تیسری منزل

0
183
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’عورت کی وفاداری اور مرد کی خود غرضی کے محور پر گھومتی ہوئی یہ کہانی ہے۔ کرشچین مس ڈورتھی جو ایک بال روم ڈانسر ہے، وہ ایک مسلمان شو میکر حنیف کے لئے اپنی تمام جذبوں کو فنا کر دیتی ہے۔ اس کے کاروبار کو ترقی دیتی ہے، اس کے بیوی بچوں کو بھی خوش دلی سے قبول کرتی ہے لیکن اخیر میں حنیف صرف ایک بے وفا مرد ثابت ہوتا ہے۔ شہری زندگی کے واقعات اور کرایہ کے مکان کا سہارا لے کر انسان کی خود غرضی کو بھی اس کہانی کے ذریعہ واضح کیا گیا ہے۔‘‘

حلیمہ بائی بلڈنگ کی چوتھی منزل کے خوبصورت فلیٹ میں بیٹھے بیٹھے حلیمہ بائی کو ایک دم غصہ آگیا۔ انہوں نے وفد کے لیڈر دلی والے کی فصیح و بلیغ شکایات سننے کے بعد سر ہلا کر کہا، ’’پن ہم کسی کے بولنے کا کس طرح ایک دم مان لیں گا۔۔۔ فیر دیکھو، بابا کوئی آکر تمہارے گھر کو کچھ بولیں گا تو ہم پہلے اس کا تپاس کریں گا فیر (پھر)‘‘

دلی والے ایک دم گرم ہوگئے، ’’پھر آپ اسے نہیں نکالیں گی تو ہم پولیس کو اطلاع دیں گے۔۔۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ شریفوں کے رہنے کی جگہ پر۔۔۔‘‘

’’او بابا گرم کیوں ہوئیں گا، وہ ہمارا سگے والا نئیں لگتا ہم بولا پہلے تپاس کریں گے۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر حلیمہ بائی نے اپنے کارندے کو بلایا اور اسے بظاہر سخت آواز میں تحقیق کرنے کا حکم دے دیا۔۔۔ اس کے بعد دلی والے کی قیادت میں وفد والے حلیمہ بائی بلڈنگ سے نیچے اتر گئے۔

حلیمہ بائی نے زور سے دروازہ بند کر کے کھڑکی میں سے رابعہ بائی بلڈنگ پر ایک گہری نظر ڈالی۔ یہ ان کی دادی کی ملکیت تھی۔ اسے دیکھ کر انہیں اپنی بوڑھی زرد رودادی یاد آئی جس کے مرنے کا انہیں بہت عرصے انتظار کرنا پڑا تھا۔۔۔ رابعہ بائی بلڈنگ بھی میلی زرد سی تھی۔ بدرنگ کھڑکیاں، ٹوٹے شیشے اور ہلتے ہوئے چوبی زینے۔۔۔ وہ ہمیشہ اپنے کارندے سے کہا کرتیں، ’’یہ بلڈنگ گریں گے تو ہم اس جگہ آٹھ منزل کا بڑا بڑا فلیٹ والا بلڈنگ بنائیں گا۔۔۔ آج کل کو چھوٹا چھوٹا کمرہ کرائے پر اٹھانے کا کچھ فائدہ نہیں۔ بڑا ہوا تو امریکی لوگ اصل سے دس گنا کرایہ دیں گا۔‘‘ لیکن یہ بلڈنگ موجود تھی۔ اس میں بال روم ڈانسنگ کی ماہر مس ڈور تھی پریرا رہتی تھی۔ اور ابھی جس کی شکایت لے کر اس کی بلڈنگ کے لوگ آئے تھے۔ حلیمہ بائی کو افسوس سا ہوا کیونکہ مس ڈور تھی رابعہ بائی بلڈنگ کی سب سے پرانی لیکن سب سے بہتر کرایہ دار تھی۔ حلیمہ بائی کے کارندے نے جب بھی جھوٹوں کرایہ بڑھانے کو کہا، ڈورتھی نے اسے قبول کر لیا۔ وہ سالانہ سفیدی وغیرہ کے روپے بھی کرایہ میں نہ کاٹتی۔

- Advertisement -

’’اکیلی ہے مگر اس کے گھر کبھی کوئی دنگا بھی نہیں ہوا۔‘‘ حلیمہ بائی اپنے جی میں کہہ رہی تھیں۔ ان کی آنکھیں بار بار مس ڈور تھی کے کمروں پر اٹھتیں،جن کی پیشانی پر اس نے نیلا پینٹ کرا رکھا تھا، جس کی کھڑکیوں اور دروازوں کے سارے شیشے سلامت اور صاف تھے۔ مگر یہ گندگی کا قضیہ نہیں تھا۔ اگر ایسا سوال اٹھتا تو دلی والے کے کمرے کے سامنے کوریڈور میں سب سے زیادہ گندگی بکھری رہتی تھی، بلکہ ساری بلڈنگ ہی گندگی کی پوٹ تھی۔ گراؤنڈ فلور پر ’’فینسی شو میکرز‘‘ کے ہاں سے پھینکی ہوئی چمڑے کی کترنیں فٹ پاتھ پر بکھری رہتیں، دوسری منزل کی بوہرہ خاتون جھینگا مچھلی کی ٹانگیں اور مونچھیں نوچ کر ہمیشہ زینہ پر پھینک آتیں، اور ان کے پڑوس میں رہنے والے مسٹر ڈگلس وائلن کی مشق کرتے کرتے کھانستے تو ہمیشہ دوڑ کر بوہرہ خاتون کے دروازے پر تھوکتے۔ پھر تو شاید تیسری منزل کی بھولی بھالی میمن زینب بائی بھی اس چکر میں آجاتی جو ایک اچھی پڑوسن تھی، لیکن اپنے بچے کا پاخانہ کاغذ میں لپیٹ کر ڈورتھی کے گھر کے سامنے پڑے ہوئے کوڑے کے ڈبے میں چپکے سے ڈال دیا کرتی تھی۔

’’فوہ۔۔۔ لوگ کا دماغ پھریلا ہے، اپنا کام نہیں کرتا۔‘‘ حلیمہ بائی نے رابعہ بائی بلڈنگ کے رخ پر کھلنے والی کھڑکی کا پردہ گھسیٹ دیا۔ اور بیٹھ کر اپنے سیاہ دوپٹے پر فیتہ ٹانکنے لگیں۔ حلیمہ بائی کا کہنا ٹھیک تھا کہ لوگ اپنے کام سے کام رکھیں۔ مگر رابعہ بلڈنگ کے مکینوں میں سوائے مس ڈور تھی پریرا کے کوئی ایسا نہ تھا جسے صرف اپنے آپ سے مطلب ہو۔ یہاں مختلف جگہوں سے آئے ہوئے لوگ رہتے تھے۔ اس لیے ہر شحص خود کو بھول کر دوسرے کو کھوجنے کی فکرمیں رہتا۔۔۔ لیکن مس ڈور تھی پریرا اپنے آپ میں اتنی مست رہتی کہ لوگوں کے لیے پراسرار حد تک دلکش بن گئی۔۔۔ مرد اس پر عاشق تھے اور عورتیں حاسد۔ بلڈنگ کی سب عورتیں ڈور تھی کی چال ڈھال اور لباس کی نقل کرتیں۔

وہ عموماً دن بھر اپنے گھر میں رہتی۔ ٹیلکم پوڈر میں بسی بڑے بڑے پھولوں والے پرانے جاپانی کمونو میں ملبوس لکڑی کی جاپانی کھڑاؤں پر وہ یوں چلتی جیسے سمندری لہروں پر کوئی بادبانی ڈونگا، جانے یہ جاپانی کھڑاؤں کے تلے کی تراش کی وجہ سے تھا یا کیا، بہرحال یہ چال غیرمعمولی تھی، جسے اس کی پڑوس کے دلی والے کی جوان ہوتی ہوئی بیٹی بہت غور سے دیکھتی اور اپنی اماں رضیہ بیگم کو یہ کہنے پر مجبور کر دیتی کہ ’’اے بی اس کا مٹکنا کیا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رئی ہو۔۔۔ اس سے تو پردہ جائز ہے۔۔۔‘‘ مگر مس ڈور تھی کو کسی پردے وردے کا خاک خیال آتا۔۔۔ وہ صبح صبح اٹھ کر کوریڈور سےاپنے ملازم چھوکرے کو اٹھاتی اور پھر نہ صرف اپنے فلیٹ کی صفائی آپ کرتی بلکہ اپنے سامنے چھوکرے سے کوریڈور کی بھی خبرلوا ڈالتی۔۔۔ اس بلڈنگ کی بھنگن تو ایسی کام چور تھی کہ فلش بھی ٹھیک طرح دھو کر نہ جاتی کجا کوریڈور کی صفائی۔۔۔؟ رضیہ بیگم اس صفائی پر برا مانتیں، کیونکہ انہیں یقین تھا کہ یہ سب اپنے یاروں کی وجہ سے ہوتا ہے۔

حالانکہ ڈور تھی کی دوسری پڑوسن میمن زینب بائی کا کہنا تھا کہ اگر مس ڈورتھی کے ہاں آنے والے اس کے یار ہوتے تو کبھی رات کو تو رکتے۔۔۔؟ ’’دن کو جو آتے ہیں؟ اے بی یہ بھی کوئی بہو بیٹی ہے کہ رات کے اندھیارے میں میاں کی صورت دیکھے نئیں تو حرام سمجھے۔۔۔‘‘ رضیہ بیگم منطق چھانٹتیں، اور زینب بائی جھلاکر چپ ہوجاتیں۔ اب اس بات پر کیا بخشنا، یہ تو ساری بلڈنگ والے جانتے تھے کہ مس ڈورتھی کے گھر جہاں کبھی کوئی مرد آیا تو کمرے کا دروازہ پاٹوں پاٹ کھلا نظر آنے لگا۔۔۔ دروازہ بند ہو تو سمجھو ڈورتھی گھر میں اکیلی ہے۔ اور جب وہ اکیلی ہوتی تو اس کی پڑوسنوں کو خبر ہوتی کہ وہ یا تو سو رہی ہوگی یا ناچ کی مشق کر رہی ہوگی۔

رابعہ بائی بلڈنگ میں آنے کے بعد شروع شروع میں مس ڈورتھی ناچ والی بات کو یہاں کے رہنے والوں سے چھپاتی مگر جب اس کے ڈرائنگ روم کے چھت تلے رہنےوالی بوہرہ عورت نے اوپر کی بےتحاشہ کھٹ کھٹ کی شکایت کرنی شروع کی تو مس ڈورتھی نے صاف کہہ دیا کہ ناچ اس کی زندگی ہے۔ وہ ناچے گی اور ضرور ناچے گی۔ نہیں ناچے گی تو زندہ کیسے رہے گی۔۔۔؟ جب جھگڑا بڑھا تو بوہرہ عورت کے پڑوسی مسٹر ڈگلس وائلن والے نے اس سے اپنا کمرہ بدل لیا۔۔۔ اس لیے اب مس ڈورتھی اوپر ناچتی تو نیچے مسٹر ڈگلس اپنے وائلن پر ناچ کے مطابق دھن بجایا کرتا۔ بڈھا ڈگلس جس کے سفید کوٹ پر ہر دوسرے تیسرے مہینے کالے رنگ کی ماتمی چٹ سلی ہوتی۔۔۔ اور جو کام کی تلاش میں عموماً بے کار رہتا تھا۔۔۔ مگر مس ڈورتھی ڈگلس سے بھی کوئی واسطہ سوائے ’’ہلو‘‘ کے نہ رکھتی۔۔۔ ہاں سال میں ایک بار کرسمس کے موقعے پروہ اسے ضرور اپنے ہاں لنچ پر بلاتی۔ یہ اور بات ہے کہ دوسری منزل پر رہنے والے نوجوان بابو نے ڈورتھی کے ملازم چھوکرے کے ہاتھ سے چٹیں لے کر کئی بار پڑھیں جس میں ڈگلس کو مخاطب کرکے لکھا ہوتا کہ ’’فلاں ہوٹل میں یا فلاں فلم کمپنی میں وائلن بجانے والے کی ضرورت ہے۔ فوراً پہنچو۔ شاید کام بن جائے۔۔۔‘‘

ان چٹوں کی وجہ سے بہاری نوجوان بابو ڈگلس کو ہمیشہ مشکوک نظروں سے دیکھتا، اور راتوں کو ڈگلس کے دروازے پر کان لگائے رکھتا کہ اب بڈھا چپکے سے تیسری منزل پر جانے کے لیے نکلے گا۔۔۔ لیکن جب دوسرے دن وہ دفتر جانے کے خیال سے جلدی سے ہڑبڑا کر اٹھتا تو بڈھے ڈگلس کا دروازہ بند دیکھ کر اس کا کلیجہ مسلنے لگتا۔۔۔ دیکھا ابھی تک سو رہا ہے۔ رات جاگا ہوگا نا۔۔۔! اسی چکر میں ایک رات یہ بابو صاحب ڈورتھی کے کمرے پر پہنچے۔۔۔ رات کے سناٹے میں ان کے ہولے سے کھٹکھٹانے پر ایک دم دروازہ کھلا اور پھر ڈورتھی نے زور زور سے بولنا شروع کر دیا، ’’ہم تمہارے کو پولیس میں دیں گا۔۔۔ بولو تم ہم کو کیا سمجھا۔۔۔‘‘ ڈورتھی کے ہاتھ میں بابو کی ٹائی تھی۔ بڑی مشکل سے دلی والے اور میمن دکاندار نے اس کو چھڑوایا تھا۔

دلی والی رضیہ خانم نے اس قصے کے بعد سینہ ٹھونک کر رابعہ بائی بلڈنگ میں منعقد ہونے والی محفل میلاد میں دعوی کیا کہ، ’’اے بی، ہمارے میاں نے جو عورت بولٹن مارکیٹ میں کر رکھی ہے، اس نے ایک دن ایسا ہی شور کیا تھا۔ اس پر ہمارے میاں کو اس کا یقین آ گیا اور نکاح کر بیٹھے۔ سمجھو اب یہ مس ڈورتھی بھی کہیں ہاتھ مارے گی۔۔۔ اے ایک چھٹی ہوئی۔۔۔ ممبئی والی ہے۔‘‘ ممبئی کی زینب بائی بے وجہ ہی برا مان کر بولیں، ’’مس ڈورتھی ممبئی کا کدھر ہے، وہ تو گوا کا ہے۔‘‘

مس ڈورتھی گوا کی تھی،یہ بات اس نے کب چھپائی تھی۔ وہ تو کئی بار کوریڈور میں کھڑے کھڑے زینب بائی اور رضیہ بیگم کے سامنے بتا چکی تھی کہ وہ جب چھوٹی سی تھی تو گوا سے اپنی ماں کے ساتھ ممبئی آئی تھی اور ممبئی اسے بہت پسند تھا۔۔۔ بہت زیادہ۔ ’’ادھر ہم اسکول پڑھا، ادھر ہمارا مدر ایک بوہت بڑا سیٹھ کے بچون کا گورنس تھا۔‘‘ اس بیان پر ڈورتھی دیوار سے ٹک جایا کرتی اور اس کی آنکھیں دور دیکھتیں۔

’’گورنر تھی تمہاری ماں؟‘‘ ایک بار رضیہ بیگم نے جل کر پوچھا۔

’’گورنس مطلب بچوں کا دیکھ بھال کرنے والا۔ اس کو گورنس بولتا انگلش میں۔‘‘ ڈورتھی نے نرمی سے سمجھایا۔

’’آیا سمجھو۔‘‘ رضیہ بیگم نے قصہ مختصر کیا تو ڈورتھی اپنے جاپانی کھڑاؤں پر کھٹ کھٹ ڈولتی پنے کمرے میں چلی گئی تھی۔ اس کے پیچھے زینب بائی اپنے بچے کو گود میں اٹھائے پہنچ گئی تھیں۔ کیونکہ اس وقت مس ڈورتھی ان کے بچے کو ٹافی کا پیکٹ دینے کے بعد بعد ہی تو اپنے بچپن اور اپنی ماں کا ذکر کرنے لگی تھی۔۔۔

اس دن وہ کتنی دیر تک زینب بائی کو اپنے بارے میں بتاتی رہی تھی۔

’’ادھر بمبئی میں ہمارا کتنا کام تھا۔ ادھر ہم بال روم ڈانسنگ سیکھا۔۔۔ ڈانسنگ اسکول کا مالک ہم کو دوسرا چھوکرا لوگ کا پارٹنر بننے کا کتنا بہت روپیہ روز کا دیتا تھاپر ہم کو روپیہ کا لالچ نئیں، ہم کو ناچ کا شوق تھا۔۔۔ ادھر سب ہم کو بولتا تم لوریٹاینگ کی مافق ہے۔ تم کو فلم میں کام کرنا مانگتا۔۔۔ مگر ادھر کا فلم والا ہمارا بیوٹی کو نہیں سمجھا۔ فیر لوگ ہم کو بولا تم ہالی وڈ جانا مانگتا پن ہمارے کو اتنا کرایہ نہیں جڑا۔۔۔ فیر ادھر بمبئی میں ایک اسسٹنٹ ڈائرکٹر تھا، بڑا حرامی سب کا قرض کھا گیا۔ ہم سے بھی قرض لیا۔ ہم مانگا تو بولا ہمارے سنگ پاکستان چلیں گا تو ادھر کام بنیں گا۔ ادھر ڈائرکٹر بھی مانگتا اور ہیروئن بھی۔۔۔ فیر (پھر) ہم ادھر کراچی آگیا۔۔۔ ادھر کا فلم والا بھی ہمارا بیوٹی کو نہیں سمجھا۔۔۔ تو لوریٹاینگ کو دیکھا ہے بائی ’’گارڈن آف اللہ‘والی؟‘‘ وہ اپنی داستان کہتے کہتے زینب سے پوچھنے لگی۔ مگر زینب بائی نےکبھی کوئی انگریزی فلم نہیں دیکھی تھی وہ مایوس ہوگئی، وہ اکثر مایوس ہو جایا کرتی تھی۔۔۔

’’ادھر کا چھوکرا لوگ بھی لوریٹاینگ کو نہیں دیکھا۔‘‘ اس نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا تھا۔ اور پھر اپنے سنہرے بالوں میں سے پنیں کھول دیں۔ ایک دم اس کے سانولے چہرے کے گرد سنہرے ریشمی بال دھوپ میں گرتے ہوئے آبشار کی طرح پھیل گئے۔۔۔

مگر مسٹر ڈگلس نے لوریٹاینگ کی فلمیں دیکھی تھیں اور بمبئی میں ڈورتھی پریرا کو بھی دیکھا تھا۔ ’’نمبر ون پاپولر ڈانسر تھی۔۔۔ اس کی ماں سیٹھ کے بچوں کو رکھتی اور یہ اسکول میں پڑھتی۔ پھر ایک دن اس کی ماں سیٹھ کے مکان میں بہت چیخی کہ سیٹھ نےمیری بچی کو اپنے کمرے میں رکھ لیا ہے۔۔۔ میں نے اس کی ماں کو بہت سمجھایا۔ چپ رہو۔ پھر وہ چپ ہوگئی۔۔۔ اور ڈورتھی ہوا سے باتیں کرنے لگی۔۔۔ میں ان دنوں سیٹھ کے ایک بیٹے کو وائلن سکھاتا تھا۔۔۔ چھوٹی سی گڑیا سی لڑکی تھی۔۔۔ اب انکل سے بولتی بھی نہیں۔۔۔ پرچے لکھتی ہے۔۔۔‘‘ مسٹر ڈگلس اپنے مرجانے والے عزیزوں کی تصویروں کے سامنے بیٹھا ڈورتھی کے ہاتھ سے لکھے ہوئے پرزوں کو دیکھ کر تنہائی میں بڑبڑایا کرتا۔۔۔ اس کی ایک بیٹی لکھنؤ میں تھی اور اس نے کسی سکھ سے شادی کر رکھی تھی۔

’’میں اگر لکھنؤ میں ہوتا تو ایسا ہو سکتا تھا؟‘‘ مسٹر ڈگلس ’’فینسی شو میکرز‘‘ کے مالک حنیف سے بات کرتےہوئے کہا کرتا، ’’انسان کو اپنےمذہب میں ہی شادی کرنا چاہیے۔‘‘

’’بے شک۔۔۔ بے شک۔۔۔‘‘ حنیف نہایت یقین سے کہتا۔

’’لیکن غیر مذہب والی سے عشق میں کیا ہرج ہے۔۔۔‘‘ حنیف جی ہی جی میں اپنے آپ کو قائل کرتا۔۔۔ کیونکہ وہ اس دن سےڈورتھی پریرا پر باقاعدہ مرنے لگا تھا جب سے ڈورتھی اس کی فیکٹری میں موٹر سے اتر کر اچانک آگئی تھی۔۔۔ حنیف اور سارے کاریگر ڈورتھی کو دیکھ کر ایسے بوکھلائے تھے کہ صف بستہ کھڑے ہوگئے۔۔۔ ایک تو ڈورتھی، اس پر سے موٹر سے اتری ہوئی۔ اور پھر وہ بول بھی رہی تھی، ’’دیکھو ہم ایسا مافق گولڈن سینڈل مانگتا۔ ادھر بازار میں نہیں ملیں گا۔۔۔‘‘ ڈورتھی نے اپنے بٹوے سے ماریلین منرو کی نیم برہنہ تصویر نکالی اور ایک کاریگر کی طرف بڑھادی۔۔۔ سینڈل منرو کے پاؤں میں تھی۔

’’میں پروپرائٹر ہوں۔‘‘ حنیف نے بمشکل آواز نکالی تھی۔ اس کے بعد چند لمحے میں قیمت طے ہوئی اور ڈورتھی اپنی مخصوص مترنم کھٹ کھٹ کرتی رابعہ بائی بلڈنگ کا زینہ چڑھ گئی تھی۔۔۔ لیکن حنیف کی روح ڈورتھی کے ساتھ ساتھ کھنچی چلی گئی۔۔۔ حنیف نےکبھی تیسری منزل پر قدم نہیں رکھا تھا۔ حالانکہ دلی والے صاحب کئی بار کہہ چکے تھے کہ میاں دلی لکھنؤ کی لڑائی بند، اب تو کراچی ہی سب کچھ ہے۔ کسی دن ہمارے ہاں آؤ تمہاری خالہ تمہاری بہت تعریف کرتی ہیں کہ بڑا شریف بچہ ہے، کبھی کسی کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ لیکن حنیف کو اپنے کام سے فرصت ہی کب ملتی۔ دوسرے رضیہ بیگم (تمہاری خالہ) اپنی نوجوان بیٹی کے ساتھ اتنی بار برقعہ الٹ الٹ کر اس سے اپنی بیٹی کی سینڈل بنانے کو کہہ چکی تھیں کہ حنیف کو ان سے ڈر لگنے لگا تھا۔۔۔ آخر وہ انہیں اتنی بار بتا چکا تھا کہ وہ پرائیویٹ آرڈر نہیں لیتا۔ اس کے بنے ہوئے جوتے لینا ہیں تو دکان سے جا کر لو۔۔۔ ہمیں کوئی موچی مقرر کیا ہے؟

مگر اس دن اس کا جی بے ساختہ چاہا تھا کہ رضیہ بیگم کے گھر ہی چلا جائے، آخر تو وہ گھر بھی تیسری منزل پر ہی ہے۔۔۔ تیسری منزل جہاں ڈورتھی پریرا رہتی تھی۔ جس کے گھر کی سجاوٹ اور صفائی کے بڑے چرچے تھے۔۔۔ جو موٹروں میں بیٹھ کر آتی جاتی تھی۔۔۔ موٹریں جو اس کی نہیں تھیں، بلکہ زینب بائی کی زبانی یہ روایت عام تھی کہ یہ موٹریں فلم کمپنیوں کی ہیں۔ جہاں ڈورتھی ہیروئنوں کو ناچ سکھانے جاتی ہے۔ اور خود بھی فلموں میں ناچتی ہے۔۔۔ یہ کون سی فلمیں تھیں، ان کا نام کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔ ایک بار حنیف نے کراچی کی ایک فلم کے گروپ ڈانس میں ڈور تھی کی سی جھلک دیکھی تھی اور وہ اپنے ساتھ کے لڑکے کو بتانے ہی لگا تھا کہ وہ غائب ہو گئی۔

’’سنا ہے یار ہزاروں لیتی ہے۔۔۔‘‘ اس کے ساتھ کے لڑکے نے مرعوب ہو کر کہا تھا، ’’ویسے اپنا یار کلو خان کہہ رہا تھا کہ ہوٹلوں میں لونڈوں کے ساتھ ناچتی ہے۔ اس کے بھی بڑے پیسے ملتے ہوں گے۔۔۔؟ کوئی یہ بھی کہتا ہے کہ ناچنا تو بہانہ ہے کماتی ہے۔۔۔‘‘ حنیف کا ساتھی لڑکا اطلاعات پر اطلاعات بہم پہنچاتا رہا۔ اسے خبر نہ تھی کہ حنیف تو جانے کب سے ڈورتھی کا مداح تھا۔ اگر تیسری منزل پر دوسری منزل کے بابو صاحب کی بے عزتی کا قصہ نہ ہوتا تو حنیف کب کا اظہار عشق کر چکا ہوتا۔

’’یار پتہ نہیں چلتا لوگوں کا۔۔۔ کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ۔۔۔‘‘ حنیف جب جوتے بنانے والے کاریگروں سے ڈورتھی کے بارے میں مختلف قسم کی باتیں سنتا تو اکتا کر کہا کرتا تھا۔۔۔ لیکن جب حنیف نے اپنے اصول کے خلاف مس ڈورتھی کے دیے ہوئے نمونے کی سینڈل خود بیٹھ کر بنانا شروع کردی تو استاد کاریگر بندو معنی خیز ہنسی ہنس کر بولے تھے، ’’کیوں میاں کانٹے میں سینڈل کا چارہ لگاریئے او۔۔۔‘‘

اور سچ یہ سینڈل چارہ بن گئی۔ یہ بھی اتفاق تھا کہ حنیف اس رات سنہری سینڈل کی کتر بیونت میں پھنسا رہا اور میر کلو لکھنوی کے تنور پر دیر سے پہنچا، کھانا ختم ہو چکا تھا۔ صرف چنے کی دال گوشت کی ایک رکابی بچی پڑی تھی۔۔۔ وہ کھا کر اپنی شو فیکٹری میں بستر بچھا کر لیٹا تو مس ڈورتھی کی دی ہوئی ماریلین منرو کی تصویر، سینڈل کا نمونہ ذہن میں اتارنے کو پکڑ لی۔ بس پھر اس نے اتنی رات گئے تک ڈورتھی کی پسندیدہ سینڈل دیکھی کہ وہ پوری ٹانگ ہی اسے ڈورتھی کی ٹانگ لگنے لگی۔۔۔ اس گڑبڑ میں ہاضمہ بگڑ گیا۔۔۔ صبح صبح اپنے گراؤنڈ فلور کے مشترکہ غسل خانے کی طرف بھاگا۔۔۔ غسل خانہ اندر سے بند پا کر دوسری منزل پر مشترکہ چیزوں کو گالیاں دیتا گیا۔۔۔

مسٹر ڈگلس اسے دیکھ کر باتیں کرنے کے موڈ میں آنےلگے تو وہ ہاتھ سے اشارہ کرتا غسل خانے کی طرف چلا گیا مگر ایک فلش خراب تھا اور گندگی کے سمندر میں تیر رہا تھا اور دوسرا بند۔۔۔ تیسری منزل پر ایسی کیفیت میں جانے کا تصور اس کے ذہن میں کیسے آ سکتا تھا مگر وہ بے سوچے سمجھے تیسری منزل پر تھا۔۔۔ جونہی اس نے دروازے کے ہینڈل کو ہاتھ مارا۔۔۔ اندر سےچٹخنی کھلی اور وہ باہر نکلتی ہوئی مس ڈورتھی پریرا سے ٹکرا گیا۔۔۔ مس ڈورتھی کے منہ سے آدھی سلگی ہوئی سگریٹ اس کے جاپانی کمونو پر سے ہوتی زمین پر گری اور المونیم کا مگ دروازے سے ٹکرا کر بجا۔

’’ہلو!‘‘ ڈورتھی کے منہ سے گھبرا کر نکلا لیکن وہ غسل خانے میں بند ہوگیا۔۔۔ غسل خانے کی عجیب سی بو اور سگریٹ کا دھواں۔ ’’یہ مشترکہ چیزیں بھی خوب ہوتی ہیں۔‘‘ حنیف کے ذہن میں بجلی کے کوندے کی طرح خیال آیا۔ اس کے ہوش ٹھکانے آئے تو وہ عجیب سی کیفیت میں ہنس پڑا۔۔۔ کچھ حیرت کچھ مایوسی اور کچھ ہمدردی کی سی کیفیت۔ مس ڈورتھی کو اسے یہاں ملنا چاہیے تھا یا نہیں۔۔۔ یہ الگ بات ہے۔ مگر حنیف ڈورتھی سے کئی بار کہہ چکا ہے کہ سسرے فلم اور ناول والے ناحق ہیرو ہیروئن کو ملانے کے لیے سمندر، باغ اور موٹریں ڈھونڈتے ہیں۔ تب ڈورتھی اسے انگریزی میں گالیاں دینے لگتی ہے۔

ہاں تو حنیف نے وعدے کے مطابق اس شام سینڈل تیار کروا لی۔ صبح کے واقعہ کے بعد جانے کیوں وہ خود اس سینڈل کو ہاتھ نہ لگا سکا۔۔۔ اللہ جانے یہ محبوب لوگ انسان کے ذہن میں کیا بن کر گھستے ہیں کہ بعد میں صدمے پر صدمہ ہی اٹھانا پڑتا ہے! اگر اس شام حنیف سینڈل کا ڈبہ اٹھائے تیسری منزل پر نہ جاتا تو قصہ یہیں ختم ہو جاتا۔ حنیف پہنچا تو ڈورتھی کے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔۔۔ نیلی روشنی میں ہر چیز نرم نرم اور خواب ناک نظر آرہی تھی۔ گلابی گرہ لگے پردے، نیلی دری، سرخ سوتی قالین، گدے دار کرسیاں اور کاغذی پھول۔۔۔ اور گدے دار کرسی میں دھنسا ہوا گدیلے جیسا ایک آدمی۔۔۔ حنیف کو ایک دم یاد آیا کہ نیچے ایک موٹر کھڑی ہے۔ اور اسے اپنے پاؤں میں پڑا ہوا جوتا پنجے دباتا محسوس ہونے لگا۔

دوسرے لمحے ڈورتھی گولڈن سینڈل پہنے یہ دیکھ رہی تھی کہ کاٹتی تو نہیں۔ اس وقت اس کے جسم پر سیاہ کامدانی کی ساری تھی۔ حنیف کو اس کے پنوں سے کٹے ہوئے سنہری بال، سیدھی مانگ اور سانولے چہرے کے ساتھ عجیب سے لگے۔

’’بیوٹی فل چوائس۔‘‘ موٹا اسےخواب ناک نظروں سے دیکھ کر بولا۔

’’کیا قیمت ہے؟‘‘ پھر وہ حنیف سے مخاطب ہوا تھا۔

’’کس کی؟‘‘ حنیف نے طنزاً پوچھا۔

’’چالیس روپے ڈیر۔۔۔‘‘ ڈورتھی نے اپنا بٹوا کھولتے ہوئے جواب دیا۔ اور موٹے نے دس دس کے پانچ نوٹ حنیف کی طرف بڑھا دیے۔

’’سب رکھ لو انعام ہے۔۔۔‘‘ موٹے نے کہا اور حنیف کے پیروں تلے جیسے اسپرنگ آگئے۔۔۔ وہ اچھلا اور اس نے موٹے کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیا۔۔۔ ڈورتھی نئی سینڈل کی ایڑیوں پر توازن کھونے لگی۔

’’کیا سمجھا ہے ہم تیرے نوکر ہیں بھڑوے؟‘‘ حنیف چیخا۔۔۔ اور ساری خواب ناک فضا بدل گئی۔۔۔ موٹا گردن نکال کر ہاتھ اٹھانے لگا۔

’’آئی ایم ویری سوری۔۔۔ مسٹر۔۔۔ پلیز۔۔۔ پلیز۔۔۔‘‘ ڈورتھی دونوں کے بیچ میں آگئی اور اس نے ایک دم حنیف کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ دوسرے لمحے حنیف تیسری منزل سے اتر رہا تھا۔۔۔ ہتک کے احساس سے تلملایا ہوا۔ اس نے فٹ پاتھ پر بکھری چمڑے کی رنگین کترنوں پر سے گزرتے ہوئے اس موٹر کو دیکھا جس میں بیٹھ کر ڈورتھی اس موٹے کے ساتھ جانے والی تھی۔۔۔ اس نے اپنی بندھی ہوئی مٹھی کالی موٹر پر ماری اور پھر آگے بڑھ کر مٹھی پر لگی ہوئی گرد کی تہہ کو پھونک مار کر اڑا دیا۔

’’سالے نے ہمیں موچی سمجھا، ایسا ٹھونکتا کہ بیٹا کو چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا۔ وہ اگر بیچ میں نہ آجاتی تو۔۔۔؟‘‘ حنیف ایرانی کے ہوٹل کی طرف جاتے ہوئے دانت کٹکٹا رہا تھا۔

’’اماں حنیف تمہیں بے وقوف ہو۔ خوامخواہ نواب میرزا اغن صاحب کی مثال سامنے رکھ کر یہ جوتے سازی شروع کردی۔۔۔ بہت کہا کرتے تھے کہ موتی موتی رہے گالو اب موتی جوتیوں میں ٹانک لو۔۔۔ یہاں کرانچی میں تمہیں کوئی کیا جانے کہ باوا خاندانی تھے۔۔۔ میاں پڑھ لیتے تو باوا کی طرح دفتر کے سپرنٹنڈنٹ ہوتے۔۔۔ نویں پاس کرکے دسویں کرنے میں کون سے پہاڑ ڈھونا پڑتے؟‘‘

لیکن جب حنیف رات کو کئی گھنٹے ایرانی کے ہوٹل میں بیٹھ کر اپنی فیکٹری کو خواب گاہ بنانے لوٹا تو وہ اپنے آپ کو سمجھا چکا تھا، ’’ہونہہ بڑے بڑے لوگ آج کل قسم قسم کے کاروبار کرتے ہیں۔ وہ اپنے سید صاحب کھالوں کا کاروبار نہیں کرتے؟‘‘ پھر اس نے باہر نکل کر اپنے کمرے پر لگا ہوا بورڈ پڑھا ’’فینسی شو میکرز‘‘ اور اس سے اسے بہت تسلی ہوئی۔ شکر ہے کہ ملک میں ایک ایسی زبان موجود ہے۔۔۔ جس میں برے سے برا مفہوم بھی کچھ بھلا لگنےلگتا ہے۔۔۔ اگر اس جگہ فصیح اردو میں لکھا ہوتا ’’عمدہ جوتے بنانےوالےموچی‘‘ تو جی پر کیا گزرتی۔ تب اس نے لات مار کر اپنا لپٹا ہوا بستر کھسکایا اور اس پر ایسے تکلف سے بیٹھ گیا جیسے کسی ڈرائنگ روم کے صوفے پر ٹکا ہو۔

’’پروپرائیٹر فینسی شومیکرز‘‘ اس نے زیر لب دہرایا اور دیوار کی طرف یوں دیکھنے لگا جیسے ڈورتھی اس کے سامنے ہو۔ ’’آپ کی تعریف؟‘‘

’’مس ڈورتھی مگ والی۔۔۔‘‘ اس کے ذہن میں ایک دم ابھرا اور وہ منتقمانہ انداز سے ہنس کر اپنے جوتے اتارنے لگا۔۔۔ اور پھر کپڑے۔۔۔ وہ اس وقت اتنا پر اعتماد تھا کہ ڈورتھی سچ مچ اس کے سامنے ہوتی تو وہ ذرا نہ کانپتا۔۔۔

لیکن ڈورتھی اس وقت آئی جب حنیف سوتے ہوئے خواب دیکھ رہا تھا کہ اس کی بیوی اور ماں آگئی ہیں۔۔۔ کراچی میں اسے بغیر پگڑی دیے اپنے کارخانے کے قریب ہی ایک کمرہ مل گیا ہے۔۔۔ بیوی اور ماں جو لکھنو سے آکر ابھی تک اس کے ماموں کے ہاں راولپنڈی میں پڑی کراچی پہنچنے کے لیے دن گن رہی تھیں۔ اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی پاس بیٹھی ہے، وہ چومنا چاہتا ہے تو شرما کر سر ادھر ادھر کر لیتی ہے۔۔۔ ہاتھ جھٹک دیتی ہے۔۔۔ تب اس کی آنکھ کھل گئی۔ کمرے میں بدستور روشنی تھی اور ڈورتھی اس کا ہاتھ پکڑ کر ہلا رہی تھی۔۔۔

’’ہم ادھر اکھا ٹائم (پورے وقت) پریشان ہوا۔۔۔ آئی ایم ویری سوری۔۔۔ وہ تمہارا انسلٹ کیا۔ ہم کو بہت گسہ ہوا۔ تم اپنا چالیس روپیہ ہمارا فلیٹ میں چھوڑ آیا تھا۔۔۔ یہ لو مسٹر۔۔۔‘‘ ڈورتھی الگ کھڑی جانے اور کیا کیا کہے جارہی تھی۔ اس کے سنہرے بال پنوں کی قید سے کہیں کہیں آزاد ہو کر لمبے ہونے کی چغلی کھا رہے تھے۔ ہونٹ خشک اور آنکھوں میں نیند کے ساتھ ہمدردی کی آنچ آتی ہوئی۔۔۔ حنیف کو لگا کہ ابھی تک وہ خواب دیکھ رہا ہے۔

’’تم اب ناراض نئیں ہوئیں گا۔ ہمارے کو لوگ کا دل ہرٹ (دکھانا) نئیں مانگتا۔ ام ادھر کسی کا روم میں کبھی نئیں گیا، پن ہم سوچا ادھر ضرور آئے گا۔ کسی کو مت بولنا۔۔۔ ہم کسی کا انسلٹ نہیں مانگتا اس کا واسطے ہم ادھر کو سوری بولنے آیا۔۔۔ اپنا پیسہ لو۔۔۔‘‘

اور جانے کیسے حنیف کا چکراتا ہوا سر گھٹنے پر آگیا۔۔۔ ایک بار پھر اسے اپنی بے عزتی کا واقعہ جی مسوستا لگا۔۔۔ یا پھر جانے کیا بات تھی۔ وہ رونا چاہتا تھا، رو پڑا۔ ڈورتھی تڑپ کر اس کے قریب آگئی۔۔۔ اس نے جھک کر اس کے گال پر بوسہ دیا، ’’نئیں روئیں گا۔۔۔ نئیں۔۔۔‘‘ ڈورتھی بول رہی تھی۔ مگر حنیف کے اندر دھم سے لاوا پھٹ پڑا۔۔۔ ڈورتھی اس کے کمرے میں تھی۔ اس لیے پولیس کو بلانے کی دھمکی نہ دے سکی۔

’’آئی لو یو۔۔۔ مس ڈورتھی۔ آئی لو یو۔۔۔‘‘ جد و جہد کرتی ہوئی ڈورتھی کو لپٹانے کی کوشش میں حنیف کے منہ سے انگریزی کا یہ فقرہ بار بار ٹپک پڑتا۔۔۔ آخر ڈورتھی نے ہار کر جیسے خود حفاظتی کے لیے چاقو کا پھل چمکایا۔

’’تب تم چالیں سینڈل کا چھوڑیں گا اور دس اور دیں گا۔۔۔‘‘

رابعہ ہائی بلڈنگ کے مکینوں کو اس رات کے سودے کی خبر نہ ہوئی تو کیا ہوا۔۔۔ بعد میں جو سودے ہوئے ان کا تو رضیہ بیگم کو رتی رتی علم تھا۔ ڈورتھی کے پیروں میں جو روز نئے نئے سینڈل ہوتے وہ کہیں چھت سے تو نہ گرتے۔ ظاہر ہے کہ نیچے سے آتے۔۔۔ اور وہ جو روز صبح ڈورتھی کا چھوکرا سلیقے سے لگی ہوئی چائے کی ٹرے لے کر نیچے جاتا اور نیچے سے قورمے چپاتی کی ٹرے لاتا وہ محض کاروبار تو نہ تھا۔۔۔ رضیہ بیگم سینہ ٹھونک کر کہتیں، ’’ایسی عورتیں مرد سے چائے بنوا کر پیتی ہیں۔ اے بی جب وہ مرد کو چائے بنا کر بھیجنے لگیں تو سمجھ لو کم بخت کی جان کو چمٹیں۔۔۔‘‘

رضیہ بیگم کی یہ تھیوری کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا۔۔۔ بے شک حنیف کئی بار تیسری منزل پر ڈورتھی کے ہاں آیا تھا۔۔۔ مگر بیٹھا کھلے دروازے کے سامنے۔۔۔ رضیہ بیگم منہ پر دوپٹے کی آڑ کیے کئی بار ایسے موقع پر غسل خانے جانے کے بہانے ادھر جھانکیں۔۔۔ لیکن کسی قابل اعتراض نظارے سے محروم رہیں۔۔۔ پھر بھی انہیں یہ غم تھا کہ حنیف جیسا بھلا آدمی خراب ہو کر رہے گا۔ اور دیکھنے والے دیکھتے کہ حنیف کے خراب ہونے میں کسر بھی کیا رہ گئی تھی۔ یا تو تمام دن اپنے کاریگروں میں گھرا آپ بھی رنگین چمڑے کی پتلی پتلی چٹیں مشین پر سیا کرتا یا چلتے پھرتے انہیں چٹوں کی چوٹیاں سی گوندھتا رہتا۔

اب استاد بندو کاریگر رابعہ بائی بلڈنگ کے ہر مکین سے حنیف کے کاروباری مستقبل کی تباہی کی پیشین گوئی کرتے رہتے۔۔۔ واقعی وہ تو یکسر بدل گیا تھا۔ جانے ڈورتھی اسے چائے میں کیا الو کی دم گھول کر بھیجتی تھی۔۔۔ جب دیکھو جب تیسری منزل پر دھمادھم چڑھتا، سوٹ ڈالے ہاتھ میں ٹائی پکڑے چلا آ رہا ہے۔ ڈورتھی اسے روز ٹائی باندھنا سکھاتی لیکن وہ روز بھول جاتا اور پھر ڈورتھی سے بندھواتا۔۔۔ وہ دونوں کبھی کبھی رکشا میں بیٹھ کر باہر بھی جانے لگے۔۔۔ مگر ڈورتھی رات کو تو اکثر اکیلی ہی فلم کمپنی کو جاتی۔۔۔ ایسی صبح حنیف ڈورتھی کی بھیجی ہوئی چائے واپس کر دیتا۔

’’فلم کمپنی کو تو جانا ہی مانگتا۔۔۔ حنیف بہت گلتی کرتا (غلطی) تم بولو بائی ہم ناچےگا نہیں تو مرجائیں گا۔۔۔ تم جانتا بائی ہم کو ناچ کا بہت شوق ہینگا۔۔۔‘‘ ڈورتھی چائے واپس آنے پر اداس ہو کر زینب بائی سے شکایت کرتی۔۔۔ اور پھر کواڑے بند کر کے اپنی صبح صبح کی مشق شروع کردیتی۔۔۔ اس کا دیوانوں کی طرح مست ہوکر ناچنا زینب بائی تک کو بھلا لگتا۔۔۔ اس پر سے دوسری منزل کے مسٹر ڈگلس کا وائلن جیسے پکارنے لگتا۔ ڈورتھی ناچ رہی ہے۔۔۔! ڈورتھی ناچ رہی ہے۔۔۔!! اس اطلاع پر حنیف کے گلے شکوے مٹ جاتے اور زینب بائی دیکھتیں کہ حنیف دروازے میں کھڑا ڈورتھی کو یوں دیکھ رہا ہےجیسے اس پر مسمریزم کیا گیا ہو۔

ڈورتھی جب حنیف کے ساتھ گھر سے نکلتی، تو اس کی ساری کے ساتھ ہم رنگ سینڈل ہوتی۔ وہ ترنم سے کھٹ کھٹ کرتی زینہ اتر جاتی۔۔۔ تو تیسری منزل کی عورتیں اپنے کمروں میں جھانکنے لگتیں۔۔۔ ایک دن رضیہ بیگم کی بیٹی نے زینب بائی کی موجودگی میں بڑے چاہ سےکہا، ’’اے اماں جان ڈورتھی جیسی سرخ سینڈل ہمیں بھی بنوا دو۔۔۔ ہم کہیں جا کر حنیف بھائی سے۔۔۔؟‘‘

اس پر رضیہ بیگم کا ماتھا ٹھنکا، ’’لو بھئی اب ہماری لڑکیاں اس کی ریس کریں گی۔۔۔ اور یہ حنیف، خدا کی مار ہواس پر، شریفوں سے تو یوں بھاگتا ہے جیسے کاٹ لیں گے۔۔۔ میری بچی کی سینڈل نہ بناکر دی کبھی۔۔۔ اور اس حرافہ کے لیے روز بغل میں ڈبے دبائے حاضر۔۔۔‘‘

یہ پہلا موقعہ تھا کہ رضیہ بیگم چیخی چلائیں نہیں، بلکہ انہوں نے برقعہ اوڑھ کر پوری رابعہ بائی بلڈنگ کے بال بچے دار لوگوں کو خطرے سے آگاہ کیا، ’’ڈائن بھی اپنا پڑوس چھوڑ کر کھاتی ہے۔۔۔‘‘ ان کے پاس سب سے بڑی دلیل یہی تھی۔ دوسرے دن وہ وفد بن گیا جس نے رابعہ بائی بلڈنگ کی مالک حلیمہ بائی سے شکایت کی اور حلیمہ بائی کے کارندے کو تحقیق کے لیے تیسری منزل پر آنا پڑا۔ ڈورتھی کا نیلے پینٹ اور چمکتے ہوئے ہینڈل والا دروازہ بند تھا۔۔۔ زینب بائی کو خوشی ہوئی کہ اس وقت ڈورتھی اکیلی ہے۔ وہ سانس روکے اپنے دروازے پر کھڑی تھیں۔۔۔ اور رضیہ بیگم اپنے میاں کے پیچھے دوپٹہ منہ پر ڈالے لیکن سینہ کھولے کھڑی سوچ رہی تھیں، ’’دیکھیں سب باتو ں پر ’نہ‘ کردے مگر حنیف کے قصے پر کیسے مکرتی ہے؟‘‘

دوسری منزل پر وائلن بج رہا تھا اور تیسری منزل کے بند کمرے میں ایڑیوں کی کھٹ کھٹ ہو رہی تھی۔ کچھ دنوں سے ڈور تھی ہسپانوی خانہ بدوش ناچ کی دلدادہ ہوگئی تھی۔ حلیمہ بائی کا کارندہ اپنے بید سے کوریڈور میں تال دیتا رہا۔ اس کے پیچھے بلڈنگ کے بیشتر مکین مرد صف بستہ تھے۔۔۔ وائلن بند ہو گیا۔۔۔ کھٹ کھٹ ہوتی رہی، پھر کارندے نے اپنے بید کی مٹھ سے دروازہ کھول دیا۔ زینب بائی کا دل دھڑکتے دھڑکتے رک گیا۔ ڈورتھی بند دروازے کے پیچھے آج اکیلی نہیں تھی۔ وہ حنیف کی گردن میں بانہیں ڈالے ابھی تک ایڑیاں بجا رہی تھی۔۔۔ جیسے ذبح کی ہوئی مرغی پھڑک رہی ہو۔

’’دیکھا۔۔۔ دیکھا یہ رنڈی خانہ بنا رکھا ہے۔۔۔‘‘ دلی والے صاحب سب سے پہلے بولے۔

’’باہر نکالو اس رنڈی کو۔۔۔‘‘ دوسری منزل کے بابو صاحب آگے بڑھ کر چیخے۔۔۔ ڈورتھی اچھل کر الگ ہوگئی۔ پھر وہ چھوٹی سی گھگری اور پیٹ کھلے بلاؤز میں سینہ تان کر باہر آگئی۔

’’تم ہمارا ڈور کیوں کھولا امین بھائی۔۔۔‘‘ بلڈنگ کے لوگوں نے پہلے بار ڈورتھی کی اونچی آواز سنی، وہ کارندے سے مخاطب تھی،’’تم خود بند کریں گا ہمارا دروازہ، بند کرو ہم بولا بند کرو۔۔۔‘‘ ڈورتھی چیخی۔

’’ہاں تاکہ تم یہاں مزے کرو۔۔۔‘‘ دلی والے صاحب دانت پیس کر آگے بڑھے۔

’’تم بھی اپنے گھر میں مزا کرنا مانگتا مولبی صاحب۔۔۔‘‘ ڈورتھی چیخی، ’’یہ ہمارا گھر ہے ہم اس کا کرایہ دیتا ہے۔‘‘

’’بڑی آئی ہمارے منہ لگنے والی۔۔۔ کمینی رنڈی حرافہ شریفوں کےمحلے میں۔۔۔‘‘ رضیہ بیگم اپنے میاں کی بے عزتی برداشت نہ کر سکیں اور بیچ میں کود پڑیں۔۔۔ اس کے بعد وہ ہوا جو نہیں ہونا تھا۔۔۔ ڈورتھی نے شریفوں کے محلے کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ اسے انگریزی اور بمبیا اردو میں جتنی گالیاں آتی تھیں، وہ سب بک ڈالیں۔۔۔ اس نے الزام لگایا کہ رضیہ بیگم خود حنیف کو پھانسنے کی فکر میں تھی۔۔۔ نتیجہ عورتوں کی مارپیٹ کی صورت میں نکلا۔۔۔

’’ہاں ہم حنیف پر مرتا۔ وہ ہم پر مرتا، ہم اپنا جان بھی اس کو دیں گا۔۔۔‘‘ ڈورتھی رضیہ خانم سے پٹتے اور اسے پیٹتے ہوئے رو رو کر کہہ رہی تھی۔۔۔ تب ایک دم حنیف کے پتھر جیسے جسم میں جنبش ہوئی۔۔۔ وہ کوریڈور میں آ گیا اور نچھی کچھی ڈورتھی کا ہاتھ پکڑ لیا۔

’’خبردار جو کسی نے اب میری عورت کی طرف آنکھ اٹھائی۔۔۔‘‘ حنیف آنکھیں نکال کر گھمبیر آواز میں بولا۔

’’مگر یہ تمہاری عورت نہیں۔۔۔‘‘ بابو صاحب پیچھے ہٹتے ہوئے کہہ گئے۔ اسی وقت نیچے سے حنیف کے سارے کاریگر بھرامار کر اوپر پہنچ گئے۔۔۔ اب حنیف اور اکڑ گیا۔۔۔

’’یہ میری عورت نہیں؟ اچھا!‘‘حنیف کا منہ لال ہوگیا۔ پھر اس نے بندو خان کاریگر کو دیکھا، ’’اے بھائی بندو خاں! نیچے کسی کو دوڑانا تو ذرا لڈو لےآئے۔۔۔ آئیے مولانا دلی لکھنؤ کا جھگڑا تو وہیں رہ گیا۔۔۔ اب ہم کرانچی میں ہیں۔۔۔ دو بول پڑھا دیجیے۔ اللہ آپ کی مشکلیں آسان کرےگا۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ڈورتھی کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور ہلکا سا دھکا دے کر اسے کمرے میں دھکیل کر دروازہ بند کر لیا۔

حلیمہ بائی کے پاس کارندہ گیا تو نکاح کے لڈو لے کر۔۔۔ حلیمہ بائی کو سارے قصے سے صرف اتنی ہی دلچسپی تھی کہ ڈورتھی آئندہ بھی ان کی کرایہ دار رہے گی۔ مگر رابعہ بائی بلڈنگ کے مکینوں کی ساری دلچسپی جوں کی توں تھی۔

استاد بندو کاریگر حنیف کے کاروباری مستقبل کے بارے میں ضرورت سے زیادہ فکر مند رہتے۔۔۔ وہ کہا کرتے، ’’دیکھ لینا میاں، ایک دن جو خود بیٹھ کر حساب لگاؤگے تو بدھیا بیٹھی نظر آوے گی۔ میاں جوتا سازی تو جبھی ہووے ہے کہ مالک سر پر بیٹھا رہوے۔۔۔ اب میں کام کر رہا ہوں تو کاریگروں کے ہاتھوں پر نظر بھی رکھ ریا ہوں۔۔۔‘‘ مگر حنیف پاجامہ پہنے چپلیں گھسیٹتا تیسری منزل پر چلاجاتا اور ڈورتھی کو قورمہ کباب پکانے کی صحیح ترکیب بتانے لگتا۔ ڈورتھی یوں تو بڑی ذہین تھی لیکن مرچ مصالحے کا صحیح توازن قائم رکھنا بھی کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔۔۔ روز کوئی نہ کوئی گڑبڑ ہو جاتی۔ ہاں جب وہ کمونو پر ایپرن باندھے انگیٹھی کے سامنے کھڑی جھپا جھپ چپاتیاں اتارتی تو حنیف کو اپنی بیوی کے ہاتھ کی چپاتیاں یاد آ جاتیں۔ بیوی جو کراچی آنے کے لیے بے تاب تھی اور ہر دوسرے تیسرے دن اس کی اماں کی طرف سےخط لکھوا دیا کرتی تھی۔ اور یہ خط حنیف کی جیب سے ڈورتھی کے اسپرنگ والے پلنگ پر گر جاتے تو وہ انہیں اٹھا کر رضیہ بیگم کے پاس لے جاتی۔ ہر خط میں ایک سی بات پڑھوا کر سننے کے بعد وہ اکتا سی جاتی لیکن ایک ہی سی ہمدردی کرنے سے رضیہ بیگم نہ اکتاتیں۔

’’ہائے بے چاری کو کتنی دور ڈال رکھا ہے حنیف نے، پھر تمہارا دل کیا کہتا ہوگا؟ ہمیں پہلے معلوم ہوتا کہ حنیف بال بچے دار ہے تو۔۔۔‘‘

’’افوہ! فیر کیا۔ سب چلتا۔۔۔‘‘ ڈورتھی شانے اچکا کر کہتی اور کمونو کے اندر جلدی جلدی میں چھڑکا ہوا ٹیلکم پوڈر ہاتھ ڈال کر سینے پر ملنے لگتی۔

’’وہ بولتا ہمارے کوا کھا جان سے پیار کرتا۔ جب سے وہ ہمارے کو دیکھا۔۔۔ کیا ہونے سکتا۔۔۔؟ پن دیکھو ادھر کراچی میں پگڑی بنا روم نہیں ملتا۔۔۔ ادھر بمبئی میں بھی پگڑی چلتا تھا۔۔۔ ہم ادھر تین روم کا فلیٹ واسطے تین ہزار پگڑی دیا تھا۔۔۔‘‘ ڈورتھی کی نظریں کہتیں جیسے وہ ابھی بمبئی سے ہو کر آئی ہے۔۔۔ پھر وہ ایک دم اپنی جاپانی کھڑاؤں پر ڈولتی اپنے فلیٹ میں غائب ہو جاتی۔۔۔ اور جب رضیہ بیگم اس امید پر غسل خانے کا چکر لگاتیں کہ دیکھیں سوکن کے سلسلے میں وہ حنیف کی خبر کس طرح لے رہی ہے تو یہ دیکھ کر بڑی مایوس ہوتیں کہ ڈورتھی برش لیے دری پر سے حنیف کے جوتوں کا نشان جھاڑ رہی ہے۔۔۔ جانے اب حنیف باوجود اس کی ہدایت کے جوتے مونج کی چٹائی پر رگڑنا کیوں بھول جاتا ہے! ڈورتھی بڑے پیار سے زینب بائی سے شکایت کر چکی تھی۔۔۔

حنیف کا کیا؟ سب دیکھتے کہ حنیف تو ڈورتھی کے قبضے میں آکر عقل ہی چھوڑ بیٹھا تھا۔ وہ کاریگروں کو استاد بندو کے سپرد کر آرام سے کام نمٹانے کے لیے چمڑے کی لمبی لمبی رنگین اور روپہلی سنہری چٹوں کا گچھا لیے اوپر آتا۔۔۔ مشین تو بہت پہلے سے اوپر ہی رکھی ہوئی تھی۔ وہ چمڑا مشین پر ڈال کر دری پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتا اور آواز لگاتا۔

’’ڈارلنگ جلدی کھانا دو آج بہت کام کرنا ہے۔۔۔‘‘ ڈورتھی دوسرے کمرے میں جلدی سے ایپرن کھول کر دوبارہ ٹیلکم پوڈر کمونو کے اندر چھڑکتی۔ چہرے پر پف مارتی اور آکر مصنوعی غصے سے چلاتی، ’’تم ہندو مافق زمین پر بیٹھیں گا تو ہم کھانا نہیں دینے مانگتا۔۔۔‘‘ وہ منہ بنائے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتی۔ اندر جو دوسرے کمرے میں اس نے ننھی سی میز سجا رکھی تھی۔۔۔ اسے بیکار کیسے چھوڑ دیتی۔

’’اوہ بھول گیا تھا میم صاحب۔۔۔ بھول گیا تھا۔‘‘ حنیف اسے چومنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتا اور کھانے پر ٹوٹ پڑتا۔۔۔ اس کے بعد ’’بہت سا کام‘‘ بھول کر ڈورتھی کے پلنگ پر ایسا سوتا کہ اسے خبر بھی نہ ہوتی کہ ڈورتھی کب اٹھ گئی۔ کب اس نے حنیف کے جھوٹے برتن دھوئے اور کب اس کے ملے دلے سوٹ پر استری کی۔۔۔ کب جوتے پالش کی۔

’’ام بولتا کیسا سلی (بے وقوف) ہے حنیف۔۔۔‘‘ وہ میلا جوتا اٹھاتے ہوئے ہمیشہ بڑبڑاتی، ’’لوگ بولے گا آپ جوتا فیکٹری کا پروپرائٹر اور اتنا ڈرٹی (گندہ) شو پہنتا۔۔۔ شام کو کدھر پکچر یا ہوٹل جانے کے ٹائم اسی مافق پہن لیں گا۔۔۔‘‘ ڈورتھی کو شام اس کے ساتھ باہر جانے کا خطرہ ہر روز ستاتا۔۔۔ مگر حنیف یہ بھی بھول جاتا۔

’’ہمارے کو دیکھ کر سب کچھ بھولیں گا۔ سلی! اپنا بزنس تو کرنا ہی مانگتا۔۔۔‘‘ ڈورتھی مشین کے پاس چمڑے کی چٹیں دیکھ کراور بھی غصہ ہونے لگتی پھر مشین پر جھک کر چمڑے کی چٹوں پر بخیہ کرنے لگتی۔ مشین کی آواز سن کر کئی بار زینب بائی اس کے ہاں آئی تھیں۔۔۔ ایسے موقع پر ڈورتھی ان کے سامنے شکایتوں کا دفتر کھول دیتی، ’’یہ حنیف ہمارے کو پا کر سب کچھ چھوڑ دیا۔ اکھادن ادھر رہیں گا۔۔۔ پھر بولتا بڑا لاس (نقصان) ہوتا۔۔۔ وہ اپنا حساب کتاب بھی نہیں کرنے کو مانگتا۔ ہم مال کا سپلائی کا بل دکان پر جاکر نہ مانگے تو کاریگر لوگ کو شام میں پیسہ بھی نہیں ملیں گا۔ تم بولو بائی ایسا کیسا چلیں گا۔۔۔؟‘‘ ڈورتھی مشین پر جھکی مسلسل بولے جاتی اور اس کی سمجھ میں نہ آتا کہ زینب بائی کا بچہ کیوں ٹھنکے جارہا ہے۔ دراصل حنیف کے ساتھ رہ کر وہ خود بھی بھلکڑ ہوگئی تھی۔۔۔ خود ہی سویرے جب بید کی ٹوکری لٹکائے سبزی گوشت کے لیے کاریڈور میں سےکھٹ کھٹ کرتی گزرتی تو بچے سے کہہ جاتی، ’’بے بی تمہارا واسطے ٹافی لائیں گا۔۔۔‘‘ پھر جب واپس آتی تو یہ وعدہ قطعی بھول جاتی۔

’’تم کسی کو نہیں بولیں گا۔ ہم جانتا حنیف کا بزنس خراب ہوگیا۔۔۔‘‘ وہ کتنی ہی بار زینب بائی کو بتا چکی تھی۔ لیکن یہ عجیب بات تھی کہ فینسی شو فیکٹری میں کاریگروں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی اور حنیف اپنے مکرانی پڑوسی سے کئی بار کہہ چکا تھا کہ اگر وہ کمرہ چھوڑ دے تو وہ ڈیڑھ ہزار روپیہ پگڑی دینے کو تیار ہے۔۔۔ آخر نئے کاریگروں کو بیٹھنے کی جگہ چاہیے تھی۔۔۔ اس وجہ سےرضیہ بیگم اور ان کے میاں کا کہنا تھا کہ حنیف ڈورتھی کی کمائی بھی کھاتا ہے۔۔۔‘‘ یہ نکاح تو پردہ ڈالنے کو تھا۔ رضیہ بیگم چپکے سے کہا کرتیں۔

’’بائی ہم کس طرح بولیں گا۔ ڈورتھی تو فلم کمپنی جانا بھی چھوڑ دیا شام کو۔۔۔‘‘ زینب بائی پریشانی سے سر ہلاتیں۔

’’اے چلو رہنے دو۔ دن کو جو بن ٹھن کر جایا کرتی ہے۔۔۔؟‘‘ رضیہ بیگم کے پاس منطق موجود تھی۔

’’او بی بی ہم کو پتہ ہے۔ حنیف کا بزنس بل لینے جاتا، اور سبزی گوشت بھی تو بازار سے لاتا۔۔۔ چھوکرا بھی تو نکالا ہے ڈورتھی نے۔۔۔‘‘ زینب بائی بتاتیں۔

’’ہونہہ! سب بہانے ہیں بی۔ اگر کچھ نہ ہوتا تو یہ روز روز ناچ کی کھٹ کھٹ نہ بند ہو جاتی اور نیچے اب بھی بڈھا کھٹ کھٹ کے ساتھ انگریزی سارنگی کی ٹوں ٹوں کرتا ہے۔۔۔!‘‘رضیہ بیگم پاؤں پٹختی اپنے کمرے میں جاکر پان منہ میں ٹھونس لیتیں۔ اور زینب بائی ایک بار پھر یہ بتانے کو بے چین رہتیں کہ ڈورتھی نے حنیف سے کہہ دیا ہے کہ ناچ تو اس کی زندگی ہے۔۔۔ وہ نہیں ناچے گی تو مر جائے گی۔ پھر حنیف کی بھی اس کے ہسپانوی ناچ پر جان جاتی ہے۔۔۔ ہاتھوں میں ننھی ننھی مجیریاں، جسم پر ذرا سی جھالروں والی گھگری اور چولی۔۔۔ زینب بائی نے تو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ ناچ کے وقت حنیف پاجامے کے بجائے سوٹ پہن کر بیٹھتا اور ڈورتھی اس کے سامنے ناچتی۔

’’ہمارے کو پاجامہ اچھا نہیں لگتا، پن حنیف پہننے کو مانگتا۔ ہم بولتا اکھا ونسوٹ پہنے گا تم۔۔۔‘‘ ڈورتھی زینب بائی سے شکایت کرتی اور خود ہی کہنے لگتی، ’’حنیف کا بزنس ڈاؤن ہے۔۔۔ کام بہت کرتا، تھک جاتا۔۔۔ اس کر کے ہم اس کا بزنس کا بہت خیال کرتا۔۔۔ بزنس اچھا ہوئیں گا تو ہم منیجر رکھیں گا، فیر ہم دونوں روز ایوننگ کو باہر جائیں گا۔۔۔ ہوٹل، پکچر، کلفٹن۔۔۔‘‘ ڈورتھی یہ سب کہتے کہتے اپنی کالی آنکھیں نیم وا کر لیتی۔۔۔ اس کے جبڑوں کی ابھری ہوئی ہڈیوں تلے دبے ہوئے رخساروں کی ندی سی نمایاں ہو جاتی اور چوڑا دہانہ ذرا سا کھل جاتا جس میں سے سونے سے مڑھا ہوا دانت چمک اٹھتا۔

مکرانی نے اپنا کمرہ حنیف کو دے دیا۔ کاریگروں کی تعداد بڑھتی ہی گئی۔۔۔ اس کمرے کے ایک کونےمیں ڈورتھی کے کھانےکی ننھی سی میز پہنچ گئی۔ یہاں بیٹھ کر اب حنیف ناولیں پڑھتا جاتا اور کام کی نگرانی بھی کرتا جاتا۔ مال سپلائی کرنے کے جو آرڈر آتے انہیں بھی لیتا۔۔۔ مگر اس موقع پر ڈورتھی کو دوڑنا پڑتا۔ جیسے ہی کوئی موٹر یا موٹر سائیکل رکشا نیچے رکتی، ڈورتھی ہزار کام چھوڑ کر نیچے بھاگتی۔

’’دیکھا یار آئے ہیں پرانے۔۔۔‘‘ رضیہ بیگم ہانگ لگاتیں۔۔۔ اور زینب بائی جواب دینا ضروری سمجھتیں۔ اب یہ ان کی بدنصیبی تھی کہ ڈورتھی کی ان سے دوستی تھی۔ اور وہ انہیں ہر بات بتاتی تھی۔

’’ڈورتھی نیچے مال مانگنے والے کے سامنے جا کر ایڈوانس کے واسطے انگریزی بولیں گا بائی۔۔۔ حنیف نہیں بولنے سکتا۔۔۔ ڈورتھی بتاتا، بغیر انگریزی لوگ ایڈوانس نئیں دیتا۔۔۔‘‘ زینب بائی بتاتیں اور رضیہ بیگم کھڑکی سے نیچے جھانکتے ہوئے اپنی بیٹی کے ساتھ مل کر اتنا ہنستیں کہ ان کے آنسو نکل آتے۔ دوسری منزل کے بہاری بابو صاحب اپنی بوہرہ پڑوسن کو قسم کھا کر بتا چکے تھے کہ حنیف نے پگڑی کے ڈیڑھ ہزار روپے اس کے بنک ہی سے نکلوا کر مکرانی کو دیے۔ اور بنک میں اکاؤنٹ ڈورتھی کے نام کا تھا۔

’’اور اب دیکھو اسے چلاتا ہے۔۔۔ کیسا بے غیرت۔۔۔‘‘ بابو کہتے۔ لیکن مسٹر ڈگلس ہمیشہ بوہرہ عورت سےکہتے،’’دیکھا عیسائی وائف اپنے ہسبنڈ کی کتنی مدد کرتی ہے۔ اس نےحنیف کو کیا بنا دیا۔۔۔ پھر تم کو پتہ ہے وہ ہسپانوی ناچ کتنا اچھا ناچنے لگی ہے۔۔۔ وہ تو ہمیشہ سے ناچ کی دیوانی ہے۔ جب ذرا سی تھی سیٹھ کی لڑکیوں کو دیکھ کر منٹ بھر میں ناچ کی نقل کر لیتی تھی۔‘‘

اور بوہرہ عورت بڈھے ڈگلس کو یوں دیکھتی جیسے وہ پاگل ہو۔ یہ پاگل پن کی بات نہ تھی تو کیا کہ ڈورتھی کی کھٹ کھٹ کے سمے وہ ہمیشہ نیچے ہوتا پھر بھی اسے علم تھا کہ ڈورتھی کیسا ناچ رہی ہے۔ پھر ایک دن رضیہ بیگم کے لکھے ہوئےخط کے جواب میں راولپنڈی سے حنیف کی بیوی، ماں اور دونوں بیٹیاں آگئیں۔ روتی بین کرتی وہ سیدھی تیسری منزل کے کاریڈور میں آکر برقعے اٹھا کر بیٹھ گئیں۔

’’ارے کیا کر ڈالا۔۔۔ ارے پردیس میں ڈال کر منہ پھیر لیا۔۔۔ ارے کرانچی میں راس رچالیا۔۔۔‘‘ حنیف کی بیوی نےسینے پر ہاتھ مار مار کر ایسے درد سے بین کیے کہ رضیہ بیگم، زینب بائی اور بلڈنگ کی دوسری عورتیں بھی اس کے گرد اکٹھا ہوکر رونے لگیں۔۔۔ حنیف کا چہرہ غصے سے سرخ تھا۔۔۔ وہ اب اتنی عورتوں کے سامنے اپنی بیوی کا منہ تھپڑوں سے تو بند کرنے سے رہا تھا۔۔۔ اس نے بیوی کو گھسیٹ کر ڈورتھی کے فلیٹ میں ڈال دیا اور پھر آہستگی سے اپنی اماں کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا، ’’اماں کیا کروں یہاں مکان نہیں ملتا۔ ورنہ آپ کو پہلے بلا لیتا۔۔۔‘‘

تب ڈورتھی سبزی گوشت کی ٹوکری اٹھائے تیسری منزل پر نمودار ہوئی۔ عورتیں اب تک کوریڈور میں جمع تھیں۔

’’حنیف بھائی ڈورتھی آگئی۔۔۔‘‘ رضیہ بیگم نے منہ پر دوپٹہ ڈال کر بآواز بلند یوں اعلان کیا جیسے بھاگا ہوا بچہ پکڑ آیا ہو۔ ڈورتھی اندر گئی۔۔۔ سب منتظر تھے۔۔۔ پھر سب مایوس ہوگئے۔ ڈورتھی نے اپنا ایک کمرہ خالی کردیا۔۔۔ بیچ میں سے دروازہ بند ہو گیا۔

’’کیا ہونے سکتا۔ ادھر بنا پگڑی روم نہیں ملیں گا۔۔۔ اور حنیف کا بزنس ڈاؤن ہے۔۔۔ کاریگر مزدوری بہت مانگتا۔۔۔ فیر دوپہر کا ٹائم کھانے کا چھٹی مانگتا۔۔۔ اکھا دو گھنٹہ کھانا کھاتا رہتا۔۔۔ اور ادھر کو کام بند رہتا۔۔۔ ہم استاد بندو کو بولا، یہ بات گڑبڑ کا ہے۔ وہ بولا کھانا تو مانگتا۔۔۔ ہم بولا سمجھو ادھر ہم کینٹین بناتا۔ دوپہر کا کھانا ہم دیں گے۔۔۔ کھانے کا پیسہ مزدوری میں کٹواؤ۔۔۔ سب بڑا فیکٹری میں کینٹین ہوتا۔۔۔ اب ادھر ایک روم ہے۔ پن ہم گزارہ کریں گا۔۔۔ فیر جب حنیف کابزنس ’’لاس‘‘ نہیں کریں گا تو ہم پگڑی پر بڑا فلیٹ لیں گا۔۔۔‘‘ ڈورتھی نے اپنےڈرائنگ روم کو سمیٹ کر کونے میں کر دیا اور پردے کے پیچھے اسپرنگ والے پلنگ کے پاس ٹین جڑی میز پربڑے سے دیگچے میں کوشت بگھار کر انگیٹھی دھونکنا شروع کردی۔

’’پن یہ تمہارا سوکن۔۔۔ اس کو بولو کینٹین کا کام کرے۔۔۔‘‘ زینب بائی نے چھیڑا۔

’’فوہ! حنیف اس کو کبھی پسند نہیں کیا۔۔۔ وہ بولتا بہت سست عورت ہیں، کچھ حنیف کا کھیال نہیں کیا کبھی۔۔۔‘‘ ڈورتھی ہاتھ جھٹک کر مطمئن انداز سے بولی۔

شام کو بڑی دیر تک مسٹر ڈگلس انتظار کرتے رہے کہ وائلن چھیڑیں۔۔۔ پھر جب وہ مایوس ہوکر اپنا سفید کوٹ پہنے ایک سیٹھ کے ہاں ٹیوشن کے لئے جانے لگے تو ڈورتھی کے کمرے میں کھٹ کھٹ شروع ہوگئی۔۔۔ مسٹر ڈگلس اچھل کر کھڑکی کے پاس کھڑے ہوئے اور وائلن بجانے لگے۔ ونڈر فل! ونڈرفل!! وہ بڑبڑاتے رہے۔ اوپر حنیف کی ماں اس کھٹ کھٹ سے گھبرا کر رضیہ خانم کے پاس پہنچیں۔۔۔ اور جب انہیں پتہ چلا کہ اس کھٹ کھٹ کا مطلب کیا ہے تو انہوں نے رونا بین کرنا شروع کردیا۔

’’ارے حنیف کیا ککرم کر رہا ہے۔‘‘ حنیف ماں کو نہ سمجھا سکا۔ اور اسے ڈورتھی سے بات کرنا پڑی۔

’’پرمسٹر ڈگلس ہم بولا حنیف ناچنا ہمارا لائف ہے۔۔۔ ہم ناچیں گا اور تم دیکھیں گا۔ اس کے بنا ہم مرجائیں گا۔۔۔ فیر حنیف بولا ڈارلنگ تم ہمارا مدر کو نئیں جانتا۔۔۔ اس کرکے تم روز ناچ واسطے مسٹر ڈگلس کے گھر جانا مانگتا۔۔۔ مے آئی ڈانس ہیئر؟ (کیا میں یہاں ناچ سکتی ہوں)‘‘ ڈورتھی بڑے پیار سے مسکرا کر جھکی۔

ڈورتھی نے ایک کونے میں جاکر گھگری اور چولی پہنی اور کرسی پر بیٹھ کر حنیف کا انتظار کرنے لگی۔ پھر حنیف سوٹ پہنے ٹائی ہاتھ میں لیے مسٹر ڈگلس کے گھر آگیا اور ڈورتھی دیوانہ وارناچتی رہی۔۔۔ ناچتی رہی۔ فیکٹری میں کام کی دیکھ بھال کے لیے منیجر آگیا۔ یہ حنیف کا سالا تھا۔۔۔ ڈورتھی کو کینٹین چلانے اور سینڈلوں کے نئے ڈیزائن تیار کرنے سے اتنی فرصت نہ تھی کہ وہ آرڈر بک کرنے اور بل وصول کرنے جا سکتی۔ اس لیے اس کام کے لیے حنیف کے سالے کی رائے سے ایک اینگلو پاکستانی لڑکی کو پارٹ ٹائم ملازم رکھ لیا گیا۔

پھر انہی دنوں رضیہ بیگم کی بیٹی سے حنیف کے سالے کی شادی کی بات پکی ہوگئی۔ ساتھ ہی حنیف کی والدہ کی رائے ہوئی کہ حنیف کی بڑی لڑکی ماشاء اللہ چودہ سال کی ہو گئی ہے اور ماحول اچھا نہیں، اس لیے اسے بھی چلتا کیا جائے۔۔۔ رضیہ بیگم نے اس سلسلہ میں مدد کی اور حنیف کی لڑکی کی بات بھی طے ہوگئی۔

کاروبار پھیلایا جائے تو نفع یوں بھی کم ہوتا ہے، اس پر سے یہ شادیاں آپڑیں۔ حنیف کی لڑکی کا جہیز ایک مسئلہ بن گیا۔ ایک دن وہ بغل میں پوٹلی دبائے ڈورتھی کے کمرے میں آکھڑی ہوئی۔ اور کافی دیر سوچنےکے بعد اسےوہ انگریزی لفظ یاد آیا جس سے اسے ڈورتھی کو مخاطب کرنا تھا، ’’فیر ڈارلنگ! بے بی بولا’’ ممی دیکھو دادی ہم کو شادی واسطے یہ کپڑے دیتا۔۔۔ ہم دیکھا ڈارلنگ! ہم کو بہت شیم ہوا (شرم)۔ تم کچھ کرنا مانگتا ڈارلنگ۔‘‘ ڈورتھی نے اس رات جہیز کے معاملے میں دخل دینا چاہا۔ مگر حنیف اینٹھ گیا۔

’’میں کیا کروں تم خود ہی تو بزنس پھیلوا رہی ہو۔۔۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘

’’ایک بات بولیں گا ڈارلنگ۔ تم غصہ تو نہیں کریں گا۔۔۔ ہم تمہارا دیا ہوا چاروں ساری ’’بے بی‘‘ کو دے دیا۔ اور گولڈن سینڈل بھی۔۔۔‘‘

اور حنیف نےغصہ کیا۔۔۔ ڈورتھی اسے چومتی رہی، وہ اپنے آپ کو چھڑا کر باہر چلا گیا۔۔۔ یہ اس کے رکنے کا وقت تھا کیونکہ ڈورتھی اس وقت ڈگلس کے ہاں جا کر ناچتی تھی۔۔۔ تب ڈورتھی دھم دھم کرتی کوریڈور سےگزری اور ڈگلس کے ہاں جاکر اتنا ناچی اتنا ناچی کہ بے دم ہوگئی۔

دونوں شادیاں ہو گئیں۔۔۔ کینٹین چلتی رہی۔۔۔ حنیف کی بیوی کو الٹیاں آنے کی بیماری ہوگئی، اس لیے کینٹین کا کھانا ادھر بھی جانے لگا۔ اور پھر ایک رات بلی کی طرح ایک نوزائیدہ بچہ ڈورتھی کے دوسرے کمرے میں رویا۔ اسی دن حلیمہ بائی کا کارندہ ڈورتھی کے دروازے پر آیا کہ کچھ کرایے میں اضافہ کرو۔۔۔ ڈورتھی آج اپنے کمرے سے چولی گھگری میں ملبوس مجیریاں انگلیوں میں پہنے بغیر کمونو کے باہر آرہی تھی۔ کارندے کے منہ سےکرایے میں اضافے کی بات سن کر وہ ایک دم ویسی ہی بن گئی جیسی پانچ سال پہلے اس وقت ہوگئی تھی جب کارندہ حلیمہ بائی کی طرف سے اس کے خلاف بدکاری کی شکایت لے کر آیا تھا۔

’’کیا بولا کرایہ بڑھائیں گے۔۔۔ ہاں ہمارا کھال کھینچ لو۔۔۔‘‘ وہ سینہ ابھار کر کولھوں پر ہاتھ رکھے اس کی طرف بڑھی۔۔۔ کارندے کی آنکھیں مچ گئیں۔

’’کرایہ بولتا۔۔۔ ہم بولتا بے ایمان ہمارا دس سال کا وہائٹ واشنگ اور پینٹ کا پیسہ واپس کریں گا۔۔۔ بھاگ جاؤ اپنا حلیمہ بائی کو بولو ہمارا پیسہ دیں۔۔۔ کیا ہمارے کو دیکھتا؟‘‘ ڈورتھی نے برا سامنہ بنا کر اس کی آنکھوں کے سامنے مجیریاں بجائیں۔ اور کارندے کے منہ میں جو آیا بکنے لگا۔۔۔ یہ اچھی باتیں نہ تھیں۔۔۔ رضیہ بیگم زینب بائی اور حنیف کی ماں سب اپنےکمروں سے جھانکنے لگیں۔ اور ڈورتھی برابر گالیاں بکتی حنیف کو بلانےاتری۔ مگر فیکٹری کی چابیاں لیے حنیف کا سالا اوپر آ رہا تھا۔ اس نےبتایا کہ حنیف مس نیٹا کے ساتھ آرڈر بک کرنے گیا ہے۔ تب ڈورتھی مسٹر ڈگلس کے کمرے میں گالیاں بکتی گھسی۔۔۔

’’یو سی مسٹر ڈگلس۔۔۔‘‘ مسٹر ڈگلس ساری تفصیل سنتے ہوئے اپنا وائلن رومال سے صاف کرتے رہے۔۔۔ اور سر ہلاتے رہے۔ پھر مسٹر ڈگلس نے وائلن پر گز پھیرا۔۔۔ ڈورتھی کھڑے سے بیٹھ گئی۔ دھن بڑھی تو کرسی پر سر ڈال دیا اور ٹانگیں پھیلا دیں۔ مسٹر ڈگلس نے دیکھا اس کی سوکھی ہوئی ٹانگوں پر ہلدی کی چھینٹیں تھیں اور کوئلے کی کالک۔۔۔ ان کاگز او رتیز ہوگیا۔ ڈورتھی نے اپنی آنکھیں نیم وا کرلیں اور ہاتھ کرسی کے ہتھے سے گرا دیے۔ مسٹر ڈگلس نے دیکھا کہ اس کے پالش اڑے ناخنوں میں سوکھا ہوا آٹا بھرا ہوا تھا۔۔۔ اور پھر کھن سے مجیریاں فرش پر گرگئیں۔

’’آئی ایم ٹائرڈ۔۔۔ آئی ایم ویری ٹائرڈ۔۔۔‘‘ (میں تھک چکی ہوں) ڈورتھی بڑبڑائی اور اس کی آنکھیں بند ہوگئیں۔۔۔ مسٹر ڈگلس نے وائلن بکس میں رکھ دیا اور کالی پٹی والا سفید کوٹ پہن کر ٹیوشن کے لیے چلے گئے۔۔۔ پر جانے آج ان کا سر بار بار اس طرح کیوں ہل رہا تھا جس طرح وہ اپنے کسی عزیز کی موت کی خبر پر ہلاتے تھے۔

’’رات بھر بلی کی طرح کوریڈور میں پھرتی رہی تھی کم بخت۔۔۔ زینب بائی سے کہتی تھی کہ بچہ میں رکھوں گی، برقعے والی عورتیں بچوں کو رکھنا نہیں جانتیں۔۔۔ ہے نا ذات کی آیا۔۔۔؟ بچے کو اس سے بچا کر رکھنا اے بی اس کا کوئی ٹھیک نہیں۔۔۔‘‘ رضیہ بیگم حنیف کی ماں کو چپکے چپکے بتا رہی تھیں۔

تب حلیمہ بائی نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے رابعہ بائی بلڈنگ پر ایک نظر ڈالی۔ رابعہ بائی بلڈنگ جو انہیں اپنی دادی کی طرح نظر آتی تھی، بوسیدہ زرد میلی۔۔۔ پھر انہوں نے آنکھیں مچمچاکر ڈورتھی کے کمروں کو پہچاننے کی کوشش کی۔ نیلا رنگ اڑ چکا تھا۔۔۔ شیشے ٹوٹے اور دھنوالے!!

’’اچھا تو ڈورتھی ایسا بولا۔۔۔‘‘ انہوں نے مڑ کر اپنے کارندے کو دیکھا اور تھک کر بولیں، ’’امین بھائی اس بلڈنگ کو گرانا ہی پڑیں گا۔۔۔ ایک کرایہ دار بھی اچھا نہیں رہا۔ اب ادھر نیا بڑا بڑا فلیٹ بنائیں گا۔۔۔ گورالوگ جتنا کرایہ مانگو دیں گا۔۔۔‘‘

مصنف:ہاجرہ مسرور

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here