کہانی کی کہانی:‘‘ایک پہاڑی پر دو مکان ہیں۔ در اصل ایک ہی مکان کو درمیان میں دیوار کھڑی کر کے دو مکان بنا دیے گیے ہیں۔ ان مکانوں میں تین بچےرہتے ہیں، ایک میں دو بھائی اکبر اور اس کا چھوٹا بھائی اور دوسرے میں بیری۔ بیری کے لیے اکبر کےدل میں محبت، پہاڑی آب و ہوا اور ان تینوں کی دلچسپ گفتگو کو بنیاد بناکر کہانی بنی گئی ہے۔’’
اس پہاڑی پر وہ فقط دو ہی گھر تھے۔ مکان تو اصل میں ایک ہی تھا۔ مگر بعد میں اس کے مالک نےاس کے بیچوں بیچ لکڑی کی ایک پتلی سی دیوار کھڑی کرکے اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ اور اب اس میں الگ الگ دوخاندان رہتے تھے۔ پہاڑوں پر مکان ویسے ہی چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس پر دو حصوں میں بٹ جانے سے اس کی مکانیت محض نام کو رہ گئی تھی۔ چنانچہ اس کے رہنے والوں کو اگر یہ تسلی نہ ہوتی کہ وہ گرمی کا زمانہ پہاڑ پر بسر کر رہے ہیں۔ تو وہ بہت ہی آزردہ رہاکرتے۔
لکری کا بنا ہوا مخروطی وضع کا یہ مکان جس پر سرخ روغن کیا گیا تھا۔ پہاڑی کی ایک ڈھال پر واقع تھا۔ اس تک پہنچنے کے لیے لکڑی کاایک لمبا زینہ چڑھنا پڑتا تھا۔ مکان کے سامنے تھوڑی سی زمین تھی جس کو ہموار کرکے پھلواری بنانےکی کوشش کی گئی تھی۔ مگر وہ پھلواری بے توجہی کاشکار ہوکے رہ گئی تھی۔ اور اب اس میں ڈیلیا کا ایک آدھ پودا ہی رہ گیا تھا۔ جو گویا بری ڈھٹائی سے اس کی یاد کو قائم رکھنے پر مصر تھا۔
اس پھلواری کے سرے پر لکڑی کا ایک بنچ رکھا تھا۔ اس پر بیٹھے تو نیچے وادی کاحسین مگر اداس اداس منظر دکھائی دیتا۔ جتنی دیر سورج غائب رہتا۔ ہلکی ہلکی نیلی دھند مکڑی کے جالے کی طرح اس منظر پر چھائی رہتی۔ اور ایسا نظر آتا جیسے پانی میں عکس دیکھ رہے ہوں جب سورج نکلتا۔ تو دھندایکا ایکی سنہری ہوکر اس مرقع کو اور بھی حسین بنادیتی۔ مگر چند ہی لمحوں کے بعد آنکھوں میں چکاچوند ہونےلگتی۔ اور دیکھنے والاجلد ہی اپنی نظریں پھیر لیتا۔
اگست کی ایک صبح کو ابھی آفتاب نے مشرقی سلسلہ کوہ کی دوپہاڑیوں کے بیچ ے سر نکالا ہی تھا کہ ایک چھوٹا سالڑکا ایک گھر میں سے نکلا۔ اس کی عمر مشکل سےآٹھ نو برس کی ہوگی۔ اس نےسرخ اون کا پل اوور اورنیکر پہن رکھا تھا۔ پاؤں میں بادامی رنگ کا فل بوٹ تھا جس کے کنارے مینہ میں بھیگ بیگ کے سیاہ پڑ گئے تھے۔ لکڑی کے برآمدے سےاترتے ہی لڑکے کی نظر بے اختیار ساتھ والے گھر کی طرف اٹھ گئی۔ مگر اس کا دروازہابھی بند تھا۔ لڑکے کی نظریں اس کی طرف سے اس طرح مایوس پلٹیں۔ گویا وہ کوئی مٹھائی یا کھلونوں کی دکان ہو۔ جسے دکان دار اپنی سستی کی وجہ سے وقت پرنہ کھولتا ہو۔ اس کے بعد اس کی نظر سامنے ڈیلیا کے پودے پر پڑی۔ جس میں ایک بڑا ساسرخ پھول صبح کی سنہری دھوپ میں بڑی تمکنت سےجھم جھما رہاتھا۔ اس پھول نے لڑکے کے دل کو لبھالیا۔ اور وہ لپک کر اس کی طرف گیا۔ وہ کئی لمحوں تک حیرت سے اس کی طرف تکتا رہا۔ اوس کی ننھی ننھی بوندیں اس کی پنکھڑیوں پر لرز رہی تھیں اور ان میں پھول کاعنابی رنگ جھلکتا ہوابہت بھلا لگتا تھا۔ لڑکے نے ایک بار پھر ساتھ والے گھر پر نظر ڈالی اور پھر بڑی احتیاط سے پھول کو توڑ لیا۔
وہ خوشی خوشی پھول کو ہاتھ میں تھامے ساتھ والے گھر کے برآمدے میں پہنچا۔ اور کمرے کے دروازے کو آہستہ سےدھکا دیا۔ مگر وہ اندر سے بند تھا۔ اس دروازے کے اوپر کے حصے میں شیشے جڑے ہوئے تھے۔ جن میں سے اندر کا اودے رنگ کاملگجا سا پردہ نظر آرہا تھا۔ وہ کچھ دیر دروازے کے پاس ہی کھڑا رہا۔ جیسے سوچ رہاہو دروازہ کھٹکھٹائے یا نہیں کہ اتنےمیں لکڑی کے فرش پر بھاری بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی اور ساتھ ہی چٹخنی کے کھلنے کی آواز آئی۔ لڑکا سہم کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا اور اس کا وہ ہاتھ جس میں ڈیلیا کا پھول تھا آپ سے آپ پیٹھ کے پیچھے چلا گیا۔
ایک بھاری بھرکم آدمی شب خوابی کالباس پہنے، کمبل کی بکل مارے ایک ہاتھ سے مسواک کرتادوسرے میں تھیلا تھامے باہر نکلا۔ پہلے تو اس نے لڑکے کی طرف توجہ نہ کی۔ مگر برآمدے سےنیچے قدم رکھتے ہی وہ مڑا۔
’’کیا بات ہے اکبر میاں؟‘‘ اس نے لڑکے سے پوچھا۔
’’جی کچھ نہیں۔‘‘ لڑکے کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔ اس کی آنکھوں کی چمک اچانک مدھم پڑگئی تھی۔
’’بیری سے کھیلنے آئے ہو؟‘‘
’’جی۔۔۔‘‘ اور وہ مسکرانے کی کوشش کرنے لگا۔
’’بیری تو سورہی ہے ابھی۔‘‘
لڑکے نے نظریں جھکالیں۔ مگر زبان سے کچھ نہ کہا۔
’’تمہارے ہاتھ میں کیا ہے اکبر میاں؟‘‘ اس شخص نے پوچھا۔
’’جی پھول ہے۔‘‘ اور اس نے ڈرتے ڈرتے پھول سامنے کردیا۔ اس کا چھوٹا ساہاتھ شبنم سے ابھی تک گیلا ہو رہاتھا۔
’’بیری کے لیے؟‘‘
’’جی۔۔۔‘‘
’’بیری تو سو رہی ہے۔ اور پھر ابھی سویرا بھی تو ہے۔‘‘
لڑکے نےاسکا بھی کچھ جواب نہ دیا۔
’’آج اتوار ہے نا؟ تم اور بیری دن بھر خوب کھیلنا۔‘‘
یہ اس شخص نے چلتے چلتے کہا۔ پھر وہ مسواک کرتا ہوا کاٹھ کے زینے سے اتر گیا۔ اور اس پگڈنڈی پر ہولیا جو بل کھاتی ہوئی نیچے پہاڑی کے دامن تک چلی گئی تھی۔ جب تک پگڈنڈی کے بیچ و خم اس شخص کو کبھی چھپاتے کبھی دکھاتے رہے۔ اکبر برابر برآمدے میں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ آخر جب وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ تو اکبر نے ایک اور مایوسانہ نظر ساتھ والے کمرے پر ڈالی۔ اور پھر برآمدے سے اتر کر وہ ڈیلیا کے پودے کے پاس چلا آیا۔ جس میں اب کوئی دلکشی نہیں رہی تھی۔ وہ شاخ جس سے اس نے پھول توڑا تھا۔ لنجی لنجی سی نظر آرہی تھی جیسے کہہ رہی ہو۔ ’’اب مجھ میں اور کوئی پھول نہیں آئے گا۔‘‘
اکبر پودے کے پاس سے ہٹ آیا اور بنچ پربیٹھ گیا۔ سورج اب لمبے لمبے پیازی بادلوں کو پیچھے چھوڑ کر پہاڑیوں کے جھرمٹ سے نکل آیا تھا۔ اور اس نے نڈر ہوکر اپنا سفر طے کرنا شروع کردیا تھا۔ وہ دھند جو نچلی وادی پر چھائی ہوئی تھی دھیرے دھیرے دھوپ میں تحلیل ہو رہی تھی۔ اور نیچے کا منظرلمحہ بہ لمحہ نکھرتا آرہا تھا۔ آس پاس کے مکانوں کی کھڑکیوں میں انسانی چہرے نمودار ہونے شروع ہوگئے تھے۔ طرح طرح کی اضطراری حرکتیں ان سے ظاہر ہو رہی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ دماغ نے جس پر ابھی نیند کا اثر تھا جسم کی حرکات پر قابو رکھنا شروع نہیں کیا۔
نیچے دور سے اکبر کے اسکول کی گرجا نما عمارت نظر آرہی تھی جس پر بادنما مور بنا ہوا تھا۔ ایک مکان کی انگنائی میں جو نشیب میں واقع تھا۔ ایک گرہستن چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے کپڑے نچوڑ نچوڑ کر النگی پر ڈال رہی تھی۔ قریب ہی دیودار کی ایک شاخ پر ایک خوش رنگ چڑیا اپنی لمبی چونچ سے اپنی دم کے بال سونت رہی تھی۔ کبھی کبھی وہ داسی سے چہک بھی اٹھتی تھی۔
اکبر اس نظارے میں ایسا محو ہوا کہ اسے خبر بھی نہ ہوئی۔ اور اس نے ڈیلیا کے پھول کی ایک پتی نوچ لی۔ جب اسے اپنی اس کا علم ہوا تو اس نے ایک ایک ایک کرکے ساری پتیاں نوچ ڈالیں۔ اور ڈنٹھل کو ہوا میں اچھال دیا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ ڈنٹھل کو نیچے دور تک کھڈ میں گرتے دیکھتا رہے گا۔ مگر وہ تھوڑی ہی دور پر ایک جھاڑی میں اٹک کر رہ گیا۔
ایکا ایکی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی۔ سورج کی ساری دوڑ دھوپ کو بادلوں کے ایک جھرمٹ نے چھپا لیا اور پھر ایک ہی دم بوندیاں آنے لگیں۔
گرہستن نے منہ اٹھاکے آسمان کی طرف دیکھا اور پھر جلد جلد سارے کپڑے الگنی پر سے اتار لیے۔ جس گھر سے اکبر نکلا تھا اسی میں سے ایک اور لڑکا دوڑتاہوا برآمدے میں آیا، اس کا لباس بھی قریب قریب ویسا ہی تھا جیسا اکبر کا تھا۔ مگر اس کی عمر پانچ برس سے زیادہ نہ تھی۔
’’بھائی جان۔‘‘ اس نے چلاکر کہا۔ ’’امی بلا رہی ہیں۔‘‘
اکبر نےکچھ جواب نہ دیا۔
’’بھائی جان۔ امی کہتی ہیں ناشتہ کرلو۔‘‘
اکبر نےاب بھی کچھ جواب نہ دیا۔ وہ بدستور گھر کی طرف پیٹھ کیے بنچ پر بیٹھا رہا۔
لڑکا اندر چلا گیا۔ مگر پل بھر کے بعد وہ پھر آیا۔
’’بھائی جان۔ امی خفا ہو رہی ہیں۔‘‘ اس نے کہا۔
’’سن لیا سن لیا۔‘‘ بالآخر اکبر نے گردن پھیری۔ ’’آتا ہوں، آتا ہوں۔‘‘
چھوٹا لڑکا پھر اندر چلا گیا۔ ایک لمحہ بھی نہ گزرا تھا کہ ایک عورت جس کی جوانی ڈھل چکی تھی بڑے بڑے پھولوں والی بنفشی رنگ کی ساری کو کولہے پر سے سنبھالتی ہوئی برآمدےمیں نمودار ہوئی۔
’’اکبر بیٹے۔‘‘ اس نےمحبت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’اندر کیوں نہیں آتے میرے لعل ناشتہ کیوں نہیں کرتے۔ بوندیاں آرہی ہیں اور تم مینہ میں بیٹھے بھیگ رہے ہو۔ واہ بھئی واہ۔ اور کہیں زکام ہوگیا تو۔ابھی تو بیماری سے اٹھے ہو۔ جلدی سے آجاؤ میرے پیارے۔‘‘
’’میں آہی رہا تھا امی جان۔‘‘ اکبر نے بنچ سے اٹھتے ہوئے کہا۔ پھر وہ مینہ سے بچنےکی ذرا بھی کوشش نہ کرتا، سہج سہج قدم اٹھاتا برآمدے میں آیا۔ اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اس نے ایک بار پھر ساتھ والے گھر کے دروازے پر نظر ڈالی۔
مینہ کوئی پاؤ گھنٹہ تک برسا کیا۔ اس کے بعد ایک دم مطلع صاف ہوگیا۔ اور سورج نے پہلے سے بھی زیادہ بلند ہوکر اپنا سفر شروع کردیا۔
دونوں لڑکے پھر اسی گھر سے نکلے۔ اکبر تو ڈیلیا کے پودے کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا۔ اور چھوٹا لڑکا ساتھ والے گھر کے برآمدےمیں پہنچا اور اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے بے دھڑک دروازہ پیٹنا شروع کردیا۔
’’بیری!‘‘ اس نےچلاکر کہا۔
’’بیری!‘‘ اس نے جواب کاانتظار کیے بغیر اور بھی زور سے چلاکر کہا۔ ’’تمہیں بھائی جان بلا رہے ہیں۔ سچ مچ کا ہوائی جہاز ہے ان کے پاس۔ آؤ دیکھو۔‘‘
’’کیا ہے منیر میاں؟‘‘ اندر سے ایک ننھی سی آواز آئی۔
’’دروازہ کھولو۔‘‘ منیر نے کہا۔
’’چٹخنی لگ رہی ہے۔ میرا ہاتھ نہیں جاتا۔ امی غسل خانے میں ہیں۔‘‘
’’رات ماموں ہمارے لیے بڑا اچھا ہوائی جہاز لائے۔‘‘ منیر نے کہا۔
’’کہاں ہے وہ ہوائی جہاز؟‘‘
’’بھائی جان کے پاس۔‘‘
’’اچھا میں آتی ہوں۔‘‘
پانچ منٹ کے بعد دروازہ کھلا اور ایک ننھی سی لڑکی جس کی عمر کوئی سات برس کی ہوگی۔ برآمدے میں آئی۔ اس نےہلکے سبز رنگ کا پھولدار ریشمی کرتا اور کلی دار پاجامہ پہن رکھا تھا۔ فراک کے اوپر فیروزی اون کا کوٹ نما سویٹر تھا۔ دونوں شانوں پر ایک ایک چٹیا تھی۔ جس کے سرے پر سفید ربن بندھا ہواتھا۔ سینے پر آسمانی رنگ کے ہوائی ریشم کا ننھا سا دوپٹہ لہرا رہاتھا۔ پاؤں میں چھوٹے چھوٹے سبز ویڈ کے سینڈل تھے۔
ان دونوں بھائیوں کو بنچ پر بیٹھے دیکھ کر وہ ایک جھونکے کی طرح ان کے پاس پہنچی جیسے ہی منیر کی نظر اس کے چہرے پر پڑی وہ ٹھٹھا مار کے ہنسنے لگا۔
’’اوہو ہو ہو بیری!‘‘ اس نے کہاؤ ’’کتنا پوڈر مل رکھا ہے تم نے۔ تمہاری پلکیں کیسی سفید ہو رہی ہیں پوڈر سے۔‘‘
’’کب؟‘‘ لڑکی کی ساری چونچالی کافور ہوگئی۔
’’چپ رہو منیر۔‘‘ اکبر نے چھوٹے بھائی کو ڈانٹ بتائی۔
’’ذرا شیشے میں جاکر منہ تو د یکھو۔‘‘ منیر نے کہا۔
بیری نے انگلی سے اپنےگال کو چھوا۔ تھوڑا سا پوڈر اس کی انگلی کے سرے پر لگ گیا۔
’’دیکھا۔۔۔‘‘
’’بس جی بس۔‘‘ بیری نےاچانک بگڑ کر منیر کی بات کوکاٹتے ہوئے کہا۔ ’’ہم نہیں بولتے تم سے۔‘‘
’’منیر تم چپکے نہیں رہے تو میں پیٹ دوں گا تمہیں۔‘‘ اکبر نے منیر پر آنکھیں نکالیں۔
’’اکبر میاں۔‘‘ بیری منیر کو بالکل نظر انداز کرکے گویا وہ وہاں موجود ہی نہ تھا۔ اکبر کی طرف متوجہ ہوئی۔ ’’کہاں ہے وہ ہوائی جہاز جو تمہارے ماموں رات لائے ہیں؟‘‘
’’ابھی دکھاتا ہوں۔‘‘
’’ہے کہاں وہ؟‘‘
’’گھر میں رکھا ہے۔‘‘
’’تو لاؤ ابھی۔‘‘
’’ابھی لاتا ہوں۔‘‘
’’نہیں ابھی لاؤ۔‘‘
’’گھر میں رکھا ہے چل کے دیکھ لو نہ اندر۔‘‘
’’نا بھئی ہم نہیں جانے کے تمہارے گھر۔‘‘ بیری نےآنکھیں پھراکر کہا۔ ’’اس دن تمہاری امی خفا ہوئی تھیں ہم پر۔‘‘
’’واہ۔ تم پر تھوڑا ہی خفا ہوئی تھیں۔ وہ تو مجھ سےکہہ رہی تھیں۔‘‘
’’تو تم یہیں لے آؤ نہ ہوائی جہاز!‘‘
’’اچھی بات۔ تم یہیں ٹھہرو جانا نہیں۔ میں ابھی لاتا ہوں۔‘‘ اور وہ گھر کی طرف دوڑا۔ منیر ٹکٹکی باندھے بیری کے چہرے کو تک رہا تھا۔ مگر بیری نےاس کی طرف آنکھ اٹھا کے بھی نہ دیکھا۔ وہ نیچے وادی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ عین اس وقت وہ شخص جو صبح کمبل اوڑھے تھیلالے کے گیا تھا۔ کاٹھ کے زینے پر چڑھتا دکھائی دیا۔ اور بیری مارے خوشی کے ’’ابا جان‘‘ ’’ابا جان‘‘ چلاتی ہوئی اس کی طرف دوڑی۔
جس وقت اکبر ہوائی جہاز لے کر گھر سے باہر آیا۔ تو بیری ابا کے تھیلے کو جو پھل اور سبزی وغیرہ سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ ایک طرف سے پکڑے ان کے ساتھ ساتھ گھر میں داخل ہو رہی تھی۔
پانچ منٹ گزر گئے۔ اکبر اور منیر بنچ کے پاس کھڑے بیری کی راہ دیکھا کیے مگر وہ باہر نہ آئی۔
اکبر نے منیر کو ہوائی جہاز دےکر کہا۔ ’’یہ ہوائی جہاز لے جاکر بیری کو دکھادو۔‘‘
’’آپ نہیں چلتے؟‘‘
’’نہیں میں یہیں ٹھہرتا ہوں۔ کہنا بھائی جان تمہیں بلا رہے ہیں شاباش۔‘‘
لکڑی کا یہ ہوائی جہاز جس پر ہلکا ہلکا آسمانی رنگ کیا گیا تھا۔ خاصا بڑا تھا۔ منیر اسے بڑی مشکل سے سنبھالتا ہوا بیری کے دروازے پر پہنچا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا مگر اسے اندر جانےکی جرأت نہ ہوئی۔
’’بیری‘‘ اس نے باہر ہی سے چلاکر کہا۔ ’’لو دیکھ لو یہ رہا ہوائی جہاز!‘‘
بیری آم چوستی ہوئی دروازے کے پاس آئی۔
’’چیخ کیوں رہے ہو تم۔۔۔ اچھا تو یہ ہے ہوائی جہاز جو کل تمہارے ماموں لائے ہیں؟ افوہ کتنا بڑا ہے!‘‘
’’بھائی جان سامنے کھڑے ہیں۔ تمہیں بلا رہے ہیں۔‘‘
بیری اور اکبر کی آنکھیں چار ہوئیں۔ اکبر اسے دیکھ کر بنچ سےاٹھ کھڑا ہوا اور مسکرانے لگا۔
’’منیر میاں۔‘‘ بیری نے کہا۔ ’’اپنےبھائی جان سے کہو میں ٹھہر کے آؤں گی۔ ہم آم چوس رہے ہیں اس وقت۔‘‘
منیر ہوائی جہاز لے کر اکبر کے پاس پہنچا۔ دونوں بنچ پر بیٹھ گئے اور وادی کی سیر دیکھنے لگے۔ دس منٹ گزر گئے۔مگر بیری نہ آئی۔
آسمان پر رفتہ رفتہ بادل پھر چھا گئے تھے۔ اب کے بادل بہت گھنےاور قریب تھے۔ چنانچہ ہر طرف بھاپ ہی بھاپ پھیل گئی۔ جس نےہر چیز کو اوجھل کردیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک دم زور کا جھماکاپڑنے لگا۔ اکبر اور منیر کو ہوائی جہاز اٹھاکر گھر میں گھستے ہی بنی۔
یہ بارش کوئی گھنٹہ سوا گھنٹہ تک رہی۔ اور اس کے بعد پھر دھوپ نکل آئی۔
’’بیری۔‘‘ اکبر ایک ہاتھ میں ایک بری سی گیند لیے جس پر انگریز بچوں کی رنگین صورتیں بنی ہوئی تھیں۔ اور دوسرے میں ایک بڑی سی کتاب تھامے، بیری کے دروازے پر کھڑا تھا۔
’’بیری۔‘‘ اس نے دوبارہ آہستہ سے کہا۔
’’کیا ہے اکبر میاں؟‘‘ بیری نے اس کی طرف آتے ہوئےپوچھا۔
’’تم تو آئیں ہی نہیں!‘‘
’’کب؟‘‘
’’اس وقت۔‘‘
’’واہ۔ مینہ جو پڑ رہاتھا موسلا دھار۔ کہاں ہے ہوائی جہاز؟‘‘
’’وہ تو میں نے رکھ دیا۔ لو دیکھو یہ تصویروں کی کتاب!‘‘
’’اسی لڑکی کی کہانی ہوگی جو چٹیا نہیں کراتی تھی؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’واہ یہ تو ہم دیکھ چکے ہیں۔‘‘ اس نے تنک کر کہا۔
’’اچھا تو آؤ گیند سےکھیلیں۔‘‘
’’ہم گیند سے نہیں کھیلتے بھئی۔ امی کہتی ہیں۔ پھسلن ہو رہی ہے۔ باہر نہ جانا پاؤں رپٹ گیا تو کھڈ میں گر کر ہڈی پسلی چو رچور ہوجائے گی۔‘‘
’’اچھا تو ہم تمہارے برآمدے ہی میں کھیلیں گے۔‘‘
’’بھئی شام کو کھیلیں گے۔ اس وقت تو ہم ابا اور امی کے ساتھ کپڑا خریدنے جارہے ہیں۔‘‘
اور سچ مچ تھوڑی ہی دیر بعد بیری ابا کی انگلی پکڑے جنہوں نےاس وقت ڈھیلا ڈھالا انگریزی سوٹ اور ہیٹ پہن رکہاتھا۔ کاٹھ کے زینےسےاترتی دکھائی دے رہی تھی۔ پیچھے پیچھے اس کی امی مصری وضع کاسیاہ ریشمی برقعہ پہنے پان چباتی ہوئی آرہی تھیں۔ اکبر بنچ پر بیٹھا ان لوگوں کو بڑی دلچسپی سے دیکھتا رہا۔ اس کی نظر بار بار بیری پر پڑتی تھی۔ جس نےاب کلی دار پاجامہ اور دوپٹہ اتارکرفراک پہن لیا تھا۔ دور سے اس کی گوری گوری بھری بھری پنڈلیاں بہت بھلی لگتی تھیں۔ اس کے کان کے پاس بھورے بالوں کی ایک لٹ ہواسےاڑ اڑ کے بار باراس کے منہ پرآپڑتی تھی جسے وہ اپنے ننھے سے ہاتھ سے ہٹا ہٹا دیتی تھی۔
اکبر بنچ پر بیٹھا دیر تک اس چھوٹے سے سست گام قافلے کو پگڈنڈی کی بھول بھلیوں میں غائب ہوتے اور ابھرتے دیکھاکیا۔آخر جب وہ پہاڑی کے سب سےنچلے موڑ پر آخری جھلک دکھاکر اوجھل ہوگیا تو اس نے اپنی نظریں اس طرف سے ہٹالیں۔
بارش کبھی کی تھم چکی تھی۔ مگر ہوا کا کوئی تیز جھونکا چلتا تو دیوار کے درختوں سے بوندیاں جھڑنے لگتیں۔ دور کہیں کوئی نالا تھا۔ جس کا پانی بارش کی وجہ سے زور شور سے بہنے لگا تھا۔ اس کی شائیں شائیں کی آواز یہاں ایسی صاف سنائی دے رہی تھی کہ معلوم ہوتا تھا نالا کہیں آس پاس ہی ہے۔
ایک درخت پر ایک بڑا سا نیل کنٹھ اپنی کھوکھلی آواز سے چیخا۔ پرتولے۔ ہوا میں ایک زقند بھری اور پھر دوسرے درخت پر آبیٹھا۔ بظاہر اس نقل مکانی کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی تھی۔
دور افق کے پاس وہ پہاڑیاں جو عموماً بادلوں کے غبار میں کھوئی کھوئی رہتی تھیں۔ اچانک مطلع صاف ہوجانے سے اب واضح طور پر نظرآرہی تھیں۔ وہ دور تک ایک کے پیچھے ایک اس طرح دکھائی دے رہی تھیں جیسے شرمیلی لڑکیاں بڑی عمر کی کی لڑکیوں کیاوٹ لے کر جھانک رہی ہوں۔۔ بعض پہاڑیاں ہری بھری تھیں اور بعض لنڈ منڈ۔ مگر وہ آپس میں ایسی خلط ملط ہو رہی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی لحاف کو بے ترتیبی سے ہٹاکر بستر سےاٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اور لحاف کی کہیں تو اوپر کی سبز مخمل دکھائی دے رہی ہے اور کہیں اندر کاخاکستری استر۔
اکبر اس نظارے کو ایسی محویت سے دیکھ رہا تھا کہ اسے معلوم بھی نہ ہوا کہ اس کے تین ہم جماعت اس کی بنچ کو گھیرے ہنس رہے ہیں۔
’’اوہو! تم لوگ ہو۔‘‘ وہ چونک اٹھا۔ ’’تم کب آئے؟‘‘
’’اکبر۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔ ’’یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو۔ چلو ہمارے ساتھ فٹ بال کھیلنے!‘‘
’’تم جاؤ۔ مجھے کام ہے بھئی۔‘‘ اکبر نےکہا۔
’’واہ۔ یہ خوب کہی۔‘‘ دوسرے لڑکے نے کہا۔ ’’نہیں تمہیں چلنا ہوگا۔ دیکھو ہم نے آج ہی تو یہ نیا فٹ بال خریدا ہے۔‘‘
’’نہیں میں آج نہیں جاؤں گا۔‘‘
’’آحر کیوں؟‘‘
’’مجھے کام جو کرنا ہے بھئی۔‘‘
’’کیسا کام؟‘‘
’’کیسا کام۔۔۔ واہ اسکول کا کام جو دیا تھا ماسٹر صاحب نے!‘‘
’’تو تم سچ مچ نہیں چلو گے؟‘‘
’’نہیں آج نہیں کل۔‘‘ اور وہ بنچ سے اٹھ کھڑا ہوااور گھر کی طرف چل دیا۔
’’رہنے دو بھئی۔‘‘ ایک لڑکے نے کہا۔ ’’نہیں چلتا تو نہ چلے۔‘‘ اور وہ بڑبڑاتے ہوئے چلے گئے۔
شام کے چھ بج چکے تھے۔ جب بیری اپنے ابا اور امی کے ساتھ واپس آئی۔ اس نے ایک بقچہ اٹھا رکھا تھا۔
ابا جیب سے چابی نکال کر کمرے کا دروازہ کھولنے لگے۔ امی برقعہ اتارکر برآمدے کی ایک کرسی پر بیٹھ گئیں۔ وہ بہت تھکی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔
ذرا سی دیر میں بیری گھر میں بقچ چھوڑ کر باہر بنچ کے پاس آگئی۔ جہاں اکبر بیٹھا ہوا تھا۔
’’بیری تم آگئیں!‘‘ اور وہ جلدی سے بنچ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ ’’کپڑاخرید لیا؟‘‘
’’ہاں۔ میرا بڑاخوب صورت ریشمی سوٹ بنے گا۔ اس پر گلاب کے بڑے بڑے پھول ہیں۔ اور پھر ابا نے ہمیں بنارسی اوڑھنی بھی لے دی۔اور نئی سینڈل بھی۔ پھر ہم نے سنٹ بھی خریدا۔ لب اسٹک بھی اور نیل پالش بھی۔‘‘ اس کی آنکھیں خوشی سے ناچ رہی تھیں۔
’’بیری تم۔۔۔‘‘
’’مجھے بیری نہ کہا کرو جی۔‘‘ ایک لمحہ ہی میں وہ بگڑ گئی۔
’’پھر کیا کہا کروں؟‘‘
’’میرا نام ہے امیر النساء بیگم۔‘‘ یہ کہتے کہتے اس کے لہجہ میں بڑوں جیسی سنجیدگی پیدا ہوگئی۔
’’مگر تمہاری امی تو تمہیں بیری ہی کہتی ہیں۔‘‘
’’اونہہ۔‘‘
’’اور تمہارے ابا بھی۔‘‘
’’انہیں کہنے دو۔‘‘
’’ہم بھی تو تہیں بیری ہی کہیں گے۔۔۔ بیری!‘‘
’’دیکھو جی میں پھر کہے دیتی ہوں۔ مجھے بیری نہ کہا کرو۔‘‘
’’اگر کہوں تو۔۔۔؟‘‘
’’ہم تم سے نہیں بولیں گے۔۔۔ جاؤ میں تم سے نہیں بولتی۔ میں گھر جاتی ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے اکبر کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ پل بھر کو رکی۔ پھر گھر کارخ کر، پھلواری میں دوڑتی ہوئی تتلی کی سی ادا کے ساتھ آن کی آن میں نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ اکبر نے اسے واپس بلانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ چند لمحے دم بخود کھڑا رہا۔ پھر سہج سے آکر اسی بنچ پر بیٹھ گیا۔
ذراسی دیر میں سورج ڈوب گیا۔ اور آس پاس کی پہاڑیاں قرمزی بادلوں میں کھو گئیں۔ نیچے وادی میں جابجا سفید سفید دھوئیں پھوٹ رہے تھے۔ درختوں کی چوٹیوں سے، مکانوں کی چھتوں سے، پہاڑیوں کی ڈھلانوں سے جس سے وادی کا منظر دھندلا دھندلا ہوگیا تھا۔ اکبر کی نظر اپنے اسکول کی عمارت پر پڑی۔ جس کے بادنما مور کو اس وقت ابخرات کے غبار نے نطروں سے اوجھل کر رکھا تھا۔ بلاشبہ اس کے ہم جماعت ابھی تک اسکول کی گراؤنڈ میں فٹ بال کھیل رہے ہوں گے۔ اس کو اس بات کاافسوس نہیں تھا کہ وہ ان کے ساتھ نہیں گیا تھا۔ اور نہ اس کی پروا کہ شاید وہ اس سے ناراض ہوگئے ہوں۔ رہااسکول کا کام تو اس کی بھی اس کو زیادہ فکر نہ تھی۔ شایدکوئی بہانہ کارگر ہوجائے اور وہ اگلے روز ماسٹر کی جھڑکیوں اور تھپڑ سے بچ جائے۔
ہوامیں اب خاصی خنکی پیدا ہوگئی تھی۔ اس نے مٹھیاں بھینچ کر بغلوں میں دبالیں اور شانوں کو سکوڑ لیا۔ شاید اسے بیری کو بیری نہیں کہناچاہیے تھا۔۔۔ وہ سوچ رہا تھا۔ خواہ مخواہ کی لڑائی اس نے مول لی۔ وہ اب خاصی بڑی ہوگئی ہے۔ ہلکے سبز رنگ کے پھولدار ریشمی کرتے اور کلی دار پاجامے میں وہ کتنی سمجھ دار معلوم ہوتی تھی۔ اکبر کی آنکھیں بھر بھر آرہی تھیں مگر وہ رونا نہیں چاہتا تھا۔
اب شام ہوچکی تھی۔ نیچے وادی پر اندھیرا پھیلتا جارہا تھا۔ رفتہ رفتہ اس نے درختوں کے تنوں سے لپٹنا، مکانوں کا احاطہ کرنا اور پاڑیوں پر لمبے لمبے سائے ڈالنا شروع کیا۔ ذرا سی دیر میں اکبر کا اسکول، گھنٹہ گھر اور دوسری عمارتیں نظروں سے اوجھل ہوگئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے زمین سے آسمان تک ایک سیاہ چادر تن گئی۔ جو انسان حیوان شجر حجر ہرشے کو اپنے میں لپیٹنےلگی ۔اور بالآخر اس نےاکبر کو بھی چھپالیا۔ اس کے جسم ہی کو نہیں، اس کی روح کو بھی۔ ۱۹۴۷ء
مأخذ : کلیات غلام عباس
مصنف:غلام عباس