کہانی کی کہانی:’’ایک نوجوان طوائف نسرین کی بانہوں میں پڑا ہوا ہےاور اس سے اپنی مرحوم بیوی کی باتیں کر رہا ہے۔ نسرین کی ہر ناز و انداز میں اسے اپنی بیوی کا عکس نظر آتا ہے۔ وہ اپنی بیوی کی ہر بات نسرین کو بتاتا ہے۔ شروع میں نسرین اس کی باتیں دلچسپی سے سنتی ہے پھر بعد میں اوبنے لگتی ہے اور ترس کھاکر اسے کسی ماں کی طرح اپنی بانہوں میں بھر لیتی ہے۔‘‘
وہ دونوں تیسری منزل کے ایک کمرے میں تھے۔ یہ چھوٹا سا کمرہ اپنی ہلکی نیلی روشنی کے ساتھ باہر سے یوں دکھائی دیتا گویا ٹرین کا کوئی ٹھنڈا ڈبہ ہے، جس طرح ریلوے والے گرمی کے موسم میں ’’فردوس سیمیں‘‘ یا ’’خواب سیمیں‘‘ وغیرہ شاعرانہ نام رکھ کر بعض خاص گاڑیوں میں جوڑ دیتے ہیں۔
بارشوں کا زمانہ قریب قریب ختم ہو چکا تھا۔ مکانوں میں بسنے والی مخلوق نے پسینے، بدبو اور گھٹن سے نجات پائی تھی۔ فضا میں خصوصاً رات کے وقت خنکی ہونے لگی تھی۔ ہاں جب کوئی بڑا سا کالے رنگ کا پتنگا اپنی تیز بھنبھناہٹ کے ساتھ اندھا دھند کسی برقی قمقے کے چکر کاٹنے لگتا تو ظاہر ہوجاتا کہ برکھا رت ابھی گئی نہیں۔
’’نجمہ بھی ٹھیک اسی طرح سیدھی مانگ نکالا کرتی۔‘‘ نوجوان نے کہا۔ ’’مگر کبھی کبھی وہ گدی تک مانگ لے جاتی۔۔۔ یہ طریقہ اس نے ایک بنگالن سے سیکھا تھا۔‘‘ نسرین چپ رہی، نظریں فرشی سنگھار میز کے آئینے پر جمائے جس میں اسے اپنا دھندلا دھندلا نیلگوں عکس دکھائی دے رہا تھا، وہ بالوں میں کنگھی کرتی رہی، جیسا کہ سونے سے پہلے بعض عورتوں کی عادت ہوتی ہے۔
نوجوان اس کے پاس ہی چاندنی پر کہنیوں کے بل اوندھا لیٹا ہوا تھا۔ یوں لیٹنے سے اس کی سفید سلک کی قمیص اور خاکی زین کی پتلون میں جابجا سلوٹیں پڑ گئی تھیں۔ اس نے چند لمحے جواب کا انتظار کیا، اور پھر کہنا شروع کیا، ’’کبھی کبھی نجمی اپنے دہنے کان کے پاس سے اپنے بھورے بالوں کی ایک لٹ نکال کر لام (ل) سا بنالیا کرتی جو اس کے سرخ وسفید بھرے بھرے گال پر بہت بھلا لگتا۔۔۔‘‘
نسرین کے چہرے پر خفیف سی اضمحلال کی کیفیت پیدا ہوئی۔ مگر زبان سے اب بھی اس نے کچھ نہ کہا۔ وہ سوچ رہی تھی یہ کیسا مرد ہے، جس کے پاس بات کرنے کو بیوی کے سوا اور کوئی موضوع ہی نہیں۔ وہ دوگھنٹے سے برابر اسی عورت کا ذکر سنے جا رہی تھی، جواب دنیا میں موجود نہ تھی۔ ان دو گھنٹوں وہ اس نوجوان کی متاہل زندگی کے تمام اہم واقعات اور اس کی مرحوم بیوی کی بہت سی عادتوں اور خصلتوں سے واقف ہوچکی تھی۔ یہ کہ اسے بچپن ہی سے اپنی بیوی سے عشق تھا۔ یہ کہ نجمہ کا باپ ان کی شادی کے خلاف تھا مگر ماموں اور چچا حق میں تھے۔ یہ کہ نجمہ لمبے قد کی تھی۔ اسے گانا سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ جب وہ ہنستی تو اس کے بائیں گال میں گڑھا پر جاتا۔ اسے حنا کاعطر بہت مرغوب تھا۔۔۔ وہ کروشیے سے مور بہت اچھا بنایا کرتی۔۔۔
شروع شروع میں نسرین کو اس ذکر سے کچھ یوں ہی سی دلچسپی ہوئی تھی جیسا کہ ابتدا میں عموماً ایک عورت کو دوسری عورت کے ذکر سے ہوا کرتی ہے۔ مگر جلد ہی وہ اس سے بیزار ہوگئی تھی اور آخر جب اس کی جمائیاں اور انگڑائیاں بھی اس موضوع سے اس کا پیچھا نہ چھڑا سکیں تو زچ ہوکر اس نے چپ سادھ لی تھی۔
وہ اب چوٹی کرکے جوڑا باندھ چکی تھی اور ان ہئرپنوں اور کلپوں کو جن سے وہ اپنے بالوں کی آرائش میں مدد لیا کرتی، فرش سے اٹھا اٹھاکر سنگھار میز کے خانے میں ڈال رہی تھی۔ اس اثنا میں نوجوان کی نظریں اس کی گوری گوری انگلیوں کی خفیف ترین حرکات کا بھی تعاقب کرتی رہی تھیں۔
دو منٹ خاموشی میں گزر گئے۔
کئی دن ہوئے اس نوجوان نے نسرین کو دیکھا تھا۔ اسے دیکھتے ہی اسے اپنی مرحوم بیوی کی یاد بے طرح ستانے لگی تھی اور وہ اس سے ملنے کی تدبیریں کرنے لگا تھا اور آخر جب اس نے اس قدر روپیہ جمع کرلیا کہ دوراتوں کے لیے اس عورت کو خریدسکے تو اس نے سیدھا اس کے گھر کارخ کیا۔
’’میری بیوی۔۔۔‘‘
’’تو گویا بہت محبت تھی آپ کو بیگم صاحب سے۔‘‘ بالآخر نسرین نے بات کاٹ کر کہا۔ جب ایک آدمی بولے ہی چلا جائے تو دوسرا کب تک چپ رہ سکتا ہے۔
’’بے حد۔‘‘ بے ساختہ نوجوان کے منہ سے نکلا۔ وہ اس کے طعن کو نہیں سمجھ سکا تھا۔
’’مگر صاحب آپ کی باتیں بھی عجیب ہیں۔‘‘ ایک انتقامی جذبہ اس میں پیدا ہو رہا تھا۔ ’’سمجھ میں نہیں آتا وہ کیسی محبت تھی جو اس کے مرنے کے تین ہی مہینے بعد رفوچکر ہوگئی، اور اب۔۔۔‘‘
وہ فقرہ مکمل نہ کرسکی۔ شائد اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔ کیونکہ نوجوان اس کامطلب بخوبی سمجھ گیا تھا۔ وہ کچھ دیر گم سم رہا۔ پھر اس نے اپنی صاف اور روشن آنکھیں اٹھاکر جن میں مجرمانہ گھبراہٹ یا گناہگارانہ ندامت کی کوئی علامت نہ تھی، نسرین کے چہرے کی طرف دیکھا۔ پھر وہ آلتی پالتی مار کے بیٹھ گیا کہ شائد لیٹے رہنے سے وہ اپنی مدافعت پورے طور پر نہ کرسکے۔ اس کے ہونٹ پل بھر کو لرزے مگر زبان کچھ نہ کہہ سکی۔ چند لمحوں تک دونوں خاموش بیٹھے رہے۔ اس کے بعد نسرین انگڑائی لیتی ہوئی اور بغیر کچھ کہے کمرے سے نکل گئی۔
کوئی پاؤ گھنٹے بعد وہ واپس آئی۔ زیور وغیرہ اس نے اتار دیے تھے۔۔۔ اور شب خوابی کے لیے ایک سادہ سی اجلی دھوتی باندھ لی تھی۔ وہ اس قدر آہستہ سے داخل ہوئی کہ نوجوان نے اس کے قدموں کی چاپ تک نہیں سنی۔ وہ چاندنی پر پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا۔ اس کی عمر چوبیس پچیس برس سے کم نہ ہوگی مگر اس وقت برقی لیمپ کی مدھم نیلی روشنی میں وہ اپنی چھوٹی چھوٹی سیاہ مونچھوں، گھنے ابروؤں اور چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ کالج کی کسی ابتدائی جماعت کا طالب علم معلوم ہوتا تھا۔ اس کے سامنے چاندنی پر مٹر کے دانے کے برابر ایک سیاہ پتنگا چت پڑا تھا، جو شائد برقی قمقے سے ٹکراکر نیچے آرہاتھا۔ پتنگا اپنی ننھی ننھی بال سی ٹانگیں ہوا میں ہلا ہلاکر اور سرکو فرش پر رگڑ رگڑ کر سیدھا ہونے کی کوشش کرتا، مگر جہاں اسے ذرا کامیابی ہوتی، نوجوان ایک بجھی ہوئی دیا سلائی کے سرے سے پھر اسے اوندھا کردیتا۔ جب نسرین بالکل اس کے سر پر آکھڑی ہوئی تو وہ چونک پڑا۔
’’اوہ آپ ہیں۔‘‘ اور اس نے کچھ شرمندہ ساہوکر پتنگے کو دیا سلائی سے پرے اچھال دیا۔
’’بیگم صاحب کے مرنے کارنج تو بہت ہوا ہوگا آپ کو؟‘‘ یہ سوال کرکے وہ خود حیران رہ گئی۔
نوجوان نے لمحہ بھر تامل کیا اور پھر سنجیدہ لہجہ میں کہنا شروع کیا، ’’نہیں۔ شروع شروع میں کچھ ایسا غم نہیں ہوا تھا۔ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ ایسا ہوگیا ہے مگرمیں زیادہ دن اس فریب میں نہ رہ سکا۔ میں بیمار پڑ گیا۔ مہینہ بھر چارپائی پر پڑا رہا۔ جب میری حالت بہت خراب ہوجاتی تو امی جان اور زہرہ، یہ میری چھوٹی بہن کا نام ہے، میرے سرہانے آکر کھڑی ہو جاتی اور ایسی چپ چپ سہمی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھتیں کہ میں جلدی سے آنکھیں بند کرلیتا اور چاہتا کہ نہ مروں۔۔۔ بس پھر میں رفتہ رفتہ تندرست ہوتا گیا۔ اس کے لہجے نے نسرین کو متاثر کیا۔ دو تین لمحے پھر دونوں چپ رہے۔
’’آپ نے کہا تھا۔‘‘ اچانک نسرین کے لہجے میں شوخی جھلکنے لگی۔ ’’میری شکل بیگم صاحب سے ملتی جلتی ہے۔ بھلاکیا چیز ملتی ہے؟‘‘
نوجوان نے پل بھر غور کیا۔
’’سب سے زیادہ تمہاری آنکھیں نجمی سے ملتی ہیں۔‘‘ یہ کہتے وقت اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی تھی۔ مگر لہجے سے ابھی افسردگی کا اثر دور نہیں ہوا تھا۔ ’’ویسی ہی سیاہ اور گہری۔ دوسرے نمبر پر ٹھوڑی ویسی ہی پتلی اور تیسرے نمبر پر۔۔۔‘‘
’’چلیے ہٹیے بنائیے نہیں۔‘‘
’’تمہارے بال، تمہاری گردن۔۔۔‘‘
نوجوان کی فطری چونچالی تیزی سے بحال ہو رہی تھی اور نسرین خود کو روکے ہوئے تھی کہ اس سلسلہ میں کوئی اور سوال نہ کر بیٹھے۔
آدھ گھنٹے بعد روشنی گل کردی گئی تھی اور وہ دونوں کھڑکی کے پاس پلنگ پر دراز ہوگئے تھے۔ نوجوان جو رات کو جلد ہی سوجانے کا عادی تھا، زیادہ دیر تک نہ جاگا۔ نسرین آنکھیں کھولے دیر تک کھڑکی میں سے آسمان کو دیکھتی رہی۔ یہ قمری مہینے کی آخری تاریخوں کی ایک رات تھی۔ آسمان صاف مگر تاریک تاریک سا تھا۔ ستارے اس قدر تیزی سے چمک رہے تھے کہ معلوم ہوتا تھا زمین کے قریب سرک آئے ہیں۔ نسرین ستاروں کو ہمیشہ دلچسپی سے دیکھا کرتی تھی۔ سب سے پہلے جب وہ ستاروں سے آشنا ہوئی تھی، اس کی عمر چار برس کی تھی۔ ماں مرچکی تھی مگر باپ زندہ تھا۔ اس نے باپ کے ساتھ ریل گاڑی میں ایک لمبا سفر کیا تھا۔ آدھی رات کو وہ دونوں ایک چھوٹے سے دیہاتی اسٹیشن پر اترے تھے۔ اسی اسٹیشن پر لالٹین کی مدھم روشنی میں ایک موٹے ننگ دھڑنگ فقیر نے اسے ایسی لال لال ڈراونی آنکھوں سے گھورا تھا کہ اس کی چیخ نکل گئی تھی۔ اور وہ بے اختیار باپ کی ٹانگوں سے لپٹ گئی تھی۔ کچھ دیر دونوں اسٹیشن ہی پر ٹھہرے رہے مگر سواری نہ ملی۔ آخر باپ نے اسے گود میں لے لیا۔ گٹھری بغل میں ماری اور اندھیرے گھپ میں پیدل چلنا شروع کردیا۔
یہ سفر بھی بہت لمبا تھا، مگر اس کی سہمی ہوئی نظروں نے جلد ہی ستاروں کو ڈھونڈ نکالا تھا۔ ان کو دیکھ کر اس کا ڈر کم ہونے لگا تھا۔ یہاں تک کہ وہ باپ کے کندھے سے لگ کر سوگئی۔ آنکھ کھلی تو خود کو ایک اجنبی عورت کے گھر پایا۔ وہ کئی دن تک روتی بلکتی رہی مگر باپ کی صورت دیکھنا اسے پھر کبھی نصیب نہ ہوا۔۔۔
صبح کو نسرین کی آنکھ کھلی تو سورج خاصا نکل آیا تھا۔ اٹھتے ہی سب سے پہلے اسے جو احساس ہوا یہ تھا کہ نوجوان اس کے بستر پر موجود نہیں، اس نے سوچا غسل خانے میں ہوگا کھلے کھلے بستر پر کروٹیں بدلنے لگی۔ جب پاؤ گھنٹہ گزر گیا اور نوجوان کہیں نظر نہ آیاتو اسے الجھن ہونے لگی۔ شمن جھاڑو لیے کمرے میں آیا تو اس سے پوچھا، ’’وہ رات والے بابو کہاں ہیں؟‘‘
’’چلے گئے۔‘‘
’’چلے گئے؟‘‘ اس نے تعجب سے پوچھا۔
’’جی ہاں صبح صبح، ہم سب سو رہے تھے۔ دروازہ بھی تو کھلا ہی چھوڑ گئے۔‘‘
’’ویسے تو سب خیریت ہے نا؟‘‘ بے ساختہ اس کے منہ سے نکل گیا۔
’’جی سب خیریت ہے۔‘‘ شمن اس کا مطلب فوراً سمجھ گیا۔ ’’میں نے اٹھتے ہی سب دیکھ بھال لیا تھا۔‘‘
اپنے شبہے کے گھٹیاپن پراسے شرم آگئی مگر دوسرے ہی لمحہ اس خیال نے اس پر تسلط جما لیا کہ وہ نوجوان چلا کیوں گیا۔ اس نے سوچا رات اسے میرا طعنہ برا لگا وہ بڑا احساس تھا۔ اوپر اوپر سے ہنستا بولتا رہا صبح ہوتے ہی چل دیا۔ منہ ہاتھ دھوکر نیچے پھوپھی کے پاس جانے کو تھی کہ اچانک کسی کے جلد جلد سیڑھیاں چڑھنے کی آواز آئی۔ نوجوان گیا نہیں تھا۔ وہ رومال میں کچھ باندھے لیے آ رہا تھا۔
’’معاف کرنا۔‘‘ اس نے اپنے پھولے ہوئے سانس پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’میں تمہیں بتائے بغیرہی چلا گیا۔ میں نے جگانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ یہ لو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے رومال نسرین کے ہاتھ میں دے دیا۔
’’کیا ہے؟‘‘ نسرین نے پوچھا۔
’’گوشت ترکاری۔‘‘ یہ کہہ کر رہ مسکرانے لگا، جیسے اس نے کوئی شرارت کی ہو۔
’’گوشت ترکاری؟ کس نے کہا تھا لانے کو؟‘‘
’’خفا کیوں ہوتی ہو، بات یوں ہے جب نجمی زندہ تھی میں یوں ہی منہ اندھیرے اسے جگائے بغیر گھر سے نکل جاتا۔ ہواخوری کی ہوا خوری ہوجاتی اور گھر کا سودا بھی لے آتا۔ ہمیں نوکر رکھنے کی توفیق نہیں تھی۔ بس یوں ہی مل بانٹ کے کام کیا کرتے۔ وہ گھر کا اور میں باہر کا۔۔۔ ذرا دیکھو تو گوشت کیا عمدہ اور تازہ ہے آدھا دست کا اور آدھا پشت کا، اور گرد ا رونگے میں۔ نوکر کا باپ بھی ایسا گوشت نہیں لا سکتا۔ اور پھر ذرا کچنال تو دیکھو، آج ہی شہر میں آئی ہے۔ پھر پیاز بھی ہے ہری مرچیں بھی اور ادرک بھی اور دھنیا بھی۔‘‘
نوجوان داڑھی بھی منڈواتا آیا تھا۔ تھوڑا سا صابن اس کے کانوں کی لوؤں پر ابھی تک لگا رہ گیا تھا۔ نسرین کاجی چاہا کہ دوپٹہ کے دامن سے صابن کو پونچھ دے۔ مگر وہ ایسا نہ کرسکی۔
’’آپ نے ناحق تکلیف کی۔‘‘ نسرین نے کہا، ’’خیر اب لے آئے تو میں شمن کو بلواتی ہوں۔‘‘
’’نہیں۔ نہیں اسے مت بلواؤ۔‘‘
’’یہ کیوں؟‘‘
’’میں کھانا خود پکاؤں گا۔ جب نجمی زندہ تھی تو کبھی کبھی میں ہنڈیا پکایا کرتا وہ سامنے مونڈھے پر بیٹھی مجھے بتاتی رہتی۔۔۔‘‘
’’ہمارا شمن بھی بہت ہوشیار ہے۔‘‘ نسرین نے کہا، ’’ایسا کھانا پکاتا ہے کہ زبان چٹخارے لیتی رہ جاتی ہے۔‘‘
’’نہیں صاحب۔‘‘ نوجوان نے قطعی فیصلہ کرتے ہوئے کہا، ’’نجمی کچنال ایک خاص ترکیب سے پکایا کرتی تھی۔ وہ ترکیب یا تو وہ جانتی تھی یا میں جانتا ہوں۔۔۔ مہربانی کرکے آپ انگیٹھی، کوئلے اور چاقو منگوا دیجیے۔‘‘
نسرین نے اس سلسلہ میں کچھ اور کہنا مناسب نہ سمجھا اور خاموش سیڑھیوں سے اترگئی۔
’’اوبیٹا!‘‘ نسرین کی پھوپھی نے اسے دیکھ کر اگالدان میں پیک تھوکتے ہوئے کہا، ’’میں ابھی ابھی شمن سے کہہ رہی تھی کہ تمہارا اور اس کا ناشتہ اوپر لے جائے۔‘‘
’’میں ناشتہ نہیں کرو ں گی، اس کے لیے اوپر بھیج دو۔‘‘
’’تم چپ کیوں ہو؟‘‘
’’نہیں تو۔۔۔!‘‘
’’شکل سے تو بڑا کم زبان معلوم ہوتا ہے۔‘‘
نسرین نے کچھ جواب نہ دیا۔
’’کیا کر رہا ہے، اس وقت؟‘‘ پھوپھی نے پوچھا۔
’’ہنڈیا کا سودا خرید کر لایا ہے، خود ہی پکانے بیٹھا ہے۔‘‘
نسرین کی پھوپھی کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’سچ!‘‘
’’ہاں ہاں!‘‘
’’بڑا ہی سیدھا سادہ ہے۔‘‘
’’خبطی ہے پورا، رات بھر اپنی مری ہوئی بیوی کی باتیں کرکے دماغ چاٹ گیا۔۔۔ شمن کو اس کے پاس بھیج دینا ہاتھ بٹا تارہے گا۔ میں ذرا نوبہار کے ہاں جاتی ہوں۔‘‘
نسرین کا خیال تھا کہ وہ کم سے کم ایک گھنٹہ نوبہار کے ہاں ضرور ٹھہرے گی مگر پاؤ گھنٹہ بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ اٹھ آئی۔ سیدھی اوپر کی منزل میں پہنچی۔ دیکھا کہ کمرے کے باہر دالان میں انگیٹھی دہک رہی ہے اور نوجوان اس کے پاس ہی ایک چھوٹی دری پر آلتی پالتی مارے بیٹھا پیاز کتر رہا ہے، آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں، پانی بہہ رہا ہے۔ اس سے ذرا ہٹ کے شمن بیٹھا بڑے مزے سے یہ تماشا دیکھ رہا ہے۔
’’شمن!‘‘ نسرین نے کسی قدر سختی سے کہا۔ ’’تم بیٹھے منہ کیا تک رہے ہو۔ صاحب سے پیاز لے کر کیوں نہیں کترتے؟‘‘
’’میں تو کئی فعہ عرض کرچکا ہوں۔‘‘ شمن نے منہ بناکر کہا۔ ’’پر صاحب مانتے ہی نہیں۔ مجھ سے آگ جلانے کو کہامیں نے آگ جلادی۔‘‘
’’اچھا تم نیچے جاؤ۔‘‘
جب شمن چلا گیا، تو نسرین نے کہا، ’’حضرت یہ اس عمر میں ہنڈ کلھیا پکانے کی کیا سوجھی ہے۔ لائیے پیاز مجھے دیجیے اور جاکر آنکھوں پر چھینٹے دیجیے۔ اور اس نے ہاتھ بڑھاکر نوجوان کی گود سے پیاز کی رکابی خود ہی اٹھالی، نوجوان نے مزاحمت نہ کی۔ دوگھنٹے کے بعد جب وہ دونوں دسترخوان پر کھانا کھانے بیٹھے تو نوجوان نے کہا، ’’معاف کرنا، میری وجہ سے تم کو اتنی تکلیف اٹھانی پڑی۔ بات یہ ہے کہ نجمی۔۔۔‘‘
’’باتیں چھوڑیے اور کھانا کھائیے۔‘‘
’’واہ کیا مزے کاکھانا پکایا ہے۔‘‘ نوجوان نے پہلا نوالہ منہ میں رکھتے ہوئے کہا، ’’نجمی کے ہاتھ کامزہ یاد آگیا۔‘‘
’’چلیے زیادہ بنائیے نہیں۔ چپاتیاں تو دیکھیے کیسی ٹیڑھی بینکی ہیں۔‘‘
’’چپاتیاں نجمی کو بھی پکانی نہیں آتی تھیں او رمیں زیادہ تر تنور ہی سے روٹیاں لگواکر لایا کرتاتھا۔‘‘
’’مجھے تنور کی روٹی زہر لگتی ہے۔‘‘
’’کبھی کبھی ہم کوئی سستا ساخانساماں بھی رکھ لیا کرتے مگر وہ پندرہ بیس روز سے زیادہ نہ ٹکتا پہلے چپکے کسی اچھے گھر کی ٹوہ میں رہتا۔ اور پھر کھسک جاتا۔‘‘
کھانے سے فارغ ہوکر دونوں کمرے میں فرش پر آبیٹھے۔
’’آپ نے کہا تھا۔‘‘ نسرین نے کہا، ’’آج کل آپ کسی دوست کے ہاں رہتے ہیں۔‘‘
’’ہاں نجمی کے مرنے کے بعد میں نے امی جان اور زہرہ کو تو گاؤں بھیج دیا تھا اور خود ایک دوست کے ہاں اٹھ آیا تھا۔ یہ دوست بھی میری طرح اکیلا ہی ہے۔ ہم دونوں مکان کے کرائے، کھانے پینے کے خرچ اور نوکر کی تنخواہ میں ساجھی ہیں۔‘‘
’’اور آدھی تنخواہ آپ امی جان کو بھیج دیتے ہیں؟‘‘
’’ہاں۔ مگر وہ ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے کچھ نہ کچھ لوٹاتی ہی رہتی ہیں۔ کبھی گرم پتلون سلوانے کے لیے کبھی نیا بوٹ خریدنے کے لیے۔‘‘ نسرین نے محسوس کیا کہ اس کی ماں اسے بہت چاہتی ہوگی۔
’’اپنی ہمشیرہ کی کیا عمر بتائی تھی آپ نے؟‘‘
’’دس برس، بڑی پیاری بچی ہے۔‘‘
’’اسکول جاتی ہے؟‘‘
نہیں، گھر میں مولوی صاحب سے پڑھتی ہے۔ سینا پرونا اسے دادی سکھاتی ہے۔ اس نے ایک بکری پالی ہے۔ دودھ سی سفید، ایک بھی کالا بال نہیں۔ زہرہ ہی اس کی بڑی دیکھ بھال کرتی ہے۔ کھیت سے بونٹ توڑ لاتی ہے اپنے ہاتھ سے کھلاتی ہے۔ ہمارے گاؤں کے پاس ہی چھوٹی سی ندی بہتی ہے، وہ اسے وہاں پانی پلانے لے جاتی ہے۔ ایک دن کیا ہوا کہ وہ بکری پانی پی رہی تھی کہ ایک بڑا سا کتا آیا وہ جو زور سے بھونکا تو بکری ڈر کر ندی میں گر پڑی۔ پانی کا بہاؤ تیز تھا۔ وہ اس کے ساتھ بہہ چلی اس پر زہرہ نے چیخ چیخ کر برا حال کرلیا۔ اتفاق سے ایک کسان ادھر سے گزرا، شورسن کر دوڑا ہوا آیا۔ بڑی مشکل سے بکری کو نکالا تب زہرہ کی جان میں جان آئی۔۔۔‘‘
نسرین یہ سادہ سا بے رنگ واقعہ بڑی دلچسپی سے سنتی رہی۔ اب نوجوان پر کچھ غنودگی طاری ہو رہی تھی۔ وہ گاؤ تکیے کے سہارے لیٹ گیا رفتہ رفتہ اس کی آنکھیں بند ہوگئیں اور وہ سوگیا۔ نسرین اٹھی۔ الماری کے خانے سے سفید ململ کا دوپٹہ اور گوٹا اٹھا لائی اور نوجوان کے قریب ہی فرش پر بیٹھ دوپٹہ میں گوٹا ٹانکنے لگی۔ مگر تھوڑی ہی دیر میں اس کا جی اکتا گیا اور وہ بھی پلنگ پر جاکر لیٹ گئی۔
تیسرے پہر ایک رکشا منگوایا گیا اور وہ دونوں بازار جانے کی تیاری کرنے لگے۔ نوجوان نے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اسے کوئی تحفہ خرید کر دینا چاہتا ہے۔ اس نے بغیر کسی شرم و حجاب کے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ نسرین بیس روپے تک کی جو چیز چاہے خرید سکتی ہے اس سے زیادہ کی اسے توفیق نہیں۔
’’یہ سچ ہے۔‘‘ اس نے کہا، ’’کہ اتنے کم داموں کی کوئی چیز تمہارے لائق نہیں ہوسکتی۔ مگر میرا جی چاہتا ہے کہ میری کوئی چیز خواہ وہ کتنی ہی حقیر کیوں نہ ہو تمہارے پاس بطور یادگار رہے۔‘‘
اور وہ اس کے ساتھ چلنے پر رضامند ہوگئی تھی۔ پھوپھی کو اجازت دینے میں تامل ہوا تھا۔ مگر ایک تو نسرین خود جانے پر مصر تھی۔ دوسرے نوجوان کے چہرے سے ایسی معصومیت برس رہی تھی کہ کسی برے ارادے کا گمان تک نہ ہوتا تھا اور وہ خاموش رہ گئی۔ اور اب نسرین نیلے رنگ کا برقعہ اوڑھے نوجوان کے پہلو میں رکشا میں بیٹھی تھی۔ شہر کی کھلی سڑکوں پر ہزاروں عورتوں، مردوں کے بہتے ہوئے ہجوم میں یہ جوڑا بھی تھا۔ اسے دیکھ کر کسی کو یہ سوچنے تک کی پروا نہ تھی کہ ان کارشتہ زن و شوہر کے سوا اور بھی کچھ ہوسکتا ہے۔
وہ رکشا سے اتر کر کئی بازاروں میں سے گزرے۔ کئی دکانوں میں گئے۔ جب وہ سڑک پر چلتی تو وہ اس کے آگے پیچھے راستہ صاف کرتا، اسے آنے جانے والی گاڑیوں، موٹروں اور ہجوم کی دھکاپیل سے بچاتا یوں اپنی حفاظت میں لے جاتا گویا وہ کوئی بہت مقدس چیز ہے۔ جس کا دامن تک کسی سے چھو جانا اسے گوارا نہیں۔ جب وہ کسی دکان میں داخل ہوتے تو اس کی فرمائش کی چیزیں دکاندار سے منگوا منگواکر ایسی تکریم سے پیش کرتا کہ دیکھنے والے یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکتے کہ یہ کوئی نیا جوڑا ہے۔ اور یہ کہ شوہر بیوی سے کمال عشق رکھتا ہے۔
نسرین نے بڑی قیمت کی کوئی ایک چیز نہیں خریدی بلکہ روز مرہ کے استعمال کی کئی چھوٹی چھوٹی چیزیں خریدیں۔ جن میں سے بعض کی واقعی اسے ضرورت تھی، مثلاً ایک تو چٹلا خریدا۔ ایک ریشمی ازاربند، کچھ چھوٹی بڑی سوئیاں، دوتین مختلف رنگوں کے تاگے، تاگے کی ریلیں، کچھ کروشیا کی سلائیاں، ایک فریم، دو تین مختلف غازے اور بس، ان سب چیزوں پر بیس روپے سے کچھ کم ہی خرچ ہوئے۔ ہر ایک چیز خریدنے کے بعد وہ بڑی ادا کے ساتھ پوچھتی، ’’باقی کیا بچا؟‘‘
واپسی پر نوجوان اسے ایک ریستوران میں لے گیا اور ٹھنڈی اور گرم کئی قسم کی چیزیں منگوائیں اور نسرین کو اپنی مرضی کے خلاف کئی چیزیں کھانی پڑیں۔ جس وقت وہ گھر پہنچے اچھاخاصا اندھیرا پھیل چکاتھا۔ نسرین کی پھوپھی بڑے اضطراب سے اسکی راہ دیکھ رہی تھی۔ جب وہ صحیح سلامت گھر پہنچ گئے تو اس کی جان میں جان آئی۔ شمن سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے۔ چنانچہ شام سے اوپر کی سیڑھیوں کا دروازہ بند کردیا گیا۔ نسرین نے پچھلی رات کی طرح پھر کمرے کی ہلکی نیلی روشنی میں کنگھی کرنی شروع کی۔ نوجوان پھر اس کے پاس ہی چاندنی پر لیٹ گیا۔ کچھ دیر دونوں خاموش رہے پھر نوجوان نے کہا،
’’نسرین میں نے تمہیں نجمی کی بہت سی باتیں بتائیں مگر ایک بات نہیں بتائی۔‘‘ نوجوان نے یہ بات ایسے گمبھیر لہجے میں کہی تھی کہ نسرین بے ساختہ کہہ اٹھی، ’’وہ کیا؟‘‘ نوجوان کچھ لمحے خاموش رہا اور پھر بولا، ’’وہ یہ کہ وہ۔۔۔ باوفانہیں تھی۔‘‘
’’کیامطلب؟‘‘ نسرین نے اور بھی متعجب ہوکر پوچھا۔
’’مطلب یہ۔۔۔ کہ وہ کسی اور کو چاہتی تھی۔‘‘
’’جھوٹ ہے۔‘‘
’’نہیں میں سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’اس کا کوئی ثبوت بھی تھا؟‘‘
’’مجھے ثبوت مل گیا تھا۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
نوجوان لمحہ بھر کے لیے خاموش رہا۔ پھر بولا، ’’اس کے خط۔ میں نے غلطی سے اس کے نام کا ایک خط کھول لیا تھا۔‘‘ یہ کہتے کہتے نوجوان ایک دم سخت افسردہ ہوگیا اور اس نے گردن جھکالی۔
’’اور تم پھر بھی اسے چاہتے رہے؟‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ بھرائی ہوئی آواز میں نوجوان کے منہ سے نکلا ’’اس کے سوا چارہ ہی نہ تھا۔‘‘
کئی لمحے خاموشی رہی جسے توڑنے کی کسی میں خواہش پیدا نہ ہوئی۔
’’کیا وہ جانتی تھی کہ تم اس کے اس راز سے واقف ہو؟‘‘ بالآخر نسرین نے اس سے پوچھا۔
’’نہیں میں نے آخری دم تک اس پر یہ ظاہر نہ ہونے دیا۔ اس کی موت سے چند منٹ پہلے مجھے ایسا محسوس ہواجیسے وہ سخت نزع میں ہے اور مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہے۔ مگر میں اس سے آنکھ نہ ملاتا تھا البتہ دلداری اور تشفی کے کلمے برابر میرے منہ سے نکلتے رہے۔ یہاں تک کہ اس نے آخری ہچکی لی اور رخصت ہوگئی۔‘‘
کچھ لمحے پھر خاموشی رہی جس کو خود نوجوان ہی نے توڑا، ’’آخر اس پر یہ ظاہر کرنے کا فائدہ بھی کیا تھا!‘‘
اس رات پچھلی شب کی بہ نسبت جلد ہی روشنی گل کردی گئی۔ نوجوان پھر جلد ہی سوگیا۔ مگر نسرین برابر ستاروں کو جھلملاتے دیکھتی رہی۔
پچھلے پہر اچانک نوجوان نے سوتے میں سبکی لی اور پھر تیز تیز سانس لینے شروع کردیے۔ نسرین نے سر اٹھا کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا، کچھ دیر سوچتی رہی پھر جس طرح کوئی بچہ سوتے سوتے ڈر جائے تو ماں اسے چھاتی سے چمٹا لیتی ہے۔ نسرین نے بھی اسی طرح اس کا سر اپنے بازو میں لے کر اسے اپنے آغوش میں بھینچ لیا۔
مصنف:غلام عباس