پہچان

0
150
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

بھاگتے بھاگتے وہ تھک گیا۔ سلگتا دہکتا ہوا منظر لاوے کی طرح کھول رہا تھا، ابل رہا تھا او رچیخ وپکار اس کے کان چھیدے ڈال رہی تھی۔ اس منظر اور آہ و بکا کو خود سے دور کرنے وہ کسی ایسے مقام پر پہنچ جانا چاہتا تھا جہاں سکوت کے سوا کچھ نہ ہو۔ لہٰذا جب تک قدموں نے ساتھ دیا، وہ نہیں رکا مگر آخر کار گرا اور بےسدھ ہو گیا۔

تب مہربان زمین نے اپنی آغوش پھیلا دی اور تازہ ہوا نے شفقت سے اسے تھپکا تو وہ سب کچھ بھول گیا۔ جب جاگا تو اندھیرے کی چادر خوب تنی ہوئی تھی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑکر چاروں طرف دیکھا لیکن اتھاہ سناٹے کے سوا نہ کوئی آواز تھی نہ متنفس۔ جلتی ہوئی آنکھیں اور اپنا مجروح احساس۔

کس قدر خوفناک آگ تھی جو لذیذ غذا کی طرح آدمیوں اور چیزوں کو بھون بھون کر نگل رہی تھی۔ بھر بھر بالٹیاں پانی کی انڈیلی جارہی تھیں مگر شعلوں کی زبانیں جانے کون سا زہر چاٹ چاٹ کر ماند ہونے، مرنے کی بجائے بڑھتی لپکتی ہر ہر شے کو ختم کیے دے رہی تھیں۔ وہ تو بچ گیا۔ شاید کچھ اور لوگ بھی بچ گئے ہوں گے لیکن بے حساب خاک ہو گئے۔ جب تک ہمت سلامت رہی وہ بھی دوسروں کے ساتھ مل کر زندگیوں کو بچاتا رہا لیکن جب آگ بجھانے والا عملہ آ گیا تو نیم جان ناتواں نڈھال سا قدم قدم پیچھے ہٹنے لگا اور اب نہ جانے کہاں پہنچا ہوا تھا۔ اردگرد کو پہچاننے کی اب بھی نہ ہمت تھی نہ سکت۔ بس ایک ہی منظر تھا جو نظر کے سامنے جم سا گیا تھا۔ ہٹ نہیں رہا تھا اور نالہ وشیون کی آوازیں جو آسمان تک رسائی پانے کو بےقرار تھیں، اب تک اسے دہلائے ہوئے تھیں۔

اس نے آنکھیں اور سختی سے بند کر لیں۔ جانے کب تک یونہی پڑا رہتا کہ بھیڑوں کے ممیانے کی آوازوں نے بے پناہ سکوت کو توڑ دیا اور کسی نے اس کا شانہ ہلایا۔ آنکھ کی جھری سے ایک انسان کو دیکھ کر اس نے آنکھیں کھول د یں۔ سیاہی مائل رنگت کاایک تندرست نوجوان تشویش سے اسے دیکھ رہا تھا۔ تب خود کو بمشکل سمیٹ سنبھال کر وہ بولا، ’’بہت بھوک لگی ہے۔ کچھ کھلاؤ مجھے۔‘‘

یہ سن کر چند منٹ تک چرواہا کچھ سوچتا رہا پھر پاس کے ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ کر اس نے اپنے مخصوص انداز میں سیٹی بجائی۔ یہ سیٹی دور دور تک گھوم کر جونہی ختم ہوئی، کہیں دور پہرے سے ایسی ہی ایک اور سیٹی ابھری اور اردگرد کا طواف کرتی ہوئی ٹیلے سے ٹکراکر ٹوٹ گئی۔ وہ اپنی جگہ پڑا احمقوں کی طرح پلکیں جھپکاتا رہا۔ چرواہا ٹیلے سے اترکر پھر اس کے نزدیک آیا اور کچھ ہی دیر بعد ایک نقطہ چھوٹے سے بڑا ہوتے ہوئے بالکل ان کے آگے آکر مجسم ہو گیا۔ صبح کی پہلی پہلی روشنی میں شام کی شبیہ اس کے سامنے ٹھہری ہوئی تھی۔ سانولی گمبھیر جیسے کسی نے وارفتگی اور ٹھہراؤ کو خوب گوندھ کر ایک شکل دے دی ہو۔ سادہ لوحی جس سے یوں ظاہر ہو رہی تھی جیسے پکے ہوئے پھل سے ٹپکتا ہوا رس۔

- Advertisement -

وہ بھونچکا سا اس شبیہ کو تکتا رہ گیا۔ چرواہے نے اپنے ہی لب و لہجے میں آنے والی سے کہا، ’’دوڑ کر دودھ لے آؤ۔ یہ آدمی اٹھ کر چلنے کے قابل نہیں ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی لڑکی جس طرح آئی تھی، اسی طرح لوٹ گئی اور توقع سے بہت جلد کانسی کا ایک لوٹا لے کر لوٹی جو دودھ سے لبالب لبریز تھا۔ اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے لوٹا لیا اور بلاتاخیر ہونٹوں سے لگا لیا۔ جب تک پورا دودھ اس کے پیٹ میں نہیں چلا گیا وہ لوٹے کے کنارے سے اپنے ہونٹ چپکائے رہا۔ پھر جب دودھ کی آخری بوند بھی ختم ہو گئی تو لوٹا دھرکر اس نے ایک طویل مطمئن سانس لی اور اپنی بے تحاشہ بھوک اورندیدے پن پر خود ہی شرمندہ ہو گیا۔ تبھی قریبی پتھر پر ٹکے ہوئے چرواہے نے اس سے پوچھا، ’’کیا تم زخمی ہو، بیمار ہو یا کوئی تمہاری گھات میں ہے؟‘‘ اور یہ پوچھتے ہوئے نیزے پر چروا ہے کی گرفت غیر ارادی طور پر مضبوط ہو گئی۔

’’پہلے یہ بتاؤ میں کہاں ہوں؟‘‘

’’تم اس وقت بستی سے دور ترائی میں ہو اور اس قابل نہیں کہ لوٹ سکو، اس لیے ابھی آرام کرو۔ جب چلنے کے قابل ہو جاؤ تو بے شک چلے جانا۔‘‘

وہ چپ چاپ پڑا رہا۔

’’میں ریوڑ لے کر آگے جا رہا ہوں تم اس آدمی کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔‘‘ چرواہا دوبارہ لڑکی سے مخاطب ہوا۔ تعمیل حکم میں لڑکی نے زبان کی بجائے جیسے آنکھوں سے کہا۔ اٹھو، آؤ میرے ساتھ اور و ہ ہر ہر طرح کی خود اختیاری بھول کر آہستہ آہستہ لڑکی کے پیچھے ہولیا۔ کچھ دیر چل کر آخرکار وہ ایک جھونپڑی کے آگے رکے۔ لڑکی نے ایک چٹائی لاکر اس کے لیے بچھا دی اور خود اس سے تھوڑا پرے بیٹھ کر ادھوری والی چٹائی بننے لگی۔

پہلی بار اس نے محسوس کیا کہ لڑکی کا سراپا جتنا نازک ہے، لچیلا ہے، اس کے ہا تھ پاؤں اتنے ہی بھدے ہیں۔ ناچار چٹائی پر ٹک کر وہ چند لمحے اس غیر موزونیت کے بارے میں سوچا کیا پھر بے اختیار ایک سوال اس کی زبان سے ادا ہو گیا، ’’وہ کون ہے جس نے ہمیں یہاں بھیجا ہے؟‘‘

’’میرا بھائی ہے وہ۔‘‘

’’اور تمہارے ماں باپ۔‘‘

’’بستی میں سامان بیچنے گئے ہوئے ہیں۔ میری بنی ہوئی چٹائیاں اور بھیڑوں کے دودھ سے بنا ہوا مکھن اور پنیر۔‘‘

’’مگر کیا یہ عجیب اور بےتکا نہیں لگتا کہ اکیلی لڑکی کے ساتھ ایک اجنبی کو بھیج د یا جائے؟‘‘

’’کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم مہمانوں کی عزت کرتے ہیں اور اپنی حفاظت کرنا بھی خوب جانتے ہیں۔ جب ہمیں درندوں سے محفوظ رہنا آتا ہے تو پھر انسان تو انسان ہی ٹھہرا۔‘‘

اس جواب کی خوداعتادی نے اسے لاجواب کر دیا۔ انتہائی تھکن میں پیٹ بھرنے کے احساس نے رفتہ رفتہ اس پر سرشاری طاری کر دی۔ بولتے بولتے وہ چٹائی پر لڑھکا اور اطمینان کی اس دنیا میں پہنچ گیا جہاں کبھی کبھی خوابوں کی بھی مجال نہیں تھی کہ اپنا رنگ جما سکیں۔

دن ڈھلا، شام آ گئی۔ شام کے ساتھ ہی بھیڑیں اپنے ٹھکانے کو واپس پلٹیں۔ چرواہے نے انہیں باڑے میں دھکیل کر کانٹے دار دروازہ بند کیا اور بہن سے پوچھا، ’’کیا یہ سارا دن سوتا رہا ہے۔‘‘

’’ہاں۔‘‘ بہن مسکرائی، ’’جس رفتار سے اس نے دودھ پیا تھا، اسی رفتار سے اب نیند میں مگن ہے۔‘‘

دونوں کی یہ بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ان کے ماں باپ بھی لوٹے آئے۔ چرواہے نے انہیں مختصراً اجنبی کی بابت بتایا، اگرچہ کہ بڈھا بڈھی نے تعلیم نہیں پائی تھی اور تہذیب و تمدن کو نہیں دیکھا برتا تھا مگر اچھے برے کی پرکھ ضرور رکھتے تھے۔ لہٰذا جیسے ہی چرواہے نے اجنبی کو جگاکر ان دونوں کو ملوایا، دونوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں مسکراکر نہایت مسرت سے اس کا سواگت کیا اور اپنے ساتھ بٹھاکر بڑی اپنائیت سے اسے پیاز پنیر اور روٹی کھلائی۔ پھر تھکا ہوا چرواہا اور اس کا باپ فوراً ہی چٹائی پر پسر گئے اور ماں لڑکی کو ساتھ لے کر جھونپڑی کے اندر چلی گئی۔ وہ اپنی چٹائی پر بیٹھا بڑی بے دردی سے آنکھیں مل مل کر سوچنے لگا۔ کہیں یہ سب خواب تو نہیں۔ خوف سے نجات کا ایک سہانا پس منظر؟

روشنی رخصت ہوچکی تھی اور اندھیرا پھر سارے میں اترآیا تھا۔ اس کا دل شدت سے دھڑکا۔ کہیں اب اندھیرا ہی تو اس کا مقدر نہیں بن گیا؟ مگر تاروں سے چھنی ہلکی ہلکی جگ مگ میں اس کے قریب ہی بے خبر سویا ہوا چرواہا اس وقت اسے ایک مضبوط سہارا معلوم ہوا۔ اس نے خود کو یقین دلایا کہ یہ کوئی پس منظر نہیں حقیقت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دنیا بڑی عجیب جگہ ہے جس کے کچھ حصوں میں اس وقت رونقیں اپنے عروج پر ہوں گی مگر اس حصہ زمین پر اس وقت نہایت اٹوٹ خاموشی، دم بدم گاڑھی ہوتی ہوئی تاریکی۔ اور آگ تاریکی ہی میں تو بھڑکی تھی۔ تاریکی نے پھر اس کے احساس میں پنجے گاڑدیے۔ تاریکی اس دشمن کی طرح لگی جو مسلسل اس کا تعاقب کیے جا رہے ہو۔ بےاختیار اس کا جی چاہا کہ کوئی اتنی زور سے ہنسے کہ اجالا اس ہنسی سے فوارے کی طرح ابل کر تاریکی پرچھا جائے اور اس کے اپنے زخمی وجود سے رس رس کر لہوزمین میں ملے تو پھولوں کی طرح اگے اور تمام پھول مل کر زندگی کو ایک نیا منظر فراہم کریں۔ نیا طور، نئی جہت د یں۔

گھسی پٹی فارمولا زندگی اسے کتنا تھکا چکی ہے۔ صبح سے شام تک کام کرنا، شام پڑے پیٹ کا دوزخ بھرنا، نیند آئے تو سو جانا ورنہ وقت کے آنسو خرچ کرنا۔ اب تو وہ مقام نہ رہا جہاں رات گزار کر وہ خود کو ایک ٹھکانے کی تشفی دے سکتا تھا۔ اسی درد میں گھلتے گھلتے اس کے پپوٹے پھر جھک گئے اور اس وقت کھلے جب اچانک کوئی چیز اس کے چہرے پر کلبلائی۔ گھبراکر ہاتھ کے غیرارادی جھٹکے سے اس نے کلبلاتی ہوئی چیز کو پرے اچھال دیا پھر اپنے خوف پر خود ہی نادم ہو اٹھا۔ کیونکہ وہ سوکھی گھاس کے چند تنکے تھے جو پیڑ پر بیٹھی چڑیا کے چونچ سے چھوٹ کر اس کے چہرے پر آپڑے تھے۔ ہاتھ بڑھاکر اس نے قریب قریب پڑے ہوئے وہ تنکے سمیٹے اور انہیں اپنی ہتھیلی پر پھیلا لیے۔

تو کیا گھونسلے بنانے کا موسم آ گیا؟

اس نے سر اونچا کرکے پیڑ کو بغور دیکھا جس پر بیٹھے بےفکر پرندے آزادی کے نغمے الاپ رہے تھے۔ وسعتوں کی مدح کر رہے تھے۔ خوب چہچہا کر وہ اپنے پنکھ پھڑپھڑاتے پھر دور تک اڑتے چلے جاتے۔ فضا میں تیراکی کا یہ مظاہرہ اسے بھلا لگا۔ جب گھر بن جائیں گے تو یہ پرندے انڈے دیں گے پھر اونچی پروازوں میں ہمہ تن منہمک ہو جائیں گے۔ اس خیال نے یکلخت اس میں پھرتی بھر دی۔ وہ لپک کر چٹائی سے اٹھا اور نرم نرم صبیح صبح کو اپنے اندر میٹھے گھونٹ کی طرح بھر کر مسکرایا۔ اس وقت تک بڈھا بڈھی چرواہا سب اپنے اپنے کاموں پر روانہ ہو چکے تھے۔ صرف لڑکی تھی جو دھوپ کے زعفرانی آبشار تلے سونے کی طرح لو دیتی ا پنی مصروفیت میں مگن تھی۔ تب چپکے سے اس کے نزدیک پہنچ کر وہ بولا، ’’کام کام کام، تم ہر وقت کام ہی کیوں کرتی رہتی ہو؟‘‘

’’کیونکہ مجھے بےکاری پسند نہیں۔‘‘

’’تم نے کبھی پرندوں کو دیکھا ہے؟ کس طرح چہچہاتے اڑتے ہیں؟‘‘

’’نہیں مجھے پرندوں سے دلچسپی نہیں ہے۔‘‘

’’عجیب بات ہے، کیوں آخر؟‘‘

’’انہیں دیکھنے سے کیا ملےگا؟‘‘

’’خوشی، اندرونی خوشی اور جینے کی تمنا۔‘‘

لڑکی خاموشی سے سر جھکائے اپنا کام کرتی رہی۔

’’اچھا اگر تمہیں بہت سا پیسہ مل جائے تو کیا کروگی۔ کام کرنا چھوڑ دوگی؟‘‘

لحظہ بھر کو ہاتھ روک کر لڑکی نے اسے دیکھا۔

’’کیا تمہارے پاس بہت پیسہ ہے؟‘‘

اس سوال نے اسے سٹپٹادیا اور تذبذب کو اس کے چہرے پر دیکھ کر لڑکی مسکرائی، ’’ہمیں پیسہ نہیں چاہیے۔ ہم محنت کرتے، پیٹ بھر کھاتے، بے فکر سوتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی خزانہ نہیں جو پریشان کرے۔ ہاں کبھی کبھی فضائی طوفان البتہ ہمیں پراگندہ کر دیتے ہیں ورنہ آرام ہی آرام ہے۔ چلو اب دانت صاف کر لو اور ناشتہ کر لو۔ بھائی تمہاری راہ دیکھ رہا ہوگا۔‘‘

وہ لڑکی کے قریب سے ہٹ کر مٹکے کے قریب پہنچا اور پانی لے کر دانت صاف کرنے لگا۔ جب اس نے اپنے چہرے پر ٹھنڈے پانی کے چھپاکے مارے تو اچانک ہی ایک لمحے کو اس کا جی چاہا مٹکے کا تمام پانی لڑکی پر انڈیل کر دیکھے۔ اپنے دل آویز پیچ و خم کے ساتھ وہ کیسی لگتی ہے لیکن اگلے ہی لمحے سارے جنگل نے جیسے گونج کر کہا، خبردار! یہ یہاں کی ریت نہیں۔ یہاں بسنے والے معصوم اور بے غرض ہوتے ہیں مگر عیاری کے لیے ان کے نیزے بہت نشانہ باز اور چاقو بہت دھاردار۔ پھر کیا اعتماد کوئی چیز نہیں؟بےحد ندامت سے اس نے اپنے منہ میں بھرا ہوا پانی اگل دیا اور بغیر کچھ کھائے ہی دوڑ پڑا۔

’’ارے ارے۔‘‘ لڑکی چلائی اور حیرانی سے اسے جاتا ہوا د یکھتی رہ گئی لیکن اس نے پلٹ کر ایک بار بھی پیچھے نہیں دیکھا۔ سیدھا چرواہے کے پاس پہنچ کر رکا اور متانت سے بولا، ’’میں جا رہا ہوں، تمہاری مہمان نوازی کا شکریہ۔‘‘ چرواہے نے ایک دم کمر میں اڑسا ہوا چاقو نکال کر کھولا، ’’تم بھاگ کیو ں رہے ہو؟ اتنے پریشان کیوں دکھائی دے رہے ہو؟‘‘

ایک منٹ کے لیے چاقو کی چمکتی ہوئی دھار نے اس پر کپکپی طاری کردی مگر اگلے ہی لمحے اس نے پوری بے خوفی سے دھار کے آس پاس انگلی پھیر کر پوچھا، ’’کیا اسے روز سان پر چڑھاتے ہو۔‘‘

چراوہے نے اس کی صاف آواز سنی۔ اس کی شفاف آنکھوں کو دیکھا۔ اس کی بےخوفی کو محسوس کیا تو چاقو بند کرکے کمرے میں کھونستے ہوئے مسکرایا، ’’ہاں، ہم اپنے ہتھیاروں کو کند نہیں ہوتے دیتے۔ یہی تو ہمارے محافظ ہیں، درندے ہوں کہ لٹیرے ان کے وار سے کوئی نہیں بچ سکتا۔‘‘

’’تم ایسا کرو کوئی سا جنگلی پھل توڑ لاؤ، چھوٹے سے چھوٹا اور اسے جتنی تیزی سے اچھال سکتے ہو اچھالو۔ اگر میرا نشانہ خطا کر جائے تو بےشک میرے ہتھیار سے میری ہی جان لے لینا وگرنہ وگرنہ۔۔۔‘‘

’’خوب۔‘‘ وہ مسکرایا، ’’مطلب یہ کہ بھاگتے ہوئے کو بھی گرا سکتے ہو؟‘‘

’’ہاں۔‘‘ چرواہا بولا۔

’’تبھی اتنے بےخوف ہو تم لوگ۔‘‘

’’لیکن تم اس قدر جلد کیوں جا رہے ہو۔ کچھ روز رہ لیتے۔ دودھ مکھن پنیر اور تازہ ہوا سے اپنے اندر خوب طاقت بھر لیتے تب بےشک چلے جاتے۔‘‘

نہیں مجھے جانا ہی چاہیے، اس نے سوچا۔ آگ کتنی بھی شدید سہی، آہ و بکا کتنی بھی المناک سہی مگر جینے کی تمنا کیا ان سے زیادہ خطرناک نہیں۔ تب اچھل کر اس نے ایک بےپروا تتلی پکڑی۔ غور سے اسے دیکھا پھر آزاد کرتے ہوئے بولا، ’’شکریہ دوست تمہارا بہت بہت شکریہ۔ تم نے مجھے بے خوفی سے جینا سکھایا ہے۔ پھر تم سے ملاقات ہو نہ ہو تم ہرگز نہ بھلائے جاؤگے۔‘‘

’’تم بھی۔‘‘ چرواہے نے دعائیہ انداز میں ہاتھ اٹھائے، ’’جاؤ آسمان تمہاری مدد کرے۔‘‘ اس نے جھک کر چرواہے کے ہاتھ چومے مگر سر اٹھاکر آسمان کو نہیں دیکھا بلکہ دنیا کے زخموں کو خود میں بسائے اجنبی انجان کھائی میں اتر گیا۔ زندگی کو ازسرنو جینے کے لیے۔

مصنف:آمنہ ابوالحسن

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here