بتّیاں جل چکی ہیں۔ چکلے میں رات ذرا پہلے ہی اتر آتی ہے۔ شبنما ایک چالیس بیالیس برس کی عورت اپنے گال رنگ کر، ہونٹ رنگ کر کُرسی پر آبیٹھی ہے۔ دھیرے دھیرے اُس کے ہونٹ ہلتے ہیں، کچھ نہ کچھ گنگنا رہی ہوگی۔ بیاہ میں کیا دھرا تھا؟ یہاں تو روز بیاہ ہوتا ہے نئے آدمی سے، گھڑی گھڑی۔ وہ ایک اچھی عورت ہے، نئے لٹھّے کی شلوار پہن کر تو وہ ضرور اچھی نظر آتی ہے۔ اچھی ہی نہیں، جوان بھی اور نہیں تو۔ جوانی ابھی گئی تھوڑی ہی ہے۔ چالیس بیالیس برس کی عمر بھی کچھ عمر ہوتی ہے۔۔۔؟
اس کی آنکھوں میں ایک مسکراہٹ لہرا جاتی ہے۔ گلی سے گزرنے والوں پر اُس کی تنقیدی نگاہیں برابر اُٹھتی رہتی ہیں۔
اچھا خاصہ کمرہ ہے۔ بچاری دیواریں بہت بوسیدہ ہورہی ہیں۔ سامنے کی دیوار کی ننگی، کالی کلوٹی اینٹیں ایک صدی پہلے کی یاد دلا رہی ہیں۔ جانے کِس بھٹّے پر تیار ہوئی ہوں گی، جانے کِس نرخ پر خریدی گئی ہوں گی۔ شبنما شایدایسی کسی بات کا جواب نہ دے سکے۔ طاق میں دِیا روشن ہے۔ دِیے کی لَو تھرتھرا رہی ہے۔ دِیے کی قیمت بہت زیادہ تو نہ ہوگی۔ اور شبنما کی قیمت۔۔۔ یہ تو ظاہر ہے۔۔۔ اِدھر بہت کم ہوگئی ہے۔ مگر دِیے سے تو کہیں زیادہ ہوگی اب بھی۔ ہر چیز کی اپنی قیمت ہوتی ہے۔ اس مکان ہی کو لیجیے۔ یہ چکلے میں نہ ہوتا تو اس کا کرایہ بہت ہی کم ہوتا۔
یہ کانگڑی، جس میں کوئلے دہک رہے ہیں، کسی کشمیرن سہیلی سے مِلی ہوئی چیز ہے۔ زانوؤں پر رکھی ہوئی کانگڑی کے قریب مُنہ لے جاکر جب وہ پھونک مارتی ہے تو اُس کے گال گرم ہوجاتے ہیں، ہونٹ اور بھی گرم ہوجاتے ہیں۔ اُس کی آنکھوں میں پھر ایک مسکراہٹ لہرا جاتی ہے۔ اُس کے ہونٹ ہلتے ہیں دھیرے دھیرے، جیسے وہ گنگنا رہی ہو۔ جاڑے میں کانگڑی کی قسمت چمک اُٹھتی ہے۔ کانگڑی ہی کی کیوں، عورت کی بھی۔ اچھا رواج ہے کشمیر کا۔۔۔ وہ کشمیرن ہونے کا دھوکا تو نہیں دے رہی۔ دھوکا دے بھی تو نہیں سکتی۔ گال رنگ سکتی ہے، ہونٹ رنگ سکتی ہے مگر کشمیری آنکھیں کس سے لے گی مانگے کی؟
سامنے والی ہمسائی تو بغیر کانگڑی کے بیٹھی ہے۔ بے پناہ جاڑے سے ٹھٹھرتی اوڑھنی کو اپنے جسم کے گرد کستی، وہ جانے کیا سوچ رہی ہے، شبنما اُس کی طرف دیکھتی ہے تو اُسے وہ دن یاد آجاتے ہیں جب وہ بھی چکلے میں نئی نئی داخل ہوئی تھی۔ جوانی خود گرم ہوتی ہے، خود ایک کانگڑی۔ یوں جوانی چلی تو نہیں گئی ابھی۔ ضرورت پڑنے پر وہ بھی کانگڑی کے بغیر رہ سکتی ہے۔
اب کے جاڑا پچھڑ کے آیا ہے۔ آتے ہی پُوس کی یاد دلا دی۔ جاڑا تو چکلے کا پُرانا دوست ہے۔ دوسرے موسموں میں بھی یہاں رات کو میلہ لگتا ہے۔ مگر اس میلے پر پُورا جوبن جاڑے ہی میں آتا ہے۔
’’جاڑا تو ابھی پڑے گا اور۔‘‘
’’ہاں، ہاں، جاڑا تو ابھی پڑے گا اور۔‘‘
’’چاند بھی سہما جاتا ہے۔۔۔ زرد، خاموش چاند!‘‘
’’اور کتنا چمکے گا جاڑے کا چاند؟‘‘
سچ ہے۔ اور کتنا چمکے گا جاڑے کا چاند؟ زیادہ روشنی یہاں چاہیے بھی تو نہیں۔ یہاں بیویوں کے خاوند چلے آتے ہیں۔ ہونیوالی بیویوں کے ہونے والے خاوند بھی، اسی طرح کتنے ہی فرشتے اور شیطان بھی، جنھیں بیویاں نصیب ہونے کی کوئی اُمید نہیں رہی۔ اور تو اور مفلس اور بیمار آدمی بھی، جیبوں میں اپنی کمزور کمائی ڈالے، اِدھر آنکلتے ہیں۔ پیٹ کی بھوک بھی ہوگی، مگر اس جنسی بھوک سے اس کا مقابلہ ہی کیا۔۔۔؟ اور یہ رات کی دُلہنیں ہیں کہ اپنی رضامندی کا مول لگاتی ہیں۔ دام کھرے نہ کریں تو کھائیں کہاں سے؟ عجیب مزدوری ہے یہ بھی۔
شبنما اپنے کمرے کی بوسیدہ چھت کی طرف دیکھتی ہے اور سوچتی ہے کہ اس کا جسم بھی بوسیدہ ہوچلا ہے۔ بار بار اُس کا ہاتھ پیشانی پر آٹِکتا ہے، جہاں جُھریوں کا جال بُنا جارہا ہے دھیرے دھیرے۔ کس مکڑی کی کارستانی ہے یہ؟ وہ بہت ٹٹولتی ہے، مکڑی کہیں ہاتھ نہیں لگتی۔ پھر اس کا ہاتھ گالوں پر آٹِکتا ہے، جہاں ہڈیاں اُبھر رہی ہیں۔۔۔ اُونٹ کا کوہان سا بنتا جارہا ہے دونوں طرف! نہیں نہیں، ابھی تو وہ کافی جوان ہے۔ چالیس بیالیس برس کی عمر بھی کچھ عمر ہوتی ہے۔ اُس کی آنکھیں تو سدا جوان رہیں گی۔ اِتنے برسوں سے وہ اِن میں ممیرے کا سُرمہ ڈالتی آئی ہے۔ البتہ بھوکی ضرور ہے وہ! بھوک کو جھٹلانا تو آسان نہیں۔
اُس کی ہمسائی نے چائے منگوائی ہے ابھی ابھی۔ گرم چائے جسم کو گرم رکھتی ہے جاڑے میں۔ ٹھیک تو ہے۔
’’تھوڑی تم بھی پی لو، شبنما!
’’میں نہ لُوں گی ابھی خورشید، بس پیو شوق سے۔‘‘
’’اچھا تو ایک سموسہ ہی قبول کرلو۔‘‘
’’ضرورت ہوتی تو خود مانگ لیتی۔ بس کھاؤ شوق سے۔‘‘
شبنما اپنی اُداسی کو چُھپانے کی کوشش کرتی ہے۔ انصاف، آزادی اور انسانیت بہت بڑی باتیں ہیں۔ امدادِ باہمی کا درجہ بھی کچھ کم نہیں۔۔۔ مگر کمائی ہونی چاہیے اپنی۔ اپنا پیٹ، اپنی چائے۔۔۔ روٹی، سب کچھ۔۔۔ خود داری تو تبھی قایم رہتی ہے۔ کب بُجھتی ہے زندگی کی بتّی، خودداری کی بتّی۔۔۔؟ جب سپنو کی تکمیل میں ذرا یقین نہ رہے۔۔۔ سپنوں کو بھی چھوڑیے۔۔۔ بھوک کا علاج تو ہوتا رہے۔ دو ۲ اور دو ۲۔۔۔؟ معلوم نہیں کس نے کسی بھوکے سے پوچھا۔ چار روٹیاں، اُس نے جواب دیا۔ بھوکا آدمی اور کسی پہلو سے سوچ ہی نہیں سکتا۔
اُسے اپنے رنگے ہوئے گالوں پر غصہ آنے لگتا ہے۔ رنگے ہوئے ہونٹوں کو چُوس کر وہ اُن کا رنگ تھوک دینا چاہتی ہے۔ کسی کو اِن گالوں کی ضرورت نہیں۔ نہ اِن ہونٹوں کی۔ بے کار ہی پاؤڈر ملتی رہی، سُرخی ملتی رہی۔ آج ہی نہیں، کل بھی اور پرسوں بھی۔ تین دن سے کوئی شریف آدمی اندر نہیں آیا، نہ شریف، نہ بدمعاش۔
’’کیا سے کیا حال ہوگیا دُنیا کا۔ دیکھنے والے سَو آتے ہیں، دس چھوڑ، بیس چھوڑ، پچاس پھیرے لگاتے ہیں۔ کوئی دام پُوچھ کر ہی جھٹ سے پرے ہٹ جاتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ۔۔۔؟
’’سمجھ میں کیا آئے خاک؟ بُرا حال ہے۔ پرسوں تین آئے۔۔۔ تین سواریاں۔۔۔! کل صرف ایک، اور آج ایک کی بھی آس ختم ہورہی ہے۔ حالانکہ سب دیکھتے ہیں نیا مال ہے، گدرائی ہوئی جوانی۔‘‘
بھوک ہمیشہ زندگی کی ہتک کرتی آئی ہے۔ کئی صدیوں سے، اَن گِنت نسلوں سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ کتنی سُکڑجاتی ہے دُنیا جب بھوکے پیٹ کے اندر روٹی کا ایک بھی ٹکڑا نہیں جا پاتا۔
شبنما، دِیے کی تھرتھراتی لَو کی طرف نگاہ اُٹھاتی ہے۔ تیل ہے تو دِیا ہے۔ روٹی کے بغیر کیسا حُسن، کہاں کی جوانی، مگر نہیں، ابھی تو وہ کافی جوان ہے۔ چالیس بیالیس برس کی عمر کی بھی کچھ عمر ہوتی ہے؟
اُدھر سے ایک قوی ہیکل، لمبا تڑنگا آدمی آنکلتا ہے ’’لاؤ کرایہ!‘‘ وہ بلند آواز سے کہتا ہے۔ ’’آج تو تیار نہیں۔‘‘
’’تیار نہیں؟ نیا مہینہ تو شروع بھی ہوگیا۔‘‘
’’دینے سے تو انکار نہیں۔۔۔ آج ہی چاہیے تو چھ روپے لے جا۔‘‘
’’اور ایک روپیہ گرہ سے ڈالوں؟‘‘
’’سات تو نہیں میرے پا س۔۔۔ اور سُن۔۔۔ لوگ مجھے دو روپے دیتے ہیں۔ آٹھ دس رات بھر کے لیے۔۔۔ تُو آج رات یہیں رہ لے۔۔۔ کرایہ ورایہ کیا مانگتا ہے۔۔۔؟‘‘
’’اری واہ ری بُوڑھی گھوڑی۔ اچھا لا چھ ۶تو نکال۔ ایک کل مل جائے ضرور۔ مالک بھی سچا ہے۔ جس کی کھولی میں بیٹھ کے رُوپ کے ہاٹ لگا رکھی ہے وہ بھاڑا تو مانگے گا ہی وقت پر۔‘‘
شبنما چھ روپے نکال کر اُس کی ہتھیلی پر رکھ دیتی ہے، اور وہ قوی ہیکل، لمبا تڑنگا آدمی مونچھوں پر تاؤ دیتا ہوا اور شبنما کی سامنے والی ہمسائی کی طرف گھورتا ہوا دُور نکل جاتا ہے۔ ابھی تک اس کی اُونچی آواز شبنما کے کان میں گونج رہی ہے۔ معاً یہ سوچ کر کہ قصور تو اصل میں اُس دائی کا ہے جس نے اس کے حلق میں اُنگلی ڈال کر اسے اپنے ہی حساب کے مطابق چوڑا کردیا تھا، وہ اُس کی زبان درازی کو معاف کردیتی ہے۔
’’ایسے لوگوں سے خدا ہی بچائے شبنما۔۔۔! اور یہ جوان تو پورا لٹھیت ہے کوئی۔‘‘
’’ہاں لٹھیت۔‘‘
’’وہ تو تمھاری طرف اس طرح لپک کر آیا تھا جیسے تم کوئی عورت نہیں ہو بلکہ ایک کبوتری ہو اور اس کے چھتنارے سے اُڑکر اِدھر آبیٹھی ہو۔ مجھے تو بہت غصّہ آتا ہے ایسے لوگوں پر۔‘‘
’’غصّہ تو آئے گا ہی۔‘‘
کوئی نہیں دیتا دام رُوپ جوانی کے۔ تیل ہو تو دِیا جلتا ہے۔ روٹی ہے تو جسم ہے۔ شبنما کی آنتیں منمنارہی ہیں۔ ہمسائی سے چائے پی لی ہوتی۔ ایک آدھا سموسا کھا لیا ہوتا۔ اب وہ چائے نہ پلائے، سموسا نہ کھلائے، مٹھی بھر مونگ پھلی ہی منگوا دے۔ مونگ پھلی نہیں تو پیسے کی مکّی ہی لے دے۔
کرسی سے اُٹھ کر وہ چبوترے پر آگئی ہے۔ کاش کوئی سواری آجائے۔ کون اَیسا شریف آدمی ہوگا جو کچھ کچھ آنکھیں میچ کر اس کی طرف دیکھے اور وہ اس کی نگاہ میں جچ جائے۔ کوئی آئے تو سہی۔ وہ اس کے ساتھ کوئی دام نہ چکائے گی، گھڑی کی گھڑی وہ اُس کی بیوی کی طرح ہی لاج بھر آنکھوں سے اُسے دیکھے گی۔۔۔ کیا ہوگیا مجھے آج؟ کوئی آ کیوں نہیں جاتا، کوئی شریف آدمی، کوئی بدمعاش؟ دونوں میں جون سا بھی ہو۔۔۔ وہ چاہے تو پاس کی دُکان پر جاسکتی ہے۔ کچھ نہ کچھ تو مِل ہی سکتا ہے مانگنے پر۔ اُدھار تو اُدھار، بھوکا پیٹ تو چوری تک کی صلاح دے دیتا ہے! نہیں نہیں اُسے کسی سواری کا انتظار ہے، سواری ضرور آئے گی۔
وہ پھر اپنی کرسی پر جا بیٹھتی ہے۔ گلی سے گزرنے والوں کی طرف دیکھتے ہوئے اُسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ساگر تٹ پر بیٹھی کوئی اپسرا لہریں گن رہی ہے۔ لیکن کوئی اپسرا شاید کبھی یوں بھوکی نہ رہی ہوگی۔ کوئی نہ کوئی لہر تو اُس کے پان59و کو چھو ہی سکتی ہے۔ لیکن اُس کے پان59و تو سُوکھے ہیں۔ اس کے پتلے اور خشک ہونٹ برابر کانپ رہے ہیں۔ دِیا ٹمٹما رہا ہے۔ اتنی روشنی کچھ کم تو نہیں۔ کانگڑی ٹھنڈی ہوگئی ہے۔ اسی طرح ایک دن یہ دل بھی ٹھنڈا ہوجائے گا۔ پھر نہ بھوک ہوگی نہ اسے مٹانے کی چنتا۔ دِیا بھی پھر جلے نہ جلے۔۔۔ لیکن نہیں، وہ زندہ رہے گی۔ اس کا حُسن زندہ ہے اب تک۔ دِیا بھی جلتا ہے اب تک۔ کانگڑی میں پھر دہکیں گے کوئلے، پیٹ بھی پالے گا اپنا ایندھن۔ سواری ضرور آئے گی۔ یہ انتظار ہی کیا کم وجہ ہے جینے کی۔۔۔ کوئی آئے تو سہی۔ خدا بھی مرگیا ہے آج۔۔۔ شیطان بھی مرگیا۔ میرے لیے ہر کوئی مر گیا۔ مجھے بھی مر جانا چاہیے، قبر کی مٹی تلے دب جانا چاہیے۔ ایک بھوکی عورت کب تک زندہ رہ سکتی ہے۔۔۔؟ جذبات کی رَو میں اُس کی آنکھیں نمناک ہوگئی ہیں۔ ہونٹ یخ ہورہے ہیں۔ ہونے دو۔ پروا نہیں۔ کسی کو پسند ہی نہیں آیا رنگ اِن کا۔ اور گال۔۔۔ رنگے ہوئے گال بھی یخ ہورہے ہیں۔ کسی نے آکر ان پر اپنے اپنے گرم گرم ہونٹ نہیں رکھے۔ نہیں، نہیں، یہ بات نہیں۔ پیٹ کا دوزخی تنور ٹھنڈا ہوگیا ہے وہی تو سارے جسم کو گرم رکھتا ہے۔
آئینہ اُٹھا کر وہ اپنی شکل دیکھتی ہے۔ حُلیہ بگڑ رہا ہے۔ ایک مرمّت طلب گھڑی کی طرح۔ اُسے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دل کی ہلکی ٹِک ٹِک بھی ختم ہورہی ہے۔ کاش کوئی گھڑی ساز آجائے۔ نہیں نہیں، مجھے کسی گھڑی ساز کی ضرورت نہیں۔ خمیری روٹی کے چند ٹکڑے کافی ہوں گے بس۔ ساتھ میں اچار نہ ہو تو نہ سہی۔ پر سُوکھی روٹی کیسے نگلوں گی۔۔۔؟
ہوا ایک دم ٹھنڈی ہوگئی ہے۔ یہ بس ایک ہی خبر سُنارہی ہے کہ کہیں دُور اولے پڑے ہیں۔ ورنہ ہوا اتنی ٹھنڈی کیسے ہوسکتی تھی؟ اُسے یوں محسوس ہورہا ہے جیسے سات ماہ کا حمل گر گیا ہو۔۔۔ حمل! ہا ہا ہا۔۔۔ ہنسا بھی تو نہیں جاتا۔۔۔ بھوکی عورت کو کیسی کیسی باتیں سُوجھتی ہیں۔۔۔ سینے کے اندر ہاتھ ڈال کر وہ اپنے پستانوں کو سہلاتی ہے۔ کس قدر لچک رہے ہیں یہ دونوں کبوتر۔ ٹھنڈسے مرے ہی تو جاتے ہیں۔ نہیں نہیں۔ ابھی تو وہ کافی جوان ہے۔ چالیس بیالیس برس کی عمر بھی کچھ عمر ہوتی ہے۔
’’شبنما! شبنما!‘‘ خورشید آواز دیتی ہے۔ ’’اری کیا سوچ رہی ہو آنکھیں بند کیے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔ بھوکا آدمی سوچ ہی کیا سکتا ہے۔۔۔؟ یہ پیٹ دوزخ۔۔۔‘‘
’’سچ ہے پیٹ سے بڑا دوزخ اور کوئی نہیں، نہ اُوپر نہ نیچے۔ اس میں ضرور پڑتا رہے کچھ نہ کچھ۔ کیا کھاؤں گی؟‘‘
’’کچھ نہیں خورشید! میں نے تو سرسری بات کی تھی۔ میں بھوکی تھوڑے ہی ہوں۔‘‘
’’ٹھنڈ ہے ذرا۔ بس کچھ گرم گرم۔۔۔‘‘
’’کیا چیز؟‘‘
’’سموسے۔‘‘
’’سموسے!‘‘
’’تم جانتی ہو شبنما! مجھے سموسے بہت اچھے لگتے ہیں۔‘‘
شبنما اُٹھ کر خورشید کے ہاں چلی جاتی ہے۔ دونوں مِل کر گرم گرم چائے پیتی ہیں۔ سموسے کھاتی ہیں۔ شبنما سموسے کو یوں پکڑتی ہے جیسے یہ کوئی باغی ممولا ہے۔
’’اچھا ہے یہ ممولا۔‘‘
’’ممولا؟‘‘
’’ممولا نہیں، سموسا۔ میں بھی ایک ہی پگلی ہوں۔‘‘
گراموفون ریکارڈ کی آواز آرہی ہے۔ ستاروں کے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ ’’ستاروں کے آگے یا سموسوں کے آگے؟‘‘ شبنما پوچھتی ہے۔
’’ہاہاہا۔‘‘ خورشید ہنس کر کہتی ہے۔ ’’ان شاعروں کی نظر ہمیشہ ستاروں سے شروع ہوتی ہے۔ بھوک بڑی زحمت ہے مگر۔ ہمارا حُسن زندہ ہے اب تک تو اسی لیے کہ ہم دُنیا کو روٹی کے زاویے سے دیکھتی ہیں، پیٹ میں گھس کر سودا کرتی ہیں۔ شریف آئے چاہے بدمعاش، ہمارے لیے دونوں برابر ہیں۔ ہمیں بس اپنی قیمت سے غرض ہے۔ روٹی تو چاہیے آخر۔‘‘
’’اور جب روٹی نہیں ملتی تو گویا نیکی بھی مرجاتی ہے، بدی بھی مرجاتی ہے، خورشید!‘‘
’’یہ تو سچ ہے۔ پھر نہ دن دن لگتا ہے، نہ رات، رات۔‘‘
’’پھیپھڑوں میں بھی تبھی تک سانس چلتا ہے، خورشید، جب تک آدمی کو روٹی ملتی رہتی ہے۔‘‘
’’سَو سیڑھیوں کی ایک ہی سیڑھی ہے روٹی، شبنما! چار دن کی بھوک ہی سے ایک ایک رگ ڈان59واں ڈول ہوجاتی ہے۔‘‘
’’کوئی آسمانی بادشاہت، کوئی جنّت کی دُنیا، کوئی نجات ممکن نہیں جب تک بھوک نہیں مٹتی۔‘‘
شبنما پھر اپنی کرسی پر آبیٹھی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ روٹی سب سے بڑی عیب پوش ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کئی عیب خود اسی کے لیے کیے جاتے ہیں۔۔۔ جاڑا بھی بڑے مزے کا موسم ہے۔ دن چھوٹے رہ جاتے ہیں، کافی چھوٹے۔ راتیں بڑی ہوتی جاتی ہیں۔ اب بھی اگر چکلے کی آمدنی میں اضافہ نہ تو بیچارے جاڑے کا کیا قصور ہے۔ جاڑا آیا۔ ہمارے لیے کیا کچھ لایا۔۔۔؟ نئے نئے گاہک لیتا آیا۔۔۔ کاش کہ حُسن کے بازار کا ہر راہرو حُسن کا گاہک بن کر ہی ادھر قدم اُٹھایا کرے۔ کچھ عجیب عجیب چہرے بھی نظر آجاتے ہیں۔ گال دیکھو تو سرے سے سُوکھے، سُکڑے، پچکے، جیسے بھرتا کیے ہوئے بیگن، آنکھیں اندر ہی اندر دھنسی جارہی ہیں۔ مگر ہمیں تو پیسہ چاہیے۔
شبنما کانگڑی میں کوئلے دُھکارہی ہے۔ دِیے میں بھی اُس نے تیل ڈال دیا ہے، بتّی اُکسا دی ہے۔ مُنہ دھوکر اُس نے پھر سے گالوں پر پاؤڈر کر تہ جمائی ہے، سُرخی ملی ہے، ہونٹ بھی رنگ ڈالے ہیں۔ بالوں میں پھر سے کنگھی کی ہے اور بائیں طرف کی زُلف پر ایک پُرانی شیشی سے مہندی کے عطر کی آخری دو بوندیں نکال کر لگا لی ہیں۔ وہ بھی رات کی کسی دوسری دُلہن سے کم نہیں۔ ابھی تو وہ کافی جوان ہے۔ چالیس بیالیس برس کی عمر بھی کچھ عمر ہوتی ہے۔ ابھی تو بہت سے لوگ آجارہے ہیں گلی میں۔ پُرانے پاپی تو بلکہ آتے ہی ذرا دیر سے ہیں۔ دوسرے کاموں سے پوری طرح فارغ ہوکر۔
اسے اپنے گالوں پر کسی کے غیرمرئی ہونٹوں کا لمس محسوس ہورہا ہے۔ خدا کی دُنیا میں عاشقوں کی کیا کمی ہے؟ سارے شہر سے الگ یہ چکلا کتنا گرم ہے۔۔۔؟ آدم کے بیٹے اِن رات کی دُلہنوں کو لتاڑکر دور نکل جاتے ہیں۔ ان عورتوں کے پاس رہ جاتا ہے کچھ کچھ دُکھ درد یا تھکان۔۔۔ یا پھر چاندی کی گرمی۔
دِیا ٹمٹماتا ہے۔ شبنما کا دھیان نہ جانے کِدھر چلا گیا ہے۔ وہ گویا یکلخت اُفق کے پار دیکھنے لگتی ہے جہاں اُسے بادلوں کے نیچے کیکر اور شیشم میں گھِرے ہوئے گھر نظر آتے ہیں۔
جس روز وہ اپنے گان59و سے بھاگ کھڑی ہوئی تھی، یہ درخت پھل سے لد رہا تھا۔ اور جب وہ بھاگنے سے پہلے روز شہتوت کھا رہی تھی اُسے بار بار یہ خیال آیا تھا کہ گھر سے بھاگ جانا آسان نہیں۔ اس کی قلم اُس نے اپنے ہاتھ سے لگائی تھی۔ تین سال کے عرصے میں وہ خود بھی کتنی بدل گئی تھی۔ بارھویں سال سے تیرھویں سال میں پیر رکھنے کے روز اُس کا بھائی خیرگل نہ جانے کہاں سے اتنے میٹھے شہتوت کی قلم لیتا آیا تھا۔ اسے پانی دے دے کر وہ روز اس کے نئے نئے پتے نکلنے کا نظارہ کیا کرتی۔ اس کا بھائی بہت چاہتا کہ کبھی کبھی وہ بھی اس ننھّے پیڑ کو پانی پلائے۔ مگر شبنما کی اجازت کے بغیر وہ شاید کبھی اس پر اپنا پیار ظاہر نہ کرسکا۔ بڑا اچھا بھائی تھا، بہن کی چیز بہن کی رہنے دی۔
اتنے برسوں کے بعد بھی شبنما کو اپنا شہتوت بھولا نہیں۔ اب تو یہ شہتوت بہت بُوڑھا ہوگیا ہوگا، گِر تو نہ گیا ہوگا۔ بڑی گہری قلم لگائی تھی اس نے۔ آنکھیں بند کرتے ہی اُس کے سامنے یہ شہتوت گان59و کے کسی حسّاس دانا کی طرح نمودار ہوجاتا ہے۔
جب وہ یہ قلم لگا رہی تھی اس کی ماں نے دُعا کی تھی کہ ’’او دوعالم کے خالق! اس شہتوت کا خاص خیال رکھیو، اس کی عمر دراز کیجیو۔‘‘ اس کا باپ کھِلکھلاکر ہنس پڑا ’’اری پگلی دُعا ہی کرنی ہے تو شبنما کے لیے کر۔‘‘ کہہ ’’او دوعالم کے خالق! میری بیٹی کو گان59و کی سب لڑکیوں میں ممتاز بنادے۔‘‘ اپنے باپ کے مُنہ سے یہ الفاظ سُن کر شبنما کو بے حد خوشی ہوئی تھی۔ یہ کوئی مذاق تو نہ تھا۔ بلکہ اس کا تو یہ خیال تھا کہ اس کا باپ،زبان پر یہ الفاظ لانے سے پیشتر ہی، خدا کے حضور میں خود یہ دُعا کرچکا تھا۔
ماں بھی شبنما کو بہت چاہتی تھی۔ کبھی کبھی اُسے شبنما کے چہرے کے خطوط دیکھ کر اپنے گزشتہ خاوند کی یاد آجاتی۔ وہ زندہ رہتا تو اپنی بیٹی کو دیکھ کر، اپنے خیرگل کو دیکھ کر میری اصل قیمت پہچان لیتا۔ خیرگل کا چہرہ اُس کے اپنے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا مگر شبنما کے چہرے پر اُسے ذرا بھی اپنا عکس نظر نہ آتا تھا۔ کئی بار چُھپ چُھپ کر وہ آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتی اور پھر اس سے شبنما کے پتلے سے چہرے کا مقابلہ کرتی۔ خدا کا کارخانہ بندوقوں کی دُکان سے کتنا الگ قاعدہ رکھتا ہے، وہ سوچتی، ایک ہی فیشن کی بندوقیں چاہے کتنی بنوا لو، خرید لو، مگر خدا شاید ہر بار سانچہ بدلتا ہے۔ ایک سے ایک صورت نہیں ملتی۔ اور پھر یہ تو اور بھی غضب ہے کہ شبنما باپ کا چہرہ پاکر پیدا ہو جب کہ اس سے اڑھائی تین سال پہلے خیرگل میرا اپنا رنگ رُوپ لے کر آیا تھا۔
دس گیارہ سال کی بیٹی ماں کو یہ رائے تو دے سکتی تھی کہ وہ اس کے مرحوم باپ کی یاد کے پاکیزہ چہرے کو نوچ کر اُسے مکروہ نہ بنادے۔ حق تو یہ ہے کہ جب پہلے روز ماں نے نئے باپ سے شبنما کا تعارف کرایا، اُسے کبھی بھول کر بھی یہ خیال نہ آیا تھا کہ اس کی ماں پھر سے جوان ہوکر، گزشتہ یاد کو کسی غیرمرئی صندوق میں بند کرکے، اُس کے نئے باپ ہی کو اپنا سب کچھ سونپ دے گی۔نئے باپ نے شبنما کو دیکھتے ہی سینے سے لگا لیا۔ ماں بہت خوش ہوئی۔ میری اولاد کو چاہتا ہے تو مجھے تو کبھی نہیں ٹھکرائے گا خان، اسی خیال نے اس کی نگاہ کو رنگ دیا۔ شبنما کو بھی خان کے ہاتھوں میں ہمدردی اور پدارانہ شفقت کی گرمی محسوس کرکے بڑی تسلّی ہوئی۔ خیرگل بالکل چُپ رہا۔ ایک کُرتا پھٹ کر چیتھڑے چیتھڑے ہوکر گرگیا، نیا کُرتا پہن لیا گیا۔ اس میں کیا برائی ہے؟ ماں تو بہت سمجھدار ہے۔۔۔ شبنما نے بھائی کا خیال جھٹ بھانپ لیا۔
دن بدن وہ شہتوت بڑا ہورہا تھا۔ اُس کے نئے پتّوں اور نئی ٹہنیوں کو دیکھ کر شبنما کو یہ دھیان آتا کہ وہ خود بھی زمین سے رَس کھینچنا سیکھ گئی ہے اور اس کی رگوں میں صرف لہُو ہی نہیں دوڑتا، بلکہ شہتوت کے رگ و ریشے کی طرح اُس کا بدن بھی زمین کی سوندھی سوندھی خوشبو کو قبول کررہا ہے، اُس کے دل میں بھی کھیتوں کی دھڑکن پیدا ہوجاتی ہے۔
خان کی نگاہ خواہ مخواہ شبنما کی طرف اُٹھ جاتی۔ وہ شاید اُسے اُسی خلوص سے دیکھتا جس سے وہ اپنے ہاتھ سے لگائے ہوئے شہتوت کو دیکھتی۔ ٹھیک تو تھا۔ شبنما شہتوت کی کونپلوں کو چھوکر دیکھ سکتی تھی اور آزاد علاقے کا پٹھان اپنی نئی بیوی کی شریف بیٹی کو جو دراصل اُس کی اپنی اولاد نہ تھی، پنجابیوں کی طرح ’’پچھوتری‘‘ کہہ کر حقارت کی نگاہ سے تو نہ دیکھ سکتا تھا۔ بلکہ وہ اس پر ہاتھ پھیر نا ضروری سمجھتا۔ جیسے وہ اس کی اپنی بیٹی ہو۔ اپنی ہی توتھی۔ فرق تو تب پڑتا ہے جب دل میں کفر بھر جائے۔ شبنما کی ماں۔۔۔ میری بیوی۔۔۔ شبنما۔۔۔ میری بیٹی۔
شہتوت کا تنا موٹا ہورہا تھا۔ ٹہنیاں بھی گدرائی ہوئی سی نظر آتی تھیں۔ تنے کو چھوتے ہوئے شبنما سوچتی کہ اس نئے گھر میں آئے پہلا سال بیت گیا، دوسرا بیت گیا اور تیسرا بھی پورا ہونے کو ہے۔ خدا کا کتنا بڑا فضل ہے، کتنا میٹھا پھل پیدا کیا ہے اُس نے۔
ماں سمجھاتی۔ ’’شبنما بیٹی! اتنے شہتوت نہ کھایا کر۔‘‘
خان کہتا۔ ’’ہرج ہی کیا ہے؟ یہ تو خدا کا پھل ہے۔‘‘
خیرگُل چپ رہتا۔
شبنما، خیرگل کے لیے بہت سے شہتوت جمع کر رکھتی۔ وہ ایک نہ چھوڑتا۔ بھائی ہوتو ایسا۔ جو بولے چاہے کم مگر بہن کی معمولی سے معمولی پیشکش کو بھی قبول کرلے۔
خان کہتا۔ ’’شبنما! مجھے بھی ملنا چاہیے میرا حصّہ!‘‘
ماں کہتی۔ ’’ٹِک کے بیٹھ بیٹی۔ خان نہیں کھائے گا شہتوت۔‘‘
شبنما یہ نہ سمجھ سکتی کہ جب بھی خان شہتوت کی مانگ پیش کرتا ہے، اس کی ماں جھٹ اُس کی زبان کیوں بند کردیتی ہے۔
اس اثنا میں شبنما دو نئے بھائی کھو بیٹھی تھی۔ وہ زندہ رہتے تو شاید اس کا پیار بن59ٹ جاتا۔ اب خیرگل کے لیے اس کا دِل اور بھی فراخ ہوگیا۔ بھائی ہو تو ایسا۔ خیرگل کتنا پیارا بھائی ہے۔ ہوں گے اور لڑکیوں کے بھی بھائی، خیرگل سے مقابلہ ہی کیا کسی کا؟ وہ بندوق جو اُسے مرحوم باپ نے لاکر دی تھی، اب تک اُس نے سنبھال کر رکھ چھوڑی ہے۔۔۔
اور دو بیٹوں کو کھو کر خان نے سمجھ لیا کہ خیرگل ہی اب اُس کا بیٹا ہے۔ شبنما کا بھی وہ بہت خیال رکھتا۔ پشاور سے وہ اُس کے لیے جاپانی سِلک کی قمیص سلوار کے تین چار جوڑے سِلا لایا تھا۔ کانوں کے لیے رولڈ گولڈ کے آویزے لیتا آیا تھا۔ آج سبز قمیص سلوار پہن لے شبنما! آج نیلے رنگ کی پہننا۔ آج سُرخ رنگ کی۔ شبنما کو بہت گھبراہٹ ہوتی۔ کپڑے کیا لائے ابّا جان، طوفان کھڑا کردیا۔ آج یہ پہنو، آج وہ۔ بہتر ہوتا کہ لائے ہی نہ ہوتے۔ مگر وہ خان کا دِل رکھنا بھی ضروری سمجھتی۔ آویزے تو وہ کبھی اُتارتی ہی نہ تھی۔ یہ اُسے خود بھی پسند تھے۔ ماں لاکھ روکتی کہ روز کپڑے بدلنے کی ضرورت نہیں۔ مگر شبنما ہر بات میں ماں کے حکم ہی کو ترجیح نہ دے سکتی۔ لیکن خان کی ان فرمائشوں کو وہ بھی حیرت سے دیکھتی۔
شبنما کچھ ہی دنوں میں بہت لمبی ہوگئی تھی۔ جیسے رات ہی رات میں سرسوں کا ڈنٹھل اُونچا اُٹھ جائے۔ بال تو کمر کو چُھو رہے تھے۔ یہ کیسے بڑھتے رہتے ہیں، قدرت کی کوئی طاقت چرخہ کاتتی رہتی ہے۔ اس غیرمرئی چرخے کا فنکار شبنما پر بہت خوش نظر آتا تھا، گال بھر گئے تھے۔ ہونٹ بھی گدگدے ہوتے جارہے تھے۔ سینہ بھی بھر چکا تھا۔ سپاٹ جگہ پر اُبھار آگیا تھا۔
پہلے کبھی اُس نے آئینے میں صورت دیکھ کر اتنی خوشی محسوس نہ کی تھی۔ خان اس کے لیے رولڈ گولڈ کے آویزے نہ لے آیا ہوتا تو شاید اُسے اس کا خیال ہی نہ آتا۔ یہ آویزے یوں ہلتے تھے جیسے ٹہنیوں پر شہتوت جھوم رہے ہوں۔ آئینہ دیکھتے دیکھتے وہ مسکراتی، شرماسی جاتی۔
مرحوم باپ کی یاد شبنما کو اب اتنی نہ آتی۔ باپ ہونا چاہیے، پُرانا ہو یا نیا۔ خان کو اُس نے اپنے حقیقی باپ کی جگہ دے دی۔ لیکن جب خان اُس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا اور ’’میری شبنما، میری اپنی شبنما‘‘ کی رٹ لگانا شروع کردیتا، وہ گھبراسی جاتی۔ وہ اسے اپنے سینے سے لگا لیتا۔ وہ اس کا نیا باپ تھا۔ مگراُس کی ماں کو خان کی یہ حرکت پسند نہ تھی۔ کئی بار اُس نے اُسے روکا بھی۔ مگر وہ کوئی پیش نہ جانے دیتا۔ شبنما کسی اور ماں کی بیٹی تو نہیں۔ شبنما کی ماں۔۔۔ میری بیوی۔ شبنما میری بیٹی۔ وہ ہار مان لیتی۔ خان ایک بار پھر شبنما کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا عجب خلوص سے اُسے سہلاتا۔
ایک دن شبنما کی ماں چارسدے کے قریب ایک گان59و میں گئی، جہاں اُس کی بڑی بہن رہتی تھی۔ شبنما گھر میں اکیلی تھی۔ خان باہر سے آیا تو وہ چُپ سا دکھائی دے رہا تھا۔ پھر اس کی آنکھوں میں ایک عجب وحشت سی آتی گئی۔ شبنما سہم گئی۔ وہ ایک شِکرے کی مانند نظر آتا تھا جو کسی ٹھُنڈ پر بیٹھا کسی بھولی بھٹکی چڑیا کی بے خبری کا انتظار کر رہا ہو۔ شبنما اپنا کام کرتی رہی۔
’’جلدی سے آنا، شبنما!‘‘ کوٹھے کے اندر سے خان کی آواز آئی۔
شبنما، خان کے قریب جاکھڑی ہوئی تو وہ بولا۔ ’’آج وہ صدری کہاں گئی۔۔۔؟ وہ ستاروں والی، سَو بٹنوں والی صدری جوتیرے سینے۔۔۔ سینے کے سُلیمانوں کی عظمت بڑھاتی ہے۔۔۔ وہ صدری۔۔۔‘‘
شبنما کیا جواب دیتی؟ و ہ گھبرا گئی۔ جیسے کسی نے فاختہ کے سینے پر گونسا دے مارا ہو۔ اس کے بدن کا سارا لہو منہ کو آنے لگا۔ خان نے حسبِ معمول اُس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اُس کی طرف مُسکرا کر دیکھا ’’شبنما، میری شبنما!‘‘ ان آنکھوں میں یہ میلی سی مسکراہٹ دیکھ کر شبنما کا دل زور زور سے دھک دھک کرنے لگا۔ آنکھوں میں دھواں سا پیدا ہوا، پیشانی پر گویا چیونٹیاں رینگنے لگیں۔ پہلے اس کا خون کبھی اتنا گرم نہ ہوا تھا۔
خان اُسے اپنے سینے سے لگا چکا تھا۔ اور یُونہی اس کا ہاتھ بیباک ہوکر آگے بڑھا۔ جیسے کوئی شریر بچّہ کہیں کوئی خوبصورت کِھلونا دیکھ کر للچا اُٹھے، وہ اُچک کر پرے جا کھڑی ہوئی۔ بولی۔ ’’ہاں تو آپ اس صدری کے لیے کہہ رہے تھے۔ میں ابھی پہن آتی ہوں۔‘‘ اور خان جو سالن میں سُرخ مرچ کو ہمیشہ پسند کرتا تھا، بولا۔ ’’ہاں جاؤ، پہن آؤ۔‘‘
شبنما اُچک کر چلی گئی اور پھر وہ پیچھے سے دیوار پھاند کر پڑوسیوں کے زنانخانے میں جا پہنچی۔
شام کے قریب ماں واپس آگئی۔ خیرگل اُس کے ساتھ تھا۔ خالہ کے ہاں سے وہ بہت سی چیزیں لایا تھا۔ خالو نے اس دن کسی تقریب میں چار بکرے حلال کیے تھے، ایک سالم بکرے کا گوشت خیرگل کو دے دیا گیا تھا۔ جسے اُس نے سر پر اُٹھا رکھا تھا۔ شبنما اُن کی خبر پاکر سہمی ہوئی گھر آگئی۔ خان کا نشہ اب تک ہرن ہوچکا تھا۔ عجب مجرمانہ نگاہوں سے وہ شبنما کی طرف دیکھتا۔ خان کی دست درازی امّاں کو کیسے بتائے، شبنما کو یہی اُلجھن تھی۔ خیرگل کے غصّے سے وہ واقف تھی، اُسے بھی نہ بتا سکی، اُسے تو ذرا سا اشارہ ہی کافی تھا۔ انتقام لے کر چھوڑتا اور کیا خبر خان کے علاوہ وہ ماں کو بھی مار ڈالتا جو ایسے آدمی کی بیوی بن گئی تھی۔
اس واقعہ کے بعد خان کی آنکھیں کُھل جائیں گی۔ یہ سوچ کر شبنما نے کچھ کچھ تسلّی پالی۔ لیکن خان کی زبان عادت سے باز نہ آئی۔ ’’شبنما، میری اپنی شبنما۔‘‘ وہ کہہ اُٹھتا۔ اُس کے ہاتھ اس کی پیٹھ پر آٹکتے۔ وہ اُسے سہلانے لگتا۔
شبنما کا لہو بار بار گرم ہوجاتا اور مُنہ کی طرف زور مارتا۔ وہ گھبراکر بیٹھ جاتی۔ زبان پر جیسے کسی نے ٹانکا لگا دیا تھا۔ آخر اُس نے چھوٹی خالہ کے ہاں جو پشاور میں تھی، بھاگ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس شہتوت کے نیچے کھڑے ہوکر اُس نے من ہی من میں سات بار یہ الفاظ دُہرائے۔۔۔ اب اور نہ رہوں گی اِس گھر میں۔۔۔ اور وہیں کھڑے کھڑے اُس نے اپنے کانوں سے وہ رولڈ گولڈ کے آویزے اُتار کر شہتوت کی جڑ کے قریب دفن کردیے۔ ماں تو آہی سکے گی پشاور اور خیرگل بھی۔۔۔ اب اور نہ رہوں گی اس گھر میں۔۔۔
اُس کی خالہ مکان تبدیل کرچکی تھی۔ نئے مکان کا پتہ نہ چل سکا۔ وہ اُسی جگہ، جہاں پہلے اُس کی خالہ رہا کرتی تھی، ٹھہر گئی۔ یہ کوئی مہربان عورت تھی۔ شبنما کی کہانی سُن کر اُس کا دل پسیج گیا۔ کام دھندا کردیا کرے تو روٹی ملتی رہا کرے گی اُسے۔ ایسے ہی سہی۔ شبنما کام میں لگ گئی۔ مگر جس آگ سے بھاگ کر وہ اتنی دُور پشاور میں آئی تھی، وہ تو کہیں بھی، کسی بھی دِل میں سُلگ سکتی تھی۔ یہی ہوا بھی۔ مکان والوں کا بڑا لڑکا اُسے دِق کرنے لگا۔۔۔
اس کے بعد وہ جہاں بھی گئی اُسے یہی مصیبت پیش آئی۔ دو عالم کے والی! اب میں کِدھر جاؤں۔۔۔؟ بار بار یہ سوال اُس کے ہونٹوں پر آیا۔ خدا ہر بار چُپ رہا۔ آسمان پر بادلوں کے ٹکڑوں پر، بھٹک بھٹک کر اس کی نگاہیں پھر زمین کو ٹٹولنے لگتیں۔ زمین کا کچھ اعتبار نہ تھا۔ جگہ جگہ بھیانک، زہری ناگ پھنکار اُٹھتے تھے۔ کس کس بابنی سے بچ سکتی ہے ایک کچّی، کنواری لڑکی، اور زمین اور آسمان کے ابدی بادشاہ۔۔۔!
آخر ایک عورت نے اس کی ڈھارس بندھائی۔ اُس نے ماں سے بھی زیادہ پیار ظاہر کیا۔ شبنما اُسی کے ساتھ رہنے لگی۔ چندروز بعد اُس نے اُسے اس شہر کی ایک بُڑھیا کے ہاتھ بیچ دیا اور بعد میں پتہ چلا کہ اُس نے پانچ سو روپے کھرے کر لیے تھے۔
اس کے بعد اُس نے کئی بار گھر بھاگ جانا چاہا۔ لیکن دباؤ کچھ بے طرح پڑا تھا۔ یہاں تک کہ وہ بُڑھیا بھی ایک دن موٹر تلے دب کر مرگئی۔ لیکن ایک دفعہ ٹھکانے سے بھاگی ہوئی عورت آج تک صحیح معنوں میں واپس نہیں لوٹ سکی۔۔۔
شبنما کے دل میں اب تک خیرگل کا خیال باقی ہے۔ بھائی ہو تو ایسا۔ شہتوت کو دیکھ کر تو اُسے بھی میرا خیال آجاتا ہوگا۔ شہتوت تو اب بھی پکتے ہوں گے۔ اب بھی جُھولتے ہوں گے شہتوت ٹہنیوں پر، جیسے میرے کانوں میں رولڈ گولڈ کے آویزے ہلتے رہتے تھے۔ وہ آویزے جو بدستور شہتوت کی جڑ کے قریب دفن ہوں گے اور جنھیں اب تک زمین نے قبول نہ کیا ہوگا، اُنھیں اپنی صورت نہ دی ہوگی۔۔۔! لیکن وہ گھر سے کیوں بھاگ نکلی تھی؟ خان اُسے کھا تھوڑی ہی جاتا؟ خیرگل جو تھا۔۔۔ ماں جایا، ایک ہی باپ کا بیٹا۔ بھائی بہن اور بلکہ ماں بھی کہیں اور ٹھکانا بنا لیتے یا شاید یہ نوبت ہی نہ آتی۔ تینوں مِل کر خان کو کان سے پکڑ کر سیدھا کردیتے۔ خیرگل اس کا بال بیکا نہ ہونے دیتا۔ اور اگر مناسب ہوتا تو جھٹ کہیں کوئی اچھا سا دولھا تلاش کردیتا۔ برات آتی، باجے بجتے اور آج یہ حال نہ ہوتا۔ آج وہ ماں ہوتی اور ایک اچھی بیوی بھی۔ کسی پر اُس کا زور ہوتا، زمین کے کسی ٹکڑے پر اس کا حق ہوتا!
خورشید پوچھتی ہے۔ ’’چُپ کیوں ہوگئی شبنما؟ میں تو کبھی اتنی سُست نہیں ہوئی سموسے کھانے کے بعد۔‘‘
’’سُستی وستی کچھ نہیں۔ یُونہی دل ہی تو ہے، بھٹکنے لگتا ہے اِدھر سے اُدھر، اُدھر سے اِدھر۔‘‘
کرایہ کے خیال سے شبنما کا تن بدن پُھنک رہا ہے۔ بڑی مشکل سے چھ روپے جوڑے تھے۔ اب ایک اور چاہیے، ضرور چاہیے، ورنہ وہ پُوربیا لٹھیت جانے کیا کر گزرے۔ بظاہر وہ خورشید سے بول لیتی ہے کبھی کبھی، اور خیرگل کے متعلق سوچنے لگتی ہے۔
ایک ادھیڑ عمر کا سردار، گلوبند سے خود ہی پھانسی لگائے، خورشید کے دروازے پر آتا ہے۔ روزمرّہ کی طرح اشاروں میں باتیں ہوتی ہیں، سودا چُکتا ہے اور خورشید اُسے ساتھ لیے اندر چلی جاتی ہے۔
سنسان رات جس کا آخری گاہک ساتھ کے کمرے میں جا چُکا ہے، شبنما کو نگلتی دکھائی دیتی ہے۔ کتنی خوش قسمت ہے یہ خورشید، پانچ نہیں تو اڑھائی تو لے ہی مرے گی۔ کاش وہ ایک روپیہ مجھے دے دے اُدھار۔ کم ازکم پورُبیے لٹھیت سے تو جان چھوٹے۔ اور کچھ نہ کچھ روٹی کے لیے بھی تو چاہیے۔ اصلی برکت تو اپنی کمائی سے ہوتی ہے۔ مگر ایک روپیہ تو میں ضرور مانگ دیکھوں گی یہ بخار تو نہیں سہا جاتا اور۔۔۔! رات اپنے بے شمار تاروں کی آنکھیں جھپکتی ہوئی گھورتی جاتی ہے۔ چاند کا چہرہ جانے کیوں پھیکا پڑگیا ہے، اُداس ہوگیا ہے؟ شبنما کا کوئی بھی خریدار پیدا نہیں ہوتا۔ کیا صرف عورتیں ہی بوڑھی ہوتی ہیں دُنیا میں؟ مرد بُوڑھے نہیں ہوتے؟ لیکن بوڑھے مردوں کو بھی جوان عورتوں ہی کی تلاش کیوں رہتی ہے؟ اس پورُبیے کے سامنے روپیہ پیدا نہ کرسکی تو بُرا حال ہوگا۔ اور یہی حالت رہی تو کرایہ سر پر چڑھتا چلا جائے گا اور مجھے یہاں سے اُٹھادِیا جائے گا۔ او میرے اللہ! تُو کیوں نہیں دیکھتا میری غریبی، میری یہ بھوک؟ کیسے دن آنے والے ہیں، میرے اللہ؟ اس وقت چا ہے تُوکچھ جواب نہ دے، کچھ خبر نہ لے، تُو ضرور میرے حال پر مہربان ہوگا۔ آخر تُو اللہ جو ہوا۔ مگر تُو چُپ کیوں ہے، میرے اللہ؟ کہیں بہرہ تو نہیں ہوگیا، گونگا تو نہیں ہوگیا، میرے اللہ؟ ضرورت تو سر پر آن پہنچی ہے کل ہی تو پُورا روپیہ، پونے سولہ آنے بھی نہیں پیدا کرنا ہوگا۔۔۔ اگر مجھے یہان سے اُٹھا دیا جائے تو مجھے کہاں ٹھکانا مِل سکتا ہے؟ بھیک مانگتی پھروں گی کیا؟ وہاں سڑک پر، جہاں دربار کے سامنے عرس لگا کرتا ہے، چکّر کاٹا کروں گی کیا؟ وہاں جہاں ایک عورت پڑی رہتی ہے۔۔۔ بدبودار بھنبھناتی مکھیوں کے درمیان! شاید وہ کسی کھولی سے ہی میری طرح مجبور ہوکر اُٹھ گئی ہوگی۔ کیا اِس جگہ بڑھاپے کا یہی انجام ہوتا ہے۔
دِیے کی لَو تھرتھرارہی ہے۔ شبنما اُٹھ کر دِیے میں تھوڑا تیل اور ڈال دیتی ہے بتّی کو بھی اُکسا دیتی ہے۔ لَو نئے امیر کی طرح بھڑکتی ہے۔ پرچھائیاں تھرکنے لگتی ہیں۔۔۔ بیکار لالچ کی طرح ہوا کا جھونکا آتا ہے، دِیا بُجھتے بُجھتے بچ جاتا ہے۔
شبنما کو پتہ چلتا ہے کہ وہی سردار رات کا آخری دولھا نہیں تھا۔ دُور گلی میں ایک کونے سے ایک لڑکھڑاتا ہوا آدمی نمودار ہوتا ہے۔ شبنما کا دِل دھڑکنے لگتا ہے۔ دائیں طرف بائیں طرف سب دروازے بند ہیں۔ شمعیں گُل کی جاچکی ہیں، اُمید کے دِیے کی طرح صرف اس کا اپنا ہی دِیا ٹمٹما رہا ہے۔
وہ مرد شراب سے لڑکھڑاتا ہوا آتا ہے۔ پگڑی کُھل کر اُس کے گلے میں پڑی ہے۔ نشے نے اُسے اندھا کررکھا ہے۔ بوڑھی عورت اور جوان عورت میں وہ کوئی تمیز نہیں کرسکتا، بھاڑا چکانے کے لیے آگے آتا ہے۔
شبنما چونک پڑتی ہے، پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ پرے طاق میں دِیے کی لَو بھڑکتی ہے، تھرکتی ہے۔ شبنما کی آنکھوں میں دُھواں سا پیدا ہوجاتا ہے۔ اُس کا بس چلے تو کہیں بھاگ جائے، چھُپ جائے۔ کمرے کا فرش ہی پھٹ جائے اور ہوسکے تو وہ اُس میں سما جائے۔
شبنما بڑے غور سے اس شرابی کی طرف دیکھتی ہے۔ ایک دفعہ بھی اس کے دماغ میں خیرگل کی وجیہ شکل پیدا ہوجاتی ہے۔ خیرگل اور اس نوجوان میں بال بھر کا بھی فرق نہیں۔ اس دن جب وہ خالو کے ہاں سے سالم بکرے کا گوشت لے کر آیا تھا اس کے چہرے پر ایسی ہی کچھ مستی سی چھائی ہوئی تھی۔ وہی چھوٹی چھوٹی مونچھیں، گھنی پلکیں، گہری آنکھیں اور گوشت سے بھرے ہوئے گال۔۔۔ وہی پیشانی تک آیا ہوا بالوں کا گپھا۔
شبنما سوچتی ہے کہ ماں نے اس کا نام کس قدر سوچ کر رکھا تھا۔۔۔ شبنما۔۔۔! شبنم صبح کے وقت ہی زمیں پر نمودار ہوتی ہے اور پھر صبح کے وقت ہی سورج کی کرنیں اسے پی جاتی ہیں۔ لیکن شاید ماں کے خیال میں یہی تھا کہ میری شبنما صبح کی شبنم ہی رہے گی۔ کاش وہ آکر دیکھتی کہ اس کی شبنما رات کے وقت نمودار ہوتی ہے اور رات ختم ہونے سے پہلے پہلے رات کی اتھاہ تاریکیاں اسے اپنے حلق میں انڈیل لیتی ہیں۔
پھر ایک نظر وہ بند دروازوں کی طرف دیکھتی ہے اور نوجوان کو باہر دھکیلتے ہوئے جھٹ سے دروازہ بند کرلیتی ہے۔ وہ بھنبھناتی ہوئی مکھیوں والی بڑھیا کا تصور دل میں لیے شکستہ حال اپنی کھاٹ پر گر پڑتی ہے۔
مصنف:دیوندر ستیارتھی