کہانی کی کہانی:‘‘میمونہ بیگم ایک اسکول میں استانی ہے۔ اپنی تنخواہ میں سے تھوڑا تھوڑا بچا کر سو روپے جوڑ لیتی ہے۔ اس روپے سے وہ اپنے لیے کوئی زیور بنوانا چاہتی ہے۔ لیکن تبھی اس کی بہن کا خط آتا ہے اور وہ اسے دلی گھومنے کے لیے بلا لیتی ہے۔ دہلی میں بہن کے ساتھ گھومتے ہوئے وہ ایک نوجوان کو دیکھتی ہے۔ پہلے دن وہ اسے دیکھ کر خوش ہوتی ہے لیکن دوسرے دن اس کی اصلیت جان کر وہ گھبرا جاتی ہے۔ دہلی سے واپس جاتے ہوئے بچائے گیے اپنے سو روپے کا یوں برباد ہو جانا اسے بہت تکلیف دیتا ہے۔’’
جی۔ اے۔ وی۔ مڈل اسکول کی استانی میمونہ بیگم آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی۔ اور ساتھ ہی ساتھ سوچ رہی تھی کہ پچھلے کئی برس میں اپنی قلیل تنخواہ میں سے دو دو تین تین روپے بچاکر جو سو روپیہ جمع کرلیا ہے اس کا کون سا زیور بناؤں کہ اچانک اسے اپنی بائیں پیشانی کے قریب ایک لٹ میں ایک سفید بال نظر آیا اور اس کے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔
اس نے جلد ہی آئینے کی مدد سے اس بال کو لٹ سے الگ کر لیا اور کھینچ کر نکال ڈالا۔ اسے یاد نہیں رہا تھا کہ اب تک وہ ایسے کتنے سفید بال یوں ہی کھینچ کھینچ کر نکال چکی تھی۔ البتہ اس احساس نے کہ وہ روز بروز بوڑھی ہوتی جارہی ہے، پہلے سے زیادہ شدت سے اس کی روح کو جھنجھوڑ دیا۔
اس کا باپ ایک غریب مدرس تھا۔ جس نے مرنے سے پہلے اپنی بے ماں کی بیٹیوں کو گھر ہی پر پڑھا لکھا کراس قابل کردیا تھا کہ اگر ضرورت پڑے تو وہ نوشت وخواند کے ذریعے اپنا پیٹ پال سکیں۔ بڑی بیٹی ساجدہ کو جو نسبتاً قبول صورت تھی، زیادہ تکلیف نہ اٹھانی پڑی۔ اس کے باپ کے ایک دور کے رشتہ دار نے جو دارالسلطنت دلی کے ایک دفتر میں عہدہ دار تھا، کچھ تو رشتہ داری کے خیال سے، کچھ نیکی کا کام سمجھ کر اور کچھ یہ کہ اس نے لڑکی کی خوش جمالی کی تعریف سن رکھی تھی، اپنے بیٹے کی شادی اس سے کردی۔ بڑی بیٹی کی طرف سے مطمئن ہوکے بوڑھے مدرس کو چھوٹی بیٹی کی فکر ہوئی۔ مگر اس کی شادی کا بندوبست ہونے سے پہلے ہی وہ چل بسا۔ غنیمت یہ ہوا کہ مرنے سے تھوڑے ہی دن پہلے اس کی پرانی خدمات اور اثر و رسوخ کے طفیل میمونہ کو پینتیس روپے ماہوار پر لاہور کے قریب ایک قصبے کے زنانہ اسکول میں استانی کی جگہ مل گئی۔
باپ کے مرنے کے بعد میمونہ اسی اسکول کے بورڈنگ ہاؤس اٹھ آئی۔ وہ دن بھر اسکول میں لڑکیوں کو پڑھاتی اور جب چھٹی ہوتی تو بورڈنگ ہاؤس میں آجاتی۔ شروع شروع میں اسے یہ کام مشکل بھی معلوم ہوا اور دلچسپ بھی مگر دو ہی سال میں وہ اس سے بیزار ہوگئی۔ دن بھر ناسمجھ اور چنچل لڑکیوں کے ساتھ مغز مارنے کے سوا اور اس میں رکھا ہی کیا تھا۔
کبھی کبھی شام کو وہ دوسری استانیوں کے ساتھ اسکول سے باہر چہل قدمی کرنے بھی جاتی مگر اس سے اسے کوئی لطف حاصل نہ ہوتا۔ بھلا قصبے میں اس کی دلچسپی کی کیاچیز ہوسکتی تھی۔ مرداکھڑ اور ان پڑھ۔ عورتیں میلی کچیلی اور زبان دراز۔ سڑکیں کچی اور گرد آلود۔ اور مکان مٹی کے بنے ہوئے بے ڈھنگے بے ڈھنگے۔ بعض دفعہ کسی امیر زمیندار کی لڑکی کی ماں اسے اور دوسری استانیوں کو کھانے پر بلا لیتی۔ یا کبھی کبھار دوچار استانیاں مل کر کپڑا وغیرہ خریدنے شہر چلی جاتیں۔ اس کے سوااس کھلے بندی خانے سے نکلنے کی اور کوئی صورت نہ تھی۔ کبھی کبھی وہ اپنی اس بے رنگ زندگی سے سخت دل برداشتہ ہو جاتی مگر پھر سوچتی ابھی عمر پڑی ہے۔ کیا پتہ کوئی بہتری کی صورت نکل آئے۔۔۔ اسی طرح دس سال بیت گئے تھے۔
صبح کے واقعہ نے میمونہ کے دماغ کو دن بھر پریشان رکھا۔ اسکول میں وہ لڑکیوں کو بات بات پر جھڑکتی رہی۔ کئی لفظوں کے معنی بھی وہ ٹھیک طور پر نہ سمجھا سکی۔ بورڈنگ ہاؤس میں آکر بھی اس کا جی کسی کام میں نہ لگا۔ وہ سرشام ہی سے آکر بستر پر لیٹ گئی اور اپنی حالت پر غور کرنے لگی۔ سوچتے سوچتے وہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ اس کی جوانی کے ڈھلنے کی یہ وجہ ہے کہ اسے اپنی زندگی سے کوئی خوشی حاصل نہیں ہوئی۔ اس کی تفریح کاکوئی سامان نہیں۔ اسے کسی سے انس نہیں، لگاؤ نہیں۔ دن بھر وہ تھی اور لڑکیوں کاشور۔ جس سے وہ سخت نفرت کرتی تھی۔ کیونکہ اس سے اکثر اس کے سر میں درد ہونے لگتا تھا۔
بڑے دن کی چھٹیوں سے کوئی آٹھ روز پہلے اسے ساجدہ کا خط ملا۔ یہ خط کئی سال کے بعد آیا تھا اور وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی بہن آج کل کہاں ہے۔ ساجدہ نے لکھ تھا کہ اس کے میاں کا تبادلہ دہلی ہوگیا ہے۔ وہ نئی دہلی کے ایک سرکاری کوارٹر میں رہتے ہیں۔ اس نے دہلی کی قدیم و جدید عمارتوں، سیر گاہوں، نئی دہلی کے کھیل تماشوں، پرفضا پارکوں، سرکاری بینڈ، دکانوں اور ہوٹلوں کی گہما گہمی اور دوسری دلچسپیوں کا حال ایسی خوبی سے لکھا تھا کہ ناول کا سا سماں باندھ دیا تھا۔ آخر میں لکھا تھا، ’’کیوں نہ تم کرسمس کی چھٹیوں میں آکر مجھ سے مل جاؤ۔ اور سارے شہروں کی رانی، ہند کی راجدھانی دلی کی سیر بھی کر جاؤ۔‘‘
میمونہ کادل للچا اٹھا۔ کیا عجب وہاں اسے وہ تفریح و خوشی میسر آجائے جس کی آرزو وہ عرصے سے دل میں دبائے ہوئے تھی۔ یہ بھی ممکن تھا کہ اس سفر سے اس کی زندگی میں کوئی اچنبھا کوئی خوشگوار تغیر پیدا ہوجائے۔۔۔ لمحہ ہی بھر میں اس نے دہلی جانے کا ارادہ کرلیا۔ سفر کے خرچ کے لیے اس کے پاس روپیہ موجود تھا ہی، نہ کسی رشتہ دار سے اجازت لینے کی ضرورت تھی نہ کوئی پابندی۔ اسی دن ساجدہ کو لکھ بھیجا کہ فلاں تاریخ فلاں گاڑی سے روانہ ہوجاؤں گی۔
چلنے سے ایک روز پہلے اس نے شہر جاکر کئی چیزیں خرید لیں۔ رومال، جرابیں، ریشمی مفلر، اونچی ایڑی کا بوٹ، جڑاؤ کلپ جس پر تتلی بنی ہوئی تھی، نیل پالش، لپ اسٹک وغیرہ علاوہ ازیں اس نے بہن کے لیے ملتان کے بنے ہوئے چاندی کے بندوں کی ایک جوڑی بھی خریدلی۔ ۲۳ دسمبر کی شام کو اس نے اپنا سوٹ کیس، اٹیچی کیس اور بستر تانگے میں رکھوایا۔ اسکول کے بوڑھے چوکیدار کو ساتھ لیا کہ اسٹیشن تک پہنچا آئے اور وہ روانہ ہوگئی۔
وہ گاڑی کے چلنے سے کافی پہلے آگئی تھی۔ اس لیے اسے زنانہ درجہ میں حسب منشا کھڑکی کے پاس جگہ مل گئی۔ وہ اکیلی تھی۔ اور یہ اس کا پہلا ریل کا سفر تھا۔ اس پر بھی اس کے چہرے پر گھبراہٹ یا پریشانی کے کوئی آثار نہ تھے۔ اسے اس سفر سے ایسی ہی خوشی ہو رہی تھی جیسی بچوں کو ہوتی ہے۔
جب تک گاڑی روانہ ہو ہوئی، وہ کھڑکی سے برابر پلیٹ فارم کی سیر دیکھتی رہی۔ مسافروں کا گٹھریاں اٹھائے بھاگنا دوڑنا، عورتوں کا پیچھے پیچھے گھسٹتے آنا، قلیوں کی لڑائیاں، پلیٹ فارم کے نل پر مسافروں کو جمگھٹا، خوانچہ والوں کی صدائیں، متحرک دکانیں، یورپینوں کا سب سے الگ تھلگ ایسی بے فکری کی شان سے پھر ناگویا کوٹھی کے برآمدے میں ٹہل رہے ہیں، اور ان سب کے پس منظر میں انجن کا رہ رہ کے بھانت بھانت کی آوازیں نکالتے رہنا، یہ سارا سماں میمونہ کے لیے انتہائی دلچسپی لیے ہوئے تھا۔ علاوہ ازیں ایک ادھیڑ عمر کا ٹھنگنے قد کا موٹا سا گارڈ جس کی آنکھیں کوئلے کے ریزے پڑ پڑ کر دائمی طور پر سرخ ہوگئی تھیں اور پپوٹے سوجے ہوئے تھے، سیاہ وردی پہنے سگار کے کش لگاتا، دھوئیں اڑاتا ایک چھوٹے سے انجن کی طرح بار بار اس کے ڈبے کے سامنے سے گزر جاتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے سیدھا میمونہ کی کھڑکی کا رخ کیا مگر وہ رکا نہیں۔ بس اسے گھورتا ہوا پاس سے نکل گیا۔ میمونہ اس کی یہ حرکات دیکھ دیکھ کر عجیب طفلانہ شوخی سے مسکراتی رہی۔
گاڑی چلتے چلتے وہ ڈبا عورتوں سے کھچاکھچ بھر گیا۔ راستے میں کوئی قابل ذکر واقعہ پیش نہ آیا۔ سوائے اس کے کہ اس کے ڈبے میں تین چار لڑکیاں بہت شوخ تھیں۔ جنہوں نے گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے تک خوب اودھم مچائے رکھااور پھر تھک کر سوگئیں۔
اگلے روز وہ نئی دہلی میں اپنی بہن کے ہاں مقیم تھی۔ ساجدہ کی شادی کے بعد ان دونوں بہنوں کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ مگر اسے ساجدہ کی تیزئی گفتار کا کمال کہیے کہ اس نے دو ہی گھنٹوں میں اپنی بہن کو پچھلے بارہ برس کے واقعات سے ضروری اور غیرضروری تفاصیل کے ساتھ واقف کردیا تھا۔ اس کے تین لڑکیاں اور دولڑکے تھے۔ بڑی لڑکی کی عمر دس برس تھی۔ منجھلی کی سات برس اور چھوٹی بچی ابھی دودھ پیتی تھی۔ لڑکوں میں ایک کی عمرنوبرس کی تھی، وہ چوتھی میں پڑھتا تھا۔ اور چھوٹی بیٹا چار سال کا تھا۔ اس نے شرماتے ہوئے بتایا کہ چند ہفتوں میں وہ پھر ماں بننے والی ہے۔
اس کے بعد اس نے ہر ایک بچے کی پیدائش، اس موقع کے درد و کرب، ہسپتال کی نرسوں کی دوستی وغیرہ کا حال سنایا۔ ہر ایک بچے کی عادتیں، خصلتیں، ذہانت، شرارتیں، بیماریاں، جس جس شہر میں اس کے صاحب کو ملازمت کے سلسلے میں رہنا پڑا تھا، وہاں کی خصوصیتوں اور صاحب کی دفتری مصروفیتوں کا حال سنایا۔ آخر میں اس نے اداس لہجہ میں روپے کی قلت اور اپنی تنگ دستی کا ذکر کیا۔ اس کامیاں سو روپے پاتا تھا۔ جو نئی دہلی کی رہائش، کھیل تماشوں، بچوں کی تعلیم وغیرہ کے اخراجات میں ہفتہ ہی بھر میں اٹھ جاتے تھے۔ اور باقی سارا مہینہ حساب پر کٹتا تھا۔ اس نے تسلی دیتے ہوئے کہا، ’’فکر نہ کرو۔ انہوں نے کسی دوست کو روپے قرض دے رکھے ہیں۔ جو آج ہی کل میں ملنے والے ہیں۔ بس روپے ملتے ہی ہم ٹیکسی لیں گے۔ اور تمہیں دلی کی سیر کرائیں گے۔‘‘
جب دو دن گزر گئے اور ساجدہ کا میاں اپنے دوست سے روپے وصول کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا تو میمونہ نے بہن کے روکنے کے باوجود اپنے خرچ سے ٹیکسی منگوائی۔ اور اس میں دونوں بہنیں، میمونہ کا بہنوئی اور پانچوں بچے لد کے دہلی کے قابل دید مقامات دیکھنے گئے۔ مگر بچوں کے غل غپاڑے اور ان کی دیکھ بھال میں میمونہ کو سیر کا لچھ لطف نہ آیا، اور وہ نہایت بددل ہوکر واپس آئی۔
اگلے روز شام کو اسے اداس دیکھ کر ساجدہ نے اپنے صاحب سے کہا، ’’تم جانتے ہو میں تو پیدل چل نہیں سکتی۔ تم جاکے ذرا میمونہ کو کناٹ پیلس کی سیر تو کرا لاؤ۔‘‘ اس نے بادل نخواستہ حامی بھر لی۔ وہ پینتیس چھتیس برس کا دبلا پتلا نوجوان تھا۔ ایک بے چین روح۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں ہر وقت ایک تشنگی اور وحشت سی جھلکتی رہتی تھی۔ وہ خاصا خوش شکل تھا۔ مگر اپنی ناداری کی وجہ سے اپنی سالی کے سامنے کچھ جھینپا جھینپا سا رہتا تھا۔ ایک دو دفعہ اس نے تنہائی میں اپنی بیوی کو ملامت بھی کی تھی کہ ایسی تنگ دستی کی حالت میں تم نے اسے بلوایا ہی کیوں۔ جس وقت وہ روانہ ہونے لگے تو ساجدہ نے احتیاط کے طور پر اپنی بڑی بیٹی قمرالنساء کو بھی ان کے ہمراہ کردیا۔
سردی خاصی پڑنے لگی تھی۔ میمونہ نے ساری کے اوپر اوورکوٹ پہن لیا تھا۔ ذرا سی دیر میں وہ چہل قدمی کرتے ہوئے کناٹ پلیس پہنچ گئے۔ یہاں کی رفیع الشان عمارتیں، فلیٹوں میں رہنے والی مخلوق، دکانوں کی سج دھج اور ان کی جھلملاتی ہوئی رنگارنگ روشنیاں، مشرقی اور مغربی آرٹ کے نمونے، سنیما گھروں کی گہما گہمی، ہوٹلوں اور قہوہ خانوں میں بلند ہونے والے قہقہے، پارکوں میں کہیں اجالا کہیں اندھیرا اور کہیں نور اور سایہ باہم گتھے ہوئے اور سب سے بڑھ کر یہاں کے خوش پوش نوجوانوں اور رنگ برنگی ساریوں والی لڑکیوں کے جھرمٹ۔ جدھر سے یہ جھرمٹ گذر جاتے، فضا جوانی کے نشہ سے مہک اٹھتی۔ میمونہ ان سب چیزوں کو ایک محویت کے عالم میں دیکھ رہی تھی۔ دہلی آنے پر اب تک اسے جو کوفت ہوئی تھی، اس کاخیال ایک دم دل سے نکل گیا تھا۔ لڑکیوں کو کسی مرد کی سرپرستی کے بغیر آزادانہ اور دلیری سے پھرتے دیکھ کر اسے تعجب بھی ہوا اور خوشی بھی۔
کچھ دیر ادھر ادھر گھما پھرا کر بہنوئی اسے ایک جگمگاتے ہوئے قہوہ خانے میں لے گیا۔ جس کی بڑی صفت یہ تھی کہ وہاں چیزوں کے دام بہت کم لیے جاتے تھے۔ یہ قہوہ خانہ اعلی درجہ کے فرنیچر سے مزین تھا، اور اتنا فراخ کہ پچاس ساٹھ آدمی بیک وقت اس میں سماسکیں۔ جس وقت وہ اپنی سالی اور بیٹی کو لے کر اندر پہنچاتو یہ قہوہ خانہ گاہکوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ ایک کونے میں ایک میز کو خالی ہوتے دیکھ کر وہ لپک کراس کی طرف بڑھا اور اس پر قبضہ جمالیا۔
تھوڑی دیر میں قہوہ آگیا۔ میمونہ نے اس کی چسکیاں لینا اور اپنے اردگرد دیکھنا شروع کیا۔ ہندوستانی، اینگلوانڈین اور یورپین مردوزن بڑھیا سے بڑھیا لباس پہنے مزے سے قہوہ پی رہے اور خوش گپیاں کر رہے تھے۔ وہ جوں جوں انہیں دیکھتی گئی، اس کی دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔ جب وہ قہوہ پی چکے تو اس کا بہنوئی ایک دوست کو ٹیلی فون کرنے کا بہانہ کرکے کاؤنٹر کے پاس گیااور چپکے سے بل بھی ادا کرآیا۔ چونکہ انہیں گھر سے نکلے دو گھنٹے ہوچکے تھے اس لیے یہاں سے نکل کر انہوں نے سیدھا گھر کا رخ کیا۔
جب وہ گھر پہنچے تو ساجدہ نے بہن سے پوچھا، ’’کیوں پسند آیا کناٹ پلیس؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ میمونہ نے اپنے جوش کو دباتے ہوئے کہا، ’’بہت دلچسپ مقام ہے۔‘‘
دوسرے دن شام کو ساجدہ کے میاں کو کوئی کام تھااور وہ سرشام ہی گھر سے نکل گیا۔ ادھر میمونہ بناؤ سنگھار کرکے اور نئی ساری پہن کے تیار ہوگئی۔ ساجدہ نے پوچھا، ’’کہاں کی تیاری ہے؟‘‘
’’ذرا گھومنے جاؤں گی۔‘‘
’’ایں اکیلی؟‘‘
’’اور کیا اکیلی کو کوئی پکڑلے گا؟‘‘
قبل اس کے کہ ساجدہ آج پھر اپنی بڑی بیٹی یا بیٹے کو ہم راہ لے جانے کی ہدایت کرتی، وہ کوارٹر سے باہر تھی۔ کناٹ پلیس پہنچ کر اس نے پارک کا رخ کیا، جس کے بیچوں بیچ ایک گول چبوترے پر پولیس کا بینڈ بج رہا تھا، اور سینکڑوں مرد عورتیں اور بچے اس کے گرد جمع تھے۔ تھوڑی دیر وہاں کی چہل پہل دیکھنے کے بعد جب وہ دکانوں کی طرف لوٹ رہی تھی تو اس نے محسوس کیا جیسے کوئی شخص اس کے بالکل پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو یہ ایک پچیس چھبیس سال کا نوجوان تھا، جس نے سبز فلیٹ ہیٹ اور فاختی رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا۔ لمبا قد۔ گورا چٹا رنگ۔ پتلی پتلی ترشی ہوئی مونچھیں۔ لمبی لمبی قلمیں۔ آنکھوں سے علم کا نور اور چال سے شائستگی ٹپکتی تھی۔ وہ نوجوان تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا اس کی طرف دیکھے بغیر اس کے پاس سے گزر گیا مگر تھوڑی ہی دور چل کے اس نے ایک دم اپنی رفتار سست کردی اور اب کے میمونہ کو اس کے پاس سے گزرنا پڑا۔
اب وہ اس چوراہے میں پہنچ گئی تھی جہاں سے دکانوں کی قطاریں داہنے بائیں ایک دائرے کی صورت میں گئی تھیں۔ میمونہ ایک قطار کی طرف زیادہ روشنی دیکھ کر چل دی۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ نوجوان بھی اسی سمت آتا دکھائی دیا۔ اب کے اسے دیکھ کر نہ جانے کیوں میمونہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ نوجوان کچھ دور تک تو اس کے پیچھے پیچھے رہا، اور پھر تیزی سے اس کے پاس سے گزر گیا۔ اب کے اس نے اپنی نظریں میمونہ کے چہرے پر گاڑ رکھی تھیں۔ چند قدم چل کر وہ ایک بک اسٹال پر ٹھہر گیا، اور اخباروں کی سرخیاں پڑھنے لگا۔ میمونہ کو پھر اس کے پاس سے گزرنا پڑا۔
یہ ماجرا کئی بار پیش آیا کہ کبھی تو وہ نوجوان اس کے آگے آگے چلنے لگتا، اور کبھی میمونہ کو اس کے آگے آگے چلنا پڑتا۔ اس نے سوچا ذرا دیکھوں تو یہ نوجوان سچ مچ میرا پیچھا کر رہا ہے، یا یہ میرا وہم ہی وہم ہے۔
وہ ایک چینی آرٹ کی دکان میں داخل ہوگئی اور وقت گزارے کے لیے چینیوں کی بنائی ہوئی تصویریں، کھلونے، ظروف اور کپڑے وغیرہ دیکھنے لگی۔ پانچ منٹ کے بعد جب وہ دکان سے نکلی تو وہ نوجوان ادھر ادھر ٹہل رہا تھا۔ دونوں کی نگاہیں ملنی تھیں کہ اس نوجوان نے ہیٹ کے کنارے کو چھوکر سر کی ایک خفیف سی جنبش کے ساتھ سلام کیا۔
یہ حرکت اس سے ایسی غیرمتوقع طور پر سرزد ہوئی تھی کہ میمونہ بے ساختہ مسکرا دی۔ اس کے بعد اس نے کناٹ پلیس کے دوتین چکر اور لگائے اور پھر گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔ اس دوران میں وہ نوجوان بدستور اس کا پیچھا کرتا رہا۔ جب اس کے بہنوئی کا کوارٹر چند قدم کے فاصلے پر رہ گیا تو اس نے اچانک پلٹ کر نوجوان کی طرف دیکھا، اور ایک انداز شوخی سے بھاگ کر کوارٹر میں چلی گئی۔
ساجدہ اس کی راہ تک رہی تھی۔ اسے دیکھ کر بولی، ’شکر ہے تم آگئیں۔ مجھے بڑا فکر ہو رہا تھا۔ کہو کہاں کہاں گھوم آئیں؟‘‘
’’یہیں کناٹ پلیس تک گئی تھی۔‘‘
’’عورت ذات، پھر تنہا، پھر ناواقف۔ فکر کی بات ہی تھی۔۔۔ تم ہنس کیوں رہی ہو؟‘‘
’’نہیں تو۔‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
اس رات اس نے خوشی خوشی سب کے ساتھ مل کر کھانا کھایا۔ وہ دیر تک بچوں سے باتیں کرتی رہی۔ آج بچے اسے یکایک دلچسپ معلوم ہونے لگے تھے۔ اس نے چھوٹی بچی کو گود میں لیا۔ پیار کیا۔ پھر آہستہ آہستہ اسے ہوا میں اچھالنے گی۔ کمرہ قلقاریوں سے گونج اٹھا۔ اگلے روز سہ پہر ہی سے اس نے بناؤ سنگھار شروع کردیا۔ اپنی سب سے بڑھیا ساری نکالی، جو اس کی ایک امیر شاگرد کی ماں نے اپنی بیٹی کے پاس ہونے کی خوشی میں اسے تحفے میں دی تھی۔
کوارٹر سے نکل کر وہ سیدھی اس سیلون میں پہنچی جہاں بجلی کے ذریعے بالوں میں لہریں پیدا کی جاتی تھیں۔ یہ انگریزی دکان اس نے کل کے گشت میں دیکھ لی تھی۔ جب اس کے گھنے بالوں میں لہریں پڑ چکیں اور تازہ ترین مغربی فیشن کے مطابق ان کی آرائش ہوچکی تو وہ آئینے میں پہلے پہل اپنی صورت پہچان نہ سکی۔ وہ زیادہ سے زیادہ بیس برس کی معلوم ہوتی تھی۔ اصلی عمر سے آٹھ برس کم۔ اس کے پیچھے اس سیلون کی بوڑھی مشاطہ جو ایک فرانسیسی خاتون تھی، اسے ایسی شفقت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی، جیسے ماں اپنی دلہن بیٹی کو سنگھار کے بعد دیکھتی ہے۔
شام کے جھٹپٹے میں میمونہ اپنی خوشی کو دبائے جھینپتی ہوئی سیلون سے نکلی اور کناٹ پیلس کے پارک کی طرف ہولی۔ وہ کوئی گھنٹہ بھر تک پارک کے مختلف حصوں میں پھرتی رہی۔ پھر اس نے دکانوں کا گشت لگانا شروع کیا۔ مگر وہ کل والا نوجوان اسے کہیں نظر نہ آیا۔ وہ اس قہوہ خانے کے پاس پہنچی جہاں وہ پہلے روز اپنے بہنوئی کے ساتھ گئی تھی۔ قہوہ خانہ آج بھی کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ اسے اندر جاتے کچھ جھجک سی معلوم ہوئی مگر اس نے دل کو مضبوط کیا اور کسی کی طرف دیکھے بغیر اندر جاکر ایک خالی میز کے پاس بیٹھ گئی اور ملازم سے قہوہ منگوایا۔
رفتہ رفتہ اس نے کنکھیوں سے اپنے آس پاس کے لوگوں کاجائزہ لینا شروع کیا۔ ہر طرف چھوٹی چھوٹی محفلیں منعقد تھیں۔ کہیں اہم ملکی معاملات پر گرماگرم بحث ہو رہی تھی تو کہیں بذلہ سنجی اور لطیفہ گوئی۔ ایک کونے میں دوبنگالی لڑکیاں جن کی چوٹیوں کے سروں میں سرخ سرخ ربن بندھے ہوئے تھے، سر سے سر جوڑ کر چپکے چپکے باتیں کر رہی تھیں۔ ان کے قریب ہی دوسری میز پر ایک نوجوان بظاہر اخبار میں منہمک معلوم ہوتا تھا مگر در اصل وہ ان لڑکیوں کو گھور رہا تھا۔ یہ سب کچھ تھا مگر وہ سبزفلیٹ ہیٹ اور فاختی رنگ کاسوٹ والا نوجوان کہیں نہ تھا۔
آدھ گھنٹے کے بعد وہ قہوہ خانے سے نکل آئی۔ اس وقت خاصی رات ہوچکی تھی۔ ٹھنڈی اور تیز ہوا چل رہی تھی۔ اس نے مفلر کو اپنے گلے کے گرد لپیٹ کر اوور کوٹ کے بٹن بند کرلیے اور پھر دکانوں کی طرف چل دی۔ جیسے ہی وہ چوراہے کے پاس پہنچی۔ اس نے دیکھا کہ ایک سڑک کے درمیان جہاں موٹریں وغیرہ ٹھہرائی جاتی ہیں، ایک سیاہ سیلون کار کھڑی ہے۔ اس میں دوتین نوجوان انگریزی سوٹ پہنے بیٹھے ہیں۔ اور دو تین باہر کھڑے ان سے باتیں کر رہے ہیں۔ جب وہ ذرا قریب پہنچی تو اسی جتھے میں اسے وہ کل والا نوجوان نظر آگیا۔ آج اس نے چیسٹر پہن رکھاتھا اور سر سے ننگا تھا۔ وہ موٹر کے دروازے کے پاس کھڑا اپنے ساتھیوں سے کچھ کہہ رہا تھا، جسے وہ سر جوڑے غور سے سن رہے تھے۔ جیسے ہی اس نوجوان کی نظر میمونہ پر پڑی وہ گھبرا سا گیا۔ اور اپنے ایک ساتھی کو جو چشمہ لگائے پاس ہی کھڑا تھا، کہنی سے ٹہوکے دینے لگا۔ یکبارگی سب کے چہرے اشتیاق سے چمک اٹھے۔ مگر بظاہر انہوں نے میمونہ کی طرف توجہ نہ کی، اور ایک بے پروائی کا سا انداز اختیار کیے آپس ہی میں باتیں کرتے رہے۔
میمونہ نے ان کی یہ سب حرکات بھانپ لی تھیں۔ اس کا چہرہ یکلخت تمتما اٹھا۔ اس کی پیشانی پر پسینہ آگیا، اور وہ منہ ہی منہ میں حقارت سے کہہ اٹھی، ’’اوہ یہ بات تھی!‘‘
جب وہ ذرا دور نکل گئی تو وہ نوجوان اپنے ساتھیوں سے جدا ہوا، او رتیزی سے قدم اٹھاتا ہوا دکانوں کی قطار کے اس سرے کی طرف چل دیا، جس طرف میمونہ جارہی تھی۔ سرے پر پہنچ کر وہ ٹھہر گیا اور جیب سے سگرٹ نکال سلگانے لگا۔ میمونہ نے اسے دور ہی سے دیکھ لیا تھا۔ آج اس کاانداز کل سے بالکل بدلا ہوا تھا۔ کل وہ بہت غمزدہ اور اداس معلوم ہوتا تھا۔ مگر آج اس کی آنکھوں میں شوخی اور بے باکی تھی۔ میمونہ کا گزشتہ شب اپنے کوارٹر کے سامنے پلٹ کر اس کی طرف دیکھنا، مسکرانا اور بھاگ جانا اسے دلیر بنانے کے لیے کافی تھا۔ اور پھر آج کا یہ سنگھار، بالوں میں یہ لہریں، زلفوں میں یہ پیچ و خم۔ میمونہ کو آج اس نوجوان کے چہرے میں کوئی خاص بات نظر نہیں آرہی تھی۔ وہ ایسا ہی تھا جیسے اس کے اور لفنگے ساتھیوں کے چہرے جن پر ایک جیسی عیاری، ہوس کاری، پاجی پن اور بے وقوفی برس رہی تھی۔ وہ حیران تھی کہ کل وہ اسے کیوں بھا گیا تھا۔
اسے یقین تھا کہ جب وہ اس کے پاس سے گزرے گی تو وہ ضرور کوئی حرکت کرے گا، یا کچھ نہیں تو کوئی فقرہ ہی کسے گا۔ مگر اس نے اس کا موقع ہی نہ دیا۔ جب اس کے اور نوجوان کے درمیان کوئی بیس قدم کا فاصلہ رہ گیا تو وہ ایک دکان کے شوکیس میں جھوٹ موٹ لیسوں اور فیتوں کے نمونے دیکھنے ٹھہر گئی۔ اور پل بھر کے بعد وہ جس طرف سے آئی تھی اسی طرف لوٹ گئی۔ چند ہی قدم چلی تھی کہ اسے سامنے سے سڑک پر وہی سیاہ سیلون کار آتی دکھائی دی۔ اس میں اس وقت چار آدمی سوار تھے۔ انہوں نے ایسی نظروں سے اسے گھورا کہ وہ ایک دم گھبراگئی۔ بلاشبہ یہ کار ہلکی رفتار سے ساتھ ساتھ سڑک پر اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ طرح طرح کے وحشت ناک خیال اس کے دل میں آنے لگے۔ جو اسے سہمائے دیتے تھے۔ وہ رہ رہ کے اپنی کل کی حرکتوں پر اپنے کو ملامت کر رہی تھی۔ پردیس کا معاملہ تھا۔ عزت کاخدا ہی نگہبان تھا۔
سامنے سے ایک انگریز انسپکٹر کو موٹر سائیکل پر آتے دیکھ کر اس کی ڈھارس بندھی۔ اس نے دل کومضبوط کیا اور یہ سوچ کر تسلی دی کہ جب تک میں خود موقع نہ دوں گی، ان کتوں کی مجال نہیں کہ میرے قریب بھی پھٹکنے پائیں۔ جب تک وہ دکانوں کے آگے کے لمبے محراب دار برآمدے میں گزرتی رہی نوجوان نے بہتیری کوشش کی کہ کسی طرح وہ اسے اپنی طرف متوجہ کرے۔ وہ اس کے کبھی آگے آگے کبھی پیچھے پیچھے کبھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ مگر میمونہ نے ایک بار بھی اس کی طرف نہ دیکھا۔ ایک جگہ کونے میں دوبڑے بڑے گول ستونوں کے درمیان ایک تنگ موڑ تھا، جس میں سے ایک وقت میں صرف دو ایک آدمی ہی گزر سکتے تھے۔ جب وہ ان ستونوں میں سے گزرنے لگی تو دیکھا کہ نوجوان اس کا راستہ روکے کھڑا ہے۔ اس وقت اتفاق سے اور کوئی آدمی آس پاس نہیں تھا۔ میمونہ لمحہ بھر کے لیے رک گئی۔ اور منتظر رہی کہ وہ ہٹے تو گزروں۔ مگر وہ اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ اس پر یکبارگی وہی کیفیت طاری ہوگئی۔ جیسی اسکول میں کسی ضدی اور سرکش دیہاتی لڑکی کی ہٹ دھرمی پر ہو جایا کرتی تھی۔ اس کی آنکھوں سے انتہائی غیظ برسنے لگا اور اس نے حقارت سے تحکمانہ لہجے میں کہا، ’’ہٹو راستہ چھوڑو۔ بے وقوف آدمی۔‘‘ وہ نوجوان دبک کر ایک طرف ہوگیا۔
اس وقت آٹھ بج چکے تھے اور وہ کناٹ پلیس کے چکر سے نکل کر اس بڑی سڑک پر پہنچ گئی تھی جو سیدھی اس کے بہنوئی کے کوارٹر کو جاتی تھی۔ ادھر شکارکو ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر اس نوجوان نے زیادہ سرگرمی سے اس کا پیچھا کرنا شروع کر دیا تھا۔ جب آس پاس کوئی نہ ہوتا تو وہ زور زور سے آہیں بھرنے لگتا۔ دو ایک دفعہ اس نے عاشقانہ اشعار بھی گنگنائے مگر میمونہ نے رسید تک نہ دی۔ اس پر وہ کھلم کھلا اسے بازاری خطابوں سے پکارنے لگا۔ میمونہ نے اپنی رفتار تیز کردی۔
جب وہ ایک چوک میں سے گزر رہی تھی تو وہی سیاہ رنگ موٹر فراٹے بھرتی ہوئی بالکل اس کے قریب سے ہوکے نکل گئی۔ اگر وہ جلدی سے ایک طرف نہ ہٹ جاتی تو عجب نہ تھا کہ اس کی ٹانگ موٹر کے پہیے کے نیچے آجاتی۔ ادھر وہ ہٹی، ادھر موٹر میں سے آواز آئی، ’’اوہ ویری سوری!‘‘
میمونہ نے اب سنبھل کر اور سڑک کے بالکل کنارے ہوکر پھر تیز رفتار سے چلنا شروع کردیا تھا۔ ادھر وہ نوجوان بھی اس کے ساتھ ساتھ تیز تیز قدم اٹھاتا عاشقانہ فقرے کستا اور آہیں بھرتا چلا آ رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں وہ موٹر چکر کاٹ کر پھر اس کے پاس سے گزری۔ اب کے اس کے کان کے پاس اس زور کا ہارن بجا کہ وہ ڈر کر اچھل پڑی۔ موٹر میں سے آواز آئی، ’’پیدل کب تک چلیے گا۔ موٹر میں تشریف لے آئیے نا سرکار!‘‘
میمونہ کا کوارٹر اب صرف ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر رہ گیا تھا۔ جوں جوں اس کا گھر قریب آتا جاتا تھا نوجوان کی آہ وفغاں میں زیادہ سے زیادہ جوش و خروش پیدا ہوتا جاتا تھا۔ میمونہ نے اپنی رفتار اور بھی تیز کردی۔ اور بھی تیز۔ یہاں تک کہ وہ قریب قریب دوڑنے لگی۔ اس کے پیچھے لگاتار ایک شور سنائی دیتا رہا مگر اس نے بالکل دھیان نہ دیا، نہ پلٹ کر دیکھا۔ وہ ہانپ رہی تھی۔ پھر بھی اس نے اپنی رفتار میں کمی نہ آنے دی۔ آخر کار وہ اپنے کوارٹر میں پہنچ ہی گئی۔
ساجدہ نے اسے لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے دیکھا تو پوچھا، ’’تم گھبرائی ہوئی کیوں ہو؟ دم کیوں چڑھا ہوا ہے؟‘‘
’’نہیں تو۔‘‘ میمونہ نے مری ہوئی آواز میں کہا۔ اور اپنے جسم کو ایک آرام کرسی پر گرا دیا۔
اس رات خاصی دیر تک رہ رہ کے اس کے کوارٹر کے سامنے ہارن بجتا رہا۔ مگر میمونہ نے اپنی کسی حرکت سے یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ اس کا اس سے کوئی تعلق ہے۔
۳۱ دسمبر کی شام کو وہ دہلی کے اسٹیشن پر ریل کے زنانہ درجے میں بیٹھی واپس جا رہی تھی۔ اس کے منی بیگ میں صرف چند روپے اور کچھ ریزگاری رہ گئی تھی۔ سو روپے کے یوں بیکار بے مصرف اٹھ جانے پر اس کا دل بھر بھر آتا تھا۔ کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ وہ اس کا کوئی زیور بنا لیتی۔ جو آڑے وقت میں اس کے کام بھی آتا۔۔۔ وہ کھڑکی سے لگی بیٹھی ہر چیز کو بڑی بے توجہی سے دیکھ رہی تھی۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ پانچ برس اور بوڑھی ہوگئی ہو۔
مأخذ : کلیات غلام عباس
مصنف:غلام عباس