وہ گھر، جو گویا ملک کا پڑپوتا تھا۔ صوبے کے بیٹے شہر کے چھوکرے محلہ کا لڑکا۔۔۔ وہ بہت بڑا تھا۔ یہ نہ میرا گھر تھا نہ میرے باپ کا۔ بلکہ ایک سیٹھ کا مکان تھا، اس میں بہت سے کمرے تھے جس طرح مکڑی کے جالے میں بہت سے خانے ہوتے ہیں، بہت سے لوگ مکھیوں کی طرح ان کمروں میں رہتے تھے۔ ایک منزل دوسری منزل کے اوپر اس طرح چڑھتی چلی گئی تھی جس طرح ایک آسمان دوسرے آسمان پر رکھا ہو اور چوتھی منزل پر وہ سیٹھ عیسیٰ مسیح کی طرح رہا کرتا تھا۔
یہ گھر بین القومیت کا چھوٹا سا نمونہ تھا۔ وہ انقلابیوں اور صوفیوں کے خواب کی تعبیر تھا۔ اس میں ہندو، مسلمان، غریب امیر سب رہتے تھے، صدر پھاٹک کے نیچے کے سائبان میں قلی اور فقیر دربان کو ایک ایک پیسہ دے کر سوتے تھے۔ آنگن میں گاڑی بان تاڑی پیتے، جوا کھیلتے اور قوالی گاتے تھے۔ سیڑھی سے چرھتے تو بائیں بازو پر حجاموں کی ٹولی تھی، اس کے مقابل بھٹیاروں کی دکانیں، ادنیٰ طبقہ کی آبادی یہاں ختم ہو جاتی تھی، اوپر کی منزل میں دفتر کے کلرک اور چھوٹے چھوٹے دکان دار رہتے تھے۔ ایک کمرے میں کوئی بین کھاتہ بناتا تھا تو اوپر کوئی کھڑاؤں رنگتا تھا، کہیں کوئی تالوں کی مرمت کا کام کرتا تھا۔ انہیں میں سے ایک کمرے میں میرا گھر تھا۔
جب میں رات کو تھکا ماندہ آتا اور اپنے بستر پر دراز ہو جاتا تھا تو میرے خیر مقدم میں ہر طرف ریڈیو، ہارمونیم اور گراموفون بجنے لگنے تھے۔ یہ سب باہم متفق ہو کر اونچے سروں میں قوالی گاتے تھے اور ان سب کو شہہ دینے کے لئے سامنے کے گھر سے مارواڑی عورتیں’’ہمیرراڑان جگ جبڑوں‘‘ کا ترانہ الاپنے لگتی تھیں۔ ہمارے مکان کے آئین میں کچھ کابلی سود خوار بھی رہتے تھے۔ جو رات کے وقت بآواز بلند عالم خاں کے گیت گایا کرتے تھے۔ ان سب کو دباکر گاڑی بانوں کی فلک شگاف صدا ’’کالی کملی والا‘‘ ڈونگڑے کی طرح برس پڑتی تھی۔ میرا دماغ نغموں کے اس سیلاب میں بہہ جاتا تھا۔ اس کا ایک حصہ دھرپد کے ساتھہ ناچنے لگتا تھا تو دوسرا کھماچ پر سر دھنتا تھا اور جب بازو کی مسجد کا موذن ببانگ دہل خدا کے واحد و اکبر ہونے کا اعلان کرتا تو میرا جی بےاختیار مچل اٹھتا کہ فرش پر سر دے ماروں اور اپنے پیدا کرنے والے کی خدمت میں شکریہ کا مخلصانہ ہدیہ پیش کر دوں۔
جب میری پلکیں آپ اپنے بوجھ کے نیچے دب کر بند ہو جاتی تھیں تو گویا میں سو جاتا تھا۔ تاہم عالم خواب میں میں اکثر اپنے کو پیار و قوال سے کشتی لڑتے ہوئے پاتا اور اس مڈبھیڑ کا نتیجہ ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ میں کسی موٹر کے نیچے دب کر مر جاتا تھا۔
گلے سے چیخ کا نکلنا، آنکھوں کا کھٹ سے کھل جانا، سورج کی کرن کا جھک کر سلام کرنا!
میں ہڑبڑاکر برآمدے کی طرف بھاگتا تھا، صبح صبح رنگریز نے آنگن میں بھٹی چڑھا دی ہے جس کا دھواں عزرائیل کے سانس کی طرح زہرآلود ہے۔ ہر جاندار اپنی اپنی بولی میں حمد گا رہا ہے۔ کتا بھونک رہا ہے، گدھا رینک رہا ہے، گرجا گھر کا گھنٹہ ٹناٹن بج رہا ہے۔
بیت الخلا کے آگے حاجت مند کا انبوہ، غسل خانے کے آگے نہانے والوں کی قطار، کالے کالے، توندل جسموں کی بھیڑ بھانت بھانت کے پسینوں کا آپس میں مل کر طرح طرح کی کھنکھاروں کے ساتھ میل کے تودوں میں مل کر نہانے کی چوکیوں پر جمع ہو جانا۔
جمعہ کا دن خاص طور پر قیامت کی ریہرسل بن کر آتا تھا، آج مالک مکان فقیروں کو ایک دھیلا بانٹتا تھا۔ کوڑوں کی آواز۔۔۔ دربان فقیروں کو ایک قطار میں کھڑا کر رہے ہیں۔ دعاؤں کی آواز۔۔۔ فقیر ایک دھیلا لے کر انہیں دعائیں دے رہے ہیں! جوان بھکارنیوں کا شور۔۔۔ دربان انہیں ستا رہے ہیں۔
میں جو کاہلی اور آلکسی میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا، ان تمام مصائب کے باوجود اس ماحول میں ایک لذت محسوس کرنے لگا تھا۔ انسان کو سڑ سڑ کر مرتے ہوئے اور بوقت نزع سورۂ یٰسین سنتے ہوئے دیکھنے میں نہ جانے آپ کو لطف آتا ہے یا نہیں۔ میرے لئے تو اس صورت حال میں بڑی کشش تھی اور اسی وجہ سے میں وہاں سے ٹلنے کا نام نہ لیتا تھا۔
مگر میرے قدیم نیاز مند پٹواڑی اور مقامی بھٹیارے کو سخت حیرت اور تشویش ہوئی جب ایک روز انہوں نے ایک چھکڑے پر مجھے اپنے مختصر سامان کے ساتھ سوار پایا یہ نظارہ ان کے وہم و گمان میں بھی ان کی آنکھوں میں نہ سما سکتا تھا۔ لیکن پچھلے دن ایک ساتھ دو ایسے حادثے پیش آئے جنہوں نے میری روح کو چونکا دیا۔ یہ واقعہ ہے کہ اس روز پہلی مرتبہ مجھے اپنی روح کے وجود کا احساس ہوا۔ یہ بے چاری اب تک میرے معدے میں سو ہضم کی وجہ سے سوئی ہوئی تھی۔
جاڑے کے دن تھے اور صبح کا وقت۔ میں کپڑے پہن کر۔۔۔ اور بعد ازاں دفتر اور سر راہ گپ شپ کے ارادے سے پھاٹک سے نکلنا ہی چاہتا تھا کہ میری نظرچبوترے کے کونے پر پڑی چادر میں لپٹا ہوا کوئی انسان بہت ہی دھیمی آواز میں کراہ رہا تھا۔ میں ٹھٹک گیا کیونکہ یہ ایک بوڑھی عورت کا جسم تھا جو اس انتہائی بےبسی میں دم توڑ رہی تھی۔ پیپ اور تھوک میں سنی ہوئی یہ نیم جاں لاش پانی کے ایک قطرے کے لئے تڑپ رہی تھی۔ اس سے چار قدم کے فاصلے پر دربان ایک حجام سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا۔ آنے جانے والوں کا تانتا لگا ہوا تھا۔ سب اس بڑھیا کو ایک نظر دیکھتے اور گھن کے مارے اپنی داڑھیوں کو رومال میں چھپا کر اپنی راہ چلے جاتے تھے۔
میں عفونت میں لتھڑی ہوئی اس چٹائی پر بیٹھ گیا۔ ایک لمحہ کے اندر میں نے انسانیت کی تاریخ کا پورا مرقع دیکھا۔ اس بوڑھی عورت کی طرح قسمت کی لکڑی ہاتھ میں لئے اور مظلومیت کی پٹی آنکھ پر باندھے یہ مجروح اور شکستہ پا انسانیت زندگی کے راستے پر ’’پانی پانی‘‘ پکارتی ہوئی پڑی تھی۔ بادشاہ اور عالموں کا جلوس زرق برق کفنوں میں لپٹا ہوا اس کی طرف حقارت سے گھورتا اور گویا اپنے چہرے کے جذام کو اخلاق کے رومال میں چھپا کر دوسری طرف دیکھے ہوئے گزر رہا تھا۔
اسی دن کا ذکر ہے دل بہلانے کے لئے میں ہوٹل سے سیدھا تھیٹر چلا گیا۔ جب لوٹا تو رات کے دو بج چکے تھے۔ ہر طرف سناٹا تھا۔ ہمارے گھر کے آنگن اور دالان میں غریب خراٹے بھر رہے تھے۔ بیچ بیچ میں کتے اپنی کرخت آواز میں آسمان اور زمین والوں کے تعلق پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر پھر چپ ہو جاتے تھے۔
میں سیڑھی پر چڑھ ہی رہا تھا کہ نیچے کی ایک چھپی ہوئی کوٹھری سے کئی مردوں کی بھنبھناہٹ اور ایک عورت کی دبی ہوئی چیخ سنائی دی۔ میں کھٹکا، دبے پاؤں نیچے اترا اور اس کوٹھری کے دروازے کے قریب جا کر ایک پٹ کی دراز سے اندر جھانکنے لگا۔ دروازہ بند تھا، بجلی کی روشنی گل کر کے ایک موم بتی جلا دی گئی تھی۔
اس کی مدھم جوت میں میں نے جو کچھ دیکھا وہ بہت اندوہناک تھا۔ ایک ننگی عورت کسی مرد کے ساتھ کھاٹ پر پڑی ہوئی تھی اور کئی مرد حریص گدھوں کی طرح یہ تماشا دیکھ رہے تھے اور اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ عورت کبھی درد کی شدت سے چیخ اٹھتی تھی اور کبھی محظوظ ہو کر قہقہہ لگاتی تھی۔
اس شب کو میں نے خواب دیکھا کہ دنیا عورت ہے، روپیہ مرد ہے اور یہ مرد اس عورت سے زبردستی زنا کر رہا ہے۔
صبح میں نے اپنی گرد آلود کتابوں، ٹوٹے ہوئے برتنوں اور پھٹے ہوئے کپڑوں کو ایک گاڑی پر لادا اور آکر اس جھونپڑی میں رہنے لگا جو زندگی کے شور و شر سے بہت دور اور قبر سے زیادہ ساکن ہے!
مأخذ : محبت اور نفرت
مصنف:اختر حسین رائے پوری