کہانی کی کہانی:’’تقسیم ملک پر لکھی ایک کہانی۔ ہربنس پور ریلوے اسٹیشن پر گاڑی کافی دیر سے رکی ہوئی ہے۔ ٹرین میں ہندوستان جانے والی سواریاں بھری ہوئی ہیں، انھیں میں ایک اسکول ماسٹر بھی ہے۔ ماسٹر کے ساتھ اس کی بیمار بیوی کے علاوہ ایک بیٹا، ایک بیٹی اور ایک دودھ پیتا بچہ ہے۔ بچے پیاسے ہیں، ماسٹر چاہ کر بھی انہیں پانی نہیں پلا سکتا کیونکہ پانی کا ایک گلاس چار روپے کا ہے۔ گاڑی چلنے کا نام نہیں لیتی، مسافر ہلکان و پریشان ہیں۔ ماسٹر کی بیوی کی طبیعت خراب ہونے لگتی ہے تو وہ اسکے ساتھ اسٹیشن پر اتر جاتا ہے، جہاں اس کی بیوی کی موت ہو جاتی ہے۔ ماسٹر اپنی بیوی کی لاش کو اسٹیشن پر چھوڑ کر یہ کہتے ہوئے چلتی ٹرین میں سوار ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی جنم بھومی کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی ہے۔‘‘
گاڑی ہربنس پورہ کے اسٹیشن پر کھڑی تھی۔ اسے یہاں رکے ہوئے پچاس گھنٹے سے اوپر ہوچکے تھے۔ پانی کا بھاؤ پانچ روپے گلاس سے یکدم پچاس روپے گلاس تک چڑھ گیا تھا۔ پچاس روپے گلاس کے حساب سے پانی خریدتے ہوئے لوگوں کو نہایت لجاجت سے بات کرنی پڑتی تھی۔ وہ ڈرتے تھے کہ کہیں بھاؤ اور نہ چڑھ جائے، کچھ لوگ اپنے دل کو یہ تسلّی دے رہے تھے کہ جو ادھر ہندوؤں پر بیت رہی ہے وہ ادھر مسلمانوں پر بھی بیت رہی ہوگی۔ انھیں بھی پانی اس سے سستے بھاؤ پر نہیں مل رہا ہوگا۔ انھیں بھی نانی یاد آرہی ہوگی۔
پلیٹ فارم پر کھڑے کھڑے ملٹری والے بھی تنگ آچکے تھے۔ یہ لوگ مسافروں کو حفاظت سے نئے دیش میں لے جانے کے ذمہ دار تھے۔ لیکن ان کے لیے پانی کہاں سے لاتے؟ ان کا اپنا راشن بھی کم تھا۔ پھربھی بچے کھچے بسکٹ اور مونگ پھلی کے دانے ڈبوں میں بانٹ کر انھوں نے ہمدردی جتانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ اس پر مسافروں میں چھینا جھپٹی دیکھ کر انھیں حیرت ہوتی اور وہ کچھ کہے سنے بغیر ہی پرے کو گھوم جاتے۔
جیسے مسافروں کے ذہن میں یم دوتوں کی کلپنا ابھر رہی ہو۔ جیسے ان کے جنم جنم کے پاپ ان کے سامنے ناچ رہے ہوں۔ جیسے جنم بھومی سے پریم کرنا ہی ان کا سب سے بڑا دوش تھا۔ اسی لیے تو وہ جنم بھومی کو چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے۔ قہقہے اور ہنسی ٹھٹھول جنم بھومی نے اپنے پاس رکھ لیے تھے۔ عورتوں کے چہروں پر جیسے کسی نے سیاہ دھبّے ڈال دیے ہوں، ابھی تک انھیں اپنے سروں پر چمکتی ہوئی چھریاں لٹکتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔ لڑکیوں کے کانوں میں گولیوں کی سنسناہٹ گونج اٹھتی اور وہ کانپ کانپ جاتیں۔ ان کے ذہن میں بیاہ کے گیت بلوائیوں کے نعروں اور مار دھاڑ کے شور میں ہمیشہ کے لیے دب گئے تھے۔ پایل کی جھنکار ہمیشہ کے لیے گھائل ہوگئی تھی۔ ان کے سینوں کی شفق مٹیالی ہوتی چلی گئی۔ زندگی کا راگ موت کی گہرائیوں میں بھٹک کر رہ گیا، قہقہے سوگ میں ڈوب گئے اور ہنسی ٹھٹھول پر جیسے شمشان کی راکھ اڑنے لگی۔ پانچ دن کے سفرمیں سب کے چہروں کی رونق ختم ہوگئی تھی۔
یہ سب کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ اس پر غور کرنے کی کسے فرصت تھی؟ اور اس پر غور کرنا کچھ آسان بھی تو نہ تھا۔ یہ سب کیسے ہوا کہ لوگ اپنی ہی جنم بھومی میں بیگانہ ہوگئے؟ ہر چہرے پر خوف و ہراس تھا۔ بہتوں کو اطمینان ضرور تھا کہ جان پر آ بننے کے بعد وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ لیکن ایک ہی دھرتی کا انّ کھانے والے لوگ کیسے ایک دوسرے کے خون سے ہاتھ رنگنے کے لیے تیار ہوگئے؟ یہ سب کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟
نئے دیش کا تصور انھیں اس گاڑی میں لے آیا تھا۔ اب یہ گاڑی آگے کیوں نہیں بڑھتی؟ سننے میں تو یہاں تک آیا تھا کہ اس اسٹیشن پر کئی بار بلوائیوں نے حملہ کرکے تمام مسافروں کے خون سے ہاتھ رنگ لیے تھے۔ لیکن اب حالت قابو میں تھی۔ اگرچہ کچھ لوگ پچاس روپے گلاس کے حساب سے پانی بیچنے والوں کو بدمعاش بلوائیوں کے شریف بھائی ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ نئے دیش میں یہ سب مصیبتیں تو نہ ہوں گی۔ وہاں سب ایک دوسرے پر بھروسہ کرسکیں گے۔ لیکن جب پیاس کے مارے ہونٹ سوکھ جاتے اور گلے میں پیاس کے مارے سانس اٹکنے لگتا تو ان کے جذبات میں ایک ہیجان سا پیدا ہو جاتا۔
کھچا کھچ بھرے ہوئے ڈبے پر آلوؤں کی بوری کا گمان ہوتا تھا۔ ایک ادھیڑ عمر کی عورت جو بہت دنوں سے بیمار تھی ایک کونے میں دبکی بیٹھی تھی۔ اس کے تین بچّے تھے۔ ایک لڑکی سات سال کی تھی ایک پانچ سال کی اور تیسرا بچہ ابھی دودھ پیتا تھا۔ یہ گود کا بچہ ہی اسے بری طرح پریشان کررہا تھا۔ کبھی کبھی تنگ آکر وہ اس کو جھنجھوڑ دیتی۔ اس عورت کا خاوند بار بار بچّے کو گود میں لے کر کھڑا ہوجاتا۔ لیکن بچّے کی چیخیں نہیں رکتی تھیں۔ وہ پھر اپنی جگہ پر بیٹھ جاتا۔ وہ اپنی بیوی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہنا چاہتا تھا کہ یہ تیسرا بچہ پیدا ہی نہ ہوا ہوتا تو بہتر تھا۔
بچّے کو اپنی گود میں لیتے ہوئے بیمار عورت کے خاوند نے دھیرے سے کہا، ’’گھبراؤ مت۔ تم ٹھیک ہوجاؤگی۔ بس اب تھوڑا سا فاصلہ اور باقی ہے۔‘‘
بیمار عورت خاموش بیٹھی رہی۔ شاید وہ کہنا چاہتی تھی کہ اگر گاڑی اور رکی رہی تو بلوائی آپہنچیں گے اور یہ گنتی کے ملٹری والے بھلا کیسے ہماری جان بچاسکیں گے۔ گویا یہ سارے مسافر لاشوں کا انبار تھے۔
قریب سے کسی نے پوچھ لیا، ’’بہن جی کو کیا تکلیف ہے؟‘‘
بیمار عورت کا خاوند بولا، ’’اس گاؤں میں کوئی ڈاکٹر نہ تھا جہاں میں پڑھا تا تھا۔‘‘
’’تو آپ اسکول ماسٹر ہیں؟‘‘
’’یہ کہیے کہ اسکول ماسٹر تھا‘‘ بیمار عورت کے خاوند نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا، ’’اب بھگوان جانے نئے دیش میں ہم پر کیا بیتے گی۔‘‘
وہ اپنے دماغ کو سمجھاتا رہا کہ ذرا گاڑی چلے تو سہی۔ وہ بہت جلد اپنے راج میں پہنچنے والے ہیں۔ وہاں ڈاکٹروں کی کمی نہ ہوگی۔ کہیں نہ کہیں اسے اسکول ماسٹر کی جگہ مل ہی جائے گی۔ اس کی آمدنی پہلے سے بڑھ جائے گی۔ وہ اپنی بیوی سے کہنا چاہتا تھا کہ جنم بھومی میں جو جو چیز آج تک حاصل نہیں ہوسکی، اب نئے دیش میں اور جنتا کے راج میں اس کی کچھ کمی نہ ہوگی۔
بڑی لڑکی کانتا نے بیمار ماں کے قریب سرک کر کہا، ’’ماں! گاڑی کب چلے گی؟‘‘
چھوٹی لڑکی شانتا کھڑکی کے باہر جھانک رہی تھی۔
کانتا اور شانتا کا بھیّا للت باپ کی گود میں برابر روئے چلا جارہا تھا۔
اسکول ماسٹر کو اپنے اسکول کا دھیان آگیا۔ جہاں وہ پچھلے دس برس سے ہیڈ ماسٹر تھا ٹیکسلاکے نزدیک، اس گاؤں کو شروع شروع میں یہ منظور نہ تھا کہ وہاں یہ اسکول ٹھیر سکے۔ اس نے بڑے پریم سے لوگوں کو سمجھایا تھا کہ یہ گاؤں ٹیکسلا سے دور نہیں۔۔۔ ٹیکسلا، جس کا پراچین نام ’’تکش شلا‘‘ ہے اور جہاں ایشیا کا سب سے بڑا وشو ودیالیہ تھا۔ جہاں دور دور کے دیشوں سے نوجوان تعلیم پانے آیا کرتے تھے۔
یہ خیال آتے ہی دوبارہ اس کے ذہن کو جھٹکا سا لگا۔ کیونکہ اس دور کے لوگوں نے تو ایک دوسرے کے خون سے ہاتھ رنگنے کی قسمیں کھائیں اور ظلم و ستم کی یہ واردات ڈھولوں اور شہنائیوں کے سنگیت کے ساتھ ساتھ عمل میں لائی گئیں۔ پڑھے لکھے لوگ بھی بلوائیوں کے سنگ سنگاتی بنتے چلے گئے۔ شاید اُنھیں بھول کر بھی یہ خیال نہ آیا کہ ابھی تو پراچین ’’تکش شلا‘‘ کی کھدائی کے بعد ہاتھ آنے والے سنگتراشی کے بیش قیمت نمونے بھی اپنا سندیش برابر سنائے جارہے تھے۔ یہ کیسی جنم بھومی تھی؟ اس جنم بھومی پر کسے فخر ہوسکتا تھا۔ جہاں قتلِ عام کے کھیل کھیلنے کے لیے ڈھول اور شہنائیاں بجانا ضروری سمجھا گیا؟ تاریخ کی گھنٹی بجنے پر اس نے بارہا اسکول کے طالب علموں کو یہ جتایا تھا کہ یہی وہ ان کی جنم بھومی ہے جہاں کبھی کنشک کا راج تھا، جہاں اہنسا کا منتر پھونکا گیا تھا۔ جہاں بھکشوؤں نے تیاگ، شانتی اور نروان کے اپدیش دیے اور باربار گوتم بدھ کے بتائے ہوئے راستے کی طرف اشارہ کیا۔ آج اسی دھرتی پر گھر جلائے جارہے تھے اور شاید ڈھلتی برفوں کے شیتل جل سے بھرپور دریاؤں کے ساتھ ساتھ گرم گرم انسانی لہو کا دریا بہانے کا منصوبہ پورا کیا جارہا تھا۔ ڈبے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے کندھے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر وہ کہنا چاہتا تھا کہ گوتم بدھ کو دنیا میں بار بار آنے کی ضرورت نہیں۔ اب گوتم بدھ کبھی جنم نہیں لے گا۔ کیونکہ اس کی اہنسا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔ اب لوگ نروان نہیں چاہتے۔ اب تو انھیں دوسروں کی آبرو اتارنے میں مزہ آتا ہے، اب تو مادرزاد برہنہ عورتوں اور لڑکیوں کے جلوس نکالنے کی بات کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی۔ آج جنم بھومی کو گرہن لگ گیا۔ آج جنم بھومی کے بھاگ پھوٹ گئے۔ آج جنم بھومی اپنی سنتان کی لاشوں سے اٹی پڑی ہے اور اب یہ انسانی گوشت اور خون کی سڑانڈ کبھی ختم نہیں ہوگی۔
اس دوران میں ننھا للت رو رو کر سو گیا تھا۔ کانتا اور شانتا برابر سہمی سہمی نگاہوں سے کبھی ماں کی طرف اور کبھی کھڑکی کے باہر دیکھنے لگتی تھیں۔ ایک دو بار ان کی نگاہ للت کی طرف بھی اٹھ گئی۔ وہ چاہتی تھیں کہ ابھی تھوڑی دیر اور ان کا باپ للت کو لیے کھڑا رہے۔ کیونکہ اس کی جگہ پر انھیں آرام سے ٹانگیں پھیلانے کا موقع مل گیا تھا۔
شانتا نے کانتا کے بال نوچ ڈالے اور کانتا رونے لگی۔ پاس سے ماں نے شانتا کے چپت دے ماری اور اس پر شانتا بھی رونے لگی۔ ادھر للت بھی جاگ اٹھا اور وہ بھی تلخ اور بے سرے انداز میں رونے چیخنے لگا۔
اسکول ماسٹر کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ پراچین تکش شلا کے وشوودّیالہ اور بھکشوؤں کے اپدیش سے ہٹ کر وہ یہ کہنے پر آمادہ ہوگیا کہ کون کہتا ہے اس دیش میں کبھی گوتم بدھ کا جنم ہوا تھا۔ وہ کانتا اور شانتا سے کہنا چاہتا تھا کہ رونے سے تو کچھ فائدہ نہیں۔ ننھا للت تو بے سمجھ ہے اور اس لیے بار بار رونے لگتا ہے، تم تو سمجھ دار ہو تمھیں تو بالکل نہیں رونا چاہیے۔ کیونکہ اگر تم اس طرح روتی رہوگی تو بتاؤ تمھارے چہرے کنول کے پھولوں کی طرح کیسے کھل سکتے ہیں۔
پاس سے کسی کی آواز آئی، ’’یہ سب فرنگی کی چال تھی۔ جن بستیوں نے بڑے بڑے حملہ آوروں کے حملے برداشت کیے اور ان گنت صدیوں سے اپنی جگہ پر قائم رہیں، آج وہ بھی لٹ گئیں۔‘‘
’’ایسے ایسے قتلِ عام تو ان حملہ آوروں نے بھی نہ کیے ہوں گے۔ ہمارے اسکولوں میں جھوٹی، من گھڑت تاریخ پڑھائی جاتی رہی ہے۔‘‘ ایک اور مسافر نے شہ دی۔
اسکول ماسٹر نے چونک کر اس مسافر کی طرف دیکھا۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ تم سچ کہتے ہو۔ مجھے معلوم نہ تھا۔ ورنہ میں کبھی اس جھوٹی، من گھڑت تاریخ کی تصدیق نہ کرتا۔ وہ یہ بھی کہنا چاہتا تھا کہ اس میں اس کا کوئی خاص قصور نہیں کیونکہ نام نہاد تہذیب کے چہرے سے خوب صورت خول سانپ کی کینچلی کی طرح ابھی ابھی تو اترا ہے اور ابھی ابھی تو معلوم ہوا ہے کہ انسان نے کچھ بھی ترقی نہیں کی۔ بلکہ یہ کہنا ہوگا کہ اس نے ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف قدم بڑھایا ہے۔
’’جنھوں نے بلوائیوں اور قاتلوں کا ساتھ دیا اور انسانیت کی روایات کی خلاف ورزی کی‘‘ اسکول ماسٹر نے جرأت دکھاتے ہوئے کہا، ’’جنھوں نے ننگی عورتوں اور لڑکیوں کے جلوس نکالے، جنھوں نے اپنی ان ماؤں بہنوں کی آبرو پر ہاتھ ڈالا، جنھوں نے ماؤں کی دودھ بھری چھاتیاں کاٹ ڈالیں اور جنھوں نے بچوں کی لاشوں کو نیزوں پر اچھال کر قہقہے لگائے۔ ان کے ضمیر ہمیشہ ناپاک رہیں گے اور پھر یہ سب کچھ یہاں بھی ہوا۔۔۔ جنم بھومی میں بھی اور نئے دیش میں بھی۔‘‘
اس کے جواب میں سامنے والا مسافر خاموش بیٹھا رہا۔ اس کی خاموشی ہی اس کا جواب تھا۔ شاید وہ کہنا چاہتا تھا کہ ان باتوں سے بھی کیا فائدہ، اس نے صرف اتنا کہا ’’یہ کیسی آزادی ملی ہے؟‘‘
کانتا اور شانتا کے آنسو تھم گئے تھے۔ للت بھی چند لمحوں کے لیے خاموش ہوگیا۔ اسکول ماسٹر کی نگاہیں اپنی بیمار بیوی کی طرف اٹھ گئیں جو کھڑکی کے باہر دیکھ رہی تھی۔ شاید وہ پوچھنا چاہتی تھی کہ جنم بھومی چھوڑنے پر ہم کیوں مجبور ہوئے یا کیا یہ گاڑی یہاں اسی لیے رک گئی کہ ہمیں پھر سے اپنے گاؤں کو لوٹ چلنے کا خیال آ جائے۔
اسکول ماسٹر کے ہونٹ بری طرح سوکھ رہے تھے۔ اس کا گلا بری طرح خشک ہوچکا تھا۔ اسے یہ محسوس ہورہا تھا کہ کوئی اس کی آتما میں کانٹے چبھو رہا ہے۔ ایک ہاتھ سامنے والے مسافر کے کندھے پر رکھتے ہوئے وہ بولا۔
’’سردار جی! بتاؤ تو سہی کہ کل کا انسان اس انّ کو بھلا کیسے اپنا بھوجن بنائے گا جس کا جنم اس دھرتی کی کوکھ سے ہوگا جسے ان گنت معصوم بے گناہوں کی لاشوں کی کھاد پراپت ہوئی؟‘‘
سردارجی کا چہرہ تمتما اٹھا جیسے وہ ایسے عجیب سوال کے لیے تیار نہ ہوں۔ کسی قدر سنبھل کر انھوں نے بھی سوال کر ڈالا، ’’آپ بتاؤ اس میں دھرتی کا کیا دوش ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں۔۔۔ اس میں دھرتی کا کیا دوش ہے؟‘‘ اسکول ماسٹر کہہ اٹھا ’’دھرتی کو تو کھاد چاہیے۔ پھر وہ کہیں سے بھی کیوں نہ ملے۔‘‘
سردار جی پلیٹ فارم کی طرف دیکھنے لگے، بولے ’’یہ گاڑی بھی عجیب ڈھیٹ ہے چلتی ہی نہیں۔ بلوائی جانے کب آجائیں۔‘‘
اسکول ماسٹر کے ذہن میں ان گنت لاشوں کا منظر گھوم گیا جن کے بیچوں بیچ بچّے رینگ رہے ہوں۔ وہ ان بچوں کے مستقبل پر غور کرنے لگا۔ یہ بھی کیسی نئی پود ہے! وہ پوچھنا چاہتا تھا۔ یہ نئی پود بھی کیسی ثابت ہوگی؟ اُسے ان ان گنت دوشیزاؤں کا دھیان آیا جن کی عصمت لوٹ لی گئی تھی۔ مرد کی دہشت کے سوا اب ان لڑکیوں کے تصور میں اور کیا ابھرسکتا ہے؟ ان کے لیے یقیناًیہ آزادی بربادی بن کر ہی تو آئی۔ وہ یقیناًاس آزادی کے نام پر تھوکنے سے کبھی نہ کترائیں گی۔ اسے ان لڑکیوں کا دھیان آیا جو اب مائیں بننے والی تھیں۔ یہ کیسی مائیں بنیں گی؟ وہ پوچھنا چاہتا تھا یہ نفرت کے بیج بھلا کیا پھل لائیں گے؟ اس نے سوچا اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہ ہوگا۔ وہ ڈبے میں ایک ایک شخص کا کندھا جھنجھوڑکر کہنا چاہتا تھا کہ میرے اس سوال کا جواب دو۔ ورنہ اگر یہ گاڑی پچاس پچپن گھنٹوں تک رکنے کے بعد آگے چلنے کے لیے تیار بھی ہوگئی تو میں زنجیر کھینچ کر اسے روک لوں گا۔
’’کیا یہ گاڑی اب آگے نہیں جائے گی، ہے بھگوان؟‘‘ بیمار عورت نے اپنے چہرے سے مکھیاں اڑاتے ہوئے پوچھا۔
اسکول ماسٹر نے کہا، ’’نراش ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ گاڑی آخر چلے گی ہی۔‘‘
اسکول ماسٹر کھڑکی سے سر نکال کر باہر کی جانب دیکھنے لگا۔ ایک دو مرتبہ اس کا ہاتھ جیبوں کی طرف بڑھا، اندر گیا، اور پھر باہر آگیا۔ اتنا مہنگا پانی خریدنے کی اسے ہمت نہ ہوئی۔ جانے کیا سوچ کر اس نے کہا، ’’گاڑی ابھی چل پڑے تو نئے دیش کی سرحد میں گھستے اسے دیر نہیں لگے گی۔ پھر پانی کی کچھ کمی نہ ہوگی۔ یہ کشٹ کے لمحے بہت جلد بیت جائیں گے۔‘‘
کندھے پر پڑی ہوئی پھٹی پرانی چادر کو وہ بار بار سنبھالتا۔ اسے وہ اپنی جنم بھومی سے بچا کر لایا تھا۔ بلوائیوں کے اچانک حملہ کرنے کی وجہ سے وہ کچھ بھی تو نہ نکال سکا تھا۔ بڑی مشکل سے وہ اپنی بیمار بیوی اور بچوں کو لے کر بھاگ نکلا تھا۔ اب اس چادر پر انگلیاں گھماتے ہوئے اسے گاؤں کی زندگی یاد آنے لگی۔ ایک ایک واقعہ گویا ایک ایک تار تھا اور انہی تاروں کی مدد سے وقت کے جلاہے نے زندگی کی چادر بن ڈالی تھی۔ اس چادر پر انگلیاں گھماتے ہوئے اسے اس مٹی کی خوشبو محسوس ہونے لگی جسے وہ برسوں سے سونگھتا آیا تھا۔ جیسے کسی نے اسے جنم بھومی کی کوکھ سے زبردستی اکھیڑ کر اتنی دور پھینک دیا ہو۔ جانے اب گاڑی کب چلے گی؟ اب یہ جنم بھومی نہیں رہ گئی۔ دیش کا بٹوارہ ہوگیا، اچھا چاہے برا۔ جو ہونا تھا ہوگیا۔ اب دیش کے بٹوارے کو جھٹلانا آسان نہیں۔ لیکن کیا زندگی کا بٹوارہ بھی ہوگیا؟ تہذیب و تمدن کا بٹوارہ بھی ہوگیا؟
اپنی بیمار بیوی کے قریب جھک کر وہ اسے دلاسا دینے لگا ’’اتنی چنتا نہیں کیا کرتے نئے دیش میں پہنچنے بھر کی دیر ہے۔ ایک اچھے سے ڈاکٹر سے تمھارا علاج کرائیں گے۔ میں پھر کسی اسکول میں پڑھانے لگوں گا۔ تمھارے لیے پھر سے سونے کے آویزے بنوا دوں گا۔‘‘
کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اپنی بیوی سے الجھ جاتا کہ بھاگتے وقت اتنا بھی نہ ہوا کہ کمبخت اپنے آویزے ہی اٹھالاتی۔ بلکہ وہ اس کجلوٹی تک کے لیے جھگڑا کھڑا کردیتا جسے وہ آئینے کے سامنے چھوڑ آئی تھی۔ کجلوٹی جس کی مدد سے وہ اس ادھیڑ عمر میں بھی کبھی کبھی اپنی آنکھوں میں بیتے سپنوں کی یاد تازہ کرلیتی تھی۔
کانتا نے جھک کر شانتا کی آنکھوں میں کچھ دیکھنے کا خیال کیا۔ جیسے وہ پوچھنا چاہتی ہو کہ بتاؤں پگلی ہم کہاں جارہے ہیں؟
’’میرا جھنجھنا!‘‘ شانتا نے پوچھا۔
’’میری گڑیا!‘‘ کانتا کہہ اٹھی۔
’’یہاں نہ جھنجھنا ہے نہ گڑیا۔‘‘ اسکول ماسٹر نے آنسو بھری آنکھوں سے اپنی بچیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’تم فکر نہ کرو، میری بیٹیو! جُھنجھنے بہتیرے، گڑیا بہتیری، نئے دیش میں ہر چیز ملے گی۔‘‘
لیکن رہ رہ کر اس کا ذہن پیچھے کی طرف مڑنے لگتا۔ یہ کیسی کشش ہے۔۔۔؟ یہ جنم بھومی کی کشش ہے جیسے وہ خود ہی جواب دینے کا جتن کرتا۔ جنم بھومی پیچھے رہ گئی۔ اب نیا دیش نزدیک ہے۔ گاڑی چلنے کی دیر ہے۔ اس نے جھنجھلا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ جیسے وہ ڈبے میں بیٹھے ہوئے ایک ایک شخص سے پوچھنا چاہتا ہو کہ بتاؤ گاڑی کب چلے گی۔
جنم بھومی ہمیشہ کے لیے چھوٹ رہی ہے۔ اس نے اپنے کندھے پر پڑی ہوئی چادر کو بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے سہلاتے ہوئے کہنا چاہا۔ جیسے اس چادر کے بھی کان ہوں اور وہ سب سن سکتی ہو۔ کھڑکی سے سر نکال کر اس نے پیچھے کی طرف دیکھا اور اسے یوں محسوس ہوا جیسے جنم بھومی اپنی بان 59 ہیں پھیلا کر اسے بلا رہی ہو۔ جیسے وہ کہہ رہی ہو کہ مجھے کیا معلوم تھا کہ تم مجھے یوں چھوڑ کر چلے جاؤگے۔ میرا آشیرباد تو تمھارے لیے ہمیشہ تھا اور ہمیشہ رہے گا۔
چادر پر دائیں ہاتھ کی انگلیاں پھیرتے ہوئے اسکول ماسٹر کو جنم بھومی کی دھرتی کا دھیان آگیا جو صدیوں سے روئی کی کاشت کے لیے مشہور تھی۔ اس کے تصور میں کپاس کے دور تک پھیلے ہوئے دودھیا کھیت ابھرے۔ یہ سب اسی کپاس کا جادو ہی تو تھا کہ جنم بھومی روئی کے ان گنت ڈھیروں پر فخر کرسکتی تھی۔ جنم بھومی میں اس روئی سے کیسے کیسے باریک تار نکالے جاتے تھے، گھر گھر چرخے چلتے تھے۔ سجیلی چرخہ کاتنے والیوں کی رنگیلی محفلیں، وہ بڑھ بڑھ کر سوت کاتنے کے مقابلے۔ وہ سوت کی انٹیاں تیار کرنے والے خوبصورت ہاتھ۔ وہ جلاہے جو روایتی طور پر بیوقوف تصور کیے جاتے تھے۔ لیکن جن کی انگلیوں کو مہین سے مہین کپڑا بننے کا فن آتا تھا۔ جیسے جنم بھومی پکار پکار کر کہہ رہی ہو۔۔۔ تم قد کے لمبے ہو اور جسم کے گٹھے ہوئے۔ تمھارے ہاتھ پاؤں مضبوط ہیں۔ تمھارا سینہ کشادہ ہے۔ تمھارے جبڑے اتنے سخت ہیں کہ پتھر تک چبا جائیں۔ یہ سب میری بدولت ہی تو ہے۔ دیکھو تم مجھے چھوڑ کر مت جاؤ۔۔۔ اسکول ماسٹر نے جھٹ کھڑکی کے باہر دیکھنا بند کردیا اور اس کی آنکھیں اپنی بیمار بیوی کے چہرے پر جم گئیں۔
وہ کہنا چاہتا تھا کہ مجھے وہ دن ابھی تک یاد ہیں للت کی ماں جب تمھاری آنکھیں کاجل کے بغیر بھی بڑی بڑی اور کالی کالی نظر آیا کرتی تھیں۔ مجھے یاد ہیں وہ دن جب تمھارے جسم میں ہرنی کی سی مستی تھی۔ ان دنوں تمھارے چہرے پر چاند کی چاندنی تھی اور ستاروں کی چمک۔ مسکراہٹ، ہنسی، قہقہہ۔۔۔ تمھارے چہرے پر خوشی کے تینوں رنگ تھرک اٹھتے تھے۔ تم پر جنم بھومی کتنی مہربان تھی۔ تمھارے سر پر کالے گھنگھریالے بال تھے۔ ان ساون کے کالے بادلوں کو اپنے شانوں پر سنبھالے تم کس طرح لچک لچک کر چلا کرتی تھیں گاؤں کے کھیتوں میں۔
دھر دھر دھاں دھاں۔۔۔ جیسے مٹکی میں گرتے وقت تازہ دوہا جانے والا دودھ بول اٹھے۔ اسکول ماسٹر کو یوں محسوس ہوا کہ ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ جیسے وہ گھومتے ہوئے بھنور میں چمکتی ہوئی کرن کے دل کو بھانپ کر آج خوشی سے یہ کہہ سکتا ہو کہ بیتے سپنے ذہن کے کلابھون میں ہمیشہ تھرکتے رہیں گے۔ جیسے وہ طاق میں پڑی ہوئی صراحی سے کہہ سکتا ہو۔۔۔ او صراحی! تیری گردن تو آج بھی خمیدہ ہے۔ بھلا مجھے وہ دن کیسے بھول سکتے ہیں جب تم نئی نئی اس گھر میں آئی تھی۔
وہ چاہتا تھا کہ گاڑی جلد سے جلد نئے دیش میں داخل ہوجائے۔ پھر اس کی سب تکلیفیں رفع ہوجائیں گی۔ بیوی کا علاج بھی ہوسکے گا۔ جنم بھومی پیچھے رہ جانے کے تصور سے اسے ایک لمحے کے لیے کچھ الجھن سی ضرور محسوس ہوئی۔ لیکن اس نے جھٹ اپنے من کو سمجھا لیا۔ وہ یہ کوشش کرے گا کہ نئے دیش میں جنم بھومی کا تصور قائم کرسکے۔ آخر ایک گاؤں کو تو جنم بھومی نہیں کہہ سکتے۔ جنم بھومی تو بہت وشال ہے۔۔۔ بہت مہان ہے۔۔۔ اس کی مہما تو دیوتا بھی پوری طرح نہیں گا سکتے، جدھر سے گاڑی یہاں تک آن پہنچی تھی اور جدھر گاڑی کو جانا تھا، دونوں طرف ایک سی زمین دور تک چلی گئی تھی۔ اسے خیال آیا کہ زمین تو سب جگہ ایک سی ہے جنم بھومی اور نئے دیش کی زمین میں بہت زیادہ فرق تو نہیں ہوسکتا۔
وہ چاہتا تھا کہ جنم بھومی کا صحیح تصور قائم کرے۔ پو پھٹنے سے پہلے کا منظر۔۔۔ دور تک پھیلا ہوا افق۔۔۔ کنارے کنارے پہاڑیوں کی جھالر۔۔۔ آسمان پر بگلوں کی ڈار کھلی قینچی کی طرح پرواز کرتے ہوئے۔ پورب کی طرف اشا کا اجالا۔۔۔ دھرتی پر چھائی ہوئی ایک مدماتی مسکراہٹ۔۔۔ اجالے میں کیسر کی جھلک۔۔۔ دھرتی ایسی جیسے کسی دوشیزہ کی گردن کے نیچے اونچی گھاٹیوں کے بیچوں بیچ تازہ سپید مکھن دور تک پھیلا ہوا ہو۔۔۔
وہ چلاّ کر کہنا چاہتا تھا کہ جنم بھومی کا یہ منظر نئے دیش میں ضرور آئے گا۔ وہ اپنے کندھے پر پڑی ہوئی چادر کو دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے سہلانے لگا۔ جیسے وہ اس چادرکی زبانی اپنے خیالات کی تصدیق کرانا چاہتا ہو۔ لہکتی ڈالیاں، مہکتی کلیاں، دھنک کے رنگ، کہکشاں کی دودھیا سندرتا، کنواریوں کے قہقہے۔ دلہنوں کی لاج۔۔۔ جنم بھومی کا روپ، انہی کی بدولت قائم تھا۔ اپنے اسی خمیر پر اپنی اسی تاثیر پر جنم بھومی مسکراتی آئی ہے اور مسکراتی رہے گی۔
وہ کہنا چاہتا تھا کہ نئے دیش میں بھی جنم بھومی کا یہ روپ کسی سے کم تھوڑی ہوگا۔ وہاں بھی گیہوں کے کھیت دور تک سونا بکھیرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ جنم بھومی کا یہ منظر نئے دیش میں اس کے ساتھ ساتھ جائے گا۔ اسے یقین تھا۔ اس کے بائیں ہاتھ کی انگلیاں برابر کندھے پر پڑی ہوئی پھٹی پرانی اور میلی چادر سے کھیلتی رہیں۔ جیسے لے دے کر یہی چادر جنم بھومی کی علامت ہو۔
’’فرنگی نے دیش کا نقشہ بدل ڈالا‘‘ سردار جی کہہ رہے تھے۔
پاس سے کوئی بولا ’’یہ اس کی پرانی چال تھی۔‘‘
ایک بڑھیا کہہ اٹھی ’’فرنگی بہت دنوں سے اس دیش میں بس گیا تھا۔ میں نہ کہتی تھی کہ ہم برا کر رہے ہیں جو فرنگی کو اس کے بنگلوں سے نکالنے کی سوچ رہے ہیں؟ میں نہ کہتی تھی فرنگی کا سراپ لگے گا؟‘‘
پاس سے دوسری بڑھیا بولی، ’’یہ سب فرنگی کا سراپ ہی تو ہے بہن جی!‘‘
اسکول ماسٹر کو پہلی بڑھیا پر بری طرح غصہ آیا۔ اس بڑھیا کی آواز میں جنم بھومی کے توہمات بول اٹھے ہیں، اس نے سوچا۔ دوسری بڑھیا پہلی بڑھیا سے بھی کہیں زیادہ مورکھ تھی جو بنا سوچے ہاں میں ہاں ملائے جارہی تھی۔
پرے کونے میں ایک لڑکی چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی بیٹھی تھی۔ جیسے اس کی سہمی سہمی نگاہیں اس ڈبّے کے ہر مسافر سے پوچھنا چاہتی ہوں۔۔۔ کہ کیا یہ میرے گھاؤ آخری گھاؤ ہیں؟ اس کے بائیں طرف اس کی ماں بیٹھی تھی جو شاید فرنگی سے کہنا چاہتی تھی کہ میری غلامی واپس دے دو۔ غلامی میں میری لڑکی کی آبرو تو محفوظ تھی۔
ڈبّے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی آنکھوں میں ڈر کا یہ حال تھا کہ وہ لمحہ بہ لمحہ بڑی تیزی سے بوڑھے ہورہے تھے۔ سردارجی بولے، ’’اتنی لوٹ تو باہر سے آنے والے حملہ آوروں نے بھی نہ کی ہوگی۔‘‘
پاس سے کسی نے کہا، ’’اتنا سونا لوٹ لیا گیا کہ سو سو پیڑھیوں تک ختم نہیں ہوگا۔‘‘
’’لوٹ کا سونا زیادہ دن نہیں ٹھیرتا۔‘‘ ایک اور مسافر کہہ اٹھا۔
سردارجی کا چہرہ تمتما اُٹھا۔ بولے ’’پولیس کے سپاہی بھی تو سونا لوٹنے والوں کے ساتھ رہتے تھے۔ لیکن لوٹ کا سونا پولیس کے سپاہیوں کے پاس بھی کَے دن ٹھیرے گا؟ آج بھی دنیا مست گرونانک دیوجی کی آگیا پر چلے تو شانتی ہوسکتی ہے۔‘‘
اسکول ماسٹر اس گفتگو میں شامل نہ ہوا۔ اگرچہ وہ کہنا چاہتا تھا کہ کم سے کم میں نے تو کسی کا سونا نہیں لوٹا اور نہ آئندہ کسی کا سونا لوٹنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
چھپّن، ستّاون، اٹھاون۔۔۔ اتنے گھنٹوں سے گاڑی ہربنس پورہ کے اسٹیشن پر رکی کھڑی تھی۔ اب تو پلیٹ فارم پر کھڑے کھڑے ملٹری والوں کے تنے ہوئے جسم بھی ڈھیلے پڑگئے تھے۔ کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ ڈبے سے باہر نکل کر دیکھے کہ آخر گاڑی رکنے کی کیا وجہ ہے۔ ہر شخص کا دم گھٹا جارہا تھا اور ہر شخص چاہتا تھا کہ اور نہیں تو اس ڈبے سے نکل کر کسی دوسرے ڈبے میں کوئی اچھی سی جگہ ڈھونڈ لے۔ لیکن یہ ڈر بھی تو تھا کہ کہیں یہ نہ ہو کہ نہ اِدھر کے رہیں نہ ادھر کے اور گاڑی چل پڑے۔
بڑھیا بولی، ’’فرنگی کا سراپ ختم ہونے پر ہی گاڑی چلے گی۔‘‘
دوسری بڑھیا کہہ اٹھی، ’’سچ ہے بہن جی!‘‘
اسکول ماسٹر نے اڑنے والے پرندے کے انداز میں بازو ہوا میں اچھالتے ہوئے کہا، ’’فرنگی کو دوش دیتے رہنے سے تو نہ جنم بھومی کا بھلا ہوگا نہ نئے دیش کا۔‘‘
بڑھیا نے روکھی ہنسی ہنستے ہوئے کہا، ’’فرنگی چاہے تو گاڑی ابھی چل پڑے۔‘‘
کانتا نے کھڑکی سے جھانک کر کسی کو پانی پیتے دیکھ لیا تھا۔ وہ بھی پانی کے لیے مچلنے لگی۔ اس کی بیمار ماں نے کراہتی ہوئی آواز میں کہا، ’’پانی کا تو اکال پڑرہا ہے، بٹیا!‘‘
شانتا بھی پانی کی رٹ لگانے لگی۔ سردارجی نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ نوٹ نکالے۔ پانچ پانچ روپے کے پانچ نوٹ اسکول ماسٹر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ’’اس سے آدھا گلاس پانی حاصل کرلیا جائے!‘‘
اسکول ماسٹر نے جھجکتے ہاتھوں سے نوٹ قبول کیے۔ آدھے گلاس پانی کے تصور سے اُس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ خالی گلاس اٹھاکر وہ پانی کی تلاش میں نیچے پلیٹ فارم پر اترگیا۔ اب ہندو پانی اور مسلم پانی کا امتیاز اٹھ گیا تھا۔ بڑی مشکل سے ایک شخص کے پاس نظر آیا باون روپے گلاس کے حساب سے پچیس روپے کا آدھے گلاس سے کچھ کم ہی آنا چاہیے تھا۔ لیکن پانی بیچنے والے نے پیشگی روپے وصول کر لیے اور بڑی مشکل سے ایک تہائی گلاس پانی دیا۔
ڈبے میں پہنچ کر سردارجی کے گلاس میں تھوڑا پانی انڈیلتے وقت سردار جی سے جلدی میں کوئی ایک گھونٹ پانی فرش پر گرگیا۔ اس پر اسے بڑی ندامت کا احساس ہوا جھٹ سے پانی کا گلاس کانتا کے منہ کی طرف بڑھاتے ہوئے اس نے کہا، ’’پی لو، بٹیا!‘‘
ادھر سے شانتا نے ہاتھ بڑھائے۔ اسکول ماسٹر نے کانتا کے منہ سے گلاس ہٹاکر اسے شانتا کے قریب کردیا۔ پھر بہت جلد کانپتے ہاتھوں سے یہ گلاس اس نے اپنی بیمار بیوی کے ہونٹوں کی طرف بڑھایا جس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنے خاوند سے کہا کہ پہلے آپ بھی اپنے ہونٹ گیلے کرلیتے لیکن خاوند اس کے لیے تیار نہ تھا۔
کانتا اور شانتا نے مل کر زور سے گلاس پر ہاتھ مارے۔ بیمار ماں کے کمزور ہاتھوں سے چھوٹ کر گلاس نیچے فرش پر گرپڑا۔ اسکول ماسٹر نے جھٹ لپک کر گلاس اُٹھا لیا۔ بڑی مشکل سے اس میں ایک گھونٹ پانی بچ رہا تھا۔ یہ ایک گھونٹ پانی اس نے جھٹ اپنے حلق میں انڈیل لیا۔
سردارجی کہہ رہے تھے، ’’اتنا کچھ ہونے پر بھی انسان زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔‘‘
اسکول ماسٹر کہہ اٹھا، ’’انسانیت جنم بھومی کا سب سے بڑا بردان ہے، جیسے ایک پودے کو ایک جگہ سے اٹھاکر دوسر جگہ لگایا جاتا ہے۔ ایسے ہی ہم نئے دیش میں جنم بھومی کا پودا لگائیں گے۔ ہمیں اس کی دیکھ بھال کرنی پڑے گی اور اس پودے کو نئی زمین میں جڑ پکڑتے کچھ وقت ضرور لگے گا۔‘‘
یہ کہنا کٹھن ہوگا کہ بیمار عورت کے حلق میں کتنے گھونٹ پانی گزرا ہوگا۔ لیکن اتنا تو ظاہر تھا کہ پینے کے بعد اس کی حالت اور بھی ڈانواڈول ہوگئی۔ اب اُس میں اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ بیٹھی رہ سکے۔
سردار جی نے نہ جانے کیا سوچ کر کہا، ’’دریا بھلے ہی سوکھ جائیں لیکن دلوں کے دریا تو ہمیشہ بہتے رہے ہیں اور ہمیشہ بہتے رہیں گے۔ دل دریا سمندر ڈونگھے۔ دلوں کے دریا تو سمندر سے بھی گہرے ہیں۔‘‘
اسکول ماسٹر کہہ اٹھا، ’’کبھی یہ دلوں کے دریا جنم بھومی میں بہتے تھے۔ اب یہ دلوں کے دریا نئے دیش میں بہا کریں گے۔‘‘
بیمار عورت بخار سے تڑپنے لگی۔ سردار جی بولے، ’’یہ اچھا ہوگا کہ انھیں تھوڑی دیر کے لیے نیچے پلیٹ فارم پر لٹا دیا جائے۔ باہر کی کھلی ہوا ان کے لیے اچھی رہے گی۔‘‘
اسکول ماسٹر نے احسان مند نگاہوں سے سردار جی کی طرف دیکھا۔ اس نے للت کو جو اس وقت سو رہا تھا کانتا اور شانتا کی جگہ پر آرام سے سلا دیا اور پھر سردار جی کی مدد سے اپنی بیمار بیوی کو ڈبے سے نیچے اتار کر پلیٹ فارم پر لٹا دیا سردار جی پھر اپنی جگہ پر جا بیٹھے۔
بیمار بیوی کے چہرے پر رومال سے پنکھا جھلتے ہوئے اسکول ماسٹر اسے دلاسا دینے لگا، ’’تم اچھی ہوجاؤگی۔ ہم بہت جلد نئے دیش میں پہنچنے والے ہیں۔ وہاں میں اچھے اچھے ڈاکٹروں سے تمھارا علاج کراؤں گا۔‘‘
بیمار عورت کے چہرے پر دبی دبی سی مسکراہٹ ابھری۔ لیکن اس کی زبان سے ایک بھی لفظ نہ نکلا۔ جیسے اس کی کھلی کُھلی آنکھیں کہہ رہی ہوں، میں جنم بھومی کو نہیں چھوڑسکتی۔ میں نئے دیش میں نہیں جانا چاہتی۔ میں اسی دھرتی کی کوکھ سے نکلی اور اسی میں سما جاناچاہتی ہوں۔‘‘
اس کا سانس زور زور سے چلنے لگا۔ اس کی آنکھیں پتھرانے لگیں۔ اسکول ماسٹر گھبرا کر بولا، ’’یہ تمھیں کیا ہوا جارہا ہے؟ گاڑی اب اور نہیں رکے گی۔ نیا دیش نزدیک ہی تو ہے۔ اب جنم بھومی کا خیال چھوڑ دو۔ ہم آگے جائیں گے۔‘‘
کھڑکی سے کانتا اور شانتا پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں۔ اُن کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ سردار جی نے کھڑکی سے سر باہر نکال کر پوچھا، ’’اب بہن جی کا کیاحال ہے؟‘‘
اسکول ماسٹر نے رندھی ہوئی آواز سے کہا، ’’اب یہ جنم بھومی ہی میں رہے گی۔‘‘
سردارجی بولے، ’’کہو تو تھوڑا پانی خرید لیں۔‘‘
بیمار عورت نے بُجھتے ہوئے دیے کی طرح سنبھالا لیا اور اس کے پران پکھیرو نکل گئے۔
لاش کے قریب جھک کرا اسکول ماسٹر نے بڑے غور سے دیکھا اور کہا، ’’اب وہ پانی نہیں پیے گی۔‘‘
ادھر انجن نے سیٹی دی اور گاڑی آہستہ آہستہ پلیٹ فارم کے ساتھ ساتھ رینگنے لگی۔ اس نے ایک بار بیوی کی لاش کی طرف دیکھا۔ پھر اس کی نگاہیں گاڑی کی طرف اٹھ گئیں۔ کھڑکی سے کانتا اور شانتا اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ لاش کے ساتھ رہ جائے یا لپک کر ڈبے میں جا بیٹھے؟ یہ سوال بجلی کی طرح اُس کے دل و دماغ کو چیرتا چلا گیا۔
اس نے اپنے کندھے سے جھٹ وہ پھٹی پرانی، میلی چادر اتاری جسے وہ جنم بھومی سے بچاکر لایا تھا اور جس کے دھاگے دھاگے میں ابھی تک جنم بھومی سانس لے رہی تھی۔ اس چادر کو اس نے اپنے سامنے پڑی ہوئی لاش پر ڈال دیا اور جھٹ سے گاڑی کی طرف لپک پڑا۔ کانتا کی آواز ایک لمحے کے لیے فضا میں لہرائی۔۔۔ ’’ماتا جی!‘‘
گاڑی تیز ہوگئی تھی۔ کانتا کی آواز ہوا میں اچھل کر رہ گئی تھی۔ اس نے شانتا کو گود میں اٹھا لیا اور پلٹ کر لاش کی طرف نہ دیکھا۔
مصنف:دیوندر ستیارتھی