کہانی کی کہانی:’’بچوں کی نفسیات پر مبنی ایک پراثر کہانی ہے۔ عموماً گھر کے بڑے لوگ اپنی مصروفیات اور معاملات میں الجھ کر بچوں کی نفسیاتی کیفیت کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں، جس کے نتائج بسا اوقات سنگین ہو جاتے ہیں۔ صلاح الدین ملازمت کے سلسلہ میں اپنی خالہ کے یہاں مقیم ہے، تنویر صلاح الدین کی ہم عمر جب کہ منیر ایک چھوٹی بچی ہے۔ صلاح الدین اور تنویر ایک دوسرے میں کشش محسوس کرتے ہیں لیکن سماجی مجبوریوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے گریز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ منیر جب ایک دن صلاح الدین کی اداسی کا سبب معلوم کرتی ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ صلو بھیا کی اداسی کا سبب تنویر ہے تو اپنی معصومانہ کوشششوں سے دونوں کو مل بیٹھنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ جب تنویر اور صلاح الدین کی شادی ہو جاتی ہے تو صلاح الدین منیر کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے منیر حد درجہ اداس رہنے لگتی ہے اور جب صلاح الدین اپنی بیوی کے ہمراہ دلی جانے لگتے ہیں تب بھی وہ اس سے پیار سے پیش نہیں آتے ہیں۔ صلاح الدین کے جانے کے بعد منیر خوب روتی ہے، اسے بخار آ جاتا ہے اور بالآخر اس کا انتقال ہو جاتا ہے۔‘‘
صبح سے گہرا ابر چھایا ہوا تھا۔ اور بادلوں کی گرج سے معلوم ہوتا تھا کہ اولے پڑیں گے۔ سردی اس غضب کی پڑ رہی تھی کہ لحاف کے اندر سے ہاتھ نکالنا دشوار تھا۔ لیکن ننھی منیر اپنے صلو بھیا کے انتظار میں بھوکی پیاسی دروازے پر کھڑی اس کی راہ تک رہی تھی۔ ماں نے لحاف اوڑھ کر آگ کے پاس بیٹھنے کی تاکید کی۔ اس کی بڑی بہن تنویر نے بھی ڈانٹا کہ چلو یہاں آکر بیٹھو۔ آجائیں گے تمہارے بھیا جب ان کو آنا ہوگا۔ لیکن دھن کی پکی منیر نے کسی کی نہ سنی۔ کیونکہ اس کے بھیا تو نوکری کی تلاش میں پاگل ہو رہے تھے اور وہ اپنا آرام ڈھونڈے۔ آخر منیر نے بڑی دیر بعد دیکھا کہ صلو بھیا اوورکوٹ کا کالر چڑھائے جیبوں میں ہاتھ ڈالے جلدی جلدی چلے آ رہے ہیں۔
منیر خوشی سے اچھلتی کودتی سڑک پر دوڑ کر ان سے لپٹ گئی۔ صلو بھیا اسے گود میں اٹھائے گھر آئے۔ تنویر آپا تو پیٹھ موڑ کر ایک کتاب دیکھنے لگیں اور اماں نے کھانے کو پوچھا۔ آگ کے پاس بیٹھنے کو کہا۔ لیکن صلو بھیا نے کھانے سے انکار کردیا، اور منیر کو لیے ہوئے اپنے کمرے میں آگئے۔ اور کپڑے تبدیل کرکے لحاف میں بیٹھ گئے۔ انہیں اس وقت آتے ہی تنویر کے پیٹھ موڑ کر بیٹھ جانے سے سخت تکلیف ہوئی تھی اور وہ یہی سوچ رہے تھے کہ منیر اور تنویر بہنیں ہی تو ہیں لیکن دونوں میں کتنا تضاد ہے۔
منیر ان کی گود میں کچھ بے چین سی لیٹی ہوئی تھی۔ اس لیے بار بار کسمسا رہی تھی۔ صلو اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ لیکن اس نے ہاتھ غصے سے جھٹک دیا۔
’’کیا تم بھی خفا ہوگئی مجھ سے۔‘‘ صلو نے پوچھا لیکن وہ منہ پھلائے پڑی رہی۔
’’اچھا اگر میں چاکلیٹ دوں تو مان جاؤں گی؟‘‘
’’نہیں! آپ سےاب میں کبھی نہیں منوں گی۔‘‘ اس کے پیارے سے چہرے پر غصے کے باعث عجیب کیفیت پیدا ہوگئی۔
’’کیوں نہ منوگی؟‘‘ صلو نے اس کے سنہری بالو ں میں انگلیاں الجھا کر پوچھا۔
’’آپ ہنستے نہیں، چپ جو رہا کرتے ہیں۔‘‘ اسے جیسے سچ مچ صلو بھیا کی خاموشی سے بڑی تکلیف ہو رہی تھی۔
’’ارے! بس اتنی سی بات پر یہ خفگی، لو میں ہنستا ہوں۔‘‘ اور وہ ہنسنے لگے۔
اب آپ کتنا بھی ہنسئے، میں ہرگز نہ منوں گی آپ سے۔۔۔!‘‘
’’اچھا تو میں تمہارے گھر سے چلا جاؤں گا۔‘‘
’’میں آپ کو جانے نہ دوں گی۔‘‘ وہ اس طرح کہنے لگی جیسے اسے ان پر بڑا اختیار تھا۔
’’تو پھر غصہ تھوک دو۔‘‘ انہوں نے اسے اپنے آغوش میں بھینچ لیا۔ منیر نے بھی اپنی بانہیں ان کے گلے میں ڈال دیں۔
’’لڑائی ختم ہوگئی۔ لو اب یہ چاکلیٹ!‘‘ انہوں نے اسے بہت سے چاکلیٹ دے دیے۔
’’بڑےاچھے ہیں آپ، لیکن دیکھیے کہیں جائیے گا مت۔‘‘ اس نے ایک چاکلیٹ منہ میں ڈال لیا۔
صلو بھیا پھر کسی سوچ میں غرق ہوگئے۔
صلاح الدین اپنی تعلیم ختم کرنے کے بعد کسی اچھی ملازمت کی فکر میں خالہ کے ہاں مقیم تھے۔ امید ہی امید میں انہیں وہاں رہتے کئی ماہ ہوگئے۔ خالہ اپنے بھانجے کی ہر طرح خاطر مدارات کرتیں۔ خالو جان بھی اس کی ملازمت کے لیے بڑی بڑی سفارشیں پہنچاتے۔ ننھی منیر کو تو جیسے ایک پل بھی بغیر ان کے چین نہ آتا۔ جب تک وہ گھر میں رہتے، صلو بھیا! صلو بھیا کہتے منہ سوکھتا۔ اس کے باوجود کچھ رنجیدہ سے رہتے۔ اسے تنویر کی بے نیازی بہت تکلیف دیتی۔ دونوں ایک ہی گھر میں تھے لیکن ایک دوسرے سے کتنے دور۔ تنویر نےکبھی اس سے آنکھ ملاکر بات نہ کی۔ پہلے تو وہ سمجھتا رہا کہ وہ شرمیلی ہے۔ لیکن بعد کو اس نے دیکھا کہ گھر میں جو بھی تھا، اس سےخوب باتیں کرتی۔ لیکن صلو کو دیکھتے ہی خاموش ہو جاتی۔
صلو کو تنویر کی بے رخی نے بہت دکھ پہنچایا، پھر بھی وہ اس کی میٹھی آواز سننے کے لیے بے چین رہا کرتا۔ وہ چلتی تو اس کی نظریں چپکے چپکے اس کا تعاقب کیا کرتیں۔ لیکن جیسے تنویر کو ان سب باتوں کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ یا پھر کوئی کیا جانے اس کے دل میں محبت کی کوئی چنگاری سلگ رہی ہو۔ اور وہ اسے دوری کے چھینٹوں سے بجھانا چاہتی ہو۔ بہرحال صلو اس کے طرز عمل سے رنجیدہ رہتے اور اس طرح منیر بھی ان کے لیے پہروں چپ چپ رہتی۔
موسم انتہائی دلکش تھا۔ بادلوں کے ٹکڑے دور سے دوڑ دوڑ کر آتے اور آپس میں مل کر مغرب کے سینے میں سما جاتے۔ صلو اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑے تنویر کو دیکھ رہے تھے، جو نیلی شال میں لپٹی آرام کرسی پر دراز کسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھی۔ بادل گرجا اور تنویر چونکی۔ اس کی نظر صلو پر پڑی جو اسے دیکھنے میں مصروف تھے۔ ان کی نظریں جھک گئیں۔ وہ ڈرے کہ کہیں اس طرح غور سے دیکھنے پر تنویر برہم نہ ہوگئی ہو۔ وہ جلدی سے اندر جا کر لیٹ رہے۔
’’صلو بھیا! باہر دیکھیے کتنا اچھا ہو رہا ہے۔‘‘ منیر دوڑتی ہوئی آئی۔ اور ان کا لحاف کھینچنے لگی۔
’’تم جاؤ منی مجھے پڑا رہنےدو۔‘‘
’’آپ کیوں نہ جائیں گے باہر۔‘‘
’’ڈر لگتا ہے۔‘‘
’’بادلوں کی گرج سے؟‘‘ منیر نے آنکھیں مٹکا کر پوچھا۔
’’نہیں تمہاری آپا سے۔‘‘ صلو نے دل کی بات کہہ دی۔
’’کیوں؟‘‘ اس کے بھولے بھالے چہرے سے سنجیدگی جھلکنےلگی۔
’’وہ مجھ سے نفرت جو کرتی ہیں۔‘‘
’’اسی لیے آپ چپ چپ پھرا کرتے ہیں؟‘‘ اس نے اپنا رخسار صلو کی پیشانی پر رکھ دیا۔
’’ہاں!‘‘ صلو کواعتراف کرتے ہی بن پڑا۔
وہ اچھل کر دور جا کھڑی ہوئی اور جلدی جلدی پلکیں جھپکاتے ہوئے کچھ سوچنے لگی۔ صلو اس کی معصومیت سے لبریز حرکتیں دلچسپی سے دیکھتے رہے۔ اس نے ایک بار سائبان کی طرف دیکھا جہاں تنویر آرام کرسی پر پڑی کتاب پڑھ رہی تھی۔ اور پھر وہ پھرتی سے آنگن پار کر کے اس کے پاس پہنچ گئی۔
’’آپا۔‘‘
’’ہوں!‘‘ تنویر نے کتاب سے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔
’’آپ صلو بھیا سے نفرت کیوں کرتی ہیں؟ مجھے بتائیے۔“ وہ تحکمانہ انداز میں بولی۔
’’خوب! تم تو اس وقت منی سی رانی معلوم ہو رہی ہو۔‘‘ تنویر نےاس کے سوال کو ٹالتے ہوئے کہا۔
”تو پھر رانی کی بات کا جواب دینا ضروری ہے۔‘‘
تنویر زور سے ہنس پڑی۔
’’کس بات کا جواب دوں؟‘‘
’’آپ صلو بھیا سے نفرت کیوں کرتی ہیں؟‘‘
’’تجھ سے کس نے کہا؟‘‘
’’خود صلو بھیا نے مجھ سے کہا کہ تمہاری آپا مجھ سے نفرت کرتی ہیں۔ اسی لیے تو وہ ہردم چپ رہتے ہیں۔‘‘
تنویر بھی اداس ہوگئی۔
’’تمہارے بھیا جھوٹ بولتے ہیں۔ وہی تومجھ سےنفرت کرتے ہیں۔ دیکھو گھر میں سب سے بولتے ہیں۔ ٹامی تک سے لیکن کبھی مجھ سے بات کی؟‘‘ اس نے منیر کے بالوں سے کھیلتے ہوئے کہا۔ اور کسی گہری سوچ میں پڑ گئی۔
’’آپا! آپ بڑی اچھی ہیں۔ میں صلو بھیا سے کہہ دوں گی کہ آپا تو آپ کو بہت چاہتی ہیں مگر آپ ہی ان سے نہیں بولتے۔‘‘
’’اپنے بھیا سے کچھ نہ کہنا ورنہ میں تم کو ماروں گی۔‘‘
’’میں تو ضرور کہوں گی مار لیجیے آپ۔۔۔‘‘ اور وہ جلدی سے بھاگی۔ تنویر اس کو پکڑنے دوڑی لیکن وہ اپنے بھیا کی گود میں بیٹھی آپا کی صفائی پیش کر رہی تھی۔ تنویر کھسیانی ہو کر لوٹ آئی اور صلو بھیا زور زور سے ہنسنے لگے۔
منیر اس دن بہت خوش تھی۔ کیونکہ اس کے صلو بھیا بات بات پر ہنس رہے تھے اور اسے ان کا ہنستا ہوا چہرہ بہت اچھا لگتا تھا۔ اب منیر اکثر تنویر کو صلو بھیا کے کمرے میں پکڑ لاتی۔ اور تنویر بھی یونہی سی مزاحمت کے بعد اس کے ساتھ ہو لیتی۔ وہ کمرے کے وسط میں نئے آئے ہوئے مہمان کی طرح چپکی کھڑی رہتی اور صلو بھیا بھی ایک طرف بیٹھے اسے چپکے چپکے دیکھا کرتے۔ منیر اپنی بہن کا آنچل کھینچ کر کہتی، ’’باتیں کیجیے صلو بھیا سے۔‘‘
’’کیا باتیں کروں؟‘‘ وہ کھڑکی سے باہر نظریں دوڑاتے ہوئے کہتی اور صلو کو محسوس ہوتا کہ ننھی منیر نے اپنے چھوٹے بھائی کا جھنجھنا اٹھا کر پھینک دیا ہے۔ اس کے بعد صلو بھیا کوئی بات چھیڑ دیتے۔ وہ زیادہ تر ہوں، ہاں میں جواب دے دیتی اور پھر کسی بہانے سے وہاں سے بھاگ جاتی اور صلو کو اپنا کمرہ ویران معلوم ہوتا۔
ایک دن منیر نےصلو کو گم سم کھڑے دیکھ کر پوچھا، ’’کیا سوچ رہے ہیں صلو بھیا؟‘‘اس کی صاف شفاف آنکھوں سے فکر چھنکتی معلوم ہوئی۔
’’میں یہ سوچ رہا تھا کہ کوئی میرے پاس ہوتا۔‘‘ اس نےجواب دیا اور وہ سائبان میں کھڑی ہوئی تنویر کو دیکھنے لگا۔ جو اسے تکتا دیکھ کر دوسری طرف مڑ رہی تھی۔
’’میں جو ہوں صلو بھیا۔‘‘ منیر نے حیرانی سے کہا۔
’’ہشت! تم سے کون بات کرے۔‘‘
’’منیر کے ننھے سے دل پر گھونسا سا لگا اور وہ رو پڑی۔ اس نے بھیا کے منہ سے آج تک ایسی بات نہ سنی تھی۔ اسے پوری پوری امید تھی کہ صلو بھیا اسے گود میں اٹھا کر اپنی بات کی تردید کردیں گے لیکن یہ نہ ہوا۔ صلو صحن میں ٹہلتی ہوئی تنویر کو دیکھنے میں محو تھے۔ منیر اپنے دل میں شکایتوں کا طوفان دبائے اس کے کمرے میں سے باہر چلی گئی۔
آخر صلو بھیا کی وارفتگی بھانپ لی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چٹ منگنی پٹ بیاہ۔ صلو کو تو جیسے ساری دنیا کی دولت مل گئی لیکن منیر جیسے بالکل مفلس ہوگئی۔ اس کا لاڈ پیار ختم ہو گیا۔ اب نہ تو ہر وقت وہ صلو کی گود میں رہتی اور نہ ہی کسی کو اس کی خفگی کی پروا تھی۔ وہ پہروں کسی کونےمیں کھڑی رہتی کہ شاید صلو اسے یوں کھڑا دیکھ کر گود میں اٹھالیں اور کہیں کہ ’’من جاؤ اب اچھی منیر۔‘‘ صلو بھیا اس کے قریب سے گزرتے تو اس کادل زور زور سے دھڑکنے لگتا۔ اور وہ جلدی جلدی سوچنےلگتی، ’’میں گھنٹوں ستاؤں گی بھیا کو، چاہے وہ بسکٹ بھی دیں تب بھی نہ منوں گی۔ پھر وہ مجھ سےکہیں گے کہ منیر من جاؤ ورنہ میں یہاں سے چلا جاؤں گا۔ تو پھر میں ان کے گلے سےلپٹ جاؤں گی۔ بس میل ہو جائے گا۔‘‘
لیکن وہ یہ سوچتی ہی رہ جاتی اور صلو اس کی طرف متوجہ ہوئے بغیر گزر جاتے۔ وہ اپنی ناکامی پر زور زور سے رونے لگتی۔ ماں پوچھتی تو اور بھی روکر زمین پر مچل کر چیختی۔ اس امید پر کہ بس اب بھیا آکر کہیں گے کہ ارے میری منیر کو کس نے مارا؟ لیکن کمرے سے سوائے قہقہوں کے کوئی نہ نکلتا۔ اس کا ننھا سا دل صلو بھیا کی بے اعتنائی سے ٹوٹ گیا۔ وہ پہروں بغیر کچھ کھائے پیےسائبان میں کھڑی رہتی۔ کیونکہ سامنےصلو کا کمرہ تھا۔ وہ ان سب کو ہنستے بولتے دیکھ کر سوچا کرتی کہ اگر میں آپا اور بھیا کا میل نہ کراتی تو اچھا تھا۔ اب وہ مجھ سے بولتے بھی نہیں، بس آپا سے ہر وقت باتیں کیا کرتے ہیں۔ اب میں بھی کبھی ان دونوں سے بات نہ کروں گی۔ لیکن جب صلو اس کے قریب سے گزرتے تو اس کا دل چاہتا کہ وہ ان سے لپٹ کر رونا شروع کردے۔
وہ روز بروز زرد اور کمزور ہوتی گئی، لیکن کسی کو بھی اس کی کوئی خاص فکر نہ تھی۔ صلو بھیا نے اماں کے کہے پر ایک بار اس سے بات کرنی چاہی لیکن اس طرح کہ منیر اور بھی دل برداشتہ ہوگئی۔ صلو بھیا اس کے دل کی حالت نہ سمجھتے ہوئے کہا کرتے کہ ’’منیر بہت ضدی ہوگئی ہے۔ اس کی ضد کوئی بھی پوری نہ کرے۔‘‘ یہ سن کر اسے صلو بھیا سے نفرت ہونے لگتی لیکن شان محبت لیے ہوئے۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی دہلی میں صلو کو بڑی اچھی ملازمت مل گئی اور اسے لکھنؤ سے رخصت ہونا پڑا۔ ماں نے بیٹی کو گلے سے لگا کر آنسو بہائے اور صلو کو شاد و آباد رہنے کی دعائیں دیں۔ صلو نے سب سے رخصت ہونے کے بعد منیر کی طرف دیکھا۔ جو سب سے الگ تھلگ منہ پھلائے کھڑی تھی۔ انہوں نےاسے گود میں زبردستی اٹھا لیا لیکن وہ مچل کر اترگئی۔ صلو نے بہت چاہا کہ چلتے چلتے تو اسے منالے۔ لیکن اس نے بیزاری سے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ صلو کو اس کی اس حرکت سے غصہ آگیا۔ وہ کہنے لگے، ’’خالہ جان، ضدی بچوں سے مجھے سخت کوفت ہوتی ہے۔ اب دیکھیے نا اسے کہ کسی طرح منہ ہی سیدھا نہیں ہوتا۔‘‘
منیر کا دل بیٹھنے لگا، لیکن وہ آنسو ضبط کیے رہی۔تنویر اور صلو تانگے میں بیٹھے تو منیر سے ضبط نہ ہوسکا۔ اس کی معصوم خود داری نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور وہ دوڑ کر دروازے پر کھڑی ہوگئی۔ صلو اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے تو اس کا دل چاہا پکار کر کہے، ’’صلو بھیا، میں مان گئی تم سے، اب نہ جاؤ۔‘‘ مگر اس سے پہلے کچھ کہتی، تانگہ سڑک پر جا رہا تھا۔ اور وہ دہلیز پر مچل مچل کر رونے لگی۔ ماں نےاسے بہلانا چاہا تو اور بھی پھوٹ پڑی۔ چیخ چیخ کر سارا گھر سر پر اٹھا لیا۔ ماں تو تنویر کی جدائی سے دل برداشتہ تھی ہی، منیر کی چیخ و پکار سے چڑگئی اور دوتین تھپڑ مار کر روتا چھوڑ کام کاج میں لگ گئی۔
کئی گھنٹے کے بعد منیر کا خیال آیا تو ڈیوڑھی میں گئی۔ منیر روتے روتے زمین پر سوگئی تھی۔ خاک آلود سنہری بال، زرد چہرہ، بھیگی پلکیں۔ ماں کا دل اسے دیکھ کر موم ہو گیا۔ گود میں اٹھایا تو لق دق رہ گئی۔ اسے تیز بخار تھا۔ جی ہی جی میں اپنے بے جا غصے پر شرمندہ ہوئی اور اسے لاکر پلنگ پر ڈال دیا۔ سمجھی کہ بچہ ہے بہن بہنوئی کے جانے سے ہڑک گئی ہے۔ دو ایک دن میں اچھی ہو جائے گی۔ رات کوبخار بہت تیز ہوگیا۔ دوسرے دن ڈاکٹر کے ہاں نوکر کے کندھے پر ڈال کر لے جایا گیا۔ ڈاکٹر نے معمولی بخار تجویز کیا۔ کئی روز ایک جیسی حالت رہی۔ ماں پیار کرتی، گلے سے لگاتی، لیکن اسے جیسے کسی کی محبت کی ضرورت نہ تھی۔ بس ہوش آنے پر آنکھیں کھولے چھت تکا کرتی۔ پانچویں روز ڈاکٹر نے میعادی بخار تجویز کیا۔ ماں نے گھبرا کر صلو کو خط لکھا۔ دوسرے دن حالت اور بھی گرتی دیکھ کر تار دے دیا کہ جیسے بھی بنے آجاؤ۔
اسی دن شام کو منیر کی حالت ایک دم بگڑ گئی۔ ماں نے پوچھا، ’’دہلی چلو گی منی۔‘‘ اس نے بطور انکار گردن ہلادی۔ ماں نے بیتاب ہو کر کہا، ’’تمہارے بھیا آج آرہے ہیں۔ جلدی سے اچھی ہوجاؤ۔‘‘ منیر نے آنکھیں بند کرلیں اور بڑبڑانے لگی۔ ماں نے اپنا کان اس کے منہ سے لگا دیا۔ وہ کہہ رہی تھی، ’’میں صلو بھیا سے روٹھی ہوں۔ اب وہ مجھے نہ مناسکیں گے۔‘‘ وہ تمام رات نہ جانے کیا کیا بکتی رہی اور ماں روتی رہی۔
صلو کے ہاتھ میں ا ٹیچی کیس تھا اور وہ بیچ صحن میں مبہوت کھڑے تھے۔ تنویر کی ماں دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی۔ اور تنویر، وہ بھی سسکیاں بھر رہی تھی۔ ’’اب آئے ہو صلو، جب میری بچی تمہارے لیے تڑپتی میری گود سونی کر گئی۔‘‘ ماں رو رو کر بین کرنے لگی، ’’ادھر تم گھر سے نکلے ادھر اس کی موت گھر میں گھسی۔ ہائے ایسی ہڑکی کہ کھانا پینا چھوٹ گیا۔ دن رات بخار میں بھنا کرتی۔ آخر آج صبح تمہارا ہی نام لیتی رخصت ہوگئی۔ آخری وقت تک کہتی رہی کہ میں بھیا سے روٹھی ہوں۔ اب وہ مجھے نہ مناسکیں گے۔ ہائے مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ مجھ سے بھی روٹھ جائے گی۔‘‘
ماں نے اپنا سر منیر کےخالی پلنگ کی پٹی پر پٹک دیا۔ صلو کی آنکھ سے آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ بمشکل اس کمرے تک جا سکا جہاں منیر کی مسلسل کوششوں نے اس کی تاریک دنیا کو منور کردیا تھا، لیکن جو اس کی بے اعتنائیوں سے دل برداشتہ ہو کر اپنی زندگی کو موت کی تاریکیوں میں چھپا چکی تھی۔ روتے روتے صلو کی آنکھیں سوج گئیں۔ کمرے سے باہر تنویر اور اس کی ماں کی سسکیوں کی آواز سرسرا رہی تھیں اور شام کی دھند تاریکی میں تبدیل ہو رہی تھی۔
مأخذ : سب افسانے میرے
مصنف:ہاجرہ مسرور