کہانی کی کہانی:’’بچوں کی نفسیات اور توہم پرستی کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ چھوٹی بچی جب ایک بلی کو پال لیتی ہے تو اس کے دادا میاں کہتے ہیں کہ بلی بڑی منحوس ہوتی ہے۔ سوئے اتفاق اسی دوران والد کا انتقال ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کا عقیدہ اور بھی پختہ ہو جاتا ہے کہ بلی منحوس ہوتی ہے اور وہ اسے ایک بوری میں بند کر کے تالاب میں پھینک آتے ہیں۔‘‘
سرد و منجمد رات کا ابتدائی حصہ، کمرے میں بالکل خاموشی طاری تھی اور میں لحاف میں سمٹی سمٹائی ایک افسانے کے پلاٹ پر غور کر رہی تھی۔ ایسی برفیلی راتوں میں سوائے سوچنےکے اور کرتی بھی کیا۔۔۔ لکھنا پڑھنا تو کجا، ایسے میں لحاف سے منہ نکالنا بھی دشوار لگتا ہے۔ دفعتاً میری سب سے چھوٹی بہن چلائی اور پھر ساتھ ہی سب بھائی بہنوں کی دوڑو پکڑو، دروازے بند کر لو، کا شور برپا ہو گیا۔ سب بچے بستروں سے اٹھ اٹھ کر ادھر ادھر دوڑنے لگے۔ اس یکایک قیامت نے مجھے مجبور کیا کہ لحاف سرکا کر دیکھوں کہ ہوا کیا ہے؟
’’کیا کر رہے ہو تم سب؟‘‘ میں نے ڈانٹ کر پوچھا۔
’’کچھ نہیں!‘‘میرا بھائی پلنگ کے نیچے لکڑی سے کھڑبڑ کرتا ہوا بولا۔
’’وہ ہے پلنگ کے نیچے۔۔۔ کونے میں!‘‘ چھوٹی بہن پھر چیخی اور وہ پلنگ کے نیچے گھس گیا اور چند لمحے بعد جب وہ نکلا تو اس کے ہاتھ میں بلی کی دم تھی۔
’’یہ ہے!‘‘ وہ اس کی دم پکڑے جیسے اسے جھولا جھلا رہا تھا۔
’’میاؤں!‘‘ بلی کی نیلی نیلی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ مجھے اس کی بے بسی پر رحم آ گیا۔
’’اسے چھوڑ دو، ورنہ تمہیں اچھی طرح ٹھوکوں گی۔‘‘
’’اچھا؟‘‘ وہ آنکھیں مٹکا کر بولا اور بلی کو دھپ سے میرے پلنگ پرپٹخ دیا۔ اب وہ میری گود میں تھی، دودھ کی طرح اجلی، ریشم کی طرح ملائم اور موسم سرما کی دھوپ کی طرح گرم۔۔۔ میں پیار سےاس پر ہاتھ پھیرنے لگی اور وہ میرے لمس سےخوش ہو کر کوبڑ نکالے، خر خر کرنے لگی۔
’’پھینک دو اسے، کیا گود میں لیے بیٹھی ہو؟‘‘ اماں بی کو شاید انسان و حیوان کا یہ رشتہ محبت کچھ اچھا نہ معلوم ہوا۔
’’واہ! سب نے بے چاری کو بے گناہ اتنا مارا تو میں اسے سہلاؤں بھی نہیں؟‘‘ میں نے اس کے منے سے سر پر پیار کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’بلی بڑی منحوس ہوتی ہے، اس لیے اس کی یہی سزا ہے۔‘‘ نانا میاں اپنے بستر پر کلبلاتے ہوئے بول اٹھے۔
’’بلی بڑی منحوس ہوتی ہے۔‘‘ یہ جملہ میرے کانوں میں لوہے کی گرم گرم سلاخ کی طرح اترتا ہوا معلوم ہوا۔ یہ جملہ میں نےآج سے قبل بھی سنا تھا۔ کب اور کیسے؟
اس دن آسمان پر شام سے سفید اور بھورے بادل ہوا کی لہروں پر سوار ادھر ادھر دوڑتے پھر رہے تھے جیسے کسی بڑے طوفان کی تیاریوں میں مشغول ہوں۔ ہم لوگ رات کا کھانا ذرا جلدی ہی کھا کر اپنے اپنے بستروں میں گھس چکے تھے۔ آتشدان کے سینے میں کوئلے دہک رہے تھے۔ اس کے باوجود کمرہ بالکل سرد تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قدرت نے اپنی دنیا کو برف میں لگا کر رکھ دیا ہے۔ باہر ہوا کے سرد جھونکے بند درازوں سے لڑ رہے تھے اور مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کوئی ہر پھر کر ہولے ہولے کواڑ بھڑبھڑا رہا ہے، لیکن کمرے میں بالکل سکوت تھا۔ بس اگر کوئی آواز تھی تو کوئلےکے چٹخنے کی۔ ابا میاں بھاری اوور کوٹ میں لپٹے، آرام کرسی پر لیٹے، آتشدان میں لپکتے جھپکتے سرخ سرخ شعلوں کو گھور رہے تھے اور میں اپنے لحاف سے منہ نکالے بہت غور سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ اب کی جاڑوں میں انہیں نہ جانے کیا وحشت تھی کہ سر شام ہی سب کو بھاری بھاری لحافوں میں دبک جانے کی ہدایت کیا کرتے بس! پانی نہ پیو، زکام ہو جائے گا، بستر سے نہ اٹھو کھانسی آنے لگے گی، لحاف اچھی طرح اوڑھ لو، ورنہ نمونیہ ہو جائے گا، مگر ان تمام احتیاطوں کے باوجود خود انہیں زکام اور کھانسی ستائے ہوئے تھی۔
اماں بی کسی ضرورت سے اٹھیں اور کمرے کے باہر چلیں گئیں اور مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ آج خلاف معمول ابا میاں نےگھبرا کر یہ کیوں نہ پوچھا کہ بستر سے کیوں اٹھیں۔ وہ اسی طرح گم سم بیٹھے انگاروں کی لپکتی، تھرتھراتی ننھی ننھی زبانوں کو گھورتے رہے۔۔۔ ادھر اماں بی باہر نکلیں اور ادھر ہوا کے ایک سرد جھونکے کے ساتھ ایک نئی روئی جیسی سفید ننھی منی بلی سردی سے پھولی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی اور اپنے گدگدے پنجے بڑھاتی میرے پلنگ کے پاس آکر رک گئی۔
’’میاؤں! میاؤں!‘‘ جیسے وہ کہہ رہی تھی کہ مجھے بھی سردی لگ رہی ہے۔ اس کی نیلی نیلی آنکھیں کانچ کے دو ٹکڑوں کی طرح چمک رہی تھیں۔ مجھے اس پر رحم آگیا اور میں نے جھپٹ کر اسے اپنی گود میں اٹھا لیا۔ ابامیاں نے چونک کر میری طرف اس طرح دیکھا جیسے اب وہ سوال کریں گے کہ تم اتنی سردی میں بلی پکڑنےکیوں اٹھیں؟ میں چند لمحے کے لیے ان کی ناراضگی کے خوف سے دم بخود رہ گئی۔ مگر پھر بھی کچھ تو کہنا ہی تھا اپنی صفائی میں۔۔۔ میں نے اپنا نچلا ہونٹ ذرا لٹکا کر پلکیں پیٹتے ہوئےرونی آواز میں کہا، ’’آپ ہی تو کہتے ہیں کہ سردی سے نمونیہ ہو جاتا ہے اور پھر بس۔ اب اس بے چاری کو نمونیہ ہو جاتا تو۔۔۔‘‘
ان کے ہونٹوں پر میٹھی سی مسکراہٹ لہرا گئی اور انہوں نےنہایت نرمی سے ہدایت کی کہ میں اپنے بستر پر چلی جاؤں۔۔۔ اور میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نےبلی کے لیے کوئی حکم نہ دیا۔ حالانکہ وہ بلیوں اور دوسرے پالتو جانوروں سے بہت چڑتے تھے۔ میں خوش خوش بلی کو اپنے بستر پر لے آئی۔ اور پھر رات گئے تک ہر طرف سے خالی الذہن ہو کر اس کے صاف ستھرے اور دھنکی ہوئی روئی کے مانند گدگدے جسم سے کھیلتی رہی اور وہ بھی میرے کھیل سے محظوظ ہو کر خرخر کرتی رہی۔ اس رات وہ میرے پہلو میں سوئی اور میں نیند میں بھی اس کے ریشم جسم کی ہلکی ہلکی گرمی برابر محسوس کرتی رہی۔ صبح میری آنکھ بہت ہی سویرے کھل گئی کیونکہ بلی میرے پہلو سے غائب تھی۔ میں چپکے سے اپنے بستر سے اٹھی اور ادھر ادھر ڈھونڈنے لگی۔ آخر وہ آتش دان کے قریب سوئی ہوئی ملی۔ میں اسے پکڑ کر بستر پر لےآئی۔
’’بھئی اب بتاؤ تمہارا نام کیا رکھا جائے؟‘‘ میں نے اسے اپنی گود میں اٹھا کر سوال کیا اور اس نے بڑے ٹھسے سے میاؤں کہہ کر آنکھیں بند کرلیں جیسے اس نے کہا ہو، ’’بھئی جو جی چاہے رکھ لو، میں تو بلی ہوں۔ بلی ہی رہوں گی۔‘‘ آخر میں نے بڑے سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اماں بی کی انگوٹھی میں جو نیلا نگ جڑا ہوا ہے اسے وہ نیلم کہتی ہیں اور چونکہ اس بلی کی آنکھیں بھی شیشے کے نیلے ٹکڑے کی طرح ہیں اس لیے اس کا نام بھی نیلم ہی اچھا رہے گا۔
’’دیکھو بھئی میں نے تمہارا نام نیلم رکھا ہے۔ تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں؟‘‘ آخر میں نے بھی اسے اپنا فیصلہ سنا دیا اور اس نے اپنے دانت اس طرح نکوس دیے جیسے اسے میری بات پر ہنسی آگئی ہو، پھر اپنی چھدری مونچھوں کو مٹکا کر مجھے غور سے دیکھنے لگی۔ شاید وہ یہ سوچ رہی ہوگی کہ انسان بھی عجیب ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں تو بیٹھے بٹھائے اچھی بھلی بلی کو نیلم بنا دیا۔۔۔ لیکن میں نے اس کے ان خیالات کی کچھ زیادہ پروا نہ کی اور اسے اپنے ساتھ رکھنے کے متعلق سوچنے لگی۔
ابا میاں نے تو کچھ اعتراض نہ کیا۔۔۔ اماں بی بڑی سیدھی سادی ہیں، انہیں ایسی باتوں سے کیا مطلب۔۔۔ اب رہے دادا میاں، سو وہ تو ضرور ناک بھو چڑھائیں گے اور چھوٹا بھیا بھی ذرا گڑبڑ کرے گا۔۔۔ مگر خیر! میں اسے اپنے پاس اس طرح رکھوں گی کہ کسی کو شکایت کا موقع ہی نہ ہو۔ خود ناشتہ کرنے سے پہلے اسے ناشتہ کرا دیا کروں گی، کھانا کھانے سے پہلے اسے کھلا دیا کروں گی تاکہ میز پر اچک پھاند نہ کرے۔ رات کو اپنے ساتھ سلاؤں گی۔ دن بھر اپنی گود میں رکھوں گی۔۔۔ مگر بھئی دن بھر کیسے؟ اسکول بھی تو جانا ہوتا ہے۔۔۔ خیر کچھ بھی ہو، میں اسے اپنے ساتھ ہی لے جاؤں گی۔
ان بی نیلم کی آنکھیں کھل جائیں گی ہمارے اسکول کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر، اور پھر سب کی دیکھا دیکھی ذرا تمیز آجائے گی۔۔۔ لیکن استانی جی جو ناراض ہوں گی کہ بلی کو کیوں اسکول لے آئیں۔۔۔؟ تو ایسا کروں گی کہ اسے اپنے ڈیسک میں چھپا دوں گی۔ استانی جی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوگی، پھر چھٹی کے وقت اسے نکال کر سب لڑکیوں کو دکھاؤں گی۔ سب کا دل کیسا للچائے گا۔ کوئی کہے گا ذرا ہمیں گود میں لینے دو اسے، کوئی کہے گا یہ کتنی اچھی ہے۔۔۔ اونہہ! مگر میں کسی کو ہاتھ تھوڑے لگانے دوں گی اپنی نیلم کو۔ تھوڑی دیر بعد میں اسے اٹھا کر اپنے پورے گھر کی سیر کرانے لے چلی۔
’’دیکھو بی نیلم! یہ ہے ہمارے ابا میاں کے مطالعے کا کمرہ، ادھر آنے کی تکلیف نہ کرنا کیونکہ تمہارا پیٹ کتابوں سے بھرنے سے رہا۔ یہ دیکھو، کھانے کا کمرہ ہے، تم یہاں آ سکتی ہو مگر ذرا تمیز سے، یہ نہیں کہ برتن ورتن توڑ ڈالو۔۔۔ یہ رہاباورچی خانہ، یہاں جب تمہارا جی چاہے شوق سے آ جایا کرنا۔ مگر بھئی بہت ہوشیاری سے کیونکہ یہاں پر موٹلی رحیمن کا راج، اور وہ غصہ ور بھی ہے۔ اگر اس نے کبھی تم کو کسی ہنڈیا میں منہ ڈالے دیکھ لیا تو پھنکنی سے تمہاری ٹانگ توڑدے گی۔ بس پھر تم لنگڑدین ٹکے کی تین ہو کر رہ جاؤ گی، سمجھیں کچھ؟ مگر ٹھہرو تو سہی۔۔۔ یہ تم میری گود سے نکلنے کی کوشش کیوں کر رہی ہو؟ اے لو! کود گئیں دھم سے۔۔۔ اچھا اچھا میں سمجھی تمہیں بھوک لگی ہے۔ لو تو میں تمہیں چپکے سے چائے کا دودھ دیے دیتی ہوں۔۔۔ پی لو۔۔۔ پھر تھوڑی دیر بعد چائے بنے گی تو خوب بہت سی تمہیں دوں گی، اچھا ارے نیلم۔۔۔! تم کتنی جلدی اتنا بہت سا دودھ ہڑپ گئیں۔
خیر شرماؤ نہیں مجھ سے، آؤ اب تمہیں ملاقات کا کمرہ دکھا لاؤں۔۔۔ یہاں تم ہر وقت بلا کھٹکے آ جا سکتی ہو۔ ابا میاں کے جتنے دوست آئیں تم بھی ان سے دوستی کرلینا۔ وہ سب مجھے پیار کرتے ہیں۔ اس لیے تمہیں بھی ضرور پیار کریں گے۔۔۔ اچھا وہ دیکھو! وہ ہے سامنے دادا میاں کا کمرہ۔۔۔ کان کھول کر سن لو کہ بھول کر بھی ادھر کا رخ نہ کرنا۔ ورنہ حقے کے نیچے سے تمہاری کمر توڑ دی جائے گی۔ بڑے بکٹ خان صاحب ہیں وہ۔۔۔ نیلم نے میاؤں میاؤں کر کے جیسے میری تمام ہدایتیں مان لیں۔
’’کیوں ہجو بیٹا، آج تمہارے ابا میاں اب تک نہیں اٹھے سو کر؟‘‘ رحیمن نے مجھ سے سرگوشی کے لہجے میں دریافت کیا۔
’’ایں! ہمیں کیا معلوم۔۔۔ لگ رہی ہوگی انہیں سردی۔ کیوں نا نیلم؟‘‘ میں نے نیلم کے ریشمی روؤں میں اپنا گال رگڑتے ہوئے کہا۔
’’میاؤں‘‘ گویا اس نے کہا، ’’اور کیا؟‘‘
’’چلو بھئی نیلم اب اسکول جانے کی تیاری ہو جائے۔‘‘ جب میں اور نیلم ڈٹ کر ناشتہ کر چکے تو میں نے تجویز پیش کی۔
’’تم یہاں سنگار میز پر بیٹھی رہو۔ ذرا میں فراک تبدیل کر لوں۔ جب تک تم شیشے میں اپنی صورت دیکھو۔۔۔ ارے تم نے کریم کی شیشی زمین پر پھینک دی، بڑی خیریت ہوئی کہ ٹوٹی نہیں۔ بھئی ہمیں ایسی شرارتیں اچھی نہیں معلوم ہوتیں۔ ہٹو اب کنگھی کرنے دو ہمیں۔۔۔ اچھا دیکھو نیلم! ہم نے اپنے بالوں میں ربن کتنی اچھی طرح باندھا ہے۔۔۔ خوب صورت لگتا ہے نا؟‘‘ میں اسکول جانے کے لیے بالکل تیار تھی۔ اب نیلم کو کیسے لے جایا جائے اسکول۔۔۔ میں سوچ میں پڑ گئی۔ آخر ایک ترکیب سمجھ میں آہی گئی۔ ’’آؤ! اب تم میرے اوور کوٹ کی جیب میں بیٹھ جاؤ نیلم۔‘‘ میں نےاسے جیب میں ٹھونس لیا۔
’’تم اپنے دل میں برا نہ ماننا کہ ہمیں جیب میں رکھ لیا۔ بات یہ ہے کہ اگر تمہیں استانی جی نے دیکھ لیا تو ناراض ہوں گی، بس ذرا دیر کی قید ہے، ان کی نظر ذرا چوکی اور میں نے جھٹ تمہیں ڈیسک میں بٹھایا۔ اسکول پہنچ کر جیسے ہی کلاس روم میں قدم رکھا۔ بدقسمتی سے عین استانی جی کے سامنے جیب کا راز ڈیسک میں بند ہونے سے پہلے ہی نکل بھاگا۔۔۔ استانی جی کی سخت گھڑکیاں اور میرے گرم گرم آنسو! نتیجہ یہ ہوا کہ مع بی نیلم کے مجھے میرے گھر پہنچوا دیا گیا۔ اب راستے بھر اس خوف سے جان نکلتی رہی کہ ابا میاں خوب ناراض ہوں گے۔ ممکن ہے کہ اسی وقت حکم دے دیں کہ نیلم کو گھر سے نکال دو۔ لیکن جب گھر پہنچی تو مجھ سے کوئی بازپرس نہ ہوئی۔ کیونکہ ابا میاں پلنگ پر لیٹے بچوں کی طرح کراہ رہے تھے اور بڑی بڑی مونچھوں والے ڈاکٹر صاحب اپنے آلے سے ان کا سینہ دیکھ رہے تھے۔ اماں بی پردے کے پیچھے سے گھبرا گھبرا کر جھانک رہی تھیں۔
اس دن میں نے رحیمن کی پیٹھ پر سواری گانٹھتے ہوئے پوچھا، ’’اری ابا میاں کو کیا ہوگیا؟‘‘
’’سردی ہوگئی ہے انہیں بیٹا۔‘‘ اس نے ایسے کہا جیسے سردی بڑی بری چیز ہے۔ مگر مجھے ذرا بھی فکر نہ ہوئی۔ کیونکہ ابا میاں اتنے موٹے موٹے لحاف اوڑھے تھے کہ سردی کو بھاگتے ہی بن پڑتی۔ اس دن سے گھر کے سب لوگ تو ابا میاں کے پلنگ سے لگے رہتے اور میں سارا دن مزے سے اپنی نیلم سے کھیلتی رہتی۔ اس دوران میں سوائے اس کے کوئی قابل ذکر واقعہ نہ ہوا کہ اماں بی اکثر چھپ چھپ کر رویا کرتیں، ابا میاں رات دن پلنگ پر لیٹے رہتے اور بہت سے لوگ آ آ کر جب دیکھو جب ان سے یہی پوچھا کرتے کہ طبیعت کیسی ہے۔۔۔؟ نیلم نے کئی بار پتیلی میں منہ ڈالا۔۔۔ رحیمن نے پھنکنی ماری اور میں نے رحیمن کو خوب نوچا۔ ہماری نیلم کی ٹانگ میں ذرا سا لنگ ہوگیا۔ میں نے چپراسی کے ہاتھ اسے ڈاکٹر کو دکھانے بھیج دیا۔ لیکن نیلم تھی ایسی احسان فراموش کہ میرے ذرا سے دبوچنے ہی پر اس نے اپنے پنجوں سے کتنے ہی کھرونچے لگا دیے اور ایک دن ابا میاں نے مجھے اپنے پاس بلا کر پیار کیا اور میرے کہنے سے نیلم کو بھی۔۔۔
ایک دن صبح ہی صبح جب میں اور میری نیلم بستر سے اٹھے بھی نہ تھے کہ اماں بی اور دادا میاں کے زور زور سے رونے پرگھر کے سب لوگ رونے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے بھی رونا آگیا۔ میں دوڑی دوڑی اس کمرے میں گئی جہاں ابا میاں لیٹے رہتے تھے۔ اماں بھی ابا میاں کے پلنگ کے پاس زمین پر پاؤں پسارے بیٹھی چلا رہی تھی اور ابا میاں پلنگ پر بالکل خاموش لیٹے تھوڑی سی آنکھیں کھولے انہیں دیکھ رہے تھے۔ ان کے سر سے لے کر ٹھوڑی تک پٹی بندھی ہوئی تھی اور ان کے دانت اس طرح نکلے ہوئے تھے جیسے انہیں اماں بی کی چیخیں سن کر ہنسی آ رہی ہو۔۔۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اماں بی زمین پر لیٹ کر اپنا سر زور زور سے پٹخنے لگیں اور دادا میاں اپنے سینے پر ہاتھ مار مار کر اپنے ہونٹ اس طرح چبانے لگے کہ ان کی سفید داڑھی کے بال ایسا معلوم ہوتا تھا کہ منہ کے اندر چلے جائیں گے۔
میں یہ منظر دیکھ کر ڈری اور ہاں سے بھاگ کر ایک دوسرے کمرےمیں گھس گئی۔ میرے پیچھے میری نیلم بھی آگئی۔ لیکن اس وقت مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہ ہوئی۔ میرے کانوں میں تو رونے چلانے کی آوازیں بے شمار سوئیوں کی طرح چبھ رہی تھیں۔ میں بڑی دیر تک کمرے کے ایک کونے میں زمین پر اماں بی کی طرح پاؤں پسارے بیٹھی رہی اور نیلم بھی کچھ بولائی ادھر ادھر پھراکی۔
’’میاؤں! میاؤں۔۔۔! ہائے ہائے۔۔۔ آہ۔۔۔ اف!‘‘ میں ان لرزا دینے والی صداؤں میں بالکل غیر شعوری طور پر گھر گئی۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔۔؟ یہ میری سمجھ سے بالا تھا۔ لیکن میں بار بار یہ محسوس کر رہی تھی کہ گھر کے موجودہ حالات سے میرا کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔ ابا میاں کی ہنسی، اماں کی چیخیں اور زمین پر لوٹنا، دادا میاں کا سینہ کوٹنا اور منہ میں گھستے ہوئے داڑھی کے بال۔۔۔ یہ سب کچھ یونہی تو نہ تھا۔
بڑی دیر بعد موٹی تھل تھل رحیمن جھومتی جھامتی منہ بسورے کمرے میں داخل ہوئی اور مجھے زمین پر بیٹھے دیکھ کر اس طرح منھ کھولے اور آنکھیں پھاڑے بڑھی کہ میں سمجھی یہ کم بخت ضرور ایسے برے وقت میں میری تمام شرارتوں کا بدلہ لے گی مگر۔۔۔ اس نے مجھے گود میں اٹھا لیا اور اپنے بدبودار چکٹے سینے میں بھینچ لیا۔۔۔ میرے نتھنوں میں قسم قسم کے سالنوں اور پسینے کی ملی جلی بدبو چڑھ گئی۔ لیکن نہ جانے کیوں میں اس سے الگ ہونے کے بجائے اور زیادہ چمٹ گئی۔ وہ مجھے دبا دبا کر بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگی، ’’ہائے بچی، رو! تم آج یتیم ہوگئیں۔۔۔ تمہارے ابا مرگئے۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ پھسر پھسر رونے لگی اور ساتھ ہی میں بھی بلک اٹھی۔ جانے کتنا روئی اور کب تک روئی۔ اور پھر اسی حالت میں سو بھی گئی۔۔۔ جب آنکھ کھلی تو گھر میں سناٹا تھا۔ میں ڈری کہ سب مجھے چھوڑ کر کہیں چلے گئے شاید۔۔۔ میں نے ڈرتے ڈرتے باہر جھانکا۔ آنگن میں بہت سی عورتیں جمع تھیں اور ان کے درمیان اماں بی گھٹنے پر ٹھوڑی رکھے، بڑی بڑی آنکھیں میچے آنسو بہا رہی تھیں۔ اس وقت ان کے ہاتھوں میں چوڑیاں بھی نہ تھیں۔ حالانکہ صبح تک کلائیوں میں کھنک رہی تھیں۔۔۔ اور آج تو انہوں نے اپنےبالوں میں کنگھی کر کے چوٹی بھی نہ گوندھی تھی۔ بلکہ لمبے لمبے بالوں میں خاک دھول اٹی ہوئی تھی۔۔۔ میں دوبارہ سہم کر کونے میں دبک رہی۔ اب مجھے نیلم کا خیال آیا۔۔۔ وہ نہ جانے کہاں چلی گئی تھی۔ میں سوچنے لگی کہ اگر وہ ہوتی تو اس سے پوچھتی کہ تجھے معلوم ہے نیلم، یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ کمرے سے باہر نکلتے ڈر معلوم ہو رہا تھا۔ اس لیے وہیں بیٹھی اس کا انتظار کرتی رہی۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ دم ہلاتی، میاؤں میاؤں کرتی آئی اور میں نے اسے پکڑ کر اپنی گود میں بٹھا لیا۔
’’نیلم! رحیمن کہتی تھی کہ ابا میاں مرگئے۔‘‘ میں نے کہا۔ نیلم نے اپنی نیلی نیلی آنکھوں سے مجھے تاکا۔ ایسا معلوم ہوا کہ نیلی کانچ کی دیواروں کے پیچھے بہت سے آنسو ٹپک جانے کے لیے سر ٹکرا رہے ہیں۔
’’میاؤں!‘‘ میں سمجھی کہ وہ کہہ رہی ہے، ’’ہائے۔‘‘ پھر وہ اپنی لمبی دم اس طرح زمین پر پٹخنے لگی جس طرح اماں بی اپنا سر پٹخ رہی تھیں۔ اس روز شام کو دسترخوان پر سوائے ماش کی کھچڑی کے کچھ بھی نہ تھا۔ جو نہ تو مجھ سے کھائی گئی اور نہ میری نیلم سے۔۔۔ اس کے بعد اماں بی تھوڑی تھوڑی دیر بعد روتی رہیں۔۔۔ دادا میاں رہ رہ کر اپنا سینہ کوٹتے رہتے۔ آئے گئے بھی ہائے وائے کرتے رہے اور رات بھر بادل چیخ چیخ کر روتے رہے۔ صبح میری آنکھ اس وقت کھلی جب دادا میاں زور زور سے کہہ رہے تھے، ’’بہو! تم نہ مانو لیکن بلی بڑی منحوس ہوتی ہے۔‘‘
میں نے گھبراکر اپنے پہلو میں نیلم کو ٹٹولنا چاہا۔ وہ غائب تھی۔ میں نے لحاف سے منہ نکال کر دیکھا تو اس کی پیاری سی گردن دادا میاں کے سوکھے ہوئے پنجوں میں تھی۔ میں دیوانوں کی طرح دوڑی اور اس کی گردن کو ان کی گرفت سےآزاد کرانا چاہا۔۔۔ لیکن۔۔۔ لیکن! میرے گال پر ایک طمانچہ پڑا اورمیری امنڈتی ہوئی آنکھوں کے سامنے ہر چیز دھندلی پڑ گئی۔
’’ابا میاں! اے ابا میاں! بلی کو مارنا بھی تو بڑا منحوس ہوتا ہے۔‘‘ اماں بی کی صورت میری آنکھوں کے سامنے چھائی ہوئی دھند میں اچانک ابھر آئی۔ ان کی آنکھیں سرخ تھں اور پپوٹے بھاری ہو کر آنکھوں پر جھک آئے تھے۔
’’بہو! میں اس منحوس کو اپنے گھر نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ دادا میاں ہونٹ چبا چبا کر کہنے لگے۔ ان کی دھنسی ہوئی آنکھیں جیسے حلقوں سے ابلی پڑ رہی تھیں۔
’’مگر دادا میاں! یہ تو ابا میاں کے سامنے گھر آئی تھی۔ اور انہوں نےاسے کچھ بھی نہ کہا تھا۔‘‘ میں نے اپنی نیلم کو ان سے لینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’وہ کچھ کہتے کیسے؟ اس منحوس نے تو ان کی زبان ہی بند کردی تھی۔‘‘ دادا کی آنکھوں میں ایک دم آنسو آگئے۔ لیکن نیلم کی گردن ابھی تک ان کی گرفت میں تھی۔ دادا میاں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’بچی! بلی بڑی منحوس ہوتی ہے۔ دیکھو جس دن یہ گھر میں آئی موت کو ساتھ لائی، تمہارا باپ چٹ پٹ ہوگیا، ہرا بھرا باغ اجڑ گیا۔ میرے بڑھاپے کی لاٹھی چھن گئی اور۔۔۔‘‘ ان کی آنکھیں جیسے حلقوں سے ابل پڑیں، چہرہ لال انگارہ، داڑھی کے بال کھڑے ہوگئے اور پھر وہ جھپٹ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔۔ اماں بی ہانپتی کانپتی انھیں اور ان کے کمرے میں کے بند کواڑوں کے پاس جا کر کہنے لگیں، ’’ابا میاں! میں ہاتھ جوڑتی ہوں۔۔۔ اس کی جان نہ لیجیے کا۔‘‘ اتنا کہہ کر ان کی آواز بھرا گئی اور وہ اپنے ننگے ہاتھ بھیگے زرد گالوں سے لگا کر رونے لگیں۔
میں خوف سے لرزتی ہوئی دوبارہ اپنے بستر پر آئی جس پر میری نیلم کے کئی ایک سفید روئیں کانپ رہے تھے۔۔۔ میں لحاف میں گھس گئی اور سسک سسک کر سوچتی رہی کہ دادا میاں کہتے ہیں، ’’نیلم اپنے ساتھ موت لائی۔‘‘ مگر وہ تو بالکل اکیلی تھی۔ سبھی نے یہی دیکھا تھا۔۔۔ دادا میاں اتنے بڈھے ہوکر جھوٹ بولتے ہیں۔۔۔؟ اور پھر یہ بات تو کسی طرح سمجھ میں آتی ہی نہ تھی کہ ابا میاں کے چلے جانے سے نیلم کا کیا تعلق؟
’’تم نے اب تک نہیں پھینکی یہ منحوس؟‘‘ نانا میاں نے زور سے کہا اور جیسے یاد رفتہ کا فلم اچانک جل اٹھا۔ میں نے اپنی گود کی نرم و گرم بلی کو غور سے دیکھا۔ اس کی نیلی نیلی آنکھیں ایسی معصوم ہو رہی تھیں جیسے کانچ کے ننھے ننھے آسمانی پیالوں میں لرزتا ہوا شفاف پانی۔ میری طبیعت بہت زیادہ اداس ہو رہی تھی۔
’’اماں بی! ایک بات تو بتائیے۔‘‘
’’کیا بات؟‘‘ وہ حیرت سے بولیں۔
’’نیلم، میرے بچپن کی چہیتی بلی کا کیا انجام ہوا تھا؟‘‘
’’اسے تمہارے دادا میاں اپنے ہاتھ سے بوری میں بند کر کے تالاب میں پھینک آئے تھے۔ وہ ڈرتے تھے کہ کہیں پھر وہ گھر واپس نہ آجائے۔‘‘ ان کی آواز میرے کانوں میں اس طرح آ رہی تھی جیسے آندھی کے جھکڑوں میں کوئی دور سے متواتر پکار رہا ہو۔
’’دھپ!‘‘ روئی جیسی بلی تو ہم پرست انسانوں کی شقی القلب پر تڑپی اور کود کھڑکی سے نکل بھاگی۔
نیلم نیلم! میرے دماغ پر وہ دھنکی روئی کا چھایا ہوا ملائم تو دہ آہستہ آہستہ بھاری ہونے لگا۔
مأخذ : سب افسانے میرے
مصنف:ہاجرہ مسرور