جب لوہے کے چنے چب چکے تو خدا خدا کر کے جوانی بخار کی طرح چڑھنی شروع ہوئی۔ رگ رگ سے بہتی آگ کا دریا امنڈ پڑا۔ الھڑ چال، نشہ میں غرق، شباب میں مست۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ کل پاجامے اتنے چھوٹے ہو گئے کہ بالشت بالشت بھر نیفہ ڈالنے پر بھی اٹنگے ہی رہے۔ خیر اس کا تو ایک بہترین علاج ہے کہ کندھے ذرا آگے ڈھلکا کر ذرا سا گھٹنوں میں جھول دے دیا جائے۔ ہاں ہاں ذرا چال کنگارو سے ملنے لگے گی۔
بال ہیں کہ قابو ہی میں نہیں۔ لٹیں پھسلی پڑتی ہیں۔ بال بہے جاتے اور مانگ؟ مانگ تو غائب! اگر ماں آٹھویں روز کڑوا تیل چھوڑ کر مینڈھیاں نہ باندھیں تو زندگی اجیرن ہو جائے۔ گو منھ لیے کنگوروں کے طباق کی طرح منڈا منڈا لگنے لگتا ہے۔ پر بالوں سے تو جان چھٹ جاتی ہے۔ جیسے کسی نے سر گھوٹ کے بالوں کے وبال ہی سے نجات دلا دی۔ نہ جانے یہ میمیں پھولے پھولے بال گردن پر چھوڑ کے کیسے جیتی ہیں۔ اور پاؤں؟ پاؤں تو جیسے پھاؤڑا۔ کیا جلدی جلدی بڑھ رہا ہے! اگر ایسی رفتار سے بڑھا تو سل برابر ہو جائے گا۔ انگوٹھا جیسے کچھوے کا سر!
اور بھی تھیں بہت سی باتیں جو اکیلے میں بیٹھ کر جنّو کو ستاتیں۔ آئینہ میں ناک دیکھ کے تو بس قے آنے لگتی۔ یہ ڈبل نگوڑا جیسے کھونٹا۔ شجّو کی شادی ہوئی تو یہ بڑی سی نتھنی پہنے تھی اس نے، کیا پیاری سی ناک ہے، گڑیا جیسی اور جنّو کے کھونٹے پر تو نتھنی بھی شرما جائے گی۔ جب اس کی شادی ہوگی تو؟
’’بجلی گرے ایسی ناک پر۔‘‘ اس نے سوچا۔
اس پر شبراتی بھیا آئے تھے۔ کیسے غور سے اس کا منھ تک رہے تھے۔ بھلا انھوں نے کاہے کو ایسی ناک کہیں دیکھی ہوگی۔ جنو نے جلدی سے کچھ پونچھنے کے بہانے ناک اوڑھنی سے چھپا لی۔ شبراتی بھیا جھینپ گئے۔ سمجھے ہوں گے بگڑ جائے گی یہ۔
اے کاش وہ سلوچنا ہوتی، یا مادھوری، کا کجّن ہی سہی! اللہ میاں کا اس میں کیا جاتا۔ کچھ ٹوٹا تو آ نہ جاتا ان کے خزانے میں۔ اگر ذرا وہ گوری ہی ہوتی۔ اور کام چور کاریگر ذرا دھیان سے اسے ڈھنگ کا بناتے تو کیا ہاتھ سڑ جاتے ان کے؟
وہ آنکھیں بند کر کے بہت سے فرشتوں کو کھٹاکھٹ انسانی پیکر گڑھتے دیکھتی۔ کاش وہ گڑھی جا رہی تھی تو فرشتہ کی بغل میں پھوڑا نہ نکلا ہوتا۔ باپو کے جب پھوڑا نکلا تھا تو ڈیڑھ مہینہ کی کھاٹ گوڑی تھی اور کھرپیا تک نہ ہلائی تھی۔
اس کا خیال ماں کی طرف بھٹک گیا۔ کھپریل میں نہ جانے دن میں کے گھنٹے اینڈتی۔ پچھلے چند مہینے سے اس کا پیٹ نہایت خوفناک چال سے بڑھ رہا تھا۔ وہ خوب جانتی تھی کہ یہ پھولنا خالی از علت نہیں۔ جب کبھی ماں پر یہ وبال چھا جاتا ہے ایک آدھ بہن یا بھائی رات بھر ریں ریں کرنے اور اس کے کولھے پر رونے کو آن موجود ہوتا ہے۔۔۔
مکھیاں، بس دوپہر کو ستاتی ہیں، اس کان سے اڑاؤ دوسرے پر آن مریں، وہاں سے اڑیں تو ناک میں تنتنائیں، وہاں سے نوچا تو آنکھ کے کوئے میں گھس جاتی ہیں۔ دو گھڑی بھی نہ ہوئی ہوگی کہ دوپٹہ کے چھید میں سے یلغار بول دیا۔ اور اوپر سے ماں ڈکرائی۔
’’موت پڑے تیرے سونے پر، اٹھ، شبراتی کو روٹی دے۔‘‘
گردن پر سے میل کی بتیاں چھٹاتی چھینکے کی طرف چلی۔ باہر پتھر پر شبراتی بھیا لال چار خانے کا انگوچھا پھیچ رہے تھے۔ چھپا چھپ سے میلی میلی بوندیں اچھل کر ان کی ادھ مچی آنکھوں اور الجھے ہوئے بالوں پر پڑ رہی تھیں۔ وہ روٹی رکھ کے پاس ہی گھٹنے پر ٹھوڑی رکھ کے غور سے انھیں دیکھتی رہی۔ ان کے سینے پر کتنے بال تھے۔ گھنے ہوئے پسینے میں ڈوبے۔ ’’جی نہ گھبراتا ہوگا۔‘‘ وہ سوچنے لگی ’’کیسی کھجلی پڑتی ہوگی۔‘‘ ان کے کسے ہوئے ڈنڑوں اور رانوں کی مچھلیاں ہر چھپاکے کے ساتھ اچھلتی تھیں۔
شبراتی بھیا انگوچھا ٹٹی پر پھیلا کر روٹی کے بڑے بڑے نوالے ساگ کی کمی کا گلہ کرتے ہوئے نگلنے لگے۔
’’پاڈی۔‘‘ انھوں نے سوکھی روٹی کے محیط نوالے کو گلے میں جکڑتے ہوئے کہا۔ اور جنّو نے گھبرا کر انھیں کٹوری پکڑا دی۔
’’جلدی سے کھا لو۔ کٹوری مانجھ کے یہیں دھر دینا۔ ہمیں کُٹّی کرنے کو پڑی ہے۔‘‘ وہ غرور سے احکام صادر کرتی اٹھی۔
’’ہم کر دیں گے کُٹّی۔‘‘ شبراتی روٹی کے کنارے کھاتے ہوئے بولا۔
’’تم کھیت جاؤ گے۔‘‘ وہ چلنے لگی۔
’’کھیت بھی جائیں گے۔‘‘
وہ غرور سے ایک عمیق ڈکار لے کر بولا۔’’اوہنک رہنے دو۔‘‘ وہ چلی۔
’’کہتے ہیں تجھ سے کُٹّی نہیں ہوگی۔ ویسے ہی کوئی چوٹ چپیٹ آ جائے گی۔‘‘ شبراتی نے پیار سے ڈانٹا۔
شبراتی کو کیا، ان کے آنے سے پہلے وہ کُٹّی کیا کرتی تھی کہ نہیں۔ ایسی بھی کیا چوٹ چپیٹ چھپڑ میں جا کر اس نے روپا اور چندن کو پیار سے دو چار گھونسے لگانے اور انھیں کونے میں چپ چاپ کھڑا رہنے کی تاکید کر کے خود کٹی کے گٹھے کو بچور کر گڈیاں بنانے لگی۔
’’جھیپ۔ ہٹو ہم کٹی کر دیں۔‘‘ شبراتی نے پھڑ ڈکار لے کر چنے کے ساگ کا مزہ لینا شروع کیا۔
وہ اترا کر گنڈاسا سنبھال کر بیٹھ گئی۔ گویا اس نے سنا ہی نہیں۔
’’تجھ سے ایک دفعہ کہو تو سنتی ہی نہیں۔ لا اِدھر گنڈاسا۔‘‘ وہ گنڈاسا چھیننے لگے۔
’’نہیں۔‘‘ وہ بننے لگی اور کٹّی شروع کر دی۔
’’تولیو اب۔‘‘ وہ اپنی پھکنی جیسی موٹی موٹی انگلیاں گنڈاسے کے نیچے بچھا کر بولے۔
’’لیو۔ اب کرو کٹی۔ مار دیو۔‘‘
’’ہٹاؤ۔ کہ ہم سچی مار دیں۔‘‘ وہ گنڈاسا تول کے بولی۔ جیسے سچ مچ مار ہی تو دیتی۔
’’مار۔ تیرے کلیجہ میں بوتہ ہو تو مار دیکھ۔‘‘
اور جو وہ مار ہی دیتی کچر کچر ساری انگلیاں پس جاتیں یہ کیا بات تھی، کوئی زبردستی تھی ان کی؟
’’اب مارتی کیوں نہیں۔‘‘ شبراتی بھیا نے آنکھیں جھپکائیں۔ اور ان کا مونچھوں والا موٹا سا ہونٹ دور تک پھیل گیا۔ گنڈاسا چھین لیا گیا۔ اور جنو کھسیا گئی۔ نہ جانے اس کے سخت اور کھدرے ہاتھوں کو اس وقت کیا ہو گیا۔۔۔ کس قدر چھوٹے اور نرم معلوم دینے لگے۔
اسے معلوم ہو گیا کہ سینہ پر پسینہ میں ڈوبے ہوئے گھنے بالوں سے جی کیوں نہیں گھبراتا اور پھکنی جیسی انگلیاں کیسی پھرتیلی ہوتی ہیں۔۔۔
جنو کا بس چلتا تو وہ ان کے بھوکے کتوں کو اپنی بوٹیاں بھی کھلا دیتی۔ مگر کتنا کھاتے تھے، اس کے ذرا ذرا سے بہن بھائی! وہ موٹی سے موٹی روٹی خواہ کتنی ہی جلی اور ادھ کچری کیوں نہ ہو، چٹکیوں میں ہضم کر جاتے۔۔۔ کیا ایسا بھی کوئی دن ہوگا جب اسے روٹی نہ تھوپنی پڑے۔۔۔۔ رات بھر ماں آٹا پیستی اور اس بھدّی عورت سے ہو ہی کیا سکتا ہے۔ سال میں 365 دن میں کسی نہ کسی بچے کو پیٹ میں لیے کولھے پر لادے یا دودھ پلاتے گزارتی۔۔۔ ماں کیا تھی ایک خزانہ تھی جو کم ہی نہ ہوا تھا۔ کتنے ہی کیڑے اس نے نالیوں میں کشتی لڑنے اور غلاظت پھیلانے کے لیے تیار کر لیے تھے۔ پرویسی ہی ڈھیر کا ڈھیر رکھی تھی۔
آخر وہ دن بھی آ گیا جب کہ رات کے ٹھیک بارہ بجے ماں نے بھینس کی طرح ڈکرانا شروع کیا۔ محلہ کی کل معزز بیویاں ٹھیکرے اور ہانڈیوں میں بدبودار چیزیں لے کر ادھر سے ادھر دوڑنے لگیں۔ موٹی دوہر کو بچھڑے کی رسی کی مدد سے کھپریل کے کونے میں تان کر ماں لٹا دی گئی۔ بچوں نے منمنانا شروع کیا اور آنے والے سے بڑا بچہ پچھاڑیں کھا کر گرنے لگا۔ باپو نے سب کو نہایت عجیب عجیب رشتہ قائم کرنے کی دھمکی دے کر کونے میں ٹھونس دیا اور خود ماں کو نہایت پیچدار گالیاں دینے لگا جن کا مفہوم جنو کسی طرح نہ سمجھ سکی۔ شبراتی بھیا دو ایک گالیاں جوؤں وغیرہ کو دے کر بھینسوں والے چھپّر میں جا پڑے۔ پر جنو ماں کی چنگھاڑیں سنتی رہی۔ اس کا کلیجہ ہلا جاتا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کوئی ماں کو کاٹے ڈال رہا ہے۔ عورتیں نہ جانے اس پردے کے پیچھے اس کے سنگ کیا بے جا حرکت کر رہی تھیں۔ جنو کو ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے ماں کا سارا دکھ وہی اٹھا رہی ہے۔ گویا وہی چیخ رہی ہے اور ایک نامعلوم دکھ کی تھکن سے واقعی وہ رونے لگی۔
صبح کو وہ ایک سرخ گوشت کے لوتھڑے کو گودڑ میں رکھا دیکھ کر قطعی فیصلہ نہ کر سکی کہ اس مصیبت اور دکھ کا معقول صلہ ہے یا نہیں جو ماں نے گزشتہ شب جھیلاتھا۔ پتہ نہیں ماں نے دوسری غلاظت کے ساتھ ساتھ اسے چیلوں کے کھانے کے لیے کوڑے کے ڈھیر پر رکھنے کے بجائے اسے کلیجے سے کیوں لگا رکھا تھا۔
جاڑوں میں بھینسوں کے گوبر کی سڑاند بچی کھچی سانی کی بو کے درمیان پھٹے ہوئے گودڑ میں اس سرے سے اس سرے تک جیوہی جیولیٹ جاتے پھٹی ہوئی روئی کے گٹھل اور پرانی بوریاں جسم کے قریب گھسیٹ کر ایک دوسرے میں گھسنا شروع کر دیتے۔ تاکہ کچھ تو سردی دبے۔ اس بے سر و سامانی میں بھی کیا مجال جو بچے نچلے بیٹھیں۔ رسولن ہنگوا کی ٹانگ گھسیٹتی اور نتھو موتی کے کولھے میں کاٹ کھاتا اور کچھ نہیں تو شبراتی ہی گھسیٹ کر اتنی گدگدی کرتا کہ سانس پھول جاتی۔ وہ تو جب ماں گالیاں دیتی تب ذرا سوتے۔ر ات کو وہ افراتفری پڑتی کہ کسی کا سر تو کسی کا پیر۔ کسی کو اپنے جسم کا ہوش نہ رہتا۔ پیر کہیں تو سر کہیں۔ بعض وقت اپنا جسم پہچاننا دشوار ہو جاتا۔ رات کو کسی کی لات یا گھونسے سے چوٹ کھا کر یا ویسے ہی اتنے جسموں کی بدبو سے اکتا کر اگر کوئی بچہ چوں بھی کرتا تو ماں ڈائن کی طرح آنکھیں نکال کر چیختی اور فریادی بسور کر رہ جاتا اور جنو تو سب سے بڑی تھی۔
مگر جنو کو خوب معلوم ہو گیا کہ سینے پر کتنے ہی بال ہوں، اور بغل میں سے کیسی ہی سڑاند آئے، جی بالکل نہیں گھبراتا۔ موری کا کپڑا کیچڑ میں کیا مزے سے لوٹتا ہے اور اس میں بات ہی ایسی کیا تھی۔
جب دوپہر کو ماں بچے کو جنو کو دے کر دائی سے پیٹ ملوانے کوٹھڑی میں چلی جاتی یا اپنی سہیلیوں سے کوئی نہایت ہی پوشیدہ بات کرتی ہوتی تو وہ بھیا کو گود میں لٹا کر جانے کیا سوچا کرتی۔ وہ اس کا چھوٹا سا منھ چومتی۔ مگر اس کا جی متلانے لگتا۔ پلپلا سڑے ہوئے دودھ کی بو۔ وہ سوچنے لگتی کہ کب وہ چھ فٹ اونچا چوڑے بازوؤں والا جوان بن چکے گا۔۔۔ اور پھر وہ اس کی چھوٹی چھوٹی مونچھوں اور پھکنی جیسی موٹی انگلیوں کا تصور کرتی۔ اسے یقین نہ آتا تھا کہ کبھی یہی خمیری گلگلا لکڑی کا کھمبا بن جائے گا۔کنوئیں پر نہاتے ہوئے نیم برہنہ غنڈوں کو دیکھ کر وہ اپنے اَدھ مرے بھائیوں پر ترس کھانے لگتی۔ کاش یہی بڑھ جائیں۔ اتنا کھاتے ہیں پھر کچریا سا پیٹ پھول جاتا ہے اور وہ بھی صبح کو خالی۔
محرم پر شبراتی بھیا اپنے گھر چلے گئے۔ رات کو بچے پہلی ہی دھتکار میں سو جاتے۔ پر جنو پڑی پڑی جاگا کرتی۔ وہ سرک سرک کے کسی بچے سے بے اختیار ہو کر لپٹ جاتی۔
’’شبراتی بھیا کب تک آئیں گے اماں؟‘‘ اس نے ایک دن پوچھا ماں سے۔
’’بیساکھ میں اس کا بیاہ ہے۔ اب وہ سسرال ہی رہے گا۔‘‘
ماں گیہوں پھٹکتی ہوئی بولی، ’’ارے!‘‘ اسے کس قدر حیرت ہوئی۔ گھسیٹے چاچا کے بیاہ میں بس کیا بتایا جائے کیا مزہ آیا تھا۔ رات رات بھر بس گانا اور ڈھول۔ سرخ ٹول کی ڈپٹیا وہ کس شان سے آٹھ دن تک اوڑھے پھری تھی۔ جبھی تو شبراتی بھیا نے اس کے کیا زور سے چٹکی بھر لی تھی۔ وہ گھنٹوں روئی تھی۔ وہ پھر سوچنے لگی کہ بیاہ میں وہ کون سا کرتا پہنے گی۔ لال اوڑھنی تو ویسی دھری تھی، پھر بیاہ تو ابھی دور تھا۔
پر نہ جانے اسے کیا ہو گیا تھا۔ ویسے تو کچھ نہیں، بس جی تھا کہ لوٹا جاتا تھا۔ اگر پچھواڑے املی کا پیڑ نہ ہوتا تو وہ پھر بھوکی ہی مر جاتی۔ کیسا جی بھاری بھاری رہتا۔۔۔۔ ماں اس کے جھونٹے پکڑ پکڑ کر ہلاتی۔ پر ہر وقت نیند تھی کہ سوار رہتی۔۔۔ پانی بھرتے میں اسے کئی دفعہ چکر آ گیا۔ اور ایک دفعہ تو وہ گر ہی پڑی دہلیز پر۔
’’ناجو کی کمر لچک جاتی ہے۔‘‘ ماں نے دوہتڑ مار کر کہا۔
اور اپنا سا پیلا چہرہ دیکھ کر تو وہ خود ڈر جاتی۔ وہ یقیناً مرنے والی ہو رہی تھی۔ کبڑی بڑھیا مری تھی تو کئی دن پہلے دھڑام سے موری میں گری۔ اور بس گھسٹا ہی کرتی تھی۔
’’اری یہ تجھے ہو کیا گیا ہے رانڈ؟‘‘ ماں نے اسے پژمردہ دیکھ کر پوچھ ہی لیا۔ اور وہ اسے بے طرح ٹٹولنے لگی۔ جنو کے بہت گدگدی ہوئی۔
’’حرامزادی! یہ کس کا ہے؟‘‘ اس نے اس کی چوٹی امیٹھ کر کہا۔’’کیا؟‘‘ جنو نے ڈر کے پوچھا۔’’ارے۔۔۔ یہی۔۔۔ تیرے کرتوت۔۔۔ بچہ بنتی جاتی ہے۔۔۔ مردار حرامخور۔‘‘ اس نے جنو کو اتنا مارا کہ ڈھائی سیر گھی پھینکنے پر بھی نہ مارا ہوگا اور خود اپنا سر کوٹ ڈالا۔’’اری مردے خور بتا تو آخر کچھ۔‘‘ وہ تھک کر جنو کو پھر پیٹنے لگی۔اور پھر اس نے نہ جانے کیا کیا پوچھ ڈالا۔ وہاں تھا ہی کیا۔
رات کو اس نے اپنے باپ کی گالیاں اور مار ڈالنے کی دھمکی سن کر زور سے گھٹنے پیٹ میں اڑا لیے اور کھاٹ پر اوندھی ہو گئی۔۔۔ پر اسے بڑی حیرت ہوئی کہ وہ ساتھ ساتھ شبراتی بھیا کو کیوں گنڈاسے سے کاٹ ڈالنے کی دھمکی دے رہے تھے۔ بیساکھ میں تو ان کا بیاہ ہونے والا تھا جس میں وہ سرخ دوپٹہ اوڑھ کر۔۔۔ اس کا گلا بھر آیا۔
مصنف:عصمت چغتائی