نظر میں بھی گر جاویں ہیں، انسان کا کام پیارا ہووے ہے چام نہیں۔‘‘

کاموں میں جہیز کے کپڑوں کی تیاری بھی تو شامل تھی، کنیز راتوں کو بھی مشین کھٹکٹاتی رہتی۔ لچکے، گوٹے، ستارے اور آئینے ٹنکتے رہتے۔ بیگم سستی سے ٹانگیں پھیلا کر جما ہی لیتیں اور کہہ اٹھتیں، ’’دیکھیں میری دونوں بچیوں میں سے پہلے کس کا نصیبہ کھلتا ہے؟‘‘ اور نصیبہ کھولنے کے لیے کنیز کے حسابوں دوڑ شروع ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر صاحب آلہ ہاتھ میں لیے، بیگ جھلاتے آتے، بیگم کی مزاج پرسی کے بعد گول کمرے میں تشریف رکھتے۔ سلمیٰ بی اپنا لپا پتا چہرہ ایک خاص زاویے سے اونچا کیے پرانے صوفے پر بیٹھتیں۔ اور ان کے پس منظر میں کنیز نمودار ہوتی۔ جھکی جھکی آنکھیں، چوڑی دار پاجامہ اور پتلی کمر میں پھنسی ہوئی سلمیٰ بی کی فراک۔۔۔ ہاتھوں پر چائے کی ٹرے۔۔۔ اس سمے سلمیٰ بی خود کو کسی محل کی رانی سے کیا کم سمجھتیں۔ پرانےصوفے سے لے کر کنیز تک ہر چیز ان کے حسن اور شان میں اضافہ ہی کرتی۔ اور کنیز شرماتی لجاتی، پردوں کے پیچھے غائب ہوتے ہوئے سوچتی، ’’اے سلمیٰ بی کی بھی کوئی شکل ہے، ٹیڑھا ٹیڑھا نقشہ، اس پر سے مہاسوں کے ٹیلے، اپنے آپ کوپری سمجھیں ہیں کوہ قاف کی۔‘‘

مہینہ نہیں گزرا سلمیٰ بی بی کی بات بھی پکی ہوگئی، اور کڑکڑاتی سردی کی ایک رات کو سلمیٰ بی دلہن بن کر رخصت بھی ہوگئیں۔ بقول بڑی بیگم نصیبے کی بات ہے۔ پہلے سلمیٰ بی کا نصیبہ ہی کھل گیا، اس کے ساتھ ہی بڑے صندوق اور متروکہ جائیداد کی الماریوں کے بڑے بڑے پٹ بھی کھل گئے، پرانی ڈریسنگ ٹیبل نئی پالش سے چمک کر چل دی۔ پرانے صوفوں پر نیا کپڑا کیا منڈھا گیا، وہ بھی گول کمرہ سونا کر گئے۔۔۔ کوٹھی کی طرح سونے، ویران، صندوق اور الماریاں پڑی بھائیں بھائیں کرتیں، اور کنیز کے دل کی حالت تو ان صندوقوں اور الماریوں سے بھی بدتر تھی، شادی کی رات سے کہر سا پڑ رہا تھا۔ ہر طرف ٹھنڈ، ہر چیز گیلی، دوسرے دن جب کنیز نے رات بھر کی جگائی کے بعد، بڑی بیگم کے گٹھیا کے درد کی شکایت سن کر چائے بنانے کے لیے باورچی خانے میں قدم رکھا تو اس کی جلتی ہوئی آنکھیں کہرے سے دھندلائے ہوئے درختوں کی افسردگی اور ویرانی پر۔۔۔

بیگم، کنیز کو تھکے حالوں دکھ کر تڑپ تڑپ جاتیں۔ بیٹی بیاہ کر وہ خود ویران ہوگئی تھیں۔ اب تو کوئی آکر کوٹھی میں جھانکتا بھی نہ تھا۔ پھر کنیز کے پیام کون لاتا۔۔۔ وہ بیٹھے بیٹھے تھک جاتیں تو لیٹ جاتیں، لیٹے لیٹے کمر لگ جاتی تو بیٹھ جاتیں، کنیز جو الگ الگ پھرتی ہوتی، تو اسے پاس بلاتیں گلے لگاتیں،’’کنیز تو بھی میرے کولہے سے لگی کب تک بیٹھی رہے گی، ایک دن سلمیٰ بی کی طرح گھر لوٹ کر چلی جائے گی، پھر میں نصیبوں جلی اکیلی کی اکیلی، ہائے جلدی سے وقت گزر جاتا اور الطاف ولایت سے آ جاتا۔ اس کے سہرے کے پھول کھلتے دیکھ لیتی۔۔۔‘‘

یہ کہہ کر بڑی بیگم کی آنکھیں پر آب ہو جاتیں اور یہ سب سن کر کنیز کی تھکی ہوئی رگوں میں تناؤ سا آتا جو فوراً ہی ٹوٹ جاتا۔۔۔ بس اس کا جی چاہتا کہ وہ کچھ نہ کرے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے، یونہی اماں بیگم کی طرح پڑی رہے یا پھر انہی کی طرح بات بات پر رویا کرے۔ گھر میں دھول جمتی گئی، کمروں کے کونوں میں مکڑیوں نے جالے تان لیے اور مزے سے افزائش نسل کرنے لگیں۔ باورچی خانے میں دیگچیاں کالی ہوگئیں۔ بیگم کے سسر دن بھر بغیر حقے کے پڑے اونگھا کرتے۔ وہ اب اتنی زیادہ افیم کھانے لگے تھے کہ ان کو کھانسنے تک کا ہوش نہ رہتا۔ ہر چیز پر ایک جمود، جیسے وقت کچھ تھم کر سوچنے لگا ہو۔

سلمیٰ بی کے میاں کا کہیں تبادلہ ہو گیا تھا۔ کافی عرصے بعد دو دن کے لیے سلمیٰ بی اپنے میاں کے ساتھ آئیں۔ گھر کی حالت دیکھ کر بولا گئیں کہ کیا برا اثر پڑا ہوگا ان کے میاں پر۔ وہ بڑی بیگم سے بات کیے بغیر نہ رہ سکیں، لیکن بڑی بیگم روٹھ گئیں۔ اب کہاں تک وہ اکیلی زندگی کی گاڑی دھکیلتیں۔ صاحب زادی نے تو آکر اعتراض کر دیے۔ بچا ہی کیا ہے جس کے برتے پر وہ دوچار نوکر لگا کر صاحب زادی کی مرضی کا معیار بنائیں۔ سلمیٰ بی کھسیا کر رہ گئیں۔ تیسرے دن سلمیٰ بی اپنے میاں کے ساتھ گرمیاں گزارنے مری چلی گئیں، جانے سے پہلے اپنے پرانے کمرے میں وہ کنیز سے گلے ملیں، اور کہا کہ’’میں نے تمہاری شادی میں دینے کے لیے ایسا اچھا سوٹ کا کپڑا ابھی سے خریدا ہے کہ دیکھوگی تو آنکھیں کھل جائیں گی۔‘‘ لیکن کنیز ان کے جانے کے بعد بھی اس سوٹ کے بارے میں کوئی واضح تصور قائم نہ کر سکی۔ اس کا دل پلٹ گیا تھا۔ وہ عشرت کو یاد کرنے کی کوشش کرتی اور جب اس کا خیال بھی نہ جمتا تو بس اس کا جی چاہتا آنکھیں بند کیے پڑی رہا کرے۔ موسم بھی تو بڑا سخت گرم تھا۔

’’اماں کس کا خط ہے۔‘‘ کنیز نے بحری ڈاک سےآئے ہوئے بڑے سے لفافے کو دیکھ کر بے دلی سے پوچھا۔ اسے جانے کیوں ان دنوں دادی کے خط کا انتظار رہتا۔ بیگم نے لفافہ کھول کر ایک بڑی سی تصویر نکالی۔ اچھے بھلے شکل و صورت کے مرد کی تصویر تھی۔ بڑی بیگم نے لپک کر تصویر کو چوم لیا۔

’’یہ کون ہیں اماں بیگم۔‘‘ کنیز نے جاتے جاتے پوچھ لیا۔

’’اے لو تمہیں خبر ہی نہیں، میرا الطاف ہے، میں نےنئی تصویر منگائی تھی۔ اے دیکھو سور نے مونچھیں بالکل صاف کردیں، کیا برا منہ لگتا ہے۔ مرد کا مونچھ بغیر۔‘‘ بڑی بیگم کی آنکھوں میں مارے محبت کے آنسو آگئے۔ اسی وقت تصویر بغیر فریم کے صوفوں والے گول کمرے میں سجادی گئی، سلمیٰ بی کے چھوڑے ہوئے البم میں الطاف کی ذرا سی تصویر تھی، جس میں شکل کا پتہ نہ چلتا، پر اب تو ایک ایک چیز صاف تھی۔ جب تک سلمیٰ بی گھر میں تھیں تو ولایت براجے ہوئے الطاف کے اتنے تذکرے نہ ہوتے، لیکن اب تنہائی میں بیگم کو اس کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہ تھا، بیٹیاں تو ما باپ کے گھر چڑیا کی طرح بسیرا لیتی ہیں اور پھر اپنے ٹھکانوں کو اڑجاتی ہیں۔ بیٹا بیٹا ہے دیس میں ہو یا پردیس میں۔ رہے گاماں باپ کے گھر کا، اور پھر اب تین سال ہی تو باقی تھے پڑھائی کے۔ بیگم ایک ایک دن گنا کرتیں۔۔۔

’’اے بیٹا۔ اے بچی کنیز کہاں ہو، ادھر تو آؤ۔‘‘ بڑی بیگم کنیز کو پکارتیں۔ کنیز تھکے تھکے قدم اٹھاتی دوپٹے کے پلو سے ہاتھ پونچھتی آتی۔

’’کیوں بیٹا، الطاف کے لیے کون سا کمرہ صاف کر لیا جائے، ابھی سے کرلیں ورنہ اس کے آنے کے بعد تو مارےخوشی کے مجھ سے کچھ نہ ہوگا۔‘‘ بیگم ہول کر پوچھتیں، جیسے الطاف بس رات کی گاڑی سے وہاں پہنچ رہے ہوں۔

’’وہی سلمیٰ بی والا اماں بیگم۔‘‘ کنیز بیگم کے دل کی بات کہتی۔

’’اچھا تو پھر کل مل کر کمرہ ٹھیک کرلیں گے۔‘‘ بیگم طے کرتیں۔ لیکن کنیز اس ’’کل‘‘ کو عموماً اپنے روزانہ کام میں بھول جاتی، یہی کیا، کنیز تو ہفتوں کنگھی کرنا بھی بھول جاتی، عرصے سے وہ بیگم کی صندوقچی میں رکھے ہوئے ننھے سے آئینے میں اپنی صورت دیکھنا تک بھی بھول چکی تھی۔ اسے اب عشرت کی یاد بھی نہ آتی، نہ ممتاز، نہ نمی اور نہ دادی۔۔۔ اور چمی تو جیسے اس کے ہاں پیدا ہی نہیں ہوئی تھی۔ بسا اوقات وہ تو یہ بھی بھول جاتی کہ وہ کہاں بیٹھی ہے اور بیگم جن پر اس کی جان جاتی تھی، اس کی منہ بولی اماں ہیں۔ یا محض ایک سوکھا ہوا پتہ۔ الطاف کا خط مہینوں میں آتا اور جب آتا تو بیگم کی عید ہو جاتی، گٹھیا کا درد بھول کر سارے گھر میں ناچی ناچی پھرتیں۔

تو اس دن بھی الطاف کا خط آیا تھا۔۔۔ بارش کا موسم ختم ہوچکا تھا، اس کے باوجود فضا میں ٹھنڈ کےبجائے گرمی کی امس تھی، کم از کم کنیز کو تو ایسا ہی محسوس ہوتا۔ اس کی پتلی سی ستواں ناک اوراوپر کے ہونٹ پر پسینا ہی پسینا رہتا۔ کھانا تو کھایا ہی نہ جاتا۔۔۔ اس وقت وہ بمشکل آدھی روٹی حلق سے اتار کر بیٹھی تھی، اور اسےجانے کیوں دادی بڑی شدت سے یاد آرہی تھیں۔

’’اےکنیز، اے بچی لے اور سن۔‘‘ بڑی بیگم پیچھے سے جھومتی جھامتی کنجیوں کا گچھا بجاتی آئیں اور کنیز اس طرح چونکی جیسے وہ عین چوری کرتے پکڑی گئی ہو، دل دھڑ دھڑ کرنے لگا، ان دنوں ذرا سی آواز پر یہی حال ہو جاتا۔

’’الطاف میاں نے لکھا ہے اماں اجازت دو تو تمہارے لیے ایک بہو لے آؤں، ایسی بہو کہ انگریز بالکل نہیں لگتی۔۔۔ لو بیوی میری تو کم بختی ہے۔‘‘ بیگم کا گلا رندھ گیا، کنیز ایسی بے تعلق سی بیٹھی رہی جیسے باورچی خانے کی کھڑکی میں سے سڑک پر نظر ڈال رہی ہو۔

’’توبہ! اس گھر میں سور کھانے والی بہو آئے۔ اے ایسی بہو تو اٹھ کر کاہے کو کسی کام میں ہاتھ لگائے گی، میاں کی ساری کمائی بیروں خانساموں پراڑے گی، ہم اپنی ساری جمع جتھا بیٹے بیٹی پر اٹھا کر وہی منھ دیکھتے رہ گئے نا، نا بیوی۔۔۔ کاہے کو اجازت دوں گی؟ لکھوں گی مرتے وقت دودھ نہ بخشوں گی، زہر کھا لوں گی، پھر میرے بعد جو جی چاہے کرنا۔۔۔ میں اس اولاد کے لیے مرگئی، امید تھی بہو آکر کچھ سکھ دے گی؟‘‘ اور بیگم زار و قطار رونے لگیں۔

’’اماں بیگم پھر ان کی شادی کر کے کیوں نہیں بھیجا۔‘‘ کنیز نے جیسے اعتراض جڑ دیا۔

’’اے لاکھ سلیقے والی لڑکی ڈھونڈی، فیشن والیاں، پڑھی لکھی۔ اپنی سلمیٰ بی جیسی تو لاکھ مل جاتی ہیں مگر فیشن کے ساتھ گھر داری کرنے والی بھی تو ہو، شکل و صورت بھی ہو اے بس سمجھو۔۔۔‘‘ بیگم خلاء میں نظریں گڑو کر کچھ ڈھونڈنے لگیں (اور کنیز سوچنے لگی پتہ نہیں مرادآباد کا ٹکٹ دادی نے کتنے میں خریدا ہوگا) اور پھر بیگم اچانک خوابناک آواز میں بولیں، ’’اے بس سمجھو میں تو تمہاری جیسی۔۔۔ ہاں۔‘‘ بیگم ہکلا گئیں۔

اور کنیز کے جسم پر تڑترا کر جیسے بجلی ٹوٹ پڑی۔ وہ کتنی دیر تک سن بیٹھی رہی اور پھر جب اٹھی تو مشین کی طرح گھر کے مہینوں سے پڑے ہوئے کاموں میں جٹ گئی۔ اس دن الطاف میاں کا کمرہ بالکل تیار تھا۔ الطاف کا کمرہ روزانہ صبح سویرے چار بجے سے صاف ہوتا۔ اس کے بعد کوئی اور کام ہوتا۔ سارا گھرایسا چمکتا، جیسے ابھی بن کر تیار ہوا ہو۔ بیگم کا جسم اتنا دبتا کہ گٹھیا کا درد کہیں دبک کر رہ جاتا۔ ان کے سر میں اتنی بوتلوں کا تیل ٹھنک ٹھنک کر خشک ہو جاتا کہ اگر ان کے بال دوبارہ کالے ہو جاتے، یا وہ ایک دن، بیٹھے بیٹھے بی۔ اے پاس کر لیتیں تو کچھ حیرت نہ ہوتی، دعائیں دے دے کر بیگم کامنھ دکھ جاتا، لیکن کنیز نہ تھکتی، وہ گھر کا خرچ کم کرنے کی ایسی درپے ہوئی کہ بسا اوقات شدید بھوک کے عالم میں روکھی سوکھی کھا کر اٹھ جاتی، بیگم ارے ارے کہہ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیتیں، لیکن کنیز نے دھوبی کو بھی جواب دے دیا کہ’’واہ ذرا ذرا سے کپڑوں کے دو دو آنے لگا وے ہے۔ اے پیسہ کسی کو کھلے ہے۔‘‘ بیگم نے بہت ناں ناں کی لیکن کنیز کے آگے ایک نہ چلی، مگر جب دوسرے دن انہوں نے کنیز کے ہاتھ کے دھلے ہوئے کپڑے پہنے تو ’’واہ‘‘ کہے بغیر نہ رہ سکیں۔

اور اس سب کے باوجود جب وہ عام کاموں سےفرصت پا کر لمحہ بھر کو آرام کی خاطر بیٹھتی تو اس کے روئیں روئیں پر مسکراہٹ کی لہر کھیلتی ہوئی اٹھتی اور اس کے دبلے پتلے زرد چہرے پر پھوار بن کر پڑنے لگتی اور جب وہ اس توجہ سے اپنے خون کے سارے کھولاؤ کے برتے پر مسکراتی تو اس کا سر چکرا جاتا، ماتھے پر ٹھنڈا پسینہ آ جاتا۔۔۔ اور۔۔۔ ایک دن ایسا آیا کہ وہ اس کیفیت کا بوجھ بھی نہ سنبھال سکی اور باورچی خانے میں بے ہوش ہو کر دھڑام سے گر پڑی۔

ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کا خون خشک ہو رہا ہے۔ کئی بہاریں آئیں اور گزر گئیں۔ موسموں کی تبدیلیاں اپنی پوری شدت سے ظاہر ہوتیں اور پھر مر جاتیں، لیکن کنیز ایک مشین کی طرح اپنے کاموں سے چمٹی رہتی۔ بیگم کئی بار اسے دیکھ کر دہل جاتیں، ’’اری بچی تجھے اپنا کچھ ہوش نہیں، کبھی میرے پاس بیٹھ کر منٹ بھر کمر سیدھی کر لیا کر۔ نگوڑی کچھ کھائے پیے گی نہیں تو پھر روز روز بے ہوشی کے دورے پڑیں گے۔‘‘ بیگم ہمدردی سے لبریز آنکھوں سے اس کا تعاقب کرتیں جو ایک ضدی روح کی طرح یوکلپٹس، گولر، شیشم اور جامن کے درختوں میں دبکی ہوئی ننھی سی کوٹھی میں بے تابی سے گھومتی پھرتی۔

بہت سارے دن اور بہت ساری راتیں تیزی سے گزرتی چلی گئیں۔ جیسے وقت ریل پر بیٹھ کر چلنے لگا ہو۔ سلمیٰ بی پچھلے دنوں آئی تھیں تو وہ دو بچوں کی ماں تھیں اور تیسرا پیٹ میں تھا۔ صاف ستھری لیکن نسبتاً نئی کوٹھی کی منڈیروں پر قت کے اثرات کائی کی شکل میں نمایاں ہونےلگے۔ چمی کی دبائی آم کی گٹھلی سے پھوٹا ہوا درخت نہ ہوگا تو چمی ہی کے قد کے برابر ہوگا، لیکن اس کے چھوٹے چھوٹے پاؤں اس درخت کے پاس سے اتنی تیزی سے گزر جاتے کہ ہوا کے ایک مصنوعی جھونکے سے وہ کانپ کر رہ جاتا مگر یہ تیزی، یہ لپک جھپک تو کنیز کی سرشت بن چکی تھی۔

بھری گرمیوں کی ایک صبح میاں الطاف ولایت سے واپس آگئے، دنیا کا اتنا بڑا واقعہ، اتنی شدید خوشی، ایک دن ظہور پذیر ہوگئی۔ مارے مسرت کے بیگم کے دو آنسو پلکوں پر آکر اٹک گئے۔ سلمیٰ بی مارے خوشی کے دادی سے بھی زیادہ زور زور سے بول رہی تھیں اور ان کے بچے اماں کی بے توجہی پر چمی سے زیادہ گلا پھاڑ پھاڑ کر رو رہے تھے۔ سلمیٰ بی کے میاں الطاف سے ولایت کی تعریفیں سن سن کر تھکتے ہی نہ تھے اور کنیز منٹ منٹ پر ہاتھ دھوکر باورچی خانے میں آتی، اور دروازے میں سے جھانک کر ساری رونقیں دیکھ جاتی۔ الطاف سے ایک بار آنکھیں چار کرکے وہ چکرا کر گرتے گرتے بچی تھی۔ ’’ہائے کیسے دیکھیں ہیں۔‘‘ کنیز چھپ کر سوچتی اور باورچی خانے میں جاکر منھ دھونے لگتی۔

’’مائی۔ ذرا پانی دینا۔‘‘ الطاف میاں نےآواز لگائی۔ ان کا منہ ولایت خوانی کرتے کرتے خشک ہو چکا تھا۔

’’اوئی بچے اس طرح نہ کہو۔‘‘ بڑی بیگم روٹھ گئیں، ’’اے وہ تو ایسی سگھڑ ہے، دکھیاری، سمجھو اس کی وجہ سے مہینے کا سارا خرچ پچاس سے کم ہی کم ہوتا، نہ چور نہ چکار۔۔۔ ویسے ہی تمہیں دو دو چار چار سو نہیں پہنچتا رہا۔۔۔ ایسی سلیقے والی ہے کہ کیا کہوں۔‘‘ بس بیگم نے کنیز کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔

’’ایسی ہی سلیقہ مند ہے خان بہادر وسیم کی لونڈیا، میں تو۔۔۔‘‘ اور اس پل پر سے بہو کا ڈولا بھی گزر گیا۔ پر پانی نہیں آیا۔

’’اماں پانی تو۔۔۔‘‘ الطاف میاں بڑبڑائے۔

’’اے پانی نہیں آیا۔۔۔ اوئی کنیز کانوں میں تیل ڈال لیا بچی؟‘‘ بیگم بڑبڑاتی اٹھیں۔

پانی نہیں آیا۔۔۔ کنیز اپنا منہ دھونے میں سارا پانی بہا چکی تھی۔ وہ اپنی بے سلیقگی کے بارےمیں ذرہ برابر نہیں سوچ رہی تھی۔۔۔ وہ تو درختوں کے سائے میں خزاں زدہ زرد پتوں پر قدم رکھتی سوچتی جا رہی تھی۔۔۔ موئے درخت بھی بے فائدہ ہوویں ہیں۔ صبح سے کتنی بار پتے سمیٹے، پھر بھی ساری کوٹھی میں پتے ہی پتے۔۔۔

کوٹھی سے نکل کر وہ سول لائنز کی سب سےکھلی سڑک پر آگئی۔ باورچی خانے میں کیسی ٹھنڈک تھی، اسے اپنی ہڈیوں میں گٹھیا کا درد اٹھتا محسوس ہو رہا تھا۔ اس کا دوپٹہ غراتی ہوئی لو میں پھڑپھڑا رہا تھا لیکن وہ چلتی گئی اور آگے اور آگے اور پھر وہ ہار کر ایک کوٹھی کے پھاٹک سے ٹک کر بیٹھ گئی۔ اس کا حلق پیاس سے خشک ہو رہا تھا۔ لیکن کوٹھی کے دروازے کے قریب ہی لگے ہوئے نل سے پانی پینے کا اسے خیال تک نہ آیا۔ بس وہ بیٹھی ہوئی لوہے کے پھاٹک کی سلاخوں پر اپنی انگلیاں پھرتی رہی، اس کے چاروں طرف لوکے مارے زرد پتے کھڑکھڑاتے رہے اور لو غراتی رہی۔

کوٹھی کے پھاٹک سے ایک نئی کار نکلی اور رک گئی۔ اس میں سے ایک نئی نئی مہکتی ہوئی بیگم نکلیں اور کنیز کے پاس آگئیں۔ ’’ارے تم کنیز ہو نا، سلمیٰ بی کے ہاں کام کرتی تھیں؟‘‘ نو عمر بیگم نے خوش ہو کر پوچھا، کنیز نے کوئی جواب نہ دیا۔

’’کیا نکال دیا انہوں نے؟‘‘ بیگم نے آنکھیں نچائیں۔

کنیز پھر بھی چپ رہی۔ بیگم کار کی طرف بڑھیں۔ پھر کچھ سوچ کر پلٹیں۔ ’’میرے ہاں رہو۔ کھانا کپڑا میرے ذمے۔۔۔ ماں کی طرح سمجھوں گی۔‘‘ بیگم نے کہا۔ اور کنیز حیران رہ گئی۔

’’ماں! اس جوان بیگم کی ماں۔ اے کیا کہویں ہیں لوگ، ایک دم سب کے دیدے پٹم ہوگئے کیا۔ ابھی تو میری اصلی عمر تین اور تیس کی ہووے گی۔‘‘ اس نےایک زرد پتہ اٹھا کر پوری قوت سے مٹھی میں چرمر کر دیا۔ پانچ سال کے عرصے میں وہ بوڑھی ہو چکی ہے، اس بات کا اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں سے چند آنسو ٹپک کر چہرے کی مہین مہین چنٹوں میں پھیل گئے۔ اور کھچڑی بالوں کی ایک لٹ ماتھے پر لوٹتی رہی، منٹ بھر میں اس نے سوکھے پتوں کو مسل مسل کر اپنے سامنے ڈھیر کرلیا۔

مأخذ : سب افسانے میرے

مصنف:ہاجرہ مسرور

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here