چاند کی نکھری ہوئی چاندنی میں صاف و شفاف ندی کے کنارے اپنی تمام روایتوں اور عظمتوں کا حامل پیگوڈا کھڑا تھا۔ اس کی مخروطی چھت کسی ہادئ برحق کی آسمان کی طرف اٹھی ہوئی انگلی کی طرح یہ دکھاتی ہوئی معلوم ہوتی تھی کہ یہ ہے صداقت کی راہ اور یہی ہے گیان کی منزل۔
بدھ مندر کے سائے میں کھڑا ہوا بھکشو اس سارے منظر سے متاثر اپنے ماحول اور زندگی سے مطمئن نظر آ رہا تھا۔ وہ اسی طرح کی ایک چاندنی رات تھی۔ جب بدھ نے جنم لیا تھا۔ اور ساری فضا ایک پیغام سے گونج اٹھی تھی۔۔۔اے مردہ لوگو! جنھوں نے دوبارہ جنم لینا ہے اور اے زندہ لوگو! جنھوں نے ایک روز موت سے ہم آغوش ہونا ہے اٹھ کھڑے ہو جاؤ۔ سنو! دنیا کا نجات دہندہ آن پہنچا۔ شانتی کا زمانہ آ گیا۔
بھِکشو کی آنکھیں پیگوڈے کی مخروطی چھت کے ساتھ ساتھ آسمان کی طرف اٹھتی چلی گئیں۔ جہاں پیگوڈے کا کلس رو پہلی چاندنی میں چمکتا ہوا ایک تیز نیزے کی فروزاں انی کی طرح آسمانی بلاؤں کو آگے بڑھنے سے روک رہا تھا۔
بِھکشو کی نظریں یہ کہتی معلوم ہوتی تھیں، کہ اس نے آسمانی بلاؤں کو ہمیشہ دور رکھا ہے اور اب بھی اس میں شکتی ہے۔ کئی زلزلے آئے، کئی بجلیاں گریں۔ مگر یہ ایک اٹل سپاہی کی طرح اپنے آدرش پر قائم ہے۔۔۔لیکن جنگ۔۔۔؟ کیا اس طوفان کو یہ سنہری کلس روک سکےگا؟ بدھ نے کہا تھا۔۔۔ہمیشہ انصاف کی فتح ہوتی ہے۔ کیا ہماری فتح نہ ہوگی؟ بدھ نے یہ بھی کہا تھا کہ جنگ میں لاکھوں پر فتح پانے والے سے وہ کہیں بڑا ہے، جو اپنے آپ پر فتح پاتا ہے۔ اس لیے بدھ نے کہا تھا۔۔۔میں بدھ جو کبھی رو رو کر آنسو بہاتا تھا۔ جس کا دل دنیا کے غموں سے ٹوٹ گیا تھا۔ آج ہنستا ہوں، خوش ہوں کہ انسان کو آزادی نصیب ہو چکی ہے۔۔۔کیا یہ آزادی قائم رہ سکےگی؟
آج ایک جو اپنے آپ کو بود بھی کہتا ہے، دوسرے پر جو بودھی ہے حملہ کر رہا ہے کیا یہ دیکھ کر بدھ پھر نہ روتا ہوگا؟ مگر بدھ نے یہ بھی تو کہا تھا، ’’دھرتی خوبصورت ہے۔ لیکن اس پر بسنے والے اَوروں کی زندگی کے بھوکے ہیں۔ دوسروں کو مار کر خود زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ آج بھی دھرتی اُسی مصیبت میں گرفتار ہے۔‘‘
بِھکشو کا سر جھک گیا۔ سر جھکائے وہ بدھ مندر کے اندر بدھ کی مورتی کے سامنے جابیٹھا۔ گویا وہ اپنے دیوتا کو جگاکر پھر وہی شانتی حاصل کرنا چاہتا تھا۔
اس کے ذہن میں یکبارگی سینکڑوں، ہزاروں بلکہ لاکھوں پیگوڈے ابھرنے لگے۔ مغموم، شکستہ پیگوڈے۔ وقت کے بےرحم ہتھوڑے نے اِن کے کنگرے گرادیے تھے۔ اسے لوگوں کی ذہنیت پر غصہ آ رہا تھا۔ جو بھی اٹھتا ہے، بدھ کی مورتی کے لیے نیا پیگوڈا تعمیر کراتا ہے۔ پرانے پیگوڈے آہستہ آہستہ مٹتے چلے جا رہے ہیں۔ کیسی تو ہم پرستی ہے کہ پرانے پیگوڈے کی مرمت سے پنیہ نہیں ملتا۔ اس نے بڑے غور سے بدھ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔ معلوم ہوتا تھا بدھ بھگوان اسے یہ حکم دے رہے ہیں کہ وہ ہر کہیں یہ اعلان کردے کہ پرانے پیگوڈے کی مرمت کرانے سے بھی بھگوان اتنے ہی خوش ہوں گے۔
اس نے اپنے پھٹے ہوئے زرد لباس کا جائزہ لیا۔ وہ بھیک مانگ کر کھاتا تھا اور وہ بھی تیسرے پہر سے پہلے پہلے، پورے بیس برس سے وہ بدھ کے بھکشو کی زندگی بسر کرتا آ رہا تھا۔
اچانک باہر کے شور نے اسے بیدار کر دیا۔ بے ہنگم، تیز آوازیں دم بدم بڑھتی چلی جارہی تھیں۔ اسے پھر جنگ کا خیال آ گیا۔ پرشکایت نگاہوں سے وہ بدھ کی جانب دیکھنے لگا۔ یہ تیسرا پَیرو عجیب آدمی ہے بھگوان، جو تیرے ہی بندوں پر بم برساتا ہے۔ توپ میں گولے بھربھرکر پھینکتا ہے۔ ہزاروں زندگیوں کو تباہ و برباد کرتا ہے۔ اب پیگوڈے بھی کب محفوظ رہ سکتے ہیں؟
اسے یوں محسوس ہوا جیسے بدھ کے چہرے پر نئے جذبات تھرک اٹھے ہوں، جیسے بھگوان کہہ رہے ہوں، ’’باورے بھکشو ڈرنے کی کون سی بات ہے؟‘‘ پیگوڈے پر کوئی بم نہیں گرا سکتا۔
شور بلند سے بلند تر ہوتا گیا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ بہت سے گھبرائے ہوئے لوگ بدھ مندر میں داخل ہو رہے تھے۔ عجب افراتفری کا عالم تھا۔ جیسے انھوں نے موت کو دیکھ لیا ہو۔ بچے بوڑھے جوان سب سہمے سہمے نظر آتے تھے۔ مرد عورتوں کو تسلّیاں دے رہے تھے۔
بِھکشوں کی آنکھیں ہجوم کی طرف اٹھیں۔ اور پھر ایک بوڑھے کے چہرے پر جم گئیں۔ جو اس وقت اِن تمام دُکھوں اور غموں کا آئینہ دار تھا، جنھوں نے گیان سے پہلے بدھ کو جھنجھوڑکر رکھ دیا تھا۔ پھر اس نے بدھ کی جانب دیکھا۔ ہے بھگوان! یہ تیرے بھگت تیرے بھگتوں سے بھاگ کر تیری شرن میں آئے ہیں اور تیرا آسرا چاہتے ہیں۔۔۔
مانڈلے کے آسمان پر ہوائی جہاز منڈلا رہے ہیں کوئی بولا، ’’آج پھر بمباری ہوگی۔‘‘
’’ہماری موت قریب ہے۔‘‘
’’موت؟ میں موت سے نہیں ڈرتا۔‘‘
’’شاید ہم بچ جائیں۔‘‘
’’ہاں، ہاں، ہم بچ جائیں گے۔۔۔‘‘ ایک بوڑھی لڑکھڑاتی آواز دیے کی لو کی طرح اوپر کو لپکی۔ ’’ہاں، ہم بچ جائیں گے۔ بھگوان بدھ ہمیں بچا لیں گے۔ بدھ مندر یا پیگوڈے پر تو وہ پاپی بم گرانے سے رہے۔‘‘
بھکشو نے بڑے غور سے اِس جھکی ہوئی کمر والی بڑھیا کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں وشواش کی جوت چمک رہی تھی۔ اسے بدھ کی شکتی پر بھروسہ تھا۔ وہ بولا، ’’ہاں، ہاں، تم ضرور بچ جاؤگے۔ بھگوان بدھ تمھیں بچالیں گے۔‘‘
بچوں اور عورتوں کی سہمی سہمی آوازیں نوجوانوں کی سرگوشیاں، ادھیڑوں کی بحثابحثی تین دریاؤں کی لہروں کی طرح جھٹ جھٹ ایک دوسرے میں سماتی جا رہی تھی۔
اپنی دل پسند پرارتھنا کے الفاظ بھکشو کے ہونٹوں پر آ گئے۔ اس نے بدھ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، ’’یہ کیسی مصیبت ہے؟ بھگوان! ہمیں بچا لو۔‘‘
ایک بچہ اس کے قدموں میں آ گرا۔ اسے پچکارتے ہوئے اسے اپنے بچپن کے دن یاد آ گئے۔ بچپن بیتا، جوانی بیتی۔ اب بڑھاپا بیت رہا ہے۔ پورے بیس برس سے میں اس بدھ مندر میں ہوں۔ ہر زور بدھ بھگوان کے سامنے بیٹھتا ہوں۔ آج یہ بچہ بھی مر جائےگا اور میں بھی مر جاؤں گا۔۔۔میں، جو بچے سے بوڑھا ہو چکا ہوں اور یہ بچہ۔۔۔! دیر تک وہ بچے کے سر پر ہاتھ پھیرتا رہا۔
ایک ہفتہ سے کسی بمبار نے مانڈلے کا رخ نہیں کیا تھا۔ آج صبح تک کسی کے شان گمان میں بھی نہ تھا کہ بمبار طیارے آئیں گے اور شہر پر بم برسائیں گے۔ وہ انہی خیالات میں بہا جا رہا تھا کہ بچے کی ماں دوڑی دوڑی آئی اور بچے کو تھام کر ایک طرف کھسک گئی۔ اس نے اس عورت کی طرف دیکھا اور سوچا، آج یہ بھی مر جائےگی اور اس کا بچّہ بھی۔ ایسی ہی عورت نے بھگوان بدھ کو جنم دیا تھا۔ موت نے تو نہ بھگوان کا لحاظ کیا تھا، نہ اُن کی ماتا کا۔ لیکن بھگوان تو ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور ان کے اُپدیش رات کی تاریکی میں امرجیوتی بن کر چمکتے رہتے ہیں۔ ہے بھگوان! اپنے بھگتوں کو بچا لو۔۔۔اپنے بھگتوں کی بمباری سے اپنے بھگتوں کو بچا لو۔۔۔
بدھ کی آنکھوں میں شانتی تھی۔ بھکشو کو یقین ہو گیا کہ پیگوڈے اور مندر پر بمباری نہیں ہوسکتی۔ وہ ان سے کہنا چاہتا تھا کہ ڈرو نہیں، بدھ کے بھگتو۔ سمجھ لو کہ تم بچ گئے، یہاں بم نہیں گریں گے۔ ایک لمحہ کے لیے اُسے یوں محسوس ہوا جیسے دھرتی گھوم کر آسمان بن گئی ہو۔ اور آسمان دھرتی کی جگہ آ گیا ہو اور بھگوان کی شکتی سے سب کے سب بم بیکار ہو گئے ہوں۔ بمباری کا سب ڈر جاتا رہا۔
وہ قریب کھڑے ہوئے لوگوں سے کہہ رہا تھا، ’’پیگوڈے اور مندر پر بم نہیں گرسکتے۔‘‘ اس کی آواز مندر کے منڈپ کے آخری کونے تک گونج اٹھی، ایک لمحے کے لیے ہجوم میں خموشی سنسناتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ایک بم کہیں نزدیک ہی گرا اور لوگ پھر چہ میگوئیاں کرنے لگے۔
’’بچ گئے سو بچ گئے، مر گئے سو مر گئے۔‘‘
’’بھگوان بدھ کے چرنوں میں مرنے سے لابھ ہی لابھ ہے۔ یہی تو نروان کا مارگ ہے۔‘‘
’’ابھی تو میں زندہ رہنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’لیکن موت سے کون کشتی لڑ سکتا ہے۔‘‘
’’یہ آخری ملاقات ہے۔‘‘
’’ہاں آخری ملاقات۔۔۔ایک مسکراہٹ اور پھر موت۔‘‘
’’بھیڑوں کے گلے پر جیسے بجلی گرتی ہے ایسے ہی آج ہمارے اوپر بم کریں گے۔‘‘
’’ہم کمزور ہیں۔ ہمیں زندہ رہنے کا حق نہیں۔‘‘
ہجوم کا شور خوفناک صورت اختیار کر گیا۔ دور کہیں بم گر رہے تھے۔ بھیانک آوازیں فضا میں چیخ رہی تھیں۔ لوگ بے زبان بتوں کی طرح ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ کہیں بچّے رینگتے رینگتے یکبارگی سہم کر تھم گئے۔ ایک دوشیزہ کے کنوارے چہرے پر پورے برما کا نقشہ ابھر آیا۔ بِھکشو نے سوچا۔ ابھی تو اس کے خدوخال اور بگڑیں گے۔ اب مانڈلے پر بھی دشمن کا قبضہ ہو جائے۔ دوشیزہ سے آنکھیں ہٹاتے ہوئے بھکشو نے چاروں طرف کا جائزہ لیا۔ وہ چاہتا تھا کہ اُس دوشیزہ کے کان میں کہے۔ برما کی پت نہیں اُترسکتی یہاں دشمن کا قبضہ نہیں ہوگا۔
ایک بار پھر فضا میں نہایت خوفناک آوازیں گونج اٹھیں۔ ہجوم میں افراتفری پھیل گئی۔ بھکشو کی شکایت بھری نگاہیں بدھ سے پوچھ رہی تھیں۔ کیوں، بھگوان یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا اب تیرے پیگوڈے اور مندر پر بھی بم گریں گے؟
معاً کوئی شے اس کے چہرے سے ٹکرائی اور خون کی دھار سے لت پت آنکھیں جھپجھپاتے ہوئے اس نے دیکھا۔ یہ اس بچے کا سر تھا۔ جسے چند لمحے پہلے وہ عورت اس کے آغوش سے اٹھالے گئی تھی۔
خوفناک آوازوں اور گونجوں کے درمیان بھکشو نے سراسیمگی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھا۔ بیسیوں انسانی سر، ٹانگیں، بازو، چھوٹے بڑے ہاتھ، مردوں اورعورتوں کے دھڑ ہوا میں اڑ رہے تھے۔
اس خوفناک منظر سے گھبراکر اس نے اپنے اِشٹ دیو کی طرف آنکھیں اٹھائیں مگر اس کی سہمی ہوئی نظریں اپنے بھگوان کے قدموں سے نہ لپٹ سکیں۔
بھگوان۔۔۔! ایک چیخ کے ساتھ اس نے بھگوان کے سر کو اپنے سینے سے لگا لیا۔
تھکے ماندے، پھٹے حال، وہ چلے جارہے تھے۔ انھیں کچھ معلوم نہ تھا کہ ان کی منزل کہاں ہے۔ وہ اِس طرح آگے ہی آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ جیسے ان کے مقدر میں ہمیشہ کے لیے چلنا ہی لکھا ہو۔ تباہی و بربادی کے منظر ابھی تک ان کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے۔ تن کے کپڑوں اور چھوٹی چھوٹی پوٹلیوں کے سوا، جن میں شاید کھانے پینے کی چیزیں تھیں۔ ان کے پاس اور کچھ نہ تھا۔
اس راستے سے پہلے بھی ایسے کئی قافلے گزر چکے تھے اور یہ راستہ انہی قافلوں کا بنایا ہوا تھا۔ پہلے کبھی ان بھیانک جنگلوں اور کٹھن پہاڑیوں سے انسان کا گزر نہ ہوا تھا۔ دیوقد ساگوانوں کے ساتھ ساتھ ان کی نگاہیں آسمان کی طرف رینگتی ہوئی معلوم ہوتیں۔ جیسے وہ خالق کو اس کی تخلیق سے متعارف کرانا چاہتی ہوں لیکن ان میں ایک ایسا شخص بھی تھا جس کی نگاہیں جھکی ہوئی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کی نگاہیں آسمان کی طرف دیکھتے دیکھتے تھک ہار کر یہ فیصلہ کرچکی ہیں کہ اوپر دیکھنا بیکار ہے۔ اس کے پھٹے ہوئے زرد لباس سے معلوم ہوتا تھا۔ کہ وہ کسی پیگوڈے کا بھکشو ہے۔ اس کی پشت پر بید کا بکس بندھا ہوا تھا۔ وہ اس قافلے کے ساتھ چلا جا رہا تھا۔
اترتی چڑھتی پگڈنڈی پر یہ قافلہ آگے ہی آگے بڑھ رہا تھا۔ یہ لوگ کہاں جائیں گے؟ اس جنگل کے اس پار دوسرے جنگل میں، دوسرے جنگل کے اس پار، تیسرے جنگل میں۔ ہارے ہوئے سپاہیوں کی طرح یہ پناہ گزیں کسی ان دیکھی منزل کی طرف جا رہے تھے۔ اپنے شہروں کی گلیوں اور بازاروں سے دور۔۔۔افق کے اس پار۔ کون کہہ سکتا تھا کہ وہ کب لوٹیں گے۔ لوٹیں گے بھی یا نہیں۔
بھکشو کی طاقت سلب ہوتی معلوم ہورہی تھی۔ اس کا دماغ اس کا حکم ماننے سے انکار کر رہا تھا۔ اس کی انتڑیاں بھوکی تھیں۔ مگر وہ ان لوگوں سے کیسے بھِکشا مانگتا۔ جن کے پاس اپنے لیے بھی کچھ نہ تھا؟
وہ ذرا رک کر نروان مارگ کے منتر کا جاپ کرنے لگا۔۔۔میں بدھ کی شرن میں جاتا ہوں، دھرم کی شرن میں جاتا ہوں، سنگھ کی شرن میں جاتا ہوں۔۔۔پھر اسے سنگھ یا ملت کی کم مائیگی کا خیال آیا۔ ہاں یہ سب سنگھ کی کمزوری ہے کہ ایک بودھی دیس دوسرے بودھی دیس پر دھاوا بولتا ہے۔ دونوں بھگوان کے نام لیوا ہیں۔۔۔بدھ بھگوان کے نام لیوا۔۔۔بدھ بھگوان کے نام لیوا۔۔۔! یہ جنگ کیسی؟ اس بربریت کا مطلب؟ آج بم برستے ہیں۔ توپوں سے گولے چھوٹتے ہیں۔ دنادن گولیاں چلتی ہیں۔ دھواں اٹھتا ہے۔ شعلے لپکتے ہیں۔ مسکراہٹیں، قہقہے، سہاگ، زندگی کے عہدو پیمان سب ختم ہو رہے ہیں۔ باپ کی شفقت، ماں کی مامتا بموں کے نیچے ریزہ ریزہ ہورہی ہے۔ اور پھر اپنے دماغ سے باتیں کرنے کی بجائے وہ قافلہ والوں کی باتیں سننے لگتا۔
’’جانے موت کہاں سے شروع ہوتی ہے۔‘‘
’’اس پگڈنڈی پر سے پہلے بھی بپتا کے مارے گزرے ہوں گے۔‘‘
کبھی کبھی بھکشو کو اپنی زندگی بجھے انگارے کی طرح ٹھنڈی پڑتی محسوس ہوتی۔ رات کے سناٹے میں چیخیں سنائی دیتیں، جیسے بھگوان رو رہے ہوں۔
کئی دن، کئی راتیں اسی طرح گزر گئیں۔ کئی سنگی ساتھی راستے ہی میں چھوٹ گئے، قافلہ اپنی اَن دیکھی منزل کی جانب جا رہا تھا۔ بِھکشو کے ذہنی افق پر دائرے ابھرنے لگتے۔۔۔زندگی اور موت کے دائرے۔ ان دائروں میں بھگوان کا مسکراتا ہوا چہرہ یکبارگی مغموم ہو اٹھتا۔ اپنے زرد لباس کی طرف وہ اچٹتی نگاہوں سے دیکھتا۔ میں بھی کیا خاک بھکشو ہوں؟ میری بیس برس کی پوجا بیکار چلی گئی۔ بھگوان مجھ پر ناخوش ہیں۔ مجھے چاہیے تھا بم گرنے سے پہلے بھگوان کے جسم سے چمٹ جاتا اور اُن کا سر اڑنے سے پہلے میرا جسم ریزہ ریزہ ہو چکا ہوتا۔
اسے بار بار پیگوڈے اور مندر کا دھیان آتا جہاں اس نے اتنے برس بدھ کی پوجا میں گزارے تھے۔ مندر کا دروازہ اس کے ذہن میں ابھرنے لگتا۔۔۔زندگی کا دروازہ! اسی دروازے سے گزر کر بھگوان کے درشن کیے جا سکتے تھے۔ اس وقت اس کے اداس دل میں تازگی سی آ جاتی۔ مندر سے نکل کر جیسے بھگوان دروازے پر کھڑے ہو گئے ہوں۔ اور اسے اپنی طرف بلا رہے ہوں۔ بھگوان کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل (۱) اٹھتی اور اسے خیال آتا کہ وہ واپس چلا جائے۔ اور قافلے والوں کو بھی سمجھائے کہ بھگوان انھیں بلا رہے ہیں۔
قافلے کو آگے ہی آگے چلنا منظور تھا۔ جیسے نغمہ کے مغموم سر عروج پر پہنچنے میں کوشاں ہوں، جیسے خیالات کا ہجوم اعتقاد کی سطح تک ابھرنے چلا ہو۔ وہ کس قدر دور نکل آئے تھے۔ پیگوڈے سے دور، ایرادتی سے دور۔ اسے ان نغموں کا خیال آتا جو ایرادتی کے ملاّحوں کے ہونٹوں پر تھرک اُٹھتے تھے۔ ان ترانوں میں وہ بدھ کے گن گاتے تھے۔ جانے اب کبھی وہ نغمے سننے کو ملیں گے یا نہیں۔ بھکشو کو اپنے قدم بوجھل محسوس ہونے لگتے۔
آگے ہی آگے، کبھی اوپر کبھی نیچے۔۔۔انجانی خلاؤں میں زندگی کا کارواں رواں دواں نظر آتا تھا۔ یہ لوگ گا تو نہ سکتے تھے۔ ان کے کپڑے میلے، ان کے پاؤں زخمی۔ کبھی وہ بھی رنگ رلیاں مناتے تھے۔ لیکن اب ان کے ذہن تاریک سے تاریک تر ہوتے جاتے تھے۔ دوشیزاؤں کے گالوں پر گلاب مرجھا کر رہ گئے تھے۔ یہ کیسی خزاں تھی؟ ان کے ارادوں پر موت کے سائے پھیل رہے تھے۔ جیسے پگڈنڈی نے ابھی ابھی انگڑائی لی ہو۔ اوپر پہاڑ پر بل کھاتی پگڈنڈی طرف کھبتی ہوئی نگاہ سے دیکھتے ہوئے بھکشو سوچنے لگا۔ جانے یہ پگڈنڈی کہاں ختم ہوگی؟ جانے یہ کہیں ختم ہوگی بھی یا نہیں؟ بھکشو کے سینے میں طوفان سا اٹھ رہا تھا۔ پگڈنڈی پر اداسی چھاگئی، جیسے وہ بیمار مغنیہ ہو اور ایسے میں اس کے ہونٹوں پر کوئی نغمہ نہ تھرک سکتا ہو۔ پرانے قدموں کے نشان کسی پہلے قافلے کا افسانہ سنارہے تھے۔ ان پر بچ بچ کر قدم رکھتا ہوا وہ چلا جا رہا تھا۔۔۔بدھ کا اداس بِھکشو۔۔۔قافلے کے ساتھ لیکن قافلے سے الگ۔
بدھ گیا کا سر بفلک مندر ویرانے میں ایک دیوہیکل نقیب کی طرح کھڑا زبان حال سے پکار پکار کر دور دور کے لوگوں سے یہ کہتا معلوم ہوتا تھا کہ آؤ اے دنیا والو! اگر تم دنیا کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے پناہ چاہتے ہو تو یہاں آؤ۔ اگر تم اپنی منزل کا راستہ بھول گئے ہو تو یہاں آؤ اگر تم نروان چاہتے ہو تو یہی وہ جگہ ہے، جہاں ہر کسی کو آنا ہوگا۔ یہاں ہر کسی کو پناہ ملےگی، گیان اور نروان ملے گلا اور شاید اس نقیب کی پکار سن کر ہی ہزاروں چلے آ رہے تھے۔ پگڈنڈیوں پر، گھوڑوں پر، سڑکوں پر، بیل گاڑیوں میں، پیدل، دیوانہ وار پرشکوہ مندر کی عالیشان عمارت کا رعب ان کے دل و دماغ پر کچھ اتنا غالب تھا کہ وہ یہی سوچ کر رہ جاتے کہ اس کے سامنے انسان کی ہستی ہی کیا ہے۔
ایک نئے بیاہے جوڑے نے مندر کے سامنے کھڑے ہوکر نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے دیکھتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں یہ کہنا چاہا، یہ ماننا ہی ہوگا کہ بدھ گیا کے مندر کے مقابلے میں ہم بالکل ایسے ہی ہیں جیسے پورے قد والے انسان کے سامنے دو چیونٹیاں دلہن شرما گئی۔ لیکن دولھا مسکرایا اور آہستہ آہستہ اُس کی مسکراہٹ معنی خیز قہقہے میں پھوٹ پڑی۔ جیسے وہ کہہ رہا ہو، ’’کوئی کچھ بھی کہے یہ مندر انسان کے مقابلے میں ہیچ رہےگا۔ کیونکہ ہمارے بزرگوں نے ہی تو اپنے ہاتھوں سے اسے کھڑا کیا تھا۔‘‘
دلہن اور بھی شرماتی چلی گئی۔ جیسے وہ یہ کہنا چاہتی ہو، میں ضرور تمھارے مقابلے میں ہیچ ہوں۔
وہ پرے ہٹ جانا چاہتی تھی۔ لیکن وہیں کھڑی رہی۔ ایک اچٹتی سی نگاہ اس نے اوپر سیڑھیوں پر پھینکی اور پاؤں سے نچلی سیڑھی کو ٹہوکا دیتی رہی۔ اس کے چہرے پر بے چینی کی شکنیں ابھری، وہ چاہتی تھی کہ سب سے پہلے اوپر مندر میں پہنچ کر بھگوان کے درشن کیے جائیں تاکہ ان کے آشیرباد سے وہ ایک دن بیٹے کی ماں بنے۔ لیکن اب وہ دولھے کو کیسے سمجھائے کہ مندر کے چوکھٹے شکھر اور سنہری کلس کی طرف ایک مورکھ کی طرح ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہنے سے کیا مل سکتا ہے۔ شِکھر اور کلس سے پھسل کر نوجوان کی نگاہیں دلہن کے چہرے پر جم گئیں۔ وہ پھر مسکرایا۔ جیسے کہہ رہا ہو، میں جانتا ہوں، تم بھگوان سے کچھ مانگنا چاہتی ہو۔ لیکن میں پُوچھتا ہوں بھگوان کے لیے تم کیا لائی ہو۔
دلہن نے نظریں چراکر ایک خمیدہ کمر یاتری کی طرف دیکھا جو آہستہ آہستہ چلتا ہوا قریب ہی سیڑھی پر بیٹھ گیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اسے اس شخص کے زرد کپڑوں کی طرف دیکھ کر دھیان آیا کہ اسی سے آشیرباد مانگ کر گھر چلی جائے۔ اگر وہ کہے کہ آشیرباد تو مانگتی ہو مجھے کیا دوگی تو وہ جھٹ کہہ اُٹھےگی۔۔۔شردھا ہاں سادھو۔ مجھے پھل چاہیے۔ لیکن پیشتر اس کے کہ وہ اس کی طرف قدم اٹھاتی، دولھا نے اس کا بازو کھینچا اور وہ دونوں بھیڑ میں جانے کہاں گم ہو گئے۔
سیڑھی پر بیٹھے بیٹھے یاتری نے محسوس کیا کہ وہ اس ماحول میں اجنبی ہی تو ہے۔ سہمی سہمی نظریں اس نے دائیں بائیں گھمائیں لیکن اسے کوئی مانوس چہرہ نظر نہ آیا۔ اس نے اپنی کمر پر سے چادر ہٹائی جس کے نیچے بید کا بنا ہوا بکس تھا، جو رسیوں سے اس کے جسم کے ساتھ بندھا ہوا تھا، رسیاں کھول کر ادب سے اس نے بکس کو اپنے پہلو میں رکھا اور وہ شِکھر کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کی رینگتی ہوئی نگاہیں کلس پر پہنچ کر رک گئیں۔
لوگوں کا ایک ہجوم بھجن گاتا ہوا پاس سے گزر گیا، بھکشو نے سوچا، یہ لوگ کتنے خوش ہیں ہجوم میں اسے اپنی تنہائی بُری طرح کھٹک رہی تھی، اس نے سوچا میں تو بھلا بھگوان کا معمولی سا سیوک ہوں۔ مجھے تو بھلا یہ لوگ کیا اپنائیں گے؟ یہ تو بھگوان کو بھی نہ پہچان سکیں۔ جنھیں اس جگہ گیان حاصل ہوا تھا۔ اور جن کی یادگار کے طور پر اشوک نے یہ عالیشان مندر تعمیر کرایا تھا، لوگوں کا شور بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا تھا۔
’’یاتری۔۔۔!‘‘ اس آواز نے بھکشو کے خیالات کا سلسلہ توڑا۔
کوئی ہمدردانہ لہجے میں اسے متوجہ کرنے کی کوشش میں تھا۔ اس نے آنکھیں اٹھاکر بلانے والے کی طرف دیکھا۔
’’میں اس مندر کا پجاری ہوں یاتری۔ شایدتم بہت دور سے آئے ہو۔‘‘
’’ہاں بہت دور سے، دور برما دیس سے۔‘‘
’’برما سے؟‘‘
اس نے سیڑھی سے اٹھنے کی کوشش کی، لیکن پجاری بولا، ’’تم بہت تھک گئے ہو یاتری آرام سے بیٹھے رہو۔ ہم بھگوان کے درشن کریں گے۔‘‘
پجاری کی نگاہیں بھکشو کے بکس پر تھیں، بھکشو نے معنی خیز مسکراہٹ ہونٹوں کے کونوں تک لاتے ہوئے کہا، ’’میں بھگوان کے لیے بھینٹ لایا ہوں۔‘‘
’’بھگوان کے لیے بھینٹ۔۔۔!‘‘ پجاری کا چہرہ کھل اٹھا، ’’چلو چل کر بھگوان کے درشن کریں۔‘‘
بھکشو نے آہستہ سے کہا، ’’لیکن پہلے مجھے بودھی برکش کے نیچے لے چلو جہاں بھگوان کو گیان حاصل ہوا تھا۔‘‘
’’بودھی بِرکش؟ وہ برکش اب کہاں، یاتری؟‘‘
’’وہ بِرکش نہیں رہا؟‘‘
’’اس برکش کا بیج ہمارے دل میں پڑا اور اب تو ہم بھی گویا بودھی بِرکش ہیں۔ لوگ ہم سے گیان لینے آتے ہیں۔‘‘
’’بودہی برکش کیسے مٹ سکتا تھا؟ جب تک بھگوان کا نام زندہ ہے، بودھی بِرکش بھی زندہ رہےگا۔‘‘
’’ہاں ہاں بودھی برکش زندہ رہےگا۔ جب تک بھگوان کا نام زندہ ہے۔ اس بِرکش کی اولاد اسی جگہ موجود ہے۔ چلو میں تمھیں دکھاتا ہوں، یاتری۔‘‘
بھکشو نے بکس کندھے پر اٹھا لیا۔
ایک درخت کے نیچے پہنچ کر پجاری بولا، ’’ٹھیک اسی استھان پر تھا وہ برکش۔‘‘
بھکشو نے آنکھیں بند کر لیں اور بکس نیچے رکھ کر بکس کے سامنے جھک گیا۔ یکلخت وہ کہہ اٹھا، ’’نہیں۔۔۔یہ نہیں۔۔۔وہ سامنے۔‘‘ اور بکس اٹھا کر وہ بڑی تیزی سے دوسرے درخت کے نیچے چلا گیا۔ سائے کی طرح پجاری بھی پیچھے پیچھے آ پہنچا۔
بکس رکھ کر بھکشو بیٹھ گیا۔ اور بولا، ’’ہاں یہی ہے وہ استھان۔‘‘ ایک بار پھر اُس نے سمادھی میں آنکھیں بند کر لیں، وہ بھگوان کو ساکشات اسی حالت میں آلتی پالتی مارے بیٹھا دیکھ رہا تھا۔ جب انھیں اسی جگہ گیان حاصل ہوا تھا۔
پجاری کی نگاہیں برابر بھکشو کے بکس پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ضرور اس بکس میں کوئی قیمتی چیز بند ہے۔ اور برما میں تو ہیرے بھی ہوتے ہیں۔ شاید اس یاتری کو بھی کہیں سے دو چار ہیرے مل گئے ہوں۔ پہلے وقتوں میں تو بڑے بڑے راجے مہاراجے ہی ہیروں کی بھینٹ لایا کرتے تھے۔ اس نے دور سے مندر کے تیوہار کی رونق بڑھانے والے ہجوم کا جائزہ لیا۔ بہت لوگ مندر کی پرکرما کر رہے تھے۔ ان میں ہر عمر کے لوگ موجود تھے۔ بچے بوڑھے، جوان عورتیں اور مرد۔ وہ سب بھگوان کے بھگت تھے۔ سمادھی میں بیٹھے ہوئے بھکشو کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے سوچا، ایسے یاتری تو روز روز نہیں آتے۔ ان کی سو بھینٹیں، اس کی ایک بھینٹ۔
جوں ہی بھکشو نے آنکھیں کھو لیں۔ پجاری بولا، ’’چلو اب مندر چلیں، یاتری۔‘‘
دونوں مندر کی جانب چل دیئے۔ انھوں نے دیکھا کہ امڈتا ہوا ہجوم مندر کے قریب جمع ہو گیا ہے۔ جیسے رنگ رنگ کی لہریں ایک مرکزی نقطے پر کوئی اچھا سا نمونہ کاڑھنے کا فیصلہ کر چکی ہوں۔ ہجوم کا شور الگ کسی نغمے کا سرگم تیار کر رہا تھا۔
پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی بھکشو رک گیا۔ اس نے ہجوم پر نظر دوڑائی لوگ بڑے امن اور شانتی کے ساتھ گھوم رہے تھے۔ پھر اس کی نگاہیں مندر کے شِکھر کی طرف اٹھ گئیں۔ کلس دھوپ میں چمک رہا تھا۔ جیسے وہ روشنی کا ایک بلند مینار ہو، جو دنیا کے گم کردہ راہ مسافروں کو اپنی روشنی سے ان کی منزل کا راستہ دکھا رہا ہو۔
بےخودی کے عالم میں وہ بول اٹھا، ’’بھگوان! اتنا فرق! وہ بھی مندر تھا، یہ بھی مندر ہے۔ وہ بھی ہجوم تھا۔ یہ بھی ہجوم ہے۔ وہ تیری پناہ میں آئے تھے، انھیں پناہ نہ مل سکی۔ یہ گیان حاصل کرنے آئے ہیں، کیا اِنھیں گیان حاصل ہو رہا ہے؟‘‘
پجاری نے حیرت سے پوچھا، ’’کیا کہا یاتری؟‘‘
لیکن بھکشو پجاری کی طرف متوجہ ہوئے بغیر کہتا چلا گیا، ’’وہاں کے انسان الگ تھے یا یہاں کے بھگوان الگ ہیں؟ انھوں نے صرف تم پر بھروسہ کیا، بھگوان! وہ صرف تمھاری شرن میں آئے اور وہ بچ نہ سکے۔ تو کیا اس کا یہ ارتھ ہے کہ اہنسا بھی وہی کرسکتا ہے۔ جو اپنی رکشا کے لیے ہِنسا کرنے کا بل رکھتا ہو؟ تیرے بھگت کہلانے والوں نے تیرے بھگتوں پر بم برسائے، تیرے پیگوڈے اور مندر پر تباہی کی آگ برسائی۔۔۔اور وہیں سے میں تمھارے لیے تمھاری بھینٹ لایا ہوں۔ بھگوان!‘‘
پجاری بولا، ’’تو چلو، یاتری۔۔۔دیر کاہے کی۔۔۔؟ بھگوان ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘
بھکشو کے چہرے پر روشنی جھلک اٹھی تھی۔ گویا اسے اس سیڑھی پر گیان حاصل ہوا تھا۔ اس کی سب واماندگی دور ہو چکی تھی۔ پجاری کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے پروقار آواز میں کہا، ’’چلو چلیں۔‘‘
وہ سیڑھیوں پر چڑھنے لگے۔ مگر بھکشو کے لیے یہ سیڑھیاں نہ تھیں، نروان کی منزلیں تھیں جو وہ طے کر رہا تھا۔
مندر کے دروازے پر پہنچ کر بھکشو ٹھٹکا۔ اس نے دیکھا کہ وہی دلہن جس کا بازو تھام کر اس کا خاوند ہجوم میں گم ہو گیا تھا۔ بھگوان کے سامنے ہاتھ جوڑے کہہ رہی تھی، ’’اپنے جیسا ایک بیٹا مجھے بھی دے دو، بھگوان!‘‘ اور پاس کھڑا اس کا شوہر بھی ایک لمحے کے لیے جھک گیا جیسے کہہ رہا ہو، کِرپا کرو، بھگوان!
میاں بیوی باہر نکلے تو پجاری کو دیکھ کر ٹھٹھک گئے۔ پجاری بولا، ’’جاؤ بیٹا! اگلے تیوہار پر دو سے تین بن کر آنا، میرے آشیرباد سے بیٹا ہی ہوگا۔ میرے لیے بھینٹ لانا نہ بھول جانا۔‘‘
بھکشو کی آنکھوں کے سامنے پیگوڈے اور مندر کا وہ منظر پھر گیا، جب خون میں لت پت ایک بچّے کا سر اس کے چہرے کے ساتھ ٹکرایا تھا۔ لبوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے بھگوان کی مورتی کو نمسکار کیا۔ آلتی پالتی مارے بھگوان شانتی کے اوتار معلوم ہوتے تھے۔ جیسے انھیں برما میں اپنے بھگتوں پر بم باری کا کوئی علم ہی نہ ہو۔
بھکشو بکس پر کانپتا لرزتا جھکا اور پھر چکرا کر گر پڑا۔
پجاری نے لپک کر بکس کا ڈھکنا اٹھایا اور بدھ کا کٹا ہوا سر دیکھ کر ناک سکوڑتا ہوا باہر نکل گیا۔
مصنف:دیوندر ستیارتھی