جب پہلی بار میں نے انہیں دیکھا تو وہ رحمان بھائی کے پہلے منزلے کی کھڑکی میں بیٹھی لمبی لمبی گالیاں اور کوسنے دے رہی تھیں۔ یہ کھڑکی ہمارے صحن میں کھلتی تھی اور قانونا اسے بند رکھا جاتا تھا کیوں کہ پردے والی بی بیوں کا سامنا ہونے کا ڈر تھا۔ رحمان بھائی رنڈیوں کے جمعدار تھے، کوئی شادی بیاہ، ختنہ، بسم اللہ کی رسم ہوتی، رحمان بھائی اونے پونے ان رنڈیوں کو بلا دیتے اور غریب کے گھر میں بھی وحید جان، مشتری بائی اور انوری کہروا ناچ جاتیں۔
مگر محلے ٹولے کی لڑکیاں بالیاں ان کی نظر میں اپنی سگی ماں بہنیں تھیں۔ ان کے چھوٹے بھائی بندو اور گیندا آئے دن تاک جھانک کے سلسلہ میں سر پھٹول کیا کرتے تھے، ویسے رحمان بھائی محلے کی نظروں میں کوئی اچھی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی بیوی کی زندگی ہی میں اپنی سالی سے جوڑ توڑ کر لیا تھا۔ اس یتیم سی سالی کا سوائے اس بہن کے اور کوئی مرا جیتا نہ تھا۔ بہن کے ہاں پڑی تھی۔ اس کے بچے پالتی تھی۔ بس دودھ پلانے کی کسر تھی۔ باقی ساراگو موت وہی کرتی تھی۔
اور پھر کسی نک چڑھی نے اسے بہن کے بچے کے منہ میں ایک دن چھاتی دیتے دیکھ لیا۔ بھانڈا پھوٹ گیا اور پتہ چلا کہ بچوں میں آدھے بالکل ’’خالہ‘‘ کی صورت پہ ہیں۔ گھر میں رحمان کی دلہن چاہے بہن کی درگت بناتی ہوں پرکبھی پنچوں میں اقرار نہ کیا۔ یہی کہا کرتی تھیں۔ ’’جو کنواری کو کہے گا، اس کے دیدے گھٹنوں کے آگے آئے گا۔‘‘ ہاں بر کی تلاش میں ہردم سوکھا کرتی تھیں، پر اس کیڑے بھرے کباب کو بر کہاں جٌڑتا؟ ایک آنکھ میں یہ بڑی کوڑی سی پھلی تھی۔ پیر بھی ایک ذرا چھوٹا تھا۔ کولہا دبا کر چلتی تھی۔
سارے محلے سے ایک عجیب طرح کا بائیکاٹ ہو چکا تھا۔ لوگ رحمان بھائی سے کام پڑتا تو دھونس جما کر کہہ دیتے محلے میں رہنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ یہی کیا کم عنایت تھی۔ رحمان بھائی اسی کو اپنی عزت افزائی سمجھتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ وہ ہمیشہ رحمان بھائی کی کھڑکی میں بیٹھ کر طول طویل گالیاں دیا کرتی تھی۔ کیوں کہ باقی محلے کے لوگ ابا سے دبتے تھے مجسٹریٹ سے کون بیر مول لے۔
اس دن پہلی دفعہ مجھے معلوم ہوا کہ ہماری اکلوتی سگی پھوپی بادشاہی خانم ہیں اور یہ لمبی لمبی گالیاں ہمارے خاندان کو دی جا رہی تھیں۔
اماں کا چہرہ فق تھا اور وہ اندر کمرے میں سہمی بیٹھی تھیں، جیسے بچھو پھوپی کی آواز ان پر بجلی بن کر ٹوٹ پرے گی۔ چھٹے چھ ماہے اسی طرح بادشاہی خانم رحمان بھائی کی کھڑکی میں بیٹھ کر ہنکارتیں، ابامیاں ان سے زراسی آڑ لے کر مزے سے آرام کرسی پردراز اخبار پڑھتے رہتے اور موقع محل پر کسی لڑکے بالے کے ذریعے کوئی ایسی بات جواب میں کہہ دیتے کہ پھوپی بادشاہی پھر شتابیاں چھوڑنے لگتیں۔ ہم لوگ سب کھیل کود، پڑھنا لکھنا چھوڑ کر صحن میں گچھا بنا کر کھڑے ہو جاتے اور مڑ مڑ اپنی پیاری پھوپی کے کوسنے سنا کرتے جس کھڑکی میں وہ بیٹھتی تھیں وہ ان کے طول طویل جسم سے لبا لب بھری ہوئی تھی۔ ابامیاں سے اتنی ہم شکل تھیں جیسے وہی مونچھیں اتار کر ڈوپٹہ اوڑھ کر بیٹھ گیے ہوں۔ اور باوجود کوسنے اور گالیاں سننے کے ہم لوگ بڑے اطمینان سے انہیں تکا کرتے تھے۔
ساڑھے پانچ فٹ کا قد، چار انگل چوڑی کلائی، شیر سا کلا، سفید بگلا بال، بڑا سا دہانہ، بڑے بڑے دانت بھاری سی تھوڑی اور آواز تو ماشاء اللہ ابا میاں سے ایک سر نیچی ہی ہو گی۔
پھوپی بادشاہی ہمیشہ سفید کپڑے پہنا کرتیں تھیں۔ جس دن پھوپا مسعود علی نے مہترانی کے سنگ کلیلیں کرنی شروع کیں پھوپی نے بٹے سے ساری چوڑیاں چھنا چھن توڑ ڈالیں۔ رنگا ڈوپٹہ اتار دیا اور اس دن سے وہ انہیں ’’مرحوم‘‘ یا ’’مرنے والا‘‘ کہا کرتی تھیں۔ مہترانی کو چھونے کے بعد انہوں نے وہ ہاتھ پیر اپنے جسم کو نہ لگنے دیئے۔
یہ سانحہ جوانی میں ہوا تھا اور اب جب سے ’’رنڈاپا‘‘ جھیل رہی تھیں۔ ہمارے پھوپا ہماری اماں کے چچا بھی تھے۔ ویسے تو نہ جانے کیا گھپلا تھا۔ میرے ابا میری اماں کے چچا لگتے تھے۔ اور شادی سے پہلے جب وہ چھوٹی سی تھیں تو میرے ابا کو دیکھ کر ان کا پیشاب نکل جاتا تھا۔ اور جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ان کی منگنی اسی بھیانک دیو سے ہونے والی ہے۔ تو انہوں نے اپنی دادی یعنی ابا کی پھوپی کی پٹاری سے افیون چرا کر کھالی تھی۔ افیون زیادہ نہیں تھی اور کچھ دن لوٹ پوٹ کر اچھی ہو گئیں۔ ان دنوں ابا علی گڑھ کالج میں پڑھتے ان کی بیماری کی خبر سن کر امتحان چھوڑ کر بھاگے۔ بڑی مشکل سے ہمارے نانا جو ابا کے پھوپی زاد بھائی بھی تھے اور بزرگ دوست بھی، انہوں نے سمجھا بجھا کر واپس امتحان دینے بھیجا تھا۔ جتنی دیر وہ رہے، بھوکے پیاسے ٹہلتے رہے۔ ادھ کھلی آنکھوں سے میری اماں نے ان کا چوڑا چکلا سایہ پردے کے پیچھے بے قراری سے تڑپتے دیکھا۔
’’امراؤ بھائی! اگر انہیں کچھ ہو گیا… تو…‘‘ دیو کی آواز لرز رہی تھی۔ نانا میاں خوب ہنسے۔
’’نہیں برادر، خاطر جمع رکھو۔ کچھ نہ ہوگا۔‘‘
اس وقت میری منی سی معصوم ماں ایک دم عورت بن گئی تھی۔ اس کے دل سے ایک دم دیو زاد انسان کا خوف نکل گیا تھا۔ جبھی تو میری پھوپی بادشاہی کہتی تھی میری اماں جادو گرنی ہے اور اس کا تو میرے بھائی سے شادی سے پہلے تعلق ہو کر پیٹ گرا تھا۔ میری اماں اپنے جوان بچوں کے سامنے جب یہ گالیاں سنتیں تو ایسی بسور بسور کر روتیں کہ ہمیں ان کی مار فراموش ہو جاتی اور پیار آنے لگتا مگر یہ گالیاں سن کر ابا کی گمبھیر آنکھوں میں پریاں ناچنے لگتیں۔ وہ بڑے پیار سے ننھے بھائی کے ذریعے کہلواتے۔
’’کیوں پھوپی، آج کیا کھایا ہے؟‘‘
’’تیری میا کا کلیجہ۔‘‘ اس بے تکے جواب سے پھوپی جل کر مرندا ہو جاتیں، ابا پھر جواب دلواتے۔
’’ارے پھوپی، جب ہی منہ میں بواسیر ہو گئی ہے جلاب لو جلاب!‘‘
وہ میرے نوجوان بھائی کی مچمچاتی لاش پر کوؤں، چیلوں کی دعوت دینے لگتیں۔ ان کی دلہن کو جو نہ جانے بیچاری اس وقت کہاں بیٹھی اپنے خیالی دولہا کے عشق میں لرز رہی ہو گی، رنڈاپے کی دعائیں دیتیں۔ اور میری اماں کانوں میں انگلیاں دے کر بدبداتیں۔
’’جل تو جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو۔‘‘
پھر ابا اکساتے اور ننھے بھائی پوچھتے۔
’’پھوپی بادشہی، مہترانی پھوپی کا مزاج تو اچھا ہے؟‘‘ اور ہمیں ڈر لگتا کہ کہیں پھوپی کھڑکی میں سے پھاند نہ پڑیں۔
’’ارے جا سنپو لیے، میرے منہ نہ لگ، نہیں تو جوتی سے منہ مسل دوں گی۔ یہ بڈھا اندر بیٹھا کیا لونڈوں کو سکھا رہا ہے۔ مغل بچہ ہے تو سامنے آ کر بات کرے۔‘‘
’’رحمان بھائی اے رحمان بھائی، اس بورانی کتیا کو سنکھیا کیوں نہیں کھلاتے‘‘ ابا کے سکھانے پر ننھے بھائی ڈرتے ہوئے بولتے۔ حالانکہ انہیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ کیوں کہ سب جانتے تھے کہ آواز ان کی ہے مگر الفاظ اباں میاں کے ہیں۔ لہٰذا گناہ ننھے بھائی کی جان پر نہیں۔ مگر پھر بھی بالکل ابا کی شکل کی پھوپی کی شان میں کچھ کہتے ہوئے انہیں پسینے آ جاتے تھے۔
کتنا زمین و آسمان کا فرق تھا۔ ہمارے ددھیال اور ننھیال والوں میں ننھیال حکیموں گلی میں تھی اور ددھیال گاڑی بانوں کٹہڑے میں۔ ننھیال والے سلیم چشتی کے خاندان سے تھے۔ جنہیں مغل بادشاہ نے مرشد کا مرتبہ دے کر نجات کا راستہ پہچانا۔ ہندوستان میں اسے بسے عرصہ گزر چکا تھا۔ رنگتیں سنولا چکی تھیں نقوش نرم پڑ چکے تھے۔ مزاج ٹھنڈے ہو گیے تھے۔
ددھیال والے باہر سے سب سے آخری کھیپ میں آنے والوں میں سے تھے۔ ذہنی طور پر ابھی تک گھوڑوں پر سوار منزلیں مار رہے تھے۔ خون میں لاوا دہک رہا تھا۔ کھڑے کھڑے تلوار جیسے نقوش، لال فرنگیوں جیسے منہ، گریلوں جیسی قد و قامت، شیروں جیسی گرجدار آوازیں۔ شہتیر جیسے ہاتھ پاؤں۔
اور ننھیال والے، نازک ہاتھ پیروں والے شاعرانہ طبیعت کے دھیمی آواز میں بولنے چالنے کے عادی۔ زیادہ تر حکیم، عالم اور مولوی تھے۔ جبھی محلے کا نام حکیموں کی گلی پڑ گیا تھا۔ کچھ کاروبار میں بھی حصہ لینے لگے تھے، شال باف، زردوز اور عطار وغیرہ بن چکے تھے۔ حالانکہ میری ددھیال والے ایسے لوگوں کو کنجڑے قصائی ہی کہا کرتے تھے کیوں کہ وہ خود زیادہ تر فوج میں تھے۔ ویسے مار دھاڑ کا شوق ابھی تک نہیں ہوا تھا۔ کشتی پہلوانی، تیراکی میں نام پیدا کرنا، پنجہ لڑانا، تلوار اور پٹے کے ہاتھوں دکھانا اور چوسر پچیسی کو جو میری ننھیال کے مرغوب ترین کھیل تھے ہیجڑوں کے کھیل سمجھنا۔
کہتے ہیں جب آتش فشاں پہاڑ پھٹتا ہے تو لاوا وادی کی گود میں اتر آتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میرے ددھیال والے ننھیال والوں کی طرف خود بخود کھینچ کر آ گیے۔ یہ میل کب اور کس نے شروع کیا سب شجرے میں لکھا ہے، مگر مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔ میرے دادا ہندوستان میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ دادیاں بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتی تھی مگر ایک چھوٹی سی بہن بن بیاہی تھی۔ نہ جانے کیوں کر وہ شیخوں میں بیاہ دی گئی۔ شاید میری اماں کے دادا نے میرے داد پر کوئی جادو کر دیا تھا کہ انہوں نے اپنی بہن بقول پھوپی بادشاہی کنجڑوں قصائیوں میں دے دی۔ اپنے ’’مرحوم‘‘ شوہر کو گالیاں دیتے وقت وہ ہمیشہ اپنے باپ کو قبر میں چین نہ ملنے کی بد دعائیں دیا کرتیں۔ جنہوں نے چغتائی خاندان کی مٹی پلید کر دی۔
میری پھوپی کے تین بھائی تھے۔ میرے تایا میرے ابامیاں اور میرے چچا۔ بڑے دو ان سے بڑے تھے اور چچا سب سے چھوٹے تھے۔ تین بھائیوں کی ایک لاڈلی بہن ہمیشہ کی نخریلی اور تنک مزاج تھیں۔ وہ ہمیشہ تینوں پر رعب جماتیں اور لاڈ کرواتیں۔ بالکل لونڈوں کی طرح پلیں، شیر سواری تیر اندازی اورتلوار چلانے کی بھی خاصی مشق تھی۔ ویسے تو پھیل پھال کر ڈھیر معلوم ہوتی تھیں۔ مگر پہلوانوں کی طرح سینہ تان کر چلتی تھیں۔ سینہ تھا بھی چار عورتوں جتنا۔
ابا مذاق میں اماں کو چھیڑا کرتے۔
’’بیگم بادشاہی سے کشتی لڑوگی؟‘‘
’’اوئی توبہ میری!عالم فاضل باپ کی بیٹی‘‘ میری اماں کان پر کان پر ہاٹھ دھر کر کہتیں، مگر وہ ننھے بھائی سے فورا پھوپی کو چیلنج بھجواتے۔
’’پھوپی ہماری اماں سے کشتی لڑوگی؟‘‘
’’ہاں، ہاں بلا اپنی اماں کو۔ آجائے خم ٹھوک کر۔ ارے الو نہ بنا دوں تو مرزا کریم بیگ کی اولاد نہیں۔ باپ کا نطفہ ہے تو بلا۔ بلا ملا زادی کو…‘‘ اور میری اماں اپنا لکھنؤ کا بڑے پائنچوں کا پاجامہ سمیٹ کر کونے میں دبک جاتیں۔
’’پھوپی بادشاہی، دادا میاں گنوار تھے نا؟ بڑے نانا جان انہیں آمد نامہ پڑھایا کرتے تھے۔‘‘ ہمارے پرنانا کے دادا جان نے کبھی دادا کو کچھ پڑھا دیا ہو گا‘‘ ابا میاں چھیڑنے کو بات توڑ موڑ کر کہلواتے۔
’’ارے وہ استنجے کا ڈھیلا کیا میرے باوا کو پڑھاتا۔ مجاور کہیں کا، ہمارے ٹکڑوں پر پلتا تھا۔‘‘ یہ سلیم چشتی اور اکبر بادشاہ کے رشتے سے حساب لگایا جاتا۔ ہم لوگ یعنی چغتائی اکبر بادشاہ کے خاندان سے تھے۔ جنہوں نے میری ننھیال کے سلیم چشتی کو پیرو مرشد کہا تھا۔ مگر پھوپی کہتیں۔ ’’خاک، پیرومرشد کی دم! مجاور تھے مجاور۔‘‘
تین بھائی تھے مگر تینوں سے لڑائی ہو چکی تھی۔ اور وہ غصہ ہوتیں تو تینوں کی دھجیاں بکھیر دیتیں۔ بڑے بھائی بڑے اللہ والے تھے، انہیں حقارت سے فقیر اور بھیک منگا کہتیں۔ ہمارے ابا گورنمنٹ سروس میں تھے۔ انہیں غدار اور انگیزوں کا غلام کہتیں، کیوں کہ مغل شاہی انگریزوں نے ختم کر ڈالی، ورنہ آج۔ ’’مرحوم‘‘ پتلی دال کے کھانے والے جولاہے یعنی میرے پھوپا کے بجائے وہ لال قلعے میں زیب النساء کی طرح عرق گلاب میں غسل فرما کر کسی ملک کے شہنشاہ کی ملکہ بنی بیٹھی ہوتیں۔ تیسرے یعنی بڑے چچا دس نمر کے بدمعاشوں میں سے تھے اور سپاہی ڈرتا ڈرتا مجسٹریٹ بھائی کے گھر ان کی حاضری لینے آیا کرتا تھا۔ انہوں نے کئی قتل کیے تھے، ڈاکے ڈالے تھے۔ شراب اور رنڈی بازی میں اپنی مثال آپ تھے۔ وہ انہیں ڈاکو کہا کرتی تھیں جوان کے کیرئر کو دیکھتے ہوئے قطعی پھسپھسا لفظ تھا۔
مگر جب وہ اپنے ’’مرحوم‘‘ شوہر سے غصہ ہوتیں تو کہا کرتیں۔ ’’منہ جلے۔ نگوڑی ناہٹی نہیں ہوں۔ تین بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں۔ ان کو خبر ہو گئی تو دنیا کا نہ رہے گا۔ اور کچھ نہیں۔ اگر چھوٹا سن لے تو پل بھر میں انتڑیاں نکال کے ہاتھ میں تھما دے۔ ڈاکو ہے ڈاکو… اس سے بچ گیا تو منجھلا مجسٹریٹ تجھے جیل کی سزا دے گا۔ ساری عمر چکیاں پسوائے گا اور اس سے بچ گیا تو بڑا جو اللہ والا ہے۔ تیری عاقبت خاک میں ملا دے گا۔ دیکھ مغل بچی ہوں تیری اماں کی طرح شیخانی فتانی نہیں۔‘‘ مگر میرے پھوپا اچھی طرح جانتے تھے کہ تینوں بھائی ان پر رحم کھاتے ہیں اور وہ بیٹھے مسکراتے رہتے ہیں وہی میٹھی میٹھی زہریلی مسکراہٹ جس کے ذریعے سے میرے ننھیال والے ددھیال والوں کو برسوں سے جلا رہے ہیں۔
ہر عید بقر عید کو میرے ابا میاں بیٹوں کو لے کر عید گاہ سے سیدھے پھوپی اماں کے ہاں کوسنے اور گالیاں سننے جایا کرتے، وہ فورا پردہ کر لیتیں اور کوٹھڑی میں سے میری جادو گرنی ماں اور ڈاکو ماموں کو کوسنے لگتیں۔ نوکر کو بلا کر سویاں بجھواتیں۔ مگر یہ کہتیں ’’پڑوسن نے بھیجی ہیں۔‘‘
’’ان میں زہر تو نہیں ملا ہوا ہے؟‘‘ ابا چھیڑنے کو کہتے اور پھر ساری ننھیال کے چیتھڑے بکھیرے جاتے۔ سویاں کھا کر عیدی دیتے جو وہ فورا زمین پر پھینک دیتیں کہ ’’اپنے سالوں کو دو وہی تمہاری روٹیوں پر پلے ہیں۔‘‘ اور ابا چپ چاپ چلے آتے اور وہ جانتے تھے کہ پھوپی بادشاہی وہ روپے گھنٹوں آنکھوں سے لگا کر روتی رہیں گی۔ بھتیجوں کو وہ آڑ میں بلا کر عیدی دیتیں۔
’’حرامزادو اگر اماں ابا کو بتلایا تو بوٹیاں کاٹ کر کتوں کو کھلادوں گی۔‘‘ اماں ابا کو معلوم تھا کہ لڑکوں کو کتنی عیدی ملی۔ اگر کسی عید پر کسی وجہ سے ابا میاں نہ جا پاتے تو پیغام پر پیغام آتے ’’نصرت خانم بیوہ ہو گئیں، چلو اچھا ہوا۔ میرا کلیجہ ٹھنڈا ہوا‘‘ برے برے پیغام شام تک آتے ہی رہتے اور پھر وہ خود رحمان بھائی کے کوٹھے پر سے گالیاں برسانے آ جاتیں۔
ایک دن عید کی سویاں کھاتے کھاتے کچھ گرمی سے جی مالش کرنے لگا۔ ابا میاں کو الٹی ہو گئی۔
’’لو بادشاہی خانم، کہا سنا معاف کرنا، ہم تو چلے۔‘‘ ابا میاں نے کراہ کر آواز بنائی اور پھوپی لشتم پشتم پردہ پھینک چھاتی کوٹتی نکل آئیں۔ ابا کو شرارت سے ہنستا دیکھ الٹے پاؤں کو ستی لوٹ گئیں۔
’’تم آگئیں بادشاہی تو ملک الموت بھی گھبرا کر بھاگ گیے۔ ورنہ ہم تو آج ختم ہی ہو جاتے‘‘۔ ابا نے کہا۔ نہ پوچھیے پھوپی نے کتنے وزنی کوسنے دیئے۔ انہیں خطرے سے باہر دیکھ کر بولیں۔
’’اللہ نے چاہا بجلی گرے گی۔ نالی میں گر کردم توڑو گے۔ کوئی میت کو کاندھا دینے والا نہ بچے گا‘‘ ابا چڑانے کو انہیں دوروپئے بجھوا دیتے۔
’’بھئی ہماری خاندانی ڈومنیاں گالیاں دیدیں تو انہیں بیل تو ملنی ہی چاہئے۔‘‘ اور پھوپی بوکھلاہٹ میں کہہ جاتیں۔
’’بیل دے اپنی اماں بہنیا کو۔‘‘ اور پھر فورا اپنا منہ پیٹنے لگتیں خود ہی کہتیں۔ ’’اے بادشاہی بندی، تیرے منہ کو کالک لگے۔ اپنی میت آپ پیٹ رہی ہے۔‘‘ پھوپی کو اصل میں بھائی سے ہی بیر تھا۔ بس ان کے نام پر آگ لگ جاتی، ویسے کہیں ابا کے بغیر اماں نظر آجاتیں تو گلے لگا کر پیار کرتیں پیار سے ’’نچھو نچھو‘‘ کہتیں۔ ’’بچے تو اچھے ہیں۔‘‘ وہ بالکل بھول جاتیں کہ یہ بچے اسی بدذات بھائی کے ہیں جسے وہ ازل سے ابد تک کوستی رہیں گی۔ اماں ان کی بھتیجی بھی تھیں۔ بھئی کس قدر گھپلا تھا میری ددھیال ننھیال میں۔ ایک رشتے سے میں اپنی اماں کی بہن بھی لگتی تھی۔ اس طرح میرے ابا میرے دولہا بھائی بھی ہوتے تھے۔ میری ددھیا کو ننھیال والوں نے کیا کیا غم نہ دیئے۔ غضب تو جب ہوا جب میری پھوپی کی بیٹی مسرت خانم ظفر ماموں کو دل دے بیٹھی۔
ہوا یہ کہ میری اماں کی دادی یعنی ابا کی پھوپی جب لب دم ہوئیں تو دونوں طرف کے لوگ تیمارداری کو پہنچے۔ میرے ماموں بھی اپنی دادی کو دیکھنے گیے۔ مسرت خانم بھی اپنی اماں کے ساتھ ان کی پھوپی دیکھنے آئیں۔
بادشاہی پھوپی کو کچھ ڈر، خوف تو تھا نہیں۔ وہ جانتی تھیں کہ میرے ننھیال والوں کی طرف سے انہوں نے اپنی اولاد کے دل میں اطمینان بخش حد تک نفرت بھر دی ہے اور پندرہ برس کی مسرت خانم کا بھی سن ہی کیا تھا۔ اماں کے کولہے سے لگ کر سوتی تھیں۔ دودھ پیتی ہی تو انہیں لگتی تھیں۔
پھر جب میرے ماموں نے اپنی کرنجی شربت بھری آنکھوں سے مسرت جہاں کے لچک دار سراپے کو دیکھا تو وہیں کی وہیں جم کر رہ گئیں۔
دن بھر بڑے بوڑھے تیمارداری کرکے تھک کر سو جاتے تو یہ فرمانبردار بچے سرہانے بیٹھے مریضہ پر کم ایک دوسرے پر زیادہ نگاہ رکھتے جب مسرت جہاں برف میں تر کپڑا بڑی بی کے ماتھے پر بدلنے کو ہاتھ بڑھاتیں تو ظفر ماموں کا ہاتھ وہاں پہلے سے موجود ہوتا۔
دوسرے دن بڑی بی نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ لرزتی کانپتی گاؤ تکیے کے سہارے اٹھ بیٹھیں، اٹھتے ہی سارے خاندان کے ذمہ دار لوگوں کو طلب کیا۔ جب سب جمع ہو گیے تو حکم ہوا۔ ’’قاضی کو بلواؤ۔‘‘
لوگ پریشان کہ بڑھیا قاضی کو کیوں بلا رہی ہے، کیا آخری وقت سہاگ رچائے گی، کس کو دم مارنے کی ہمت تھی۔
’’دونوں کا نکاح پڑھاؤ۔‘‘ لوگ چکرائے کن دونوں کا مگر ادھر مسرت جہاں پٹ سے بے ہوش ہو کرگریں ادھر ظفر ماموں بوکھلا کر باہر چلے۔ چور پکڑے گیے۔ نکاح ہو گیا، بادشاہی پھوپی سناٹے میں رہ گئیں۔
حالانکہ کوئی خطرناک بات نہ ہوئی تھی، دونوں نے صرف ہاتھ پکڑے تھے۔ مگر بڑی بی کے لیے بس یہی حد تھی۔
اور پھر جو بادشاہی پھوپی کو دورہ پڑا ہے تو بس گھوڑے اور تلوار کے بغیرانہوں نے کشتوں کے پشتے لگا دئیے۔ کھڑے کھڑے بیٹی داماد کو نکال دیا۔ مجبورا ابا میاں دولہا دولہن کو اپنے گھر لے آئے۔ اماں تو چاند سی بھابی کو دیکھ کر نہال ہو گئیں، بڑی دھوم دھام سے ولیمہ کیا۔
بادشاہی پھوپی نے اس دن سے پھوپی کا منہ نہیں دیکھا۔ بھائی سے پردہ کر لیا۔ میاں سے پہلے ہی ناچاقی تھی۔ دنیا سے منہ پھیر لیا۔ اور ایک زہر تھا کہ ان کے دل و دماغ پر چڑھتا ہی گیا۔ زندگی سانپ کے پھن کی طرح ڈسنے لگی۔
’’بڑھیا نے پوتے کے لیے میری بچی کو پھنسانے کے لیے مکر گانٹھا تھا۔‘‘
وہ برابر یہی کہے جاتیں، کیوں کہ واقعی وہ اس کے بعد بیس سال تک اور جئیں۔ کون جانے ٹھیک ہی کہتی ہوں پھوپی۔
مرتے دم تک بہن بھائی میں میل نہ ہوا۔ جب ابا میاں پر فالج کا چوتھا حملہ ہوا اور بالکل ہی وقت آگیا تو انہوں نے پھوپی بادشاہی کو کہلا بھیجا۔
’’بادشاہی خانم، ہمارا آخری وقت ہے۔ دل کا ارمان پورا کرنا ہو تو آ جاؤ۔‘‘
نہ جانے اس پیغام میں کیا تیر چھپے تھے۔ بھیا نے پھینکے اور بہنیا کے دل میں ترازو ہو گیے۔ ہلہلاتی، چھاتی کوٹتی، سفید پہاڑ کی طرح بھونچال لاتی ہوئی بادشاہی خانم اس ڈیوڑھی پر اتریں جہاں اب تک انہوں نے قدم نہیں رکھا تھا۔
’’لوبادشاہی، تمہاری دعا پوری ہو رہی ہے۔‘‘ ابا میاں تکلیف میں بھی مسکرا رہے تھے۔ ان کی آنکھیں اب بھی جوان تھیں۔
پھوپی بادشاہی باوجود بالوں کے وہی منی سی بچھو لگ رہی تھیں جو بچپن میں بھائیوں سے مچل کر بات منوا لیا کر تی تھیں۔ ان کی شیر جیسی خرانٹ آنکھیں ایک میمنے کی معصوم آنکھوں کی طرح سہمی ہوئی تھیں۔ بڑے بڑے آنسو ان کے سنگ مرمر کی چٹان جیسے گالوں پر بہہ رہے تھے۔
’’ہمیں کو سو بچھو بی‘‘ ابا نے پیارسے کہا۔ میری اماں نے سسکتے ہوئے بادشاہی خانم سے کوسنے کی بھیک مانگی۔
یااللہ… یا اللہ… انہوں نے گرجنا چاہا۔ مگر کانپ کر رہ گئیں۔‘‘ یا… یااللہ… میری عمر میرے بھیا کو دیدے… یا مولا… اپنے رسول کا صدقہ…‘‘
وہ اس بچے کی طرح جھنجھلا کر رو پڑیں۔ جسے سبق یاد نہ ہو۔
سب کے منہ فق ہو گیے۔ اماں کے پیروں کا دم نکل گیا۔ یا خدا آج بچھو پھوپی کے منہ سے بھائی کے لیے ایک کوسنا نہ نکلا۔
صرف ابا میاں مسکرا رہے تھے۔ جیسے ان کے کوسنے سن کر مسکرا دیا کرتے تھے۔
سچ ہے، بہن کے کوسنے بھائی کو نہیں لگتے۔ وہ ماں کے دودھ میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔
مأخذ : دو ہاتھ
مصنف:عصمت چغتائی