غازی مرد

0
164
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’مسجد کے امام صاحب کی ایک دیندار، پاکباز لیکن نابینا لڑکی ہے۔ مرنے سے قبل لڑکی کی ذمہ داری امام صاحب گاوں والوں کو دیتے ہیں۔ امام صاحب کے انتقال کے بعد گاوں میں پنچایت بلائی جانتی ہے اور گاؤں کے نوجوانوں سے امام صاحب کی لڑکی سے شادی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ ان نوجوانوں میں سے ایک خوبرو نوجوان، جسے کئی اور لوگ اپنا داماد بنانا چاہتے ہیں، اس لڑکی سے شادی کر لیتا ہے۔ وہ نوجوان گھر کے کام کاج کے لیے ایک لڑکی کو ملازم رکھ لیتا ہے۔ ملازمہ نابینا لڑکی کو ساری باتیں بتاتی رہتی ہے۔ ایک دن وہ بتاتی ہے کہ اس کے شوہر کی ملاقات ایک خوبصورت لڑکی سے ہوئی ہے۔ اس سے اس کی بیوی کے دل میں شک پیدا ہو جاتا ہے۔ اپنے شک کو دور کرنے کے لیے وہ جو کرتی ہے وہ اس نوجوان کو ایک غازی مرد بنا دیتا ہے۔‘‘

رات کو جب کبھی کتوں کے بھونکنے، یا مرغ کی بے وقت اذان سے چراغ بی بی کی نیند اچٹ جاتی، تو وہ دبے پاؤں اپنی کوٹھری سے نکلتی، اور راہ ٹٹولتی ہوئی باہر آنگن میں اپنےشوہر کی چار پائی پر آکر آہستہ سے بیٹھ جاتی اور اس کے پاؤں دابنا شروع کردیتی اور پھر جب تک اسے دوبارہ نیند کے جھونکے نہ آنےلگتے، وہ برابر دابتی رہتی۔

علیا اس کے ہاتھوں کے گرم گرم لمس کا ایسا عادی ہوگیا تھا کہ اس سے اس کی نیند میں ذرا خلل نہ پڑتا بلکہ ایسا آرام ملتا کہ وہ اور بھی بے خبر ہوکر سوتا رہتا۔ اگر کبھی وہ جاگ بھی رہا ہوتا تو چادر کے نیچے دم سادھے پڑا رہتا۔ یہ چادر دراصل اس کا تہہ بند تھی، جسے وہ مچھروں سے بچنے کے لیے رات کو اوڑھ لیا کرتا تھامگر اس سے اس کا پورا جسم نہیں ڈھکتا تھا۔ اگر سرچھپاتا تو پاؤں ننگے رہتے۔

صبح کو جب علیا بیدار ہوتا تو چراغ بی بی اس سے پہلے جاگی ہوتی اور آنگن میں وضو کرنے یا کوٹھری میں نماز پڑھنے میں مشغول ہوتی۔ وہ نماز کے الفاظ اس طرح ادا کرتی جیسے کوئی سرگوشی کر رہا ہو۔ خاص طور پر آخر کے دعائیہ فقرے علیا کو صاف سنائی دیا کرتے، ’’یا پاک پروردگار! اپنے حبیب کے صدقےاس کے سب دشمنوں کو نیچا دکھا۔ یا پاک پروردگار! اپنے حبیب کے صدقے اسے ہر بلا سےبچا۔ یا پاک پروردگار! میری دعا قبول کر پہلے میں مروں۔ بعد میں وہ مرے آمین۔‘‘

علیا چارپائی سے اٹھتا۔ چادر کو جھاڑ پٹک کر کمر پر باندھ لیتا۔ چادر کا پھٹا کا سن کر چراغ بی بی جلدی سے کوٹھری سے باہر نکلتی اور بڑی لجاجت سے پوچھتی، ’’مجھے بلایا ہے جی؟‘‘

- Advertisement -

بعض دفعہ علیا حاضر بھی ہوتا تو وہ اسے غائب تصور کرکے آپ ہی آپ بولتی رہتی، ’’مجھ عیبوں بھری کو گلے سے لگایا۔ اس کا اجر اللہ اور اس کا حبیب اس کو دے گا۔ میں اندھی محتاج کس لائق ہوں۔ میں اس کا بدلہ کیا دے سکتی ہوں میں تو آگ بھی نہیں جلا سکتی۔ روٹی بھی نہیں پکا سکتی۔ کپڑا بھی نہیں سی سکتی۔ کوئی گھر کا یا باہر کا کام نہیں کرسکتی۔ ہاں ایک پاؤں دابنا ہے۔ لیکن اس سے کیا ہوتا ہے۔‘‘

چراغ بی بی گاؤں کی مسجد کے بوڑھے امام کی بیٹی تھی جس کی ماں بچپن ہی میں مر گئی تھی۔ مولوی صاحب خود تو بینا تھے۔ مگر بیٹی کی آنکھیں چیچک میں جاتی رہی تھیں۔ مولوی صاحب نے بن ماں کی بیٹی کو بڑی مصیبتوں سے پالا تھا۔ گاؤں کے سب چھوٹے بڑے ان کی عزت کرتے تھے۔ گاؤں کے سب نوجوان بلکہ ان کے باپ بھی مولوی صاحب سے کم از کم بغدادی قاعدہ ضرور پڑھ چکے تھے۔ جب امام صاحب کا آخری وقت آیا تو انہوں نے گاؤں کے بڑے بوڑھوں کو بلوایا اور ان سے بڑی عاجزی سے کہا،

’’میں اپنے پیچھے ایک یتیم بچی چھوڑے جا رہا ہوں۔ وہ کبھی کی بیاہنے کے لائق ہوچکی ہے مگر ابھی تک اس کا بیاہ نہیں ہوا۔ اگر میرے پیچھے بھی وہ یونہی رہی تو میری روح ہمیشہ تڑپتی رہےگی۔ میں نے عمر بھر آپ لوگوں کو جو بری بھلی خدمت کی ہے اس کے بدلے میں اگر میری بیٹی کو کہیں ٹھکانےلگا دیاجائے تو اس سے میری روح ہی خوش نہیں ہوگی بلکہ آپ لوگوں کو بھی اس کا اجر ملے گا اس دنیا میں بھی، آخرت میں بھی۔‘‘

اور مولوی صاحب چل بسے۔ ان کی تجہیز و تکفین کے بعد گاؤں کے بڑے بوڑھوں نے یہ مسئلہ پنچایت میں پیش کیا اور خاص طور پر نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’ہے کوئی تم میں سےوہ غازی مرد، جو خدا ترسی کرے اور امام صاحب کے احسان کا بدلہ اتارے۔‘‘

کچھ دیر خاموشی رہی۔ آخر ایک نوجوان کی غیرت جوش میں آئی۔ وہ تھاتو غریب زمیندار کابیٹا مگر اپنے من چلے پن کی وجہ سے ہر کام میں سب نوجوانوں سے آگے آگے رہتا۔ اس نےآگے بڑھ کر اس کارخیر کے لیے خود کو پیش کردیا۔ یہ علیا تھا۔

اس پرکئی بن بیاہی بیٹیوں کے باپ جو علیا کو داماد بنانے کے خواب دیکھا کرتے تھے، گم سم ہوگئے۔ وہ اپنےگاؤں کے نوجوانوں میں سے کسی ایسے شخص سے اس قربانی کی توقع رکھتے تھے جو ان کی نظر میں سیدھا سادہ ہو اور گاؤں میں اس کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ نہ کہ علیا سے جو اپنی کئی خوبیوں کی وجہ سےگاؤں بھر کے نوجوانوں میں انتخاب تھا۔ اور اس طرح چراغ بی بی علیا کے گھر میں بس گئی۔

علیاکو باپ سے ورثے میں زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ملا تھا۔ بڑی محنت سے اس پر کھیتی باڑی کرتا، اور جو تھوڑا بہت اناج مل جاتا اس پر صبر و شکر کرکے گزارا ہوتا۔ بیوی کا کوئی خاص خرچ نہیں تھا۔ نہ اسے زیوروں اور نئے کپڑوں کی تمناتھی۔ وہ مسجد کے حجرے میں پلی بڑھی تھی۔ روزہ نماز گویا اس کی گھٹی میں پڑا تھا۔ ابھی بچی ہی تھی کہ پانچوں وقت کی نماز بڑی پابندی سے ادا کرنے اور رمضان کے تیسوں روزے رکھنے لگی تھی۔ اس پر وہ نابینا بھی تھی۔ اسے سوائے اللہ کو یاد کرنےکے اور کوئی کام ہی نہ تھا۔ بہت سی دعائیں اس نے چھوٹی عمر ہی میں باپ سے سیکھ لی تھیں۔ ایک دو پارے بھی اسے حفظ تھے۔ علیاکے گھر آکر اس کے مذہبی جوش میں کوئی کمی نہ ہوئی۔ بلکہ عبادت گزاری نےکچھ زیادہ ہی شدت اختیار کرلی۔

اس کی کوٹھری میں آٹھ پہر اس کا مصلی بچھا رہتا۔ جس پر وہ نمازوں کے علاوہ دیر دیر تک وظیفے بھی پڑھتی رہتی۔ اس کی کوٹھری سے اکثر اگر اور لوبان کی خوشبوئیں آتی رہتیں، ساتھ ساتھ یا غفور۔ یا رحیم۔ یا غفور یا رحیم کا ورد بھی جو دھیرے دھیرے بلند ہوتا جاتا۔ ایسے میں اگر علیا گھر آتا تو اسے یوں محسوس ہوتا جیسے وہ کسی خانقاہ میں داخل ہوگیا ہو۔ وہ خود تو نماز روزے کا زیادہ قائل نہ تھا مگر چراغ بی بی کے اس مذہبی ولولے کو احترام کی نظر سے دیکھتا تھا۔ وہ اپنے دل کو یہ کہہ کر تسلی دے لیا کرتا کہ ایسی پاک ہستی کے ساتھ مناکحت کے فرائض انجام دینا بھی عبادت سے کم نہیں ہے۔

علیا نے تھوڑے سے اناج اور چارہ پر گاؤں کی ایک بیوہ کی لڑکی رحمتے کو ہنڈیا روٹی اور گھر کے دوسر کاموں کے لیے رکھ لیا تھا۔ یہ لڑکی جس کی عمر دس گیارہ برس کی تھی، محنتی تو تھی ہی مگر ساتھ شوخ اور چنچل بھی تھی۔ دن بھر چراغ بی بی کے ساتھ اس کی خوب گزرتی۔ چراغ بی بی اس سے خدا اور رسول کی باتیں کیا کرتیں۔ اور رحمتے اسے ادھر ادھر کے لطیفے اور چٹکلے اور گاؤں کی روز روز کی خبریں سناتی۔ گاؤں بھر میں صرف رحمتے ہی ایک ایسی لڑکی تھی جس سے چراغ بی بی اپنے دل کے راز کہاکرتی، ’’رحمتے میرا بابا کہا کرتا تھا۔ بیٹا صبر کر۔ اللہ کا کوئی مددی آئے گا۔ ضرور آئے گا وہ تجھے خاک سے اٹھائے گا۔ وہ تجھے گلے لگائے گا۔ بابا کا کہنا سچ ہوا۔ آخر میرا شہزادہ آہی گیا۔

رحمتے وہ یوسف سے زیادہ حسین ہے اس میں پیغمبروں والی شان ہے۔ وہ غازی مرد ہے۔ اس نے میری خاطر گدائی قبول کی۔ گاؤں کانمبردار اپنی بیٹی کو اس سے بیاہناچاہتاتھا اور سینکڑوں بیگھے زمین اس کے نام لکھنا چاہتاتھا۔ مگر اس نےمجھ عیبوں بھری اندھی کی خاطر، دولت کو ٹھکرا دیا۔ دھن دولت آنی جانی ہے۔ مرنے پر سارا مال و زر یہیں دھرا رہ جاتا ہے۔ بس نیک اعمال انسان کے ساتھ جاتے ہیں۔‘‘ رحمتے کہتی، ’’چاگاں بی بی۔ اللہ کی سوں۔ چودھری علیا بڑا گبرو جوان ہے۔ تو بڑی بھاگوں والی ہے۔ اس کے گلے میں چاندی کا تعویذ کالے ڈورے میں بندھا بڑا اچھا لگتا ہے۔‘‘

اس پر چراغ بی بی جوش میں آکر کہتی، ’’رحمتے۔ ہے گاؤں میں کوئی اور جوان جو گھوڑے کی سواری میں، کشتی میں، کبڈی میں اس سے بازی لے جاسکے۔ فصل کاٹنے میں اس کا ہاتھ ایسی تیزی سے چلتا ہے جیسے پانی میں مچھلی چلتی ہے۔ جتنی دیر میں چار جوان فصل کاٹیں اتنی دیرمیں وہ اکیلا ان کے برابر کاٹ کے رکھ دیتا ہے۔ اس کے بال گھنگھریالے ہیں، اس کا جسم سڈول ہے۔ جب میں اس کے پاؤں دابتی ہوں تو مجھے بڑا مزہ آتا ہے۔ جب اکھاڑے کی مٹی اس کے جسم کو لگتی ہے تو وہ اور بھی چمکنے لگتا ہے۔‘‘

ان باتوں کا سب سے اچھا وقت وہ ہوتا، جب رحمتے آنگن میں چولہے کے پاس بیٹھی توے پر روٹیاں ڈال رہی ہوتی، اور چراغ بی بی اس کے پاس ہی چوکی پر آبیٹھتی۔ جب وہ علیا کے بعض ایسے کمالات جو ظاہر میں نظرنہ آتے، بیان کرتی تو رحمتے بے اختیار کہہ اٹھتی، ’’اچھا چا گاں بی بی!‘‘

اور جب چراغ بی بی بولتے بولتےتھک جاتی، تو رحمتے شروع ہوتی۔ ’’سنا چاگاں بی بی آج رسولاں کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی۔ اتنی چھوٹی جیسے چوہیا ہو۔۔۔ نمبردار کی بیٹی کریماں کی شادی کی تیاریاں ہو رہی ہیں ان دنوں۔ سنا ہے کہ شہر سے بینڈ باجے والے بلائے جائیں گے۔۔۔ رات مٹھو کی دکان سے پانچ سیر تمباکو چوری ہوگیا۔‘‘

ایک دن رحمتے روز سے ذرا جلدی آگئی۔ وہ جوش میں بھری تھی جیسے کوئی بڑی انوکھی خبر لائی ہو۔ جیسے ہی علیا کھیت پر روانہ ہوا، وہ پھوٹ پڑی، ’’سنا چاگاں بی بی۔ ہمارے قریب جو گاؤں ہے ’’دھوپ چڑھی‘‘ اس میں ایک زمیندار عمرو رہتا ہے اس نے نئی شادی کی ہے۔ خود تو کمبخت ساٹھ برس کا ہے مگر دلہن سولہ سترہ برس سے زیادہ کی نہیں ہے۔ سب گاؤں والے اسے برا کہہ رہے ہیں۔ مگر اس کوکسی کی پروا نہیں بلکہ اس نے سب کو جلانے کے لیے دلہن کاگھونگھٹ اٹھوادیا اور بڑی عجیب عجیب باتیں شروع کردیں۔

سنا ہے اس نے دوسفید گھوڑے خریدے ہیں۔ ایک اپنےلیے ایک دلہن کے لیے۔ ہر روز صبح کو دونوں گھوڑوں پر سوار ہوکر سیر کو نکلتے ہیں۔ کبھی بڈھے کو کوئی کام ہوتا ہے تو وہ گلنار کو اکیلا ہی بھیج دیتا ہے۔ سنا ہے کل گلنار اکیلی گھوڑے پر سوار سیر کرتی ہمارے گاؤں کی طرف آنکلی۔ اس نےگاؤں والوں سے بڑی آزادی سے باتیں کیں۔ کچھ لڑکے اس کے سفید گھوڑے کے پیچھے ہولیے۔ وہ سب اس کو بڑی حیرانی سے دیکھتے تھے۔ اس کارنگ میموں کی طرح گورا ہے اور بال سنہرے ہیں۔ سنا ہے وہ بڑی خوبصورت ہے۔ اس نے ریشمی قمیص اور شلوار پہن رکھی تھی۔ اس پر بڑے بڑے گلاب کے پھول بنے تھے۔ پاؤں میں زری کی جوتی تھی۔ اس نے سرخ دوپٹے کو جس کے کناروں پر گوٹا لگا تھا، چھاتی پر بل دے کر گرہ سی باندھ لی تھی۔ وہ بڑی شان سےگھوڑے پر بیٹھی تھی جیسے کہیں کی رانی ہو۔ اس نے ہمارے کھیتوں کی بھی خوب سیر کی۔۔۔ اور چاگاں بی بی چودھری علیا نے بھی تو اسے دیکھا تھا۔ بلکہ کچھ باتیں بھی کی تھیں۔ شاید وہ راستہ پوچھ رہی تھی۔‘‘

’’کیا کہا تونے؟ اس نے دیکھا تھا؟ اس نے باتیں کی تھیں؟‘‘

’’ہاں چاگاں بی بی۔‘‘

’’میرے شہزادے نے؟‘‘

’’ہاں علیا چودھری نے۔ چاگاں بی بی۔‘‘

’’چل چپ رہ۔ زیادہ باتیں نہ بنا۔ میرے سر میں درد ہو رہا ہے، میں جاتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چوکی سے اٹھی اور راہ ٹٹولتی ہوئی اپنی کوٹھری میں چلی گئی۔ اس دن اس نےرحمتے سے اور کوئی بات نہ کی۔

شام کو علیا کھیتوں سے واپس آیا۔ گھر پر وہ زیادہ تر خاموش ہی رہا کرتا تھا مگر اس شام وہ گھر میں زیادہ چلا پھرا بھی نہیں۔ پہلے خاموشی سے چارپائی پر بیٹھ کر کھانا کھاتا رہا۔ پھر حقہ بھرا اور دیر تک پیتا رہا۔ اس عرصے میں چراغ بی بی بھی خاموش رہی۔ مگر جب علیا سونے لگا اور تہہ بند کو چادر کی طرح اوڑھ کر چارپائی پر لیٹ گیا تو وہ حسب معمول اس کے پاس آئی اور اس کی چارپائی پربیٹھ کر اس کے پاؤں دابنے لگی۔ مگر ابھی پندرہ منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ علیا نے کہا، ’’چاگاں بس کر، مجھےنیند آرہی ہے۔‘‘

علیا کے اس خلاف معمول رویہ پر وہ بھونچکی رہ گئی۔ اس نے ایک دبی دبی سی آہ بھری اور پھر خاموشی سےاٹھ کر اپنی کوٹھری میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کی کوٹھری سے ’’یاغفور یا رحیم یا غفور یا رحیم‘‘ کے الفاظ سنائی دینے لگے۔ یہ وظیفہ کوئی گھنٹہ بھر جاری رہا۔ پھر چراغ بی بی ہاتھوں سےراہ ٹٹولتی اس کی چارپائی کے پاس پہنچی اور بڑی ملائمت سےاس کے پاؤں کو جو چادر سے باہر نکلے ہوئے تھے چھوا۔ اس کا جی چاہا کہ وہ چارپائی پر بیٹھ جائے اور معمول کی طرح اس کے پاؤں دابنا شروع کردے۔ مگر اسے جرأت نہ ہوئی اور وہ واپس اپنی کوٹھری میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد کوٹھری سے پھر آواز آنے لگی جیسے کوئی سرگوشی کرتا ہے،

’’مجھ عیبوں بھری کو گلے سے لگایا۔ اس کااجر اللہ اور اس کا حبیب اس کو دے گا، میں اندھی محتاج کس لائق ہوں۔ یا پاک پروردگار! اپنے حبیب کے صدقے میرے سر کے سائیں کو ہمیشہ ہمیشہ قائم رکھ۔ یاپاک پروردگار! اس کے دشمنوں کو زیر کر۔ یاپاک پروردگار! اسے ہر بلا سے محفوظ رکھ۔ یاپاک پروردگار! اپنے حبیب کے صدقے جو کوئی اس پر حسن کا وار کرے، اس کے حسن کو غارت کر۔ یاپاک پروردگار! اپنے حبیب کے صدقے میری دعا قبول کر۔ یاپاک پروردگار! پہلے میں مروں بعد میں وہ مرے۔ آمین۔‘‘

دو گھنٹے بعد وہ اپنی کوٹھری سے پھر نکلی اور اس کی چارپائی کے پاس پہنچ کر اس کے پیروں کو ٹٹولنے لگی اور یہ اطمینان کرکے کہ وہ چارپائی پر بدستور چادر تانے سو رہا ہے، وہ پھر اپنی کوٹھری میں چلی گئی۔ ابھی کچھ کچھ رات باقی تھی کہ وہ پھر کوٹھری سے نکلی اور سائے کی طرح چلتی ہوئی علیا کی چارپائی کے قریب آئی، اور اپنے گرم گرم ہاتھوں سے اس کے پاؤں ملنے لگی۔ پھر اس کے پائنتی زمین پر بیٹھ گئی اوراس کے دونوں پاؤں کے تلوؤں کو چوما۔ علیا نے سوتے میں کروٹ بدلی، اور اپنی ٹانگوں کوسیکٹر کر چادر کے اندر کرلیا۔

جب صبح صادق نمودار ہوئی تو چراغ بی بی کی کوٹھری سے پھر آواز آنے لگی۔ اب کے آواز میں غیر معمولی جوش تھا اور وہ معمول سے زیادہ بلند تھی۔ ’’اس نے مجھ اندھی عیبوں بھری کی خاطر گدائی قبول کی۔ اس نے مجھے گلے سے لگایا۔ میرا شہزادہ یوسف سے زیادہ حسین ہے۔ اس میں پیغمبروں والی شان ہے۔۔۔‘‘

مأخذ : کلیات غلام عباس

مصنف:غلام عباس

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here